• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرنے کے بعد روحوں کا مسکن

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا آپ ابن قیم رحم الله کی کتاب الروح میں دیا گیا جواب مانتے ہیں -اس کتاب کی کیا حیثیت ہے آپ کے نزدیک - ذرا وضاحت کر دیں - شکریہ -​
آپ اپنا سوال تھوڑا واضح کریں >
کیا آپ انتساب کی صحت و عدم صحت کے متعلق پوچھنا چاہتے ہیں
یا کتاب کے مندرجات کے صحیح یا غلط ہونے کے متعلق پوچھ رہے ہیں ،
یا عقیدہ وعمل کے لحاظ سے علامہ ابن قیم کی حالت وحیثیت کے بارے استفسار کررہے ہیں ،??
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@اسحاق سلفی بھائی

آپ نے یہ کہا -

اصل بات یہ ہے کہ یہ روح کا لوٹایا جانا ایسا نہیں جس سے دنیوی زندگی لازم آئے؛اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں اور اس پر ایمان بہ ہر حال ضروری ہے؛ابن حزمؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن محدثین کے ہاں یہ درست ہے اور اس پر جو اشکالات ابن حزمؒ نے پیش کیے ہیں ان کا جواب ابن قیمؒ نے دیا ہے کتاب الروح میں۔



ابن قیم رحم الله کی کتاب کے بارے میں زبیر علی زئی رحم الله کیا کہ رہے ہیں -


ابن القیم کی ثابت شدہ "کتاب الروح" اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔


لنک

http://www.tohed.com/2014/09/blog-post_80.html

کیا آپ زبیر علی زئی رحم الله کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں -

ابن قیم رحم الله نے اپنی کتاب الروح میں جو لکھا ہے - کیا آپ وہ سب مانتے ہیں یا نہیں - آپ نے کہا -

ابن حزمؒ نے پیش کیے ہیں ان کا جواب ابن قیمؒ نے دیا ہے کتاب الروح میں۔

کیا میں یہ کتاب پوری پڑھ سکتا ہوں یا اس میں صرف آپ کا دیا گیا حوالہ پڑھوں -


ذرا ابن قیم رحم الله کی ان باتوں کی وضاحت بھی کر دیں - آپ ماشاءاللہ علم والے ہیں - آپ کی وضاحتوں سے یہاں سب کو فائدہ ہو گا - شکریہ

ابن قیم رحم الله کتاب الروح میں لکھتے ہیں کہ :


فصل وَأما قَول من قَالَ إِن أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين فِي السَّمَاء السَّابِعَة وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين فِي الأَرْض السَّابِعَة فَهَذَا قَول قد قَالَه جمَاعَة من السّلف وَالْخلف وَيدل عَلَيْهِ قَول النَّبِي اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى وَقد تقدم حَدِيث أَبى هُرَيْرَة أَن الْمَيِّت إِذا خرجت روحه عر ج بهَا إِلَى السَّمَاء حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل وَتقدم قَول أَبى مُوسَى أَنَّهَا تصعد حَتَّى تَنْتَهِي إِلَى الْعَرْش وَقَول حُذَيْفَة أَنَّهَا مَوْقُوفَة عِنْد الرَّحْمَن وَقَول عبد الله بن عمر إِن هَذِه الْأَرْوَاح عِنْد الله وَتقدم قَول النَّبِي أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء تأوي إِلَى قناديل تَحت الْعَرْش وَتقدم حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَنَّهَا تصعد من سَمَاء إِلَى سَمَاء ويشيعها من كل سَمَاء مقربوها حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة وَفِي لفظ إِلَى السَّمَاء الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل

وَلَكِن هَذَا لَا يدل على استقرارها هُنَاكَ بل يصعد بهَا إِلَى هُنَاكَ للعرض على رَبهَا فَيقْضى فِيهَا أمره وَيكْتب كِتَابه من أهل عليين أَو من أهل سِجِّين ثمَّ تعود إِلَى الْقَبْر للمسألة ثمَّ ترجع إِلَى مقرها الَّتِي أودعت فِيهِ فأرواح الْمُؤمنِينَ فِي عليين بِحَسب مَنَازِلهمْ وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين بِحَسب مَنَازِلهمْ



بیان کہ کہنے والے کا قول بے شک ارواح المومنین عليين میں ساتویں آسمان پر ہیں اور کفّار کی اورح سجین میں ساتویں زمین میں ہیں پس یہ قول ہے جو سلف و خلف نے کہا ہے اور اس پر دلالت کرتا ہے نبی کا قول کہ اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى اور پیش کی ہے ابو ھریرہ کی حدیث کہ جب میت کی روح نکلتی ہے تو وہ آسمان پر چڑھتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی ہے جس پر الله عز وَجل ہے اور پیش کرتے ہیں ابو موسیٰ کا قول کہ وہ اوپر جاتی ہے یہاں تک کہ عرش تک اور حذیفہ کا قول کہ وہ رحمان کے پاس رکی ہوئی ہے اور عبد الله ابن عمر کا قول کہ بے شک یہ ارواح الله کے پاس ہیں اور نبی کا قول ہے کہ شہداء کی ارواح قندیلوں میں عرش رحمان کے نیچے ہیں اور الْبَراء بن عَازِب کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ یہ ارواح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک جاتی ہیں .. یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچتی ہیں جس پر الله عز وَجل ہے

لیکن یہ اس پر دلالت نہیں کرتیں کہ ارواح وہاں روکتی بھی ہیں بلکہ وہ تو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے چڑھتی ہیں پس ان کا فیصلہ ہوتا ہے اور ان کی کتاب اہل عليين یا اہل سجیں میں لکھی جاتی ہے پھر قبر میں لوٹایا جاتا ہے سوال کے لئے پھر لوٹایا جاتا ہے اور انکی جگہ جمع کیا جاتا ہے ، پس ارواح المومنین عليين میں حسب منازل ہوتی ہیں اور کفار کی ارواح سجین میں حسب منازل ہوتی ہیں




روح کا ٹھکانہ کیا ہوتا ہے ابن قیم رحم الله کے نزدیک یہ اہم نہیں بلکہ ابن قیم رحم الله کے مطابق روحیں قبروں میں اتی جاتی رہتی ہیں ، نہ صرف یہ بلکہ نیک لوگوں کی روحیں تو بہت پاور فل ہیں کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَقد رأى رَسُول الله مُوسَى قَائِما يصلى فِي قبر وَرَآهُ فِي السَّمَاء السَّادِسَة وَالسَّابِعَة فإمَّا أَن تكون سريعة الْحَرَكَة والانتقال كلمح الْبَصَر وَإِمَّا أَن يكون الْمُتَّصِل مِنْهَا بالقبر وفنائه بِمَنْزِلَة شُعَاع الشَّمْس وجرمها فِي السَّمَاء وَقد ثَبت أَن روح النَّائِم تصعد حَتَّى تخترق السَّبع الطباق وتسجد لله بَين يَدي الْعَرْش ثمَّ ترد إِلَى جسده فِي أيسر زمَان وَكَذَلِكَ روح الْمَيِّت تصعد بهَا الْمَلَائِكَة حَتَّى تجَاوز السَّمَوَات السَّبع وتقف بَين يَدي الله فتسجد لَهُ وَيقْضى فِيهَا قَضَاء ويريها الْملك مَا أعد الله لَهَا فِي الْجنَّة ثمَّ تهبط فَتشهد غسله وَحمله وَدَفنه وَقد تقدم فِي حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَن النَّفس يصعد بهَا حَتَّى توقف بَين يَدي الله فَيَقُول تَعَالَى اكتبوا كتاب عبدى فِي عليين ثمَّ أعيدوه إِلَى الأَرْض فيعاد إِلَى الْقَبْر وَذَلِكَ فِي مِقْدَار تَجْهِيزه وتكفينه فقد صرح بِهِ فِي حَدِيث ابْن عَبَّاس حَيْثُ قَالَ فيهبطون على قدر فَرَاغه من غسله وأكفانه فَيدْخلُونَ ذَلِك الرّوح بَين جسده وأكفانه


اور بے شک رسول الله نے موسیٰ کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کوچھٹے اور ساتویں آسمان پر بھی دیکھا پس یہ روح سریع الحرکت اور ٹرانسفر ہوتی ہے جیسا کہ پلک جھپکتے میں ہوتا ہے اور یا پھر یہ قبر سے متصل ہوتی ہے جس طرح سورج کی کرن (کہ زمین پر بھی پڑتی ہے) اور آسمان میں بھی ہوتی ہے اور بے شک یہ ثابت ہے کہ سونے والے کی روح آسمان میں چڑھتی ہے اور ساتوں طبق میں جاتی ہے اور الله کو عرش کے سامنے سجدہ کرتی ہے پھر اسکو جسد میں لوٹایا جاتا ہے آسان اوقات میں (یعنی صبح ہونے پر) اور اسی طرح میت کی روح کہ فرشتے اس کو آسمان پر چڑھاتے ہیں حتی کہ سات آسمان پار کر جاتی ہے اور الله کے سامنے رکتی ہے اور سجدہ کرتی ہے اور اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے بادشاہ نے جو مقرر کیا ہوتا اس کے مطابق جنت کی سیر کرتی ہے پھر یہ اترتی ہے اور اپنا غسل اور (جنازہ) اٹھانا اور دفنانا دیکھتی ہے … اور یہ روح جسد اور کفن کے درمیان داخل کی جاتی ہے


ابن قیم کہتے ہیں کہ میت سنتی ہے اور روح کا جسد سے اتصال اس سے ثابت ہوتا ہے کہ

وَلها اتِّصَال بِالْبدنِ بِحَيْثُ إِذا سلم الْمُسلم على الْمَيِّت رد الله عَلَيْهِ روحه فَيرد عَلَيْهِ السَّلَام

اور اس کا بدن سے اتصال اس طور سے کہ جب کوئی مسلم میت کو سلام کرے تو روح پلٹتی ہے تاکہ سلام کا جواب دے




یہ بھی کہتے ہیں

قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت

اور امام مالک اور دیگر کہتے ہیں کہ روح مر سلہ جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے



ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں


وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ



اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے




کیا کہیں گے آپ یہاں ابن قیم رحم الله کی کتاب میں کی گئی باتوں پر -

 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
@اسحاق سلفی بھائی

آپ نے یہ کہا -

اصل بات یہ ہے کہ یہ روح کا لوٹایا جانا ایسا نہیں جس سے دنیوی زندگی لازم آئے؛اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں اور اس پر ایمان بہ ہر حال ضروری ہے؛ابن حزمؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن محدثین کے ہاں یہ درست ہے اور اس پر جو اشکالات ابن حزمؒ نے پیش کیے ہیں ان کا جواب ابن قیمؒ نے دیا ہے کتاب الروح میں۔



ابن قیم رحم الله کی کتاب کے بارے میں زبیر علی زئی رحم الله کیا کہ رہے ہیں -


ابن القیم کی ثابت شدہ "کتاب الروح" اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔


لنک

http://www.tohed.com/2014/09/blog-post_80.html

کیا آپ زبیر علی زئی رحم الله کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں -

ابن قیم رحم الله نے اپنی کتاب الروح میں جو لکھا ہے - کیا آپ وہ سب مانتے ہیں یا نہیں - آپ نے کہا -

ابن حزمؒ نے پیش کیے ہیں ان کا جواب ابن قیمؒ نے دیا ہے کتاب الروح میں۔

کیا میں یہ کتاب پوری پڑھ سکتا ہوں یا اس میں صرف آپ کا دیا گیا حوالہ پڑھوں -


ذرا ابن قیم رحم الله کی ان باتوں کی وضاحت بھی کر دیں - آپ ماشاءاللہ علم والے ہیں - آپ کی وضاحتوں سے یہاں سب کو فائدہ ہو گا - شکریہ

ابن قیم رحم الله کتاب الروح میں لکھتے ہیں کہ :


فصل وَأما قَول من قَالَ إِن أَرْوَاح الْمُؤمنِينَ فِي عليين فِي السَّمَاء السَّابِعَة وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين فِي الأَرْض السَّابِعَة فَهَذَا قَول قد قَالَه جمَاعَة من السّلف وَالْخلف وَيدل عَلَيْهِ قَول النَّبِي اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى وَقد تقدم حَدِيث أَبى هُرَيْرَة أَن الْمَيِّت إِذا خرجت روحه عر ج بهَا إِلَى السَّمَاء حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل وَتقدم قَول أَبى مُوسَى أَنَّهَا تصعد حَتَّى تَنْتَهِي إِلَى الْعَرْش وَقَول حُذَيْفَة أَنَّهَا مَوْقُوفَة عِنْد الرَّحْمَن وَقَول عبد الله بن عمر إِن هَذِه الْأَرْوَاح عِنْد الله وَتقدم قَول النَّبِي أَن أَرْوَاح الشُّهَدَاء تأوي إِلَى قناديل تَحت الْعَرْش وَتقدم حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَنَّهَا تصعد من سَمَاء إِلَى سَمَاء ويشيعها من كل سَمَاء مقربوها حَتَّى يَنْتَهِي بهَا إِلَى السَّمَاء السَّابِعَة وَفِي لفظ إِلَى السَّمَاء الَّتِي فِيهَا الله عز وَجل

وَلَكِن هَذَا لَا يدل على استقرارها هُنَاكَ بل يصعد بهَا إِلَى هُنَاكَ للعرض على رَبهَا فَيقْضى فِيهَا أمره وَيكْتب كِتَابه من أهل عليين أَو من أهل سِجِّين ثمَّ تعود إِلَى الْقَبْر للمسألة ثمَّ ترجع إِلَى مقرها الَّتِي أودعت فِيهِ فأرواح الْمُؤمنِينَ فِي عليين بِحَسب مَنَازِلهمْ وأرواح الْكفَّار فِي سِجِّين بِحَسب مَنَازِلهمْ



بیان کہ کہنے والے کا قول بے شک ارواح المومنین عليين میں ساتویں آسمان پر ہیں اور کفّار کی اورح سجین میں ساتویں زمین میں ہیں پس یہ قول ہے جو سلف و خلف نے کہا ہے اور اس پر دلالت کرتا ہے نبی کا قول کہ اللَّهُمَّ الرفيق الْأَعْلَى اور پیش کی ہے ابو ھریرہ کی حدیث کہ جب میت کی روح نکلتی ہے تو وہ آسمان پر چڑھتی ہے یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچتی ہے جس پر الله عز وَجل ہے اور پیش کرتے ہیں ابو موسیٰ کا قول کہ وہ اوپر جاتی ہے یہاں تک کہ عرش تک اور حذیفہ کا قول کہ وہ رحمان کے پاس رکی ہوئی ہے اور عبد الله ابن عمر کا قول کہ بے شک یہ ارواح الله کے پاس ہیں اور نبی کا قول ہے کہ شہداء کی ارواح قندیلوں میں عرش رحمان کے نیچے ہیں اور الْبَراء بن عَازِب کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ یہ ارواح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک جاتی ہیں .. یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچتی ہیں جس پر الله عز وَجل ہے

لیکن یہ اس پر دلالت نہیں کرتیں کہ ارواح وہاں روکتی بھی ہیں بلکہ وہ تو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے چڑھتی ہیں پس ان کا فیصلہ ہوتا ہے اور ان کی کتاب اہل عليين یا اہل سجیں میں لکھی جاتی ہے پھر قبر میں لوٹایا جاتا ہے سوال کے لئے پھر لوٹایا جاتا ہے اور انکی جگہ جمع کیا جاتا ہے ، پس ارواح المومنین عليين میں حسب منازل ہوتی ہیں اور کفار کی ارواح سجین میں حسب منازل ہوتی ہیں




روح کا ٹھکانہ کیا ہوتا ہے ابن قیم رحم الله کے نزدیک یہ اہم نہیں بلکہ ابن قیم رحم الله کے مطابق روحیں قبروں میں اتی جاتی رہتی ہیں ، نہ صرف یہ بلکہ نیک لوگوں کی روحیں تو بہت پاور فل ہیں کتاب الروح میں لکھتے ہیں

وَقد رأى رَسُول الله مُوسَى قَائِما يصلى فِي قبر وَرَآهُ فِي السَّمَاء السَّادِسَة وَالسَّابِعَة فإمَّا أَن تكون سريعة الْحَرَكَة والانتقال كلمح الْبَصَر وَإِمَّا أَن يكون الْمُتَّصِل مِنْهَا بالقبر وفنائه بِمَنْزِلَة شُعَاع الشَّمْس وجرمها فِي السَّمَاء وَقد ثَبت أَن روح النَّائِم تصعد حَتَّى تخترق السَّبع الطباق وتسجد لله بَين يَدي الْعَرْش ثمَّ ترد إِلَى جسده فِي أيسر زمَان وَكَذَلِكَ روح الْمَيِّت تصعد بهَا الْمَلَائِكَة حَتَّى تجَاوز السَّمَوَات السَّبع وتقف بَين يَدي الله فتسجد لَهُ وَيقْضى فِيهَا قَضَاء ويريها الْملك مَا أعد الله لَهَا فِي الْجنَّة ثمَّ تهبط فَتشهد غسله وَحمله وَدَفنه وَقد تقدم فِي حَدِيث الْبَراء بن عَازِب أَن النَّفس يصعد بهَا حَتَّى توقف بَين يَدي الله فَيَقُول تَعَالَى اكتبوا كتاب عبدى فِي عليين ثمَّ أعيدوه إِلَى الأَرْض فيعاد إِلَى الْقَبْر وَذَلِكَ فِي مِقْدَار تَجْهِيزه وتكفينه فقد صرح بِهِ فِي حَدِيث ابْن عَبَّاس حَيْثُ قَالَ فيهبطون على قدر فَرَاغه من غسله وأكفانه فَيدْخلُونَ ذَلِك الرّوح بَين جسده وأكفانه


اور بے شک رسول الله نے موسیٰ کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا اور ان کوچھٹے اور ساتویں آسمان پر بھی دیکھا پس یہ روح سریع الحرکت اور ٹرانسفر ہوتی ہے جیسا کہ پلک جھپکتے میں ہوتا ہے اور یا پھر یہ قبر سے متصل ہوتی ہے جس طرح سورج کی کرن (کہ زمین پر بھی پڑتی ہے) اور آسمان میں بھی ہوتی ہے اور بے شک یہ ثابت ہے کہ سونے والے کی روح آسمان میں چڑھتی ہے اور ساتوں طبق میں جاتی ہے اور الله کو عرش کے سامنے سجدہ کرتی ہے پھر اسکو جسد میں لوٹایا جاتا ہے آسان اوقات میں (یعنی صبح ہونے پر) اور اسی طرح میت کی روح کہ فرشتے اس کو آسمان پر چڑھاتے ہیں حتی کہ سات آسمان پار کر جاتی ہے اور الله کے سامنے رکتی ہے اور سجدہ کرتی ہے اور اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے بادشاہ نے جو مقرر کیا ہوتا اس کے مطابق جنت کی سیر کرتی ہے پھر یہ اترتی ہے اور اپنا غسل اور (جنازہ) اٹھانا اور دفنانا دیکھتی ہے … اور یہ روح جسد اور کفن کے درمیان داخل کی جاتی ہے


ابن قیم کہتے ہیں کہ میت سنتی ہے اور روح کا جسد سے اتصال اس سے ثابت ہوتا ہے کہ

وَلها اتِّصَال بِالْبدنِ بِحَيْثُ إِذا سلم الْمُسلم على الْمَيِّت رد الله عَلَيْهِ روحه فَيرد عَلَيْهِ السَّلَام

اور اس کا بدن سے اتصال اس طور سے کہ جب کوئی مسلم میت کو سلام کرے تو روح پلٹتی ہے تاکہ سلام کا جواب دے




یہ بھی کہتے ہیں

قَالَ مَالك وَغَيره من الْأَئِمَّة أَن الرّوح مُرْسلَة تذْهب حَيْثُ شَاءَت

اور امام مالک اور دیگر کہتے ہیں کہ روح مر سلہ جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے



ابن قیّم کتاب الروح میں لکھتے ہیں


وَالسَّلَف مجمعون على هَذَا وَقد تَوَاتَرَتْ الْآثَار عَنْهُم بِأَن الْمَيِّت يعرف زِيَارَة الْحَيّ لَهُ ويستبشر بِهِ



اور سلف کا اس پر اجماع ہے اور متواتر آثار سے پتا چلتا ہے کہ میّت قبر پر زیارت کے لئے آنے والے کو پہچانتی ہے اور خوش ہوتی ہے




کیا کہیں گے آپ یہاں ابن قیم رحم الله کی کتاب میں کی گئی باتوں پر -

بھائی میرے بات یہ ہے کہ میں نے ابن قیم کا حوالہ دیا تھا کہ انھوں نے ابن حزم کی اس بات کا رد کیا ہے کہ مردہ کے جسم میں روح لوٹنے والی حدیث ضعیف ہے اور بس؛اب یہ بات تمام ہی محدثین کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن ابن قیم نے باقاعدہ نام لے کر ابن حزم کا رد کیا ہے اس لیے ان کا حوالہ دے دیا۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ ہم امام ابن قیم یا کسی بھی امام کے مقلد نہیں ہیں بل کہ دلیل کی پیروی کرتے ہیں؛رسول اللہ ﷺ کے علاوہ ہر شخص کی بات سے دلائل کی بنا پر اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اسے رد بھی کیا جا سکتا ہے۔
اب جو امور آپ نے پیش کیے ہیں مثلاً مردے کا زائر کو پہچاننا یا روح کا جہاں چاہے چلے جانا تو دیکھیں گے کہ ان کی کتاب و سنت سے کوئی دلیل ہے یا نہیں؟اگر دلیل صحیح ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر نہیں تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
آخر میں یہ بھی کہوں گا کہ آپ بھی مختلف علما کے حوالے پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ فرمایا۔۔۔تو کیا آپ اس عالم کی ہر بات کو لیتے ہیں یا اس کے ردو قبول کا کوئی پیمانہ ہے؟؟؟یا آپ کسی بھی عالم سے کوئی بھی بات نہیں لیتے؟؟؟
میرا خیال ہے آپ نے صرف اعتراض براے اعتراض کیا ہے ورنہ یہ بڑی واضح سی بات ہے؛اللہ ہم سب کو قبول حق کی توفیق عطا فرمائے اور بے فائدہ و بے دلیل و بغیر علم بحث و جدل کی نحوستوں سے محفوظ فرمائے؛آمین
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
لولی اور جواد صاحب کی پوسٹیں غور سے پڑھیں۔ ان حضرات کی پوسٹوں میں لفظ حدیث کو استعمال کرتے ہوئے حدیث کے استناد و فہم کے بارے جو تبصرے موجود ہیں وہ انکار حجیت حدیث پر دلالت کرنے والے ہیں۔

ایک دھچکا تو یہ لگا کہ ہمارے ایسے لوگ کس طرح چپکے سے پوسٹیں کرتے رہتے ہیں اور اپنے عمل سے اپنے آپ کو اہل حدیث شو کرواتے رہتے ہیں لیکن جب لوگ ان کی پوسٹوں کی تعداد اور ان کے موضوعات سے متاثر ہونا شروع کر دیتے ہیں تو پھر یکدم ایسے حضرات کا اصل چہرہ سامنے آ جاتا ہے۔

میری رائے میں ایسی فکر کے حاملین سے پہلے حجیت حدیث پر بحث ہونی چاہیے کیونکہ کسی جزوی مسئلے میں الجھانا ان کا مقصود ہوتا ہے۔ اور حجیت حدیث سے پہلے بھی ثبوت وحجیت قرآن پر۔ پھر ان کا استعجاب دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ کم از کم جتنوں سے مجھے براہ راست گفتگو کا موقع ملا ہے وہ بیچارے مولوی کے واسطے کے بغیر قرآن بھی ثابت نہ کر سکتے تھے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی بھائی

ابن قیم رحم الله کی کتاب کے بارے میں زبیر علی زئی رحم الله کیا کہ رہے ہیں -


ابن القیم کی ثابت شدہ "کتاب الروح" اور دیگر کتابوں میں ضعیف و مردود روایات ضرور موجود ہیں۔



کیا آپ زبیر علی زئی رحم الله کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں -

ابن قیم رحم الله نے اپنی کتاب الروح میں جو لکھا ہے - کیا آپ وہ سب مانتے ہیں یا نہیں - آپ نے کہا -

کیا کہیں گے آپ یہاں ابن قیم رحم الله کی کتاب میں کی گئی باتوں پر -[/H1]​

عزیزبھائی:
علامہ ابن قیم ؒ ہوں یا کوئی بھی عالم سب کے متعلق اہل ایمان کا ایک اصول یہ بھی ہےکہ: يؤخذ من قوله ويترك إلا النبي صلى الله عليه وسلم’‘کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جس کی ہر ہربات قبول کی جائے ’‘
قال الإمام البخاري في القراءة خلف الإمام :
والوجه الثالث اذا ثبت الخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم وأصحابه فليس في الأسود ونحوه حجة قال ابن عباس ومجاهد ليس أحد بعد النبي صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم إلا يؤخذ من قوله ويترك إلا النبي صلى الله عليه وسلم ’‘
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
لولی اور جواد صاحب کی پوسٹیں غور سے پڑھیں۔ ان حضرات کی پوسٹوں میں لفظ حدیث کو استعمال کرتے ہوئے حدیث کے استناد و فہم کے بارے جو تبصرے موجود ہیں وہ انکار حجیت حدیث پر دلالت کرنے والے ہیں۔
میرے بھائی ذرا ان احادیث کی بھی وضاحت کر دیں - جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دئے گئے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں تو ان کو عذاب کہاں ہوا - زمینی آسمانی قبر میں - کیوں کہ مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ کر پھینک دیا گیا - کیا پھر ان کے عذاب کا کیا ہوا -​


صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 414 حدیث مرفوع مکررات 16 متفق علیہ 12 بدون مکرر

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ أَعْلَی الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَکْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّی أَلْقَی بِفِنَائِ أَبِي أَيُّوبَ وَکَانَ يُحِبُّ أَنْ يُصَلِّيَ حَيْثُ أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ وَأَنَّهُ أَمَرَ بِبِنَائِ الْمَسْجِدِ فَأَرْسَلَ إِلَی مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِکُمْ هَذَا قَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَی اللَّهِ فَقَالَ أَنَسٌ فَکَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَکُمْ قُبُورُ الْمُشْرِکِينَ وَفِيهِ خَرِبٌ وَفِيهِ نَخْلٌ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ ثُمَّ بِالْخَرِبِ فَسُوِّيَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ الْحِجَارَةَ وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَالنَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ

مسدد، عبدالوارث، ابوالتیا ح، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ )ہجرت کر کے( تشریف لائے ، تو مدینہ کی بلندی پر ایک قبیلہ میں جس کو بنی عمرو بن عوف کہتے ہیں اترے، اور ان لوگوں میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چوبیس راتیں قیام فرمایا، پھر آپ نے بنی نجار کو پیغام بھیجا، تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آپہنچے، اب گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی سواری پر ہیں اور ابوبکر آپ کے ہم ردیف ہیں اور بنی نجار کی جماعت آپ کے گرد ہے، الغرض! آپ نے ابوایوب کے مکان میں اپنا سامان اتارا، آپ یہ اچھا سمجھتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپ بکریوں کہ رہنے کہ جگہ میں بھی نماز پڑھ لیتے، جب آپ نے مسجد کی تعمیر کرنے کا حکم دیا تب نبی نجار کے لوگوں کو آپ نے پیغام بھیجا اور فرمایا کہ اے بنی نجا ر، اپنا یہ باغ تم میرے ہاتھ بیچ ڈالو، انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم! ہم اس کی قیمت نہ لیں گے، مگر اللہ بزرگ و برتر سے، انس کہتے ہیں کہ اس )باغ( میں وہ چیزیں تھیں، جو میں تم سے کہتا ہوں، یعنی مشرکوں کی قبریں اور اس میں ویرانہ تھا اور اس میں کھجور کے درخت تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکوں کی قبروں کے متعلق حکم دیا کہ وہ کھود ڈالی جائیں، پھر ویرانے کو برابر کردیا گیا اور درختوں کو کاٹ ڈالا گیا، اور ان درختوں کو مسجد کی جانب قبلہ میں نصب کردیا گیا اور ان کی بندش پتھروں سے کردی گئی، صحابہ پتھر لانے لگے اور وہ رجز پڑھتے جاتے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہمراہ فرماتے جاتے تھے، کہ اے میرے اللہ بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے، اس لیے انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1168 حدیث مرفوع مکررات 16 متفق علیہ 12 بدون مکرر

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ کِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ يَحْيَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَنَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ إِنَّهُ أَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا مُتَقَلِّدِينَ بِسُيُوفِهِمْ قَالَ فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَکْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّی أَلْقَی بِفِنَائِ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَکَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِالْمَسْجِدِ قَالَ فَأَرْسَلَ إِلَی مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَائُوا فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِکُمْ هَذَا قَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَی اللَّهِ قَالَ أَنَسٌ فَکَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ کَانَ فِيهِ نَخْلٌ وَقُبُورُ الْمُشْرِکِينَ وَخِرَبٌ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّخْلِ فَقُطِعَ وَبِقُبُورِ الْمُشْرِکِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ قَالَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةً وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً قَالَ فَکَانُوا يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ وَهُمْ يَقُولُونَ اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْفَانْصُرْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ

یحیی بن یحیی، شیبان بن فروخ، عبدالوارث، یحیی، عبدالوارث ابن سعید، ابی تیاح، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچے اور شہر کے بالائی علاقہ کے ایک محلہ میں تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں چودہ راتیں قیام فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنو نجار کو بلوایا وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے حاضر ہوئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں یہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور بنو نجار آپ کے ارد گرد تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوایوب کے گھر کے صحن میں اترے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں نماز کا وقت پاتے وہیں نماز پڑھ لیتے تھے یہاں تک کہ بکریوں کے باڑہ میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد بنانے کا ارادہ کیا اور بنو نجار کو بلوایا جب وہ آئے تو فرمایا تم اپنا باغ مجھے فروخت کر دو انہوں نے کہا اللہ کی قسم ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس باغ کی قیمت نہیں لیں گے ہم اس کا معاوضہ صرف اللہ تعالی سے چاہتے ہیں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس باغ میں جو چیزیں تھیں انہیں میں بتاتا ہوں اس میں کچھ کھجوروں کے درخت، مشرکین کی قبریں اور کھنڈرات تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دئے گئے مشرکین کی قبریں اکھاڑ کر پھینک دی گئیں اور کھنڈرات ہموار کر دئیے گئے اور کہجور کی لکڑیاں قبلہ کی طرف گاڑھ دی گئیں اور اس کے دونوں طرف پتھر لگا دئیے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رجزیہ کلمات پڑھ رہے تھے۔ اے اللہ! بھلائی تو صرف آخرت کی بھلائی ہے پس تو انصار اور مہاجرین کی مدد فرما۔


یہاں بھی کچھ وضاحت کر دیں


azab qabr kahan hota hai.jpg




اگر جواب نہیں دے سکتے تو ایک عدد فتویٰ ہی لگا دو - لیکن یاد رکھنا احناف پر کوئی فتویٰ نہ لگا دینا - کیوں کہ وہاں آپ کی زبان شریف بند -ابتسامہ



۔
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اپنی اس بات کی دلیل قرآن اور صحیح احادیث سے دے دیں
سبحان اللہ !سبحان اللہ!
ابھی تک اآپ کو دلیل سمجھ ہی نہیں آئی؟؟؟
سوال و جواب کے وقت روح لوٹانے کا ذکر مسند احمد میں مروی حدیث براءؓ میں ہے
اور
عذاب کے وقت روح لوٹانے کا یا جسم میں روح کے موجود ہونے کا تذکرہ میرے علم کی حد تک کسی بھی حدیث میں نہیں۔واللہ اعلم
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
عذاب کے وقت روح لوٹانے کا یا جسم میں روح کے موجود ہونے کا تذکرہ میرے علم کی حد تک کسی بھی حدیث میں نہیں۔واللہ اعلم

پھر یہاں پر بحث کس بات کی - میرے بھائی میں نے کب قبر کے عذاب سے انکار کیا - ہماری بات نقطے پر اٹکی ہوئی ہے - وہ بھی انشاءاللہ جلدی ھل ہو جا ے گا -

باقی آپ لوگ فتویٰ پر فتویٰ لگا رہے ہیں - میں کچھ کہنا چاہوں گا - اگر آپ لوگ اجازت دیں تو -
 
Top