• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا شرید بن سوید رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

828-عمروبن شرید اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تمہیں امیہ بن ابوصلت کا کوئی شعر یاد ہے ؟“ میں نے عرض کی : جی ہاں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سناؤ“ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شعر سنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اور سناؤ“ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور شعر سنایا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل یہی فرماتے رہے ”اور سناؤ“ یہاں تک کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سو اشعار سنائے ۔

829- سیدنا شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ملاحظہ فرمایا ، جس نے اپنے تہہ بند کو اپنے (ٹخنوں سے نیچے ) لٹکا یا ہوا تھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : ”اپنے تہہ بند کو اوپر کرو ۔“ اس نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں کچھ لنگڑا ہوں ، جس کی وجہ سے میرے گھٹنے اضطراب کا شکار ہوجاتے ہیں ، تو اپنے اس عیب پر پردہ رکھنے کے لیے میں اپنے تہہ بند کو لٹکا کر رکھتا ہوں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم اپنے تہہ بند کو اوپر رکھو اور اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق خوبصورت ہے ۔“ (راوی کہتے ہیں) اس کے بعد اس شخص کو ہمیشہ اس حالت میں دیکھا گیا کہ اس کا تہہ بند نصف پنڈلی تک ہوتا تھا ۔

تخریج:


828- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2255، 2255، 2255، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5782، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10770، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3758، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21090، 21091، 21092، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4480، برقم: 19766، 8 / 4482، برقم: 19773)
829- (إسناده صحيح وأخرجه أحمد فى «مسنده» 8 / 4484، برقم: 19781، 8 / 4484، برقم: 19784، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار » برقم: 1708، والطبراني فى «الكبير» برقم: 7240، 7241)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

830- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے ۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا، اس نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا واسطہ دے کر یہ کہتا ہوں کہ ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ دیجئے گا اس کا مخالف فریق کھڑا ہو ا وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا ۔ اس نے عرض کی : جی ہاں ، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ دیجئے گا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیجئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم بولو“ اس نے عرض کی ۔ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں ملازم تھا ۔ اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کرلیا ۔ مجھے یہ بتایا گیا ۔ کہ میرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا ، تو میں نے اس کے فدیے کے طور پرایک سوبکریاں اور ایک خادم دیا ۔ پھر میں نے اہل علم سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے مجھے بتایا ۔ کہ میرے بیٹے کو ایک سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیاجائے گا اور اس بیوی کو سنگسار کیا جائے گا ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں تم دونوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ ایک سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس کر دئیے جائیں گے تمہارے بیٹے کو ایک سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے گا ۔ اے سیدنا انیس رضی اللہ عنہ ! تم اس عورت کے پاس جاؤ اگر وہ اعتراف کرلیتی ہے ، تو تم اے سنگسار کردینا ۔“
سیدنا انیس رضی اللہ عنہ اس عورت کے پاس گئے ، اس عورت نے اعتراف کیا ، تو انہوں نے اسے سنگسار کروادیا ۔
سفیان کہتے ہیں ۔ سیدنا انیس رضی اللہ عنہ کاتعلق اسلم قبیلے سے تھا ۔

831- سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور شبل بیان کرتے ہیں : ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کنیز کے بارے میں دریافت کیا گیا جو محصنہ ہونے سے پہلے زناء کا اراتکاب کرلیتی ہے ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر کسی کی کنیز زناء کاارتکاب کرے تو تم اسے کوڑے مارو ۔ اگر وہ دوبارہ ایسا کرے تو پھر اسے کوڑے مارو ۔ اگر وہ پھر ایسا کرے تو پھر کوڑے مارو ۔ (راوی کہتے ہیں : ) تیسری مرتبہ یا شاید چوتھی مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر تم اسے فروخت کردو ۔ خواہ ایک رسی کے عوض میں فروخت کرو ۔“
(امام حمیدی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں : ) روایت کے متن میں استعمال ہونے والے لفظ ”ضفیر“ سے مراد بالوں سے بنی ہوئی رسی ہے ۔

832- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ایک مرتبہ رات کے وقت بارش ہوگئی ۔ اگلے دن صبح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کیا تم جانتے ہو؟ تمہارے پروردگار نے گزشتہ رات کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ اس نے فرمایا ہے : ”میں جب بھی اپنے بندوں کوکوئی نعمت عطا کرتا ہوں ، تو ان میں سے کچھ لوگ کافر ہوتے ہیں ، تو وہ کہتے ہیں : ہم پر فلاں ، فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نازل ہوئی ہے ۔ لیکن جو شخص مجھ پر ایمان رکھتا ہے ، تو وہ میرے سیراب کرنے کی وجہ سے میری حمد بیان کرتا ہے ، تو یہ وہ شخص ہے ، جو مجھ پرا یمان رکھتا ہے اور ستاروں کا انکار کرتا ہے، لیکن جو شخص یہ کہتا ہے، فلاں ، فلاں ، ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے ، تو وہ ستاروں پرایمان رکھتا ہے، اور میرا انکار کرتا ہے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) میری نعمت کا انکار کرتا ہے ۔“
سفیان کہتے ہیں : معمرنے یہ روایت پہلے صالح کے حوالے سے ہمیں سنائی تھی ۔ پھر ہم نے یہ روایت صالح کی زبانی سن لی ۔

833-عبیداللہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں : (یہاں سفیان نامی راوی کہتے ہیں : مجھے یہ نہیں پتہ کہ انہوں نے یہ روایت سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی ہے یا کسی اور کے حوالے سے بیان کی ہے )
وہ بیان کرتے ہیں ۔ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مرغ کو برا کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”مر غ کو برانہ کہو ۔ کیونکہ وہ نماز کے لیے بلاتا ہے ۔“

834- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم لوگ خیبر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے ۔ اشجع قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک شخص فوت ہوگیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ ادا کرو ۔“ جب لوگوں نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو انہیں اس کے سامان میں یہودیوں کاایک ہارملا جس کی قیمت دو درہم کے برابر بھی نہیں ہو گی ۔

835-یزید مولیٰ منبعث بیان کرتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کے بارے میں دریافت کیا : جو کہیں گری ہوئی ملتی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اس کی تھیلی کو اور اس تھیلی کے منہ پر باندھنے والی رسی کو پہچان لو ۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو ۔ اگر اس کا اعتراف کر لیا جائے ، تو ٹھیک ہے ورنہ تم اسے اپنے مال میں شامل کرلو ۔“
راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ بکری کے بارے میں دریافت کیاگیا : تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”وہ یا تمہیں ملے گی ، یا تمہارے کسی بھائی کو ملے گی ، یا بھیڑیے کو ملے گی“ ۔
راوی کہتے ہیں : انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں دریافت کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٖغضبناک ہوگئے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہارا اس کے کیا واسطہ ہے ؟ اس کا پیٹ اور اس کے پاؤں ا س کے ساتھ ہیں ۔ وہ خود ہی پانی تک پہنچ جائے گااور گھاس کھالے گا ، یہاں تک کہ اس مالک اس تک پہنچ جائے گا ۔“
سفیان کہتے ہیں ۔ مجھے یہ بات پتہ چلی ہے ربیعہ بن ابوعبدالرحٰمن نامی راوی اس روایت کو سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مسند روایت کے طور پر نقل کرتے ہیں ۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میں نے ان سے کہا: وہ حدیث جسے آپ یزید مولیٰ منبعت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں ، جو گمشدہ چیز کے ، گمشدہ اونٹ یا بکری کے بارے میں ہے ، تو کیا وہ سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔
سفیان کہتے ہیں : میں ان کی رائے کی وجہ سے انہیں پسند نہیں کرتا تھا ۔ اس لیے میں نے ان سے اس بارے میں دریافت نہیں کیا ۔ اگر انہوں نے اس کی سند بیان نہ کی ہوتی ، تو میں ان سے اس سند کے بارے میں بھی دریافت نہ کرتا ۔

836-بسربن سعید بیان کرتے ہیں : ابوجہم نے مجھے بھیجا تاکہ میں سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے یہ دریافت کروں کہ آپ نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے شخص کے بارے میں کیا حدیث سنی ہے ، تو انہوں نے بتایا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”کسی ایک شخص کا چالیس تک ٹھہرے رہنا اس کے لیے اس زیادہ بہتر ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے گز ر جائے ۔“ تاہم یہ پتہ نہیں ہے ، اس سے مراد چالیس سال ہیں ، چالیس دن ہیں ، یا چالیس گھڑیاں ہیں ۔

837- سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو شخص کسی غازی کو سامان فراہم کرے یا اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر والوں کا خیال رکھے ، تو اس نے بھی گویا جنگ میں حصہ لیا ۔“

830- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2314، 2695، 2724، 6633، 6827، 6835، 6842، 6859، 7193، 7258، 7260، 7278، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1698، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3040 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4437، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5425، 5426 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5931، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4445، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1433، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2363، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2549، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11567 17018، 17019، 17025، 17026، 17058، 17068، 17086، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3779، برقم: 17312، 7 / 3780، برقم: 17316)
831- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2152، 2153، 2232، 2234، 2555، 6837، 6839، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1703، 1704، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4444، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7202، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4469، 4470، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1440، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2371، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2565، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17181، 17182، 17183، 17196، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1558، برقم: 7513، 2 / 1867، برقم: 9008)
832- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 846، 1038، 4147، 7503، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 71، ومالك فى «الموطأ» برقم: 653 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 188، 6132، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1524، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3906، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3080، 6544، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3778، برقم: 17309، 7 / 3781، برقم: 17323)
833- (أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5731، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10715، 10716، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5101، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3778، برقم: 17308، 9 / 5073، برقم: 22088، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 999)
834- (إسناده جيد وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 1667 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4853، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1350، 2597، والنسائي فى «المجتبیٰ» رقم: 1958 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2097، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2710، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2848، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18275، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3777، برقم: 17305)
835- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 91، 2372، 2427، 2428، 2429، 2436، 2438، 5292، 6112، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1722، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4889، 4890، 4893، 4895، 4898، وأبو داود فى "سننه برقم: 1704 1706، 2 / 65، برقم: 1707، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1372، 1373، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2504، 2507، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12175، 12176، 12177 12178، 12179، 12190 12191، 12192، 12208، 12209، 12210، 12211، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3778، برقم: 17311، 7 / 3781، برقم: 17320)
836- (إسناده صحيح و أخرجه البخاري 510، وأخرجه مسلم 507، وأخرجه الدارمي فى «مسنده» برقم: 1456، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 944، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3782، برقم: 17325، والبزار فى «مسنده» برقم: 3782، والطبراني فى «الكبير» برقم: 5235، 5236)
837- (إسناده ضعيف فيه محمد بن عبدالرحمٰن بن أبى ليلي وهو سييء الحفظ جداً ولكن أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2843، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1895، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2064، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3429، 4630، 4631، 4632، 4633، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3180 ، 3181 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2509، والترمذي فى «جامعه» برقم: 807، 1628، 1629، 1630، 1631، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1744، 2463، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1746، 2759، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8234، 8235، 8236، 8237، 17914، 18013، 18642، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3776، برقم: 17304، 7 / 3777، برقم: 17307)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا قبیضہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

838- سیدنا قبیضہ بن مخارق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے ایک ادائیگی اپنے ذمے لے لی (جو کسی دوسرے شخص کے ذمے لازم تھی) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب صدقہ کے اونٹ آئیں گے ، تو ہم تمہیں ادا کر دیں گے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”مانگنا حرام قراردیا گیا ہے ۔ سوائے تین لوگوں کے ، ایک وہ شخص جو کسی دوسرے (کی ادا ئیگی ) اپنے ذمے لے ۔ اس کے لیے مانگنا حلال ہوجاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اسے ادا کر دے ، تو پھر مانگنے سے رک جا ئے ۔ ایک وہ شخص جسے فاقہ لاحق اور حاجت لاحق ہو یہاں تک کہ اس کی قوم سے تعلق رکھنے والے تین سمجھدار لوگ اس بات کی گواہی دیں ۔ یایہ بات کریں کہ اس شخص کو فاقہ اور ضرورت لاحق ہے ، تو ایسے شخص کے لیے مانگنا جائز ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کا سامان حاصل کرلے ، تو پھر وہ مانگنے سے رک جائے ، اور ایک وہ شخص جسے کوئی آفت لاحق ہو جائے ، جو اس کے مال کو برباد کردے تو اس کے لیے مانگنا جائز ہوجاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کے لیے امداد حاصل کر لے ، تو پھر اس سے رک جائے ، ان کے علاوہ جو بھی مانگنا ہے وہ حرام ہوگا ۔“


------------------
سیدنا عصام مزنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

839-عبدالملک بن نوفل بیان کرتے ہیں : انہوں نے مز ینہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب جن کا نام ابن عصام تھا انہیں یہ بیان کرتے ہوئے سنا : انہوں نے اپنے والد کے حوالے سے یہ بات نقل کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مہم کو روانہ کرتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرماتے تھے : ”جب تم (کسی علاقے میں) کوئی مسجد دیکھویا تم مؤذن کو سنوتو وہاں کسی کو قتل نہ کرنا ۔“
راوی بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مہم پرروانہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی ہدایت کی ہم تہامہ کی سمت روانہ ہوئے وہاں ہمیں ایک شخص ملا جو کچھ خواتین کو لے جارہاتھا ہم نے ا س سے کہا: تم اسلام قبول کرلو اس نے دریافت کیا : اسلام سے مراد کیا ہے ؟ ہم نے اسے اس بارے میں بتایا تو وہ اس سے واقف نہیں تھا ۔ وہ بولا: اگر میں ایسا نہیں کرتا تو پھر تمہارا کیا خیال ہے ، پھر تم لوگ کیا کرو گے ؟ راوی کہتے ہیں : ہم نے کہا: ہم تمہیں قتل کردیں گے ۔ وہ بولا: کیا تم میرا انتظار کرو گے ؟ میں ان خواتین تک جاؤں ۔ ہم نے کہا: ٹھیک ہے ہم تم تک پہنچ جائیں گے ۔
راوی کہتے ہیں : وہ ان خواتین کے پاس گیا اور بولا: ”حبیش“ تم اسلام قبول کرلو ۔ اس سے پہلے کہ زندگی ختم ہوجائے ، تو ایک دوسری عورت بولی: تم دس لوگ اسلام قبول کرو ، سات لوگ کرو جو طاق ہوتے ہیں ، یاآٹھ کرو جو یکے بعد دیگر ے ہوتے ہیں ۔
پھر اس شخص نے یہ پڑھا ۔ ”کیا تمہیں وہ دن یا د ہے ، جب میں تمہاری تلاش میں نکلا تھا ، تو میں نے تمہیں ”حلیہ“ کے مقام پر پایا تھا یا میں نے تمہیں ”خوانق“ کے مقام پر پایا تھا کیا یہ بات لازمی نہیں تھی کہ عشق کرنے والے کو رات کے وقت کے سفر اور تپتی ہوئی دوپہر کے سفر کا معاوضہ دیا جائے میں نے جو کہا ہے اس پر مجھے کوئی گناہ نہیں ہوگا ۔ اگر میری بیوی میرے ساتھ ہوا ور وہ مجھے غسل کی اجازت دید ے اس سے پہلے کہ حادثات میں کوئی ایک حادثہ لاحق ہوجائے ۔ وہ مجھے وصل کی اجازت دید ے اس سے پہلے کہ گھر دور ہوجائے اور حاکم محبوب کے بارے میں علیحدگی کا حکم دیدے ۔“
راوی بیان کرتے ہیں : پھر وہ شخص ہمارے پاس آیا اور بولا: اب تم اپنا کام کر لو آگے بڑھے اور ہم نے اس کی گردن اڑادی تو ایک عورت اپنے ہودج سے تیزی سے نیچے آئی وہ انتہائی گندمی رنگت کی مالک تھی وہ آکر اس پر گری اور وہ بھی فوت ہوگئی ۔


------------------
سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

840- سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ مؤمنون کی تلاوت کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے تذکرے پر پہنچے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانسی آگئی ۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں بلغم آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں چلے گئے ۔


------------------
سیدنا یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

841- سیدنا یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ملاحظہ فرمایا ، میں نے مخصوص قسم کی خوشبولگائی ہوئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت کیا : ”اے یعلیٰ ! کیا تمہاری بیوی ہے ؟ (یعنی کیا تم شادی شدہ ہو) “ میں نے عرض کی : جی نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر تم اسے دھودو اور دوبارہ نہ لگانا۔
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : تو میں نے اسے دھولیا اور دوبارہ نہیں لگایا پھر میں نے اسے دھویا اور اسے دوبارہ نہیں لگایا ۔ پھر میں نے اسے دھودیا اور اسے دوبارہ نہیں لگایا ۔

تخریج:
838- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1044، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2359، 2360 2375، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3291، 3395، 3396، 4830، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2578، 2579، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2371، 2372، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1640، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1720، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11518، 13317، 13318، 13327، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1995، 1996، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3422، برقم: 16161، 9 / 4764، برقم: 20932)
839- (إسناده ضعيف إبن عصام المزني مجهول وأخرجه النسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8780، 8787، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2635، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1549، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18305، 18697، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3352، برقم: 15955، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33749، والطبراني فى "الكبير" برقم: 467)
840- (إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج، ولكن الحديث صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 455، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 546، 1014، 1015، 1649، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1815، 2189، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 775، 1006 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 854، 1081، وأبو داود فى «سننه» برقم: 648، 649، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 820، 1431، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2500، 4083، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3251، برقم: 15629، 6 / 3252، برقم: 15631)
841- (إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2675، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5136 ، 5137 ، 5138 ، 5139 ، 5140 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9356، 9357، 9358، 9359، 9360، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2816، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3917، برقم: 17824، 7 / 3918، برقم: 17826، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 17970)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا سلمان بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

842- سیدنا سلمان بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ار شاد فر ماتے ہوئے سنا ہے : ”بچے کاعقیقہ کیا جائے گا تم اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس سے گندگی دور کردو۔“

843- ( سیدنا سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ار شاد فر ماتے ہوئے سنا ہے ، ”جب کوئی شخص افطاری کرے تو کھجور کے ذریعے افطاری کرے کیونکہ ا س میں برکت ہوتی ہے اگر کھجور نہ ہو ، تو پانی کے ذریعے کرے کیونکہ یہ طہارت دیتا ہے (یاطہارت کے حصول کا ذریعہ ہے ) “

844- ( سیدنا سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ار شاد فر ماتے ہوئے سنا ہے : ”غریب کو صدقہ دینا صرف صدقہ دینا ہے اور غریب رشتے دار کو صدقہ دینے میں دو پہلو پائے جاتے ہیں ، صدقہ کرنا اور صلہ رحمی کرنا ۔“


------------------
سیدنا اسامہ بن شریک عامری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

845- سیدنا اسامہ بن شریک عامری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں اس وقت ان دیہاتیوں کے پاس موجود تھا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کررہے تھے کیا ہم پر اس معاملے میں گناہ ہوگا ۔ ا س معاملے میں ہوگا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے بندو ! ”اللہ تعالیٰ نے حرج کو اٹھالیا ہے ماسوائے اس شخص کے جو شخص اپنے کسی بھائی کی عزت کے درپے ہوتا ہے ، تو یہ چیز ہے ، جو حرج میں مبتلا کرتی ہے اور ہلاک کاشکار کر دیتی ہے ۔“
لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم دوا استعمال کیا کریں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے اللہ کے بندو ! تم دوا استعمال کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری نازل کی ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے شفا بھی نازل کی ہے ۔ البتہ بڑھاپے کا حکم مختلف ہے ۔“
لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بندہ مسلم کو جو چیز یں دی گئی ہیں ان میں سے سب سے بہتر کیا ہے ؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اچھے اخلاق ۔“


------------------
سیدنا قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

846- سیدنا قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی نماز میں یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا ۔ «وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ» (50-ق:10) ”اور کھجوروں کے درخت جن کے خوشے تہہ بہ تہہ ہوتے ہیں ۔“


------------------
سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

848- سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا ہے : ”نطفہ جب چالیس دن تک رحم میں رہتا ہے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) پینتا لیس دن تک رہتا ہے ، توفرشتہ اس کے پاس آتا ہے ۔ وہ دریافت کرتا ہے : اے میرے پروردگار ! یہ بدبخت ہے یا نیک بخت ہے ؟ یہ مذکرہے یا مؤنث ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ جو جواب دیتا ہے ان دونوں باتوں کو نوٹ کرلیا جاتا ہے ۔ پھر اس شخص کے عمل کو ، اس کے رزق کو اس کی عمر کی انتہا کو ، اس کی باقی رہ جانے والی چیزوں کو اور اسے لاحق ہونے والے امور کو نوٹ کیا جاتا ہے ، پھر اس صحیفے کو لپیٹ دیا جاتا ہے اس میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی نہیں ہوتی“ ۔
بعض اوقات سفیان نامی راوی یہ الفاظ نقل کرتے تھے : ”قیامت کے دن تک ایسا ہوتا ہے“ ، تاہم بعض اوقات وہ یہ الفاظ نہیں بھی بیان کرتے تھے ۔

849- سیدنا ابوسریحہ غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالا خانے سے ہماری طرف جھانک کر دیکھا کر ہم اس وقت قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”تم لوگ کس بات کا ذکر کر رہے ہو؟“ ہم نے عرض کی : قیامت کا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک دس علامات ظاہر نہیں ہوں گی ۔ دجال ، دھواں ، دابتہ الارض ، سورج کا مغرب سے نکلنا ، سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول ، یا جوج ماجوج ( کاخروج) اور تین قسم کے دھنسنے ہوں گے ۔ ایک دھنسنا مغرب میں ہوگا اور ایک دھنسنا جزیرہ عرب میں ہوگا ۔ ان سب کے آخر میں آگ نکلے گی جو ”عدن“ سے نکلے گی (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ”عدن“ کے گڑھے سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کر میدان محشر میں لے جائے گی ۔“


------------------
سیدنا مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

850- سیدنا مجمع بن جاریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ، آپ نے دجا ل کا ذکر کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ۔ مریم کے صاحبزادے ( سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ) اسے ”باب لد“ کے پاس ضرور قتل کریں گے ۔“

تخریج:

842- (إسناده جيد، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5471، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4225، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4525، 4526، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2839، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1515، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2010، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3164، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19322، 19323، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3535، برقم: 16479، 7 / 3536، برقم: 16483)
843- (إسناده جيد وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2066، 2067، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3514، 3515، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1579، 1580، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3300، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2355، والترمذي فى «جامعه» برقم: 658، 694، 695، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1743، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1699، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8225، 8226، 8227، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3535، برقم: 16476)
844- (إسناده جيد وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2067، 2385، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3344، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1481، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2581 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2374، والترمذي فى «جامعه» برقم: 658، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1722، 1723، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1844، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7828، 7829، 13346، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3535، برقم: 16480، 7 / 3535، برقم: 16481)
845- (إسناده صحيح وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2955، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 478، 486، 6061، 6064، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3855، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2038، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2672، 3436، والبيهقي فى «سننه الكبير» 9 / 343، برقم: 19617، 10 / 246، برقم: 21215، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4200، برقم: 18744، 8 / 4200، برقم: 18745)
846- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 457، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 527، 1591، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1814، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3749، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 949 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1024، 11457، والترمذي فى «جامعه» برقم: 306، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1334، 1335، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 816، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4080، 4081، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4308، برقم: 19205، والطيالسي فى «مسنده» 2 / 584، برقم: 1352)
848- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2644، 2645 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6177، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15521، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3505، برقم: 16392)
849- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2901، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6791، 6843، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11316، 11418، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4311، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2183، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4041، 4055، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3505، برقم: 16391، 7 / 3506، برقم: 16393، 7 / 3506، برقم: 16395، 11 / 5756، برقم: 24504، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1163)
850- (إسناده جيد وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6811، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2244، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3279، برقم: 15705، 6 / 3280، برقم: 15706، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1323، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20835، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38689، والطبراني فى "الكبير" برقم: 1075)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

851- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : بنو عقیل زمانہ جاہلیت میں ثقیف قبیلے کے حلیف تھے ۔ ثقیف قبیلے کے لوگوں نے دو مسلمانوں کو قیدی بنالیا پھر اس کے بعد مسلمانوں نے عقیل کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو پکڑلیا جس کے ساتھ اس کی اونٹنی بھی تھی اس شخص کی اونٹنی زمانہ جاہلیت میں حاجیوں سے آگے نکل جایا کرتی تھی اور وہ کئی مرتبہ یہ عمل کرچکی تھی ۔ زمانہ جاہلیت کا یہ رواج تھا کہ جب کوئی اونٹنی حاجیوں سے آگے نکل جاتی تھی ، تو پھر اسے کسی بھی جگہ پر چرنے سے نہیں روکا جاتا تھا ۔ کسی بھی حوض پر آکر پانی پینے سے نہیں روکا جاتا تھا۔
(راوی بیان کرتے ہیں) اس شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا وہ بولا: اے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور حاجیوں سے آگے نکل جانے والی (اونٹنی ) کو کس وجہ سے پکڑا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہارے حلیف ثقیف قبیلے کی زیادتی کی وجہ سے ۔“
راوی بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کے پاس سے گزرے ، تو وہ بندھا ہوا تھا ۔ ایک مرتبہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو وہ بولا: اے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں بھوکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ کھانے کے لیے دیجئے ۔ میں پیاسا ہوں کچھ پینے کے لیے دیجئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ لو ! تمہاری ضرورت کا سامان (یعنی اسے کھانے پینے کی چیز یں فراہم کردیں) “
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات مناسب لگی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذریعے ان دو آدمیوں کا فدیہ دیا جنہیں ثقیف قبیلے کے لوگوں نے قیدی بنالیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹنی کو اپنے لیے روک لیا ۔ پھرا یک مرتبہ دشمن نے مدینہ منورہ پر رات کے وقت حملہ کیا وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانوروں کے باڑے میں گئے اور انہوں نے وہاں سے اس اونٹنی کو چرالیا ۔
راوی بیان کرتے ہیں : ان جانوروں کے پاس ایک خاتون بھی تھی، انہوں نے اسے بھی قیدی بنالیا ۔
وہ لوگ شام کے وقت اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑتے تھے ۔ ایک رات وہ خاتون اونٹوں کے پاس آئی وہ جس بھی اونٹ کے پاس آتی تھی وہ اونٹ آواز نکالنے لگتا تھا ۔ لیکن جب وہ خاتون اس اونٹنی کے پاس آئی تو اس نے آواز نہیں نکالی وہ خاتون اس پر سوار ہوئی اور اسے وہاں سے نجات مل گئی ۔
وہ عورت مدینہ منورہ آئی تو لوگ بولے : یہ تو عضباء ، یہ عضباء ہے (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی آواز لگتی ہے ) راوی کہتے ہیں : وہ عورت بولی: میں نے یہ نذرمانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس اونٹنی پر نجات عطا کی ، تو میں اسے ذبح کردوں گی ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم نے اسے بہت برا بدلہ دیا ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے متعلق نذر کو پورا نہیں کیا جاتا ۔ اور آدمی جس چیز کا مالک نہ ہو اس کے بارے میں نذر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔“

852- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک شخص نے مرنے کے قریب اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا ۔ اس شخص کے پاس ان غلاموں کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کے درمیان قرعہ اندازی کی اور دو کو آزاد قرار دیا اور چار کو غلام رہنے دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اگر میں اس تک پہنچ گیا تو میں اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کروں گا ۔“

853- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی : «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ» (22-الحج:1) ”اے لوگو ! تم اپنے پروردگار سے ڈرو ! بے شک قیامت کازلزلہ عظیم چیز ہے ۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کیا تم لوگ یہ جانتے ہو یہ کون سادن ہے ؟“
لوگوں نے عرض کی : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بہتر جانتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ وہ دن ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اے آدم ! اٹھو اور اہل جہنم کو (ان کے مخصوص ٹھکانے کی طرف ) بھیج دو تو وہ عرض کریں گے : اے میرے پروردگار ! اہل جہنم کتنے لوگ ہیں؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ہر ایک ہزار میں سے نو سو نناوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا ۔“
راوی کہتے ہیں : تو حاضر ین نے رونا شروع کر دیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب بھی اسلام آیا اس سے پہلے جاہلیت موجود تھی ، تو اس تعداد کو زمانہ جاہلیت کے لوگوں سے پورا کیا جائے گا ۔ اگر وہ اس سے بھی پورے نہ ہوئے ، تو منافقین کے ذریعے اس تعداد کو مکمل کیا جائے گا ۔ تمہاری مثال دیگر امتوں کے درمیان اسی طرح ہے ، جس طرح کسی جانوروں کی کلائی (یعنی اگلی ٹانگ) پر نشان ہوتا ہے ۔ یا اونٹ کے پہلوں میں شامہ (معمولی سا کالانشان ) ہوتا ہے ۔“
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا : ”مجھے یہ امید ہے ، تم لوگ اہل جنت کا ایک چوتھائی حصہ ہوگے“ ، تو لوگوں نے تکبیر کہی۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھے یہ امید ہے ، تم لوگ اہل جنت کا ایک تہائی ہوگے“ ، تو لوگوں نے تکبیر کہی۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم لوگ اہل جنت کا نصف ہوگے“ ، تو لوگوں نے تکبیر کہی ۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : میری یاداشت کے مطابق صرف نصف تک کا تذکرہ ہے ویسے میرے علم کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا : ”مجھے یہ امید ہے ، تم اہل جنت کا دو تہائی حصہ ہوگے“ (یا پھر یہ ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے نے یہ کہا ہے )

854- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جہاں تک میرا تعلق ہے ، تو میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا جہاں تک اس کا تعلق ہے ، تو وہ کھانا کھائے گا اور بازاروں میں چلے پھر ے گا ۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ”دجال“ تھا ۔

855- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو قسم دی کہ کس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو؟ تو ایک صاحب کھڑ ے ہوئے اور بولے : میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک تہائی حصہ دیا تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا : کس کے ساتھ ؟ وہ بولے : مجھے نہیں معلوم ، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے : پھر تمہیں پتہ نہیں ہے ۔

856- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک ا ور صاحب کھڑ ے ہوئے اور بولے : میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دادا کو چھٹا حصہ دیا تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا : کس کے ساتھ ؟ انہوں نے جواب دیا : مجھے نہیں معلوم ، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے : تمہیں بھی پتہ نہیں ہے ۔

857- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”تم میں سے کسی نے سورہ الاعلیٰ کی تلاوت ہے“ ، تو ایک صاحب نے عرض کی : جی ہاں ! میں نے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھے یہ انداز ہ ہوگیا تھا کہ تم میں سے کوئی ایک شخص میر امقابلہ کررہا ہے“ ۔

858- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”دم صرف نظر لگنے کا ہوتا ہے یا بچھو کے کاٹنے کا ہوتا ہے“ ۔

تخریج:
851- (إسناده صحيح، وعم أبى قلابة هو أبو المهلب الجرمي۔ وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1641، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4391، 4392، 4859، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7935، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3821 ، 3849 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3316، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1568، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2382، 2509، 2547، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2124، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12965، 18111، 18112، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4570، برقم: 20141، 8 / 4576، برقم: 20172)
852- (في إسناده علتان: الأولى: ضعف على بن زيد بن جدعان، والعلة الثانية القطاعه فالحسن البصري لم يثبت له سماع من عمران والله أعلم. غير أن الحديث صحيح فقد أخرجه مسلم فى الأيمان 1668، وقد استوفينا تخرجه فى صحيح ابن حبان برقم 4320 4542 5075، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1957 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2096، 4955، 4956، 4957، 4958، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3958، 3961، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1364، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2345، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12673، 12674، 12675، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4570، برقم: 20140، 8 / 4574، برقم: 20160)
853- (إسناده ضعيف كسابقة، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 79، 2935، 2985، 3470، 3471، 8790، 8791، 8792، 8793، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11277، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2941، 3168، 3169، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4583، برقم: 20201، 8 / 4590، برقم: 20219، 8 / 4590، برقم: 20220)
854- (حديثان باسناد ضعيف فيه علتان الإنقطاع وضعف على بن زيد بن جدعان وأخرجه أحمد فى «مسنده» 8 / 4607، برقم: 20312، وأورده ابن حجر فى "المطالب العالية" برقم: 2397، وأخرجه البزار فى «مسنده» برقم: 3574، وأخرجه الطبراني فى "الكبير" برقم: 339)
855- (إسناده ضعيف فيه علتان، وانظر الحديث السابق)
856- (إسناده أكثر ضعفاً من سابقه، وأخرجه النسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6302، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4607، برقم: 20313، والحميدي فى «مسنده» 2 / 81، برقم: 855، 2 / 82، برقم: 856)
857- (إسناده ضعيف لضعف اسماعيل بن مسلم المكي، غير أنه متابعه عليه، والحديث صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 398، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1845، 1846، 1847، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 916 ، 917 ، 1743 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 991، 992، وأبو داود فى "سننه برقم: 828، 829، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2951، 2952، 2953، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1240، 1509، 1510، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4568، برقم: 20129، 8 / 4568، برقم: 20130)
858- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5705، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 220، 2196، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6104، 6430، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8365، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7499، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3884، 3889، والترمذي فى «جامعه» 2056، 2057، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3513، 3516، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19602، 19611، 19648، 19649، 19650، وأحمد فى «مسنده» 2 / 601، برقم: 2487، 5 / 2567، برقم: 12356)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

859- سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”دین خیر خواہی کا نام ہے ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے ۔ دین خیر خواہی کا نام ہے“ ۔ لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کے لیے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کے لیے ، اس کی کتاب کے لیے ، اس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ، مسلمان حکمرانوں کے لیے ، ان کے عام افراد کے لیے ۔“

860- سفیان کہتے ہیں : عمروبن دینار نے یہ روایت پہلے قعقاع بن حکیم کے حوالے سے ابوصالح سے نقل کی تھی، جب میری ملاقات سہیل سے ہوئی تو میں نے سوچا اگر میں ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کروں ، تو ہو سکتا ہے ، وہ اپنے والد کے حوالے سے یہ روایت مجھے سنادیں ، تو اس صورت میں ، میں اور عمرو اس روایت کے بارے میں برابر کے مرتبے میں آجائیں گے ۔ میں نے ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا ، توسہیل بولے : میں نے یہ روایت ان صاحب سے سنی ہے جن سے میرے والد نے سنی ہے ، انہوں نے عطاء بن یزید کے حوالے سے یہ روایت مجھے سنائی ۔


------------------
سیدنا مرہ فہری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

861- ام سعید جو سیدنا مرہ فہری رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں ، وہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتی ہیں : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا ، خواہ وہ اپنا (رشتہ دار ) ہو یا کسی دوسرے کا ہو (ہم دونوں ) جنت میں ان دو کی طرح ہوں گے ۔
سفیان نے اپنی دوانگلیوں کے ذریعے اشارہ کرکے یہ روایت بیان کی ۔

862-اسماعیل بن امیہ بیان کرتے ہیں : مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا ، خواہ وہ یتیم اس (کے اپنے خاندان کا ) ہویا کسی دوسرے خاندان کا ہو اور وہ شخص اس کے بارے میں احتیاط کرے ، ہم دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے ۔“ حمیدی رحمہ اللہ نے اپنی دوانگلیوں کے ذریعے اشارہ کرکے بتایا ۔


------------------
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

863- سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ازد“ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو اپنا اہلکار مقرر کیا اس کا نام ابن لتبیہ تھا ۔ اسے صدقہ لینے کے لیے مقرر کیا گیا ۔ جب وہ شخص آیا ، تو اس نے کہا: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال ہے اور یہ تحفے کے طور پر مجھے دیا گیا ہے ۔
راوی بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کیا وجہ ہے ؟ ہم کسی کو اہلکارمقرر کرکے اپنے کسی کام کے لیے بھیجتے ہیں ، پھر وہ یہ آکر کہتا ہے ، یہ آپ کا مال ہے اور یہ مجھے تحفے کے طور پر دیا گیا ہے ۔ وہ اپنے باپ کے گھر میں ، یا اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھا رہتا پھر وہ اس بات کا جائزہ لے کہ اسے تحفہ ملتا ہے یا نہیں ملتا ؟“
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی : ”اس ذات کی قسم ! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ، تم میں سے جو شخص ا س طرح کوئی وصولی کرے گا ، تو وہ شخص جب قیامت کے دن آئے گا ، تو اس نے اس چیز کو اپنی گردن پر اٹھایا ہوا ہوگا ۔ اگر وہ اونٹ ہوگا ، تو وہ اپنی مخصوص آواز نکال رہا ہوگا ۔ اگر گائے ہوگئی ، تو وہ اپنی مخصوص آواز نکال رہی ہوگی ۔ اگر بکری ہوگی ، تو وہ منمنارہی ہوگی“ ۔
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے یہاں تک کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : ”اے اللہ ! کیا میں نے تبلیغ کردی ہے ۔ اے اللہ ! کیا میں نے تبلیغ کردی ہے ۔“
سفیان نامی راوی کہتے ہیں : ہشام نامی راوی نے اس روایت میں یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں ۔ سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میری آنکھوں نے اس منظر کو دیکھا اور میرے کانوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ان الفاظ کو سنا ۔ تم لوگ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی اس بارے میں دریافت کرو ۔ وہ بھی اس وقت میرے ساتھ وہاں موجود تھے ۔


------------------
سیدنا عروہ بن ابوجعد بارقی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

864- سیدنا عروہ بن ابوجعد بارقی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت کے دن تک کے لیے بھلائی رکھ دی گئی ہے“ ۔

865-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں ۔ ”اجر اور مال غنیمت (کی شکل میں بھلائی رکھی گئی ہے ) “ ۔

866- سیدنا عروہ بن ابوجعد بارقی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دینار دیا ، تاکہ وہ اس کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قربانی کا جانور خریدیں ۔ سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے اس کے ذریعے دوبکریاں خریدیں ان دو میں سے ایک کو ایک دینار کے عوض میں فروخت کر دیا اور ایک دینار اور ایک بکری لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے سودے میں برکت کی دعا کی ۔
راوی کہتے ہیں : ان کا یہ حال تھا کہ اگروہ مٹی بھی خریدتے تھے ، تو انہیں اس میں بھی فائدہ ہوتا تھا ۔
سفیان کہتے ہیں : حسن بن عمارہ جب یہ روایت بیان کرتے تھے ، تو اس میں یہ بھی کہتے تھے : میں نے شبیب کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے میں نے سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ کویہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے : جب میں نے شبیب سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو وہ بولے : میں نے یہ روایت سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنی ہے ، بلکہ مجھے یہ روایت حی نامی راوی نے سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی ہے ۔


------------------
سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

867-عبدالرحمٰن بن حمید بیان کرتے ہیں : میں نے عمر بن عبدالعزیز کو سائب بن یزید اور ان کے ساتھیوں سے یہ دریافت کرتے ہوئے سنا ۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں قیام کے بارے میں کیا سن رکھا ہے ، تو سائب بن یزید نے جواب دیا : سیدنا علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ بات بتائی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”مہاجر شخص حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد تین دن تک مکہ میں ٹھہر سکتا ہے ۔“

868-بنو غفار سے تعلق رکھنے والے ایک عمر رسیدہ صاحب جن کا نام ہیثم بن ابواسعد تھا وہ اپنے والد کے حوالے سے یہ بات نقل کرتے ہیں ۔ ایک مرتبہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ عمرہ کے دوران ان کے ہاں ٹھہرے تو انہوں نے وہاں تین دن قیام کیا پھر تشریف لے گئے ۔


------------------
سیدنا سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

869-ربیع بن سبرہ اپنے والد کے حوالے سے یہ بات نقل کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر نکاح متعہ سے منع کر دیا تھا ۔

870-ربیع بن سبرہ جہنی اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہمیں نکاح متعہ کی اجازت دی تھی ۔ ہم مکہ آئے تو میں اور میرا چچازاد بھائی نکلے ہم ایک جوان لڑکی کے پاس آئے میرے پاس ایک چادرتھی اور میرے چچازاد کے پاس بھی چادر تھی ، جو میری چادر سے بہتر تھی ، لیکن میں اپنے چچازاد کے مقابلے میں زیادہ جوان تھا ۔ وہ عورت دیکھنے لگی ، وہ بولی: ایک چادر تو دوسری چادر کی مانند ہوتی ہے ، پھر اس نے مجھ اختیار کر لیا ، تو میں نے اپنی چادر اسے دے دی ۔ پھر جتنا اللہ کو منظور تھا ، میں اس کے پاس ٹھہرا ، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کے دروازے اور زمزم کے کنویں کے درمیان کھڑے ہو ئے پایا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”ہم نے تمہیں اس طرح متعہ کرنے کی اجازت دی تھی ، تو اب اگر کسی کے پاس ایسی کوئی عورت ہو ، تو وہ اسے چھوڑ دے ۔ اب اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن تک کے لیے اسے حرام قرار دیا ہے اور تم نے انہیں جو کچھ دیا تھا اس میں سے کچھ وصول نہ کرنا“ ۔

تخریج:

859- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 55، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4574، 4575، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4208 ، 4209 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7772، 7773، 8700، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4944، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16754، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3741، برقم: 17214، 7 / 3742، برقم: 17215)
860-(إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 55، أخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 3491 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12786، 12788)

------------------
861- (فى إسناده أنيسة، وأم سعيد -ويقال: أم سعد- ما رأيت فيهما جرحاً ولا تعديلاً، فيهما على شرط ابن حبان، وباقي رجاله ثقات وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 3491 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12786، 12788، وأخرجه الطبراني فى "الكبير" برقم: 758، 759، 255، 256)
862- (إسناده معضل والحديث صحيح وانظر التعليق السابق)

------------------
863- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1500، 2597، 6636، 6979، 7174، 7197، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1832، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2339، 2340، 2382، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4515، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2946، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1711، 2535، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7758، 7759، 13296، 20536، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5614، برقم: 24085، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1309)
864-(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2850، 2852، 3119، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1873، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3576 ، 3577 ، 3578 ، 3579 ، والترمذي فى «جامعه» 3 / 314، برقم: 1694، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2470، 2471، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2305، 2786، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11728، 11729، 13010، 13011، 18037، 18548، 19803، 19804، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4447، برقم: 19662، 8 / 4448، برقم: 19663)
865- (إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح فقد أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2850، 2852، 3119، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1873، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3576 ، 3577 ، 3578 ، 3579 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4400، 4401 ، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1694، والدارمي فى "مسنده برقم: 2470، 2471، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2305، 2786، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11728، 11729، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4447، برقم: 19662، 8 / 4448، برقم: 19663)
866- (إسناده فيه جهالة، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3642، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3384، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1258، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2402، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11727، 11729، 11730، 11731، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2824، 2825، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4448، برقم: 19664)

------------------
867- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3933، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1352، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3906، 3907، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1453 ، 1454 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1925، 1926، 4198، 4199، 4200، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2022، والترمذي فى «جامعه» برقم: 949، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1552، 1553، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1073، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5534، 5535، 5536، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4354، برقم: 19289، 9 / 4746، برقم: 20855)
868-(أبو الأسعد إياس الغفاري ، ما وجدت له ترجمة. وباقي رجاله ثقات ، وأخرجه وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8852، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13901)

------------------
869- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1406، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4144، 4146، 4147، 4148، 4150، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3368 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1801، 2072، 2073، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1899، 2241، 2242، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1962، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14260، 14261، 14262، 14263، 14264، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3235، برقم: 15572، 6 / 3235، برقم: 15573، 6 / 3236، برقم: 15579)
870- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1406، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4144، 4146، 4147، 4148، 4150، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3368 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1801، 2072، 2073، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1899، 2241، 2242، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1962، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14260، 14261، 14262، 14263، 14264، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3235، برقم: 15572، 6 / 3235، برقم: 15573، 6 / 3236، برقم: 15579)

------------------
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

871- سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی طرف نکلے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک درخت کے پاس سے ہوا جس کا نام ”ذات انواط“ تھا ۔ مشرکین اپنا اسلحہ اس پر لٹکایا کرتے تھے ۔ لوگوں نے عرض کی : یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے بھی کوئی ”ذات انواط“ مقرر کر دیں جس طرح ان لوگوں کا ”ذات انواط“ تھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ اکبر ! یہ تو اسی طرح ہے ، جس طرح بنی اسرائیل نے کہا تھا : تم ہمارے لیے بھی اسی طرح کا معبود بنادو جس طرح ان کا معبود ہے ۔“ (پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ) ”تم لوگ اپنے پہلے کے لوگوں کے طریقوں پر ضرور عمل کرو گے“ ۔

872-عبید اللہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں : عید کے دن سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہوں نے سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سی سورت کی تلاوت کی تھی؟ تو سیدنا ابوواقد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : سورہ ق اور سورہ اقتر بت کی ۔


------------------
سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

873- سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو شخص دنیا میں جس چیز کے ذریعے خود کشی کرے گا قیامت کے دن اسے اسی چیز کے ذریعے عذاب دیا جا ئے گا“ ۔


------------------
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

874- سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گھاٹی سے نیچے اتر رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے عقبہ ! تم یہ پڑھو“ ۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کیا پڑھوں ۔
پھر ہم الگ ہوگئے : میں نے دعا کی : اے اللہ ! تو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وہ چیز مجھے لوٹا دے ۔ پھر ہماری ملاقات ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے عقبہ ! تم پڑھو“ میں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کیا پڑھوں؟ پھر ہم جدا ہوگئے میں نے عرض کی : اے اللہ ! تو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے وہ چیز مجھ تک لوٹا دے ۔
پھر ہماری ملاقات ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ”: تم پڑھو ! اے عقبہ !“ میں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں کیا پڑھوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس پڑھو ۔ کسی بھی پناہ مانگنے والے نے اور کسی بھی پناہ طلب کرنے والے نے ان کی مانند کلمات کے ذریعے کبھی پناہ نہیں مانگی ہوگی ۔“


------------------
سیدنا ابن معاذ تیمی رضی اللہ عنہ سے منقل روایات
------------------

875- سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابن معاذ تیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں لوگوں کو ان کی پڑاؤ کی جگہ پر پڑاؤ کرنے کی ہدایت کی ، تو مہاجر ین اور انصار نے اپنی مخصوص گھاٹیوں میں پڑاؤ کیا ۔
راوی بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دی۔
راوی کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے ہماری سماعت کو کھول دیا تو ہم نے اپنے پڑاؤ کی جگہ پر رہتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن لی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو تعلیم دی اس میں یہ بات بھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب تم جمرہ کی رمی کرو تو ایسی کنکری کے ذریعے کرنا جو چٹکی میں آجاتی ہو ۔“


------------------
سیدنا سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

876- سیدنا سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور بولے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کویہ ہدایت کیجئے کہ وہ بلند آواز میں تلبیہ پڑھیں“ (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے )
سفیان کہتے ہیں : ابن جریج مجھ سے ایک حدیث چھپا کر رکھتے تھے ۔ جب عبداللہ بن ابوبکر ہمارے ہاں تشریف لائے تو میں نے انہیں اس بارے میں نہیں بتایا جب وہ مدینہ منورہ چلے گئے تو میں نے انہیں اس کے بارے میں بتایا تو وہ مجھ سے بولے : اے عوف ! کیا تم ہم سے احادیث چھپا کر رکھتے ہو ۔ اور جب اس کے اہل (یعنی اس کے طلباء) رخصت ہوجائیں پھر تم نے ہمیں اس کے بارے میں بتایا ہے ۔ میں یہ روایت تمہارے حوالے سے روایت نہیں کروں گا ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اسے تمہارے حوالے سے روایت کروں؟ پھر عبداللہ بن ابوبکر نے مجھے خط میں لکھا ۔ پھر عبداللہ بن ابوبکر نے ابن جریج کو بھی اس بارے میں خط لکھا تو ابن جریج اس روایت کو یوں بیان کرتے تھے ۔ عبداللہ بن ابوبکر نے مجھے خط میں یہ روایت بھجوائی تھی ۔


------------------
ابوبداح کی اپنے والد سے نقل کردہ روایات
------------------

877- ابوبداح اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جانوروں کے ) چروا ہوں کویہ اجازت دی تھی کہ وہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑ دیں ۔


------------------
سیدنا مستور دفہری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

878- سیدنا مستور دفہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈالے اور پھر اس بات کا جائزہ لے کہ اس انگلی پر کتنا پانی آیا ہے ؟“
سفیان کہتے ہیں : ابن ابوخالد یہ روایت نقل کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ میں نے یہ روایت سیدنا مستورد رضی اللہ عنہ سے سنی ہے جن کا تعلق بنو فہر سے ہے ، تو وہ یہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے لفظی غلطی کر جاتے تھے ۔


------------------
سیدنا سلمہ بن قیس اشجعی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

879- سیدنا سلمہ بن قیس اشجعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب تم وضو کرو ، تو ناک صاف کرو اور جب (استنجاء کرتے ہوئے ) ڈھیلے استعمال کرو ، تو طاق تعداد میں کرو“ ۔

------------------
سیدنا جرہد اسلمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

880- سیدنا جرہد اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے میں اس وقت مسجد میں موجود تھا میں نے اوپر چادرلی ہوئی تھی اور میرے زانوں سے چادر ہٹی ہوئی تھی ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے جرہد ! تم اپنے زانوں کو ڈھانپ لو ! کیونکہ زانو ستر کا حصہ ہے“ ۔

881-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

تخریج:

871- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6702، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11121، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2180، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22315، 22318، 22320، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1443، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1441)
872- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 891، ومالك فى «الموطأ» برقم: 618 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1440، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2820، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1566 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1786، 11486، 11487، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1154، والترمذي فى «جامعه» برقم: 534، 535، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1282، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6277، 6278، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1719، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22314، 22329)
873- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1363، 4171، 4843، 6047، 6105، 6652، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 110، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4366، 4367، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3779 ، 3780 ، 3822 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3257، 3313، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1527، 1543، 2636، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2406، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2098، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15979، 19894، 20196، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16647)
874- (إسناده ضعيف فيه جهالته وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 534، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 795، 1818، 1842، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 883، 884، 2092، 4010، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1462، 1463، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2406، 2902، 3367، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3482، 3483، 3484، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4116، والطبراني فى "الكبير" برقم: 741)
875- (إسناده صحيح و أخرجه النسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2996 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1957، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1941، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9634، 9710، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16857، 23649)
876-(إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 1199 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2625، 2627، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3802، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1658، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2752 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3719، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1814، والترمذي فى «جامعه» برقم: 829، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1850، 1851، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2922، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9100، 9101، 9102، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2506، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16823)
877- (إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 1538 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2975، 2976، 2977، 2978، 2979، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3888، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1764، 1765، 5823، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3068، 3069 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1975، 1976، والترمذي فى «جامعه» برقم: 954، 955، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1938، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3036، 3037، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9777، 9778، 9779، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24297، 24298)
878- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2858، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4330، 6159، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6572، 7993، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11797، والترمذي فى "جامعه برقم: 2323، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4108، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18291، 18292)
879- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1436، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 43 ، 89 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 44، 45، والترمذي فى «جامعه» برقم: 27، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 406، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19119، 19120، والطبراني فى "الكبير" برقم: 6313)
880- (إسناده جيد وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1710، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7453، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4014، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2795، 2797، 2798، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2692، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3278، 3279، والدارقطني فى «سننه» برقم: 872، 873، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16172، 16173)
881- (وانظر الحديث السابق)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا حکم بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

882-عمروبن دینار کہتے ہیں : میں نے جابر بن زید سے کہا: لوگ یہ کہتے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کر دیا تھا ، تو انہوں نے بتایا : سیدنا حکم بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات ہمارے سامنے بیان کی تھی لیکن (علم کے ) سمندر یعنی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا انہوں نے یہ آیت تلاوت کی : « قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا» (6-الأنعام:145) ”تم یہ فرمادو ! جو چیز میری طرف وحی کی گئی ہے اس میں ، میں اسے حرام نہیں پاتا ۔“


------------------
سیدنا جابر احمسی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

883-حکیم بن جابر احمسی اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کدو موجود دیکھا میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! یہ کیوں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہم اس کے ذریعے اپنے گھر والوں کا کھانا (سالن ) زیادہ کرلیں گے“ ۔


------------------
سیدنا عمارہ بن روبیہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

884- سیدنا عمارہ بن رویبہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا ، جو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے کی نماز ادا کرتا ہو“ ۔

885- ابوبکر بن عمارہ بیان کرتے ہیں : بصرہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص میرے والد کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے دریافت کیا : کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ؟ ”وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا ، جو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے کی نماز ادا کرتا ہو ۔“ تو میرے والد نے جواب دیا : جی ہاں ، تو وہ بصری صاحب بولے : ۔ انہوں نے اس بات کی گواہی دی کہ انہوں نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ بات سنی ہے ۔


------------------
سیدنا محرش کعبی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

886- سیدنا محرش کعبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جعرانہ“ سے رات کے وقت عمرہ کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کی طرف دیکھا تو وہ چاندی کے ٹکڑے کی مانند تھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت ”جعرانہ“ میں موجود تھے یوں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات یہیں بسر کی ہے ۔
امام حمید ی بیان کرتے ہیں : سفیان اس روایت میں بعض اوقات سیدنا محرش کعبی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے تھے ۔ اگر کوئی شخص ان سے اس بارے میں دریافت کرتا تو وہ یہ جواب دیتے تھے ان کا نام یا مجرش ہے یا محرش ہے یا مخرش ہے ۔ اور بعض اوقات وہ یہ بھی کہتے تھے : یا یہ ہے یاوہ ہے ۔ یعنی وہ ان کے نام کے بارے میں ہمیشہ اضطراب کا شکار رہتے تھے ۔
امام حمید ی کہتے ہیں : ان کا نام ”محرش“ ہے ۔


------------------
سیدنا کعب بن عاصم اشعری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

------------------
887- سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سیدنا کعب بن عاصم اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتی ہیں ۔ ”سفر کے دوران روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے ۔“

888- سفیان کہتے ہیں : مجھے یہ بات بتائی گئی کہ زہری اس روایت میں یہ بات کہتے ہیں : حالا نکہ میں نے زہری کی زبانی یہ بات نہیں سنی ۔ ”سفر کے دوران روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے ۔“ (یعنی یہاں الفاظ کے تلفظ میں کچھ فرق ہے )


------------------
سیدنا سفیان بن ابوزہیر رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

889- سیدنا سفیان بن ابوزہیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”یمن فتح کیا جائے گا ، تو کچھ لوگ اونٹوں کو ہانک کر لائیں گے اس پر اپنے گھروالوں کو اپنے ماتحتوں کو سوار کریں گے (اور مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے ) حالانکہ اگر انہیں علم ہوتا تو مدینہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا ۔ پھر عراق فتح کیا جائے گا ، تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانک کر لائیں گے وہ ان پر اپنے گھر والوں اور اپنے ماتحتوں کو سوار کرکے لے جائیں گے حالانکہ اگر وہ علم رکھتے تو مدینہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا ۔ پھر شام فتح ہوگا ، تو کچھ لوگ اپنے اونٹوں کو ہانک کر لائیں گے وہ ان پر اپنے گھروالوں اور اپنے ماتحتوں کو سوار کرکے لے جائیں گے ، اگر انہیں علم ہوتا ، تو مدینہ منورہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا“ ۔


------------------
سیدنا ابورمثہ سلمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

890- سیدنا ابورمثہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میرے والد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر موجود (تکلیف یا رگ) کا جائزہ لیا تو انہوں نے عرض کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر موجود (تکلیف یا رگ) کا علاج کروں ، کیونکہ میں حکیم ہوں ۔
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم رفیق ہو ، اللہ تعالیٰ طبیب ہے“ ۔
راوی بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد سے دریافت کیا : ”تمہارے ساتھ کون ہے ؟“ انہوں نے عرض کی : میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گواہی دے کر یہ کہتا ہوں کہ یہ میرا بیٹا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم اس کے کیے کی سزا نہیں بھگتوگے اور یہ تمہارے کیے کی سزا نہیں بھگتے گا“ ۔
انہوں نے یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (بالوں میں) کہیں ، کہیں مہندی کانشان بھی دیکھا ۔


------------------
سیدنا عبداللہ بن سر جس رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

891- سیدنا عبداللہ بن سر جس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر (مہر نبوت) دیکھی جو بند مٹھی کی مانند تھی ۔
سفیان نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں : جو پچھنے لگانے کے آلے کی طرح تھی ۔

تخریج:
882- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4227، 5529، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1939، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3255، 6338، 7206، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3800، 3808، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19518، 19519، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18141)
883-(إسناده صحيح وأخرجه النسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6631، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3304، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19406، 19407، والترمذي فى «الشمائل» برقم: 161، والطبراني فى "الكبير" برقم: 2080، 2081، 2082، 2083، 2084، 2085)
884- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 634، 634، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 318، 319، 320، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1738، 1739، 1740، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 470 ، 486 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 352، 462، 11459، وأبو داود فى «سننه» برقم: 427، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2222، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17493، 17495، والحميدي فى «مسنده» برقم: 885، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 7718، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 1830، 4056)
885- (إسناده صحيح وانظر التعليق السابق)
886- (إسناده صحيح وأخرجه النسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2863 ، 2864 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3832، 3833، 4220، 4221، 4222، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1996، والترمذي فى «جامعه» برقم: 935، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1903، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8884، 8885، 8886، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15752، 15753)
887- (إسناده صحيح وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2016، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1585، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2254 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2575، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1751، 1752، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1664، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8248، 8249، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24169، 24170، والطبراني فى "الكبير" برقم: 388)
888- (هذه الرواية أخرجها أحمد فى «مسنده» برقم: 24169، 24170، 24171، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8248، 8249، والطبراني فى «الكبير» برقم 387، من طريق عبد الرزاق عن معمر عن الزهري بالإسناد السابق. وهذا إسناد صحيح)
889- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1875، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1388، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3309 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6673، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4249، 4250، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22332، 22333)
890- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5995، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3611، 7338، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4847 ، 5098 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7007، 9303، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4208، 4495، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2433، 2434، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16001، 16002، 17771، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7226، 7227)
891- (إسناده صحيح وقد أخرجه مسلم فى الفضائل 2346، وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم: 1563، ونضيف هنا: وأخرجه النسائي فى «عمل اليوم والليلة » برقم: 422 ، وابن أبى عاصم فى «الآحاد والمثاني» برقم 1104، من طريقين: حدثنا عبد الواحد بن زياد عن عاصم الأحول بهذا الإسناد. والحديث هذا عند النسائي فى الكبرى برقم: 10255)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا قیس رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

892- سیدنا قیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا میں صبح کی نماز کے بعد دورکعات ادا کر رہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”اے قیس ! یہ کو ن سی دو رکعات ہیں؟“ میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں فجر کی دورکعات (سنت ادا نہیں کرسکا تھا) تو یہ وہی دورکعات ہیں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ۔
سفیان کہتے ہیں : عطاء بن ابی رباح اس حدیث کو سعد بن سعید کے حوالے سے روایت کرتے ہیں ۔


------------------
سیدنا یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

893- سیدنا یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام ”یو سف“ رکھا تھا ۔

894- سیدنا یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب اور ایک خاتون سے فرمایا : ”تم دونوں رمضان میں عمرہ کرو کیونکہ اس (رمضان) میں عمرہ کر نا تمہارے لیے حج کی مانند ہوگا“ ۔


------------------
سیدنا حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

895- سیدنا حبیب بن مسلمہ فہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک جنگ میں) شریک ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز میں ایک تہائی حصہ مال انفال میں سے دیا ۔


------------------
سیدنا عبداللہ بن ارقم زہری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

896- سیدنا عبداللہ بن ارقم زہری رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات منقول ہے ایک مرتبہ وہ مکہ تشریف لے جا رہے تھے کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے وہ ان کی امامت کیا کرتے تھے ۔ ایک دن انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی اور ایک اور شخص کو آگے کر دیا اور یہ بات بیان کی : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”جب نماز کے لیے اقامت کہہ لی جائے اور کسی شخص کو قضائے حاجت کی ضرورت محسوس ہو ، تو اسے پہلے قضائے حاجت کر لینی چاہیے ۔“


------------------
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

897- سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اپنے والد کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں ، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا ، تو سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: آپ مبشر کو میری طرف سے سلام کہیے گا تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے ام مبشر ! کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے ؟ تو اس خاتون نے عرض کی : مجھے نہیں معلوم میں بوڑھی ہوگئی ہوں ، میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی ہوں ۔ تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ بولے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”مومن کی جان سبز پرندے کی شکل میں ہوتی ہے ، جو جنت کے پھلوں کو کھاتی ہے ۔“


------------------
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے چچا سے منقول روایات
------------------

898- سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اپنے چچا کایہ بیان نقل کرتے ہیں ، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں صاحب کو روانہ کیا (ان کانام زہری نے ذکر کیا تھا ، لیکن سفیان نامی راوی اسے بھول گئے ) انہیں ابن حقیق کی طرف بھیجا تھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خواتین اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ۔


------------------
سیدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

899- سیدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نوکیلے دانتوں والے درندے کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔
زہری کہتے ہیں : میں نے یہ حدیث نہیں سنی تھی یہاں تک کہ جب میں شام آیا ( تو وہاں میں نے یہ حدیث سنی)


سیدنا ایاس بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات 900- سیدنا ایاس بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اللہ کی کنیزوں کو نہ مارو ۔“
راوی بیان کرتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اس وقت سے خواتین اپنے شوہروں کے بارے میں شیر ہوگئی ہیں ، جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مارنے سے منع کیا ہے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوا س کی اجازت دے دی ۔
لوگوں نے ان کی پٹائی کرنا شروع کی ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس بہت سی خواتین حاضر ہوئیں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”گزشتہ رات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کے پاس 70 خواتین آئیں تھیں ۔ ان سب نے اپنے شوہروں کی شکایت کی ، تو تم ان لوگوں کو اپنے سے بہتر نہیں پاؤ گے ۔“ (یعنی اپنی بیوی کی پٹائی کرنے والا شخص اچھا نہیں ہوتا)


------------------
حجاج اسلمی کی اپنے والد سے منقول روایات
------------------

901-حجاج اسلمی اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! رضاعت کی وجہ سے لازم ہونے کے حق کو کون سی چیز ختم کردیتی ہے ؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پیشانی ، یعنی غلام یا کنیز (کو رضا عت کے معاوضے کے طور پرادا کرنا چاہیے )


------------------
سیدنا سعد بن محیصہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

902- سیدنا سعد بن محیصہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سیدنا محیصہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے غلام کی آمد ن کے بارے میں دریافت کیا جو پچھنے لگانے کاکام کرتا تھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کر دیا وہ اس بارے میں مسلسل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ”تم اس (معاوضے کے ذریعے ) اپنے اونٹ کو چار ہ کھلاؤ یا اپنے غلام کو کھانا کھلاؤ (خوداستعمال نہ کرنا ) “ ۔


------------------
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

903-عامر بن عبداللہ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں : انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے دوران اس طرح نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ امام حمیدی نے اپنی چار انگلیا ں بندکیں اور شہادت کی انگلی کے ذریعے اشارہ کیا ۔
ابوعلی بشربن موسیٰ نامی راوی کہتے ہیں : امام ابوبکر حمیدی رحمہ اللہ نے ہمارے سامنے یہ کرکے دکھایا تھا ۔
امام حمیدی یہ کہتے ہیں : سفیان نے یہ بات بیان کی ہے زیاد بن سعد نے چار روایات ایسی بیان کی ہیں جو انہوں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کی ہیں تاہم میں نے ان میں سے صرف یہی روایت ذکر کی ہے ۔ باقی روایات میں بھول گیا ہوں ۔ زیاد نے مجھ سے کہا تھا وہ چار روایات ہیں ۔


------------------
سیدنا ناجیہ خزاعی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

904- سیدنا ناجیہ خزاعی رضی اللہ عنہ ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانوروں کے نگران تھے ، وہ بیان کرتے ہیں : میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! جو اونٹ تھک جائے اس کے ساتھ میں کیا طریقہ کار اختیار کروں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اسے ذبح کردو ! پھر تم اس کے پاؤں کو اس خون میں ڈبو کر اسے اس اونٹ کے پہلو پر لگاؤ پھر اسے لوگوں کے لیے چھوڑدو ۔“


------------------
سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

905- زربن حبیش بیان کرتے ہیں : میں سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے مجھ سے دریافت کیا : تم کس لیے آئے ہو؟ میں نے عرض کی : علم کے حصول کے لیے ۔ ا نہوں نے فرمایا : طالب علم کی طلب سے راضی ہو کر فرشتے اپنے پر اس کے لیے بچھا دیتے ہیں ۔
میں نے عرض کی : پاخانے اور پیشاب کے بعد موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں میرے ذہن میں کچھ الجھن ہے ۔ آپ ایک ایسے فرد ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے تعلق رکھتے ہیں ، تو میں آپ سے اس بارے میں دریافت کرنے کے لیے آیا ہوں کہ آپ نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ؟
انہوں نے جواب دیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ ہدایت کرتے تھے کہ جب ہم سفر کررہے ہوں (راوی کو شک ہے شاہد یہ الفاظ ہیں) ”جب ہم مسافر ہوں ، تو ہم تین دن اور تین راتوں تک موزے نہ اتاریں ، البتہ جنابت کا حکم مختلف ہے ۔ تاہم پاخانہ ، پیشاب یا سونے کے نیچے میں (وضوٹوٹنے پر موزے اتارنے کی ضرورت نہیں ہے ) “
میں نے دریا فت کیا : کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواہش نفس کے بارے میں کوئی چیز ذکر کرتے ہوئے سنا ہے انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔ ایک مرتبہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کررہے تھے ایک دیہاتی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز میں مخاطب کیا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جتنی آواز میں اسے جواب دیا : ”میں یہاں ہوں ۔“
ہم نے اس یہاتی سے کہا: تم اپنی آواز نیچی رکھو کیونکہ تمہیں اس بات سے منع کیاگیا ہے ، تو وہ بولا: نہیں ، اللہ کی قسم ! میں اپنی آواز نیچی نہیں کروں گا پھر اس نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ایک شخص کسی قوم سے محبت رکھتا ہے ، لیکن ان کے ساتھ جا کر نہیں ملتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”آدمی ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے وہ محبت رکھتا ہے ۔“
راوی بیان کرتے ہیں : پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”مغرب کی سمت میں ایک دروازہ ہے ، جس کی چوڑائی چالیس (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) ستر برس کی مسافت جتنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا اس دن اس کو کھول دیا تھا اور یہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا ، جب تک سورج مغرب کی طرف سے طلوع نہیں ہوگا ۔“

تخریج:
892- (إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1116، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1563، 2471، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1022، 1023، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1267، والترمذي فى «جامعه» برقم: 422، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1154، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4462، 4463، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24257، 24258)
893- (إسناده صحيح وأخرجه أحمد فى «مسنده» برقم: 16666، 16667، 16669، 24359، 24360، 24361، والترمذي فى «الشمائل » برقم: 339، والطبراني فى "الكبير" برقم: 729، 730، 731، 733، 734)
894- (إسناده صحيح وأخرجه النسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4210، وأحمد فى "مسنده برقم: 16668، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13187، والطبراني فى "الكبير" برقم: 735)
895- (إسناده صحيح و أخرجه الطبراني فى "الكبير" برقم: 3520، 3521، 3522، 3523، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3256، 4034، والطبراني فى «الصغير » برقم: 269، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4835، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2614، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2748، 2749، 2750، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2526، وابن ماجه فى «سننه» 2851، 2853، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12924، 12925، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17734، 17735)
896- (إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 550 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 932، 1652، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2071، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 601، 950، 5486، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 851 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 927، وأبو داود فى «سننه» برقم: 88، والترمذي فى «جامعه» برقم: 142، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1467، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 616، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5108، 5109، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16205، 16662)
897- (إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 820 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4657، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2072 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2211، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1641، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1449، 4271، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16017، 16018)
898-(حديث صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 1625 ، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2627، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18162، 18168، 18169، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24405، 24407، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1032)
899- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5527، 5530، 5780، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1932، 1936، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4846، 5279، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4336 ، 4337 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3802، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1477، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2023، 2024، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3232، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19412، 19413، 19414، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18012، 18015)
900- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4189، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2781، 2790، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9122، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2146، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2265، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1985، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14893، 14899، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17945، والطبراني فى "الكبير" برقم: 784، 785، 786)
901- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4230، 4231، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3329 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5458، 5459، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2064، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1153، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2300، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15779، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15974، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1397، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6835)
902- (إسناده صحيح و أخرجه ابن حبان فى ” صحيحه“ : 5154 وأبو داود فى «سننه» برقم: 3422، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1277، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2166، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19564، 19565، 19566، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24179، 24180)
903- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 579، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 696، 718، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1943، 1944، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1160 ، 1269 ، 1274 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 749، 1194، 1199، وأبو داود فى «سننه» برقم: 988، 989، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1377، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2826، 2827، 2830، 2831، 2835، 2836، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1324، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16350، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6807)
904- (إسناده صحيح وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2577، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4023، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4123، 6605، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1762، والترمذي فى «جامعه» برقم: 910، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1950، 1951، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3106، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10363، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19246، 19247)
905- (إسناده حسن و أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 85، 562، 1100، 1319، 1320، 1321، 1325، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 339، 340، 341، 342، 7520، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 126 ، 127 ، والترمذي فى «جامعه» برقم: 96، 2387، 3535، 3536، والدارمي فى «مسنده» برقم: 369، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 226، 478، 4070، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 940، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 563)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

906- سیدنا عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر پیشاب کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کے ذریعے پردہ کیا ہو اتھا کچھ لوگوں نے کہا: یہ صاحب اس طرح پیشاب کررہے ہیں ، جس طرح کوئی عورت پیشاب کرتی ہے ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بنی اسرائیل کا یہ حال تھا کہ جب (ان کے کپڑے پر ) پیشاب لگ جاتا تھا ، تو وہ قینچی کے ذریعے اسے کاٹ دیتے تھے ، ان کے ایک ساتھی نے انہیں منع کیا ، تو اسے اس کی قبر میں عذاب دیا گیا ۔“


------------------
سیدنا مالک بن جشمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

907-عوف بن مالک جشمی اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر سے نیچے تک میرا جائزہ لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کیا تم اونٹوں کے مالک ہو؟ کیا تم بکریوں کے مالک ہو؟“
(راوی کہتے ہیں) اونٹوں کا اور بکریوں کا مالک اپنی مخصوص ہیئت کی وجہ سے شنا خت ہوجاتا تھا ۔
میں نے عرض کی : مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز عطا کی ہے اور بکثرت عطا کی ہے ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کیا اونٹنی اپنے ہاں (پیدا ہونے والے بچے کو) سلامت آنکھوں اور کانوں کے ساتھ جنم نہیں دیتی ہے ؟ پھر تم کسی کا کان کاٹ دیتے ہو اور کہتے ہو یہ ”صرماء“ ہے کوئی دوسری کمزور ہوجاتی ہے ، تو تم کہتے ہویہ ”بحیرہ“ ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ کا حکم زیادہ پختہ اور اس کی تلقین زبردست ہے ۔ اگر وہ چاہتا تو اسے کان کٹا ہوا ہی پیدا کرسکتا تھا ۔“
میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے اور صلہ رحمی کرنی چاہیے“ ۔
میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سے احکام کے ساتھ معبوث کیا گیا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میرے پروردگار کی طرف سے رسالت میری طرف آئی ہے ، تو مجھے اس کی وجہ سے مشکل کا سامنا کرنا پڑا ۔ مجھے یہ اندیشہ تھا کہ کہیں میری قوم مجھے جھٹلا نہ دے تو مجھ سے یہ کہا گیا : یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ، ایسا کریں گے ورنہ پھر ہم یہ ، یہ کر دیں گے ۔“
میں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میرا چچا زاد میرے پاس آتا ہے اور پھر میں قسم اٹھا لیتا ہوں کہ میں اسے کچھ نہیں دوں گا اس کے ساتھ صلہ رحمی نہیں کروں گا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اپنی قسم کا کفارہ دے دو“ ۔
راوی بیان کرتے ہیں : پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تمہارا کیا خیال ہے ، تمہارے دوغلام ہوں ان میں سے ایک تمہارے ساتھ خیانت نہ کرتا ہو اور تم سے کوئی بات نہ چھپاتا ہو اور تمہارے ساتھ جھوٹ نہ بولتا ہو جبکہ دوسرا تمہارے ساتھ جھوٹ بھی بولتا ہو تم سے باتیں چھپاتا بھی ہوا اور تمہارے ساتھ خیانت بھی کرتا ہو ، تو ان دونوں میں سے کون تمہارے نزدیک پسندیدہ ہوگا“ ؟ میں نے عرض کی جو میرے ساتھ جھوٹ نہ بولے : میرے ساتھ خیانت نہ کرے اور مجھ سے کوئی بات نہ چھپائے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اپنے پروردگار کی بارگاہ میں تم لوگ بھی اسی طرح ہو“ ۔


------------------
سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

908-ہلال بن یساف بیان کرتے ہیں : میں اور زیاد بن ابوجعد ”رقہ“ میں تھے ۔ زیاد بن ابوجعد نے میرا ہاتھ پکڑا اور ”رقہ“ میں موجود ایک صاحب کے پاس لا کے مجھے کھڑا کر دیا ۔ انہوں نے بتایا : یہ صاحب یہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوصف کے پیچھے تنہا کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ نماز ادا کرنے کی ہدایت کی ۔ اس صاحب کا نام سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ تھا ۔


------------------
سیدنا وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

909- سیدنا وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز کرتے تھے ، تو رفع یدین کرتے تھے ، جب رکوع میں جاتے تھے اور جب رکوع سے سراٹھاتے تھے اس وقت بھی رفع یدین کرتے تھے ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز نے دوران بیٹھتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بائیں ٹانگ کو بچھالیتے تھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا ر کھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بایاں ہاتھ بائیں زانوں پر رکھتے تھے اور اسے کھول کے رکھتے تھے ، جبکہ دایاں ہاتھ دائیں زانوں پر رکھتے تھے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو انگلیوں کو بند کرکے ان کاحلقہ بناتے تھے اور اس طرح دعا مانگتے تھے ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ نے شہادت کی انگلی کے ذریعے اشارہ کرکے یہ بتایا ۔
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں پھر سردی کے موسم میں وہاں آیا ، تو میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ لوگ اپنی چادروں کے اندرہی رفع یدین کررہے تھے ۔

910- سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زم زم کا ڈول پیش کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا پھر کلی کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلی کو اس ڈول میں انڈیل دیا تو وہ مشک کی مانند تھا یا اس سے بھی زیادہ پاکیزہ تھا ۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک کو ڈول سے باہر صاف کیا ۔


------------------
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

911-سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے کسی قریبی عزیز نے کسی جانور کو کنکری ماری ان کی موجودگی میں ایسا ہوا تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور یہ بات بیان کی : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”یہ (کنکری) شکار نہیں کرتی ہے ، دشمن کو قتل نہیں کرتی ہے ، یہ صرف آنکھ پھوڑتی ہے اور دانت توڑتی ہے“ ۔
اس شخص نے دوبارہ یہ حرکت کی اور کنکری ماری تو سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میں نے تمہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے اور تم نے دوبارہ یہ حرکت کی ہے ۔ میں تمہارے ساتھ کبھی کلام نہیں کروں گا ۔


------------------
سیدنا عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

912- سیدنا عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جس دن سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بنوقریظہ کے بارے میں ثالث مقرر کیا گیا تھا اس وقت میں لڑکا تھا ۔ لوگوں نے میرے زیر ناف حصے کا جائزہ لیا وہاں زیر ناف بال نہیں اگے ہوئے تھے اسی وجہ سے میں تمہارے درمیان موجود ہوں ۔

913-مجاہد بیان کرتے ہیں : میں نے کوفہ کی مسجد میں ایک صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا : جس دن سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بنو قر یظہ کے بارے میں ثالث مقرر کیا گیا تھااس دن میں کم سن لڑکا تھا ۔ ان لوگوں کو میرے (بالغ ہونے کے بارے میں) شک ہو اتو انہوں نے میرا جائزہ لیا انہیں میرے زیر ناف بال محسوس نہیں ہوئے اسی وجہ سے باقی رہ گیا ۔


------------------
سیدنا أبى جحیفہ وہب السوائی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

914-ابن ابوخالد بیان کرتے ہیں : میں سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کے لیے جارہا تھا میں نے ان سے دریافت کیا : کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔ سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں ۔

915- سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا ہوں ۔“

916-عون بن ابوجحیفہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر باہر آئے ۔ راوی کہتے ہیں : لوگ تیزی سے ان کی طرف لپکے ۔ اس میں سے کچھ پانی مجھے بھی ملا ۔ میں نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی ۔
راوی بیان کرتے ہیں : سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے نیزہ گاڑا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ، جبکہ کتے ، خواتین ، گدھے اس نیزے کے دوسری طرف سے گزررہے تھے ۔


------------------
سیدنا دکین بن سعید مزنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

917- سیدنا دکین بن سعید مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم 400 سواروں کے ہمراہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے لیے مانگا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے عمر ! جاؤ انہیں کھانا کھلاؤ اور انہیں عطیات دو“ ۔
انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میرے پاس تو کھجوروں کے چند صاع ہیں ۔ جو صرف میرے گھر والوں کے اس موسم کی خوارک کے لیے کفایت کریں گے ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے : تم اطاعت وفرمانبرداری کرو تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : میں اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہوں ۔
راوی کہتے ہیں : پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گئے اور اپنے (اناج کے کمرے کے پاس آئے ) انہوں نے اپنے تہبند باندھے کی جگہ سے چابی نکالی اس کے دروازے کو کھولا اور حاضرین سے کہا: تم لوگ اندر آؤ ۔ میں اندر داخل ہونے والا سب سے آخری فرد تھا ۔ میں نے بھی وہاں سے خوراک حاصل کی ، میں نے توجہ کی ، تو وہاں اتنی کھجوریں تھیں ، جتنا کہ اونٹنی کاوہ بچہ ہوتا ہے ، جس سے دودھ چھڑا یا گیا ہو ۔


------------------
سیدنا عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

918- سیدنا عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”اے لوگو ! تم میں سے جس شخص کو ہم کسی کام کے لیے اہلکار مقرر کریں ، تو وہ تھوڑی یا زیادہ جو چیز بھی ہو ، اسے لے کر آئے ۔ جو شخص دھاگے یا سوئی یا اس کے علاوہ جس چیز کو بھی ہم سے چھپائے گا ، تو یہ خیانت ہوگی ، جسے ساتھ لے کر وہ قیامت کے دن آئے گا“ ۔
انصار سے تعلق رکھنے والا ایک سیاہ فام چھوٹے قد کا ایک شخص کھڑا ہوا ، وہ منظر گویا آج بھی میری نگاہ میں ہے ۔ اس نے عرض کی : یارسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جس کام کے لیے اہلکار مقر رکیا تھا میں اس سے دست بردار ہوتا ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ کیوں“ ؟ اس نے عرض کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے ، اس کی وجہ سے ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”میں اب بھی یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم تم میں سے جس کسی کو جس کام کے لیے اہلکار مقرر کریں ، تو تھوڑی یازیادہ (ہر) چیز کو لے آئے ۔ جواسے دیا جائے اسے حاصل کرلے اور جس سے اسے منع کیا جائے اس سے باز رہے“ ۔

919- طاؤس کے صاحبزادے اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو زکواۃ وصول کرنے کے لئے اہلکار مقرر کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے ابوولید! اس بات سے بچنے کی کوشش کرنا کہ قیامت کے دن تم ایک اونٹ لے کر آؤ جسے تم نے اپنی گردن پر رکھا ہوا ہو اور وہ آواز نکال رہا ہو، یا گردن پر گائے رکھی ہوئی ہو اور وہ آوازیں نکال رہی ہو، یا بکری رکھی ہوئی ہو وہ منمنا رہی ہو“ ۔
انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا اس طرح بھی ہوگا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں“ ۔
سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اس ذات کی قسم ! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ہمراہ معبوث کیا ہے، میں کبھی بھی دو آدمہوں کے لئے بھی (سرکاری کام) نہیں کروں گا۔

تخریج:
906- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3127، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 662، 663، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 30 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 26، وأبو داود فى «سننه» برقم: 22، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 346، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 495، 514، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18035، 18037، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 932)
907- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3410، 5416، 5417، 5615، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 66، 7457، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3797 ، 5238، 5239 ، 5309 ، والنسائي فى «الكبریٰ» 4712، 9484، 9485، 9486، 11090، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4063، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2006، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2109، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19772، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16132، 16133)
908- (حديث صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2198، 2199، 2200، 2201، وأبو داود فى «سننه» برقم: 682، والترمذي فى «جامعه» برقم: 230، 231، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1322، 1323، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1004، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5288، 5289، 5290، 5291، 5292، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1364، برقم: 1365، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18283، 18285)
909- (إسناده صحيح و أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» 1805، 1860، 1862، 1920، 1945، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 819، 832، 2931، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 878 ، 881 ، 886 ، 888 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 723، 725، والترمذي فى «جامعه» برقم: 248، 249، 292، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1277، 1283، 1397، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 810، 854، 855، 867، 912، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2342، 2343، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19143، 19144)
910- (إسناده ضعيف لانقطاعة، عبدالجبار لم يسمع عن أبيه۔ وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 659، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19140، 19153، 19176، والطبراني فى "الكبير" برقم: 70، 119، 120)
911- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4841، 5479، 6220، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1954، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5949، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7854، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4830 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6990، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5270، والدارمي فى «مسنده» برقم: 453، 454، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 17، 3226، 3227، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19010، 19011، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17068، 17082)
912- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4780، 4781، 4782، 4783، 4788، والحاكم فى «مستدركه» 2583، 4357، 8265، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3430 ، 4996 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5594، 7432، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4404، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1584، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2507، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2541، 2542، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11434، 11435، 11436، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19078، 19731)
913- (صحيح وانظر الحديث السابق)
914-(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3543، 3544، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2343، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4814، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8106، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2826، 2827، 3777، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19047، 19050، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 885)
915- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5398 ، 5399، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5240، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6709، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3769، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1830، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2115، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3262، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13452 ، 13453، 14767، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19056، 19066، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 884، 888، 889)
916- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 187، 376، 495، 499، 501، 633، 634، 3545، 3553، 3566، 5786، 5859، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 503 2342، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 387، 388، 841، 2994، 2995، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1268، 2334، 2382، 2394، 7293، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 730، 731، 1766، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 137 ، 469 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 520، 688، والترمذي فى «جامعه» برقم: 197، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1234، 1235، 1449، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 711، 3628، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1137، 1881، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19045، 19046)
917- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6528، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5238، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17850، 17851، 17852، 17853، 17854، والطبراني فى "الكبير" برقم: 4207، 4208، 4209، 4210)
918- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1833، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2338، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5078، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3581، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7756، 13294، 13295، 20538، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17994، 17995)
919- (رجاله ثقات ، ولكنه بصورة المرسل، ولكن أخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6949)
 
Last edited:
Top