• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حبیب الرحمن کاندھلوی کے بارے میں مختصر جائزہ سے جو چند امور واضح ہوتے ہیں انہیں نقاط کی صورت میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے :
۱۔ کاندھلوی صاحب نے اپنی تحقیق کے لیے جو موضوعات منتخب کیے وہ عمومی طور پر اردو داں طبقے کے لیے شدید متنازعہ تصور کیے جاتے ہیں۔
۲۔ ان متنازعہ موضوعات کے لیے کاندھلوی صاحب نے انتہا پسندانہ انداز تحقیق اختیار کیا
۳۔ کاندھلوی صاحب نے اپنی تحقیق میں جانبدارانہ اندا زتحقیق استعمال کیا
۴۔ کاندھلوی صاحب نے بسا اوقات ایسے موضوعات منتخب کیے جس میں تحقیق کی قطعا ضرورت نہیں تھی کہ پچھلے تیرہ سو سال سے وہ مسائل امت مسلمہ کے لیے متفق مسائل میں شمار کیے جاتے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری کی صحت وغیرہ
۵۔ کاندھلوی صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ماہر جرح و تعدیل ہیں لیکن چند مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسماء الرجال سے متعلق ان کی معلومات ناقص اور ناواقفیت پر مبنی ہیں۔
۶۔ کاندھلوی صاحب نے اپنی تحقیق میں علم روایت کے مقابلے میں علم درایت کو فوقیت دی

حواشی
۱۔ [مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت، جلد اول][انٹر نیٹ دی اسلامک ریسرچ]
۲۔ مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت، ص ۲۲
۳۔ مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت ،ص ۲۲
۴۔ مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت، جلد اول صفحہ نمبر ۲۵۱
۵۔ مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت ، جلد ۱، صفحہ نمبر ۴۱۰ ، ۴۴۸
۶۔ مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت،جلد دوم،صفحہ نمبر ۱۵۷
۷۔ مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت ، جلد دوم ، صفحہ نمبر ۷۴ ،۷۵
۸۔ تہذیب ج۹، ص ۵۴، الھدی الساری،ص ۴۸۹، تاریخ بغدادج۲، س۹
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم فیض الابرار صاحب -

بحیرا راہب کے قصّے سے متعلق مجھے کچھ یہ معلومات ملی ہیں -

بحيرا کی کتاب الفتن کے حوالے سے معروف ہے جس میں Apocalypse of Bahira الفتن کے حوالے سے کتاب بتایا گیا ہے کہ اس کی ملاقات نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہوئی اور اس کو کوہ طور پر مکاشفہ آیا کہ عربوں میں نبی آئے گا. اس کتاب کو شاید عیسائیوں نے تخلیق کیا کیونکہ بحيرا ایک نسطوری عیسائی تھا یعنی کیتھولک چرچ کا مخالف اور اس نے نبی کو عیسایت کے بارے میں معلومات دی تھیں یہ کردار اصل میں نبی صلی الله علیہ وسلم پر عیسائیوں کا بہتان تھا کہ انہوں نے اس راہب سے سیکھا تھا-

بیان کیا جاتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 12 برس تھے تو آپکے چچا ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر تجارت کی غرض سے ملک شام کے سفر پر نکلے اور بصرٰی پہنچے قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا- ایک عیسائی بنام بحیرا راہب خلاف معملول اپنے گرجا سے نکل کر قافلے کے اندر آیا اور اسکی میزبانی کی حالانکہ اس سے پہلے وہ کبھی نہیں نکلتا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کی بناء پر پہچان لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اللہ انہیں رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجے گا۔ ابو طالب نے کہا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا ” تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لئے جھک نہ گیا ہو اور یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ نہیں کرتیں"

یہ بات بی قابل ذکر ہے کہ قدیم تاریخی حوالہ جات محمّد بن اسحاق میں درختوں اور پتھروں کا سجدہ کرنے کا کوئی حوالہ نہیں ہے- البتہ مستدرک حاکم میں بیان ہوا ہے کہ بحيرا نے کہا- کوئی درخت اور پتھر ایسا نہ تھا جو سجدہ نہ کرتا ہو اور یہ سجدہ نہیں کرتے سوائے نبی کے- لیکن امام ذھبی رح اس کو کذب بیانی کہتے ہیں-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
مجھے اپنی پرانی فائلز میں سے ہاتھ کے لکھے ہوئے کچھ صفحات ملے جو کچھ دن پہلے دریافت ہوئے گو کہ میں اب ان میں سے کچھ امور سے اتفاق نہیں کرتا یعنی خود اپنی ہی باتوں سے لیکن بغرض افادہ درج کر رہا ہوں
حبیب الرحمن کاندھلوی کی تالیفات کا تحقیقی اورتنقیدی جائزہ
حبیب الرحمن کاندھلوی کا شمار پاکستان کے ان افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے روایات کی تحقیق میں اپنی عمر صرف کردی اور ان کی تحقیق کا مرکز عمومی طور پر وہ روایات تھی جنہیں علما نے مختلف اوقات میں اپنی تحقیقات کے ذریعے باطل قرار دے چکے تھے۔اور ان میں سے بیشتر روایات وہ تھی جن کا تعلق عقائد کے ان پہلوؤں سے تھا جس میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کو مشکوک کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔
کتاب و سنت کی تعلیمات کو مختلف شبہات کے ذریعے مشکوک ثابت کرنا یہ دشمنان اسلام کا ابتدا سے ہدف رہا جس میں مستشرقین نے بہت اہم کردار ادا کیا اور مستشرقین کے اس منفی کردار میں اسلام کے نام پر کی گئی تحقیق نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا جب ان لوگوں نے اپنی کتب میں ایسے حوالے پیش کرنا شروع کیے جس میں یہ دعوی کیے گئے تھے کہ وہ امور جن کو محدثین ،مفسرین اور فقہا اسلام نے صحیح قرار دیا ہے وہ درست نہیں ہیں ۔
امور میں سب سے پہلے تفسیری روایات پر بے محابا تنقید اور کتب احادیث پر بےجا تنقید اور آئمہ اسلام پر نکتہ چینی قابل ذکر ہیں ۔
ان تمام محاولات کا مقصد یہی تھا کہ اسلام کی حقانیت کو مسخ کیا جا سکے ۔لیکن ہر دور میں ایسی اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے نام پر جو تحقیقات کی گئیں ان کے بارے میں سچائی بیان کرنے کے لیے علما کی جہود و کاوشیں بھی ہمارے سامنے آتی رہی۔
اس مختصر مقال کا مقصد حبیب الرحمن کاندھلوی کو علی الاطلاق غلط یا کافر ثابت کرنا نہیں بلکہ حبیب الرحمن کاندھلوی کی تالیفات کا ایک عمومی جائزہ پیش کرنا ہے کہ ان کی علمی خدمات کا تعلق مثبت اور منفی دونوں امور سے ہے کہ جہاں انہوں نے بے شمار ضعیف داستانوں کا ضعف اردو داں طبقے کے لیے بیان کیا کہ اس سے پہلے وہ صرف عربی تک محدود تھی لیکن اس کے ساتھ اسلامی تعلیمات کےوہ مسلمات بھی ان کی تحقیق کی زد میں آگئے جو کہ کتاب وسنت سے ثابت تھے اور اس تحقیق نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ۔
زیر نظر مقال میں درج ذیل موضوعات کے تحت مطالعہ کیا جائے گا:
موضوع اول حبیب الرحمن کاندھلوی کے حالات زندگی
موضوع دوم تالیفات حبیب الرحمن کاندھلوی
موضوع ثالث تالیفات کاندھلوی اور اس کا تحقیقی جائزہ
موضوع چہارم تالیفات کاندھلوی کا ےتنقیدی جائزہ
نتیجہ بحث
جزاک الله -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
موضوع اول حبیب الرحمن کاندھلوی کے حالات زندگی
حافظ حبیب الرحمن کاندھلوی دسمبر ۱۹۲۴م میں دلی میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام مفتی اشفاق الرحمن کاندھلوی جو کہ مدرسہ اشرفیہ کے کتب خانہ کے منتظم تھے۔اور کچھ عرصہ ریاست بھوپال میںمفتی اعظم کی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کے خاندان میں حفظ قرآن مجید کا رجحان کثرت سے پایا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ خواتین میں بھی کافی حافظات موجود تھی ، لہذا آپ نے چھوٹی عمر یعنی ۹ سال کی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا ۔قرآن مجید کے حفظ کے بعد آپ نے عربی اور فارسی کی کتب اپنے والد سے اور مولوی ممتاز کاندھلوی سے پڑھیں۔
اور اس کے باقاعدہ تعلیم کے لیے مدرسہ فتحپوری دہلی میں داخل ہوئے اور کچھ گھریلو وجوہات کی بنا ء پر کچھ عرصے کے لیے تعلیم میں تعطل آیا اور ایک سال کے وقفہ کے بعد دہلی میں مدرسہ صدیقیہ میں ساتویں جماعت میں داخلہ لیا ۔اس مدرسہ کے سامنے نذیریہ لائبریری تھی جس میں تاریخی اور ادبی ناول اور دیگر کتب کثرت سے موجود تھی اس میں موجود تمام ناول اور اسلامی کتب کا مطالعہ آپ نے اس دوران کیا۔اس لائبریری کے مہتمم کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے کتب کا بہت بڑا ذخیرہ اس میں جمع تھا جس میں سیرت اور تاریخ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
مدرسہ سعیدیہ کے بعد دورہ حدیث مدرسہ عبد الوہاب دلی سے کیا جہاں صحاح ستہ مکمل کیں۔اور صرف و نحو پر عبور کی وجہ سے نصوص احادیث صحت کے ساتھ پڑھتے تھے۔اور آپ کا امتحان حضرت شبیر احمد عثمانی نے لیا اور فرمایا کہ میں نے اپنی زندگی میں حدیث میں اتنا ہوشیار بچہ نہیں دیکھا۔
۱۹۳۳ م میں آپ مدرسہ سے فراغت پائی اور کچھ عرصہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت گزارااور اس کے بعد ایک اہل حدیث مدرسہ میں عربی پڑھانے کے لیے تعیناتی ہوئی اس وقت آپ کی عمر صرف ۱۶ سال تھی لیکن مسلک کے اختلاف کی وجہ سے ۶ ماہ ہی جاری رکھ سکے۔
اس کے بعد مدرسہ محمودیہ چونڈیہ ضلع سیالکوٹ میں تعلیم حفظ قرآن میں ملازمت اختیار کر لی یہاں آپ نے ڈیڑھ سال تدریس کی اور پھر سیالکوٹ شہر میں کچھ عرصہ خطابت کی اور ایک ماہ بعد اسلامیہ ہائی اسکول گوجرانوالہ میں تدریس شروع کی اور یہاں سے حقیقت میں آپ کی علمی اور تحقیقی زندگی کا آغاز ہوتا ہے جب اسکول کے ساتھ ہی درس قرآن کا سلسلہ شروع کر دیاجو کہ ۱۹۴۶ م تک جاری رہا۔اور اس دوران تقسیم ہند کے ہنگاموں میں آپ نے مسلم لیگ کے ایک نظریاتی کارکن کی حیثیت سے بھی کام کیا اور تقسیم ہند سے کچھ ماہ قبل آپ اپنے آبائی شہر واپس آگئے۔اور وہاں سے کچھ عرصہ بھوپال میں بھی گزارا۔اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان ہجرت کی اور گوجرانوالہ میں دوبارہ اسی اسکول میں تدریس شروع کی جو کہ ۱۹۵۹ تک جاری رہی اور پھر آپ سندھ کے شہر ٹنڈو جام میں کچھ عرصہ رہے جہاں آپ نے احادیث اور فقہ کی کچھ کتب کا ترجمہ بھی کیا جس میں سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، موضوعات ملاعلی قاری اہم
ہیں۔اور وہاں سے کراچی منتقل ہو گئے لیکن کتب کا ترجمہ اور تالیفات جاری رہا۔جس احکام القرآن للجصاص ، کتاب الاذکار، حصن و حصین ، گلستان ، بوستان، قابل ذکر ہیں۔اور اس کے علاوہ بیشتر کتب پر انتہائی علمی مقدمات بھی تحریر کیے۔جس میں صحیح مسلم، مشکوة، تاریخ طبری بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
وفات:
حبیب الرحمن کاندھلوی نےبروز پیر ۸ اپریل ۱۹۹۱م میں کراچی میں وفات پائی۔[۱]
جزاک الله -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
محترم فیض الابرار صاحب -

بحیرا راہب کے قصّے سے متعلق مجھے کچھ یہ معلومات ملی ہیں -

بحيرا کی کتاب الفتن کے حوالے سے معروف ہے جس میں Apocalypse of Bahira الفتن کے حوالے سے کتاب بتایا گیا ہے کہ اس کی ملاقات نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہوئی اور اس کو کوہ طور پر مکاشفہ آیا کہ عربوں میں نبی آئے گا. اس کتاب کو شاید عیسائیوں نے تخلیق کیا کیونکہ بحيرا ایک نسطوری عیسائی تھا یعنی کیتھولک چرچ کا مخالف اور اس نے نبی کو عیسایت کے بارے میں معلومات دی تھیں یہ کردار اصل میں نبی صلی الله علیہ وسلم پر عیسائیوں کا بہتان تھا کہ انہوں نے اس راہب سے سیکھا تھا-

بیان کیا جاتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 12 برس تھے تو آپکے چچا ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر تجارت کی غرض سے ملک شام کے سفر پر نکلے اور بصرٰی پہنچے قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا- ایک عیسائی بنام بحیرا راہب خلاف معملول اپنے گرجا سے نکل کر قافلے کے اندر آیا اور اسکی میزبانی کی حالانکہ اس سے پہلے وہ کبھی نہیں نکلتا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کی بناء پر پہچان لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اللہ انہیں رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجے گا۔ ابو طالب نے کہا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا ” تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لئے جھک نہ گیا ہو اور یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ نہیں کرتیں"

یہ بات بی قابل ذکر ہے کہ قدیم تاریخی حوالہ جات محمّد بن اسحاق میں درختوں اور پتھروں کا سجدہ کرنے کا کوئی حوالہ نہیں ہے- البتہ مستدرک حاکم میں بیان ہوا ہے کہ بحيرا نے کہا- کوئی درخت اور پتھر ایسا نہ تھا جو سجدہ نہ کرتا ہو اور یہ سجدہ نہیں کرتے سوائے نبی کے- لیکن امام ذھبی رح اس کو کذب بیانی کہتے ہیں-


بحیرا راہب کا قصہ


بحيرا ایک فرضی کردار ہے جس کے وجود پر کوئی دلیل نہیں لیکن چونکہ

اس کا قصہ مبالغات پر مبنی ہے لہذا زبان زد عام ہے

معروف ہے جس میں Apocalypse of Bahira بحيرا کی کتاب الفتن کے حوالے سے کتاب

بتایا گیا ہے کہ اس کی ملاقات نبی صلی الله علیہ وسلم سے ہوئی اور اس کو کوہ طور پر مکاشفہ آیا کہ عربوں میں نبی آئے گا. اس کتاب کو شاید عیسائیوں نے تخلیق کیا کیونکہ بحيرا ایک نسطوری عیسائی تھا یعنی کیتھولک چرچ کا مخالف اور اس نے نبی کو عیسایت کے بارے میں معلومات دی تھیں یہ کردار اصل میں نبی صلی الله علیہ وسلم پر عیسائیوں کا بہتان تھا کہ انہوں نے اس راہب سے سیکھا تھا

بیان کیا جاتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 12 برس تھے تو آپکے چچا ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر تجارت کی غرض سے ملک شام کے سفر پر نکلے اور بصرٰی پہنچے قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا

ابن کثیر البداية والنهاية میں لکھتے ہیں

وذكر ابن عساكر ان بحيرا كَانَ يَسْكُنُ قَرْيَةً يُقَالَ لَهَا الْكَفْرُ بَيْنَهَا وَبَيْنَ بُصْرَى سِتَّةُ أَمْيَالٍ وَهِيَ الَّتِي يُقَالَ لها
(دير بحيرا)

حافظ ابن عَسَاكِرَ نے نے ذکر کیا ہے کہ بحيرا ایک بستی میں رہتا تھا جس کا نام کفر تھا اور اس بستی اور بصرہ میں چھ میل کا فاصلہ ہے اور اس کو دیر بحيرا کہا جاتا ہے


ایک عیسائی بنام بحیرا راہب خلاف معملول اپنے گرجا سے نکل کر قافلے کے اندر آیا اور اسکی میزبانی کی حالانکہ اس سے پہلے وہ کبھی نہیں نکلتا تھا۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کی بناء پر پہچان لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اللہ انہیں رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجے گا۔ ابو طالب نے کہا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا ” تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لئے جھک نہ گیا ہو اور یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ نہیں کرتیں

بَحِيرَا کے حوالے سے قدیم حوالہ سیرت محمّد بن اسحاق ہے جس میں درختوں اور پتھروں کا سجدہ کرنے کا کوئی حوالہ نہیں ہے

واقدی کی کتاب فتوح الشام میں ہے

ورأيت من دلائله أنه لا يسير على الأرض إلا والشجر تسير إليه


بَحِيرَا نے ان کی نبوت کے دلائل میں سے دیکھا کہ وہ نہیں گزرتے کسی زمین یا درخت پر جو ان کی طرف نہ بڑھتا ہو


البتہ مستدرک حاکم میں بیان ہوا ہے کہ بحيرا نے کہا

لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ، وَلَا حَجَرٌ، إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا تَسْجُدُ إِلَّا لِنَبِيٍّ


کوئی درخت اور پتھر ایسا نہ تھا جو سجدہ نہ کرتا ہو اور یہ سجدہ نہیں کرتے سوائے نبی کے


مستدرک میں اس روایت کی سند ہے کہ ابو موسیٰ الاشعری کہتے ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، ثنا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ، أَنْبَأَ يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى


ذھبی اس روایت پر مستدرک کی تعلیق میں کہتے ہیں أظنه موضوعا فبعضه باطل

میرا گمان ہے یہ گھڑی ہوئی ہے اور بعض باطل ہے

سجدہ کرنے کا جوایک حوالہ ملا تھا اس کو ذھبی نے گھڑی ہوئی روایت قرار دے دیا
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جزاک الله -

محترم فیض الابرار صاحب -

حبیب الرحمان کاندھلوی سے متعلق راے سے میں آپ سے ٩٠% متفق ہوں - مذہبی روایات پر تنقید کرتے ہوے وہ کافی حد تک بے باک ثابت ہوے ہیں لیکن مذہبی روایات سے متعلق ان کے دلائل اکثر مقامات پرقبل غور پر بلکہ دوسرے بہت سے علماء کی نسبت قابل ترجیح بھی ہیں - ہاں البتہ ان کا اسلوب غلط تھا-

یہ بات بھی بلکل صحیح ہے کہ "کسی کی صحیح بات کا صرف اس لیے انکار کریں کہ وہ صحیح بات کر ہی نہیں سکتا تو یہ اسلام کا موقف نہیں ہے وگرنہ کسی کی بات کو مکمل اور ہمیشہ قبول کرنا یہ بھی اسلام کا منھج نہیں ہے"-

آپ نے علامہ البانی رح کا ذکر کیا - اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ دور حاضر کے عظیم عالموں میں سے ایک ہیں - اور احادیث نبوی میں صحیح و ضعیف روایت کو الگ الگ کرنے اور اس پر اپنی مجتہدانہ راے پیش کرنے میں انہوں نے بڑا مدلل کام کیا ہے- لیکن یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اتنے بڑے محقق اور عالم کا موقف "عورت کے چہرے کے پردے" کے حکم کے بارے میں قرآن و حدیث کے بلکل برعکس تھا -وہ عورت کے چہرے کے پردے کے قائل نہیں تھے - اور دور حاضر کے ایک اسکالر جاوید احمد غامدی نے علامہ البانی رح کے اس نظریے کو اپنی تجدد پسند باطل آراء کے لئے اپنی ویب سائٹ پر ڈھال بنا کر پیش کیا ہے- اب میں نہیں جانتا کہ جو اہل حدیث ممبر ہر جگہ علامہ البانی رح کی دلیل کو حرف آخر سمجھتے ہیں وہ اس بارے میں کیا کہیں گے؟؟

آخر میں پوچھتا چلوں کہ کیا کاندھلوی صاحب ابھی بھی حیات ہیں اور آپ کی ان سے اکثر ملاقات رہتی ہے ؟؟؟
میری صرف تین مرتبہ ملاقات ہوئی تھی آخری ملاقات 1990 یا 1991 میں ہوئی تھی سن وفات کا علم نہیں کہ والد صاحب رحمہ اللہ کو جب علم ہوا تھا تو انہوں نے منع کر دیا تھا کہ ابھی ملاقات درست نہیں جب کچھ پڑھ لو تو پھر ملاقاتیں کرتے رہنا
 
شمولیت
اپریل 18، 2020
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
40
جزاک الله -

محترم فیض الابرار صاحب -

حبیب الرحمان کاندھلوی سے متعلق راے سے میں آپ سے ٩٠% متفق ہوں - مذہبی روایات پر تنقید کرتے ہوے وہ کافی حد تک بے باک ثابت ہوے ہیں لیکن مذہبی روایات سے متعلق ان کے دلائل اکثر مقامات پرقبل غور پر بلکہ دوسرے بہت سے علماء کی نسبت قابل ترجیح بھی ہیں - ہاں البتہ ان کا اسلوب غلط تھا-

یہ بات بھی بلکل صحیح ہے کہ "کسی کی صحیح بات کا صرف اس لیے انکار کریں کہ وہ صحیح بات کر ہی نہیں سکتا تو یہ اسلام کا موقف نہیں ہے وگرنہ کسی کی بات کو مکمل اور ہمیشہ قبول کرنا یہ بھی اسلام کا منھج نہیں ہے"-

آپ نے علامہ البانی رح کا ذکر کیا - اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ دور حاضر کے عظیم عالموں میں سے ایک ہیں - اور احادیث نبوی میں صحیح و ضعیف روایت کو الگ الگ کرنے اور اس پر اپنی مجتہدانہ راے پیش کرنے میں انہوں نے بڑا مدلل کام کیا ہے- لیکن یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اتنے بڑے محقق اور عالم کا موقف "عورت کے چہرے کے پردے" کے حکم کے بارے میں قرآن و حدیث کے بلکل برعکس تھا -وہ عورت کے چہرے کے پردے کے قائل نہیں تھے - اور دور حاضر کے ایک اسکالر جاوید احمد غامدی نے علامہ البانی رح کے اس نظریے کو اپنی تجدد پسند باطل آراء کے لئے اپنی ویب سائٹ پر ڈھال بنا کر پیش کیا ہے- اب میں نہیں جانتا کہ جو اہل حدیث ممبر ہر جگہ علامہ البانی رح کی دلیل کو حرف آخر سمجھتے ہیں وہ اس بارے میں کیا کہیں گے؟؟

آخر میں پوچھتا چلوں کہ کیا کاندھلوی صاحب ابھی بھی حیات ہیں اور آپ کی ان سے اکثر ملاقات رہتی ہے ؟؟؟
محترم ایک بات یہ ہے کہ چہرے کے پردہ کو کچھ علماء مستحب سمجھتے ہیں اور کچھ واجب۔ شیخ البانی رحمہ اللہ مستحب سمجھتے تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ بھی غالباً اسی وجہ سے مستحب سمجھتے ہیں۔ کیا رائے قائم کرنے کے لیے ان کے دلائل کا مطالعہ ضروری نہیں۔ میں نے ان کے دلائل کا مطالعہ نہیں کیا اور میں عالم بھی نہیں ہوں۔ تو کیا ایسی صورت کیا یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوگا کہ کچھ علماء واجب اور کچھ مستحب سمجھتے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 18، 2020
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
40
عقل پرستی ایسامرض ہے ،جس ظہور مختلف صورتوں میں ہوتا آیا ہے ۔
معتزلہ کو اس مرض کا اولیں شکار قرار دیا جاتا ہے ۔لیکن ان سے بھی پہلے اس پیچیدہ علت کے متاثر گزرے ہیں ۔
دور صحابہ کرام کے آخر میں خوارج اور ابن سباء کے پہلو بہ پہلو ایک آواز ۔معبد الجہنی۔ کی بھی سامنے آئی ۔اسے تقدیر کی احادیث
عقل کے خلاف نظر آتی تھیں ۔۔اس کے تعارف کےلئے اتنا کافی ہے تابعین جیسے عالی شان طبقہ کی صحبت سے فیضیاب ہو چکا تھا

اور اس کی علمی حالت جاننے کےلئے صحیح مسلم کی پہلی حدیث میں راوی کے الفاظ ہیں ’’ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ،
کہ قرآن سے انہیں بڑا لگاو ہے ۔ہر وقت اس کی تلاوت و مطالعہ میں لگے رہتے ہیں ،اور علمی باریکیوں اور موشگافیوں کے دلدادہ ہیں ۔


ان کا عقیدہ تھا کہ (( يزعمون ألا قدر, وأن الأمر أنف، أي: مستأنف لم يسبق لله - تعالى - فيه علم, ))
عالم وجود میں کوئی کام ،کوئی چیز ،تقدیر ۔یعنی مشیت الہیہ سے نہیں ۔بلکہ وجود میں آنے کے بعد اس کے علم میں آتی ہے ‘‘

اور بقول کسے :۔۔من دعاة الحريّة و الاختيار، اس امت میں انسانی آزادی و اختیار کے علمبر دار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب مماثلت ہے کہ ہمارے دور کے اپنی عقل کے غلام،بھی قرآن کا نام لے کراور دیگر ادبی علوم کا کو ڈھال بناکر
احادیث صحیحہ کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں ۔۔کبھی حدیث ان کی نظر میں قرآن کے خلاف ہوتی ہے ،تو کبھی ان کی عقل کے خلاف۔


حبیب الرحمن کاندھلوی ،چونکہ مولوی اشفاق الرحمن دیوبندی کے فرزند تھے ۔اور علامہ زاہد الکوثری کے محدثین دشمنی کے ہتھیار
ان کے گھر میں پڑے تھے ۔
سو کاندھلوی صاحب کوثری ہتھیاروں کو نئی سان پر لگا کریہی کا م رجال حدیث کی آڑلے کر کیا کرتے تھے۔


اور ایک فاضل نے ٹھیک کہا ہے :
’’ جو حدیث جناب کو پسند نہیں آئی اس پر کسی عالم کا کوئی قول دکھا کر اسے” موضوعات کے مردہ خانے“ میں ڈال دیا۔ مولانا عبد المعید مدنی ( علی گڑھ) ان کے متعلق لکھتے ہیں :
”حدیث کے متعلق تشکیک پیدا کرنے والا ایک گروہ اور تھا اس نے رجال حدیث اور اصول حدیث سے ہمیشہ کھلواڑکیا۔اس کی کہانی عمر کریم پٹنوی اور نیموی سے شروع ہوتی ہے اور حبیب الرحمن کاندھلوی تک پہنچتی ہے ۔ان کی تان عام طور پر رجال حدیث پر ٹوٹتی ہے وہ ثقہ رواة کو مسترد قرار دینے میں اپنی من مانی کرنے کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور ان کا من بھاتا اور پسندیدہ موضوع صحیحین کے رجال ہیں ۔ اس قبیلے کا آخری سر خیل حبیب الرحمن کاندھلوی ہے جس نے ” مذہبی دا ستانیں “کے نام سے تین جلد میں کتاب لکھی اور من مانی رجال صحیحین کو اپنی بے جا تجریح کا نشانہ بنایا ۔یہ وہی کتاب ہے جس کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی نے کہا تھا کہ لوگو گواہ رہو میرا نظریہ وہی ہے جو اس کتاب کے مصنف کا ہے اور میرے ماننے والوں کو اسے پھیلانا واجب ہے ۔“(علوم الحدیث :مطالعہ و تعارف صفحہ :53 )
صحیحین کی جن احادیث پر تنقید کی گئی ہے ان کے دفاع میں مشہور اہل حدیث عالم دین مولاناارشاد الحق اثری نے مستقل کتاب لکھی ہے:”احادیث بخاری و مسلم کو مذہبی داستانیں بنانے کی ناکام کوشش“…
محترم باقی سب باتیں اپنی جگہ درست سہی لیکن کیا ہر وقت عقل کو مورد الزام ٹھہرانا کوئی اچھا کام ہے؟ یہ عقل و شعور یعنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت آخر اللہ ہی کی عطا کردہ ہے۔ دین بھی تو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ عقل و شعور کے بغیر غور و فکر کیسے کریں گے؟
 
Top