حد یث نمبر7
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ ، فَقَالَ : " تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ " .[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا ؟ رقم الحديث: 2702]
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے عورت کی نماز کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اکٹھی ہو کر اور خوب سمٹ کر نماز پڑھے۔ ( منصف ابن ابی شیبہ ج1ص270, كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » الْمَرْأَةُ كَيْفَ تَكُونُ فِي سُجُودِهَا؟ رقم الحديث: 2702)
اس روایت میں موقع و محل بیان نہیں ہوا کہ عورت کب مجتمع ہو اور سکڑے؟ کیا قیام میں مجتمع/ سکڑا جاسکتا ھے جیسا کہ احناف کی عورتیں سجدے میں ہوتی ھیں؟ نیز یہ روایت بھی منقطع ھے ملاحظہ ھو:
مصنف ابن ابي شيبة : 2702
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَ : نا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِي ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْمَرْأَةِ ، فَقَالَ : " تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ " .
یہ روایت بکیر بن عبدالله بن الاشج نے سیدنا ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما سے بیان کی ہے ۔
دیکھئے مصنف ابن ابي شیبة : 2702
بکیر کی سیدنا ابن عباس ؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔
حاکم کہتے ہیں کہ :”
لم یثبت سماعه من عبدالله بن الحارث بن جزء و إنما روایته عن التابعین”
عبداللہ بن حارث بن جزء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ
متوفی ۸۸ھ ) سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے۔ اس کی روایت تو صرف تابعین سے ہے ۔ [تہذیب التہذیب ج ۱ ص ۴۹۳، دوسرا نسخہ ص ۴۳۲]
یاد رہے کہ سیدنا
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
۶۸ھ میں طائف میں فوت ہوئے تھے۔ جب
۸۸ھ میں فوت ہونے والے صحابی سے ملاقات نہیں تو
۶۸ھ میں فوت ہونے والے سے کس طرح ثابت ہوسکتی ہے ؟
نتیجہ: یہ سند
منقطع (یعنی ضعیف و مردود ) ہے ۔ سخت حیرت ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے پاس اتنی ضعیف و مردود روایات کس طرح جمع ہوگئی ہیں ؟ غالباً ان لوگوں کو بہت محنت کرنا پڑی ہوگی، والله اعلم
ان موضوع مقطوع غیر مستند اقوال کے برخلاف
رسول الله صلی الله علیه وسلم کا صحیح فرمان دیکھئیے:
صحیح البخاری: 822 صحیح مسلم : 493
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلاَ يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ ".
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے
بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو ۔
ان احادیث پر امیر المومنین فی الحدیث امام البخاری اور مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ نے جو باب باندھے ھیں. اس سے سجدے کی کیفیت باالکل واضح ہوجاتی ھے. امام بخاری نے اس حدیث سے پہلے،
ابو حمید ساعدی رضی الله تعالٰی عنہہ کی حدیث سے، جس میں انہوں نے رسول الله صلی الله عليه وسلم کی پوری نماز صحابه کرام کے مجمع میں بیان فرمائی، سجدے کی کیفیت والا یہ ٹکڑا بیان کیا ھے" .
وَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا.
ابو حمید نے کہا: جب آپ صلی الله علیه وسلم سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو ( زمین پر ) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے" .
امام نووی رحمه الله نے صحیح مسلم میں اس حدیث پر جو باب باندھا ھے:
باب : الاِعْتِدَالِ فِي السُّجُودِ وَوَضْعِ الْكَفَّيْنِ عَلَى الأَرْضِ وَرَفْعِ الْمِرْفَقَيْنِ عَنِ الْجَنْبَيْنِ وَرَفْعِ الْبَطْنِ عَنِ الْفَخِذَيْنِ فِي السُّجُودِ
باب : سجدے میں اعتدال کا بیان، نیز دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے، کہنیوں کو پہلوؤں سے بلند رکھنے، اور پیٹ کو دونوں رانوں سے اٹھا کر رکھنے کا بیان
سجدے میں اعتدال کا کیا مطلب؟
حافظ ابن حجر رحمه الله نے کہا: یعنی "افتراش" (بازو زمین پر بچھا دینے) اور "قبض" کے درمیان اعتدال و توسط اختیار کرو" . اور امام ابن دقیق العید کہتے ہیں: "یہاں اعتدال سے مراد شاید" سجدے کو اس ہیئت اور کیفیت کے مطابق ادا کرنا ھے جس کا حکم دیا گیا ھے" .
[فتح الباري : جلد2 : ص390] باب مذکورہ مطبوعه دارالسلام____ ریاض
اس مختصر سی تفصیل سے نبی کریم صلی الله علیه وسلم کے سجدے کی کیفیت بھی معلوم ھو جاتی ھے، اور آپ کا وہ حکم بھی جس میں آپ نے بلا تفریق مرد وعورت، سب کو اُسی طرح سجدہ کرنے کا حکم دیا ھے جس طرح آپ صلی الله عليه وسلم خود کیا کرتے تھے" .