اقض بینی وبین ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن۔ (مسلم ، رقم ۴۵۷۷)
اس روایت کے بارے میں تو امام نووی واضح طور فرما رہے ہیں کہ :
ھذا اللفظ الذی وقع لا یلیق ظاہرہ بالعباس وحاش لعلی ان یکون فیہ بعض ھذہ الاوصاف فضلا عن کلھا ولسنا نقطع بالعصمۃ الا للنبی ولمن شھد لہ بہا لکنا مامورون بحسن الظن بالصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم اجمعین ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا۔(النووی، شرح صحیح مسلم ۱۲/ ۷۲ )
’’اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس سے صادر نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ سیدنا علی کی ذات میں ان میں سے کوئی ایک وصف بھی پایا جائے، چہ جائیکہ تمام اوصاف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے علاوہ جن کے بارے میں آپ نے جھوٹ سے محفوظ ہونے کی شہادت دی ہے، ہمارا کسی کے بارے میں بھی معصوم ہونے کا عقیدہ نہیں ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ صحابہ کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور ہر بری بات کی ان سے نفی کریں۔ چونکہ روایت میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ، اس لیے ہم اس روایت کے راویوں کو ہی جھوٹا قرار دیں گے۔
لیکن علماء پرستی کے چکر میں آپ کا فہم یہ کہہ رہا ہے کہ : روایت تو صحیح ہے لیکن الفاظ کا مطلب ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن وہ نہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں- ؟؟؟ جب کہ دوسری طرف قرون اولیٰ کے محدث مسلم کی اس روایت کو صرف اس بنا پر رد کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں : ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا -چونکہ روایت میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ، اس لیے ہم اس روایت کے راویوں کو ہی جھوٹا قرار دیں گے۔
کاش اہل سنّت، روایات کو پرکھنے کے دوران اس آیت کے معنی کو بھی مد نظررکھیں:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ سوره توبہ ٣١
انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا اپنا رب بنا لیا-
آپ بھی روایات رد کرنے سے پہلے اس آیت پر غور کیا کریں :
أرءیت من اتخذ الہہ ہواہ
اگر علامہ مازری وغیرہ نے ان الفاظ کو راویوں کا وہم قرار دیا ہے تو اس سے پہلے امام مسلم اور ان کے اساتذہ نے اس کو روایت کو درست بھی قرار دیا ہے ۔
اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب متقدمین و متاخرین میں اختلاف ہوگا تو رد دلیل سے ہوگا نہ اپنے فہم سے ۔ اگر قاضی عیاض نے روایت کو رد کرنے کی کوئی معقول وجہ ذکر کی ہے ، تو ہم ماننے کے لیے تیار ہیں ، صرف اندازہ لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ اس طرح تو کوئی بھی کسی روایت میں اٹکل پچو لگا کر اس کو رد کردے گا۔
اور پھر ایک اور بات :
ایک ہے صحابہ کے بارے میں ہمارا حسن ظن اورسوچ ، اس بارے میں میں آپ سے متفق ہوں ، کہ ان کے بارے میں کوئی غلط تصور نہیں کرنا چاہیے ۔
دوسری بات ہے کہ صحابہ کرام کا آپس میں تعامل ، تواگر ایک صحابی نے دوسرے صحابی کے بارے میں قابل اعتراض الفاظ کہیں ہیں تو وہ خود بھی تو صحابی ہے ، اس کا ہم عصر اور ہم مرتبہ ہے ۔ جب ہم صحابہ کرام کو معصوم نہیں سمجھتے تو پھر انسانی تقاضوں اور بشری طبائع سے وجود میں آنے والی لغزشوں کا سہرا راویوں کےسر کیوں باندھنے پر تلے ہوئے ہیں ؟
پھر میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کو مسلم کی روایت میں پورے واقعے پر اعتراض ہے یا پھر صرف ان دو چار الفاظ پر ہی اعتراض ہے ؟