"معلق حدیث" کی تعریف
لغوی اعتبار سے "معلق"، علّق کا اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے ایسی چیز جسے باندھ کر لٹکا دیا گیا ہو۔ ایسی سند کو معلق کہا جائے گا جو کہ اوپر کی جانب تو ملی ہوئی ہو لیکن نیچے کی جانب ٹوٹی ہوئی ہو اور اس طرح سے اس چیز کی طرح ہو جائے جو چھت سے لٹکائی گئی ہو۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے راویوں کی کثیر تعداد کو غائب کر دیا جائے۔
"معلق حدیث" کی صورتیں
·پوری کی پوری سند کو غائب کر دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا۔
·صحابی یا صحابی و تابعی کے علاوہ تمام راویوں کو حذف کر دیا جائے۔ (شرح نخبۃ ص 42)
"معلق حدیث" کی مثالیں
امام بخاری نے "باب ما یذکر فی فخذ" یعنی ران سے متعلق باب کے مقدمے میں یہ روایت نقل کی ہے: "سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حجرے میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنی ٹانگ کو کپڑے سے ڈھانپ لیا۔ " یہ حدیث معلق ہے کیونکہ امام بخاری نے سوائے صحابی یعنی سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے تمام راویوں کو حذف کر دیا ہے۔
"معلق حدیث" کا حکم
معلق حدیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں حدیث قبول کرنے کی شرائط میں سے "اتصال سند" یعنی سند کے ملا ہوا ہونے کی شرط نہیں پائی جاتی۔ اس کی سند میں ایک یا ایک سے زائد راویوں کو حذف کر دیا گیا ہوتا ہے اور ان حذف کردہ راویوں کے حالات کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔
صحیحین میں موجود معلق احادیث کا حکم
یہ حکم کہ "معلق حدیث کو مسترد کیا جائے گا" عام کتب کے بارے میں ہے۔ اگر معلق حدیث ایسی کتب میں پائی جائے جس میں صرف صحیح احادیث کو درج کیا گیا ہو جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم تو پھر اس کے لئے ایک خصوصی حکم ہے۔ ان احادیث کو وعظ و نصیحت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان میں یہ شرائط پائی جاتی ہوں۔
·انہیں معروف صیغے (Active Voice) میں روایت کیا گیا ہو۔ جیسے فرمایا، ذکر کیا، حکایت کی وغیرہ۔ اس معاملے میں اس کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔
·انہیں مجہول صیغے (Passive Voice) میں بیان کیا گیا ہو، جیسے کہا گیا، ذکر کیا گیا، حکایت کی گئی تو اس معاملے میں اس کے صحیح ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ یہ صحیح، حسن، ضعیف کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کسی "صحیح" نام کی کتاب میں مذکور ہو جانے سے حدیث صحیح نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے لئے اسناد کی تحقیق کرنے کا طریقہ ہے جس کی بنیاد پر احادیث کو صحیح قرار دیا جاتا ہے۔
نوٹ: بعض لوگوں کو شاید یہ بات عجیب لگے کہ صحیح بخاری و مسلم میں بھی معلق احادیث پائی جاتی ہیں۔ معلق احادیث ان کتب میں استثنائی طور پر صرف باب کے مقدمے میں پائی جاتی ہیں۔ ان معلق احادیث کی تحقیق پر علیحدہ کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔
حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب "تغلیق التعلیق" میں بخاری کی معلق احادیث کی متصل اسناد بیان کی ہیں۔ بخاری و مسلم کی وہ تمام احادیث صحیح قرار دی گئی ہیں جن کے ساتھ مکمل سند بیان کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بخاری کا مکمل نام "الجامع المسند الصحیح" ہے۔ یعنی بخاری کی وہ تمام احادیث صحیح ہیں جو کہ سند کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اسناد سے قطع نظر بخاری اور مسلم کی احادیث پر بھی درایت کے اصولوں کے تحت تنقید بھی کی گئی ہے۔
"مرسل حدیث" کی تعریف
لغوی اعتبار سے مرسل "ارسال" کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے ڈھیلی ڈھالی چیز۔ مرسل وہ حدیث ہوتی ہے جس کی اسناد ڈھیلی ڈھالی ہوں یعنی اس میں جانے پہچانے راویوں ہی پر انحصار نہ کیا گیا ہو۔
اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں تابعی کے بعد والے راوی (یعنی صحابی) کو حذف کر دیا گیا ہو۔
"مرسل حدیث" کی صورت
اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی تابعی خواہ اس کی صحابہ سے ملاقات بڑی عمر میں ہوئی ہو یا چھوٹی عمر میں وہ یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس طرح فرمایا، یا آپ نے ایسے کیا یا آپ کی موجودگی میں ایسا کیا گیا۔ محدثین کے نزدیک مرسل کی صورت اسی طرح کی ہوا کرتی ہے۔
"مرسل حدیث" کی مثال
امام مسلم اپنی "صحیح" میں کتاب البیوع میں حدیث نقل کرتے ہیں، "محمد بن رافع، حجین سے، وہ لیث سے، وہ عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزابنہ (یعنی تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے بیچنے) سے منع فرمایا۔"
اس سند میں سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ بڑے تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے حدیث روایت کی ہے اور اپنے اور حضور کے درمیان واسطے کو حذف کر دیا ہے۔ اس حذف واسطے میں صرف ایک صحابی بھی ہو سکتے ہیں یا ایک صحابی کے ساتھ ساتھ کوئی اور تابعی بھی ہو سکتے ہیں (جن سے سعید بن مسیب نے یہ حدیث سنی ہو گی۔)
فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک "مرسل حدیث" کا معنی
ہم نے مرسل حدیث کی جن صورتوں کا ذکر کیا، یہ محدثین کی تعریف کے مطابق ہے۔ فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک مرسل حدیث کی تعریف میں کچھ فرق ہے۔ ان کے نزدیک مرسل کا معنی زیادہ وسیع ہے اور وہ ہر منقطع حدیث (یعنی جس میں کوئی ایک راوی بھی غائب ہو خواہ وہ صحابی ہو یا بعد کا کوئی راوی) کو مرسل ہی میں شمار کرتے ہیں خواہ اس انقطاع کا سبب کچھ بھی ہو۔ خطیب بغدادی کا نقطہ نظر بھی یہی ہے۔
"مرسل حدیث" کا حکم
مرسل حدیث بنیادی طور پر تو مسترد ہی کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صحیح حدیث کی شرائط میں سے اتصال سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ جو راوی حذف کیا گیا ہے، ہمیں اس کے حالات کا علم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو۔
حدیث کے ماہرین کا مرسل حدیث اور اس سے نتائج اخذ کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ یہ وہ منقطع حدیث ہے جس کی سند کا صرف آخری حصہ حذف کیا گیا ہے۔ جس نام کو حذف کیا گیا ہے، غالب گمان یہ ہے کہ وہ صحابی ہو گا اور تمام صحابہ اعلی کردار کے مالک تھے۔ اگر ہمیں ان کے نام کا علم نہ بھی ہو، تب بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اجمالی طور پر اہل علم کے اس بارے میں تین نقطہ نظر مشہور ہیں:
·مرسل حدیث کو مسترد کیا جائے گا۔ محدثین، فقہاء اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا یہی نقطہ نظر ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں حذف کردہ راوی کے نام کا علم نہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو بلکہ کوئی تابعی ہو اور حدیث روایت کرنے میں ضعیف ہو۔
·مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔ علماء کا یہ گروہ اس بنیاد پر اس قسم کی حدیث کو قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت میں کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر سکتا ہے اگر اس نے اسے کسی قابل اعتماد شخص (یعنی صحابی) سے یہ بات سنی ہو۔
·مرسل حدیث کو کچھ شرائط کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔
یہ امام شافعی اور بعض دیگر اہل علم کا نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے مرسل حدیث کو قبول کرنے کے لئے چند شرائط بیان کی ہیں:
·مرسل حدیث بیان کرنے والا راوی بڑی عمر کے ان تابعین میں سے ہو جنہوں نے بڑی عمر میں صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی عمر والے تابعین براہ راست صحابہ سے روایت نہیں کرتے بلکہ کسی اور تابعی سے احادیث روایت کرتے ہیں۔)
·جب کبھی بھی وہ راوی اس شخص کا نام بیان کرے جس سے اس نے احادیث روایت کی ہیں تو وہ شخص ثقہ (یعنی قابل اعتماد) ہو۔
·حفاظ حدیث اس حدیث کے خلاف کوئی حدیث بیان نہ کریں۔
·حدیث کو کسی اور سند سے بھی روایت کیا گیا ہو۔ اگر دوسری سند بھی مرسل ہو تو اس صورت میں اسے بیان کرنے والا راوی پہلے راوی کے علاوہ کوئی اور شخص ہو۔
·مرسل حدیث کسی صحابی کے قول کے مطابق ہو۔
·اکثر اہل علم اس مرسل حدیث کے مطابق احکام اخذ کرتے ہوں۔ (کتاب الرسالۃ از شافعی)
ایسی مرسل حدیث، جو کئی طرق سے روایت کی گئی ہو، کی ان شرائط کی بنیاد پر تحقیق کر لینے کے بعد یہ واضح ہو جائے کہ یہ صحیح ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی اور صحیح حدیث سے متضاد ہو اور اس تضاد کو دور کرنا ممکن نہ ہو، تو اس صورت میں ہم مرسل حدیث کو ترجیح دیں گے کیونکہ اس کی اسناد کے طرق زیادہ ہیں۔
نوٹ: تابعین کی بڑی یا چھوٹی عمر علوم حدیث میں ایک دلچسپ موضوع ہے۔ مثال کے طور پر ایک صاحب اس دور میں پیدا ہوئے جب صرف چند صحابہ کرام ہی زندہ تھے۔ انہوں نے بچپن یا لڑکپن میں ان صحابہ سے ملاقات کر لی اور تابعی کا درجہ حاصل کر لیا مگر ان کی عمر ایسی نہ تھی جس سے یہ ان صحابہ سے باقاعدہ کچھ سیکھ سکتے۔ جب یہ پختہ عمر کو پہنچے تو بڑی عمر کے تابعین سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ ایسے تابعی کی مرسل حدیث کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے یہ براہ راست کسی صحابی سے حاصل کی ہوگی۔
صحابی کی "مرسل حدیث"
کسی صحابی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قول و فعل سے متعلق بیان کردہ حدیث بھی مرسل ہو سکتی ہےکیونکہ ممکن ہے کہ اس صحابی نے اس بات کو خود سنا یا دیکھا نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ صحابی عہد رسالت میں کم عمر ہو، یا اس نے دیر سے اسلام قبول کیا ہو یا پھر اس موقع پر موجود نہ ہو۔ ایسے صحابہ جو عہد رسالت میں کم عمر تھے جیسے سیدنا ابن عباس یا ابن زبیر رضی اللہ عنہم کی روایات کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں۔
صحابی کی "مرسل حدیث" کا حکم
علماء کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق صحابی کی مرسل حدیث صحیح ہو گی اور اس سے نتائج اخذ کرنا درست ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا امکان بہت کم ہے کہ صحابی نے کسی تابعی سے حدیث روایت کی ہو۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہو تو وہ اسے بیان کر دیتے ہیں۔ جب صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کوئی بات منسوب کریں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسرے صحابی سے ہی اس بات کو سنا ہو گا۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ صحابی کو حذف کر دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا (کیونکہ تمام صحابہ قابل اعتماد ہیں۔)
ایک رائے یہ بھی ہے کہ صحابی کی مرسل حدیث بھی دوسری مرسل احادیث کی طرح ہے۔ یہ رائے بہت ہی کمزور اور مسترد شدہ ہے۔