• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کعبہ کو حبشہ کا پتلی پنڈلیوں والا بادشاہ ویران کرے گا۔
2032: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کعبہ کو حبشہ کا چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک شخص خراب کرے گا (مراد ابی سینیا کے کافر ہیں جو نصاریٰ ہیں یا وسط حبش کے بت پرست آخر زمانہ میں ان کا غلبہ ہو گا اور جب مسلمان دنیا سے اٹھ جائیں گے ، تو یہ مردود حبشی ایسا کام کرے گا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عراق کے اپنے درہم روک لینے کے متعلق۔
2033: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عراق کا ملک اپنے درہم اور قفیز کو روکے گا، شام کا ملک اپنے مدی اور دینار کو روکے گا اور مصر کا ملک اپنے اردب اور دینار کو روکے گا اور تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے پہلے تھے اور تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے پہلے تھے ، اور تم ایسے ہو جاؤ گے جیسے پہلے تھے۔ پھر سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ اس حدیث پر ابو ہریرہؓ کا گوشت اور خون گواہی دیتا ہے (یعنی اس میں کچھ شک نہیں)۔

2034: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قحط یہ نہیں ہے کہ بارش نہ برسے ، بلکہ قحط یہ ہے کہ بارش برسے اور خوب برسے لیکن زمین سے کچھ نہ اُگے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : امانت اور ایمان کے دلوں سے اٹھا لئے جانے کے متعلق۔
2035: سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے (امانت کے باب میں) دو حدیثیں بیان کیں۔ ایک کو تو میں دیکھ چکا اور دوسری (کے پورا ہونے ) کا منتظر ہوں۔ (پہلی حدیث یہ ہے کہ) آپﷺ نے ہم سے بیان کیا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ پر اتری۔ پھر قرآن نازل ہوا، پس انہوں نے قرآن کو حاصل کیا اور حدیث کو حاصل کیا۔ پھر آپﷺ نے ہم سے (دوسری) حدیث بیان فرمائی کہ امانت اٹھ جائے گی۔ تو فرمایا کہ ایک شخص تھوڑی دیر سوئے گا، پھر اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا نشان ایک پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا۔ پھر ایک نیند کرے گا تو امانت دل سے اٹھ جائے گی اور اس کا نشان ایک چھالے کی طرح رہ جائے گا جیسے تو ایک انگارہ اپنے پاؤں پر لڑھکا دے ، پھر کھال پھول کر ایک چھالہ (آبلہ) نکل آئے کہ تم اس کو بلند ابھرا ہوا دیکھتے ہو مگر اس میں کچھ نہیں۔ پھر آپ نے ایک کنکری لے کر اپنے پاؤں پر لڑھکائی اور فرمایا کہ لوگ خرید و فروخت کریں گے اور ان میں سے کوئی ایسا نہ ہو گا جو امانت کو ادا کرے ، یہاں تک کہ لوگ کہیں گے کہ فلاں قوم میں ایک شخص امانت دار ہے اور یہاں تک کہ ایک شخص کو کہیں گے وہ کیسا ہوشیار ، خوش مزاج اور عقلمند ہے (یعنی اس کی تعریف کریں گے ) اور اس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہ ہو گا۔ پھر سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ میرے اوپر ایک دور گزر چکا ہے جب میں بغیر کسی ڈر کے ہر ایک سے معاملہ (یعنی لین دین) کرتا تھا، اس لئے کہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا دین اس کو بے ایمانی سے باز رکھتا اور جو نصرانی یا یہودی ہوتا تو حاکم اس کو بے ایمانی سے باز رکھتا تھا لیکن آج کے دن تو میں تم لوگوں سے کبھی معاملہ نہ کروں گا، البتہ فلاں اور فلاں شخص سے (معاملہ) کروں گا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : آخر زمانہ میں خلیفہ (مہدی) آئے گا، جو مال کی لپیں بھر بھر کر دے گا۔
2036: سیدنا ابو نضرہ سے روایت ہے کہ ہم سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کے پاس تھے کہ انہوں نے کہا کہ قریب ہے کہ عراق والوں کے قفیز اور درہم نہیں آئیں گے۔ ہم نے کہا کہ کس سبب سے ؟ انہوں نے کہا کہ عجم کے لوگ اس کو روک لیں گے۔ پھر کہا کہ قریب ہے کہ شام والوں کے پاس دینار اور مدی نہ آئیں (مدی ایک پیمانہ ہے اسی طرح قفیز) ہم نے کہا کہ کس سبب سے ؟ انہوں نے کہا کہ روم والے لوگ روک لیں گے۔ پھر تھوڑی دیر چپ رہے ، اس کے بعد کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اخیر امت میں ایک خلیفہ ہو گا، جو لپیں بھر بھر کر مال دے گا (یعنی روپیہ اور اشرفیاں لوگوں کو) اور اس کو شمار نہ کرے گا۔ جریر نے کہا کہ میں نے ابو نضرہ اور ابو علاء سے پوچھا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ (یہ مہدی ہیں جو امت کے اخیر زمانہ میں پیدا ہوں گے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تو شروع میں تھے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (قیامت کی) وہ نشانیاں جو قیامت سے پہلے آئیں گی۔
2037: سیدنا حذیفہ بن اسید غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس آئے اور ہم باتیں کر رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو؟ ہم نے کہا کہ قیامت کا ذکر کرتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔ پھر ذکر کیا دھوئیں کا، دجال کا، زمین کے جانور کا، سورج کے مغرب سے نکلنے کا، عیسیٰؑ کے اترنے کا، یاجوج ماجوج کے نکلنے کا، تین جگہ خسف کا یعنی زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں، دوسرے مغرب میں، تیسرے جزیرۂ عرب میں۔ اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی (محشر شام کی زمین ہے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اندھیری رات کی طرح (سخت) فتنوں سے پہلے ، (نیک) اعمال میں جلدی کرو۔
2038: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جلدی جلدی نیک کام کر لو، ان فتنوں سے پہلے جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے۔ صبح کو آدمی ایماندار ہو گا اور شام کو کافر۔ یا شام کو ایمان دار ہو گا اور صبح کو کافر ہو گا اور اپنے دین کو دنیا کے مال کے بدلے بیچ ڈالے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : چھ چیزوں سے پہلے (نیک) اعمال میں جلدی کرو۔
2039: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نیک اعمال کے کرنے میں چھ چیزوں سے پہلے جلدی کرو۔ ایک دجال، دوسرے دھواں، تیسرے زمین کا جانور، چوتھے سورج کا مغرب سے نکلنا، پانچویں قیامت اور چھٹے موت۔ (یعنی جب یہ باتیں آ جائیں گی تو نیک اعمال کا قابو جاتا رہے گا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : خونریزی کے دَور میں عبادت کرنا۔
2040: سیدنا معقل بن یسارؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فساد اور فتنے کے وقت عبادت کرنے کا اتنا ثواب ہے جیسے میرے پاس ہجرت کرنے کا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ابن صیاد کے قصہ کے بارے میں۔
2041: سیدنا ابو سعیدخدریؓ سے روایت ہے کہ ہم حج یا عمرہ کو نکلے اور ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا۔ ایک منزل میں ہم اترے ، لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور میں اور ابن صائد دونوں رہ گئے۔ مجھے اس وجہ سے اس سے سخت وحشت ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں جو کہا کرتے تھے (کہ دجال ہے ) ابن صائد اپنا اسباب لے کر آیا اور میرے اسباب کے ساتھ رکھ دیا (مجھے اور زیادہ وحشت ہوئی) میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اگر تو اپنا اسباب اس درخت کے نیچے رکھے تو بہتر ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر ہمیں بکریاں دکھلائی دیں۔ ابن صائد گیا اور دودھ لے کر آیا اور کہنے لگا کہ ابو سعید! دودھ پی۔ میں نے کہا کہ گرمی بہت ہے اور دودھ گرم ہے اور دودھ نہ پینے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہ تھی کہ مجھے اس کے ہاتھ سے پینا بُرا معلوم ہوا۔ ابن صائد نے کہا کہ اے ابو سعید! میں نے قصد کیا ہے کہ ایک رسی لوں اور درخت میں لٹکا کر اپنے آپ کو پھانسی دے لوں ان باتوں کی وجہ سے جو لوگ میرے حق میں کہتے ہیں۔ اے ابو سعید! رسول اللہﷺ کی حدیث اتنی کس سے پوشیدہ ہے جتنی تم انصار کے لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ کیا تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہﷺ کی حدیث کو نہیں جانتے ؟ کیا آپﷺ نے نہیں فرمایا کہ دجال کافر ہو گا اور میں تو مسلمان ہوں۔ آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال لا ولد ہو گا اور میری اولاد مدینہ میں موجود ہے۔ کیا آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مدینہ میں اور مکہ میں نہ جائے گا اور میں مدینہ سے آ رہا ہوں اور مکہ کو جا رہا ہوں؟ سیدنا ابو سعیدؓ نے کہا کہ (اس کی ایسی باتوں کی وجہ سے ) قریب تھا کہ میں اس کا طرفدار بن جاؤں (اور لوگوں کا اس کے بارے میں کہنا غلط سمجھوں) کہ پھر کہنے لگا البتہ اللہ کی قسم! میں دجال کو پہچانتا ہوں اور اس کے پیدائش کا مقام جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اب وہ کہاں ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ خرابی ہو تیری سارا دن (یعنی یہ تو نے کیا کہا کہ پھر مجھے تیری نسبت شبہ ہو گیا)۔

2042: سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ جنت کی مٹی کیسی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ سفید خالص، مشک کی طرح خوشبودار۔

2043: محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کو (اس پر) قسم کھاتے ہوئے دیکھا کہ ابن صائد دجال ہے۔ میں نے کہا کہ تم اللہ کی قسم کھاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمرؓ کو دیکھا کہ وہ اس بات پر رسول اللہﷺ کے سامنے قسم کھاتے ہوئے سنا اور آپﷺ نے اس کا انکار نہ کیا۔

2044: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمرؓ رسول اللہﷺ کے ساتھ چند لوگوں میں ابن صیاد کے پاس گئے حتی کہ اسے بنی مغالہ کے قلعے کے پاس لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اس کو خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ رسول اللہﷺ نے اس کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ مارا۔ پھر آپﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپﷺ کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اُمییّن کے رسول ہو (اُمّی کہتے ہیں ان پڑھ اور بے تعلیم کو)۔ پھر ابن صیاد نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ رسول اللہﷺ نے اس بات کا کچھ جواب نہ دیا؟ (اور اس سے مسلمان ہونے کی درخواست نہ کی کیونکہ آپﷺ اس کے مسلمان ہونے سے مایوس ہو گئے اور ایک روایت میں صاد مہملہ سے یعنی آپﷺ نے اس کو لات سے مارا) اور فرمایا کہ میں اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ پھر رسول اللہﷺ نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے ؟ وہ بولا کہ میرے پاس کبھی سچا آتا ہے اور کبھی جھوٹا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تیرا کام گڑبڑ ہو گیا (یعنی مخلوط حق و باطل دونوں سے ) پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے پوچھنے کے لئے ایک بات دل میں چھپائی ہے۔ ابن صیاد نے کہا کہ وہ دُخ (دھواں) ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ذلیل ہو، تو اپنی قدر سے کہاں بڑھ سکتا ہے ؟ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے چھوڑئیے میں اس کی گردن مارتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ وہی (یعنی دجال) ہے تو تو اس کو مار نہ سکے گا اور اگر یہ وہ (دجال) نہیں ہے تو تجھے اس کا مارنا بہتر نہیں ہے۔ سیدنا سالم بن عبد اللہؓ نے کہا کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے سنا کہ اس کے بعد رسول اللہﷺ اور سیدنا ابن ابی بن کعبؓ اس باغ میں گئے جہاں ابن صیاد رہتا تھا۔ جب آپﷺ باغ میں گھسے تو کھجور کے درختوں کی آڑ میں چھپنے لگے تاکہ آپﷺ ابن صیاد کو دھوکہ دے کر اور اس کی کچھ باتیں سن سکیں۔ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپﷺ کو دیکھے ، رسول اللہﷺ نے ابن صیاد کو دیکھا کہ وہ ایک بچھونے پر لیٹا ہوا تھا اور کچھ نافہم باتیں گنگنا رہا تھا۔آپﷺ کھجور کے درختوں میں چھپ رہے تھے کہ اس کی ماں نے آپﷺ کو دیکھ کر اسے پکارا کہ اے صاف! (اور صاف ابن صیاد کا نام تھا)۔ یہ محمدﷺ آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی ابن صیاد اٹھ کھڑا ہوا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ اس کو ایسا ہی رہنے دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا (تو ہم اس کی باتیں سنتے تو معلوم کرتے کہ وہ کاہن ہے یا ساحر)۔ سالم نے کہا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جیسے اس کو لائق ہے ، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو، یہاں تک کہ نوحؑ نے بھی (جن کا دَور بہت پہلے تھا) اپنی قوم کو اس سے ڈرایا۔ لیکن میں تم کو ایسی بات بتلائے دیتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتلائی، تم جان لو کہ وہ کانا ہو گا اور تمہارا اللہ برکت والا بلند، کانا نہیں ہے۔ (معاذ اللہ کانا پن ایک عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ایک عیب سے پاک ہے ) ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے عمر بن ثابت انصاری نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہﷺ کے بعض اصحابؓ نے بیان کیا کہ جس روز رسول اللہﷺ نے لوگوں کو دجال سے ڈرایا تھا، یہ بھی فرمایا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا (یعنی حقیقتاً کا۔ ف۔ر۔ یہ حروف لکھے ہوں گے یا اس کے چہرے سے کفر اور شرارت نمایاں ہو گی) جس کو ہر وہ شخص پڑھ لے گا جو اس کے کاموں کو بُرا جانے گا یا اس کو ہر ایک مومن پڑھ لے گا اور آپﷺ نے فرمایا کہ تم یہ جان رکھو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو مرنے سے پہلے ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔

2045: نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمرؓ کہتے تھے کہ میں ابن صیاد سے دو بار ملا ہوں۔ ایک بار ملا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ تم کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے ؟۔ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! تم نے مجھے جھوٹا کیا۔ تم میں سے بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ نہیں مرے گا، یہاں تک کہ تم سب میں زیادہ مالدار اور صاحبِ اولاد ہو گا، تو وہ آج کے دن ایسا ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں پھر ابن صیاد نے ہم سے باتیں کیں۔ پھر میں ابن صیاد سے جدا ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب دوبارہ ملا تو اس کی آنکھ پھولی ہوئی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ تیری آنکھ کب سے ایسے ہے جو میں دیکھ رہا ہوں؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے کہا کہ آنکھ تیرے سر میں ہے اور تجھے معلوم نہیں؟ وہ بولا کہ اگر اللہ چاہے تو تیری اس لکڑی میں آنکھ پیدا کر دے۔ پھر ایسی آواز نکالی جیسے گدھا زور سے کرتا ہے۔ نافع نے کہا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر اُمّ المؤمنین (حفصہ رضی اللہ عنہا) کے پاس گئے اور ان سے یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن صیاد سے تیرا کیا کام تھا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اوّل چیز جو دجال کو لوگوں پر بھیجے گی، وہ اس کا غصہ ہے (یعنی غصہ اس کو نکالے گا)۔

2046: سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں خوب جانتا ہوں کہ دجال کے ساتھ کیا ہو گا؟ اس کے ساتھ بہتی ہوئی دو نہریں ہوں گی، ایک تو دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہو گی اور دوسری دیکھنے میں بھڑکتی ہوئی آگ معلوم ہو گی۔پھر جو کوئی یہ موقع پائے ، وہ اس نہر میں چلا جائے جو دیکھنے میں آگ معلوم ہوتی ہے اور اپنی آنکھ بند کر لے اور سر جھکا کر اس میں سے پئے ، وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور دجال کی ایک آنکھ بالکل چٹ ہو گی اس پر ایک موٹی پھُلی ہو گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں کافر لکھا ہو گا جس کو ہر مومن پڑھ لے گا خواہ وہ لکھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔

2047: سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دجال بائیں آنکھ کا کانا ہو گا، گھنے بالوں والا ہو گا۔ اس کے ساتھ باغ ہو گا اور آگ ہو گی۔ پس اس کی آگ تو باغ ہے اور اس کا باغ آگ ہے۔ (علماء نے کہا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لئے ایک آزمائش ہے تاکہ حق کو حق کر دے اور جھوٹ کو جھوٹ پھر اس کو رسوا کرے اور لوگوں میں اس کی عاجزی ظاہر کرے )۔

2048: نواس بن سمعانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے )، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال کھجور کے درختوں کے جھنڈ میں ہے۔ پھر جب شام کے وقت ہم آپﷺ کے پاس گئے تو آپﷺ نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہو گیا کہ دجال ان کھجور کے درختوں میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے )۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے دجال کے سوا اور باتوں کا تم پر خوف زیادہ ہے (یعنی فتنوں کا اور آپس کی لڑائیوں کا)، اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کا مقابل ہوں گا (اس سے لڑائی کروں گا) اور تمہیں اسکے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مردِ (مسلمان) اپنی طرف سے اس سے مقابلہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ اور نگہبان ہو گا۔ البتہ دجال تو جوان، گھونگھریالے بالوں والا ہے ، اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ دیتا ہوں۔ پس تم میں سے جو شخص دجال کو پائے ، اس کو چاہئیے کہ سورۂ کہف کی شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ یقیناً وہ شام اور عراق کے درمیان کی راہ سے نکلے گا تو اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔ صحابہؓ بولے کہ یا رسول اللہﷺ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس دن تک، ان میں سے ایک دن ایک سال کے برابر ہو گا، ایک دن ایک مہینے کے برابر، ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے اور چودہ دن تک رہے گا)۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا، اس دن ہمیں ایک ہی دن کی نمازیں کفایت کرے گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں، تم اس دن میں (سال کی نمازوں کا) (اب تو گھڑیاں بھی موجود ہیں ان سے وقت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ نووی رحمۃاللہ علیہ نے کہا کہ اگر آپﷺ یوں صاف نہ فرماتے تو قیاس یہ تھا کہ اس دن صرف پانچ نمازیں پڑھنا کافی ہوتیں، کیونکہ ہر دن رات میں خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو، اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں مگر یہ قیاس نص سے ترک کیا گیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ عرض تسعین میں، جو کہ خطِ استوا سے نوے درجہ پر واقع ہے اور جہاں کا افق معدل النہار ہے ، چھے مہینے کا دن اور چھے مہینے کی رات ہوتی ہے تو ایک دن رات سال بھر کا ہوتا ہے ، پس اگر بالفرض انسان وہاں پہنچ جائے اور زندہ رہے تو سال میں پانچ نمازیں پڑھنا ہوں گی)۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس کی چال زمین میں کیسی ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس بادل کی طرح جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے۔ پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور ان کو دعوت دے گا،وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے۔پس وہ آسمان کو حکم کرے گا تو وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا تو وہ گھاس اور اناج اگا دے گی۔ شام کو ان کے جانور آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے زیادہ لمبے ہوں گے ، تھن کشادہ ہوں گے اور کوکھیں تنی ہوئی (یعنی خوب موٹی ہو کر)۔ پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی دعوت دے گا، لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا اور ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں سے کچھ نہ رہے گا۔ اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا کہ اے زمین! اپنے خزانے نکال، تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس ایسے جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں سردار مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار مار کر دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسے نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے ، پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا، پس وہ جوان دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا سامنے آئے گا۔ سو دجال اسی حال میں ہو گا کہ اچانک اللہ تعالیٰ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا۔ عیسیٰؑ دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف سفید مینار کے پاس اتریں گے ، وہ زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔ جب عیسیٰؑ اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر تک عیسیٰؑ کے دم کی خوشبو پہنچے گی، وہ مر جائے گا اور ان کے دَم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسیٰؑ دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ اس کو بابِ لُد (نامی پہاڑ جو کہ شام میں ہے ) پر موجود پا کر اس کو قتل کر دیں گے۔ پھر عیسیٰؑ کے پاس وہ لوگ آئیں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے دجال کے شر سے بچایا ہو گا۔ پس وہ شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو ان درجوں کی خبر دیں گے جو جنت میں ان کے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰؑ پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں، تم میرے مسلمان بندوں کو طُور (پہاڑ) کی طرف پناہ میں لے جاؤ اور اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر ایک اونچان سے نکل پڑیں گے۔ ان کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور اس کا سارا پانی پی لیں گے۔ پھر ان میں سے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کہ کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ (پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے کہ البتہ ہم زمین والوں کو تو قتل کر چکے ، اب آؤ آسمان والوں کو قتل کریں تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا، وہ یہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے بلکہ اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے ) اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر عیسیٰؑ اور ان کے اصحاب بند رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر تمہاری آج کی سو اشرفی سے افضل ہو گا (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی)۔ پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی دعا کریں گے ، پس اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا تو ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی زمین پر اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان کی سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی)پھر اللہ کے رسول عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر پرندے بھیجے گا، وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور وہاں پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بنا کر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی، یہاں تک کہ دودھ والی اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دودھ والی گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دودھ والی بکری ایک پورے خاندان کو کفایت کرے گی۔ پس لوگ اسی حالت میں ہوں گے کہ یکایک اللہ تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا، وہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی تو ہر مومن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور بُرے بد ذات لوگ باقی رہ جائیں گے ، گدھوں کی طرح سر عام عورتوں سے جماع کریں گے اور ان پر قیامت قائم ہو گی۔

2049: سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے دجال کے ذکر میں ایک لمبی حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی بیان کیا کہ اس پر مدینہ کی گھاٹی میں گھسنا حرام ہو گا اور وہ مدینہ کے قریب ایک پتھریلی زمین پر آئے گا۔ پھر اس کے پاس ایک شخص جائے گا جو سب لوگوں میں بہتر ہو گا، وہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کا ذکر جناب رسول اللہﷺ نے اپنی حدیث میں کیا ہے۔ دجال لوگوں سے کہے گا کہ بھلا اگر میں اس کو مار ڈالوں، پھر زندہ کر دوں تو کیا تمہیں اس بارے میں کچھ شک رہے گا؟ وہ کہیں گے کہ نہیں۔ دجال اس شخص کو قتل کرے گا اور پھر اس کو زندہ کر دے گا۔ پس جب وہ اس کو زندہ کرے گا تو کہے گا کہ اللہ کی قسم! مجھے پہلے تیرے بارے میں اتنا یقین نہ تھا جتنا اب ہے۔ (یعنی اب تو یقین ہو گیا کہ تو دجال ہے ) پھر دجال اس کو قتل کرنا چاہے گا لیکن قتل نہ کر سکے گا۔ راوی ابو اسحٰق نے کہا کہ یہ آدمی خضرؑ ہیں۔ (لیکن یہ ثابت نہیں ہے بلکہ دلائل اس پر شاہد ہیں کہ خضرؑ وفات پا چکے ہیں)۔

2050: سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دجال نکلے گا اور مسلمانوں میں سے ایک شخص اس کی طرف چلے گا تو راستے میں اس کو دجال کے ہتھیار بند لوگ ملیں گے۔ وہ اس سے پوچھیں گے کہ تو کہاں جاتا ہے ؟ وہ بولے گا کہ میں اسی شخص کے پاس جاتا ہوں جو نکلا ہے۔ وہ کہیں گے کہ تو کیا ہمارے مالک پر ایمان نہیں لایا؟ وہ کہے گا کہ ہمارا مالک چھپا نہیں ہے۔ دجال کے لوگ کہیں گے کہ اس کو مار ڈالو۔ پھر آپس میں کہیں گے کہ ہمارے مالک نے تو کسی کو مارنے سے منع کیا ہے جب تک اس کے سامنے نہ لے جائیں، پھر اس کو دجال کے پاس لے جائیں گے۔ جب وہ دجال کو دیکھے گا تو کہے گا جہ اے لوگو! یہ وہی دجال ہے جس کی خبر رسول اللہﷺ نے دی تھی۔ دجال اپنے لوگوں کو حکم دے گا تو اس کے سر اور پیٹھ اور پیٹ پر مارا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا کہ اس کو پکڑو اور اس کا سر پھوڑ دو۔ پھر دجال اس سے پوچھے گا کہ تو میرے اوپر (یعنی میری خدائی پر) یقین نہیں کرتا؟ وہ کہے گا کہ تو جھوٹا مسیح ہے۔ پھر دجال حکم دے گا تو وہ آرے سے سر سے لے کر دونوں پاؤں تک چیرا جائے گا، یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو جائے گا۔ پھر دجال ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ میں جائے گا اور کہے گا کہ اٹھ کھڑا ہو۔ وہ شخص (زندہ ہو کر سیدھا) اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا۔ پھر اس سے پوچھے گا کہ اب تو میرے اوپر ایمان لایا؟ وہ کہے گا کہ مجھے تو اور زیادہ یقین ہوا کہ تو دجال ہے۔ پھر لوگوں سے کہے گا کہ اے لوگو! اب دجال میرے سوا کسی اور سے یہ کام نہ کر سکے گا (یعنی اب کسی کو جِلا نہیں سکتا)۔ پھر دجال اس کو ذبح کرنے کے لئے پکڑے گا تو اس کے گلے سے لے کر ہنسلی تک تانبے کا بَن جائے گا اور وہ اسے ذبح نہ کر سکے گا، پھر اس کے ہاتھ پاؤں پکڑ کر پھینک دے گا۔ لوگ سمجھیں گے کہ اس کو آگ میں پھینک دیا حالانکہ وہ جنت میں ڈالا جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ شخص سب لوگوں میں اللہ رب العالمین کے نزدیک بڑا شہید ہے۔

2051: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے کسی نے دجال کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا میں نے پوچھا۔ حتی کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تو کیوں فکر کرتا ہے ؟ دجال تجھے نقصان نہ پہنچائے گا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ کھانا ہو گا اور نہریں ہوں گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ پر تو اس سے زیادہ آسان ہے (اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بھی زیادہ اختیار دے سکتا ہے اس پر کیا مشکل ہے ، یعنی جو اس کے پاس ہو گا وہ اس سے مومنوں کو گمراہ نہ کر سکے گا)۔

2052: سیدنا نعمان بن سالم کہتے ہیں کہ میں نے یعقوب بن عاصم بن عروہ بن مسعود ثقفی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے عبد اللہ بن عمروؓ سے سنا، اور ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یہ حدیث کیا ہے جو تم بیان کرتے ہو کہ قیامت اتنی مدت میں ہو گی۔ انہوں نے (تعجب سے ) کہا کہ سبحان اللّٰہ یا لا الٰہ الا اللّٰہ یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا اور پھر کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ اب میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کروں (کیونکہ لوگ کچھ کہتے ہیں اور مجھے بدنام کرتے ہیں)۔ میں نے تو یہ کہا تھا کہ تم تھوڑے دنوں کے بعد ایک بڑا حادثہ دیکھو گے جو گھر کو جلائے گا اور وہ ضرور ہو گا۔ پھر کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔ میں نہیں جانتا کہ چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس برس۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھیجے گا اور ان کی شکل و صورت عروہ بن مسعود کی سی ہے۔ وہ دجال کو ڈھونڈھیں گے اور اس کو قتل کریں گے پھر سات برس تک لوگ ایسے رہیں گے کہ دو آدمیوں میں کوئی دشمنی نہ ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا تو زمین پر کوئی ایسا نہ رہے گا جس کے دل میں رتی برابر ایمان یا بھلائی ہو مگر یہ ہوا اس کی جان نکال لے گی، یہاں تک کہ اگر کوئی تم میں سے پہاڑ کے کلیجہ میں گھس جائے تو وہاں بھی یہ ہوا پہنچ کر اس کی جان نکال لے گی۔ سیدنا عبد اللہؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ پھر بُرے لوگ دنیا میں رہ جائیں گے ، چڑیوں کی طرح جلد باز یا بے عقل اور درندوں کی طرح ان کے اخلاق ہوں گے۔ نہ وہ اچھی بات کو اچھا سمجھیں گے اور نہ بُری بات کو بُرا۔ پھر شیطان ایک صورت بنا کر ان کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ کیا تم میری بات کو قبول نہیں کرتے ؟ وہ کہیں گے کہ پھر تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے ؟ شیطان کہے گا کہ بت پرستی کرو۔ وہ بت پوجیں گے اور اس کے باوجود ان کی روزی کشادہ ہو گی اور مزے سے زندگی گزاریں گے۔ پھر صُور پھونکا جائے گا اور اس کو کوئی نہ سنے گا مگر ایک طرف سے گردن جھکائے گا اور دوسری طرف سے اٹھے گا (یعنی بیہوش ہو کر گر پڑے گا) اور سب سے پہلے صُور کو وہ سنے گا جو اپنے اونٹوں کے حوض کو لیپ رہا ہو گا۔ وہ بیہوش ہو جائے گا اور دوسرے لوگ بھی بیہوش ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ پانی برسائے گا جو نطفہ کی طرح ہو گا، اس سے لوگوں کے بدن اُگ آئیں گے۔ پھر صُور پھونکا جائے گا تو سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔ پھر پکارا جائے گا کہ اے لوگو! اپنے مالک کے پاس آؤ "اور ان کو کھڑا کرو، بیشک ان سے سوال ہو گا" (الصافات: 24)۔ پھر کہا جائے گا کہ ایک لشکر کو دوزخ کے لئے نکال لو۔ پوچھا جائے گا کہ کتنے لوگ؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے (اور ہر ہزار میں سے ایک جنتی ہو گا) آپﷺ نے فرمایا کہ یہی وہ دن ہے جو بچوں کو (ہیبت اور مصیبت سے یا درازی سے ) بوڑھا کر دے گا اور یہی وہ دن ہے جب پنڈلی کھلے گی (یعنی سختی ہو گی یا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا جس سے مومن سجدے میں گر جائیں گے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (قیامت کی) نشانیوں میں سے پہلی یہ ہے کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا۔
2053: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ایک حدیث یاد رکھی ہے جس کو میں کبھی نہیں بھولا۔ میں نے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت کی پہلی نشانیوں میں سے سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا ہے اور چاشت کے وقت لوگوں پر زمین کے جانور کا نکلنا ہے اور جو نشانی ان دونوں میں پہلے ہو گی تو دوسری بھی اس کے بعد جلد ہی ظاہر ہو گی۔
 
Top