جزاک الله -
محترم فیض الابرار صاحب -
حبیب الرحمان کاندھلوی سے متعلق راے سے میں آپ سے ٩٠% متفق ہوں - مذہبی روایات پر تنقید کرتے ہوے وہ کافی حد تک بے باک ثابت ہوے ہیں لیکن مذہبی روایات سے متعلق ان کے دلائل اکثر مقامات پرقبل غور پر بلکہ دوسرے بہت سے علماء کی نسبت قابل ترجیح بھی ہیں - ہاں البتہ ان کا اسلوب غلط تھا-
یہ بات بھی بلکل صحیح ہے کہ "کسی کی صحیح بات کا صرف اس لیے انکار کریں کہ وہ صحیح بات کر ہی نہیں سکتا تو یہ اسلام کا موقف نہیں ہے وگرنہ کسی کی بات کو مکمل اور ہمیشہ قبول کرنا یہ بھی اسلام کا منھج نہیں ہے"-
آپ نے علامہ البانی رح کا ذکر کیا - اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ دور حاضر کے عظیم عالموں میں سے ایک ہیں - اور احادیث نبوی میں صحیح و ضعیف روایت کو الگ الگ کرنے اور اس پر اپنی مجتہدانہ راے پیش کرنے میں انہوں نے بڑا مدلل کام کیا ہے- لیکن یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اتنے بڑے محقق اور عالم کا موقف "عورت کے چہرے کے پردے" کے حکم کے بارے میں قرآن و حدیث کے بلکل برعکس تھا -وہ عورت کے چہرے کے پردے کے قائل نہیں تھے - اور دور حاضر کے ایک اسکالر جاوید احمد غامدی نے علامہ البانی رح کے اس نظریے کو اپنی تجدد پسند باطل آراء کے لئے اپنی ویب سائٹ پر ڈھال بنا کر پیش کیا ہے- اب میں نہیں جانتا کہ جو اہل حدیث ممبر ہر جگہ علامہ البانی رح کی دلیل کو حرف آخر سمجھتے ہیں وہ اس بارے میں کیا کہیں گے؟؟
آخر میں پوچھتا چلوں کہ کیا کاندھلوی صاحب ابھی بھی حیات ہیں اور آپ کی ان سے اکثر ملاقات رہتی ہے ؟؟؟
محترم عثمان بھائی -
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں کاندھلوی صاحب کا پرستار نہیں ہوں - لیکن میرا موقف یہ ہے کہ جہاں وہ صحیح ہیں ان کو صحیح سمجھا جائے اور جہاں وہ غلط ہیں ان کو غلط سمجھا جائے- وہ خود لکھتے ہیں کہ علماء مجھے منکرین حدیث سمجھتے ہیں لیکن میری تحقیق بھی ان ہی راویوں کے گرد گھومتی ہے جن کے بارے میں علماء خود یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ تاریخی اعتبار سے معتبر نہیں-
جہاں تک غامدی ، فراہی ، اصلاحی وغیرہ کا تعلق ہے تو میں کافی حد تک آپ سے متفق ہوں - لیکن یہ یہی مفکر جب دور حاضر کے کسی محدث کو ڈھال بنا کر اپنے نظریات کا دفا ع کریں تو پھربتائیں کہ ان کا رد کس طرح کیا جائے؟؟؟-
میں نے یہاں علامہ ناصر البانی رح کے بارے میں لکھا تھا کہ :
"آپ نے علامہ البانی رح کا ذکر کیا - اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہ دور حاضر کے عظیم عالموں میں سے ایک ہیں - اور احادیث نبوی میں صحیح و ضعیف روایت کو الگ الگ کرنے اور اس پر اپنی مجتہدانہ راے پیش کرنے میں انہوں نے بڑا مدلل کام کیا ہے- لیکن یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اتنے بڑے محقق اور عالم کا موقف "
عورت کے چہرے کے پردے" کے حکم کے بارے میں قرآن و حدیث کے بلکل برعکس تھا -وہ عورت کے چہرے کے پردے کے قائل نہیں تھے - اور دور حاضر کے ایک اسکالر
جاوید احمد غامدی نے علامہ البانی رح کے اس نظریے کو اپنی تجدد پسند باطل آراء کے لئے اپنی ویب سائٹ پر ڈھال بنا کر پیش کیا ہے- اب میں نہیں جانتا کہ جو اہل حدیث ممبر ہر جگہ علامہ البانی رح کی دلیل کو حرف آخر سمجھتے ہیں وہ اس بارے میں کیا کہیں گے؟؟"
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم احناف کو تو برا بھلا کہتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے امام کے جامد مقلد ہیں لیکن ہم خود اہل سلف کا حال بھی ان سے زیادہ مختلف نہیں ہے -ہم بھی اپنے پسندیدہ عالم کی غیر ارادی طور پر جامد تقلید ہی کرتے نظر آتے ہیں اور اور دوسروں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم ہر معاملے میں قرآن و حدیث کو فوقیت دیتے ہیں- اور محدثین و مجتہدین کی غلطیوں سے صرف نظر کرجاتے ہیں - وہ انسان تھے اور اہل تشیع اور احناف کے اماموں کی طرح معصوم نہیں تھے- یہ طرز عمل صحیح نہیں- اسی بنا پر ہم اہل سلف خود تنقید کا نشانہ بنتے ہیں -