• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسنون رکعات تراویح،احادیث صحیحہ کی روشنی میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
جناب فیض الابرار صاحب کے جھوٹ پر جھوٹ !
محترم پہلے آپ نے لکھا تھا کہ(سب سے پہلے امام کا نام تو میں بتا دیتا ہوں جو 17 ھجری سے 24 ھجری تک مسجد نبوی میں 8 تراویح پڑھاتا رہا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ)
بندہ نے اس کے جواب میں جناب سے پوچھا تھا کہ(اپنے دعوی کے خظِ کشید الفاظ کو مد نظر رکھیں اور اس روایت میں اُن الفاظ کی نشاندہی کر دیں جس کا ترجمہ یہ بنتا ہوں کہ" حضرت ابی بن کعب 17ھ سے 24 ھ تک مسجد نبوی میں آٹھ رکعت تراویح پڑھاتے رہے؟)
جناب نے اپنے اس جھوٹ پر خاموشی میں عافیت سمجھی کیوں؟؟؟اس جھوٹ سے بری الذمہ ہوں ،17ھ سے 24 ھ تک سیدنا ابی بن کعب کا آٹھ رکعت تراویح پڑھانا ثابت کریں

اب جناب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ہے اور لکھا کہ (مسجد نبوی میں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت نماز کی امامت کی تین دن تک اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ نماز تراویح آٹھ رکعت مسنون ہے)
محترم نبی اکرم نے رمضان المبارک کی آخری راتوں میں تین دن جو باجماعت نماز مسجد میں پڑھائی تھی ان تین دن کی نماز میں آٹھ رکعت پڑھانے کی صحیح سند نقل کر دیں ۔ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے سے توبہ کریں۔
بھائی محمد باقر صاحب حفظہ اللہ تعالی نے ایک امیج لگائی ہے اور اس میں نامور محدثین سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی عدد معین نہیں ہے ،کیا ان محدثین کو آٹھ رکعت تراویح کی احادیث یاد نہیں تھی؟کیا یہ نبی اکرم کی اس سنت کو جانتے ہی نہیں تھے
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
اور مجھے صرف ایک بات کہنی ہے کہ آپ اپنا اصل نام کے ساتھ فورم پر آئیں جعلی نام کے ساتھ نہیں کیوں کہ آپ کی باتیں تو کسی اور طرف اشارہ کر رہی ہیں یعنی اجتماع بین الضدین
بندہ نے یہ نام کسی خاص وجہ سے رکھا ہے اگر جناب کو اس نام پر کوئی اعتراض ہے تو بتائیں ؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بندہ نے یہ نام کسی خاص وجہ سے رکھا ہے اگر جناب کو اس نام پر کوئی اعتراض ہے تو بتائیں ؟
مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن آپ کی باتیں یہ بتا رہی ہیں کہ آپ کے پاس مجلسی علم ہے اور ہم عقلی دلائل کے مقابلے میں منقول کو راجح سمجھتے ہیں اور نقلی اور صریح دلائل کے مقابلے میں لا یعنی اور فضول سوالات کو صرف وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں
اور یزید حسین کا نام تو کسی اور طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ؟؟؟؟؟؟؟؟
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
عمیر بھائی باصل مسئلہ یہ جھوٹا دعوی ہے کہ مسنون عمل بیس رکعت ہے آٹھ رکعت نہیں ورنہ صحابہ کرام سے تو بیس رکعت سے زیادہ بھی قیام اللیل کا ذکر ملتا ہے
فیض صاحب آپ نے لکھا ہے کہ
"ورنہ صحابہ کرام سے تو بیس رکعت سے زیادہ بھی قیام اللیل کا ذکر ملتا ہے"

اگر تراویح آٹھ رکعات مسنون ہیں تو کیا صحابہ کرام علیہم الرضوان بیس سے زیادہ پڑھ کر اس مسنون طریقہ کے خلاف چلتے رہے؟
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
محمد باقر بھائی : آپ نے اس دھاگہ کو غور سے نہیں پڑھا اس میں اور بھی کئی جھوٹ چھپے ہوئے ہیں ،عبارتوں کا من مانی ترجمہ کیا ہے ان لوگوں نے ،یہ فیض صاحب جنہیں "علمِ لدنی" کا دعوی ہے یہ خود اس دھاگہ میں جناب کفایت اللہ صاحب کے اندھے مقلد بنے ہوئے ہیں ۔اب انہیں تقلید کا شرک نظر نہیں آیا؟یہ کبھی صحابہ کرام پر جھوٹ بولتے ہیں اور کبھی خلفائے راشدین پر اور حد تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتے نہیں شرماتے اور دعوی ہے قرآن وسنت پہ چلنے کا
آئیے دیکھتے ہیں اس دھاگہ کے جھوٹ و فریب:
اس دھاگہ کو شروع کرتے ہوئے ہمارے اس فورم کے علمی نگران جناب کفایت اللہ صاحب نے بخاری کی ایک حدیث مبارکہ نقل کی جس میں ان الفاظ: كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ: کا ترجمہ کیا گیا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے:
ابو سلمہ نے تعداد کا پوچھا ہی نہیں نماز کی کیفیت کے متعلق سوال کیا تھا !کمیت کے متعلق نہیں تو یہ ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے:کیسے درست ہو سکتا ہے؟
حدیث عائشہ صدیقہ سے تراویح پر استدلال ہی غلط ہے کیونکہ یہ تو گھر کی نماز ہے اور ہے بھی بلا جماعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پڑھتے بھی رات کے آخری حصہ میں تھے اور وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے تھے جبکہ اہل حدیث حضرات ہمیشہ مسجد میں باجماعت تراویح پڑھتے ہیں رات کے اول حصہ میں پڑھتے ہیں وتروں سے پہلے سوتے بھی نہیں اور وتر بھی اول وقت میں پڑھتے ہیں تو یہ حدیث تو اِن کے عمل کے مکمل خلاف ہے تو یہ دلیل کیسے بن گئی؟ دلیل وہ پیش کریں جو ان کے عمل کے مطابق ہو۔
اس حدیث میں رکعات کی تعداد کچھ اس طرح ہے آٹھ رکعات تھجد اور تین وتر جبکہ جناب کفایت اللہ صاحب نے جو دوسری حدیث مسلم سے پیش کی وہ اس حدیث کے بھی خلاف ہے اس میں دس رکعات تھجد اور ایک وتر کا ذکر ہے ۔ یہ بھی گھر کی بلاجماعت نماز ہےیہ حدیث بھی اِن کے مکمل عمل کے خلاف ہوئی تو یہ دلیل کیسے بن گئی؟
ان دو احادیث کے بعد جناب کفایت اللہ صاحب نے دو احادیث نقل کی اور نقل کرنے کے بعد لکھا کہ :یہ حدیث بالکل صحیح ہے اس کے تمام راوۃ ثقہ ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:
مسند ابی یعلی میں یہ دونوں احادیث موجود ہیں ،مسند ابی یعلی میں ان احادیث کو نقل کرنے کے بعد "حسین سلیم اسد " نے ان پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے "موسوعۃ الحدیث الاصدار ثالث"

1801 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟» ، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا
[حكم حسين سليم أسد] :
إسناده ضعيف (3/336)

اس روایت میں بھی گھر کی نماز کا ذکر ہے اسے جناب نے کیسے دلیل بنایا؟پھر ہے بھی ضعیف




1801 - حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ وَأَوْتَرَ، فَلَمَّا كَانَتِ الْقَابِلَةُ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِيهِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، ثُمَّ دَخَلْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ تُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «إِنِّي خَشِيتُ أَوْ كَرِهْتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ»
[حكم حسين سليم أسد] :
إسناده ضعيف (3/336)



ضعیف احادیث سے تراویح آٹھ رکعات ثابت نہیں ہوتی؟

اب آتا ہوں جناب فیض صاحب کے جھوٹوں کی طرف جناب نے پوسٹ نمبر 23 میں دو جھوٹ لکھے کہ :الحمدللہ جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سے ثابت ہے:
فیض صاحب :باجماعت پورا رمضان مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات تراویح پڑھبا ثابت نہیں ہے ،ہمت کریں ایک صحیح حدیث نقل کریں ورنہ اپنے اس جھوٹ پر شرمندہ ہو کر اللہ سے معافی مانگیں۔دوسری بات جناب نے لکھی کہ خلفائے راشدیں سے ثابت ہے ،جناب ہمت کریں اور سیدنا ابوبکر صدیق ،سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثان بن عفان، سیدنا علی المرتضی،سیدنا حسن بن علی،سیدنا معاویہ بن ابی سفیان سے آٹھ رکعات تراویح پڑھنے یا پڑھانے کا ثبوت فراہم کریں ،ورنہ اس جھوٹ پر بھی شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے معافی مانگیں
جھوٹ نمبر 3÷سب سے پہلے امام کا نام تو میں بتا دیتا ہوں جو 17 ھجری سے 24 ھجری تک مسجد نبوی میں 8 تراویح پڑھاتا:
یہ بات لکھ کر جناب نے جناب کفایت اللہ صاحب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے یہ روایت لکھی
کفایت اللہ صاحب کی پوسٹ سے حدیث اور استدلال نقل کر رہا ہوں
امام مالك رحمه الله (المتوفى179)نے کہا:

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ: وَقَدْ «كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ»[موطأ مالك : 1/ 115واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ومن طريق مالك رواه النسائی فی السنن الکبری 3/ 113 رقم 4687 و الطحاوی فی شرح معاني الآثار 1/ 293 رقم1741 وابوبکر النیسابوی فی الفوائد (مخطوط) ص 16 رقم 18 ترقیم الشاملہ و البیہقی فی السنن الكبرى 2/ 496 رقم 4392 کلھم من طریق مالک بہ]۔

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا ، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام سوسو آیتیں ایک رکعت میں پڑھتا تھا یہاں تک کہ ہم طویل قیام کی وجہ لکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے اورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔

اس روایت میں کہاں لکھا ہے کہ ابی بن کعب 17ھ سے 24ھ تک آٹھ رکعات تراویح پڑھاتے رہے؟ اس جھوٹ کو ثابت کریں یا اس پر بھی شرمندگی کرتے ہوئے اللہ سے معافی مانگیں ۔دوسری بات اس روایت میں رمضان کا ذکر نہیں ،تیسری بات یہ موجود ہے کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم کیا تھا جبکہ اہل حدیث آٹھ رکعات پڑھتے ہیں ؟ چوتھی بات یہ کہ امام سو سو ایات پڑھتا تھا اہل حدیث ایسا نہیں کرتے؟ پانچویں بات یہ کہ صحابہ فجر کے قریب اس نماز سے فارغ ہوتے تھے جب کہ اہل حدیث اول وقت پڑھ کر گھروں میں جاکر سو جاتے ہیں ؟یہ روایت اہل حدیث کے مکمل عمل کے خلاف ہے تو دلیل کیسے بن گئی؟
جھوٹ نمبر 4:مسجد نبوی میں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت نماز کی امامت کی تین دن تک:

تین دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قیام رمضان کیا تھا آخری عشرہ میں ان تین دن کی نماز میں آٹھ رکعات پڑھانے کی حدیث صحیح نقل کریں ،ورنہ رسول اللہ پر جھوٹ باندھنے کی سخت وعید سے نہ بچ سکیں گے یا اس جھوٹ سے بھی تائب ہوں اور اپنے اللہ سے معافی مانگیں؟
جناب نے یزید حسین کو مخاب کر کے لکھا کہ:اور اگر آپ 17 ھجری سے پہلے کے اسلام کو مانتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے صریح فرامین کی موجودگی میں ایسے لایعنی سوالات نہ کرتے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے با جماعت رمضان المبارک میں پورا مہینہ آٹھ رکعات پڑھانا ثابت نہیں ہے ، چہ جائیکہ کہ صریح فرامیں ہوں؟اگر صریح فرامین ہیں پیش تو کریں؟ جھوٹ پر جھوٹ نہ گھڑھیں؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
محمد باقر بھائی : آپ نے اس دھاگہ کو غور سے نہیں پڑھا اس میں اور بھی کئی جھوٹ چھپے ہوئے ہیں ،عبارتوں کا من مانی ترجمہ کیا ہے ان لوگوں نے ،یہ فیض صاحب جنہیں "علمِ لدنی" کا دعوی ہے یہ خود اس دھاگہ میں جناب کفایت اللہ صاحب کے اندھے مقلد بنے ہوئے ہیں ۔اب انہیں تقلید کا شرک نظر نہیں آیا؟یہ کبھی صحابہ کرام پر جھوٹ بولتے ہیں اور کبھی خلفائے راشدین پر اور حد تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتے نہیں شرماتے اور دعوی ہے قرآن وسنت پہ چلنے کا
آئیے دیکھتے ہیں اس دھاگہ کے جھوٹ و فریب:
اس دھاگہ کو شروع کرتے ہوئے ہمارے اس فورم کے علمی نگران جناب کفایت اللہ صاحب نے بخاری کی ایک حدیث مبارکہ نقل کی جس میں ان الفاظ: كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ: کا ترجمہ کیا گیا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے:
ابو سلمہ نے تعداد کا پوچھا ہی نہیں نماز کی کیفیت کے متعلق سوال کیا تھا !کمیت کے متعلق نہیں تو یہ ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے:کیسے درست ہو سکتا ہے؟
حدیث عائشہ صدیقہ سے تراویح پر استدلال ہی غلط ہے کیونکہ یہ تو گھر کی نماز ہے اور ہے بھی بلا جماعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پڑھتے بھی رات کے آخری حصہ میں تھے اور وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے تھے جبکہ اہل حدیث حضرات ہمیشہ مسجد میں باجماعت تراویح پڑھتے ہیں رات کے اول حصہ میں پڑھتے ہیں وتروں سے پہلے سوتے بھی نہیں اور وتر بھی اول وقت میں پڑھتے ہیں تو یہ حدیث تو اِن کے عمل کے مکمل خلاف ہے تو یہ دلیل کیسے بن گئی؟ دلیل وہ پیش کریں جو ان کے عمل کے مطابق ہو۔
اس حدیث میں رکعات کی تعداد کچھ اس طرح ہے آٹھ رکعات تھجد اور تین وتر جبکہ جناب کفایت اللہ صاحب نے جو دوسری حدیث مسلم سے پیش کی وہ اس حدیث کے بھی خلاف ہے اس میں دس رکعات تھجد اور ایک وتر کا ذکر ہے ۔ یہ بھی گھر کی بلاجماعت نماز ہےیہ حدیث بھی اِن کے مکمل عمل کے خلاف ہوئی تو یہ دلیل کیسے بن گئی؟
ان دو احادیث کے بعد جناب کفایت اللہ صاحب نے دو احادیث نقل کی اور نقل کرنے کے بعد لکھا کہ :یہ حدیث بالکل صحیح ہے اس کے تمام راوۃ ثقہ ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:
مسند ابی یعلی میں یہ دونوں احادیث موجود ہیں ،مسند ابی یعلی میں ان احادیث کو نقل کرنے کے بعد "حسین سلیم اسد " نے ان پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے "موسوعۃ الحدیث الاصدار ثالث"

1801 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنِّي اللَّيْلَةَ شَيْءٌ يَعْنِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: «وَمَا ذَاكَ يَا أُبَيُّ؟» ، قَالَ: نِسْوَةٌ فِي دَارِي، قُلْنَ: إِنَّا لَا نَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَنُصَلِّي بِصَلَاتِكَ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِهِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، قَالَ: فَكَانَ شِبْهُ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا
[حكم حسين سليم أسد] :
إسناده ضعيف (3/336)

اس روایت میں بھی گھر کی نماز کا ذکر ہے اسے جناب نے کیسے دلیل بنایا؟پھر ہے بھی ضعیف




1801 - حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ وَأَوْتَرَ، فَلَمَّا كَانَتِ الْقَابِلَةُ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِيهِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، ثُمَّ دَخَلْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ تُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «إِنِّي خَشِيتُ أَوْ كَرِهْتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ»
[حكم حسين سليم أسد] :
إسناده ضعيف (3/336)



ضعیف احادیث سے تراویح آٹھ رکعات ثابت نہیں ہوتی؟

اب آتا ہوں جناب فیض صاحب کے جھوٹوں کی طرف جناب نے پوسٹ نمبر 23 میں دو جھوٹ لکھے کہ :الحمدللہ جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سے ثابت ہے:
فیض صاحب :باجماعت پورا رمضان مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعات تراویح پڑھبا ثابت نہیں ہے ،ہمت کریں ایک صحیح حدیث نقل کریں ورنہ اپنے اس جھوٹ پر شرمندہ ہو کر اللہ سے معافی مانگیں۔دوسری بات جناب نے لکھی کہ خلفائے راشدیں سے ثابت ہے ،جناب ہمت کریں اور سیدنا ابوبکر صدیق ،سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثان بن عفان، سیدنا علی المرتضی،سیدنا حسن بن علی،سیدنا معاویہ بن ابی سفیان سے آٹھ رکعات تراویح پڑھنے یا پڑھانے کا ثبوت فراہم کریں ،ورنہ اس جھوٹ پر بھی شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے معافی مانگیں
جھوٹ نمبر 3÷سب سے پہلے امام کا نام تو میں بتا دیتا ہوں جو 17 ھجری سے 24 ھجری تک مسجد نبوی میں 8 تراویح پڑھاتا:
یہ بات لکھ کر جناب نے جناب کفایت اللہ صاحب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے یہ روایت لکھی
کفایت اللہ صاحب کی پوسٹ سے حدیث اور استدلال نقل کر رہا ہوں
امام مالك رحمه الله (المتوفى179)نے کہا:

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ: وَقَدْ «كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ، حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ، وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ»[موطأ مالك : 1/ 115واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ومن طريق مالك رواه النسائی فی السنن الکبری 3/ 113 رقم 4687 و الطحاوی فی شرح معاني الآثار 1/ 293 رقم1741 وابوبکر النیسابوی فی الفوائد (مخطوط) ص 16 رقم 18 ترقیم الشاملہ و البیہقی فی السنن الكبرى 2/ 496 رقم 4392 کلھم من طریق مالک بہ]۔

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم دیا ، سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام سوسو آیتیں ایک رکعت میں پڑھتا تھا یہاں تک کہ ہم طویل قیام کی وجہ لکڑی پر ٹیک لگا کرکھڑے ہوتے تھے اورفجرکے قریب ہی نماز سے فارغ ہوتے تھے۔

اس روایت میں کہاں لکھا ہے کہ ابی بن کعب 17ھ سے 24ھ تک آٹھ رکعات تراویح پڑھاتے رہے؟ اس جھوٹ کو ثابت کریں یا اس پر بھی شرمندگی کرتے ہوئے اللہ سے معافی مانگیں ۔دوسری بات اس روایت میں رمضان کا ذکر نہیں ،تیسری بات یہ موجود ہے کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم کیا تھا جبکہ اہل حدیث آٹھ رکعات پڑھتے ہیں ؟ چوتھی بات یہ کہ امام سو سو ایات پڑھتا تھا اہل حدیث ایسا نہیں کرتے؟ پانچویں بات یہ کہ صحابہ فجر کے قریب اس نماز سے فارغ ہوتے تھے جب کہ اہل حدیث اول وقت پڑھ کر گھروں میں جاکر سو جاتے ہیں ؟یہ روایت اہل حدیث کے مکمل عمل کے خلاف ہے تو دلیل کیسے بن گئی؟
جھوٹ نمبر 4:مسجد نبوی میں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت نماز کی امامت کی تین دن تک:

تین دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قیام رمضان کیا تھا آخری عشرہ میں ان تین دن کی نماز میں آٹھ رکعات پڑھانے کی حدیث صحیح نقل کریں ،ورنہ رسول اللہ پر جھوٹ باندھنے کی سخت وعید سے نہ بچ سکیں گے یا اس جھوٹ سے بھی تائب ہوں اور اپنے اللہ سے معافی مانگیں؟
جناب نے یزید حسین کو مخاب کر کے لکھا کہ:اور اگر آپ 17 ھجری سے پہلے کے اسلام کو مانتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنے صریح فرامین کی موجودگی میں ایسے لایعنی سوالات نہ کرتے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے با جماعت رمضان المبارک میں پورا مہینہ آٹھ رکعات پڑھانا ثابت نہیں ہے ، چہ جائیکہ کہ صریح فرامیں ہوں؟اگر صریح فرامین ہیں پیش تو کریں؟ جھوٹ پر جھوٹ نہ گھڑھیں؟
یزید حسین صاحب آپ کو ایک دوسرے اسی طرح کے مشکوک نام سے فورم پر آنے کی ضرورت نہیں آپ یزید حسین کے نام سے ہی یہ اعتراضات اٹھائیں جوابات مل جائیں گے اب اس کے بعد آپ نے پھر مروان باقر کے نام سے فورم پر آنا ہے اور پھر عبدالمالک جعفر ، لاہور جانے کے لیے پشاور جانا ضروری نہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فیض صاحب آپ نے لکھا ہے کہ
"ورنہ صحابہ کرام سے تو بیس رکعت سے زیادہ بھی قیام اللیل کا ذکر ملتا ہے"

اگر تراویح آٹھ رکعات مسنون ہیں تو کیا صحابہ کرام علیہم الرضوان بیس سے زیادہ پڑھ کر اس مسنون طریقہ کے خلاف چلتے رہے؟
یزید حسین المعروف معاویہ زین العابدین مجھے صرف یہ بتا دیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے خلیفہ کے انتخاب کا جو طریقہ اختیار کیا تھا کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تھا یا انہوں نے سنت کی مخالفت کی تھی؟
پھر میں آپ کو بتاوں گا کہ صحابہ کرام نے اگر بیس سے زائد پڑھی تو کیا سنت کی مٰخالفت کی تھی یا نہیں۔
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
بھائی فیض الابرار صاحب : کیوں رمضان المبارک میں جھوٹ پر جھوٹ لکھنے پر لگے ہیں ،کیا جناب نے "زبان" کا روزہ ترک کیا ہوا ہے؟ یا اس کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے ،کبھی صحابہ کرام پر جھوٹ ،کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ،جناب نہ اپنے ان جھوٹوں کو ثابت کرتے ہیں اور نہ ہی توبہ کرتے ہیں ، کذاب راوی کی کوئی بات قابل قبول نہیں ہوتی اپنے پر سے کذب کی جرح اُٹھائیں ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جناب نے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ مجھے معاویہ زین العابدین بنا دیا ۔(لعن۔۔۔۔۔۔۔۔ )یہ شوشہ چھوڑ کر جناب کی جان چھٹنے والی نہیں ،جواب نہیں دینا چاہتے تو صاف صاف انکار کر دیں ، اپنے جھوٹوں سے فرار کی کوشش نہ کریں ۔بندہ نے جناب کے جن جھوٹوں کی نشاندہی کی ہے اس سے بری الذمہ ہوں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بھائی فیض الابرار صاحب : کیوں رمضان المبارک میں جھوٹ پر جھوٹ لکھنے پر لگے ہیں ،کیا جناب نے "زبان" کا روزہ ترک کیا ہوا ہے؟ یا اس کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے ،کبھی صحابہ کرام پر جھوٹ ،کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ،جناب نہ اپنے ان جھوٹوں کو ثابت کرتے ہیں اور نہ ہی توبہ کرتے ہیں ، کذاب راوی کی کوئی بات قابل قبول نہیں ہوتی اپنے پر سے کذب کی جرح اُٹھائیں ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جناب نے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ مجھے معاویہ زین العابدین بنا دیا ۔(لعن۔۔۔۔۔۔۔۔ )یہ شوشہ چھوڑ کر جناب کی جان چھٹنے والی نہیں ،جواب نہیں دینا چاہتے تو صاف صاف انکار کر دیں ، اپنے جھوٹوں سے فرار کی کوشش نہ کریں ۔بندہ نے جناب کے جن جھوٹوں کی نشاندہی کی ہے اس سے بری الذمہ ہوں۔
مجھے صرف یہ بتا دیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین نے خلیفہ کے انتخاب کا جو طریقہ اختیار کیا تھا کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تھا یا انہوں نے سنت کی مخالفت کی تھی؟
پھر میں آپ کو بتاوں گا کہ صحابہ کرام نے اگر بیس سے زائد پڑھی تو کیا سنت کی مٰخالفت کی تھی یا نہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
بھائی فیض الابرار صاحب : کیوں رمضان المبارک میں جھوٹ پر جھوٹ لکھنے پر لگے ہیں ،کیا جناب نے "زبان" کا روزہ ترک کیا ہوا ہے؟ یا اس کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے ،کبھی صحابہ کرام پر جھوٹ ،کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ،جناب نہ اپنے ان جھوٹوں کو ثابت کرتے ہیں اور نہ ہی توبہ کرتے ہیں ، کذاب راوی کی کوئی بات قابل قبول نہیں ہوتی اپنے پر سے کذب کی جرح اُٹھائیں ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جناب نے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ مجھے معاویہ زین العابدین بنا دیا ۔(لعن۔۔۔۔۔۔۔۔ )یہ شوشہ چھوڑ کر جناب کی جان چھٹنے والی نہیں ،جواب نہیں دینا چاہتے تو صاف صاف انکار کر دیں ، اپنے جھوٹوں سے فرار کی کوشش نہ کریں ۔بندہ نے جناب کے جن جھوٹوں کی نشاندہی کی ہے اس سے بری الذمہ ہوں۔
استغفراللہ۔
بحیثیت انتظامیہ ہم ہرممکن حد تک کوشش کرتے ہیں کہ اراکین کی ایسی باتوں پر پردہ پڑا رہے۔
لیکن بعض اوقات ایسی مجبوری آن پڑتی ہے کہ اصل بات آشکارا کرنا، اس کو چھپانے سے زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔
عرض ہے کہ:
@یزید حسین
@محمد باقر
@معاویہ زین العابدین
@علی معاویہ بھائی بھائی

یہ سب ایک ہی رکن کی آئی ڈیز ہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ اپنی جو آئی ڈی برقرار رکھنا چاہیں وہ مجھے بتا دیں۔ دیگر آئی ڈیز کو ہم بلاک کر رہے ہیں۔ اور اس موضوع پر مزید کوئی بات اس دھاگے میں نہ کریں، مجھے ذاتی پیغام کر دیں یا شکایات و تجاویز سیکشن میں نیا دھاگا بنا لیں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top