• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدلس راوی کا عنعنہ اور صحیحین [انتظامیہ]

شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
جس حدیث کی سند صحیح ہو وہ حدیث ”صحیح “ ہی کہلائے گی (اگر نہیں تو وجہ لکھیں)۔ اب یہ ممکن ہے کہ حدیث صحیح ہو اور اس کا ”متن“ صحیح نہ ہو۔یہی کہنا چاہتے ہیں یا کچھ اور؟ میں آپ لوگوں کی طرح یہ نہیں کرنا چاہتا کہ کسی تحریر کا اپنا مفید مطلب معنیٰ لے لوں۔ بات انشاء اللہ تفہیم کی ہوگی شکست دینے دلانے کی نہیں۔
یاد رکھیں دین کے سمجھنے میں فتح اور شکست کا کوئی تصور نہیں کہ اس میں ہر کوئی جیتنے والا ہی ہوتا ہے اگر کینہ نہ ہو تو۔
بعض اوقات کسی ضعیف بلکہ جعلی حدیث میں بھی جو بات بیان کی گئی ہوتی ہے، وہ درست ہوتی ہے۔ اس بات کے درست ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے۔ حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نسبت درست ہے یا نہیں۔ اس کے لئے حدیث کی سند کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ بات تو درست ہو لیکن سند کمزور ہو جس کی وجہ سے وہ حدیث ضعیف قرار پائے۔

اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث کی سند بہت مضبوط ہوتی ہے لیکن اس میں بیان کی گئی بات بالکل غلط ہوتی ہے۔ اس صورت میں اہل علم نے درایت کے اصول بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں اس حدیث کے متن کا تجزیہ کر کے اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کی تحقیق کی جاتی ہے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
بعض اوقات کسی ضعیف بلکہ جعلی حدیث میں بھی جو بات بیان کی گئی ہوتی ہے، وہ درست ہوتی ہے۔ اس بات کے درست ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے۔ حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نسبت درست ہے یا نہیں۔ اس کے لئے حدیث کی سند کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ بات تو درست ہو لیکن سند کمزور ہو جس کی وجہ سے وہ حدیث ضعیف قرار پائے۔

اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث کی سند بہت مضبوط ہوتی ہے لیکن اس میں بیان کی گئی بات بالکل غلط ہوتی ہے۔ اس صورت میں اہل علم نے درایت کے اصول بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں اس حدیث کے متن کا تجزیہ کر کے اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کی تحقیق کی جاتی ہے۔
image002.jpg
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
"اسقاط سند" کی تعریف

"اسقاط سند" کا مطلب یہ ہے کہ سلسلہ اسناد میں ایک یا ایک سے زائد راوی کے نام غائب ہوں خواہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو یا نہ ہو۔ راوی کے نام کا غائب ہونا سند کے شروع میں بھی ہو سکتا ہے، آخر میں بھی اور درمیان میں بھی۔ یہ سقوط ظاہر بھی ہو سکتا ہے اور چھپا ہوا بھی۔

"سقوط سند" کی اقسام

"سقوط سند" کے ظاہر ہونے یا چھپے ہوئے ہونے کے اعتبار سے اس کی دو اقسام ہیں۔ ظاہر اور خفی۔

سقوط ظاہر، ایسا اسقاط سند ہوتا ہے جسے علوم حدیث کے ماہرین پہچان سکتے ہیں۔ مثلاً وہ جانتے ہیں کہ ایک راوی اور اس کے شیخ (یعنی جس سے وہ روایت کر رہا ہے) کی آپس میں ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ وہ ایک زمانے سے تعلق نہ رکھتے تھے یا اگرچہ ان کا زمانہ ایک تھا لیکن وہ کبھی ایک مقام پر اکٹھے نہیں ہوئے۔ اس راوی کے پاس اپنے شیخ کی جانب سے اجازہ اور وجادہ بھی موجود نہ ہو۔ اسناد کی تحقیق کرنے والے محقق کو راویوں کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات، طلب علم اور سفر کے اوقات وغیرہ کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ یہ چیزیں جان سکے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
"اسقاط سند" کی تعریف

"اسقاط سند" کا مطلب یہ ہے کہ سلسلہ اسناد میں ایک یا ایک سے زائد راوی کے نام غائب ہوں خواہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو یا نہ ہو۔ راوی کے نام کا غائب ہونا سند کے شروع میں بھی ہو سکتا ہے، آخر میں بھی اور درمیان میں بھی۔ یہ سقوط ظاہر بھی ہو سکتا ہے اور چھپا ہوا بھی۔

"سقوط سند" کی اقسام

"سقوط سند" کے ظاہر ہونے یا چھپے ہوئے ہونے کے اعتبار سے اس کی دو اقسام ہیں۔ ظاہر اور خفی۔

سقوط ظاہر، ایسا اسقاط سند ہوتا ہے جسے علوم حدیث کے ماہرین پہچان سکتے ہیں۔ مثلاً وہ جانتے ہیں کہ ایک راوی اور اس کے شیخ (یعنی جس سے وہ روایت کر رہا ہے) کی آپس میں ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ وہ ایک زمانے سے تعلق نہ رکھتے تھے یا اگرچہ ان کا زمانہ ایک تھا لیکن وہ کبھی ایک مقام پر اکٹھے نہیں ہوئے۔ اس راوی کے پاس اپنے شیخ کی جانب سے اجازہ اور وجادہ بھی موجود نہ ہو۔ اسناد کی تحقیق کرنے والے محقق کو راویوں کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات، طلب علم اور سفر کے اوقات وغیرہ کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ یہ چیزیں جان سکے۔
نوٹ: "اجازہ" روایت کرنے کی اجازت کو کہتے ہیں۔ ایک راوی کی اپنے شیخ سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اس نے شیخ سے کسی ذریعے (مثلاً کسی اور شخص) سے روایات حاصل کر لیں۔ جب شیخ کو اس کا علم ہوا تو اس نے اس شخص کو اس طرح سے روایت کرنے کی اجازت دے دی جیسے اس نے خود شیخ سے احادیث سنی ہوں۔ اس قسم کی اجازت کو اصطلاحی طور پر "اجازہ" کہا جاتا ہے۔

"وجادہ" اس صورت حال کو کہتے ہیں کہ کسی راوی کو اپنے شیخ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب مل گئی اور وہ شیخ کی تحریر کو پہچانتا تھا۔ اب وہ اس کتاب کی بنیاد پر شیخ سے روایت کرنے لگا۔ موجودہ دور میں حدیث کی غیر مشہور کتب کے بہت سے قلمی نسخے (مخطوطے) ملے ہیں جن پر ان کے مصنفین کے دستخط موجود تھے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے ملنے والے ان نسخوں کا تقابلی مطالعہ کیا گیا اور ہر طرح کے اطمینان کے بعد انہیں ان کے مصنفین کے نام سے شائع کر دیا گیا۔ اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
نوٹ: "اجازہ" روایت کرنے کی اجازت کو کہتے ہیں۔ ایک راوی کی اپنے شیخ سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اس نے شیخ سے کسی ذریعے (مثلاً کسی اور شخص) سے روایات حاصل کر لیں۔ جب شیخ کو اس کا علم ہوا تو اس نے اس شخص کو اس طرح سے روایت کرنے کی اجازت دے دی جیسے اس نے خود شیخ سے احادیث سنی ہوں۔ اس قسم کی اجازت کو اصطلاحی طور پر "اجازہ" کہا جاتا ہے۔

"وجادہ" اس صورت حال کو کہتے ہیں کہ کسی راوی کو اپنے شیخ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب مل گئی اور وہ شیخ کی تحریر کو پہچانتا تھا۔ اب وہ اس کتاب کی بنیاد پر شیخ سے روایت کرنے لگا۔ موجودہ دور میں حدیث کی غیر مشہور کتب کے بہت سے قلمی نسخے (مخطوطے) ملے ہیں جن پر ان کے مصنفین کے دستخط موجود تھے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے ملنے والے ان نسخوں کا تقابلی مطالعہ کیا گیا اور ہر طرح کے اطمینان کے بعد انہیں ان کے مصنفین کے نام سے شائع کر دیا گیا۔ اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔
علماء حدیث نے سقوط ظاہر کو راوی کے غائب ہونے کی سند میں جگہ اور غائب راویوں کی تعداد کے اعتبار سے چار اقسام میں تقسیم کیا ہے: معلق، مرسل، معضل اور منقطع۔

سقوط خفی، سند حدیث میں راویوں کا اس طرح سے غائب ہونا ہے جس کا علم کسی عام عالم حدیث کو نہیں ہو سکتا بلکہ سند میں خامیوں کے خصوصی ماہرین کو ہی اس کا علم ہو سکتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں: مدلَّس اور مرسل خفی۔ اب ہم ان چھ اقسام کو الگ الگ عنوانات کے تحت بیان کریں گے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
علماء حدیث نے سقوط ظاہر کو راوی کے غائب ہونے کی سند میں جگہ اور غائب راویوں کی تعداد کے اعتبار سے چار اقسام میں تقسیم کیا ہے: معلق، مرسل، معضل اور منقطع۔

سقوط خفی، سند حدیث میں راویوں کا اس طرح سے غائب ہونا ہے جس کا علم کسی عام عالم حدیث کو نہیں ہو سکتا بلکہ سند میں خامیوں کے خصوصی ماہرین کو ہی اس کا علم ہو سکتا ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں: مدلَّس اور مرسل خفی۔ اب ہم ان چھ اقسام کو الگ الگ عنوانات کے تحت بیان کریں گے۔
"معلق حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے "معلق"، علّق کا اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے ایسی چیز جسے باندھ کر لٹکا دیا گیا ہو۔ ایسی سند کو معلق کہا جائے گا جو کہ اوپر کی جانب تو ملی ہوئی ہو لیکن نیچے کی جانب ٹوٹی ہوئی ہو اور اس طرح سے اس چیز کی طرح ہو جائے جو چھت سے لٹکائی گئی ہو۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے راویوں کی کثیر تعداد کو غائب کر دیا جائے۔

"معلق حدیث" کی صورتیں

·پوری کی پوری سند کو غائب کر دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا۔

·صحابی یا صحابی و تابعی کے علاوہ تمام راویوں کو حذف کر دیا جائے۔ (شرح نخبۃ ص 42)

"معلق حدیث" کی مثالیں

امام بخاری نے "باب ما یذکر فی فخذ" یعنی ران سے متعلق باب کے مقدمے میں یہ روایت نقل کی ہے: "سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حجرے میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنی ٹانگ کو کپڑے سے ڈھانپ لیا۔ " یہ حدیث معلق ہے کیونکہ امام بخاری نے سوائے صحابی یعنی سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے تمام راویوں کو حذف کر دیا ہے۔

"معلق حدیث" کا حکم

معلق حدیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں حدیث قبول کرنے کی شرائط میں سے "اتصال سند" یعنی سند کے ملا ہوا ہونے کی شرط نہیں پائی جاتی۔ اس کی سند میں ایک یا ایک سے زائد راویوں کو حذف کر دیا گیا ہوتا ہے اور ان حذف کردہ راویوں کے حالات کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔

صحیحین میں موجود معلق احادیث کا حکم

یہ حکم کہ "معلق حدیث کو مسترد کیا جائے گا" عام کتب کے بارے میں ہے۔ اگر معلق حدیث ایسی کتب میں پائی جائے جس میں صرف صحیح احادیث کو درج کیا گیا ہو جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم تو پھر اس کے لئے ایک خصوصی حکم ہے۔ ان احادیث کو وعظ و نصیحت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان میں یہ شرائط پائی جاتی ہوں۔

·انہیں معروف صیغے (Active Voice) میں روایت کیا گیا ہو۔ جیسے فرمایا، ذکر کیا، حکایت کی وغیرہ۔ اس معاملے میں اس کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

·انہیں مجہول صیغے (Passive Voice) میں بیان کیا گیا ہو، جیسے کہا گیا، ذکر کیا گیا، حکایت کی گئی تو اس معاملے میں اس کے صحیح ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ یہ صحیح، حسن، ضعیف کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کسی "صحیح" نام کی کتاب میں مذکور ہو جانے سے حدیث صحیح نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے لئے اسناد کی تحقیق کرنے کا طریقہ ہے جس کی بنیاد پر احادیث کو صحیح قرار دیا جاتا ہے۔

نوٹ: بعض لوگوں کو شاید یہ بات عجیب لگے کہ صحیح بخاری و مسلم میں بھی معلق احادیث پائی جاتی ہیں۔ معلق احادیث ان کتب میں استثنائی طور پر صرف باب کے مقدمے میں پائی جاتی ہیں۔ ان معلق احادیث کی تحقیق پر علیحدہ کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔

حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب "تغلیق التعلیق" میں بخاری کی معلق احادیث کی متصل اسناد بیان کی ہیں۔ بخاری و مسلم کی وہ تمام احادیث صحیح قرار دی گئی ہیں جن کے ساتھ مکمل سند بیان کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بخاری کا مکمل نام "الجامع المسند الصحیح" ہے۔ یعنی بخاری کی وہ تمام احادیث صحیح ہیں جو کہ سند کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اسناد سے قطع نظر بخاری اور مسلم کی احادیث پر بھی درایت کے اصولوں کے تحت تنقید بھی کی گئی ہے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
"معلق حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے "معلق"، علّق کا اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے ایسی چیز جسے باندھ کر لٹکا دیا گیا ہو۔ ایسی سند کو معلق کہا جائے گا جو کہ اوپر کی جانب تو ملی ہوئی ہو لیکن نیچے کی جانب ٹوٹی ہوئی ہو اور اس طرح سے اس چیز کی طرح ہو جائے جو چھت سے لٹکائی گئی ہو۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے راویوں کی کثیر تعداد کو غائب کر دیا جائے۔

"معلق حدیث" کی صورتیں

·پوری کی پوری سند کو غائب کر دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا۔

·صحابی یا صحابی و تابعی کے علاوہ تمام راویوں کو حذف کر دیا جائے۔ (شرح نخبۃ ص 42)

"معلق حدیث" کی مثالیں

امام بخاری نے "باب ما یذکر فی فخذ" یعنی ران سے متعلق باب کے مقدمے میں یہ روایت نقل کی ہے: "سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حجرے میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنی ٹانگ کو کپڑے سے ڈھانپ لیا۔ " یہ حدیث معلق ہے کیونکہ امام بخاری نے سوائے صحابی یعنی سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے تمام راویوں کو حذف کر دیا ہے۔

"معلق حدیث" کا حکم

معلق حدیث کو مسترد کر دیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں حدیث قبول کرنے کی شرائط میں سے "اتصال سند" یعنی سند کے ملا ہوا ہونے کی شرط نہیں پائی جاتی۔ اس کی سند میں ایک یا ایک سے زائد راویوں کو حذف کر دیا گیا ہوتا ہے اور ان حذف کردہ راویوں کے حالات کا ہمیں علم نہیں ہوتا۔

صحیحین میں موجود معلق احادیث کا حکم

یہ حکم کہ "معلق حدیث کو مسترد کیا جائے گا" عام کتب کے بارے میں ہے۔ اگر معلق حدیث ایسی کتب میں پائی جائے جس میں صرف صحیح احادیث کو درج کیا گیا ہو جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم تو پھر اس کے لئے ایک خصوصی حکم ہے۔ ان احادیث کو وعظ و نصیحت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان میں یہ شرائط پائی جاتی ہوں۔

·انہیں معروف صیغے (Active Voice) میں روایت کیا گیا ہو۔ جیسے فرمایا، ذکر کیا، حکایت کی وغیرہ۔ اس معاملے میں اس کے صحیح ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔

·انہیں مجہول صیغے (Passive Voice) میں بیان کیا گیا ہو، جیسے کہا گیا، ذکر کیا گیا، حکایت کی گئی تو اس معاملے میں اس کے صحیح ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ یہ صحیح، حسن، ضعیف کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کسی "صحیح" نام کی کتاب میں مذکور ہو جانے سے حدیث صحیح نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے لئے اسناد کی تحقیق کرنے کا طریقہ ہے جس کی بنیاد پر احادیث کو صحیح قرار دیا جاتا ہے۔

نوٹ: بعض لوگوں کو شاید یہ بات عجیب لگے کہ صحیح بخاری و مسلم میں بھی معلق احادیث پائی جاتی ہیں۔ معلق احادیث ان کتب میں استثنائی طور پر صرف باب کے مقدمے میں پائی جاتی ہیں۔ ان معلق احادیث کی تحقیق پر علیحدہ کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔

حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب "تغلیق التعلیق" میں بخاری کی معلق احادیث کی متصل اسناد بیان کی ہیں۔ بخاری و مسلم کی وہ تمام احادیث صحیح قرار دی گئی ہیں جن کے ساتھ مکمل سند بیان کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بخاری کا مکمل نام "الجامع المسند الصحیح" ہے۔ یعنی بخاری کی وہ تمام احادیث صحیح ہیں جو کہ سند کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ اسناد سے قطع نظر بخاری اور مسلم کی احادیث پر بھی درایت کے اصولوں کے تحت تنقید بھی کی گئی ہے۔
"مرسل حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے مرسل "ارسال" کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے ڈھیلی ڈھالی چیز۔ مرسل وہ حدیث ہوتی ہے جس کی اسناد ڈھیلی ڈھالی ہوں یعنی اس میں جانے پہچانے راویوں ہی پر انحصار نہ کیا گیا ہو۔

اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں تابعی کے بعد والے راوی (یعنی صحابی) کو حذف کر دیا گیا ہو۔

"مرسل حدیث" کی صورت

اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی تابعی خواہ اس کی صحابہ سے ملاقات بڑی عمر میں ہوئی ہو یا چھوٹی عمر میں وہ یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس طرح فرمایا، یا آپ نے ایسے کیا یا آپ کی موجودگی میں ایسا کیا گیا۔ محدثین کے نزدیک مرسل کی صورت اسی طرح کی ہوا کرتی ہے۔

"مرسل حدیث" کی مثال

امام مسلم اپنی "صحیح" میں کتاب البیوع میں حدیث نقل کرتے ہیں، "محمد بن رافع، حجین سے، وہ لیث سے، وہ عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزابنہ (یعنی تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے بیچنے) سے منع فرمایا۔"

اس سند میں سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ بڑے تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے حدیث روایت کی ہے اور اپنے اور حضور کے درمیان واسطے کو حذف کر دیا ہے۔ اس حذف واسطے میں صرف ایک صحابی بھی ہو سکتے ہیں یا ایک صحابی کے ساتھ ساتھ کوئی اور تابعی بھی ہو سکتے ہیں (جن سے سعید بن مسیب نے یہ حدیث سنی ہو گی۔)

فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک "مرسل حدیث" کا معنی

ہم نے مرسل حدیث کی جن صورتوں کا ذکر کیا، یہ محدثین کی تعریف کے مطابق ہے۔ فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک مرسل حدیث کی تعریف میں کچھ فرق ہے۔ ان کے نزدیک مرسل کا معنی زیادہ وسیع ہے اور وہ ہر منقطع حدیث (یعنی جس میں کوئی ایک راوی بھی غائب ہو خواہ وہ صحابی ہو یا بعد کا کوئی راوی) کو مرسل ہی میں شمار کرتے ہیں خواہ اس انقطاع کا سبب کچھ بھی ہو۔ خطیب بغدادی کا نقطہ نظر بھی یہی ہے۔

"مرسل حدیث" کا حکم

مرسل حدیث بنیادی طور پر تو مسترد ہی کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صحیح حدیث کی شرائط میں سے اتصال سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ جو راوی حذف کیا گیا ہے، ہمیں اس کے حالات کا علم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو۔

حدیث کے ماہرین کا مرسل حدیث اور اس سے نتائج اخذ کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ یہ وہ منقطع حدیث ہے جس کی سند کا صرف آخری حصہ حذف کیا گیا ہے۔ جس نام کو حذف کیا گیا ہے، غالب گمان یہ ہے کہ وہ صحابی ہو گا اور تمام صحابہ اعلی کردار کے مالک تھے۔ اگر ہمیں ان کے نام کا علم نہ بھی ہو، تب بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اجمالی طور پر اہل علم کے اس بارے میں تین نقطہ نظر مشہور ہیں:

·مرسل حدیث کو مسترد کیا جائے گا۔ محدثین، فقہاء اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا یہی نقطہ نظر ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں حذف کردہ راوی کے نام کا علم نہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو بلکہ کوئی تابعی ہو اور حدیث روایت کرنے میں ضعیف ہو۔

·مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔ علماء کا یہ گروہ اس بنیاد پر اس قسم کی حدیث کو قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت میں کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر سکتا ہے اگر اس نے اسے کسی قابل اعتماد شخص (یعنی صحابی) سے یہ بات سنی ہو۔

·مرسل حدیث کو کچھ شرائط کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔

یہ امام شافعی اور بعض دیگر اہل علم کا نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے مرسل حدیث کو قبول کرنے کے لئے چند شرائط بیان کی ہیں:

·مرسل حدیث بیان کرنے والا راوی بڑی عمر کے ان تابعین میں سے ہو جنہوں نے بڑی عمر میں صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی عمر والے تابعین براہ راست صحابہ سے روایت نہیں کرتے بلکہ کسی اور تابعی سے احادیث روایت کرتے ہیں۔)

·جب کبھی بھی وہ راوی اس شخص کا نام بیان کرے جس سے اس نے احادیث روایت کی ہیں تو وہ شخص ثقہ (یعنی قابل اعتماد) ہو۔

·حفاظ حدیث اس حدیث کے خلاف کوئی حدیث بیان نہ کریں۔

·حدیث کو کسی اور سند سے بھی روایت کیا گیا ہو۔ اگر دوسری سند بھی مرسل ہو تو اس صورت میں اسے بیان کرنے والا راوی پہلے راوی کے علاوہ کوئی اور شخص ہو۔

·مرسل حدیث کسی صحابی کے قول کے مطابق ہو۔

·اکثر اہل علم اس مرسل حدیث کے مطابق احکام اخذ کرتے ہوں۔ (کتاب الرسالۃ از شافعی)

ایسی مرسل حدیث، جو کئی طرق سے روایت کی گئی ہو، کی ان شرائط کی بنیاد پر تحقیق کر لینے کے بعد یہ واضح ہو جائے کہ یہ صحیح ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی اور صحیح حدیث سے متضاد ہو اور اس تضاد کو دور کرنا ممکن نہ ہو، تو اس صورت میں ہم مرسل حدیث کو ترجیح دیں گے کیونکہ اس کی اسناد کے طرق زیادہ ہیں۔

نوٹ: تابعین کی بڑی یا چھوٹی عمر علوم حدیث میں ایک دلچسپ موضوع ہے۔ مثال کے طور پر ایک صاحب اس دور میں پیدا ہوئے جب صرف چند صحابہ کرام ہی زندہ تھے۔ انہوں نے بچپن یا لڑکپن میں ان صحابہ سے ملاقات کر لی اور تابعی کا درجہ حاصل کر لیا مگر ان کی عمر ایسی نہ تھی جس سے یہ ان صحابہ سے باقاعدہ کچھ سیکھ سکتے۔ جب یہ پختہ عمر کو پہنچے تو بڑی عمر کے تابعین سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ ایسے تابعی کی مرسل حدیث کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے یہ براہ راست کسی صحابی سے حاصل کی ہوگی۔

صحابی کی "مرسل حدیث"

کسی صحابی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قول و فعل سے متعلق بیان کردہ حدیث بھی مرسل ہو سکتی ہےکیونکہ ممکن ہے کہ اس صحابی نے اس بات کو خود سنا یا دیکھا نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ صحابی عہد رسالت میں کم عمر ہو، یا اس نے دیر سے اسلام قبول کیا ہو یا پھر اس موقع پر موجود نہ ہو۔ ایسے صحابہ جو عہد رسالت میں کم عمر تھے جیسے سیدنا ابن عباس یا ابن زبیر رضی اللہ عنہم کی روایات کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں۔

صحابی کی "مرسل حدیث" کا حکم

علماء کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق صحابی کی مرسل حدیث صحیح ہو گی اور اس سے نتائج اخذ کرنا درست ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا امکان بہت کم ہے کہ صحابی نے کسی تابعی سے حدیث روایت کی ہو۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہو تو وہ اسے بیان کر دیتے ہیں۔ جب صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کوئی بات منسوب کریں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسرے صحابی سے ہی اس بات کو سنا ہو گا۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ صحابی کو حذف کر دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا (کیونکہ تمام صحابہ قابل اعتماد ہیں۔)

ایک رائے یہ بھی ہے کہ صحابی کی مرسل حدیث بھی دوسری مرسل احادیث کی طرح ہے۔ یہ رائے بہت ہی کمزور اور مسترد شدہ ہے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
"مرسل حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے مرسل "ارسال" کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے ڈھیلی ڈھالی چیز۔ مرسل وہ حدیث ہوتی ہے جس کی اسناد ڈھیلی ڈھالی ہوں یعنی اس میں جانے پہچانے راویوں ہی پر انحصار نہ کیا گیا ہو۔

اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں تابعی کے بعد والے راوی (یعنی صحابی) کو حذف کر دیا گیا ہو۔

"مرسل حدیث" کی صورت

اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی تابعی خواہ اس کی صحابہ سے ملاقات بڑی عمر میں ہوئی ہو یا چھوٹی عمر میں وہ یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس طرح فرمایا، یا آپ نے ایسے کیا یا آپ کی موجودگی میں ایسا کیا گیا۔ محدثین کے نزدیک مرسل کی صورت اسی طرح کی ہوا کرتی ہے۔

"مرسل حدیث" کی مثال

امام مسلم اپنی "صحیح" میں کتاب البیوع میں حدیث نقل کرتے ہیں، "محمد بن رافع، حجین سے، وہ لیث سے، وہ عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزابنہ (یعنی تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے بیچنے) سے منع فرمایا۔"

اس سند میں سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ بڑے تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے حدیث روایت کی ہے اور اپنے اور حضور کے درمیان واسطے کو حذف کر دیا ہے۔ اس حذف واسطے میں صرف ایک صحابی بھی ہو سکتے ہیں یا ایک صحابی کے ساتھ ساتھ کوئی اور تابعی بھی ہو سکتے ہیں (جن سے سعید بن مسیب نے یہ حدیث سنی ہو گی۔)

فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک "مرسل حدیث" کا معنی

ہم نے مرسل حدیث کی جن صورتوں کا ذکر کیا، یہ محدثین کی تعریف کے مطابق ہے۔ فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک مرسل حدیث کی تعریف میں کچھ فرق ہے۔ ان کے نزدیک مرسل کا معنی زیادہ وسیع ہے اور وہ ہر منقطع حدیث (یعنی جس میں کوئی ایک راوی بھی غائب ہو خواہ وہ صحابی ہو یا بعد کا کوئی راوی) کو مرسل ہی میں شمار کرتے ہیں خواہ اس انقطاع کا سبب کچھ بھی ہو۔ خطیب بغدادی کا نقطہ نظر بھی یہی ہے۔

"مرسل حدیث" کا حکم

مرسل حدیث بنیادی طور پر تو مسترد ہی کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صحیح حدیث کی شرائط میں سے اتصال سند کی شرط موجود نہیں ہے۔ جو راوی حذف کیا گیا ہے، ہمیں اس کے حالات کا علم نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو اور ضعیف ہو۔

حدیث کے ماہرین کا مرسل حدیث اور اس سے نتائج اخذ کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ یہ وہ منقطع حدیث ہے جس کی سند کا صرف آخری حصہ حذف کیا گیا ہے۔ جس نام کو حذف کیا گیا ہے، غالب گمان یہ ہے کہ وہ صحابی ہو گا اور تمام صحابہ اعلی کردار کے مالک تھے۔ اگر ہمیں ان کے نام کا علم نہ بھی ہو، تب بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اجمالی طور پر اہل علم کے اس بارے میں تین نقطہ نظر مشہور ہیں:

·مرسل حدیث کو مسترد کیا جائے گا۔ محدثین، فقہاء اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا یہی نقطہ نظر ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں حذف کردہ راوی کے نام کا علم نہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ صحابی نہ ہو بلکہ کوئی تابعی ہو اور حدیث روایت کرنے میں ضعیف ہو۔

·مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔ علماء کا یہ گروہ اس بنیاد پر اس قسم کی حدیث کو قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت میں کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر سکتا ہے اگر اس نے اسے کسی قابل اعتماد شخص (یعنی صحابی) سے یہ بات سنی ہو۔

·مرسل حدیث کو کچھ شرائط کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔

یہ امام شافعی اور بعض دیگر اہل علم کا نقطہ نظر ہے۔ انہوں نے مرسل حدیث کو قبول کرنے کے لئے چند شرائط بیان کی ہیں:

·مرسل حدیث بیان کرنے والا راوی بڑی عمر کے ان تابعین میں سے ہو جنہوں نے بڑی عمر میں صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی عمر والے تابعین براہ راست صحابہ سے روایت نہیں کرتے بلکہ کسی اور تابعی سے احادیث روایت کرتے ہیں۔)

·جب کبھی بھی وہ راوی اس شخص کا نام بیان کرے جس سے اس نے احادیث روایت کی ہیں تو وہ شخص ثقہ (یعنی قابل اعتماد) ہو۔

·حفاظ حدیث اس حدیث کے خلاف کوئی حدیث بیان نہ کریں۔

·حدیث کو کسی اور سند سے بھی روایت کیا گیا ہو۔ اگر دوسری سند بھی مرسل ہو تو اس صورت میں اسے بیان کرنے والا راوی پہلے راوی کے علاوہ کوئی اور شخص ہو۔

·مرسل حدیث کسی صحابی کے قول کے مطابق ہو۔

·اکثر اہل علم اس مرسل حدیث کے مطابق احکام اخذ کرتے ہوں۔ (کتاب الرسالۃ از شافعی)

ایسی مرسل حدیث، جو کئی طرق سے روایت کی گئی ہو، کی ان شرائط کی بنیاد پر تحقیق کر لینے کے بعد یہ واضح ہو جائے کہ یہ صحیح ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کسی اور صحیح حدیث سے متضاد ہو اور اس تضاد کو دور کرنا ممکن نہ ہو، تو اس صورت میں ہم مرسل حدیث کو ترجیح دیں گے کیونکہ اس کی اسناد کے طرق زیادہ ہیں۔

نوٹ: تابعین کی بڑی یا چھوٹی عمر علوم حدیث میں ایک دلچسپ موضوع ہے۔ مثال کے طور پر ایک صاحب اس دور میں پیدا ہوئے جب صرف چند صحابہ کرام ہی زندہ تھے۔ انہوں نے بچپن یا لڑکپن میں ان صحابہ سے ملاقات کر لی اور تابعی کا درجہ حاصل کر لیا مگر ان کی عمر ایسی نہ تھی جس سے یہ ان صحابہ سے باقاعدہ کچھ سیکھ سکتے۔ جب یہ پختہ عمر کو پہنچے تو بڑی عمر کے تابعین سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ ایسے تابعی کی مرسل حدیث کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے یہ براہ راست کسی صحابی سے حاصل کی ہوگی۔

صحابی کی "مرسل حدیث"

کسی صحابی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قول و فعل سے متعلق بیان کردہ حدیث بھی مرسل ہو سکتی ہےکیونکہ ممکن ہے کہ اس صحابی نے اس بات کو خود سنا یا دیکھا نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ صحابی عہد رسالت میں کم عمر ہو، یا اس نے دیر سے اسلام قبول کیا ہو یا پھر اس موقع پر موجود نہ ہو۔ ایسے صحابہ جو عہد رسالت میں کم عمر تھے جیسے سیدنا ابن عباس یا ابن زبیر رضی اللہ عنہم کی روایات کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں۔

صحابی کی "مرسل حدیث" کا حکم

علماء کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق صحابی کی مرسل حدیث صحیح ہو گی اور اس سے نتائج اخذ کرنا درست ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا امکان بہت کم ہے کہ صحابی نے کسی تابعی سے حدیث روایت کی ہو۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہو تو وہ اسے بیان کر دیتے ہیں۔ جب صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کوئی بات منسوب کریں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسرے صحابی سے ہی اس بات کو سنا ہو گا۔ جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ صحابی کو حذف کر دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا (کیونکہ تمام صحابہ قابل اعتماد ہیں۔)

ایک رائے یہ بھی ہے کہ صحابی کی مرسل حدیث بھی دوسری مرسل احادیث کی طرح ہے۔ یہ رائے بہت ہی کمزور اور مسترد شدہ ہے۔
"معضل حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ اعضل کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے تھکی ہوئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں معضل ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے دو مسلسل راویوں کے نام غائب ہوں۔

"معضل حدیث" کی مثال

حاکم اپنی کتاب "معرفۃ علوم حدیث" میں اپنی سند سے قعنبی—مالک—سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "غلام کا کھانا اور لباس دستور کے مطابق مالک کی ذمہ داری ہے اور اس سے اس کی طاقت سے زائد کام نہیں لیا جائے گا۔" حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مالک علیہ الرحمۃ سے آگے معضل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالک اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان دو راویوں کے نام اس میں غائب ہیں۔

اس حدیث کے بارے میں ہمیں دو مسلسل غائب راویوں کے نام امام مالک کی موطاء سے باہر ایک سند میں ملتے ہیں (جس سے یہ متصل سند کی حدیث ہو جاتی ہے) کہ مالک—محمد بن عجلان—ان کے والد—ابوھریرہ۔ (اس حدیث کی بہت سی متصل اسناد امام بخاری و مسلم نے بیان کی ہیں۔) (معرفۃ علوم الحدیث ص 46)

"معضل حدیث" کا حکم

معضل حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ یہ مرسل اور منقطع سے بھی زیادہ ضعیف قرار دی جاتی ہے کیونکہ اس کے مسلسل غائب راویوں کی تعداد ان سے زیادہ ہوتی ہے۔ (الکفایۃ ص 21 اور تدریب ج 1 ص 295)

معضل اور معلق احادیث میں بعض مشترک خصوصیات

اگر حدیث کی اسناد کے شروع میں دو مسلسل راویوں کو حذف کر دیا جائے تو یہ بیک وقت معلق بھی ہو گی اور معضل بھی۔ اگر حدیث کی سند کے درمیان سے دو مسلسل راویوں کو حذف کر دیا جائے تو یہ معضل تو ہو گی لیکن معلق نہ ہو گی۔ اگر حدیث کی سند کے شروع میں سے ایک راوی کو حذف کر دیا جائے تو یہ معلق تو ہو گی لیکن معضل نہ ہو گی۔

"معضل حدیث" کہاں پائی جاتی ہے؟

امام سیوطی تدریب الراوی میں بیان کرتے ہیں کہ معضل، مرسل اور منقطع احادیث ان کتب میں پائی جاتی ہیں:

·سعید بن منصور کی کتاب السنن

·ابن ابی الدنیا کی مولفات
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
"معضل حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ اعضل کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے تھکی ہوئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں معضل ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے دو مسلسل راویوں کے نام غائب ہوں۔

"معضل حدیث" کی مثال

حاکم اپنی کتاب "معرفۃ علوم حدیث" میں اپنی سند سے قعنبی—مالک—سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "غلام کا کھانا اور لباس دستور کے مطابق مالک کی ذمہ داری ہے اور اس سے اس کی طاقت سے زائد کام نہیں لیا جائے گا۔" حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مالک علیہ الرحمۃ سے آگے معضل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالک اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان دو راویوں کے نام اس میں غائب ہیں۔
"منقطع حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ انقطاع کا اسم فاعل ہے جو کہ اتصال کا متضاد ہے یعنی کاٹنے والی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں منقطع ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند کسی بھی وجہ سے ٹوٹی ہوئی ہو۔

تعریف کی وضاحت

حدیث کسی سند کے شروع، درمیان، آخر کسی بھی جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہو تو اس حدیث کو منقطع کہا جاتا ہے۔ اس تعریف کے اعتبار سے منقطع میں مرسل، معلق، معضل ہر قسم کی حدیث شامل ہو جاتی ہے۔ لیکن بعد کے دور کے حدیث کے ماہرین (متاخرین) نے منقطع حدیث کو اس صورت کے ساتھ مخصوص کر لیا ہے جس پر مرسل، معلق اور معضل کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ یہی استعمال قدیم دور کے بعض ماہرین (متقدمین) کے ہاں بھی عام رہا ہے۔

امام نووی کہتے ہیں: "اکثر اوقات منقطع اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی صحابی سے روایت کرنے والے تابعی کو حذف کر دیا جائے جیسے امام مالک (درمیانی تابعین کو چھوڑ کر) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرنے لگیں۔" (واضح رہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی وفات 74H میں ہو گئی تھی جبکہ امام مالک کی پیدائش 90H میں ہوئی ہے۔ لازمی طور پر ان کے درمیان ایک یا دو تابعین موجود ہوں گے۔) (التقریب مع التدریب ج 1 ص 208)

متاخرین کے نزدیک "منقطع حدیث" کی تعریف

منقطع ایسی حدیث ہوتی ہے جس کی سند ٹوٹی ہوئی ہو لیکن یہ معلق، مرسل اور معضل کے علاوہ ہو۔ منقطع ہر اس ٹوٹی سند کی حدیث کو کہا جائے گا جس کے شروع کی سند ٹوٹی ہوئی نہ ہو، جس میں سے صحابی کو حذف نہ کیا گیا ہو اور جس میں دو لگاتار راویوں کو حذف نہ کیا گیا ہو۔ ابن حجر نے نخبۃ میں یہی تعریف کی ہے۔ (النخبۃ و شرح لہ ص 44)

اگر انقطاع (یعنی سند کا ٹوٹا ہوا ہونا) ایک جگہ ہو یا ایک سے زائد جگہ ہو، اسے منقطع حدیث ہی کہا جائے گا۔

"منقطع حدیث" کی مثال

عبدالرزاق ثوری سے، وہ ابو اسحاق سے، وہ زید بن یثیع سے، اور وہ حذیفہ سے (واسطہ بیان کئے بغیر) روایت کرتے ہیں کہ "اگر تم ابوبکر کو اپنا حاکم بنا لو تو وہ قوت والے اور دیانت دار شخص ہیں۔" (معرفۃ علوم الحدیث ص 36)

اس حدیث کی سند میں ثوری اور ابو اسحاق کے درمیان ایک راوی کا نام مذکور نہیں ہے جن کا نام "شریک" ہے۔ ثوری نے براہ راست ابو اسحاق سے روایت نہیں کی ہے۔ انہوں نے شریک سے اور شریک نے ابو اسحاق سے احادیث روایت کی ہیں۔

"منقطع حدیث" کا حکم

اہل علم کا اس پر اتفاق رائے ہے کہ منقطع حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ محذوف شدہ راوی کے حالات کیا تھے؟
اس حدیث کے بارے میں ہمیں دو مسلسل غائب راویوں کے نام امام مالک کی موطاء سے باہر ایک سند میں ملتے ہیں (جس سے یہ متصل سند کی حدیث ہو جاتی ہے) کہ مالک—محمد بن عجلان—ان کے والد—ابوھریرہ۔ (اس حدیث کی بہت سی متصل اسناد امام بخاری و مسلم نے بیان کی ہیں۔) (معرفۃ علوم الحدیث ص 46)

"معضل حدیث" کا حکم

معضل حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ یہ مرسل اور منقطع سے بھی زیادہ ضعیف قرار دی جاتی ہے کیونکہ اس کے مسلسل غائب راویوں کی تعداد ان سے زیادہ ہوتی ہے۔ (الکفایۃ ص 21 اور تدریب ج 1 ص 295)

معضل اور معلق احادیث میں بعض مشترک خصوصیات

اگر حدیث کی اسناد کے شروع میں دو مسلسل راویوں کو حذف کر دیا جائے تو یہ بیک وقت معلق بھی ہو گی اور معضل بھی۔ اگر حدیث کی سند کے درمیان سے دو مسلسل راویوں کو حذف کر دیا جائے تو یہ معضل تو ہو گی لیکن معلق نہ ہو گی۔ اگر حدیث کی سند کے شروع میں سے ایک راوی کو حذف کر دیا جائے تو یہ معلق تو ہو گی لیکن معضل نہ ہو گی۔

"معضل حدیث" کہاں پائی جاتی ہے؟

امام سیوطی تدریب الراوی میں بیان کرتے ہیں کہ معضل، مرسل اور منقطع احادیث ان کتب میں پائی جاتی ہیں:

·سعید بن منصور کی کتاب السنن

·ابن ابی الدنیا کی مولفات
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
"منقطع حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ انقطاع کا اسم فاعل ہے جو کہ اتصال کا متضاد ہے یعنی کاٹنے والی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں منقطع ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند کسی بھی وجہ سے ٹوٹی ہوئی ہو۔

تعریف کی وضاحت

حدیث کسی سند کے شروع، درمیان، آخر کسی بھی جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہو تو اس حدیث کو منقطع کہا جاتا ہے۔ اس تعریف کے اعتبار سے منقطع میں مرسل، معلق، معضل ہر قسم کی حدیث شامل ہو جاتی ہے۔ لیکن بعد کے دور کے حدیث کے ماہرین (متاخرین) نے منقطع حدیث کو اس صورت کے ساتھ مخصوص کر لیا ہے جس پر مرسل، معلق اور معضل کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ یہی استعمال قدیم دور کے بعض ماہرین (متقدمین) کے ہاں بھی عام رہا ہے۔

امام نووی کہتے ہیں: "اکثر اوقات منقطع اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی صحابی سے روایت کرنے والے تابعی کو حذف کر دیا جائے جیسے امام مالک (درمیانی تابعین کو چھوڑ کر) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرنے لگیں۔" (واضح رہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی وفات 74H میں ہو گئی تھی جبکہ امام مالک کی پیدائش 90H میں ہوئی ہے۔ لازمی طور پر ان کے درمیان ایک یا دو تابعین موجود ہوں گے۔) (التقریب مع التدریب ج 1 ص 208)

متاخرین کے نزدیک "منقطع حدیث" کی تعریف

منقطع ایسی حدیث ہوتی ہے جس کی سند ٹوٹی ہوئی ہو لیکن یہ معلق، مرسل اور معضل کے علاوہ ہو۔ منقطع ہر اس ٹوٹی سند کی حدیث کو کہا جائے گا جس کے شروع کی سند ٹوٹی ہوئی نہ ہو، جس میں سے صحابی کو حذف نہ کیا گیا ہو اور جس میں دو لگاتار راویوں کو حذف نہ کیا گیا ہو۔ ابن حجر نے نخبۃ میں یہی تعریف کی ہے۔ (النخبۃ و شرح لہ ص 44)

اگر انقطاع (یعنی سند کا ٹوٹا ہوا ہونا) ایک جگہ ہو یا ایک سے زائد جگہ ہو، اسے منقطع حدیث ہی کہا جائے گا۔

"منقطع حدیث" کی مثال

عبدالرزاق ثوری سے، وہ ابو اسحاق سے، وہ زید بن یثیع سے، اور وہ حذیفہ سے (واسطہ بیان کئے بغیر) روایت کرتے ہیں کہ "اگر تم ابوبکر کو اپنا حاکم بنا لو تو وہ قوت والے اور دیانت دار شخص ہیں۔" (معرفۃ علوم الحدیث ص 36)

اس حدیث کی سند میں ثوری اور ابو اسحاق کے درمیان ایک راوی کا نام مذکور نہیں ہے جن کا نام "شریک" ہے۔ ثوری نے براہ راست ابو اسحاق سے روایت نہیں کی ہے۔ انہوں نے شریک سے اور شریک نے ابو اسحاق سے احادیث روایت کی ہیں۔

"منقطع حدیث" کا حکم

اہل علم کا اس پر اتفاق رائے ہے کہ منقطع حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ محذوف شدہ راوی کے حالات کیا تھے؟
 
Top