• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کے دلائل

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
مصنف ابن ابي شيبه : 2701
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : " إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَحْتَفِزْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا " .
محترم! راویوں کی لڑی کچھ یوں ہے؛
ابوبکر نے ابو الاحوص سے اس نےابی اسحاق سے اس نے حارث سے اس نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔

الحارث الاعور جمہور محدثین کے نزدیک سخت مجروح راوی ہے. اور جس راوی (ابو اسحاق السبیعي) سے یہ روایت کررہا ھے اُس نے خود اسے کذاب کہا ھے.
محترم! اس ملون فقرہ کا مفہوم سمجھا دیں۔ یہ آپ نے اپنے فہم سے لکھا ہے یا کاپی پیسٹ کیا ہے؟

محترم! یہ کیسا راوی ہے کہ جسے ”کذوب“ کہہ رہا ہے اسی سے روایت بھی کر رہا ہے!!!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
حناف سے گزارش ھے، اپنے دعویٰ اور عمل پر صرف اک صحیح صریح غیر معارض دلیل پیش کردیں ،
حدثنا أبو بكر قال: نا أبو عبد الرحمن المقري، عن سعيد بن (ابی) أيوب، عن يزيد بن (ابی) حبيب، عن بكير بن عبد الله بن الأشج، عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة، فقال: «تجتمع وتحتفر»
مصنف ابن ابی شیبہ 2۔505 ط علوم القرآن


کیا اس روایت پر بھی کوئی جرح ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم! یہ کیسا راوی ہے کہ جسے ”کذوب“ کہہ رہا ہے اسی سے روایت بھی کر رہا ہے!!!
محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ درس نظامی کے کون سے درجے میں ہیں؟ اور کس مدرسے میں؟
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
حد یث نمبر7
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ ، فَقَالَ : " تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ " .[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا ؟ رقم الحديث: 2702]

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے عورت کی نماز کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اکٹھی ہو کر اور خوب سمٹ کر نماز پڑھے۔ ( منصف ابن ابی شیبہ ج1ص270, كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا؟ رقم الحديث: 2702)

اس روایت میں موقع و محل بیان نہیں ہوا کہ عورت کب مجتمع ہو اور سکڑے؟ کیا قیام میں مجتمع/ سکڑا جاسکتا ھے جیسا کہ احناف کی عورتیں سجدے میں ہوتی ھیں؟ نیز یہ روایت بھی منقطع ھے ملاحظہ ھو:

مصنف ابن ابي شيبة : 2702
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِي ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ ، فَقَالَ : " تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ " .

یہ روایت بکیر بن عبدالله بن الاشج نے سیدنا ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے بیان کی ہے ۔ دیکھئے مصنف ابن ابي شیبة : 2702
بکیر کی سیدنا ابن عباس ؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔ حاکم کہتے ہیں کہ :”لم یثبت سماعه من عبدالله بن الحارث بن جزء و إنما روایته عن التابعین”
عبداللہ بن حارث بن جزء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ متوفی ۸۸؁ھ ) سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے۔ اس کی روایت تو صرف تابعین سے ہے ۔ [تہذیب التہذیب ج ۱ ص ۴۹۳، دوسرا نسخہ ص ۴۳۲]
یاد رہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۶۸؁ھ میں طائف میں فوت ہوئے تھے۔ جب ۸۸؁ھ میں فوت ہونے والے صحابی سے ملاقات نہیں تو ۶۸؁ھ میں فوت ہونے والے سے کس طرح ثابت ہوسکتی ہے ؟
نتیجہ: یہ سند منقطع (یعنی ضعیف و مردود ) ہے ۔ سخت حیرت ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے پاس اتنی ضعیف و مردود روایات کس طرح جمع ہوگئی ہیں ؟ غالباً ان لوگوں کو بہت محنت کرنا پڑی ہوگی، والله اعلم


ان موضوع مقطوع غیر مستند اقوال کے برخلاف رسول الله صلی الله علیه وسلم کا صحیح فرمان دیکھئیے:
صحیح البخاری: 822 صحیح مسلم : 493
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلاَ يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ ‏"‏‏.‏
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو ۔


ان احادیث پر امیر المومنین فی الحدیث امام البخاری اور مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ نے جو باب باندھے ھیں. اس سے سجدے کی کیفیت باالکل واضح ہوجاتی ھے. امام بخاری نے اس حدیث سے پہلے، ابو حمید ساعدی رضی الله تعالٰی عنہہ کی حدیث سے، جس میں انہوں نے رسول الله صلی الله عليه وسلم کی پوری نماز صحابه کرام کے مجمع میں بیان فرمائی، سجدے کی کیفیت والا یہ ٹکڑا بیان کیا ھے" .
وَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا.

ابو حمید نے کہا: جب آپ صلی الله علیه وسلم سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو ( زمین پر ) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے" .

امام نووی رحمه الله نے صحیح مسلم میں اس حدیث پر جو باب باندھا ھے:
باب : الاِعْتِدَالِ فِي السُّجُودِ وَوَضْعِ الْكَفَّيْنِ عَلَى الأَرْضِ وَرَفْعِ الْمِرْفَقَيْنِ عَنِ الْجَنْبَيْنِ وَرَفْعِ الْبَطْنِ عَنِ الْفَخِذَيْنِ فِي السُّجُودِ
باب : سجدے میں اعتدال کا بیان، نیز دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے، کہنیوں کو پہلوؤں سے بلند رکھنے، اور پیٹ کو دونوں رانوں سے اٹھا کر رکھنے کا بیان

سجدے میں اعتدال کا کیا مطلب؟ حافظ ابن حجر رحمه الله نے کہا: یعنی "افتراش" (بازو زمین پر بچھا دینے) اور "قبض" کے درمیان اعتدال و توسط اختیار کرو" . اور امام ابن دقیق العید کہتے ہیں: "یہاں اعتدال سے مراد شاید" سجدے کو اس ہیئت اور کیفیت کے مطابق ادا کرنا ھے جس کا حکم دیا گیا ھے" .
[فتح الباري : جلد2 : ص390] باب مذکورہ مطبوعه دارالسلام____ ریاض

اس مختصر سی تفصیل سے نبی کریم صلی الله علیه وسلم کے سجدے کی کیفیت بھی معلوم ھو جاتی ھے، اور آپ کا وہ حکم بھی جس میں آپ نے بلا تفریق مرد وعورت، سب کو اُسی طرح سجدہ کرنے کا حکم دیا ھے جس طرح آپ صلی الله عليه وسلم خود کیا کرتے تھے" .
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
محترم بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ درس نظامی کے کون سے درجے میں ہیں؟ اور کس مدرسے میں؟
یہ سوال تو میرے خیال میں علمی گفتگو میں پوچھا جانا چاہییے ۔ اِدھر تو میرا خیال ہے مناظرہ چل رہا ہے ۔
مناظرہ (اصطلاحی نہیں مروجہ) میں لفظ پکڑے جاتے ہیں ۔
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
محترم! اس ملون فقرہ کا مفہوم سمجھا دیں۔ یہ آپ نے اپنے فہم سے لکھا ہے یا کاپی پیسٹ کیا ہے؟
انسان خطا کی مشین ھے، لکھنے میں غلطی ھوگئی نشاندھی کا شکریه___ ایسی کئی مثالیں ھیں کہ اک راوی نے دوسرے پر جرح کی اور پھر اسی سے روایت بھی لی،
عبد الرحمٰن بھائی کی نصیحت یاد رکھیں جو یہاں محدث فورم پر ھر جگہ وقفے وقفے سے وہ پوسٹ کرتے رہتے ھیں. یہ الگ بات ھے کہ خود عبد الرحمن بھائی کا کردار و گفتار اس کے برعکس ھے______
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
سخت حیرت ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے پاس ۔۔۔
بھائی آپ موقف پہ قائم رہیں ۔ لیکن اتنی سختی نہ کریں ۔ آپ کے سامنے کوئی نئی بدعت نہیں جو پاک و ہند میں دیوبندیوں یا بریلویوں کی طرف سےپیش کی جارہی ہو ۔بلکہ اس میں تو ۔مالکی۔شافعی۔ حنبلی۔ حنفی(جو دیوبندی بریلوی نہیں) اور ظاہری و اہلحدیث میں سے الصنعانیؒ صاحب سبل السلام۔عبد الحق ہاشمی مکیؒ اہل حدیث عالم ، عبد الجبار غزنویؒ (فتاوی غزنویہ۔فتاوی اہلحدیث) بھی ہیں ۔
ان موضوع مقطوع غیر مستند اقوال کے برخلاف رسول الله صلی الله علیه وسلم کا صحیح فرمان
صحیح البخاری: 822 صحیح مسلم : 493
اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلاَ يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ ‏"‏‏.‏
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو ۔
۔۔۔
آپ کا وہ حکم بھی جس میں آپ نے بلا تفریق مرد وعورت، سب کو اُسی طرح سجدہ کرنے۔۔۔۔ .
بھائی بلا تفریق کیسے ہے ۔صحیح مسلم رقم ۲۴۰(۴۹۸)
وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ
یہ رجل کی تعین ہوگئی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بکیر کی سیدنا ابن عباس ؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔ حاکم کہتے ہیں کہ :”لم یثبت سماعه من عبدالله بن الحارث بن جزء و إنما روایته عن التابعین”
عبداللہ بن حارث بن جزء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ متوفی ۸۸؁ھ ) سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے۔ اس کی روایت تو صرف تابعین سے ہے ۔ [تہذیب التہذیب ج ۱ ص ۴۹۳، دوسرا نسخہ ص ۴۳۲]
اس بارے میں کیا ارشاد فرمائیں گے؟
بكير بن عَبْدِ اللَّهِ بن الأشج القرشي (1) ، مولى بني مخزوم، ويُقال: مولى المسور بْن مخزمة الزُّهْرِيّ، ويُقال: مولى أشجع، أَبُو عبد الله، ويُقال: أَبُو يُوسُف، المدني، نزيل مصر. وهو أخو يعقوب بْن عَبْدِ اللَّهِ بْن الأشج، وعُمَر بْن عَبْدِ اللَّهِ بْن الأشج، ووالد مخرمة بْن بكير بْن عَبْدِ اللَّهِ بْن الأشج.
روى عن: أبي أمامة أسعد بْن سهل بْن حنيف، وأسيد بْن رافع بن خديج. وبشر بن شعيد (خ م د ت س) والحسن بن علي ابن أَبي رافع (دس) وحمران بْن أبان مولى عثمان بْن عفان (م) ، وحميد بْن نافع المدني (س) . وذكوان أبي صالح السمان (م) وربيعة بْن عباد الديلي (م س) .
وربيعة بْن عطاء، وسالم مولى شداد (م) ، والسائب بْن يزيد، وسَعِيد بْن المُسَيَّب، (م س) .
تہذیب الکمال 4۔242 ط رسالہ
سائب بن یزید تو صحابی ہیں اور اسعد بن سہل بن حنیف کی صحابیت میں اختلاف ہے لیکن ان کی رویت ثابت ہے نبی کریم ﷺ سے سماع ثابت نہیں ہے تو صحابی تو یہ بھی ہوئے۔
پھر اگر بالفرض یہ مان لیں کہ درمیان میں کوئی اور راوی ہے تو احمد بن صالح کا ارشاد ہے:
إذا رأيت بكير بن عبد الله روى عن رجل فلا تسأل عنه، فهو الثقة الذي لا شك فيه.
اکمال تہذیب الکمال
"جب تم بکیر بن عبد اللہ کو کسی شخص سے روایت کرتا دیکھو تو پھر اس کے بارے میں نہ پوچھو۔ وہ ایسا ثقہ ہوگا جس میں کوئی شک نہیں۔"

اس روایت میں موقع و محل بیان نہیں ہوا کہ عورت کب مجتمع ہو اور سکڑے؟ کیا قیام میں مجتمع/ سکڑا جاسکتا ھے جیسا کہ احناف کی عورتیں سجدے میں ہوتی ھیں؟ نیز یہ روایت بھی منقطع ھے
واقعی یہ مناظرہ ہے۔ ابو بکر ابن ابی شیبہ نے اسے کس باب میں ذکر کیا ہے؟
اور یہ بتائیں کہ آپ لوگ کہاں اس پر عمل کرتے ہیں؟ کسی ایک جگہ کرتے ہیں؟

اور جو مقابلے میں احادیث پیش کی ہیں ان میں سے کسی ایک میں عورت کا ذکر ہے؟ صریح کے مقابلے میں صریح ہوتا ہے۔ عام اور خاص کے تعارض میں خاص کو ترجیح ہوتی ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اب علمی بحث لگ رہی ہے ، اللہ نے چاہا تو ہم سب کے لیئے مفید ہوگی اور علم میں اضافہ ہو گا ۔
محترم اشماریہ کا ادب اس فورم پر سب ہی کرتے ہیں ، ایک گذارش سب سے ہے کہ ہر غیر متعلق شخص اپنی مداخلت پر خود روک لگا لے تاکہ اہل علم (وہ تمام جو اس بحث میں شامل ہیں) کے کلام سے سبکا فائدہ ہو ۔
اللہ ہم سب کو نیک توفیق دے
 

ابو خبیب

مبتدی
شمولیت
مارچ 16، 2016
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
18
حدیث نمبر8
عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا " .[ مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص270, كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا؟ رقم الحديث: 2703]
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں سے چپکا لے اور اپنی سرین کو اوپر نہ اٹھائے اور راعضاءکو اس طرح دور نہ رکھے جیسے مرد دور رکھتا ہے۔


حدیث نمبر8
عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَةُ فَلْتَضُمَّ فَخِذَيْهَا وَلْتَضَعْ بَطْنَهَا عَلَيْهِمَا " .[ مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص270, كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا؟ رقم الحديث: 2703]
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں سے چپکا لے اور اپنی سرین کو اوپر نہ اٹھائے اور راعضاءکو اس طرح دور نہ رکھے

تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ:
“اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا" .
[مجموعہ رسائل ۹۹/۲و تجلیات صفدر ۱۱۳/۵]

جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ:
[فإن قول التابعي لا حجة فیه]
بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے" . [اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹]

تابعی کا قول تو حجت ہی نہیں پھر یہ کاپی پیسٹ کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟

ابراھیم نخعي رحمه الله کے یہ مسئلے آپکو کیوں تسلیم نہیں؟؟؟؟؟؟؟

مصنف ابن ابي شيبة : 2712
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : " تَقْعُدُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَقْعُدُ الرَّجُلُ " .
ابراهيم نخعي کہتے ہیں عورت نماز میں اس طرح بیٹھے گی جس طرح مرد بیٹھتا ہے۔

مصنف ابن ابي شيبة : 3844
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ،قَالَ :حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ وَمُغِيرَةَ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ أَنَّهُمَا " كَانَا يُرْسِلَانِ أَيْدِيَهُمَا فِي الصَّلَاةِ "
ابراهيم نخعي ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے" .

مصنف ابن ابي شيبة : 1861
حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ " بَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَوَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَصَلَّى " .

مصنف ابن ابي شيبة : 1862
حَدَّثَنَا
ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيّ , وَإِبْرَاهِيمَ بْنَ سُوَيْدٍ " أَحْدَثَا ثُمَّ تَوَضَّآ وَمَسَحَا عَلَى خُفَّيْهِمَا
خلاصہ: ابراھیم نخعی جرابوں پر مسح کرتے تھے" .

وضو کی حالت میں ابراہیم نخعي اپنی بیوی کا بوسہ نہ لینے کے قائل تھے۔
[مصنف ابن ابی شیبة ۴۵/۱ح ۵۰۰و سندہ صحیح]

یعنی ابراھیم نخعي کے نزدیک اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے" .
[مصنف ابن ابی شیبة ۲۶/۱ ح ۵۰۷]

ابراہیم نخعي رکوع میں تطبیق کرتے یعنی اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں کے درمیان رکھتے تھے" .
[مصنف ابن ابی شیبہ ۲۴۶/۱ ح ۲۵۴۰ وسندہ صحیح ، الاعمش صرح بالسماع]

ہمیں معلوم ھے کہ حنفیہ کے پاس ایک بھی صحیح صریح روایت اس مسئلے میں (اور کسی بھی مسئلے میں) موجود نہیں، اسی لیے حنفیہ کو اپنے ہی اصول کے خلاف جاکر، تابعین سے استدلال کرنا پڑتا ھے....
لیکن گزارش عرض یہ ھے کہ، تابعی سے استدلال اپنی مرضی کا کیوں؟؟؟؟؟؟ تابعی کے باقی مسائل کون تسلیم کرے گا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کہیں تو ٹک جائیں؟؟؟؟؟؟

آپ کے، اور آپ کے اکابرین کے اندازِ استدلال سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ بس حنفیہ کا بنایا ھوا مذھب جس طرح بھی ثابت ہورہا ہو ثابت کرتے جائو چاھے روایت موضوع منکر ضعیف ہی کیوں نہ ھو.......
ہاں اگرحنفیہ کے استدلال کا کوئی نیا طریقہ مارکیٹ میں آیا ھے تو وہ مجھے ضرور بتائیں تاکہ میں بھی اُس پر غور و فکر کرسکوں؟؟؟
 
Top