بالکل غلط بات ہے ، محدثین کا یہ منہج بالکل نہیں ہے ۔ اگر محدثین کا یہ منہج ہوتا تو آپ کو ایسی روایات صحاح کے ضمن میں نظر نہ آتیں ۔
اور پھر یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ محدثین جن روایات کا معنی و محمل صحیح معلوم نہ ہوسکے ان کو رد نہیں بلکہ ان پر توقف اختیار کرتے تھے ۔ گویا محدثین تحقیقی اعتبار سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد ، اپنے آپ کو ’’ کل خاں ‘‘ سمجھتے ہوئے نہ سمجھ آنی والی باتوں کو رد کرنے کی بجائے اپنے علم و فہم میں قصور کا اعتراف کیا کرتے تھے ۔ علوم حدیث میں موجود ’’ مختلف الحدیث ‘‘ وغیرہ بحث میں ایسی مثالیں موجود ہیں ۔
بلکہ خود نص نبوی سے یہ بات ثابت ہے ’’ رب حامل فقہ غیر فقیہ ‘‘ اور ’’ فرب مبلغ أوعی لہ من سامع ‘‘ ان الفاظ میں یہ معنی موجود ہے کہ بعض دفعہ روایت کرنے والا الفاظ کےمعنی و مفہوم سے کما حقہ واقف نہیں ہوتا ،لیکن بعد والے اس کو بہتر طور پر سمجھ جاتے ہیں ۔
کتنی ایسی روایات ہیں ، جن کا معنی کسی ایک عالم دین کو سمجھ نہیں آتا ، یا اس میں اسے کوئی خلاف شرع بات محسوس ہوتی ہے ، لیکن بعد والے اہل علم و فضل اس کا لائق معنی و مفہوم بیان کردیتے ہیں ۔
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ جو کہہ رہے ہیں تو یہ بھی سمجھ کی غلطی ہے ، جس طرح محدثین راویوں پر اور روایات نقد کرتے ہیں ، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی روایات پر جرح کیا کرتی تھیں ، گویا ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات بیان کرنے میں صحابی کو غلطی لگ جاتی تھی ، جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنی ہوئی باتوں کی روشنی میں پرکھا کرتی تھیں۔ اور یہ اصول محدثین کے ہاں بھی موجود ہے کہ وہ راویوں کی روایات میں ’’ احفظ ، اوثق ، الزم ‘‘ کا خیال کرتے ہوئے ترجیح دیا کرتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔
اوپر آپ نے اسحاق سلفی صاحب کی تحقیق کا شکریہ کس بنیاد بر ادا کیا ہے ۔؟
اس میں یہی لکھا ہوا ہے کہ کئی ابن سبا کے بارے میں کئی روایات ایسی ہیں جن میں سیف کا نام و نشان بھی نہیں ہے ۔
گویا ابن سبا کے وجود کے بارے میں سیف کی روایات پر ہی اعتماد نہیں ہے ۔
ویسے آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ کو ابن سبا کے وجود سے انکار نہیں ، گویا آپ کے نزدیک ابن سبا کا وجود تھا ، آپ کی یہ رائے کس بنیاد پر ہے ۔؟
محترم -
جن روایت کے معنی محدثین پر واضح ہوتے تھے کیا ان کے بارے میں بھی وہ توقف اختیار کرتے تھے؟؟؟ جیسے یہ روایت-
اقض بینی وبین ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن۔ (مسلم ، رقم ۴۵۷۷)
اس روایت کے بارے میں تو امام نووی واضح طور فرما رہے ہیں کہ :
ھذا اللفظ الذی وقع لا یلیق ظاہرہ بالعباس وحاش لعلی ان یکون فیہ بعض ھذہ الاوصاف فضلا عن کلھا ولسنا نقطع بالعصمۃ الا للنبی ولمن شھد لہ بہا لکنا مامورون بحسن الظن بالصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم اجمعین ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا۔(النووی، شرح صحیح مسلم ۱۲/ ۷۲ )
’’اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس سے صادر نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ سیدنا علی کی ذات میں ان میں سے کوئی ایک وصف بھی پایا جائے، چہ جائیکہ تمام اوصاف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے علاوہ جن کے بارے میں آپ نے جھوٹ سے محفوظ ہونے کی شہادت دی ہے، ہمارا کسی کے بارے میں بھی معصوم ہونے کا عقیدہ نہیں ہے۔ ہمیں حکم ہے کہ صحابہ کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور ہر بری بات کی ان سے نفی کریں۔
چونکہ روایت میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ، اس لیے ہم اس روایت کے راویوں کو ہی جھوٹا قرار دیں گے۔
لیکن علماء پرستی کے چکر میں آپ کا فہم یہ کہہ رہا ہے کہ : روایت تو صحیح ہے لیکن الفاظ کا مطلب
ھذا الکاذب الآثم الغادر الخائن وہ نہیں جو ہم سمجھ رہے ہیں- ؟؟؟ جب کہ دوسری طرف قرون اولیٰ کے محدث مسلم کی اس روایت کو صرف اس بنا پر رد کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں :
ونفی کل رذیلۃ عنھم واذا انسدت طرق تاویلھا نسبنا الکذب الی رواتھا -چونکہ روایت میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ، اس لیے ہم اس روایت کے راویوں کو ہی جھوٹا قرار دیں گے۔
کاش اہل سنّت، روایات کو پرکھنے کے دوران اس آیت کے معنی کو بھی مد نظررکھیں:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ سوره توبہ ٣١
انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا اپنا رب بنا لیا-