• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
وعلیکم السلام ، کچھ مصروفیات کی وجہ سے کام رک گیا تھا ۔ ان شاء اللہ جلد ہی دوبارہ شروع کریں گے۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
226- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، نبی اکرم صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ نے ارشاد فرمایا: ”ان لوگوں کو اب یہ بات پتہ چل گئی ہے، میں دنیا میں ان سے جو کہا کرتا تھا وہ سچ تھا۔“
تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ سے یہ فرمایا ”بے شک تم مردوں کو نہیں سنا سکتے ہو۔“ (النمل: 80)
[إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الجنائز 1371، من طريق سفيان، بهذا الإسناد وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 4518،. وانظر تعليقاً على حديث عمر. برقم 140، فى مسند الموصلي أيضاً]

227- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے، ”جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کو پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاضری پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاضری کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری مرنے کے بعد ہوتی ہے۔“
[ إسناده صحيح، وأخرجه أحمد 44/6، 55، 207، 236، ومسلم فى الذكر والدعاء 2684، وأخرجه البخاري تعليقا 6507،، ووصله مسلم وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان، برقم 3010]
228- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، رفاعہ قرظی کی اہلیہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! میں رفاعہ قرظی کی بیوی تھی، اس نے مجھے طلاق دی اور طلاق بتہ دے دی میں نے عبدالرحمان بن زبیر کے ساتھ شادہ کرلی لیکن اس کا ساتھ چادر کے پلو کی طرح ہے، تو نبی اکرم ﷺ مسکرا دیئے اور فرمایا: کیا تم رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟ نہیں ( ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا) جب تک اس کا شہد نہیں چکھ لیتی اور وہ تمہارا شہد نہیں چکھ لیتا ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے اور سیدنا خالد بن سعید رضی اللہ عنہ دروازے پر انتظار کررہے تھے کہ انہیں اندر آنے کی اجازت دی جائے انہوں نے بلند آواز سے کہا : اے ابوبکر ! کا آپ سن نہیں رہے ہیں، یہ عورت نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں بلند آوازمیں کیسی باتیں کررہی ہے؟
سفیان نامی راوی سے یہ کہا گیا : امام مالک نے اس روایت کو زہری سے نقل نہیں کیا ہے انہوں نے اسے مسور بن رفاعہ سے نقل کیا ہے ، تو سفیان نے کہا: لیکن ہم نے یہ روایت زہری سے سنی ہے، جس طرح ہم نے تمہارے سامنے بیان کی ہے۔
[إسناده صحيح، وأخرجه الشافعي فى« المسند»، ص 192،، وأحمد 37/6، والبخاري فى الشهادات 2639، ومسلم فى النكاح 1433، والترمذي فى النكاح 1118، و«الدارمي» فى الطلاق 161/2، وابن ماجه فى النكاح 1932، والبغوي فى «شرح السنة » برقم 3361، من طريق سفيان، بهذا الإسناد.و تمام تخريجه انظر «مسند الموصلي» برقم 4423 ، و 4964]

229- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے:
”اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے البتہ شوہر کا حکم مختلف ہے۔“
سفیان سے دریافت کیا گیا: وہ عورت شوہر پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی؟ سفیان نے کہا: زہری نے اپنی روایت میں یہ الفاظ ہمارے سامنے بیان نہیں کیے یہ الفاظ ایوب بن موسیٰ نے اپنی روایت میں ہمارے سامنے بیان کیے ہیں۔
[إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4424 ، وفي صحيح ابن حبان برقم 4303 ، من طريق سفيان، بهذا الإسناد ]

230- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جو بھی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے، تو اس کا نکاح باطل ہوگا ، اس کا نکاح باطل ہوگا، اس کا نکاح باطل ہوگا ، اگر مرد اس عورت کے ساتھ صحبت کرلیتا ہے، تو عورت کو مہر ملے گا کیونکہ مرد نے اس کی شرمگاہ کو استعمال کیا ہے اور اگر ان لوگوں کے درمان اختلاف ہوجاتا ہے، تو جس کو کوئی ولی نہ ہو حاکم وقت اس کا ولی ہوتا ہے۔“
[ إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى« مسند الموصلي» برقم 2508، وفي صحيح ابن حبان برقم 4074، 4075، وفي موارد الظمآن برقم 1248]

231- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میرے رضاعی چچا فلح بن ابوقعیس آئے اور انہوں نے میرے ہاں اندر آنے کی اجازت مانگی یہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کی بات ہے میں نے انہیں اجازت نہیں دی۔ نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہارا چچا ہے تم اسے اجازت دے دو۔“
[إسناده صحيح، وأخرجه أحمد 36/6، 37، 271، ومسلم فى الرضاع 1445، والنسائي فى النكاح 103/6 وابن ماجه فى النكاح 1948، وابن حزم فى « المحلى»5/10 من طريق سفيان، بهذا الإسناد، سوانظر الحديث التالي، و مسند الموصلي برقم 4501 ،و«صحيح ابن حبان، برقم 4109، 4219 ]

232- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایک عورت نے دودھ پلایا ہے مجھے مرد نے دودھ نہیں پلایا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہارا ہاتھ خاک آلود ہوا تمہارا چچا ہے تم اسے اجازت دے دو۔“
[إسناده صحيح، وأخرجه عبد الرزاق برقم 13941، وأبو داود فى النكاح 2057، .التمام التخريج انظر «مسند الموصلي» برقم 4501، و التعليق السابق، و«معجم شيوخ أبى يعلى الموصلي» برقم 35]

233- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میرے ساتھ شادی کی تو اس وقت میں چھ سال کی (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) سات سال کی تھی اور جب میری رخصتی ہوئی تو اس میں نو سال کی تھی۔“
[ إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى « مناقب الأنصار » 3894، - واطرافه -، ومسلم فى النكاح 1422 وقد استوفينا تحريمه فى «مسند الموصلي» برقم4673، وانظر أيضا «صحيح ابن حبان برقم 7097]

234- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شادی کی ، تو میں نے حوف (مخصوص قسم کا دیہاتی لباس ) پہنا ہوا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ شادی کی تو میں اپنے آپ میں سمٹ گئی ۔
سفیان کہتے ہیں: حوف مخصوص قسم کا لباس ہے، جسے دیہاتی اپنے بچوں کو پہناتے ہیں۔
[ إسناده ضعيف، وقد خرجناه فى مسند الموصلي برقم 4822، من طريق سفيان، بهذا الإسناد. وانظر الحديث السابق]

235- عبیداللہ بن عبداللہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: میں نے عرض کی: اے امی جان! آپ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں بتائیے جس کے دوران آپ کا وصال ہوا تھا، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: جس بیماری کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں سانس لیا کرتے تھے، جس طرح کشمش کھانے والا سانس لیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور تکلیف بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خواتین سے یہ اجازت لی کہ آپ میرے ہاں رہیں ، تو ان خواتین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی ان میں سے ایک سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تھے۔
عبید اللہ کہتے ہیں: میں نے یہ روایت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو سنائی تو انہوں نے دریافت کیا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تمہیں دوسرے صاحب کے بارے میں نہیں بتایا ؟ میں نے یہ جواب دیا : جی نہیں۔ انہوں نے فرمایا: وہ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ تھے۔
[ أخرجه البخاري فى الوضوء 198، وانظر أطرافه الكثيرة - ومسلم فى الصلاة 418، 91، 92، 93 ، من طريق الزهري، بهذا الإسناد. والتمام التخريج انظر مسند الموصلي، برقم 4478، مع التعليق عليه، و صحيح ابن حبان برقم 2116، و 2118، 2119، 2124]

236- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو اختیار دیا تھا، تو ان ازواج نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرلیا تھا، تو کیا یہ چیز طلاق ہوئی تھی؟
[إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى الطلاق 1477، والترمذي فى الطلاق 1179، وقد جمعنا طرفه و استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي، برقم 4371، وفي صحيح ابن حبان برقم 4267]

237- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال اس وقت تک نہیں ہوا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خواتین کو حلال قرار نہیں دیا گیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جتنی چاہے شادیاں کرسکتے تھے)
[إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى موارد الظمآن برقم 2126،، وفي صحيح ابن حبان برقم 6366 ]

238- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک زوجہ محترمہ (کے ساتھ شادی کے بعد) ولیمے میں جَو کھلائے تھے۔
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہم نے اس پر سفیان کو ٹوکا تو انہوں نے کہا: میں نے یہ نہیں سنی ہے۔
[إسناده ضعيف، وقد استولينا تخريجه والتعليق عليه فى «مسند الموصلي» برقم 4686، من طريق سفيان، بهذا الإسناد]

239- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں انہوں نےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”صدقہ (یعنی زکواۃ کا مال) جس بھی مال کے ساتھ مل جاتا ہے وہ اسے ہلاکت کا شکار کردیتا ہے۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض اوقات تمہارے مال میں تم پر زکواۃ دینا لازم ہوتا ہے اور اگر تم اسے نہیں نکالتے ہو، تو حرام حلال کو ضائع کردیتا ہے۔“
[ إسناده ضعيف : محمد بن عثمان بن صفوان الجمحي ترجمه البخاري فى الكبير، 180/1 ولم يورد فيه جرحاً ولا تعديلاً، وقال ابن أبى حاتم فى «الجرح والتعديل» 24/8: سألت أبى عنه فقال: منكر الحديث، ضعيف الحديث . وقال الدار قطني: «ليس بقوي ». وقال الذهبي فى «كاشفه»: «« لين ». وذكره ابن حبان فى الثقات 24/7 وقال الذهبي فى الميزان 641/3 ”قال أبو حاتم: منكر الحديث“ ]

240- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبد بن زمعہ نے مقدمہ پیش کیا جو زمعہ کی کنیز کے بیٹے کے بارے میں تھاسیدنا سعدؓ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی اس نے یہ کہا تھا کہ جب تم مکہ جاؤ تو زمعہ کی کنیز کے بیٹے کاجائزہ لینا اور اسے اپنے قبضے میں لے لینا کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے، تو عبد بن زمعہ نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ میرا بھائی ہے میرے والد کی کنیز کا بیٹا ہے، جو میرے والد کے فراش پر پیدا ہوا ہے (راوی کہتے ہیں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کی عتبہ کے ساتھ واضح مشابہت ملاحظہ فرمالی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عبد بن زمعہ ! یہ تمہیں ملے گاکیونکہ بچہ فراش والے کو ملتا ہے۔اے سودہ! تم اس سے پردہ کرو“
سفیان سے کہا گیا: امام مالک تو اس روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کرتے ہیں: ”زنا کرنے والے کو محرومی ملتی ہے۔“
تو سفیان نے کہا: ہم نے زہری سے یہ الفاظ یاد نہیں رکھےہیں کہ انہوں نے اس روایت میں یہ الفاظ بھی بیان کئے ہیں۔
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى البيوع 2053، وأطرافه -، ومسلم فى الرضاع 1457، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي، برقم 4419، وفي صحيح ابن حبان، برقم 4105، وانظر التعليق التالي]

241- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش میرے ہاں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہؓ کیا تمہیں پتہ ہےمحزز مدلجی میرے پاس آیا اس نے زید اور اسامہ کو دیکھا ان پر چادر ہوئی تھی جس نے ان کے سروں کو ڈھانپا ہوا تھا اور ان دونوں کے پاؤں ظاہر تھےتو وہ بولا : یہ باپ بیٹے کے پاؤں ہیں۔
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى المناقب 3555، - وأطرافه -، ومسلم فى الرضاع 1459، وقد استوفينا تخريجه وعلقنا عليه فى مسند الموصلي برقم 4422،، وفي صحيح ابن حبان، برقم 4102،4103 ]

242- ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: کیا تم نے محزز مرلجی کو دیکھا؟
راوی کہتے ہیں نے اپنے استاد سے کہا : ابوالولید اس کا نام محزز مدلجی ہے تو انہوں نےانکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے (اپنی غلطی سے) رجوع کرلیا۔
[ إسناده صحيح، وأخرجه الدار قطني فى «المؤتلف والمختلف» 2064/4-2065]

243- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے بریرہ کو خریدنے کا ارادہ کیا، تاکہ اسے آزاد کردوں، تو اس کے مالکان نے یہ شرط یائد کہ کہ میں اسے آزاد کردوں گی لیکن ولاء ان کے لئے رہے گی ، میں نے اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے خرید کر اسے آزاد کردو، کیونکہ ولاء کا حق آزاد کرنے والے کو ملتا ہے“ ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ، وہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں، جن کی اجازت اللہ کی کتاب میں نہیں ہے، تو جو شخص کوئی ایسی شرط عائد کرے جس کی اجازت اللہ کی کتاب میں نہیں ہے ، تو اسے حق نہیں ہوگا اگرچہ اس نے سو مرتبہ یہ شرط عائد کی ہو، ولاء کا حق آزاد کرنے والے کو ملتا ہے ۔“
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الصلاة 456، واطرافه -، ومسلم فى العتق 1504، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4435، وفي صحيح ابن حبان برقم 4269،5115، 5116]

244- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، ہند بنت عتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابو سفیان ایک کنجوس آدمی ہے مجھے ان کی طرف سے وہی کچھ ملتا ہے، جو وہ گھر میں لا کر دیے دیتے ہیں، لیکن مجھے مزید خرچ کی ضرورت ہوتی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اتنا حاصل کرلیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے لئے مناسب طور پر کافی ہو۔“
[ إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى البيوع 2211، -وأطرافه-، ومسلم فى الألضية 1719، وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 4636، وفي «صحيح ابن حبان» رقم 4255،4256،4257،4258 أيضاً ]

245- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ایک صاحب نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کی: میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے ان کے بارے میں میرا گمان یہ ہے، اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرنے کے لئے کہتیں اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انہیں اجر ملے گا؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جی ہاں۔
یہاں سفیان نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے لوگوں نے ہشام کے حوالے سے ایک کلمہ یاد رکھا ہے جسے میں یاد نہیں رکھ سکا، ان صاحب نے یہ عرض کی تھی: میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا ، لیکن ہشام کے حوالے سے مجھے یہ لفظ یاد نہیں ہیں۔ ایوب سختیانی نے ہشام کے حوالے سے اس لفظ کے بارے میں مجھے بتایا ہے۔
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الجنائز 1388، -وطرفه -، ومسلم فى الوصية 1004، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4434، وفي صحيح ابن حبان، برقم 3353]

246- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرض کے غلبے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الأذان 832، - وأطرافه -، ومسلم فى المساجد 589، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4545،4474، وفي صحيح ابن حبان برقم.1968]

247- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے یہ روایت زہری سے نہیں سنی ہے۔
[إسناده منقطع، وانظر تعليق الحميدي فى نهاية الحديث وهذا يعني: أن سفيان بن عيينة فد صرح للحميدي بأنه لم يسمع هذا الحديث عينه من الزهري، وإن كان سمع من غيره. غير أن الحديث صحيح، وانظر التعليق السابق]

248- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”تمہاری اولاد تمہاری سب سے عمدہ کمائی ہے، تو تم اپنی کمائی میں سے کھالو۔“
[إسناده ضعيف فيه جهالة، ولكن الحديث صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى موارد الظمآن برقم 1091،1092،1093 ، وفي صحيح ابن حبان برقم 4259، 4360، 4261]

249- عروہ بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس آکر بیٹھے وہ اس وقت نماز ادا کررہی تھیں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کرنا شروع کی اور یہ کہنے لگے : اے حجرے کی مالک خاتون! آپ سنئے جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نماز مکمل کی تو انہوں نے مجھ سے کہا! اے میرے بھانجے! کیا تمہیں اس شخص پر اور اس کے طرز بیان پر حیرت نہیں ہورہی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات کرتے تھے، تو اگر کوئی گننے ولا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو) گننا چاہتا تو وہ گن سکتا تھا (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر بیان کرتے تھے)
امام حمیدی کہتے ہیں: سفیان نے یہ روایت بھی زہری سے نہیں سنی ہے۔
[إسناده، منقطع، وانظر تعليقا على الإسناد الأسبق، وتعليق الحميدي فى نهاية الحديث والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى المناقب 3567، 3568، باب: صفة النبى صلى الله عليه وسلم ومسلم فى فضائل الصحابة 2493، باب: من فضائل أبى هزيرة الدوسي .وقد استوفينا تحريمه فى مسند الموصلي برقم 4393، 4677، وفي صحيح ابن حبان، برقم 7153]

250- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، کچھ یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! سام علیک تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علیکم“ (تمہیں بھی آئے) ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں کہا: بلکہ تم کو موت بھی آئے اور تم پر لعنت بھی ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا نہیں؟ انہوں کیا کہا ہے؟ انہوں نے کہا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت آئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میں یہ کہہ دیا ہے: تمہیں بھی آئے۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان بعض اوقات اس روایت میں یہ الفاظ کہتے تھے ”اور تمہیں بھی آئے“ تو جب انہیں اس پر تنبیہہ کی گئئ تو انہوں نے حرف ”و“ کو ترک کردیا۔
[إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الجهاد 2935، واطرافه -، ومسلم فى السلام 2165، وقد استولينا تحريمه فى مسند الموصلي برقم 4421،، وانظر صحيح ابن حبان برقم 547،. وتضيف هنا: وأخرجه عبد بن حميد برقم 1471، من طريق عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن الزهري بهذا الإسناد ]
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
251- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک صاحب نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ا ”سے اندر آنے کی اجازت دے دو! یہ اپنے خاندان کا انتہائی برا شخص ہے“ (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے) جب وہ شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ نرمی سے بات کی جب وہ شخص چلا گیا تو میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پہلے ایک بات کہی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عائشہ! قیامت کے دن مرتبے اور مقام کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ برا وہ شخص ہوگا، جس کی بدزبانی سے بچنے کے لئیے لوگ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں۔“ ¤ سفیان کہتے ہیں : میں نے محمد بن منتظر سے کہا: میں نے آپ کا جائزہ لیا ہے، آپ ہمیشہ اس روایت میں شک کا اظہار کرتے ہیں (یعنی آپ کو اس کے الفاظ میں شک محسوس ہوتا ہے۔)
(إسناده صحيح أخرجه البخاري 6031، و أخرجه مسلم 2591، وفي صحيح ابن حبان 4538)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
252- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”کسی بھی مال نے ہمیں اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر کے مال نے ہمیں نفع دیا ہے۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان سے کہا گیا: معمر نے یہ روایت سعید کے حوالے سے نقل کی ہے، تو انہوں نے فرمایا: ہم نے تو یہ روایت زہری سے عروہ کے حوالے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایت کے طور پر ہی سنی ہے۔
(إسناده صحيح وقد أخرجه ابويعلي فى «المسند» برقم 4418،4905)

253- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے میں نے ایک باریک کپڑے کا پردہ بنایا تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ملاحظہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کا رنگ تبدیل ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سختی سے کھینجا اور ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے شدید عذاب ان لوگوں کو ہوگا، جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں۔“ ¤
253- سفیان کہتے ہیں : جب عبدالرحمان بن قاسم ہمارے پاس آئے، تو انہوں نے یہ روایت اس سے زیادہ بہتر طور پر ہمیں سنائی جس میں زیادہ رخصت پائی جاتی ہے ، انہوں نے بتایا: میرے والد نے مجھے یہ بات بتائی ہے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں اپنے اوطاق میں پردہ لٹکایا تھا اس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ملاحظہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے شدید عذاب ان لوگوں کو ہوگا، جو اس کی مخلوق کے حوالے سے مقابلہ کرتے ہیں“ ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں،میں نے اسے کاٹ کے ایک (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) دو تکیے بنالئے۔ ¤
[إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه أخرجه البخاري 2476، وأخرجه مسلم 2107]
254- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب کسی شخص کو کوئی بیماری لاحق ہوتی یا اسے کوئی پھوڑا نکل آتا یا کوئی زخم لگ جاتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی اس طرح رکھتے تھے یہاں پر امام حمید ی رحمہ اللہ نے اپنی انگلی زمین پر رکھ کر یہ روایت بیان کی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اٹھاتے تھے اور یہ فرماتے تھے۔¤ ”اللہ تعالیٰ کے نام سے برکت حاصل کرتے ہوئے ہماری زمین کی مٹی ہم میں سے ایک شخص کے لعاب کے ہمراہ ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے پروردگار کے اذن کے تحت بیمار کو شفا مل جائے گی۔“
[ إسناده صحيح ، والحديث متفق عليه أخرجه البخاري 5745، 5746، وأخرجه مسلم 2194 ] ¤​
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
255- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”تم سے پہلے کی امتوں میں ”محدث“ ہوا کرتے تھے اگر اس امت میں بھی ایسا شخص ہوا تو وہ عمر بن خطاب ہوگا۔“
(إسناده حسن و أخرجه مسلم 2398، وابن حبان فى ”صحيحه“ : 6894)

256- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں،حبشی لوگ اپنے چھوٹے نیزوں کے ذریعے جنگی کرتب دکھا رہے تھے، تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں اور کندھوں کے درمیان میں سے انہیں دیکھ رہی تھی یہاں تک کہ میں ہی پیچھے ہٹ گئی۔
یعقوب بن زید اپنی روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا: ”ان میں سے ہر ایک کے کپڑے کو شیطان پکڑتا ہےاور کہتا ہے تم دیکھو لیکن جب عمر آیا، تو شیاطین ادھر ادھر بکھر گئے۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے بنو ارفدہ! تم اپنے کرتب جاری رکھو تاکہ یہودیوں اور عیسائیوں کو پتہ چل جائے کہ ہمارے دین میں گنجائش ہے۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، وہ لوگ جو الفاظ نکال رہے تھے اس میں مجھے صرف یہی بات یاد رہ گئی وہ یہ کہہ رہے تھے ”حضرت ابولقاسم پاکیزہ ہیں، حضرت ابوالقاسم پاکیزہ ہیں۔“
( إسناده صحيح وقد استوفينا تخریجه فى مسند الموصلي برقم:4829 وفي ابن حبان فى ”صحيحه“ : 5868)

257- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور کھجور کو ملا کر کھالیتے تھے۔
(إسناده صحيح وقد استوفينا تخريجه فى ابن حبان فى ”صحيحه“ : 5246، 5247)

258- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، حارث بن ہشام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض اوقات وہ مجھ پر گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے، جب یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے، تو میں اس وحی کو یاد کرلیتا ہوں اور یہ مجھ پر آنے والی سب سے سخت ترین کیفیت ہوتی ہے، بعض اوقات فرشتہ میرے سامنے ایک نوجوان کی شکل میں آتا ہے اور وہ کلمات بتا دیتا ہے، تو میں انہیں محفوظ کرلیتا ہوں اور یہ میرے لئے سب سے آسان صورت ہوتی ہے۔“
( إسناده صحيح والحديث متفق عليه أخرجه البخاري 2، أخرجه مسلم 2333 )

259- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے پسندیدہ مشروب وہ تھا، جو میٹھا اور ٹھنڈا ہو۔
(إسناده صحيح وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم:4516 )

260- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف مدد طلب کی ہو، تاوقتیکہ کہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کو پامال نہ کیا گیا ہو اور جب اللہ تعالیٰ کی حرمت میں سے کسی چیز کو پامال کیا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں انتہائی شدید غضبناک ہوا کرتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملوں میں اختیار دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے زیادہ آسان کو اختیار کیا، بشرطیکہ وہ کوئی گناہ کا کام نہ ہو۔
( إسناده صحيح و أخرجه مسلم 2327، وفي ابن حبان فى ”صحيحه“ : 488)

261- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، کچھ دن تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت رہی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید اپنی اہلیہ کے ساتھ صحبت کی ہے، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا ہوتا تھا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عائشہ! کیا تمہیں پتہ ہے، میں نے اللہ تعالیٰ سے جس چیز کے بارے میں دریافت کیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے بارے میں جواب دے دیا ہے، میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا میرے سرہانے بیٹھ گیا تو جو شخص میرے پاؤں کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس نے میرے سرہانے موجود شخص سے دریافت کیا: ان صاحب کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے جواب دیا: ان پر جادو کیا گیا ہے پہلے نے دریافت کیا: ان پر کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم نے ۔ پہلے نے دریافت کیا: کس چیز میں کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: نر کھجور کے شگوفے میں ایک کنگھی میں اور کنگھی کے دوران نکلنے والے بالوں میں جو ذروان کے کنویں کے کنارے پڑے ہوئے پتھر کے نیچے رکھے ہوئے ہیں۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہی وہ کنواں ہے، جو مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا“ ، تو وہاں کھجور کے درخت کے سر یوں تھے جیسے شیاطین کے سر ہوتے ہیں اور اس کا پانی یوں تھا جیسے اس میں مہندی گھول دی گئی ہو۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت انہیں وہاں سے نکالا گیا۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو پھیلایا کیوں نہیں (ابن حجر نے یہ بات بیان کی ہے اس سے مراد یہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ علاج کوں نہیں کروایا جو جادو کے بعد کروایا جاتا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہاں تک اس بات کا تعلق ہے، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا کردی ہے اور میں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ میں اس حوالے سے لوگوں پر شر پھیلاؤں۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، لبید بن اعصم ، بنو زریق سے تعلق رکھنے والا ایک شخص تھا جو یہودیوں کا حلیف تھا۔
سفیان کہتے ہیں: عبدالملک بن جریج نے پہلے یہ روایت سنائی تھی یہ بات ہماری ہشام سے ملاقات سے پہلے کی ہے انہوں نے کہا تھا کہ آل عروہ سے تعلق والے ایک صاحب نے یہ روایت سنائی ہے، لیکن جب ہشام تشریف لے آئے تو انہیں نے ہمیں یہ روایت سنائی۔
( إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الجزية والموادعة 3175، باب: هل يعفي الذمي إذا سحر -وأطرافه-، ومسلم فى السلام 2189، باب: السحر. وقد استوفينا تخريجه وعلقنا عليه فى «مسند الموصلي» برقم 4882، تعليقا بحسن الرجوع إليه، كما أخرجناه فى صحيح ابن حبان، برقم 6583، و 9089)

262- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں گڑیاؤں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی میری سہلیاں میرے پاس آیا کرتی تھیں اور وہ بھی میرے ساتھ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتی تھیں، جو جاکر چھپ جاتی تھیں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میری طرف بھجوادیا کرتے تھے۔
( إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الأدب 6130، باب: الانبساط إلى الناس، ومسلم فى فضائل الصحابة 2440، باب: فضل عائشة - رضي الله عنها -وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 4908، وفي صحيح ابن حبان، برقم 5863، 5865، 5866. وانظر الكبري للنسائي 305/5 برقم 8946)

263- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، ایک مرتبہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا، تو میں آگے نکل گئی پھر جب میرا وزن زیادہ ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ مقابلہ کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آگے نکل گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! یہ اس کا بدلہ ہے“ ۔
(إسناده صحيح، وقد خرجناه فى صحيح ابن حبان، برقم 4691، وفي موارد الظمآن برقم 1310،. ونضيف هنا: وأخرجه ابن أبى شيبة 508/12 برقم 15435)

264- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی بھی شخص یہ نہ کہے، میرا نفس خبیث ہوگیا ہے، بلکہ وہ یہ کہے میں تھکاوٹ کا شکار ہوگیا ہوں۔“
(إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الأدب 6179، باب: لايقل خبثت نفسي، ومسلم فى الأدب 2250، باب: كراهة قول الإنسان: خبثت نفسي، من طريق سفيان بهذا الإسناد. وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 5724، ونضيف هنا أنه عند النسائي فى «الكبرى» 10888، 10889،، وفي الباب عن أبى هريرة خرجناه فى «مسند الموصلي» برقم 5854)

265- ہشام بن عروہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے فرمایا: تمہارے دو باپ (یعنی تمہارےوالد اور تمہارے نانا) ان لوگوں میں شامل ہیں ، جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔
«الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ » (3-آل عمران:172) ”یہ وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کے بعد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر لبیک کہا۔“
(تمہارے وہ دونوں اجداد) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ہیں۔
(إسناده صحيح، وأخرجه سعيد بن منصور برقم 2915، من طريق سفيان، بهذا الإسناد. وأخرجه البخاري فى المغازي 4077، وأخرجه مسلم فى فضائل الصحابة 2418)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
266- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے ، ”جب برائی پھیل جاتی ہے ، تو اللہ تعالیٰ اہل زمین پر سختی نازل کرتا ہے۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کی: کیا ہم لوگ ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے؟ جبکہ ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والے لوگ بھی موجود ہوں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جی ہاں ! پھر تم لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف چلے جاؤ گے۔“
(إسناده فيه جهالة، وأخرجه أحمد 41/6 - ومن طريق أحمد هده أورده ابن كثير فى التفسير 580/3 . والبيهقي فى «شعب الإيمان» ،98/6 برقم 7599، من طريق سفيان بن عيينة، عن جامع بن أبى راشد، عن منذر الثوري، عن حسن بن محمد بن علي، عن امرأته لعلها تحرفت عن امرأة- عن عائشة....
◄ تنبيه: لقد تنحرف «حسن» عند البيهقي إلى «حسين» . وسقط من إسناده عن امرأته. ويشهد له حديث أم سلمة عند الطبراني فى الكبير)


267- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک انصاری بچے کو لایا گیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ ادا کریں، تو میں نے کہا: یہ کتنا خوش نصیب ہے ، یہ جنت کی چڑیا ہے، جس نے کبھی کوئی برا عمل نہیں کیا اور اسے گناہ پہنچا ہی نہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عائشہ! اس سے مختلف بھی تو ہوسکتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا ہے اور اس کے اہل پیدا کئے ہیں اس نے ان اہل کو اس وقت پیدا کیا جب وہ اپنے آباؤ اجداد کی پشتوں میں تھے اور اس نے جہنم کو پید کیا ہے اور اس کے اہل پید کئے ہیں اس نے ان کو اس وقت پیدا کیا ہے ، جب وہ اپنے آباؤ اجداد کی پشتوں میں تھے۔
(إسناده جيد، طلحة بن يحلى فصلنا القول فيه عند الحديث 6932 فى مسند الموصلي. وأخرجه أحمد 208/6، 241 ومسلم فى القدر 2262 وأبو داود فى السنة 4713 والنسائي فى الجنائز 57/3، وابن ماجه فى المقدمة 82 ، والبيهقي فى الاعتقاد والهداية ص108)

268- امام شعبی بیان کرتے ہیں: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو خط لکھا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز جوابی کط میں لکھیں جو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہو، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں جوابی خط میں تحریر کیا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو لوگوں میں سے جو لوگ اس کی تعریف کرتے ہوں وہ اس کی مذمت کرنے والے بن جاتے ہیں۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البيهقي فى الزهد الكبير، برقم 886، من طريق الحميدي، بهذا الإسناد)

269- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی مہم روانہ کی جس کے افراد میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ہوں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان لوگوں کا امیر مقرر کیا۔
[ إسناده منقطع، عامر الشعبي لم يسمع عائشة، ولكن أخرجه الحاكم 218/3 من طريق سفيان ابن عيينة، عن إسماعيل بن أبى خالد، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة. وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه. وهو كما قال. . . ..]

270- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری خواہش ہے، میرے پاس میرے ساتھیوں میں سے کوئی فرد ہو، تو میں نے عرض کیا: کیا ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلوا لیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری خواہش ہے، میرے اصحاب میں سے کوئی فرد میرے پاس موجود ہو، تو میں نے عرض کی : کیا ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری یہ خواہش ہے، میرے اصحاب سے تعلق رکھنے والا فرد میرے پاس ہو؟ تو میں نے عرض کیا: کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کو بلوا لیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری یہ خواہش ہے، میرے اصحاب سے تعلق رکھنے والا فرد میرے پاس ہو؟ تو میں نے عرض کیا: کیا ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوالیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے انہیں بلوانے کی ہدایت کی جب وہ تشریف لائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ خلوت میں بیٹھ گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ کہنا شروع کیا، تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: ایک اور سند کے ساتھ یہ بات منقول ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا تھا: ”اگر وہ لوگ تم سے یہ مطالبہ کریں کہ تم اس قمیض کو اتار دو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے ، تو تم ایسا نہ کرنا۔“
[إسناده صحيح، وقد خرجناه فى «مسند الموصلي»، برقم 4805، وفي صحيح ابن حبان برقم 6915، 6986، وفي موارد الظمآن، برقم 2197، 2196،. ونضيف هنا: أخرجه أحمد 226/6-227، 254، 281 والحاكم 215/3، 218، وأبو نعيم فى حلية الأولياء 58/1]

271- عمر بن عبدالعزیز یہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ مخصوص لوگوں کے عمل کی وجہ سے تمام افراد کو عذاب نہیں دے گا، لیکن جب گناہ بھیل جائیں گے اور انہیں ختم نہیں کیا جائے گا، پھر عام اور خاص (سب کی) گرفت ہوگی۔
[إسناده صحيح إلى عمر، وأخرجه مالك فى الكلام 23، أنه سمع عمر بن عبد العزيز يقول: كان يقال: إن الله تبارك وتعالى...ومن طريق مالك السابقة أخرجه ابن المبارك فى الزهد برقم 1351،. وأخرجه أحمد 192/4]

272- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، جب بارش نازل ہوتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھا کرتے تھے۔ ”اے اللہ یہ جاری رہنے والی اور نفع دینے والی ہو۔“
سفیان کہتے ہیں : میں نے اس روایت کا یہی لفظ یاد رکھا ہے ”سیب“ (یعنی جاری رہنے والی) جبکہ دیگر راویوں نے جو لفظ یاد رکھا ہے وہ زیادہ بہتر ہے یعنی ”صیب“ (موسلا دھار )
[إسناده صحيح ، وأخرجه أحمد 41/6 من طريق عبدة ، حدثنا مسعر ، بهذا الإسناد. وأخرجه أحمد 190/6 ، وأبو داودفى الأدب 5099، وأخرجه أحمد 137/6-138 من طريق وكيع وأخرجه البخاري فى الأدب المفرد 143/2 برقم 686، من طريق خلاد بن يحيى . وأخرجه النسائي فى عمل اليوم والليلة، ص 513 برقم 915، من طريق يحيي . و البخاري فى الاستسقاء 1032]

273- زربن بین حبیش کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے فرمایا: کا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے بارے میں سوال کررہے ہو؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی زرد یا سفید چیز یعنی (سونا یا چاندی) کوئی بکری ، کوئی اونٹ، کوئی غلام یا کوئی کنیز، کوئی سونا یا کوئی چاندی نہیں چھوڑی ہے۔

[إسناده حسن، وأخرجه البيهقي فى «دلائل النبوة، 274/7 من طريق جعفر بن عون، عن مسعر، بهذا الإسناد. وهو فى صحيح مسلم فى الوصية 1635، وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 6368، 6606،. ونضيف هنا: وأخرجه ابن أبى شيبة 206/11-207 برقم 10987]

274- ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا گیا کہ ایک عورت نعلین (مردوں کے مخصوص قسم کے جوتے) پہنتی ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی خواتین پر لعنت کی ہے۔
[إسناده ضعيف، فيه عنعنة ابن جريج، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4880، ويشهد له حديث ابن عباس الذى خر جناه فى مسند الموصلي أيضاً برقم 2433،. وحديث أبى هريرة الذى خر جناه برقم 1455، فى موارد الظمآن ورجله النساء المتشبهة بالرجال..]

275- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو انتہائی جھگڑالو ہو۔“
[إسناده صحيح، فقد صرح ابن جريج بالتحديث عند ابن حبان وغيره. وأخرجه البخاري فى التفسير 4523، من طريق قبيصة، عن سفيان، بهذا الإسناد وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان، برقم 5697، قعد إليه إذا رغبت. ونضيف هنا: وأخرجه البيهقي فى الأسماء والصفات ص 501]

276- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! (ارشاد باری تعالیٰ ہے) ”اس دن زمین دوسری زمین میں تبدیل کردی جائے گی۔“ (14-إبراهيم:48) تو اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے صدیقی کی صاحبزادی ! وہ پل صراط پر ہوں گے۔“
[إسناده صحيح، وأخرجه الترمذي فى التفسير 3120، من طريق ابن أبى عمر، حدثنا سفيان، بهذا الإسناد، والحديث أخرجه مسلم فى صفة القيامة والجنة والنار 2791، وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان، برقم 7380، ونضيف هنا: وأخرجه الدارمي فى الرقائق 328/2، 329]

277- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں دریافت کیا: ”اور وہ لوگ جو اس چیز کو دیتے ہیں جو انہیں دیا گیا ہے اور ان کے دل لرز رہے ہوتے ہیں۔“ (23-المؤمنون:60)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا : کیا یہ وہ لوگ ہیں جو زنا کا ارتکاب کریں گے اور چوری کریں گے اور شراب پئیں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ۔ اے صدیق کی صاحبزادی! یہ وہ لوگ ہیں جو نمازیں پڑھیں گے ، روزے رکھیں گے اور صدقہ دیا کریں گے۔“
[ إسناده ضعيف، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4917. وقد سبقنا الوهم هناك إلى أن ابن حميد هو عبد فقلنا: ورجاله لقات، غير أن ابن حميد هو شيخ الطبراني وهو ضعيف، فتعالى ربي الذى لا يضل ولا ينسي ]

278- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے کوئی خرابی پیدا کئے بغیر (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتی ہے، تو اس شوہر کو اس کے کمانے کا اجر ملتا ہے ، عورت کو اس کے خرچ کرنے کا اجر ملتا ہے اور خزانچی کی مثال بھی اسی طرح ہے۔“
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4359، وعلقنا عليه تعليقا يحسن الرجوع إليه ]

279- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر حضرت کلبی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بات چیت کررہے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”تم نے اسے دیکھا تھا۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جبرائیل علیہ السلام تھے اور تمہیں سلام کہہ رہے ہیں،“ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: انہیں بھی سلام ہو اور ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے جو کسی بھی ملاقاتی اور مہمان کو دی جاتی ہے ، وہ کتنے اچھے ساتھی اور کتنے اچھے مہمان ہیں۔
[إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، ولكن الحديث متفق عليه، وقد استولينا تحريمه فى «مسند الموصلي» برقم 4781، وفي صحيح ابن حبان برقم 7098،. وانظر أيضا تخريج الحديث 4498. فى مسند الموصلي]

280- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، سہلہ بنت سہیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، انہوں نے عرض کیا: میں نے سالم کے اپنے ہاں آنے کی وجہ سے اپنے شوہر سیدنا ابوحزیفہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے (یعنی سالم) کو اپنا دودھ پلادو“ ۔ میں نے عرض کی : میں اسے کیسے دودھ پلا سکتی ہوں؟ حالانکہ وہ بڑی عمر کا شخص ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے پتہ ہے وہ بڑی عمر کا شخص ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، تو اس خاتون نے اس لڑکے کو دودھ پلادیا پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو اس نے عرض کی جب سے میں نے اس لڑکے کو دودھ پلایا ہے اس کے بعد مجھے سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی جو نا پسند ہو۔
عبدالرحمان بن قاسم کہتے ہیں: سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ غروۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔
[إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى الرضاع 1453، من طريقين: حدثنا سفيان، بهذا الإسناد. والحديث متفق عليه، وقد استولينا تحريمه فى صحيح ابن حبان برقم 4213, 4214, 4215]

281- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ (قیمتی چیز چوری کرنے) پر ہاتھ کاٹا جائے گا۔
[إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان برقم 4459، من طريق سفيان، بهذا الإسناد. والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الحدود 6789، وقد استوفينا تخريجه والتعليق عليه فى مسند الموصلي برقم 4411، وفي صحيح ابن حبان برقم: 4465,4464,4462,4460,4455]

282- سفیان نے کئی راویوں کے حوالے سے اس روایت کو نقل کیا ہے جن میں سے اکثر نے اسے ”مرفوع“ حدیث کے طور پر نقل نہیں کیا تاہم ایک راوی نے ایسی بات نقل کی ہے، جو اس بات پر دلالت کرتی ہے یہ ”مرفوع“ حدیث ہے (جس کے الفاظ یہ ہیں)
ا ”یک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ قیمت والی چیز (چوری کرنے پر) ہاتھ کاٹا جائے گا۔“
[إسناده صحيح، وانظر التعليق السابق..]

283- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کردے وہ حرام ہے۔“
سفیان سے کہا گیا: مالک اور دیگر راویوں نے اس میں بتع (شہد سے بنی ہوئی شراب) کا تذکرہ کیا ہے، تو سفیان نے کہا: ابن شہاب نے ہمارے سامنے بتع کا تذکرہ نہیں کیا ۔ ابن شہاب نے ہمارے سامنے وہی الفاظ ذکر کئے تھے جو میں نے تمہارے سامنے بیان کئے ہیں۔
[إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الأشربة 5585، ومسلم فى الأشربة 2001، وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 4360، وفي صحيح ابن حبان برقم 5345،5372,5393,5397]

284- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی قرأت سنی تو ارشاد فرمایا: ”اسے آل داؤد کی سی خوش الحانی عطا کی گئی ہے۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان اس روایت کو نقل کرتے ہوئے بعض اوقات اس میں شک کا شکار ہوجاتے تھے اور وہ یہ کہتے تھے کہ یہ عمرہ نامی خاتون سے منقل ہے یا شاید عروہ نامی صاحب سے منقول ہے، تاہم وہ اس روایت کے الفاظ ذکر نہیں کرتے تھے، پھر اس کے بعد انہوں نے اعتماد کے ساتھ عروہ سے منقول ہونے کا تذکرہ کیا اور پھر کئی مرتبہ اس روایت کو بیان کیا انہوں نے اس شک کو ترک کردیا۔
[إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى موارد الظمآن برقم 2263، وفي صحيح ابن حبان برقم 7195]

285- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا آیا، وہ رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا وہ سات سے زیادہ تھا اور نو سے کم تھا، تو صبح ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقسیم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”محمد کا اپنے پروردگار کے بارے میں کیا گمان ہوگا کہ اگر وہ انتقال کرجائے اور یہ سونا اس کے پاس ہو“ ۔
سفیان کہتے ہیں : میرا خیال ہے یہ زکواۃ کا سونا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا یا پھر یہ کسی انسان کا حق تھا جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ ضائع نہ ہوجائے۔
[ إسناده حسن، وأخرجه أحمد 49/6 ، 182، وابن سعد فى الطبقات 32/2, 33/2 ، وابن أبى شيبة برقم 16218،، وابن حبان برقم 3212، بتحقيقناً، والبغوي فى «شرح السنة، برقم 1658، من طرف: حدثنا محمد بن عمرو، بهذا الإسناد]

286- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے عائشہ! اگر تم نے گناہ کا ارتکاب کیا تھا، تو تم اللہ سے مغفرت طلب کرو، کیونکہ جب انسان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور یہ پھر توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کردیتا ہے۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کئے ہیں: ”اگر تم نے گناہ کا ارادہ کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کو کیونکہ توبہ ندامت کا اظہار اور استغفار کرنا ہوتا ہے۔“ تاہم سفیان اکثراوقات پہلے والے الفاظ ہی نقل کرتے تھے۔
[ إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى المغازي» 4141، باب:ومسلم فى التوبة 2770، وقد استوفينا تحرجه ضمن حديث الإفك الطويل فى مسند الموصلي برقم 4931. وفي ربيع ابن حبان» برقم 634]

287- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اس میں قرأت کی آواز سنی میں نے دریافت کیا یہ کون ہے؟ فرشتوں نے بتایا: یہ حارثہ بن نعمان ہیں ، تو نیکی اسی طرح ہوتی ہے، نیکی اسی طرح ہوتی ہے۔ “
سفیان سے کہا گیا: یہ روایت عمرہ نامی راوی سے منقول ہے انہوں نے جواب دیا : جی ہاں اس میں میں کوئی شک نہیں ہے زہری نے اسی طرح بیان کیا تھا۔
[ إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 4425]
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
احادیث ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا


288- ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”ایک لشکر اس گھر پر حملہ کرنے کے ارادے سے ضرور آئے گا یہاں تک کہ جب وہ کھلے میدان میں پہنچیں گے تو ان کے درمیانی حصے کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، تو ان کے ابتدائی حصے کے لوگ پیچھے والوں کو بلند آواز میں پکاریں گے پھر ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں بچے گا صرف وہ شخص بچے گا ، جو الگ ہوکر چل رہا تھا اور وہی (دوسرے) لوگوں کو ان لوگوں کے بارے میں بتائے گا۔“
راوی کہتے ہیں: ایک صاحب نے میرے دادا کو یہ کہا: میں اس بات کی گواھی دیتا ہوں کہ آپ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ بات غلط بیان نہیں کی ہے اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے غلط بات بیان نہیں کی ہے۔
سفیان کہتے ہیں: عمیر بن قیس نے روایس امیہ سے کے حوالے سے نقل کی ہے، لیکن مجھے یہ جرأت نہیں ہوئی کہ میں ان سے اس حوالے سے دریافت کروں وہ خالد بن محمد اور عبداللہ بن شعبہ کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے یہ اس زمانے میں قریش کے اکابرین میں سے تھے اور یہ لوگ رات کے بازار میں بیٹھا کرتے تھے جو ان دنوں مسجد کے دروازے پر منعقد ہوتا تھا، تو امیہ نے مجے سے مدد طلب کی کہ میں نے کے لئے خالد بن محمد سے گنجائش حاصل کروں مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا مجھے ان کے لئے یہ چیز مل جائے گی کہ نہیں ملے گی لیکن جب انہوں نے مجھ سے مدد طلب کی ، تو اس حواسے سے جرأت ہوئی تو میں نے ان سے سوال کیا، تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی ۔
( إسناده صحيح واخرجه مسلم فى الفتن 2883 ، وابن ماجه فى الفتن 4063 ، وأحمد فى المسند 25883 ، والحاكم فى المستدرك 8440 ، والنسائي فى الكبرى 2777 , 2778 ، والأزرقي فى أخبار مكة 318 ، والفاكهي فى أخبار مكة 724 ، والطبراني فى الكبير 20627 , 20638 )

289-ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی کسی زوجہ محترمہ کے چہرے کا (بوسہ ) لے لیا کرتے تھے۔
(إسناده صحيح واخرجه مسلم فى الصيام 1107، وابن ماجه فى سننه 1690 ، وأحمد فى المسند 25884 , 25885 , 25886 , 25887 ، وابن حبان فى صحيحه 3542، والنسائي فى الكبرى 2503 , 2504 , 2501 ، وأبو يعلى الموصلي فى مسنده 7051، وأبو عوانة فى مستخرجه 2315 ، والطحاوي فى شرح معاني الآثار 2171 ، والطبراني فى الكبير 18062 , 18063 , 18064 , 18065 , 18103 ، والبيهقي فى السنن الكبير 7626 ، والطيالسي فى مسنده 1680 ، وابن أبى شيبة فى مصنفه 9241 )

290- ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح صادق ہوجانے کے بعد (فجر کی) دو رکعات سنت ادا کرتے تھے۔
(إسناده صحيح واخرجه البخاري فى الآذان 618، ومسلم فى المسافرين 723، والنسائي فى الصغرى 583 , 1755 , 1756 , 1760 , 1761 , 1762 , 1763 , 1764 , 1765 , 1766 , 1767 , 1768 , 1769 , 1770 , 1771 , 1772 , 1773 , 1774 ، وابن ماجه فى سننه 1148 ، وأحمد فى المسند 25863 , 25868 , 25869 , 25870 , 25872 , 25873 , 25877 ، ومالك فى الموطأ 289 ، وابن خزيمة فى صحيحه 1047 ، وابن حبان فى صحيحه 1612 , 2498 , 2506 ، والدارمي فى سننه 1468 , 1469 ، والنسائي فى الكبرى 1433 , 1434 , 1539 ، وعبدالرزاق فى مصنفه 4623 , 4625 , 4665 ، وابن أبى شيبة فى مصنفه 6263 , 6264 ، وعبد بن حميد فى مسنده 1551 ، والترمذي فى الشمائل المحمدية 276 ، وابن أبى عاصم فى الآحاد والمثاني 2712 , 2713 ، وأبو يعلى الموصلي فى مسنده 7032 ، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 2462)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
احادیث ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا

291- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب تم میں سے کسی ایک خاتون کا مکاتب غلام ہو اور اس کے پاس رقم موجود ہو، جسے وہ ادا کرسکتا ہو تو وہ عورت اس غلام سے پردہ کرے۔“
سفیان کہتے ہیں: میری یاداشت کے مطابق یہاں تک ہے لیکن اس کے بعد معمر نے زہری کے حوالے سے نیہان تامی راوی کے حوالے سے یہ بات بتائی وہ سیدہ ام سلمہ کے خچرکو لے کر چلا کرتا تھا انہوں نے مجھ سے فرمایا: اے نیہان! تمہاری کتابت کے معاہدے کی کتنی رقم باقی رہ گئی ہے ۔ میں نے جواب دیا: ایک ہزار درہم ۔ نیہان کہتے ہیں:سیدہ ام سلمہ نے دریافت کیا:کیا تمہارے پاس وہ رقم موجود ہے جسے تم ادا کر دو تو میں نے جواب دیا: جی ہاں! تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : تم اسے فلاں کی طرف بھجوا دو۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی یا اپنے کسی بچے کا نام لیا اور پھر انہوں نے پردہ ڈال دیا پھر انہوں نے فرمایا: تم پر سلام ہو اے نیهان ! تم نے آخری مرتبہ مجھے دیکھا ہے۔ نبی اکرم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے ”جب کسی عورت کا کوئی غلام ہو اور اس غلام کے پاس وہ رقم موجود ہو جسے وہ ادا کر سکتا ہو تو وہ عورت اس غلام سے حجاب کرے۔“
تو میں نے کہا: نہ تو میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جسے میں ادا کر سکوں اور نہ ہی میں نے ادا کرنی ہے۔
(إسناده جيد وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 6956، وفي موارد الظمآن برقم 1214، وفي صحيح ابن حبان برقم 4322 وأحمد في المسند 25912)

292- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کا ایک باغ ہے اور میرے منبر کے پائے جنت میں گڑے ہوئے ہیں۔“
(إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي، برقم 6974،، و فى صحيح ابن حبان برقم 3144،، وفي موارد الظمآن برقم 1037)

293- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، جب سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا میں نے کہا: یہ غریب الوطن تھے اور غریب الوطنی کے عالم میں انتقال کرگئے ہیں میں ان پر ایسا رؤں گی کہ انہیں یاد رکھا جائے گا۔
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے رونے کا پختہ ارادہ کرلیا تو کھلے میدان کی طرف سے ایک عورت میرے پاس آئی وہ بھی رونے میں میرا ساتھ دینا چاہتی تھی۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ملاحظہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم یہ چاہتی ہو کہ شیطان کو اس گھر میں داخل کردو۔ جس میں سے اللہ تعالیٰ نے اسے باہر نکال دیا ہے۔ کیا تم یہ چاہتی ہو کہ تم شیطان کو اس گھر میں داخل کردو جس سے اللہ تعالیٰ نے اسے باہر نکال دیا ہے۔“ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، تو میں نے رونا ترک کردیا پھر میں نہیں روئی۔
(إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى الجنائز 922، وقد استوفينا تخرجه فى مسند الموصلي برقم 6955،6948 وفي صحيح ابن حبان برقم.3144)

294- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! کیسے فتنے نازل ہوئے ہیں اور کتنے خزانے کھول دئے گئے ہیں ، تو حجروں میں رہنے والی خواتین کو بیدار کرو کیونکہ دنیا میں پردے والی بعض عورتیں آخرت میں برہنہ ہوں گی۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى العلم 115، وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 6988، وعلقنا عليه تعليقا بحسن الرجوع إليه. كما خر جناه فى صحيح ابن حبان، برقم 691)

295- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ) آجائے اور کسی شخص کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال اور اپنی جلد میں سے کوئی چیز نہ کٹوائے (یعنی نہ ناخن تراشے اور بال بھی نہ کٹوائے) ۔ امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان سے کہا گیا ہے: بعض محدثین نے اس روایت کو ”مرفوع“ حدیث کے طور پر نقل نہیں کیا ہے، تو انہوں نے کہا: میں تو اس کو ”مرفوع“ حدیث کے طور پر نقل کروں گا۔
(إسناده صحيح، وأخرجه مسلم فى الأضاحي 1977، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 6910، وعلقنا عليه تعليقا طويلا نرجو أن يكون مفيدة، كما خرجناه فى صحيح ابن حبان، برقم 5897)

296- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : میں نے عرض کی میں ایک ایسی عورت ہوں جو اپنی مینڈیاں مضبوطی سے باندھتی ہوں، تو کا میں غسل جنابت کے لئے انہیں کھول لیا کروں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لئے اتنا کافی ہے، تم تین مرتبہ اپنے سر پر پانی کے تین لپ بہا لیا کرو پھر تم اپنے جسم پر پانی بہالو تو تم پاک ہوجاؤ گی“ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ”تو اس طرح تم پاک ہوجاؤ۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى السهو 1233، - وطرفه - ومسلم فى صلاة المسافرين 834، وقد استوفينا تخريجه وعلقنا عليه، تعليقا يحسن الرجوع إليه فى مسند الموصلي، برقم 6946، وفي صحيح ابن حبان، برقم 1198)

297- ابوسلمہ بن عبدالرحمان بیان کرتے ہیں: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے وہ منبر پر موجود تھے، انہوں نے کثیر بن صلت سے کہا: تم ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کے بارے میں دریافت کرو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعات ادا کرتے تھے۔
ابوسلمہ کہتے ہیں: کثبیر بن صلت کے ساتھ میں بھی چلا گیا، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن حارث کو ساتھ بھیج دیا انہوں نے فرمایا: تم جاؤ! ام المؤمنین تمہیں جو کہیں گی اسے سن لینا۔
ابو سلمہ کہتے ہیں: وہ صاحب ان کے ہاں آئے اور ان سے یہ دریافت کا ، تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے، تم سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے دریافت کرو، تو کثیر کے ساتھ میں بھی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا انہوں نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد میرے ہاں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاں دو رکعات نماز ادا کی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے یہ دو رکعات ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیس نماز ادا کی ہے؟ میں نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں ظہر کے بعد دو رکعات ادا کرتا ہوں، بنو تمیم کا وفد میرے پاس آگیا تھا“ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ”زکواۃ کا مال آیا تھا، تو اس وجہ سے میں مصروف رہا تو یہ وہی دو رکعات ہیں“ ۔
( إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه، وعلقنا عليه تعليقا طويلا فى مسند الموصلي برقم 6946، كما خرجناه فى صحيح ابن حبان برقم 1574)

298- سیدہ زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہما اپنی والدہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان نقل کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں تم لوگ اپنے مقدمات لے کر میرے پاس آتے ہو، ہوسکتا ہے، تم میں سے کوئی ایک شخص اپنی دلیل پیش کرنے میں دوسرے کے مقابلے میں تیز زبان ہو، تو جس شخص کے حق میں ، میں اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ دے دوں، تو وہ اسے حاصل نہ کرے کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیا ہوگا۔“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى المظالم 2458، -وأطرافه-، ومسلم فى الأقضية 1713، وقد خر جناه وعلقنا عليه تعليقة تحسن العودة إليه فى مسند الموصلي برقم 6680،6881،6897،6994، كما خر جناه فى صحيح ابن حبان برقم 5070)

299- سیدہ زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہما اپنی والدہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان نقل کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے وہاں ایک ہیجڑا موجود تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عبداللہ بن ابو امیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: اے عبداللہ ! اگر اللہ تعالیٰ نے آئندہ تمہارے لئے طائف کو فتح کردیا تو غیلان کی بٹی کو ضرور حاصل کرنا کیونکہ وہ بڑی صحت مند (اور خوبصورت جسم کی مالک) ہے۔ راوی کہتے ہیں: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ (ہیجڑے) تمہارے ہاں نہ آیا کریں۔“
سفیان کہتے ہیں: ابن جریج نے یہ بات بیان کی اس ہیجڑے کا نام ”ہیت“ تھا۔
( إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى المغازي 4324، - وطرفيه - ومسلم فى السلام 2180، ولد خرجناه وشرحنا غريبه وعلقنا عليه فى مسند الموصلي» برقم 6960، خرجناه فى «صحيح ابن حبان» برقم 4488)

300- سیدہ زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہما اپنی والدہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان نقل کرتی ہیں، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا: انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ حق بات سے حیا نہیں کرتا اگر عورت کو احتلام ہوجائے تو کیا اس پر غسل کرنا لازم ہوگا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی عورت پانی دیکھتی ہے، تو اسے غسل کرنا پڑے گا۔“ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا ہاتھ خاک آلود ہو پھر (بچے کی اس کے ساتھ) مشابہت کس بنیاد پر ہوتی ہے؟“
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الغسل 282، واطرافه ومسلم فى الحيض 313، يحرج المني منها. وأخرجه الموصلي برقم 6895، 7004،، و فى صحيح ابن حبان برقم 1165، 1167)
 
Top