محترم! مدلس راوی کس کو کہتے ہیں اس سے قطع نظر میں جو بات سمجھنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ”مدلس“ راوی شخصیت ایک ہے مگر جب وہ تحصیل کی وضاحت کے ساتھ روایت کرے تو قابلِ قبول اور اگر ’عن‘ سے روایت کرے تو ناقابلِ قبول اختصار کے ساتھ واضح فرمادیں۔
پیارے بھٹی صاحب اب اس طرح کی عام فہم باتیں بھی آپ کو سمجھ نہ آئیں تو ہم کیا کریں
یہ تو عملی طور پہ بھی ثابت ہے اور نقلی (شرعی) طور پہ بھی ثابت ہے کہ ایک ہی انسان جب ایک طرح سے بات کرتا ہے تو وہ قبول کر لی جاتی ہے اور وہی انسان جب دوسری طرح سے بات کرے تو وہ قبول نہیں کی جاتی یا کم از کم تردد کیا جاتا ہے حالانکہ بات ایک ہی انسان نے کی ہوتی ہے وہ شخصیت ایک ہی ہوتی ہے اسکا ایماندار اور بے ایمان ہونے کا درجہ ایک ہی ہوتا ہے پھر بھی آپ عملی اور نقلی طور پہ اسکی دو مختلف طریقوں سے کی گئی بات میں قبول کرنے کے لحاظ سے فرق کرتے ہیں
مثلا
1۔عملی طور پہ ایسے کہ آپ کے سامنے جب کوئی اللہ کو گواہ بنا کے یا اللہ کی قسم اٹھ کے بات کرتا ہے یا حلفا کے الفاظ کے ساتھ کوئی بات کرتا ہے تو اس پہ آپ کا اعتبار بہت زیادہ ہوتا ہے بنسبت اس بات کے جو اسنے بغیر کسی حلف کے کی ہو گی اسی لئے تو عدالتوں اور پارلیمنٹ وغیرہ میں حلف لیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے آپ قیل (یعنی مجہول صیغہ سے کی گئی بات) اور قال کے صیغہ سے کی گئی بات میں فرق کرتے ہیں
2۔شرعی طور پہ اللہ کی قسم دے کر کی گئی بات کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے جیسا کہ اللہ کے نبی ﷺ سے مختلف احادیث میں ثابت ہے کیونکہ اگر آپ ﷺ قسم سے کی گئی بات اور بغیر قسم سے کی گئی بات میں فرق ہونے کو درست نہ سمجھتے تو ایسا کیوں کرتے
اب رہ گئی یہ بات کہ صرف مدلس کی ہی عن والی روایت کیوں نا قبول ہے دوسروں کی کیوں نہیں
تو اسکا جواب یہ ہے احادیث کے بارے مختلف اسلاف کے رویے میں فرق ہو سکتا ہے مثلا محدثین اور فقہاء احادیث کو مختلف نظر سے دیکھ سکتے ہیں اور مسائل میں بھی ان میں نقطہ نظر کا اختلاف ہو سکتا ہے
اب جو جج ہوتا ہے وہ جب لوگوں کی گواہیاں لے رہا ہوتا ہے تو اسنے گواہی دینے والے کے نظریے کو بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے ورنہ وہ غلط فیصلہ کر دے گا
مثلا ایک جج کے پاس ایک عورت نے میاں صاحب پہ کیس کر دیا کہ یہ میرے میاں ہیں ہمارا نکاح ہوا ہے اور ساتھ جاوید غامدی کو گواہ پیش کرتی ہے (یاد رکھیں غامدی کا نظریہ ہے کہ لڑکی لڑکا آپس میں کہ دیں کہ آج سے ہم میاں بیوی ہیں تو نکاح مکمل ہو گیا) وہ گواہ یعنی غامدی کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ان دونوں کا مکمل نکاح ہو چکا ہے پس یہ دونوں میاں بیوی ہیں اب جو جج ہے وہ اس غامدی کے نظریے کو اگر پہلے نہ پوچھے کہ نکاح کے بارےتمھارا نظریہ کیا ہے کہ وہ کیسے مکمل ہوتا ہے تو وہ جج غلط فیصلہ دے سکتا ہے
پس اگر گواہ کے بارے کوئی جج کو بتا دے کہ یہ ایسا نظریہ رکھتا ہے تو وہ جج پھر اس سے گواہی تھوڑی مختلف طریقے سے لے گا اور کہے گا کہ تم یہ گواہی نہ دو کہ ان دونوں کا مکمل نکاح ہوا ہے اور یہ دونوں میاں بیوی ہیں بلکہ تم اس طرح سے گواہی دو کہ انکا نکاح دو معتبر گواہوں کی موجودگی میں مکمل ایجاب و قبول سے ہوا تھا
اب وہاں اگر غامدی صاحب یہ اعتراض کر دیں کہ آپ میری گواہی اس طرح سے کیوں قبول نہیں کرتے ہیں کہ جب میں کہتا ہوں کہ مکمل نکاح ہو چکا ہے تو وہ جج کہے گا کہ مجھے اصل میں گواہی ہی اس چیز کی چاہئے کہ کیا ان دونوں کا دو معتبر گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہوا ہے پس تمھارا خالی نکاح کے مکمل ہونے کی گواہی دینا مجھے وہ معلومات فراہم نہیں کرتا کیونکہ مکمل نکاح تم کسی اور چیز کو سمجھتے ہو البتہ جو مکمل نکاح اس کو سمجھتے ہیں کہ دو معتبر گواہوں کی موجودگی میں مکمل ایجاب و قبول سے ہو تو اسکی خالی اتنی گواہی بھی میں لے لوں گا کہ جی انکا مکمل نکاح ہوا ہے
بالکل اسی طرح محدث جج نے گواہی سند کے اتصال کی لینی ہے اب اگر گواہی دینے والا عن سئ روایت کرتا ہی اس وقت ہے جب سند مکمل متصل ہو تو اسکی گواہی قبول کر لی جاتی ہے مگر اگر وہ عن کہنے سے اسکی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ تدلیس کر کے بھی عن سے روایت کر سکتا ہے تو پھر ایسے کی عن والی روایت قبول نہیں ہو گی واللہ اعلم
اور اگر آپ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ مدلس راوی اگر جان بوجھ کے ایک چیز کو غلط انداز میں پیش کر رہا ہے تو اسکو مدلس راوی کی بجائے جھوٹا کذاب کہ کر اسکو ترک کیوں نہیں کرتے تو اسکا جواب پہلے دیا جا چکا ہے