عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
(171) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا لَمْ يُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ، وَلا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصَةً، وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَتِهِ- وَقَالَ مَرَّةً: قُوتَ سَنَتِهِ - وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ. [صححه البخاري (2904) ومسلم (1757)] [انظر: 337]
(171) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے تھا جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطاء فرمائے، اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لئے یہ مال خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ جو جہاد میں کام آسکے فراہم کر لیتے تھے۔
(172) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَطَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ: نَشَدْتُكُمْ بِاللهِ الَّذِي تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِهِ، أَعَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّا لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ "؟ قَالُوا: اللهُمَّ نَعَمْ. [صححه البخاري (3094) ومسلم (1757)] [انظر: 333، 336، 349، 425، 1391، 1406، 1550، 1658، 1781،1782]
(172) ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں تمیہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
(173) حَدَّثَنَا سَفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ ". [قال شعيب: صحيح لغيره]
(173) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔
(174) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قُلْتُ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا} [النساء: 101] ، وَقَدْ آمَنَ اللهُ النَّاسَ! فَقَالَ لِي عُمَرُ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ". [صححه مسلم (686) وابن خزيمة (945) وابن حبان (2739)] [انظر: 244، 245]
(174) یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم خوف کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن وامان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہوگیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے ؟) تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔
(175) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ وَهُوَ بِعَرَفَةَ - قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مَرْوَانَ، أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ - فَقَالَ: جِئْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْكُوفَةِ، وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلًا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ، فَغَضِبَ وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيِ الرَّحْلِ، فَقَالَ: وَمَنْ هُوَ وَيْحَكَ؟ قَالَ: عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ. فَمَا زَالَ يُطْفَأُ وَيُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ، حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا. ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ، وَاللهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ هُوَ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَأَنَا مَعَهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجْنَا مَعَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ، فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَهُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ ". قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ: "سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ"، قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: وَاللهِ لَأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلَأُبَشِّرَنَّهُ، قَالَ: فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لِأُبَشِّرَهُ فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ فَبَشَّرَهُ، وَلا وَاللهِ مَا سَابَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ إِلَّا سَبَقَنِي إِلَيْهِ. [صححه ابن خُزيمة (1156 و 1341)، وابن حبان (2034)، قال الالباني: صحيح (الترمذي: 169)] [راجع: 36] [انظر: 178، 228، 265، 267]
(175) قیس بن مروان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیرالمومنین! میں کوفہ سے آپ کے پاس آرہا ہوں ، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہوگئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھر گئے، اور مجھ سے پوچھا افسوس! وہ کون ہے؟ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔
میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہوگئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہوگئے اور مجھ سے فرمایا کمبخت! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے، اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ رات کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعاء کرنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرمانے لگے مانگو، تمہیں عطاء کیا جائےگا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لئے پہنچا تو وہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔
(171) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے تھا جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطاء فرمائے، اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لئے یہ مال خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ جو جہاد میں کام آسکے فراہم کر لیتے تھے۔
(172) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَطَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ: نَشَدْتُكُمْ بِاللهِ الَّذِي تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِهِ، أَعَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّا لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ "؟ قَالُوا: اللهُمَّ نَعَمْ. [صححه البخاري (3094) ومسلم (1757)] [انظر: 333، 336، 349، 425، 1391، 1406، 1550، 1658، 1781،1782]
(172) ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں تمیہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
(173) حَدَّثَنَا سَفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ ". [قال شعيب: صحيح لغيره]
(173) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔
(174) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قُلْتُ: {لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا} [النساء: 101] ، وَقَدْ آمَنَ اللهُ النَّاسَ! فَقَالَ لِي عُمَرُ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ". [صححه مسلم (686) وابن خزيمة (945) وابن حبان (2739)] [انظر: 244، 245]
(174) یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم خوف کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن وامان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہوگیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے ؟) تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔
(175) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ وَهُوَ بِعَرَفَةَ - قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مَرْوَانَ، أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ - فَقَالَ: جِئْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الْكُوفَةِ، وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلًا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ، فَغَضِبَ وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيِ الرَّحْلِ، فَقَالَ: وَمَنْ هُوَ وَيْحَكَ؟ قَالَ: عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ. فَمَا زَالَ يُطْفَأُ وَيُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ، حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا. ثُمَّ قَالَ: وَيْحَكَ، وَاللهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ هُوَ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ، وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ، كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَأَنَا مَعَهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجْنَا مَعَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ، فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَهُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ ". قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ: "سَلْ تُعْطَهْ، سَلْ تُعْطَهْ"، قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: وَاللهِ لَأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلَأُبَشِّرَنَّهُ، قَالَ: فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لِأُبَشِّرَهُ فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ فَبَشَّرَهُ، وَلا وَاللهِ مَا سَابَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ إِلَّا سَبَقَنِي إِلَيْهِ. [صححه ابن خُزيمة (1156 و 1341)، وابن حبان (2034)، قال الالباني: صحيح (الترمذي: 169)] [راجع: 36] [انظر: 178، 228، 265، 267]
(175) قیس بن مروان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیرالمومنین! میں کوفہ سے آپ کے پاس آرہا ہوں ، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہوگئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھر گئے، اور مجھ سے پوچھا افسوس! وہ کون ہے؟ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔
میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہوگئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہوگئے اور مجھ سے فرمایا کمبخت! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے، اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ رات کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قرأت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعاء کرنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرمانے لگے مانگو، تمہیں عطاء کیا جائےگا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لئے پہنچا تو وہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔