• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند احمد (مسند الخلفاء الراشدین) یونیکوڈ

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(171) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا لَمْ يُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ، وَلا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصَةً، وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَتِهِ- وَقَالَ مَرَّةً: قُوتَ سَنَتِهِ - وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ. [صححه البخاري (2904) ومسلم (1757)] [انظر: 337]
(171) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے تھا جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطاء فرمائے، اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لئے یہ مال خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ جو جہاد میں کام آسکے فراہم کر لیتے تھے۔


(172) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَطَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ: نَشَدْتُكُمْ بِاللهِ الَّذِي تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِهِ، أَعَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّا لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ "؟ قَالُوا: اللهُمَّ نَعَمْ. [صححه البخاري (3094) ومسلم (1757)] [انظر: 333، 336، 349، 425، 1391، 1406، 1550، 1658، 1781،1782]
(172) ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں تمیہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔


(173) حَدَّثَنَا سَفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ ". [قال شعيب: صحيح لغيره]
(173) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔


(174) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قُلْتُ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا} [النساء: 101] ، وَقَدْ آمَنَ اللهُ النَّاسَ! فَقَالَ لِي عُمَرُ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ". [صححه مسلم (686) وابن خزيمة (945) وابن حبان (2739)] [انظر: 244، 245]
(174) یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم خوف کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن وامان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہوگیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے ؟) تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔


(175) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ وَهُوَ بِعَرَفَةَ - قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مَرْوَانَ، أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ - فَقَالَ: جِئْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْكُوفَةِ، وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلًا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ، فَغَضِبَ وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيِ الرَّحْلِ، فَقَالَ: وَمَنْ هُوَ وَيْحَكَ؟ قَالَ: عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ. فَمَا زَالَ يُطْفَأُ وَيُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ، حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا. ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ، وَاللهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ هُوَ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَأَنَا مَعَهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجْنَا مَعَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ، فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَهُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ ". قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ: "سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ"، قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: وَاللهِ لَأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلَأُبَشِّرَنَّهُ، قَالَ: فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لِأُبَشِّرَهُ فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ فَبَشَّرَهُ، وَلا وَاللهِ مَا سَابَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ إِلَّا سَبَقَنِي إِلَيْهِ. [صححه ابن خُزيمة (1156 و 1341)، وابن حبان (2034)، قال الالباني: صحيح (الترمذي: 169)] [راجع: 36] [انظر: 178، 228، 265، 267]
(175) قیس بن مروان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیرالمومنین! میں کوفہ سے آپ کے پاس آرہا ہوں ، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہوگئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھر گئے، اور مجھ سے پوچھا افسوس! وہ کون ہے؟ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔
میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہوگئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہوگئے اور مجھ سے فرمایا کمبخت! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے، اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ رات کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعاء کرنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرمانے لگے مانگو، تمہیں عطاء کیا جائےگا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لئے پہنچا تو وہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(176) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ: إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ. [راجع: 99]
(176) عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں میں جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔


(177) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي مِثْلِ مَقَامِي هَذَا، فَقَالَ: " أَحْسِنُوا إِلَى أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ يَحْلِفُ أَحَدُهُمْ عَلَى الْيَمِينِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَحْلَفَ عَلَيْهَا، وَيَشْهَدُ عَلَى الشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَشْهَدَ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَنَالَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ، فَلْيَلْزَمُ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، وَلا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ تَسُرُّهُ حَسَنَتُهُ وَتَسُوؤُهُ سَيِّئَتُهُ، فَهُوَ مُؤْمِنٌ". [صححه ابن حبان: (5586)، قال الالباني: صحيح (ابن ماجة: 2363)]
(177) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران سفر ”جابیہ“ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوں، اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد ایک قوم ایسی آئے گی جو قسم کی درخواست سے پہلے ہی قسم کھانے کے لئے تیار ہوگی اور گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لئے تیار ہوجائے گا، سوتم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ جماعت کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتاہے، اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے غم ہو، وہ مومن ہے۔


(178) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَلِكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَأَنَا مَعَهُ. [راجع: 175]
(178) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔


(179) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: مَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنِ الْكَلالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: " تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ". [راجع: 89]
(179) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ”کلالہ“ سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی مرتبہ سوال کیا، اس سے زیادہ کسی چیز کے متعلق سوال نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے سورت نساء کی آخری آیت جو موسم گرما میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔


(180) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ ". [صححه البخاري (1292) ومسلم (927)] [انظر: 247، 248، 264، 354، 366]
(180) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(181) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، قَالَ: أَرْسَلَتْنِي أَسْمَاءُ إِلَى ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ بَلَغَهَا أَنَّكَ تُحَرِّمُ أَشْيَاءَ ثَلاثَةً: الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ، وَمِيثَرَةَ الْأُرْجُوَانِ، وَصَوْمَ رَجَبٍ كُلِّهِ، فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صَوْمِ رَجَبٍ، فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الْأَبَدَ؟ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْعَلَمِ فِي الثَّوْبِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ ". [صححه مسلم: (2069)]
(181) عبداللہ جو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غلام تھے کہتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔
(١) کپڑوں میں ریشمی نقش ونگار کو
(٢) سرخ رنگ کے کپڑوں کو
(٣) مکمل ماہ رجب کے روزوں کو
انہوں نے جوابا کہلوا بھیجا کہ آپ نے رجب کے روزوں کو حرام قرار دینے کی جو بات ذکر کی ہے، جو شخص خود سارا سال روزے رکھتا ہو، وہ یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے؟ (یعنی یہ بات میں نے نہیں کہی) اور جہاں تک کپڑوں میں نقش ونگار کی بات ہے تو میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا۔


(182) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَا سَأَلْتُهُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ، فَتَرَاءَيْنَا الْهِلالَ، وَكُنْتُ حَدِيدَ الْبَصَرِ فَرَأَيْتُهُ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ: أَمَا تَرَاهُ؟ قَالَ: سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي. ثُمَّ أَخَذَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، قَالَ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرِينَا مَصَارِعَهُمْ بِالْأَمْسِ، يَقُولُ: " هَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللهُ، وَهَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللهُ، قَالَ: فَجَعَلُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا تِيكَ، كَانُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا. ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَطُرِحُوا فِي بِئْرٍ، فَانْطَلَقَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: " يَا فُلانُ، يَا فُلانُ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمُ اللهُ حَقًّا، فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللهُ حَقًّا "، قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَتُكَلِّمُ قَوْمًا قَدْ جَيَّفُوا؟ قَالَ: "مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ، وَلَكِنْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يُجِيبُوا". [صححه مسلم: (2873)]
(182) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان تھے کہ ہمیں پہلی کا چاند دکھائی دیا، میری بصارت تیز تھی اس لئے میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا میں ابھی دیکھتا ہوں، میں اس وقت فرش پر چت لیٹا ہوا تھا، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اہل بدر کے حوالے سے حدیث بیان کرنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن پہلے ہی وہ تمام جگہیں دکھا دیں جہاں کفار کی لاشیں گرنی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دکھاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ یہاں فلاں کی لاش گرے گی، اور ان شاء اللہ کل یہاں فلاں شخص قتل ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ انہی جگہوں پر گرنے لگے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ تو اس جگہ سے ”جس کی نشاندہی آپ نے فرمائی تھی“ ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان کی لاشیں گھسیٹ کر ایک کنویں میں پھینک دی گئیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ کیا تم نے اپنے پروردگار کے وعدے کوسچا پایا یا نہیں؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ان لوگوں سے گفتگو فرما رہے ہیں جو مردار ہوچکے، فرمایا میں ان سے جو کچھ کہہ رہا تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے ( اور تم جواب دے سکتے ہو)


(183) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ عَمْرٌو جَاءَ بَنُو مَعْمَرِ بْنِ حَبِيبٍ يُخَاصِمُونَهُ فِي وَلاءِ أُخْتِهِمْ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ أَوِ الْوَالِدُ، فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ "، فَقَضَى لَنَا بِهِ. [قال ابن عبدالبر: حسن صحيح غريب، قال الالباني: حسن (ابوداؤد: 2917، ابن ماجة: 2732)]
(183) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنو معمربن حبیب اپنی بہن کی ولاء کا جھگڑا لے کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اسی طرح فیصلہ کروں گا جیسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اولاد یا والد نے جو کچھ بھی جمع کیا ہے وہ سب اس کے عصبہ کا ہوگا خواہ وہ کوئی بھی ہو، چنانچہ انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا۔


(184) قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ: عُثْمَانُ بْن غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، قَالا: لَقِينَا عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، فَذَكَرْنَا الْقَدَرَ، وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ، فَقَالَ: إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ، فَقُولُوا: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ مِنْكُمْ بَرِيءٌ، وَأَنْتُمْ مِنْهُ بُرَآءُ - ثَلاثَ مِرَارٍ - ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّهُمْ بَيْنمَا هُمْ جُلُوسٌ - أَوْ قُعُودٌ - عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَهُ رَجُلٌ يَمْشِي، حَسَنُ الْوَجْهِ، حَسَنُ الشَّعْرِ، عَلَيْهِ ثِيَابُ بَيَاضٍ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ: مَا نَعْرِفُ هَذَا، وَمَا هَذَا بِصَاحِبِ سَفَرٍ. ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، آتِيكَ؟ قَالَ: " نَعَمْ " فَجَاءَ فَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ رُكْبَتَيْهِ، وَيَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، فَقَالَ: مَا الْإِسْلامُ؟ قَالَ: " شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَتُقِيمُ الصَّلاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ " قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: " أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ، وَمَلائِكَتِهِ، وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْقَدَرِ كُلِّهِ "، قَالَ: فَمَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: " أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ " قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: " مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ "، قَالَ: فَمَا أَشْرَاطُهَا؟ قَالَ: " إِذَا الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ الْعَالَةُ رِعَاءُ الشَّاءِ تَطَاوَلُوا فِي الْبُنْيَانِ، وَوَلَدَتِ الْإِمَاءُ أَرْبَابَهُنَّ " قَالَ: ثُمَّ قَالَ: " عَلَيَّ الرَّجُلَ "، فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَمَكَثَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلاثَةً، ثُمَّ قَالَ: " يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ عَنْ كَذَا وَكَذَا؟ " قَالَ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ". قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ من مُزَيْنَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، فِيمَ نَعْمَلُ، أَفِي شَيْءٍ قَدْ خَلا أَوْ مَضَى، أَوْ فِي شَيْءٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ: " فِي شَيْءٍ قَدْ خَلا، أَوْ مَضَى " فَقَالَ رَجُلٌ، أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللهِ، فِيمَ نَعْمَلُ؟ قَالَ: " أَهْلُ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَهْلُ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ ". قَالَ: يَحْيَى قَالَ: هُوَ كَذَا. [انظر: 191، 376، 368، وعن ابن عمر: 374، 375، 5856، 5857]
(184) یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمان حمیری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی، ہم نے ان کے سامنے مسئلہ تقدیر کو چھیڑا اور لوگوں کے اعتراضات کا بھی ذکر کیا، ہماری بات سن کر انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر (رضی اللہ عنہما) تم سے بری ہے، اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، خوبصورت رنگ، خوبصورت بال اور سفید کپڑوں میں ملبوس اس آدمی کو دیکھ کر لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اشاروں میں کہنے لگے کہ ہم تو اسے نہیں پہچانتے اور یہ مسافر بھی نہیں لگتا۔
اس آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں قریب آسکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوۃ اداکریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں۔
اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ”ایمان“ کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ پر، اس کے فرشتوں ، جنت وجہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو، اس نے پھر پوچھا کہ ”احسان“ کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لئے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کرسکتے تو کم از کم یہی تصور کر لو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔
اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بے خبر ہیں، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے؟ فرمایا جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آگئی۔
جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا، دو تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا اے ابن خطاب! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔
راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبیلہ جہینہ یا مزینہ کے ایک آدمی نے بھی یہ سوال پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں کیا ان کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا ان کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا اہل جنت کے لئے اہل جنت کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لئے اہل جہنم کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں۔


(185) حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَكَمِ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ، وَقَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُحَرِّمَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولُهُ، فَلْيُحَرِّمِ النَّبِيذَ. قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْجَرِّ. قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ فَحَدَّثَ عَنْ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ. قَالَ: وَحَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ، وَالْمُزَفَّتِ، وَالْبُسْرِ، وَالتَّمْرِ. [قال شعيب: اسناده صحيح] [انظر: 260، 360]
(185) ابوالحکم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی نبیذ سے تو منع فرمایا ہے، اس لئے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نبیذ کو حرام سمجھے۔
ابوالحکم کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے اور کدو کی تو نبیذ سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کیا تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی تو نبیذ اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے، کدو کی تو نبیذ اور لکڑی کو کھوکھلا کر کے بطور برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے اور کچی اور پکی کھجور کی شراب سے بھی منع فرمایا ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(186) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَا سَأَلْتُهُ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ: أَنَّ عُمَرَ خَطَبَ يَوْمَ جُمُعَةٍ، فَذَكَرَ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَقَالَ: إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا قَدْ نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، وَلا أُرَاهُ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، وَإِنَّ أَقْوَامًا يَأْمُرُونِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ دِينَهُ، وَلا خِلافَتَهُ، وَالَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ فَالْخِلافَةُ شُورَى بَيْنَ هَؤُلاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، وَإِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ قَوْمًا سَيَطْعُنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ أَنَا ضَرَبْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلامِ، فَإِنْ فَعَلُوا، فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ. وَإِنِّي لَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنَ الْكَلالَةِ، وَمَا أَغْلَظَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَاحَبْتُهُ مَا أَغْلَظَ لِي فِي الْكَلالَةِ، وَمَا رَاجَعْتُهُ فِي شَيْءٍ مَا رَاجَعْتُهُ فِي الْكَلالَةِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: " يَا عُمَرُ، أَلا تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ؟ " فَإِنْ أَعِشْ أَقْضِ فِيهَا قَضِيَّةً يَقْضِي بِهَا مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ. ثُمَّ قَالَ: اللهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، فَإِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقْسِمُوا فِيهِمْ فَيْئَهُمْ، وَيَعْدِلُوا عَلَيْهِمْ، وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَمْرِهِمْ. أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ، لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ، أَمَرَ بِهِ، فَأُخِذَ بِيَدِهِ، فَأُخْرِجَ إِلَى الْبَقِيعِ، وَمَنْ أَكَلَهُمَا، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا. [راجع: 89]
(186) ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔
کچھ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقر کردوں، اتنی بات تو طے ہے کہ نہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کررہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت وفات راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے۔
میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکا ہوں ، اگر یہ لوگ ایسا کریں تو یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز میں اتنا تکرار نہیں کیا جتنا کلالہ کے مسئلے میں کیا تھا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کیا تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت ”جو گرمی میں نازل ہوئی تھی“ کافی نہیں ہے؟
اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایسا حل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے، پھر فرمایا میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں ، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔
لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بدبو ماردے۔


(187) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ: مَا لِي أَرَاكَ قَدْ شَعِثْتَ وَاغْبَرَرْتَ مُنْذُ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ لَعَلَّكَ سَاءَكَ يَا طَلْحَةُ إِمَارَةُ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: مَعَاذَ اللهِ، إِنِّي لَأَجْدَرُكُمْ أَنْ لَا أَفْعَلَ ذَاِكَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا رجلٌ عِنْدَ حَضْرَةِ الْمَوْتِ إِلَّا وَجَدَ رُوحَهُ لَهَا رَوْحًا حِينَ تَخْرُجُ مِنْ جَسَدِهِ، وَكَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ" فَلَمْ أَسْأَلْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، وَلَمْ يُخْبِرْنِي بِهَا، فَذَلِكَ الَّذِي دَخَلَنِي، قَالَ عُمَرُ: فَأَنَا أَعْلَمُهَا، قَالَ: فَلِلَّهِ الْحَمْدُ، قَالَ: فَمَا هِيَ؟ قَالَ: هِيَ الْكَلِمَةُ الَّتِي قَالَهَا لِعَمِّهِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، قَالَ طَلْحَةُ: صَدَقْتَ. [قال شعيب: صحيح بطرقه] [انظر: 252]
(187) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا بات ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا اللہ کی پناہ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو اس کے لئے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہو جائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لئے باعث نور ہو، مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتا ہوں، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ کہہ کر پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟ فرمایا وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا۔


(188) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْسٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ إِلَى عُمَرَ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً فِي كِتَابِكُمْ لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ نَزَلَتْ، لاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، قَالَ: وَأَيُّ آيَةٍ هِيَ؟ قَالَ: قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي} [المائدة: 3] ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: وَاللهِ إِنَّي لَأَعْلَمُ الْيَوْمَ الَّذِي نَزَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالسَّاعَةَ الَّتِي نَزَلَتْ فِيهَا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَشِيَّةَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ. [صححه البخاري (45) ومسلم (3017) وابن حبان (185)] [انظر: 272]
(188) طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہنے لگا امیرالمومنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک آیت ایسی پڑھتے ہیں جو ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا، اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔


(189) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ: أَنَّ رَجُلًا رَمَى رَجُلًا بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ، وَلَيْسَ لَهُ وَارِثٌ إِلَّا خَالٌ، فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ إِلَى عُمَرَ، فَكَتَبَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اللهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ ". [صححه ابن حبان (6037)، وقال الترمذي: حسن صحيح، قال الالباني: صحيح (ابن ماجة:2737، الترمذي: 2103) قال شعيب: إسناده حسن] [انظر: 323]
(189) حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو تیر مارا جس سے وہ جاں بحق ہوگیا، اس کا صرف ایک ہی وارث تھا اور وہ تھا اس کا ماموں، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے اس سلسلے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا، انہوں نے جوابا لکھ بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو، اللہ اور اس کا رسول اس کے مولیٰ ہیں، اور جس کا کوئی وارث نہ ہو، ماموں ہی اس کا وارث ہوگا۔


(190) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ الْعَبْدِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ شَيْخًا بِمَكَّةَ فِي إِمَارَةِ الْحَجَّاجِ يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: " يَا عُمَرُ، إِنَّكَ رَجُلٌ قَوِيٌّ، لَا تُزَاحِمْ عَلَى الْحَجَرِ فَتُؤْذِيَ الضَّعِيفَ، إِنْ وَجَدْتَ خَلْوَةً فَاسْتَلِمْهُ، وَإِلَّا فَاسْتَقْبِلْهُ فَهَلِّلْ وَكَبِّرْ ". [قال شعيب: حسن رجاله ثقات]
(190) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا عمر! تم طاقتور آدمی ہو، حجر اسود کو بوسہ دینے میں مزاحمت نہ کرنا، کہیں کمزور آدمی کو تکلیف نہ پہنچے، اگرخالی جگہ مل جائے تو استلام کرلینا، ورنہ محض استقبال کر کے تہلیل وتکبیر پر ہی اکتفاء کر لینا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(191) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: عَنْ عُمَرَ: أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلامُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: " أَنْ تُؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَبِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ "، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ ". [صححه مسلم (8)، قال شعيب: اسناده صحيح] [راجع: 184]
(191) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں ، پیغمبروں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر یقین رکھو، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ نے سچ کہا، ہمیں تعجب ہوا کہ سوال بھی کر رہے ہیں اور تصدیق بھی کر رہے ہیں، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بتایا کہ یہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔


(192) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ - وَقَالَ مَرَّةً: جَاءَ اللَّيْلُ - مِنْ هَاهُنَا، وَذَهَبَ النَّهَارُ مِنْ هاَهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ " يَعْنِي الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ. [صححه البخاري (1954) ومسلم (1100) وابن خزيمة (2058) وابن حبان (3513)] [راجع: 231، 338، 383]
(192) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب رات یہاں سے آجائے اور دن وہاں سے چلا جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرل ینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے ۔


(193) حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عُمَرَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلالَ هِلالَ شَوَّالٍ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْطِرُوا، ثُمَّ قَامَ إِلَى عُسٍّ فِيهِ مَاءٌ فَتَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَاللهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا أَتَيْتُكَ إِلَّا لِأَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا، أَفَرَأَيْتَ غَيْرَكَ فَعَلَهُ، فَقَالَ: نَعَمْ خَيْرًا مِنِّي، وَخَيْرَ الْأُمَّةِ، رَأَيْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ الَّذِي فَعَلْتُ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ، ثُمَّ صَلَّى عُمَرُ الْمَغْرِبَ. [اسناده ضعيف] [انظر: 307]
(193) عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے شوال کا چاند دیکھ لیا ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو! روزہ افطار کرلو، پھر خود کھڑے ہو کر ایک برتن سے جس میں پانی تھا وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، وہ آدمی کہنے لگا بخدا! امیرالمومنین! میں آپ کے پاس یہی پوچھنے کے لئے آیا تھا کہ آپ نے کسی اور کو بھی موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ فرمایا ہاں! اس ذات کو جو مجھ سے بہتر تھی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شامی جبہ پہن رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبے کے نیچے سے داخل کئے تھے، یہ کہہ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مغرب کی نماز پڑھانے کے لئے چلے گئے۔


(194) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: إِنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُحَرِّمِ الضَّبَّ، وَلَكِنَّه قَذِرَهُ. قَالَ غَيْرُ مُحَمَّدٍ: عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ. [صححه مسلم (1950)] [انظر: 14740]
(194) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ گوہ کو حرام تو قرار نہیں دیا البتہ اسے ناپسند ضرور کیا ہے۔


(195) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ اسْتَأْذَنَهُ فِي الْعُمْرَةِ فَأَذِنَ لَهُ، وقَالَ: " يَا أَخِي، لَا تَنْسَنَا مِنْ دُعَائِكَ " وَقَالَ بَعْدُ فِي الْمَدِينَةِ: " يَا أَخِي، أَشْرِكْنَا فِي دُعَائِكَ ". فَقَالَ عُمَرُ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، لِقَوْلِهِ: " يَا أَخِي ". [قال الترمذي: حسن صحيح، قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 1498، ابن ماجة: 2894، الترمذي: 3562]
(195) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ پر جانے کے لئے اجازت مانگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں بھول نہ جانا، یا یہ فرمایا کہ بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر اس ایک لفظ ”یا اخی“ کے بدلے مجھے وہ سب کچھ دے دیا جائے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے یعنی پوری دنیا تو میں اس ایک لفظ کے بدلے پوری دنیا کو پسند نہیں کروں گا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(196) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَجَّاجٌ، قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ: أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ، أَقَدْ فُرِغَ مِنْهُ، أَوْ فِي شَيْءٍ مُبْتَدَإٍ، أَوْ أَمْرٍ مُبْتَدَعٍ؟ قَالَ: " فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ " فَقَالَ عُمَرُ: أَلا نَتَّكِلُ؟ فَقَالَ: " اعْمَلْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَيَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاءِ، فَيَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ ". [قال شعيب: حسن لغيره]
(196) ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا؟ فرمایا نہیں! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کرلیں؟ فرمایا ابن خطاب! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کردیا جاتا ہے، پھر جو سعادت مند ہوتا ہے وہ نیکی کے کام کرتا ہے اور جو اشقیاء میں سے ہوتا ہے وہ بدبختی کے کام کرتا ہے۔


(197) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ، فَسَمِعَهُ يَقُولُ: أَلا وَإِنَّ أُنَاسًا يَقُولُونَ: مَا بَالُ الرَّجْمِ؟ فِي كِتَابِ اللهِ الْجَلْدُ! وَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، وَلَوْلا أَنْ يَقُولَ قَائِلُونَ أَوْ يَتَكَلَّمَ مُتَكَلِّمُونَ: أَنَّ عُمَرَ زَادَ فِي كِتَابِ اللهِ مَا لَيْسَ مِنْهُ، لَأَثْبَتُّهَا كَمَا نُزِّلَتْ. [قال شعيب: إسناده صحيح] [راجع: 156]
(197) حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو! بعض لوگ کہتے ہیں کہ رجم کا کیا مطلب؟ قرآن کریم میں تو صرف کوڑے مارنے کا ذکر آتا ہے، حالانکہ رجم کی سزا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ہم نے بھی دی ہے، اگر کہنے والے یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کر دیا تو میں اسے قرآن میں لکھ دیتا۔


(198) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ خُمَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنِ ابْنِ السِّمْطِ: أَنَّهُ أَتَى أَرْضًا يُقَالُ لَهَا: دَوْمِينُ، مِنْ حِمْصَ عَلَى رَأْسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِيلًا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ: أَتُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ؟ فَقَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَفْعَلُ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْ قَالَ: فَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [صححه مسلم (692)] [انظر: 207]
(198) ابن سمط کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سر زمین "دومین" جو حمص سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے، پر میرا آنا ہوا، وہاں حضرت جبیر بن نفیر نے دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ رکعتیں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہی سوال کیا تھا، انہوں نے مجھے جواب دیا تھا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔


(199) قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ: مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ عُمَرُ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، انْقَلَبْتُ مِنَ السُّوقِ، فَسَمِعْتُ النِّدَاءَ، فَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ. فَقَالَ عُمَرُ: وَالْوُضُوءَ أَيْضًا، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ؟. [صححه البخاري (878) ومسلم (845)] [انظر: 202، 312]
(199) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔


(200) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: كَانَ الْمُشْرِكُونَ لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى تُشْرِقَ الشَّمْسُ عَلَى ثَبِيرٍ، فَخَالَفَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ. [راجع: 84]
(200) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین مزدلفہ سے طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اور مزدلفہ سے منی کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(201) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، حَتَّى لَا أَدَعَ إِلَّا مُسْلِمًا ". [صححه مسلم (1767] [راجع: 215، 219]
(201) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں جزیرہ عرب سے یہود ونصاری کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔


(202) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، بَيْنَا هُوَ قَائِمٌ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَدَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَادَاهُ عُمَرُ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ؟ فَقَالَ: إِنِّي شُغِلْتُ الْيَوْمَ، فَلَمْ أَنْقَلِبْ إِلَى أَهْلِي حَتَّى سَمِعْتُ النِّدَاءَ، فَلَمْ أَزِدْ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ. فَقَالَ عُمَرُ: الْوُضُوءَ أَيْضًا، وَقَدْ عَلِمْتُمْ - وَفِي مَوْضِعٍ آخَرَ: وَقَدْ عَلِمْتَ - أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ؟. [راجع: 199]
(202) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔


(203) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ - يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ - حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: فُلانٌ شَهِيدٌ، فُلانٌ شَهِيدٌ، حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ، فَقَالُوا: فُلانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَلَّا، إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا، أَوْ عَبَاءَةٍ " ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ: أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ "قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ: أَلا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ. [صححه مسلم (114)، وابن حبان (4849)] [راجع: 328]
(203) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں بھی شہید ہے، فلاں بھی شہید ہے، یہاں تک کہ ان کا گذر ایک آدمی پر ہوا، اس کے بارے بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں ! میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! جا کر لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے، چنانچہ میں نکل کر یہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے۔


(204) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ - يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ - حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ، فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا، فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ. ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ، فَقَالَ: وَجَبَتْ. ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ، فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرٌّ، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ. فَقُلْتُ: وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ، أَدْخَلَهُ اللهُ الْجَنَّةَ " قَالَ: قُلْنَا: أَوْ ثَلاثَةٌ؟ قَالَ: " أَوْ ثَلاثَةٌ " فَقُلْنَا: أَوِ اثْنَانِ؟ قَالَ: " أَوِ اثْنَانِ "، ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنِ الْوَاحِدِ. [راجع: 139]
(204) ابوالاسود رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا واجب ہو گئی، تیسرا جنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین! کیا چیز واجب ہوگئی؟
انہوں نے فرمایا میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لئے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔


(205) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ هُبَيْرَةَ، يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ أَبَا تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيَّ يَقُولُ: سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْ أَنَّكُمْ تَتَوَكَّلُونَ عَلَى اللهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ، تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا ". [صححه ابن حبان (730)، والحاكم (4/318)، وقال الترمذي: حسن صحيح، قال الالباني: صحيح (ابن ماجة: 4164، الترمذي: 2344)] [انظر: 370 ،373]
(205) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کر لیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(206) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ الْهُذَلِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ وَلا تُفَاتِحُوهُمْ ". [صححه ابن حبان (79)، والحاكم (1/58)، قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 4710 و 4720)]
وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَرَّةً: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
(206) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا منکرین تقدیر کے ساتھ مت بیٹھا کرو، اور گفتگو شروع کرنے میں ان سے پہل نہ کیا کرو۔


(207) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيِّ أَبِي عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَبِيبَ بْنَ عُبَيْدٍ، يُحَدِّثُ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنِ ابْنِ السِّمْطِ: أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ عُمَرَ إِلَى ذِي الْحُلَيْفَةِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَصْنَعُ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [راجع: 198]
(207) ابن سمط کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ذوالحلیفہ کی طرف روانہ ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔


(208) حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ، وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ، ثُمَّ قَالَ: " اللهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي؟ اللهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي، اللهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلامِ، فَلا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا " قَالَ: فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، كَذَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، وَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ} [الأنفال: 9]. فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ، وَالْتَقَوْا، فَهَزَمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِكِينَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَعَلِيًّا وَعُمَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللهِ، هَؤُلاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمُ الْفِدْيَةَ، فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ، وَعَسَى اللهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟ " قَالَ: قُلْتُ: وَاللهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلانٍ - قَرِيبًا لِعُمَرَ - فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلانٍ، أَخِيهِ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ، حَتَّى يَعْلَمَ اللهُ أَنَّهُ لَيْسَ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ، هَؤُلاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ، فَهَوِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَأَخَذَ مِنْهُمُ الْفِدَاءَ. فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ، قَالَ عُمَرُ: غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنَ الْفِدَاءِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ " - لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ - وَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ} إِلَى: {لَوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ} [الأنفال: 67 - 68] مِنَ الْفِدَاءِ، ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمُ الْغَنَائِمُ. فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمُ الْفِدَاءَ، فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ، وَهُشِمَتِ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ، وَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ} [آل عمران: 165] بِأَخْذِكُمُ الْفِدَاءَ. [صححه مسلم (1763)، وابن حبان (4793)] [انظر: 221]
(208) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے، اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعاء کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعاء کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الٰہی! تیرا وعدہ کہاں گیا؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہو گئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گر گئی، یہ دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چمٹ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے بہت دعا کر لی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کر لیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔
جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ ان میں سے ستر قتل ہو گئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لئے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست وبازو بن جائیں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کردیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں ، آپ عقیل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیں اور وہ ان کی گردن اڑادیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطا فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لئے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہو جائیں گے تو کفر وشرک اپنی موت آپ مرجائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا، اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) رو رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آجائیں تو آپ کا ساتھ دوں ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کر لوں ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آرہا ہے، اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں ۔ ۔ ۔آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔
آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوگئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر منتشر ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوگئے، خود کی کڑی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوگیا؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔


(209) حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، قَالَ: فَسَأَلْتُهُ عَنْ شَيْءٍ ثَلاثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، قَالَ: فَقُلْتُ لِنَفْسِي: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، نَزَرْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْكَ، قَالَ: فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي فَتَقَدَّمْتُ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ، قَالَ: فَإِذَا أَنَا بِمُنَادٍ يُنَادِي: يَا عُمَرُ، أَيْنَ عُمَرُ؟ قَالَ: فَرَجَعْتُ، وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّهُ نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَزَلَتْ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ سُورَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا. لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ} [الفتح: 1 - 2]. [صححه البخاري (4177) وابن حبان (6409)]
(209) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق تین مرتبہ سوال کیا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بھی جواب نہ دیا، میں نے اپنے دل میں کہا ابن خطاب! تیری ماں تجھے روئے، تو نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین مرتبہ ایک چیز کے متعلق دریافت کیا لیکن انہوں نے تجھے کوئی جواب نہ دیا، یہ سوچ کر میں اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے نکل آیا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل نہ ہوجائے۔
تھوڑی دیرکے بعد ایک منادی میرا نام لے کر پکارتا ہوا آیا کہ عمر کہاں ہے؟ میں یہ سوچتا ہوا واپس لوٹ آیا کہ شاید میرے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل ہوئی ہے، وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آج رات مجھ پر ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو میرے نزدیک دنیا ومافیہا سے زیادہ پسندیدہ ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الفتح کی پہلی آیت تلاوت فرمائی۔


(210) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ، قَالَ: أُتِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِطَعَامٍ، فَدَعَا إِلَيْهِ رَجُلًا، فَقَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ قَالَ: وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ؟ لَوْلا كَرَاهِيَةُ أَنْ أَزِيدَ أَوْ أَنْقُصَ لَحَدَّثْتُكُمْ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ، وَلَكِنْ أَرْسِلُوا إِلَى عَمَّارٍ، فَلَمَّا جَاءَ عَمَّارٌ، قَالَ: أَشَاهِدٌ أَنْتَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ بِهَا دَمًا، فَقَالَ: " كُلُوهَا " قَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: " وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ؟ " قَالَ: أَوَّلَ الشَّهْرِ وَآخِرَهُ، قَالَ: " إِنْ كُنْتَ صَائِمًا فَصُمِ الثَّلاثَ عَشْرَةَ، وَالْأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَالْخَمْسَ عَشْرَةَ ". [قال شعيب: حسن بشواهده وهذا إسناد ضعيف]
(210) ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا ، انہوں نے ایک آدمی کو شرکت کی دعوت دی، اس نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا تم کون سے روزے رکھ رہے ہو؟ اگر کمی بیشی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بیان کرتا جب ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا، تم ایسا کرو کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو بلا کر لاؤ۔
جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک دیہاتی ایک خرگوش لے کر آیا تھا؟ فرمایا جی ہاں ! میں نے اس پر خون لگا ہوا دیکھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کھاؤ، وہ کہنے لگا کہ میرا روزہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیسا روزہ؟ اس نے کہا کہ میں ہر ماہ کی ابتداء اور اختتام پر روزہ رکھتا ہوں، فرمایا اگر تم روزہ رکھنا ہی چاہتے ہو تو نفلی روزے کے لئے مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا انتخاب کیا کرو۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(211) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَامِرٌ عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ، قَالَ: لَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ لِي: مَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ، فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْأَجْدَعُ شَيْطَانٌ " وَلَكِنَّكَ مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. قَالَ عَامِرٌ: فَرَأَيْتُهُ فِي الدِّيوَانِ مَكْتُوبًا: مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: هَكَذَا سَمَّانِي عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ. [قال الالباني: ضعيف (ابوداؤد: 4957، 3731)]
(211) مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں مسروق بن اجدع ہوں ، فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اجدع شیطان کا نام ہے، اس لئے تمہارا نام مسروق بن عبدالرحمن ہے، عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ان کے رجسٹر میں ان کا نام مسروق بن عبدالرحمن لکھا ہوا دیکھا تو ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے میرا یہ نام رکھا تھا۔


(212) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْعَزْلِ عَنِ الْحُرَّةِ إِلَّا بِإِذْنِهَا. [قال الالباني: ضعيف (ابن ماجة: 1928]
(212) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا ہے۔


(213) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ - يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ - عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: لَئِنْ عِشْتُ إِلَى هَذَا الْعَامِ الْمُقْبِلِ، لَا يُفْتَحُ لِلنَّاسِ قَرْيَةٌ إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَهُمْ كَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ. [صححه البخاري: 4235] [انظر: 284]
(213) اسلم "جو کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے" کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہوگا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کر دیا کروں گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا ۔


(214) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَحَلَفْتُ: لَا وَأَبِي، فَهَتَفَ بِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي، فَقَالَ: " لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ " فَإِذَا هُوَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [راجع: 116]
(214) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا "لا وابی" تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔


(215) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: لَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَاءَ اللهُ، لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ. [راجع: 201]
(215) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا اگر میں زندہ رہا تو ان شاء اللہ جزیرہ عرب سے یہود ونصاری کو نکال کر رہوں گا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
(216) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ. [راجع: 128]
(216) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح فرمایا۔


(217) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا سَلَّامٌ - يَعْنِي أَبَا الْأَحْوَصِ - عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ الْمَعْرُورِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَى هَذَا الْمَسْجِدَ وَنَحْنُ مَعَهُ: الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ، فَإِذَا اشْتَدَّ الزِّحَامُ فَلْيَسْجُدِ الرَّجُلُ مِنْكُمْ عَلَى ظَهْرِ أَخِيهِ. وَرَأَى قَوْمًا يُصَلُّونَ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ: صَلُّوا فِي الْمَسْجِدِ. [قال شعيب: حديث صحيح]
(217) سیار بن معرور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اس مسجد کی تعمیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کے ساتھ مل کر فرمائی ہے، اگر رش زیادہ ہوجائے تو (مسجد کی کمی کو مورد التزام ٹھہرانے کی بجائے) اپنے بھائی کی پشت پر سجدہ کر لیا کرو، اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو راستے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھا کرو۔


(218) قَالَ قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ: زُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ: أَنَّهُ حَجَّ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَأَتَاهُ أَشْرَافُ أَهْلِ الشَّامِ، فَقَالُوا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّا أَصَبْنَا رَقِيقًا وَدَوَابَّ، فَخُذْ مِنْ أَمْوَالِنَا صَدَقَةً تُطَهِّرُنَا بِهَا، وَتَكُونُ لَنَا زَكَاةً، فَقَالَ: هَذَا شَيْءٌ لَمْ يَفْعَلْهُ اللَّذَانِ كَانَا مِنْ قَبْلِي، وَلَكِنِ انْتَظِرُوا حَتَّى أَسْأَلَ الْمُسْلِمِينَ. [راجع: 82]
(218) حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ انہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کا شرف حاصل ہوا، شام کے کچھ معززین ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے امیرالمومنین! ہمیں کچھ غلام اور جانور ملے ہیں، آپ ہمارے مال سے زکوۃ وصول کر لیجئے تاکہ ہمارا مال پاک ہوجائے، اور وہ ہمارے لئے پاکیزگی کا سبب بن جائے، فرمایا یہ کام تو مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو حضرات نے نہیں کیا، میں کیسے کر سکتا ہوں البتہ ٹھہرو! میں مسلمانوں سے مشورہ کر لیتا ہوں۔


(219) حَدَّثَنَا رَوْحٌ وَمُؤَمَّلٌ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَئِنْ عِشْتُ لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، حَتَّى لَا أَتْرُكَ فِيهَا إِلَّا مُسْلِمًا ". [راجع: 201]
(219) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میں زندہ رہا تو جزیرہ عرب سے یہود ونصاری کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمان کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔


(220) حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ - يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ - أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ وَعُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - قَالَ عَبْدُ اللهِ: وَقَدْ بَلَغَ بِهِ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: " مَنْ فَاتَهُ شَيْءٌ مِنْ وِرْدِهِ - أَوْ قَالَ: مِنْ حِزْبِهِ - مِنَ اللَّيْلِ فَقَرَأَهُ مَا بَيْنَ صَلاةِ الْفَجْرِ إِلَى الظُّهْرِ، فَكَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنْ لَيْلَتِهِ ". [صححه مسلم (747) وابن حبان (2643)] [انظر: 377]
(220) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا۔
 
Top