• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرنے کے بعد روحوں کا مسکن

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
  • نبی اکرم ﷺ کے سلام کا جواب دینے کی حدیث صحیح ثابت نہیں۔


یہ بات میرے بھائی ذرا محدث فتویٰ والوں کو بھی بتا دینا - جنہوں نے اپنے فتویٰ میں حضرت علامہ شیخ عبدالعزیز بن باز وائس چانسلر مدینہ منورہ یونیورسٹی سعودی عرب کی تحریر جس میں اس حدیث سے دلیل لے گئی - لگائی ہوئی ہے -

خود پڑھ لیں یہاں -

محمد صالح المنجد کی ویب سائٹ پر بھی اس حدیث سے دلیل لی رہی ہے -


پلیز آپ اپنی بات کہ نبی اکرم ﷺ کے سلام کا جواب دینے کی حدیث صحیح ثابت نہیں۔ ان کو بھی بتا دیں - شکریہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ایک اور بات کہ اردو مجلس فورم پر ایک کتاب حصن المسلم کو یونی کوڈ میں لکھا گیا - اس کی تحقیق بھی زبیر علی زئی رحم الله نے کی ہے - جو سعید بن علی بن وھف القحطانی حفظہ اللہ کی تالیف ہے -

زبیر علی زئی رحم الله نے بھی اس حدیث کو حسن کہا ہے - زبیر علی زئی رحم الله تو اس دنیا میں نہیں رہے - آپ اپنی یہ بات کہ


نبی اکرم ﷺ کے سلام کا جواب دینے کی حدیث صحیح ثابت نہیں۔
تحقیق اور تخریج کروانے والوں کو بتا دیں -

تا کہ آئندہ آپ سے تحقیق اور تخریج کروائی جا سکے - شکریے

جب بھی کوئی شخص مجھے سلام کہتا ہے تو اللہ تعالی میری روح مجھ میں لوٹا تا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔

(اسنادہ حسن، سنن ابی داؤد:2041، مسند احمد:10815)


لنک

http://www.urdumajlis.net/index.php?threads/حصن-المسلم-اردو-،تحقیق-از-زبیر-علی-زئی.24455/page-6

PDF لنک یہاں سے

http://kitabosunnat.com/kutub-library.html?task=g&link=15921
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آپ دیکھیں کہ ابن بازؒ وغیرہ نے اس حدیچ کو صحیح قرار دینے کے باوجود اہل شرک و بدعت کے طریق کار کی نفی کی ہے اور میں بھی یہی کہہ چکا ہون کہ اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس سے شرک لازم نہیں آتا؛اب آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟؟
یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟اس میں اختلاف ہے بعض صحیح کہتے ہیں اور بعض ضعیف؛ہر ایک کی اپنی تحقیق ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ؛ایسا اختلاف علما میں ہو ہی جاتا ہے؛ویسے مجھے اب ان علما کی بات زیادہ قوی محسوس ہو رہی ہے جو اس حدیث کو صحیح کہتے ہیں البتہ جناب کفایت اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔حوالہ
میں اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرتے ہوئے جمہور علما ( ابو داؤد،نووی ،ابن تیمیہ،ابن باز،البانی،علی زئی رحمہم اللہ)کی تصریحات کے مطابق اس حدیث کو حسن سمجھتا ہوں۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186

السلام علیکم !​
بے شمار احادیث مبارکہ میں عذاب قبر کا تزکرہ آیا ہے اور عذاب قبر سے پناہ کی دعائیں بھی صحیح حدیثوں میں موجود ہے میرا یہاں جناب لَولِی صاحب سے سوال ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان الله تعالی علیهم اجمعین کے سامنے عذاب قبر اور عذاب قبر سے پناہ کی دعائوں کا تذکرہ فرماتے تو اصحاب رسول اس سے کون سی قبر مراد لیتے تھے آسمانی یا زمینی ؟
اور ایک حدیث میں آیا ہیں کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں جا تے ہو ئے اپنے صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین سے دریا فت کیا تھا کہ دونئی قبریں کن لو گو ں کی ہیں کیو ں کہ انہیں عذاب دیا جا رہا ہے لو گو ں نے نشا ند ہی کی تو آپ نے کھجور کی ایک چھڑی لے کر اس کے دو حصے کیے اور دو نو ں قبرو ں پر ایک ایک حصہ گا ڑ دیا نیز فر ما یا :"کہ امید ہے کہ ان کے خشک ہو نے تک ان کے عذاب میں کمی کر دی جا ئے ۔(صحیح بخا ری :الجنا ز 1361)​
سوال یہ ہیں کہ ان دونو قبر والوں کو عذاب کہاں دیا جارہا تھا زمینی قبر میں یا آسمانی قبر میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجو ر کی چھڑیو ں کو کہاں گا ڑا زمینی قبر کے اوپر یا آسمنانی قبر ؟ اور جناب ۔ اللہ تعا لیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منا فقین کے لیے ان کی قبر پر کھٹرے ہو کر دعا کر نے سے منع فر ما یا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان میں سے کسی کی نماز جناز ہ نہ پڑھیں اور نہ ہی ان کی قبر پر کھٹرے ہوں ۔(9/التو بہ:84) اب یہاں بھی یہی سوال پیدا ہو تا ہے کہ وہ کو نسی قبر ہے جس پر کھٹر ے ہو کر دعا کر نے سے آپ ﷺ کو منع کیا گیا زمینی قبر یا آسمانی قبر ؟

اور ایک گزارش لولی صاحب سے کہ جناب جہاں سے یہ عقیدہ لائیں ہے کہ زمینی قبر میں سوال جواب عذاب وغیرہ کا ہونا نا ممکن ہے یعنی ( The real islam فیس بک پیج ) اور ان کی ویب سائٹ ایمان خالص سے تو ان سے کہیے کہ مجھے اَن بلاک کریں اور اپنے باطل نظریہ اور گمراہ کن عقائد کا دفاء کریں یہ لوگ بہت سے مسلمانوں کو گمراہ کرچکے ہے اور ان کے نزدیق مسلمان صرف وہی ہے جو خود کو صرف مسلمان کہتا ہو نا کہ مالکی، حنفی، شافعی، حنبلی یا اہل حدیث وغیرہ اور ان کے نزدیق امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ اور بہت سے علماء حق کافر ہے ۔ العیاذبالله
اگر اللہ نے چاہا تو ان کے ساتھ کی ہوئی میری گفتگو ثبوت کے ساتھ پیش کرونگا جس میں اس گمراہ ٹولے نے امام اہل سنت أحمد بن حنبل رحمہ اللہ و دیگر علماء حق پر کفر کے فتوے لگائے تھے اور اہل حدیث نام رکھنے والو کو بھی ان لوگوں نے نام کی بنیاد پر کافر کہا تھا
والسلام ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

اور ایک حدیث میں آیا ہیں کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں جا تے ہو ئے اپنے صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین سے دریا فت کیا تھا کہ دونئی قبریں کن لو گو ں کی ہیں کیو ں کہ انہیں عذاب دیا جا رہا ہے لو گو ں نے نشا ند ہی کی تو آپ نے کھجور کی ایک چھڑی لے کر اس کے دو حصے کیے اور دو نو ں قبرو ں پر ایک ایک حصہ گا ڑ دیا نیز فر ما یا :"کہ امید ہے کہ ان کے خشک ہو نے تک ان کے عذاب میں کمی کر دی جا ئے ۔

(صحیح بخا ری :الجنا ز 1361)
سوال یہ ہیں کہ ان دونو قبر والوں کو عذاب کہاں دیا جارہا تھا زمینی قبر میں یا آسمانی قبر میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجو ر کی چھڑیو ں کو کہاں گا ڑا زمینی قبر کے اوپر یا آسمنانی قبر ؟ اور جناب ۔ اللہ تعا لیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منا فقین کے لیے ان کی قبر پر کھٹرے ہو کر دعا کر نے سے منع فر ما یا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ ان میں سے کسی کی نماز جناز ہ نہ پڑھیں اور نہ ہی ان کی قبر پر کھٹرے ہوں ۔(9/التو بہ:84) اب یہاں بھی یہی سوال پیدا ہو تا ہے کہ وہ کو نسی قبر ہے جس پر کھٹر ے ہو کر دعا کر نے سے آپ ﷺ کو منع کیا گیا زمینی قبر یا آسمانی قبر ؟
azab qabr kahan hota hai.jpg
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


@عبداللہ کشمیری میرے بھائی ذرا ان احادیث کی بھی وضاحت کر دیں - جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دئے گئے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں تو ان کو عذاب کہاں ہوا - زمینی آسمانی قبر میں - کیوں کہ مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ کر پھینک دیا گیا - کیا پھر ان کے عذاب کا کیا ہوا -


صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 414 حدیث مرفوع مکررات 16 متفق علیہ 12 بدون مکرر

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ أَعْلَی الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَکْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّی أَلْقَی بِفِنَائِ أَبِي أَيُّوبَ وَکَانَ يُحِبُّ أَنْ يُصَلِّيَ حَيْثُ أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ وَأَنَّهُ أَمَرَ بِبِنَائِ الْمَسْجِدِ فَأَرْسَلَ إِلَی مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِکُمْ هَذَا قَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَی اللَّهِ فَقَالَ أَنَسٌ فَکَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَکُمْ قُبُورُ الْمُشْرِکِينَ وَفِيهِ خَرِبٌ وَفِيهِ نَخْلٌ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ ثُمَّ بِالْخَرِبِ فَسُوِّيَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ الْحِجَارَةَ وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَالنَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ

مسدد، عبدالوارث، ابوالتیا ح، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ )ہجرت کر کے( تشریف لائے ، تو مدینہ کی بلندی پر ایک قبیلہ میں جس کو بنی عمرو بن عوف کہتے ہیں اترے، اور ان لوگوں میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چوبیس راتیں قیام فرمایا، پھر آپ نے بنی نجار کو پیغام بھیجا، تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آپہنچے، اب گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں اور ابوبکر آپ کے ہم ردیف ہیں اور بنی نجار کی جماعت آپ کے گرد ہے، الغرض! آپ نے ابوایوب کے مکان میں اپنا سامان اتارا، آپ یہ اچھا سمجھتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپ بکریوں کہ رہنے کہ جگہ میں بھی نماز پڑھ لیتے، جب آپ نے مسجد کی تعمیر کرنے کا حکم دیا تب نبی نجار کے لوگوں کو آپ نے پیغام بھیجا اور فرمایا کہ اے بنی نجا ر، اپنا یہ باغ تم میرے ہاتھ بیچ ڈالو، انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم! ہم اس کی قیمت نہ لیں گے، مگر اللہ بزرگ و برتر سے، انس کہتے ہیں کہ اس )باغ( میں وہ چیزیں تھیں، جو میں تم سے کہتا ہوں، یعنی مشرکوں کی قبریں اور اس میں ویرانہ تھا اور اس میں کھجور کے درخت تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکوں کی قبروں کے متعلق حکم دیا کہ وہ کھود ڈالی جائیں، پھر ویرانے کو برابر کردیا گیا اور درختوں کو کاٹ ڈالا گیا، اور ان درختوں کو مسجد کی جانب قبلہ میں نصب کردیا گیا اور ان کی بندش پتھروں سے کردی گئی، صحابہ پتھر لانے لگے اور وہ رجز پڑھتے جاتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہمراہ فرماتے جاتے تھے، کہ اے میرے اللہ بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے، اس لیے انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1168 حدیث مرفوع مکررات 16 متفق علیہ 12 بدون مکرر


حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ کِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ يَحْيَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ إِنَّهُ أَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا مُتَقَلِّدِينَ بِسُيُوفِهِمْ قَالَ فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَکْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّی أَلْقَی بِفِنَائِ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ قَالَ فَأَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِکُمْ هَذَا قَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَی اللَّهِ قَالَ أَنَسٌ فَکَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ کَانَ فِيهِ نَخْلٌ وَقُبُورُ الْمُشْرِکِينَ وَخِرَبٌ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّخْلِ فَقُطِعَ وَبِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ قَالَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةً وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً قَالَ فَکَانُوا يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُمْ يَقُولُونَ اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْفَانْصُرْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ

یحیی بن یحیی، شیبان بن فروخ، عبدالوارث، یحیی، عبدالوارث ابن سعید، ابی تیاح، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے اور شہر کے بالائی علاقہ کے ایک محلہ میں تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں چودہ راتیں قیام فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو نجار کو بلوایا وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے حاضر ہوئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور بنو نجار آپ کے ارد گرد تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوایوب کے گھر کے صحن میں اترے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں نماز کا وقت پاتے وہیں نماز پڑھ لیتے تھے یہاں تک کہ بکریوں کے باڑہ میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور بنو نجار کو بلوایا جب وہ آئے تو فرمایا تم اپنا باغ مجھے فروخت کر دو انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس باغ کی قیمت نہیں لیں گے ہم اس کا معاوضہ صرف اللہ تعالی سے چاہتے ہیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس باغ میں جو چیزیں تھیں انہیں میں بتاتا ہوں اس میں کچھ کھجوروں کے درخت، مشرکین کی قبریں اور کھنڈرات تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دئے گئے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں اور کھنڈرات ہموار کر دئیے گئے اور کہجور کی لکڑیاں قبلہ کی طرف گاڑھ دی گئیں اور اس کے دونوں طرف پتھر لگا دئیے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رجزیہ کلمات پڑھ رہے تھے۔ اے اللہ! بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
  • صحیح احادیث پر ایمان واجب ہے۔
  • مردہ بولتا ہے لیکن ہم اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتے اسی طرح سوال و جواب کے وقت روح لوٹائی جاتی ہے جس کا مشاہدہ ہمارے لیے ممکن نہیں۔
  • مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے لیکن لوگوں کی التجا کو نہیں کیوں کہ جتنا حدیث میں ہے ہم اتنا ہی ماننے کے پابند ہیں۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری --- ابن ہجر عسقلانی --- الميت يسمع خفق النعال / مردہ جوتیوں کی چاپ سنتا ہے

باب الميت يسمع خفق النعال:

حدثنا عياش حدثنا عبد الأعلى حدثنا سعيد قال وقال لي خليفة حدثنا يزيد بن زريع حدثنا سعيد عن قتادة عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال العبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه وسلم فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله فيقال انظر إلى مقعدك من النار أبدلك الله به مقعدا من الجنة قال النبي صلى الله عليه وسلم فيراهما جميعا وأما الكافر أو المنافق فيقول لا أدري كنت أقول ما يقول الناس فيقال لا دريت ولا تليت ثم يضرب بمطرقة من حديد ضربة بين أذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين


ترجمہ : باب: مردہ جوتیوں کی چاپ سنتا ہے -

قتادہ انس بن مالک رضی الله عنھ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے - کہ دو فرشتے آ جاتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں اور وہ دونوں اس سے کہتے ہیں کہ تو کیا کہتا تھا اس شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں؟ وہ کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ الله کے بندے اور اس کے رسول ہیں - اب اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنی جہنم کی بیٹھک کی طرف دیکھ - اس کے بدلہ میں الله نے جنت کا یہ مقام عطا فرما دیا - نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں جگہوں کو دیکھتا ہے لیکن کافر یا منافق کہتا ہے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں - میں تو وہی کہا کرتا تھا جو لوگ کہتے تھے - اس سے کہا جاتا ہے کہ تونے سچی بات نہ جانی اور نہ جاننے والوں کی پیروی کی - پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان فولادی ہتھوڑے سے ایسی ضرب لگائی جاتی ہے اور وہ ایسی چیخ مارتا ہے کہ انسانوں اور جنوں کے علاوہ ہر کوئی سنتا ہے -


قوله : (باب الميت يسمع خفق النعال) قال الزين بن المنير : جرد المصنف ما ضمنه هذه الترجمة ليجعله أول آداب الدفن من إلزام الوقار واجتناب اللغط ، وقرع الأرض بشدة الوطء عليها كما يلزم ذلك مع الحي النائم ، وكأنه اقتطع ما هو من سماع الآدميين من سماع ما هو من الملائكة

ابن ہجر عسقلانی کی اس حدیث کی شرح کا ترجمہ:

ابن ہجر عسقلانی نے کہا ہے کہ بخاری کے اس باب باندھنے کے (المیت یسمع خفق النعال - یعنی مردہ جوتیوں کی چاپ سنتا ہے) کے متعلق الزین بن المنیر نے کہا کہ مصنف (بخاری) کے اس مضمون کے باب باندھنے سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس طریقہ کو آدابِ دفن میں اولیت حاصل ہے کہ وقار برقرار رکھا جائے ، شور و شر سے اجتناب کیا جائے اور شدّت کے ساتھ پیروں کو زمین پر نہ مارا جائے جیسے کہ ایک زندہ سونے والے کے لئے ہونا چاہئیے - اور ایسا لگتا ہے کہ بخاری نے یہ مطلب نکالا ہے کہ آدمیوں سے جیسا کچھ سنا جاتا ہے ویسا ہی فرشتوں سے بھی سنا جاتا ہے -


حدیث کی اس تشریح کو ابن ہجر عسقلانی نے بخاری کی شرح فتح الباری میں سب سے پہلے ذکر کیا - الفاظ حدیث بھی اس کی تائید کرتے ہیں کیونکہ دفن کرنے والے دفن کر کے جا چکے ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ وقت آجاتا ہے کہ بندہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے الفاظ یہ ہیں:

العبد إذا وضع في قبره وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم أتاه ملكان


(بندہ جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ البتہ سنتا ہے ان کے جوتوں کی چاپ کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں)


joton ki awaz.jpg
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
  • صحیح احادیث پر ایمان واجب ہے۔
  • مردہ بولتا ہے لیکن ہم اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتے اسی طرح سوال و جواب کے وقت روح لوٹائی جاتی ہے جس کا مشاہدہ ہمارے لیے ممکن نہیں۔
  • مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے لیکن لوگوں کی التجا کو نہیں کیوں کہ جتنا حدیث میں ہے ہم اتنا ہی ماننے کے پابند ہیں۔
  • نبی اکرم ﷺ کے سلام کا جواب دینے کی حدیث صحیح ثابت نہیں۔
  • میرے عقیدے میں کوئی تذبذب نہیں ؛آپ کی عقل میں ابھی تذبذب ہے اور وجہ لاعلمی ہے۔
  • اچھا آپ بتلائیں کہ بریلوی حضرات سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو مردے زندہ کرنے کی صلاحیت عطا فرما دیتا ہے تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ
  • اس سے کتنے ہی لوگ شرک کے گناہ میں ملوث ہو چکے؟؟
  • کچھ تو عقل کریں؛میرا ایمان ہے کہ جس طرح رسول اللہﷺ نے خبر دی ہے مرنے کے بعد قبر میں میت کے جسم میں روح لوٹائی جاتی ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے میں نے کبھی مردوں کو نہیں پکارا؛ان میں سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں؛یہ آپ کی کم فہمی ہے۔
السلام علیکم و رحمت الله -

تو پھر آپ ان صحیح احادیث پر ایمان کیوں نہیں لاتے - جن میں واضح ہے کہ شہید جنّت میں جانے کے بعد اس بات کی تمنا کرتا ہے کہ اسے دوبارہ دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے لیکن اس کی یہ درخواست نہیں مانی جاتی -لولی بھائی نے یہاں بے شمار ایسی صحیح احادیث پیش کیں ہیں جن میں یہ واضح ہے کہ "روح" واپس اس دنیا میں نہیں آتی - لیکن ان احادیث کی توجیح یا جواب ابھی تک کسی بھائی نے نہیں دیا - اب سوچ لیں کہ منکرین حدیث کون ہیں ؟؟؟

پھر ان قرانی آیات کی بھی توجیہات نہیں پیش کیں گئیں جن میں یہ واضح ہے کہ مردہ دنیا کے معاملات کے بارے میں ادرک نہیں رکھتا -تو جوتوں کی چاپ سننا اور یہ کہنا کہ مجھے کہاں لئے جا رہے ہو-اس کی توجیح کس طرح ہو گی ؟؟-

حقیقت یہ ہی کہ جن احادیث میں یہ کہا گیا ہے کہ مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ مجھے کہاں لئے جا رہے ہو - یہ وہ فرشتوں سے روح قبض ہونے اور سوال و جواب کے بعد فرشتوں کی واپسی کے وقت یا آنے کے وقت ان سے کہتا ہے - جسم کا تو کوئی اعتبار نہیں کہ وہ زمینی قبر میں دفن ہوتا بھی ہے یا نہیں؟؟-

جہاں تک آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مردوں کو زندہ کرنے کی بات کی ہے تو محترم وہ تو ایک معجزہ تھا - اور سب جانتے ہیں کہ معجزے سے عموم کو اخذ نہیں کیا جا سکتا - الله نے حضرت ابراہیم علیہ سلام کے لئے آگ کو سلامتی کا مظہر بنا دیا - ظاہر ہے کہ ہم جیسے انسانوں کے لئے آگ اس طرح سلامتی کا مظہر نہیں بن سکتی-

تو اس سے شرک کے خطرے کی دلیل پکڑنا صحیح نہیں - اس میں کوئی شک نہیں کہ الله ہر چیز پر قادرہے لیکن اس کا اپنا قانون قدرت ہے اور وہ اپنے احکامات کو اپنے قانون قدرت سے (سواے استننائی معاملات کے) باہرنافذ نہیں کرتا-
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ دیکھیں کہ ابن بازؒ وغیرہ نے اس حدیچ کو صحیح قرار دینے کے باوجود اہل شرک و بدعت کے طریق کار کی نفی کی ہے اور میں بھی یہی کہہ چکا ہون کہ اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس سے شرک لازم نہیں آتا؛اب آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟؟
یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف؟اس میں اختلاف ہے بعض صحیح کہتے ہیں اور بعض ضعیف؛ہر ایک کی اپنی تحقیق ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ؛ایسا اختلاف علما میں ہو ہی جاتا ہے؛ویسے مجھے اب ان علما کی بات زیادہ قوی محسوس ہو رہی ہے جو اس حدیث کو صحیح کہتے ہیں البتہ جناب کفایت اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔حوالہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ میری قبر کے قریب سلام پڑھتا ہے تو اللہ وہاں ایک فرشتہ متعین فرما دیتا ہے وہ مجھ تک سلام پہنچاتا ہے اور اس بندے کی آخرت اور دنیا کے معاملات میں کفایت کی جاتی ہے اور قیامت کے روز میں اس بندے کا شفیع ہونگا۔ ابو داؤد

عِلّت

اس روایت میں ایک راوی محمد بن موسیٰ کذاب اور وضاع ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ محمد بن موسیٰ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ محمد بن موسیٰ اپنی طرف سے روایات گھڑتا اور اس نے ایک ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۱٤۱

اس طرح کی ایک اور روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦


نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا کہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔ نسائی جلد ۱ ص ۱۳۹، مسند احمد جلد ٤ ص۸، ابو داود جلد ۱ ص۱۵۰

عِلّت

اس روایت کے راوی حماد بن اسامہ نے غلطی سے اس روایت کو ثقہ راوی عبد الرحٰمن بن یزید بن جابر کیطرف منسوب کر دیا جبکہ اصل میں یہ روایت منکرالحدیث راوی عبدالرحٰمن بن یزید بن تمیم سے مروی ہے (التاریخ الکبیر جلد ۳ ص۳۶۵، التاریخ الصغیر ص۱۷۵، للمولف امام بخاری)

جبکہ امام رازی اپنی کتاب ’علل الحدیث جلد ۱ ص۱۹۷‘ میں اس روایت کو منکر قرار دیتے ہیں اور اس روایت سے کسی بھی قسم کے اعتراض کو باطل گردانتے ہیں۔یہی بات امام رازی اپنی کتاب ’کتاب الجرح والتعدیل جلد۵ ص۳۰۰۔۳۰۱ میں لائے ہیں اور اس روایت کو منکر اور موضوع قرار دیا ہے۔
 
Top