اسلام و علیکم
ابھی پچھلے دنوں ایک کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا "مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت" مصنف مولانا حبیب الرحمان کاندھلوی
مصنف نے اپنی اسس کتاب میں اسما رجل کی روشنی میں اکثر بیشتر روایت کو من گھڑت اور الله کی نبی صل الله الہ وسلم پر بہتان قرار دیا ہے-وہ کہتے ہیں کہ خلفا راشدین کا مبارک دور کے بعد تاریخ نویسی کا زیادہ تر حصّہ عربوں کے بجایے عجمی مورخ ک پاس آیا اور عربوں سےبدلہ لینے ک لئے انھوں نے احادیث اور صحابہ رضی الله کے مبارک ہستیوں کے کردار کو اچھے طر ہان مسخ کیا -اور اسس طریقے سے وہ سادہ لوح مسلمانوں ک دلوں میں شکوک اور شبھات ڈالنے میں پوری طر ہان کامیاب رہے.
مصنف کی نزدیک صرف سہی بخاری اور سہی مسلم اور ابو داود ہی قابل اعتبار احدیث کی کتابیں ہیں.باقی کتابیں اسس قابل نہیں کا ان کی ہر روایت کو آنکھیں بند کر کے قبول کر لیا جائے.-
مصنف کے نزدیک:
حضرت علی رضی الله عنہ سے متعلق اکثر بیشتر رویات من گھڑت ہیں
شب برات سے متعلق رویات جھوٹی ہیں
حضرت آ یشہ رضی الله عنہا کی نبی کرم صل الله آلہ وسلم سے شادی کے وقت عمر مبارک سے متعلق رویت من گھڑت ہیں
حضرت عمر رضی الله عنہ کا اسلام لانے سے پہلے اپنی بھن کو پیٹنا من گھڑت ہیں
امام مہدی رحمللہ کا قیامت کے نزدیک ظہور عجمی سازش اور جھوٹ پر مبنی ہے (سہی بخاری اور سہی مسلم اور ابو داوود امام مہدی سے متعلق روایات سے خالی ہیں )
قرآن کی سورتوں کی فضیلت سے متعلق روایات جھوٹی ہیں (صرف سورہ ملک کی قبر کے عذاب سے بچانے والی رویات سہی ہے )
مولا علی والی رویات من گھڑت ہے
نبی کریم صل الله آلہ وسلم کا بچپن میں چاند سے باتیں کرنے والی رویات اور ایک نجومی کا آپ صل الله آلہ وسلم کو دیکھ کر قتل کرنے ارادہ کرنا جھوٹی رویات ہیں.
ایک درود پڑھنے پر ٨٠ سال ک گناہ معاف ہونے والی رویت نبی صل الله آلہ پر بہتان ہے
حضرت حسسیں اور حضرت حسن رضی الله عنہ کا جنّت نوجوانوں کا سردار ہونے والی رویت من گھڑت ہے
غرض بہت سی ایسے رویات ہمارے ہاں مشور ہو چکی ہیں..جو مصنف ک نزدیک مکمل من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی ہیں
اگرچہ میں مصنف سے مکمل طور پر متفق نہیں لیکن پھر بھی یہ ایک آ نکھیں کھول دینے والی کتاب ہے -
نوٹ : مصنف ک بارے میں اکثرلوگوں کا خیال ہے کا مصنف منکر حدیث ہیں.. لیکن انھوں نے اپنی کتاب اسما رجال کی روشنی میں لکھی ہے
مکتبہ اصلاحی و غامدی کے بارے میں تو احباب جانتے ہی ہیں، ان کے بارہ میں مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے بڑے نپے تلے انداز میں فرمایا تھا کہ " یہ حضرات منکرین حدیث تو نہیں، مگر انکی فکر کا نتیجہ انکار حدیث کے چور دروازے کھولتا ہے"۔ فکر فراہی کا گہرا مطالعہ کرنے والے احباب اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا فراہی سے اصلاحی، اور اصلاحی سے غامدی کا صفر کس قدر باہمی اختلافات سے بھرا پڑا ہے، اور اس اختلاف کو یہ حلقہ احباب فکر فراہی کی تجدید و ارتقاء کا نام دیتے ہیں۔ اسی ارتقاء کا پرچار کرنے والا غامدی صاحب کا رسالہ اشراق ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے اشراق کے ایک مضمون میں مولانا اصلاحی کا یہ "سنہری" قول بھی درج ہے جسے اسی کتاب کے حوالے سے درج کیا گیا ہے:
"مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے فرمایا ۔کہ میں نے زندگی میں صرف دو آدمی اس لفظ علامہ کے مستحق دیکھے ہیں ۔ ایک علامہ عباسی مرحوم اور دوسرے علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی ۔ اور جب انہوں نے براہ راست ’’مذہبی داستانیں ‘‘ کا مطالعہ کیا تو اپنے حلقہ احباب سے فرمایا:
’’سب سن لو اگر تم نے ان کتابوں کو جگہ جگہ پھیلانے میں کوتاہی کی تو تم اللہ کے مجرم ہوگے‘‘
(مذہبی داستانیں جلد۳‘ ص۶)"
مولانا اصلاحی کو ایک بار جامعہ لاہور اسلامیہ کے حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ نے انکی تفسیر کی تکمیل پر مبارکباد دی اور ان سے ملاقات کر کہ انکار حدیث اور غلام احمد پرویز کے رد میں علمی کام کرنے کی طرف توجہ دلائی، جس پر مولانا کا ری اکشن حافظ صاحب کی ذبانی ہی پڑہیں:
"
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مستشرقین کا نظریۂ ’انکارِ حدیث ‘ جس کا پاکستان میں ترجمان مسٹر غلام احمد پرویز ہے، اسے ’قذافی‘کی شکل میں اقتدار کی قوت سے نفوذ دینے والا بھی میسر آگیا ہے لہٰذا اب خدمت ِحدیث کا بڑا کام یہ ہوگا کہ مسٹر غلام احمد پرویز کے نظریات اور مغالَطوں کا جواب دیاجائے جو آپ جیسا ’عالم دین ‘ بخوبی کر سکتا ہے جبکہ آپ اب تفسیر قرآن کی خدمت سے بھی فارغ ہو چکے ہیں۔ میں یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ مولانا مرحوم کے احبابِ خاص کی ایک ٹولی وہاں پہنچ گئی ۔جس پر مولانا موصوف طیش میں آگئے اور مجھے مخاطب کر کے (میرے مشورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ) کہنے لگے کہ میں اس (حدیث کی حمایت کا مشورہ دینے والے ) کو کچلنا چاہتا ہوں "
منکرین حدیث کی کڑیاں کہاں کہاں سے ملتی ہیں، اسے کھلے ذہن سے تحقیق کرنے والا شخص جلد ہی پہچان لیتا ہے۔ ان لوگوں کی تھقیقی کتب سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر لکھے رد کو بھی پڑھنا چاہیئے۔ ورنہ بلا تحقیق اپنی من پسند تحقیق کو قبول کر کے اس سے "اتفاق" کرے گا، اور جو اپنے پہلے سے ہی بنائے گئے مخصوص عقائد اور نظریئے کے خلاف تحقیق ہوگی، اس سے "اختلاف" کرے گا۔ نہ کوئی اصول، نہ کوئی حدود۔
کاندھلوی صاحب کی اس کتاب سے جہاں اچھی باتیں ملتی ہیں، وہاں کچھ مذید منفرد باتیں بھی ملتی ہیں۔ جیسا :
کاند ھلوی صاحب حضرت حسن ؓ کو صحابی تسلیم نہیں کرتے ، لکھتے ہیں۔ ’’ نہ آپ حضرت فاطمہ ؓ کی پہلی اولاد ہیں اور نہ اصولی طور پر آپ کو شرف صحابیت حاصل ہے ‘‘مذہبی داستانیں جلد۱ ‘ ص ۲۸۷
باقی رہی انکی رجال پر جرح و تعدیل اور محدثین کے منہج پر کاربند رہنے کی بات، تو اس کے بارے مولانا ارشاد الحق اثری نے ایک راوی نضربن محمد الیمامی کی تحقیق کے بارے لکھا:
کاند ھلوی صاحب کا مبلغ علم
انہی جناب علامہ ‘ ماہر تاریخ ‘ محقق و نقاد صاحب کی لن ترانیوں کا دائرہ تو بڑا وسیع ہے ۔ ان کے مطالعہ کی معراج کا اندازہ کیجئے نضربن محمد الیمامی کے بارے لکھتے ہیں۔
’’ ہم نے اس کا حال بھی بہت تلاش کیا لیکن حافظ ذہبی ؒ کے علاوہ کسی نے اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ (۱) حافظ ذہبی ؒ نے صرف اتنی بات پر اکتفاء کی کہ عکرمہ سے احادیث روایت کرتا ہے یمامی ہے صرف عجلی نے اسے ثقہ کہا ہے ۔ لیکن اگر واقعۃً یہ ثقہ تھا تو حافظ ذہبی کو میزان میں اس کا تذکرہ ہی نہ کرنا چاہیے تھا ۔ (۲) کیونکہ میزان میں ان راویوں کے حالات بیان کئے گئے ہیں جن کو ضعیف کہا گیا ہے ( ۳)گویا یہ سب کے نزدیک توثقہ نہیں ابن ابی حاتم نے اس کا ذکر کر کے سکوت اختیار کیا ہے اور اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں دیا جس کے باعث اس کی جانب سے ایک غیر اطمینانی کی صورت پیدا ہوگئی ۔ لیکن الجرح والتعدیل میں اس کا ذکر یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ صعیف ہے ۔(۴) ‘‘
(مذہبی داستانیں جلد ۲‘ ص ۷۴‘ ۷۵)
نضر بن محمد الیمامی کا ترجمہ انہیں نہیں ملا
جناب کاند ھلوی صاحب کے الفاظ پر غور فرمائیے ۔ حیرت ہے کہ فرماتے ہیں ’’ بہت تلاش کیا لیکن حافظ ذہبی ؒ کے علاوہ کسی نے اس کا تذکرہ تک نہیں کیا ‘‘ جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے التاریخ الکبیر ( ج ۸‘ ص ۸۹) میں ‘ امام العجلی نے تاریخ الثقات ( ص ۹۴۴) میں ‘ امام مسلم نے الکنی ( ج ۲ ‘ ص ۷۵۰) میں امام ابن حبان نے کتاب الثقات ( جلد ۷ ‘ ص ۵۳۵) میں ‘ امام ابن ماکو ؒ لانے الاکمال (جلد ۲ ‘ ص ۲۳۶) میں ‘ علامہ السمعانی نے الا نساب ( جلد ۲ ‘ ص ۲۵) میں ‘ علامہ المزی ؒ نے تہذیب الکمال ( جلد ۱۹ ‘ ص ۹۳ ) میں ‘ حافظ ابن حجر ؒ نے تہذیب ( جلد ۱۰ ‘ ص ۴۴۴) اور تقریب ( ص ۵۲۳) میں ‘ علامہ الذہبی ؒ نے الکاشف ( جلد ۳ ‘ ص ۲۰۴) اور المتقنی فی سروالکنی جلد ۲ ‘ ص ۵۱ میں ‘ الخز رجی نے خلاصہ تہذیب الکمال ( جلد ۳ ‘ ص ۹۵) میں ‘ حافظ ابن القیسرانی ؒ نے الجمع بین رجال البخاری و مسلم ( جلد ۲ ‘ ص ۵۳۰) میں ان کا ذکر کیا ہے اور ان کتابوں میں کوئی ایک جملہ بھی اس کی تضعیف کے بارے میں منقول نہیں امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ کا اپنی الصحیح میں اس سے روایت لینا اس کی دلیل ہے کہ ان دونوں کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہے۔ مگر غور فرمایا آپ نے کہ ہمارے مہربان ’’ ماہر تاریخ و محقق و نقاد ‘‘ کو میزان کے علاوہ اور کہیں اس کا تذکرہ نہیں ملا ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سنا ہے کہ پتھر تب یہی بکتا ہے جب دال میں ملا کر بیچا جایئے، خالص باطل کی ترویج ممکن نہیں، جب تک کہ کچھ حق کے ساتھ ملا کر پیش نہ کیا جائے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے، آمین۔