• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدینے کے مشرق کی تلاش حرکات شمس کی مدد سے ( گوگل ارتھ کی مدد سے کیے گئے بریلوی پراپیگینڈہ کا رد)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
عرب عراق وشام کی سرزمین کا ریلیف میپ elevation کے ساتھ بشکریہ shaded-relief.com


بشکریہ: اہل الحدیث۔کام
Ibn Hajr said: "al-Khattaabee said:

"the najd in the direction of the east, and for the one who is in Madeenah then his Najd would be the desert of Iraaq and it's regions for this is to the east of the People of Madeenah. The basic meaning of Najd is that which is raised/elevated from the earth in contravention to al-Gawr for that is what is lower than it. Tihaamah [the coastal plain along the south-western and southern shores of the Arabian Peninsula] is entirely al-Gawr and Mecca is in Tihaamah.'[...] by this [saying of al-Khattaabee] the weakness of the saying of ad-Daawodee is understood that 'Najd is in the direction of Iraaq' [min Naahiya al-Iraaq] for he suggests that Najd is a specific place. This is not the case, rather everything that is elevated with respect to what adjoins it is called Najd and the lower area called Gawr." Fath al-Baaree 13/58-59


ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اہل مدینہ کے لیے نجد عراق کا صحرا ہے بحوالہ فتح الباری، شرح صیح بخاری
اور آپ نقشوں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ عراق کا بھی صحرا ہے اور وہ زمین سے بلند ہے، عرب عراق وشام کی سرزمین کی طبیعی تقسیم کا نقشہ بشکریہ shaded-relief.com





اب جیسا کہ بریلوی حضرات ریاض کی اور بغداد کی elevation کا آپس میں تقابل کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بغداد کی چونکہ elevation کم ہے لہٰذا احادیث میں بیان کی گیا نجد صرف ابن عبدالوہاب کی جائے پیدائش اور آل سعود کا دارلحکومت ہی ہو سکتا ہے۔
جبکہ نجد کا جو تعین کیا گیا ہے وہ سطح مرتفع کے طور پر کیا گیا ہے جو کہ آس پاس کی زمین کے حساب سے بلند ہوتی ہے نا کہ سطح سمندر کے لحاظ سے
یاد رہے کہ گوگل ارتھ ہمیں کسی بھی علاقہ elevation سطح سمندر کے لحاظ سے ایک خاص پوائنٹ آف ریفرنس کو لے کر دکھاتا ہے۔ لہٰذا گوگل ارتھ میں بتائی گئی elevation کی بنیاد پر جزیرۃ العرب کے غور، نجد یا تہامہ کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا
---- جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
ایک واضح مغالطہ جو ہمارے بریلوی دوستوں کی طرف سے دیا جاتا ہے






اوپر پیش کی گئی دونوں تصاویر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو بالکل ریاض کی سیدھ میں ہوتا ہے
یہ تصاویر حقائق کی رو سے غلط ہیں کیونکہ جب سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے تو وہ جزیرۃ العرب سے بہت دور ہوتا ہے، یعنی اس کا zenith ( زینتھ وہ مقام ہے زمین پر جس میں ایک خاص وقت پر سورج بالکل اوپر ہوتا ہے۔ نیچے میں ایک تصویر پوسٹ کر رہا ہوں سورج ریاض کے قریب ہوتا ہے لیکن کب ؟؟؟؟


اوپر پیش کی گئی سورج کی پوزیشن جو کہ timeanddate.com سے لی گئی ہے اس کو دیکھیں یہ 17 جون 2012 کو دن 1130 بجے کی پوزیشن دکھا رہا ہے اس وقت سورج ریاض کے قریب ہے لیکن دوستو سوچنے کی بات ہے کہ دن ساڑھے گیارہ بجے سورج طلوع نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ ایک گھنٹے کے اندر اندر سورج زوال پذیر ہو جاتا ہہے۔ لہٰزا یہ جو نیٹ پر پھیلائی گئی تصاویر ہیں یہ محض ایک مغالطہ یعنی deception ہیں کہ جب سورج طلوع ہو رہا ہوتا ہے وہ ریاض کے پیچھے ہوتا ہے
بریلوی دوستو، آپ دنیا کا نقشہ ضرور پیش کریں لیکن کس وقت سورج کہاں ہوتا ہے یہ ضرور مد نظر رکھیں۔



------ جاری ہے ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
عراق کا صحرا جو کہ اہل مدینہ کے لیے نجد ہے



حافظ ابن حجرعسقلانیؒ علامہ خطابی سے نقل کرتے ہیں:
"نجد من جهة المشرق ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها وهي مشرق أهل المدينة وأصل النجد ما ارتفع من الأرض وهو خلاف الغور فإنه ما انخفض منها"۔
(فتح الباری لابن حجر، باب قولہ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،حدیث نمبر:۶۶۸۱)

ترجمہ:نجد مشرق کی طرف ہے اوراہل مدینہ کے لیے نجد بادیہ عراق اوراس کے مضافات ہیں اور یہ اہل مدینہ سے مشرق کی جانب ہے اورنجد دراصل زمین کی سطح مرتفع کا نام ہے اوریہ لفظ غور(پستی) کے برعکس ہے،غور پستی کو کہتے ہیں۔

صحرائے شام جو کہ شام، عراق، سعودی عرب اور اردن تک پھیلا ہوا ہے کے بارے میں وکی پیڈیا سے اقتباس، یاد رہے کہ اس کی سرحدیں دریائے فرات تک جا ملتی ہیں


اس صحرا کو ورلڈ اٹلس۔نیٹ کے شام کے نقشہ کی مدد سے دیکھیں


اس صحرا کا نقشہ گوگل ارتھ کی مدد سے دیکھیں، گوگل ارتھ کی نچلی بار میں elevation نمایاں ہے. یہ اکثر جگہوں پر سطح سمندر سے کافی بلند ہے


صحرائے شام کا ایک اور نقشہ بشکریہ maravot.com


صحرائے شام و عراق کا نقشہ بشکریہ topomapper.com



یہی وہ بادیہ عراق اور اس کے مضافات ہیں جن کو شارح بخاری ابن حجرالعسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے

-- - --- جاری ہے ۔ ۔۔
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
دجال مشرق سے نکلے گا


ان شاء اللہ، اب ہم احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیش کریں گے جو کہ دجال کے فتنہ عظیم کے مخرج یعنی مشرق کی طرف اشارہ کرتی ہیں، آئیے احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ مشرق ریاض ہے یا کچھ اور ؟؟؟؟؟
دجال کے بارے میں ایک طویل حدیث سے اقتباس: بحوالہ
24- باب قِصَّةِ الْجَسَّاسَةِ:

7573- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ كِلاَهُمَا عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ- وَاللَّفْظُ لِعَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ عَبْدِ الصَّمَدِ- حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ جَدِّي عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ ذَكْوَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُرَيْدَةَ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّ شَعْبُ هَمْدَانَ أَنَّهُ سَأَلَ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ وَكَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الأُوَلِ فَقَالَ حَدِّثِينِي حَدِيثًا سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ تُسْنِدِيهِ إِلَى أَحَدٍ غَيْرِهِ فَقَالَتْ لَئِنْ شِئْتَ لأَفْعَلَنَّ فَقَالَ لَهَا أَجَلْ حَدِّثِينِي. ---------------------------------
----------------------
قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ: «هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ». يَعْنِي الْمَدِينَةَ: «أَلاَ هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ ذَلِكَ». فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ: «فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ وَعَنِ الْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ أَلاَ إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّامِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لاَ بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ ما هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ». وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ.
قَالَتْ فَحَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.


حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا عصا منبر پر تین مرتبہ ٹکراتے ہوئے فرمایا: یہی طیبہ ہے۔ کیا میں تمہیں اس کے بارے میں بتایا نہیں کرتا تھا؟ لوگوں نے کہا، کیوں نہیں!
پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : کہ مجھے تمیم کی بات اس لیے اچھی لگی کہ یہ میری اس خبر کے مشابہہ ہے جو میں تمہیں دجال اور مکہ و مدینہ کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔
خبردار وہ بحر شام میں یا بحر یمن میں ہے ؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اپنے ہاتھ سے بھی اشارہ فرمایا
پوری روایت دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں:

فصل: 24- باب قِصَّةِ الْجَسَّاسَةِ:|نداء الإيمان

دجال شام اور عراق کے درمیان ریگستانی راستے سے خارج ہو گا
7560- وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ- وَاللَّفْظُ لَهُ- حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ...................................................................................................................

فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالاً يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا».----------------------------------------------------------------------

نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دجال کا تذکرہ کیا۔ ۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔
لہٰذا جو شخص بھی تم میں سے دجال کو دیکھے وہ سورۃ کہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرے۔
دجال شام اور عراق کے درمیان ریگستانی راستے سے خارج ہو گا اور دائیں اور بائیں فتنہ فساد برپا کرے گا۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔
پوری روایت پڑھنے کے لیے یہاں پر کلک کریں

فصل: 20- باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ وَصِفَتِهِ وَمَا مَعَهُ:|نداء الإيمان

شام اور یمن کے سمندر جہاں سے دجال کے نکلنے کی نفی کی گئی


شام اور عراق کے درمیان ریگستانی راستہ



---- -- -جاری ہے ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
دجال مشرقی علاقے خراسان سے خروج کرے گا


57- بَابُ مَا جَاءَ مِنْ أَيْنَ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ؟

2403- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الدَّجَّالُ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا خُرَاسَانُ يَتْبَعُهُ أَقْوَامٌ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ». (ترمذی کتاب الفتن)

فصل: 57- بَابُ مَا جَاءَ مِنْ أَيْنَ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ؟|نداء الإيمان

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے مروی ہے کہ
"اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں حدیث بیان فرمائی: کہ دجال ایک مشرقی علاقے سے خروج کرے گا جسے خراسان کہتے ہیں۔ اس کی پیروی کچھ ایسی قومیں کریں گی جن کے چہرے کوٹی ہوئی ڈھالوں کی طرح چپٹے ہوں گے

قدیم خراسان: موجودہ ایران، افغانستان، ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے علاقے اس میں شامل تھے


موجودہ خراسان: ایران کا ایک صوبہ ہے، دیکھیے نقشہ



وسط ایشیائی ریاستوں کا نقشہ:


عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : یخرج الدجال من یھودیۃ اصبھان معہ سبعون الفا من الیھود
(مسلم: باب الفتن: باب فی بقیۃ احادیث من الدجال)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
دجال اصبہان کے علاقے یہوداہ سے خروج کرے گا اور اس کے ساتھ ستر ہزار یہودی ہوں گے

احادیث میں تطبیق
امام قرطبی رح فرماتےہیں: بحوالہ کتاب: قیامت کی نشانیاں، مولف : مبشر حسین لاہوری: بحوالہ حاشیہ ابن ماجۃ: 509/2

بعض احادیث میں ہے کہ وہ (دجال) خراسان سے آئے گا جبکہ بعض میں ہے اصبہان سے خروج کرے گا ان میں تطبیق اس طرح ہے کہ اسکے خروج کی ابتدا خراسان کے علاقے اصبہان سے ہو گی پھر وہ حجاز کی طرف رخ کرے گا جس کے لیے وہ شام اور عراق کا درمیانی علاقہ (ریگستان) استعمال کرےگا

اگرآپ ماڈرن جیوگرافی پر ایمان رکھتے ہیں تو یہ علاقے تو مدینہ کے مشرق میں نہیں آتے بلکہ یہ تو شمال مشرق میں آتے ہیں۔ آپ گوگل ارتھ سے چیک کر سکتے ہیں- جبکہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات تو دجال کے مشرق سے نکلنے کر صراحت کرتے ہیں نیز انہوں نے خراسان کو مشرق بھی کہا ہے

مسجد نبوی کا عراق و شام کے درمیانی صحرائی رستے کے ساتھ زاویہ بشکریہ گوگل ارتھ



میں بڑی جرات کے ساتھ یہ کہنے جا رہا ہوں کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جن علاقوں کو مشرق کہا گیا ہے لازمی نہیں ہے کہ وہ مدینہ کی عین سیدھ میں ہوں۔ جیسا کہ میں پیچھے لاتعداد حوالوں و مثالوں سے واضح کر چکا ہوں۔ خراسان، اصفحان، ایران، تاجکستان، عراق وشام کا درمیانی صحرا کوئی بھی مدینہ سے ٩٠ ڈگری کا زاویہ نہیں بنارہے-
وہابیوں کے مشرق کا مطلب شمال نہیں ہے بلکہ وہ مشرق ہے جسے اس پاک ہستی نے بیان فرمایا ہے کہ جو اپنی خواہش نفس سے نہیں بلکہ وحی الٰہی سے بولتے ہیں
----- جاری ہے -- - -- - ----
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
قیامت کی ایک بڑی نشانی: تین مقامات پر زمین کا دھنس جانا
'



13- باب فِي الآيَاتِ الَّتِي تَكُونُ قَبْلَ السَّاعَةِ:

7467- حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ- وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ- قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا وَقَالَ الآخَرَانِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ قَالَ اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاكَرُ فَقَالَ: «مَا تَذَاكَرُونَ».
قَالُوا نَذْكُرُ السَّاعَةَ. قَالَ: «إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّى تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ». فَذَكَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّةَ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنُزُولَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلاَثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِكَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَى مَحْشَرِهِمْ. (صیح مسلم: کتاب الفتن: باب الایات التی تکون قبل الساعۃ)

حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
-------------------
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہ ہوگی جب تک تم دس نشانیں نہ دیکھ لو - - -- -----

اور تین خسوف (لوگوں کا زمین میں دھنسایا جانا) ایک خسف مشرق میں، ایک خسف مغرب میں اور ایک جزیرۃ العرب میں
جزیرۃ العرب کانقشہ اور یہ کن ممالک پر مشتمل ہے، بشکریہ وکی پیڈیا




اس حدیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جزیرۃ العرب کو مشرق کا حصہ نہیں قرار دیا گیا بلکہ مشرق اور مغرب مٰیں زمین کے دھنسنے کا الگ سے ذکر کیا گیا ۔
-- -- - دلیلیں تمام ہوئیں، اب اس تھریڈ کا خلاصہ اگلی پوسٹ میں پیش کیا جائے گا، شکریہ! - -- - - -- -
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
اس دھاگے کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے


انٹرنیٹ پر موجود ان نقشوں میں دئیے گئے مغالطے کا رد کیا گیا ہے جن کی مدد سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سورج جب طلوع ہوتا ہے تو ریاض کی عین سیدھ میں ہوتا ہے
سورج کی حرکات کی مدد سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سورج کے نکلنے کا زاویہ ہر روز مختلف ہوتا ہے اور اس بات کے بہت سے تصاویری ثبوت پیش کیے گئے ہیں
کعبہ شریف کے رکن عراقی سے عراق کی طرف گوگل ارتھ پر لائن کھینچ کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ کسی ایک علاقے سے کسی دوسرے علاقے کا ٩٠ درجہ زاویہ بنانا ضروری نہیں سمت کے تعین کے لیے
مشرق یعنی عراق والوں کا میقات ذات عرق ہے اور اس کو نقشے کی مدد سے پیش کیا گیا ہے
ریاض ، بغداد اور کربلا کے مسجد نبوی و مدینہ شریف سے زاویے گوگل ارتھ کی مدد سے دکھائے گئے ہیں اور اس خیال کا رد کیا گیا ہے کہ مشرق کا مطلب بالکل سیدھ میں ہونا ہوتا ہے
عرب و عراق و شام کے قرب و جوار کا بہت سارے نقشوں سے جائزہ لے کر نجد عراق یعنی شام و عراق کے صحرا کی وضاحت کی گئی ہے اور elevation کے concept کی غلط ترجمانی سے پیدا کی جانے والی غلط فہمی کا رد کیا گیا ہے
قرب قیامت کی نشانیوں میں جہاں مشرق کا ذکر آتا ہے مثال کے طور پر دجال کے خروج کے مشرقی علاقے اور مشرق میں زمین کا دھنسنا ان کو نقشوں کی مدد سے واضح کیا گیا ہے

حوالہ جات:

١۔ کتابیں
قیامت کی نشانیاں: مولف مبشر حسین لاہوری
اطلس القران، اطلس فتوحات اسلامیہ: دارالسلام
الشمس والقمر بحسبان: شیخ عبدالرحمٰن کیلانی رح
حج و عمرہ گائیڈ: شایع کردہ دارلسلام

٢۔ انٹرنیٹ آرٹیکلز
١۔ شیخ کفایت اللہ سنابلی کا مضمون
٢۔ شیخ مبشر احمد ربانی کا مضمون
٣۔ جاءالحق کتاب کا جواب: مصنف:
٤۔ محترم باذوق بھائی کی کچھ تھریڈز میں دی گئیں آرا

٣۔ ویب سائٹس
١۔ timeanddate.com
2. gaisma.com
3.suncalc.net
4.topomapper.com
5.maps.google.com
6.ورلڈ اٹلس
7. بہت سے فورمز اور گوگل سرچ

اور سب سے ضروری اللہ کی مدد ۔ الحمدللہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم!

اگر آپ انٹرنیٹ پر سرچ کریں تو بہت سی جگہ پر آپ کو ملے گا کہ گوگل ارتھ کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مدینے کا مشرق ریاض اور درعیہ ہیں اور یہی محل فتنہ ہیں جن کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں اشارہ کیا تھا۔

چاہیے تو یہ تھا کہ گوگل ارتھ کی بجائے احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعتماد کیا جاتا لیکن بعض لوگ زبان حال سے موجودہ نقشہ جات کوہی زیادہ قابل اعتماد سمجھتے ہوئے محل فتنہ سرزمین ریاض و درعیہ کو گردانتے ہیں۔ لہذا میں نے سوچا کہ اس معاملہ کو اگر ماڈرن جیوگرافک انفارمیشن سسٹمز پر جانچنا ہی ہے تو سرسری طور پر ہی کیوں؟؟؟؟Detail سے کیوں نہیں؟
۔
طالب علم بھائی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے
آیئں گوگل ارتھ کی بجائے احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعتماد کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔
صحیح بخاری
کتاب الفتن
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا
حدیث نمبر : 7094
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے
اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔​

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ امام بخاری نے اس باب کا عنوان رکھا ہے " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا " اس باب میں حدیث لائے ہیں نجد والی اس سے پتہ چلا کہ امام بخاری اس بات کے قائل ہیں کہ نجد مدینہ کی مشرقی سمت میں واقع ہے
اس حدیث میں تین خطوں کا ذکر کیا گیا ہے شام ، یمن اور نجد ہمارے فاضل دوست نے شام اور یمن کے ظاہری معنی لئے اور نجد کے لئے لغوی معنی کہ " ہر سطح مرتفع اور بلند زمین کو نجد کہتے ہیں (لسان العرب:40/14) بحوالہ کتاب: قیامت کی نشانیاں ، صفحہ: ٨٣ "
اب یہاں ایسا کس بناء پرکیا کہ شام اور یمن کے ظاہری معنی اور نجد کے لئے لغوی معنی یہ بات تو ہماری فاضل دوست ہی بتا سکتے ہیں
آئیں اب اس نجد کی تشریح احادیث نبوی سے کرکے دیکھتے ہیں کہ نجد سے مراد کون سا علاقہ ہے،

صحیح بخاری
کتاب الصلوٰۃ
باب: مشرک کا مسجد میں داخل ہونا کیسا ہے؟
حدیث نمبر : 469

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے سعید بن ابی سعید مقبری کے واسطہ سے بیان کیا انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو نجد کی طرف بھیجا تھا۔ وہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو (بطور جنگی قیدی) پکڑ لائے اور مسجد میں ایک ستون سے باندھ دیا۔​

اب میں فاضل دوست سے پوچھنا چاھوںگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کس نجد کی طرف بھیجا تھا کیا یہ آپ کا لغوی معنی والا نجد ہے یا مجودہ دور کا سعودی نجد ؟؟؟

٢۔ بنوحنیفہ کے ثمامہ بن اثال جو پکڑ کر لایا گیا کیا یہ آپ کا لغوی معنی والا نجد تھا یا مجودہ دور کا سعودی نجد ؟؟؟

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
صحیح بخاری
کتاب الحج
باب: عراق والوں کے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق ہے
حدیث نمبر : 1531
تر جمہ از داؤد راز
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے نافع سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب یہ دو شہر (بصرہ اور کوفہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ یا امیرالمؤمنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قرار دی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لئے بڑی دشواری ہو گی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تم لوگ اپنے راستے میں اس کے برابر کوئی جگہ تجویز کر لو۔ چنانچہ ان کے لئے ذات عرق کی تعیین کر دی۔
اس حدیث سے یہ چند باتیں معلوم ہوئی
١۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں عراق فتح ہوا ۔ جبکہ نجد دور نبوی میں ہی اسلامی ریاست کا حصہ تھا
٢۔ نجد والوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قرار دی۔
٣۔ عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق تعیین کی گئی۔
٤۔ عراق اور نجد دو الگ الگ مقامات ہیں۔

اس حدیث میں بھی لفظ نجد کی شرح آپ کے لغوی معنی والے نجد سے نہیں میچ کھارہی


چلیں ایک اور حدیث شریف پڑھتے ہیں

صحیح بخاری
کتاب المغازی
باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان
حدیث نمبر : 4137

اور ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام نخل میں تھے تو آپ نے نماز خوف پڑھائی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف غزوہ نجد میں پڑھی تھی۔ یہ یاد رہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (سب سے پہلے) غزوہ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے۔

کیا میرے فاضل دوست بتانا پسند کریں گے کے یہ "غزوہ نجد " کونسی سرزمین پر ہوا
کیا غزوہ نجد آپ کے لغوی معنی والے نجد میں ہوا یا آج کے سعودی نجد میں؟؟؟؟


ایک حدیث شریف اور

صحیح بخاری
کتاب التوحید والرد علی الجہیمۃ
باب: سورۃ المعارج میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ”فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں“۔
حدیث نمبر : 7432
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن ابی نعم یا ابو نعم نے۔۔۔ قبیصہ کو شک تھا۔۔۔ اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ انہیں سفیان نے خبر دی ‘انہیں ان کے والد نے ‘ انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظی ‘ عیینہ بن بدری فزاری ‘ علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لئے ان کا دل بہلا تا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ‘ پیشانی ابھری ہوئی تھی ‘ داڑھی گھنی تھی ‘ دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا اس مردود نے کہا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ڈر۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی حضرت خالد رضی اللہ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ‘ وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکار ی جانور میں سے پار نکل جاتا ہے ‘ وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔

میں اپنے فاضل دوست سے پوچھنا چاھونگا کہ اس حدیث شریف میں چار نجدی سرداروں کا ذکر ہے یعنی اقرع بن حابس حنظی ‘ عیینہ بن بدری فزاری ‘ علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی
سوال یہ ہے کہ کیا یہ چاروں سردار آپ کے لغوی معنی والے نجد سے تعلق رکھنے کی بناء پر نجدی کہلائے یا موجودہ سعودی نجد سے تعلق کی وجہ سے نجدی کہلائے ؟؟؟؟

امید ہے اب آپ یہ نہیں فرمائیں گے کہ " چاہیے تو یہ تھا کہ گوگل ارتھ کی بجائے احادیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعتماد کیا جاتا " اور خود بھی احادیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہی اعتماد کریں گے۔
والسلام

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
دلچسپ بات​

اس حدیث شریف میں ایک گستاخ خبیث کا بھی ذکر ہوا ہے آپ جیسے اہل علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہوگی کہ اس گستاخ خبیث کا نام عبداللہ ذوالخصیرہ ہے او یہ محمد بن عبدالواھاب کے قبیلے بنو تمیم سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا تعلق بھی موجودہ سعودی نجد ہی سے تھا
یہ اولین شیطان کا سینگ تھا جو نجد سے ظاہر ہوا اور ایسے باباء خوارج بھی کہا جاتا ہے ،

مختلف احادیث میں اس کا حلیہ بیان کیا گیا ہے جو کہ کچھ اس طرح ہے ،
١۔ آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں۔
٢۔ پیشانی ابھری ہوئی تھی۔
٣۔ داڑھی گھنی تھی۔
٤۔ دونوں کلے پھولے ہوئے تھے۔
٥۔ سر گٹھا ہوا تھا۔
٦۔ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا۔
٧۔ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدوں کا اثر نمایاں تھا۔

مختلف احادیث میں اس کی نسل سے پیدا ہونے والوں کے اعمال بیان ہوئے جو کے اس طرح کے ہونگے۔

١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ‘ وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکار ی جانور میں سے پار نکل جاتا ہے۔
٢۔ وہ اہل اسلام کو ( کافر کہہ کر قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ۔
٣۔ اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔
٤۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا۔
٤۔ وہ مخلوق میں سب سے بدتر (یا بدترین) ہوں گے۔
٥۔ وہ اﷲ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا اوروہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
٦۔ ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا۔
٧۔ خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے۔
٨۔ وہ اپنی عبادت میں تندہی سے کام لیں گے یہاں تک کہ وہ لوگوں کو بھلے لگیں گے اور وہ خود بھی اپنے آپ (اور اپنی نمازوں) پر اترائیں گے حالانکہ وہ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح کہ تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
٩۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top