اَئِمَّة مُضِلِّیْنَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:
((وَاِنَّ مِمَّا اَتَخَوَّفُ عَلٰی اُمَّتِیْ اَئِمَّة مُضِلِّیْنَ))
’’مجھے سب سے زیادہ خوف اپنی امت کے بارے میں گمراہ کرنے والے قائدین سے ہے‘‘۔
رواہ ابن ماجہ ،کتاب الفتن, عن ثوبان ؓواسنادہ صحیح۔
حضرت ابو ذر غفاری نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اپنی امت کے اوپر دجال کے علاوہ ایک اور چیز سے ڈرتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ دہرائی ۔میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ !دجال کے علاوہ وہ کون سی چیز ہے جس کے تعلق سے اپنی امت کے بارے میں آپ ڈرتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آئمة المضلّین‘‘ گمراہ کرنے والے قائدین۔‘‘
رواہ ابو ذر غفاری ؓ،مسند احمد جلد:۵،صفحہ ۱۴۴۔
میں اپنی امت کے بارے میں جس چیز سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے قائدین ہیں ‘‘۔ مسند احمدج:۵ص:۱۴۵۔
((أَیُّ شَیْئٍ اَخْوَفُ عَلیٰ اُمَّتِکَ مِنَ الدَّجَّالِ؟قَالَ:الَأَ ئِمَّة الْمُضلِّیْنَ))
’’(کسی نے پوچھا )دجال سے بھی زیادہ آپ کواپنی امت پرکس چیز کا ڈر ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "گمراہ کرنے والے اماموں کا‘‘۔
شیخ ابو قتادہ الفلسطینی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد اس بات کو واجب کرتا ہے کہ’’آئمة المضلّین‘‘ کو ظاہر کیا جائے جیسے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے معاملے کو واضح کیا اس کے تمام فتنو ں کے ساتھ، جبکہ دجال دنیا میں واقع ہونے والا سب سے بڑا فتنہ ہے جیسے کہ بعض احادیث میں آیا ہے۔ تو یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ’’آئمة المضلّین‘‘ اس دجال سے بھی زیادہ بُرے اور امت کے لئے فساد کا باعث ہیں ‘‘۔
سلسلہ مقالات بین منھجین لأبی قتادہ الفلسطینی :۱۰۔
یہاں یہ امر واضح رہے اور عامۃ الناس بھی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ یہ’’آئمة المضلّین‘‘ ’’گمراہ کرنے والے آئمہ‘‘سے صرف وہ رہنما ،قائدین اور دانشور مراد نہیں جوکہ کھلم کھلا اور واضح طور پر اسلام سے بیزار ہوں اور اسلام کے احکام و قوانین سے اور اس کے نفاذ سے شدید بغض و عناد رکھتے ہوں ،کیونکہ ایسے لوگوں کی اسلام دشمنی عوام الناس پر واضح ہوتی ہے اور ان سے بہت کم ہی لوگ گمراہی کی طرف جاتے ہیں،بلکہ ان سے مراد وہ رہنما ،قائدین ،دانشور ،اسکالر ،محققین اور وارثین انبیاء کے دعوے دار وہ علماء سوء ہیں جو بظاہر تو اپنا ناطہ و رشتہ قرآن وحدیث سے جوڑنے کے دعوے دار ہوتے ہیں ،اس کے ساتھ عقل ودانش ،فصاحت و بلاغت اور خطیبانہ انداز میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، مگر شریعت اسلامی کے وہ احکام و قوانین جن پر امت کے عروج و زوال بلکہ موت و زندگی کا سوال ہے اور جن کے بارے میں قرآن و حدیث کے نصوص بالکل واضح و مبین ہیں اورجن میں کسی کلام یا رائے کی گنجائش نہیں۔اُن کو بھی :
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
کس قدر بے توفیق ہوئے فقیہانِ حرم
کے مصداق علمائے یہود کی طرح :
یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ
’’وہ کلمات(شریعت)کو اپنے مقامات سے پھیر دیتے ہیں ‘‘۔
اور ان تمام افعال سے ان کا مقصود و مطلوب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی تمام مادّی و مالی فوائد سے مستفیذ ہو سکیں،اور اپنی جاہ و مسند کو بچانے کی خاطر اُن حکمرانوں کے مسلمان ہونے اور ان کی حکمرانی کے جائز ہونے کے جھوٹے اور گمراہ کن دلائل ڈھونڈیں جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف اپنا حکم نافذ کر رہے ہوں اور جن کی اسلام و مسلمان دشمنی اور یہود و نصاریٰ سے دوستی کسی سے پوشیدہ نہ ہو ۔اس کے باوجود وہ اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے ہمدرد اور غم خوار کے طور پر اپنی عظیم الشان مسندوں اور عہدوں پر قائم رہیں۔ایسے’’آئمة المضلّین‘‘ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے امت کو پہلے ہی خبردار کردیا تھا ۔
امام ابن ماجہ ثقہ راویوں کی وساطت سے حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :
’’میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ)حاصل کریں گے ، قرآن پڑھیں گے اور کہیں گے ہم امراء(حکام )کے ہاں جاتے ہیں تاکہ ان کی دنیا میں سے بھی کچھ لے لیں اور اپنے دین کو بھی بچا رکھیں ، حالانکہ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں،جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ملتا ، اسی طرح ان امراء کی قربت سے بھی خطاؤں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
امام ابن عساکر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’میرے بعد میری امت میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگا جو قرآن پڑھے گا اور دین میں تفقہ حاصل کرے گا ۔ شیطان ان کے پاس آئے گا اور ان سے کہے گا کہ کیسا ہو اگر تم لوگ حاکم کے پاس جاؤ؟ وہ تمہاری دنیا کا بھی کچھ بھلا کر دے گا اور تم لوگ اپنے دین کو اس سے بچائے رکھنا !جبکہ ایسا ہو نہیں سکتا، کیونکہ جس طرح ببول کے درخت سے کانٹوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ، اسی طرح ان کی قربت سے خطاؤں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘‘۔
امام دیلمی نے حضرت ابودرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
’’ جو شخص ظالم حکمران کے پاس خود اپنی مرضی سے گیا،اس کی خوشامد کرنے کے لیے، اس سے ملاقات کی اور اسے سلام کیا تو وہ اس راہ میں اٹھائے گئے قدموں کے برابر جہنم میں گھستا چلاجائے گا ، یہاں تک کہ وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے گھر لوٹ آئے،اور اگر وہ شخص حکمران کی خواہشات کی طرف مائل ہوا یا اس کا دستِ بازو بنا تو جیسی لعنت اللہ کی طرف سے اس (حاکم )پر پڑے گی ویسی ہی لعنت اس پر بھی پڑے گی ،اور جیسا عذاب دوزخ اُسے ملے گا ویسا ہی اِسے بھی ملے گا‘‘۔
امام حاکم نے اپنی کتاب تاریخ میں اور امام دیلمی نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :
’’جو عالم بھی صاحب اقتدار کے پاس اپنی مرضی سے گیا (اور اس کی ظلم میں معاونت کی) تو وہ اسے جہنم میں دیئے جانے والے ہر قسم کے عذاب میں شریک ہوگا‘‘۔
امام حسن بن سفیان نے اپنی ’’مسند‘‘میں ، امام حاکم نے اپنی کتابِ تاریخ میں ،نیز امام ابو نعیم اور امام دیلمی نے حضرت انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((العلماء امناء الرسل علی عباداللّٰہ مالم یخالطوالسلطان ،فاذا خالطو السلطان فقد خانو الرسل، فاحذروھم ،واعتزلوھم))
’’علماء اللہ کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (ورثے کے)امین ہوتے ہیں ،جب تک وہ حاکم کے ساتھ نہ گھلیں ملیں۔ پس اگر وہ حاکم کے ساتھ گھلے ملے تو بلا شبہ انہوں نے رسولوں سے خیانت کی ۔تو (جو علماء ایسا کریں) تم ان سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
لہٰذا امت مسلمہ کو اب جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ’’آئمة المضلّین‘‘ کی وہ کیا اوصاف اور نشانیاں ہیں جن کے ذریعے ان کو بے نقاب کیا جاسکے تاکہ عوام الناس ان کی فریب کاریوں اور گمراہ کن نظریات سے واقف ہو کر ان سے برأت کر سکیں ۔