226- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبی اکرم صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ نے ارشاد فرمایا: ”ان لوگوں کو اب یہ بات پتہ چل گئی ہے، میں دنیا میں ان سے جو کہا کرتا تھا وہ سچ تھا۔“
تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ سے یہ فرمایا ”بے شک تم مردوں کو نہیں سنا سکتے ہو۔“ (النمل: 80)
[إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الجنائز 1371، من طريق سفيان، بهذا الإسناد وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 4518،. وانظر تعليقاً على حديث عمر. برقم 140، فى مسند الموصلي أيضاً] |
227- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے، ”جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کو پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاضری پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاضری کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری مرنے کے بعد ہوتی ہے۔“
[ إسناده صحيح، وأخرجه أحمد 44/6، 55، 207، 236، ومسلم فى الذكر والدعاء 2684، وأخرجه البخاري تعليقا 6507،، ووصله مسلم وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان، برقم 3010] |
228- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، رفاعہ قرظی کی اہلیہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! میں رفاعہ قرظی کی بیوی تھی، اس نے مجھے طلاق دی اور طلاق بتہ دے دی میں نے عبدالرحمان بن زبیر کے ساتھ شادہ کرلی لیکن اس کا ساتھ چادر کے پلو کی طرح ہے، تو نبی اکرم ﷺ مسکرا دیئے اور فرمایا: کیا تم رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟ نہیں ( ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا) جب تک اس کا شہد نہیں چکھ لیتی اور وہ تمہارا شہد نہیں چکھ لیتا ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے اور سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ دروازے پر انتظار کررہے تھے کہ انہیں اندر آنے کی اجازت دی جائے انہوں نے بلند آواز سے کہا : اے ابوبکر ! کا آپ سن نہیں رہے ہیں، یہ عورت نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں بلند آوازمیں کیسی باتیں کررہی ہے؟
سفیان نامی راوی سے یہ کہا گیا : امام مالک نے اس روایت کو زہری سے نقل نہیں کیا ہے انہوں نے اسے مسور بن رفاعہ سے نقل کیا ہے ، تو سفیان نے کہا: لیکن ہم نے یہ روایت زہری سے سنی ہے، جس طرح ہم نے تمہارے سامنے بیان کی ہے۔
[إسناده صحيح، وأخرجه الشافعي فى« المسند»، ص 192،، وأحمد 37/6، والبخاري فى الشهادات 2639، ومسلم فى النكاح 1433، والترمذي فى النكاح 1118، و«الدارمي» فى الطلاق 161/2، وابن ماجه فى النكاح 1932، والبغوي فى «شرح السنة » برقم 3361، من طريق سفيان، بهذا الإسناد.و تمام تخريجه انظر «مسند الموصلي» برقم 4423 ، و 4964] |
229- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے:
”اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے البتہ شوہر کا حکم مختلف ہے۔“
سفیان سے دریافت کیا گیا: وہ عورت شوہر پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی؟ سفیان نے کہا: زہری نے اپنی روایت میں یہ الفاظ ہمارے سامنے بیان نہیں کیے یہ الفاظ ایوب بن موسیٰ نے اپنی روایت میں ہمارے سامنے بیان کیے ہیں۔
[إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4424 ، وفي صحيح ابن حبان برقم 4303 ، من طريق سفيان، بهذا الإسناد ]
230- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جو بھی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے، تو اس کا نکاح باطل ہوگا ، اس کا نکاح باطل ہوگا، اس کا نکاح باطل ہوگا ، اگر مرد اس عورت کے ساتھ صحبت کرلیتا ہے، تو عورت کو مہر ملے گا کیونکہ مرد نے اس کی شرمگاہ کو استعمال کیا ہے اور اگر ان لوگوں کے درمان اختلاف ہوجاتا ہے، تو جس کو کوئی ولی نہ ہو حاکم وقت اس کا ولی ہوتا ہے۔“
[ إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى« مسند الموصلي» برقم 2508، وفي صحيح ابن حبان برقم 4074، 4075، وفي موارد الظمآن برقم 1248]
231- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میرے رضاعی چچا فلح بن ابوقعیس آئے اور انہوں نے میرے ہاں اندر آنے کی اجازت مانگی یہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کی بات ہے میں نے انہیں اجازت نہیں دی۔ نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارا چچا ہے تم اسے اجازت دے دو۔“
[إسناده صحيح، وأخرجه أحمد 36/6، 37، 271، ومسلم فى الرضاع 1445، والنسائي فى النكاح 103/6 وابن ماجه فى النكاح 1948، وابن حزم فى « المحلى»5/10 من طريق سفيان، بهذا الإسناد، سوانظر الحديث التالي، و مسند الموصلي برقم 4501 ،و«صحيح ابن حبان، برقم 4109، 4219 ]
232- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایک عورت نے دودھ پلایا ہے مجھے مرد نے دودھ نہیں پلایا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہارا ہاتھ خاک آلود ہوا تمہارا چچا ہے تم اسے اجازت دے دو۔“
[إسناده صحيح، وأخرجه عبد الرزاق برقم 13941، وأبو داود فى النكاح 2057، .التمام التخريج انظر «مسند الموصلي» برقم 4501، و التعليق السابق، و«معجم شيوخ أبى يعلى الموصلي» برقم 35]
233- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میرے ساتھ شادی کی تو اس وقت میں چھ سال کی (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) سات سال کی تھی اور جب میری رخصتی ہوئی تو اس میں نو سال کی تھی۔“
[ إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى « مناقب الأنصار » 3894، - واطرافه -، ومسلم فى النكاح 1422 وقد استوفينا تحريمه فى «مسند الموصلي» برقم4673، وانظر أيضا «صحيح ابن حبان برقم 7097] |
234- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شادی کی ، تو میں نے حوف (مخصوص قسم کا دیہاتی لباس ) پہنا ہوا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شادی کی تو میں اپنے آپ میں سمٹ گئی ۔
سفیان کہتے ہیں: حوف مخصوص قسم کا لباس ہے، جسے دیہاتی اپنے بچوں کو پہناتے ہیں۔
[ إسناده ضعيف، وقد خرجناه فى مسند الموصلي برقم 4822، من طريق سفيان، بهذا الإسناد. وانظر الحديث السابق] |
235- عبیداللہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: میں نے عرض کی: اے امی جان! آپ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں بتائیے جس کے دوران آپ کا وصال ہوا تھا، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: جس بیماری کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں سانس لیا کرتے تھے، جس طرح کشمش کھانے والا سانس لیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور تکلیف بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خواتین سے یہ اجازت لی کہ آپ میرے ہاں رہیں ، تو ان خواتین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی ان میں سے ایک سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تھے۔
عبید اللہ کہتے ہیں: میں نے یہ روایت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو سنائی تو انہوں نے دریافت کیا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمہیں دوسرے صاحب کے بارے میں نہیں بتایا ؟ میں نے یہ جواب دیا : جی نہیں۔ انہوں نے فرمایا: وہ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ تھے۔
[ أخرجه البخاري فى الوضوء 198، وانظر أطرافه الكثيرة - ومسلم فى الصلاة 418، 91، 92، 93 ، من طريق الزهري، بهذا الإسناد. والتمام التخريج انظر مسند الموصلي، برقم 4478، مع التعليق عليه، و صحيح ابن حبان برقم 2116، و 2118، 2119، 2124]
236- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو اختیار دیا تھا، تو ان ازواج نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرلیا تھا، تو کیا یہ چیز طلاق ہوئی تھی؟
[إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى الطلاق 1477، والترمذي فى الطلاق 1179، وقد جمعنا طرفه و استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي، برقم 4371، وفي صحيح ابن حبان برقم 4267]
237- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال اس وقت تک نہیں ہوا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خواتین کو حلال قرار نہیں دیا گیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنی چاہے شادیاں کرسکتے تھے)
[إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى موارد الظمآن برقم 2126،، وفي صحيح ابن حبان برقم 6366 ]
238- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک زوجہ محترمہ (کے ساتھ شادی کے بعد) ولیمے میں جَو کھلائے تھے۔
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہم نے اس پر سفیان کو ٹوکا تو انہوں نے کہا: میں نے یہ نہیں سنی ہے۔
[إسناده ضعيف، وقد استولينا تخريجه والتعليق عليه فى «مسند الموصلي» برقم 4686، من طريق سفيان، بهذا الإسناد]
239- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں انہوں نےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”صدقہ (یعنی زکواۃ کا مال) جس بھی مال کے ساتھ مل جاتا ہے وہ اسے ہلاکت کا شکار کردیتا ہے۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض اوقات تمہارے مال میں تم پر زکواۃ دینا لازم ہوتا ہے اور اگر تم اسے نہیں نکالتے ہو، تو حرام حلال کو ضائع کردیتا ہے۔“
[ إسناده ضعيف : محمد بن عثمان بن صفوان الجمحي ترجمه البخاري فى الكبير، 180/1 ولم يورد فيه جرحاً ولا تعديلاً، وقال ابن أبى حاتم فى «الجرح والتعديل» 24/8: سألت أبى عنه فقال: منكر الحديث، ضعيف الحديث . وقال الدار قطني: «ليس بقوي ». وقال الذهبي فى «كاشفه»: «« لين ». وذكره ابن حبان فى الثقات 24/7 وقال الذهبي فى الميزان 641/3 ”قال أبو حاتم: منكر الحديث“ ]
240- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبد بن زمعہ نے مقدمہ پیش کیا جو زمعہ کی کنیز کے بیٹے کے بارے میں تھاسیدنا سعدؓ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی اس نے یہ کہا تھا کہ جب تم مکہ جاؤ تو زمعہ کی کنیز کے بیٹے کاجائزہ لینا اور اسے اپنے قبضے میں لے لینا کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے، تو عبد بن زمعہ نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ میرا بھائی ہے میرے والد کی کنیز کا بیٹا ہے، جو میرے والد کے فراش پر پیدا ہوا ہے (راوی کہتے ہیں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کی عتبہ کے ساتھ واضح مشابہت ملاحظہ فرمالی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عبد بن زمعہ ! یہ تمہیں ملے گاکیونکہ بچہ فراش والے کو ملتا ہے۔اے سودہ! تم اس سے پردہ کرو“
سفیان سے کہا گیا: امام مالک تو اس روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کرتے ہیں: ”زنا کرنے والے کو محرومی ملتی ہے۔“
تو سفیان نے کہا: ہم نے زہری سے یہ الفاظ یاد نہیں رکھےہیں کہ انہوں نے اس روایت میں یہ الفاظ بھی بیان کئے ہیں۔
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى البيوع 2053، وأطرافه -، ومسلم فى الرضاع 1457، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي، برقم 4419، وفي صحيح ابن حبان، برقم 4105، وانظر التعليق التالي]
241- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش میرے ہاں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہؓ کیا تمہیں پتہ ہےمحزز مدلجی میرے پاس آیا اس نے زید اور اسامہ کو دیکھا ان پر چادر ہوئی تھی جس نے ان کے سروں کو ڈھانپا ہوا تھا اور ان دونوں کے پاؤں ظاہر تھےتو وہ بولا : یہ باپ بیٹے کے پاؤں ہیں۔
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى المناقب 3555، - وأطرافه -، ومسلم فى الرضاع 1459، وقد استوفينا تخريجه وعلقنا عليه فى مسند الموصلي برقم 4422،، وفي صحيح ابن حبان، برقم 4102،4103 ]
242- ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: کیا تم نے محزز مرلجی کو دیکھا؟
راوی کہتے ہیں نے اپنے استاد سے کہا : ابوالولید اس کا نام محزز مدلجی ہے تو انہوں نےانکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے (اپنی غلطی سے) رجوع کرلیا۔
[ إسناده صحيح، وأخرجه الدار قطني فى «المؤتلف والمختلف» 2064/4-2065]
243- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے بریرہ کو خریدنے کا ارادہ کیا، تاکہ اسے آزاد کردوں، تو اس کے مالکان نے یہ شرط یائد کہ کہ میں اسے آزاد کردوں گی لیکن ولاء ان کے لئے رہے گی ، میں نے اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے خرید کر اسے آزاد کردو، کیونکہ ولاء کا حق آزاد کرنے والے کو ملتا ہے“ ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ، وہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں، جن کی اجازت اللہ کی کتاب میں نہیں ہے، تو جو شخص کوئی ایسی شرط عائد کرے جس کی اجازت اللہ کی کتاب میں نہیں ہے ، تو اسے حق نہیں ہوگا اگرچہ اس نے سو مرتبہ یہ شرط عائد کی ہو، ولاء کا حق آزاد کرنے والے کو ملتا ہے ۔“
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الصلاة 456، واطرافه -، ومسلم فى العتق 1504، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4435، وفي صحيح ابن حبان برقم 4269،5115، 5116]
244- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، ہند بنت عتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابو سفیان ایک کنجوس آدمی ہے مجھے ان کی طرف سے وہی کچھ ملتا ہے، جو وہ گھر میں لا کر دیے دیتے ہیں، لیکن مجھے مزید خرچ کی ضرورت ہوتی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اتنا حاصل کرلیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے لئے مناسب طور پر کافی ہو۔“
[ إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى البيوع 2211، -وأطرافه-، ومسلم فى الألضية 1719، وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 4636، وفي «صحيح ابن حبان» رقم 4255،4256،4257،4258 أيضاً ]
245- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ایک صاحب نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کی: میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے ان کے بارے میں میرا گمان یہ ہے، اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرنے کے لئے کہتیں اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں اجر ملے گا؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جی ہاں۔
یہاں سفیان نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے لوگوں نے ہشام کے حوالے سے ایک کلمہ یاد رکھا ہے جسے میں یاد نہیں رکھ سکا، ان صاحب نے یہ عرض کی تھی: میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا ، لیکن ہشام کے حوالے سے مجھے یہ لفظ یاد نہیں ہیں۔ ایوب سختیانی نے ہشام کے حوالے سے اس لفظ کے بارے میں مجھے بتایا ہے۔
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الجنائز 1388، -وطرفه -، ومسلم فى الوصية 1004، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4434، وفي صحيح ابن حبان، برقم 3353]
246- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرض کے غلبے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الأذان 832، - وأطرافه -، ومسلم فى المساجد 589، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4545،4474، وفي صحيح ابن حبان برقم.1968]
247- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے یہ روایت زہری سے نہیں سنی ہے۔
[إسناده منقطع، وانظر تعليق الحميدي فى نهاية الحديث وهذا يعني: أن سفيان بن عيينة فد صرح للحميدي بأنه لم يسمع هذا الحديث عينه من الزهري، وإن كان سمع من غيره. غير أن الحديث صحيح، وانظر التعليق السابق]
248- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”تمہاری اولاد تمہاری سب سے عمدہ کمائی ہے، تو تم اپنی کمائی میں سے کھالو۔“
[إسناده ضعيف فيه جهالة، ولكن الحديث صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى موارد الظمآن برقم 1091،1092،1093 ، وفي صحيح ابن حبان برقم 4259، 4360، 4261]
249- عروہ بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس آکر بیٹھے وہ اس وقت نماز ادا کررہی تھیں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کرنا شروع کی اور یہ کہنے لگے : اے حجرے کی مالک خاتون! آپ سنئے جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نماز مکمل کی تو انہوں نے مجھ سے کہا! اے میرے بھانجے! کیا تمہیں اس شخص پر اور اس کے طرز بیان پر حیرت نہیں ہورہی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات کرتے تھے، تو اگر کوئی گننے ولا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو) گننا چاہتا تو وہ گن سکتا تھا (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر بیان کرتے تھے)
امام حمیدی کہتے ہیں: سفیان نے یہ روایت بھی زہری سے نہیں سنی ہے۔
[إسناده، منقطع، وانظر تعليقا على الإسناد الأسبق، وتعليق الحميدي فى نهاية الحديث والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى المناقب 3567، 3568، باب: صفة النبى صلى الله عليه وسلم ومسلم فى فضائل الصحابة 2493، باب: من فضائل أبى هزيرة الدوسي .وقد استوفينا تحريمه فى مسند الموصلي برقم 4393، 4677، وفي صحيح ابن حبان، برقم 7153]
250- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، کچھ یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! سام علیک تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علیکم“ (تمہیں بھی آئے) ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں کہا: بلکہ تم کو موت بھی آئے اور تم پر لعنت بھی ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا نہیں؟ انہوں کیا کہا ہے؟ انہوں نے کہا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت آئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میں یہ کہہ دیا ہے: تمہیں بھی آئے۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان بعض اوقات اس روایت میں یہ الفاظ کہتے تھے ”اور تمہیں بھی آئے“ تو جب انہیں اس پر تنبیہہ کی گئئ تو انہوں نے حرف ”و“ کو ترک کردیا۔
[إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الجهاد 2935، واطرافه -، ومسلم فى السلام 2165، وقد استولينا تحريمه فى مسند الموصلي برقم 4421،، وانظر صحيح ابن حبان برقم 547،. وتضيف هنا: وأخرجه عبد بن حميد برقم 1471، من طريق عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن الزهري بهذا الإسناد ]