• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشعال کا قتل، ناحق یا محبت رسول؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مشعال کا قتل، ناحق یا محبت رسول؟

ابوبکر قدوسی

مجھے یاد ہے جب ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کیا تھا، ہم نے تب بھی لکھا تھا اور آج بھی علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ توہین مذہب کے معاملے میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں.

میں نے اس مقتول کے سکرین شاٹ دیکھے ہیں، بظاہر ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا تھا، اس نے ایک شعر جو اردو کی ایک خاص صنف کا نمائندہ ہے، وہ اپنی وال پر لگایا تھا، جو بظاہر ذومعنی ہوتا ہے. اگر وہ ایسا ذہن نہیں رکھتا تھا تو بھی ایسے ماحول میں اس نے ایسا کر کے خود اپنی موت کو آواز دی.

اس سب کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا مقدمہ عدالت میں جانا چاہیے تھا، وہ ان شواہد کے حقیقی ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرتی، مشتعل ہجوم کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ توہین رسالت ہوئی ہے؟

اس کے ساتھ ہم پاکستان کے نظام انصاف اور حکومت کو ان واقعات کا حقیقی قصوروار سمجھتے ہیں. حکومت کی روش لوگوں کے اس رد عمل کا سبب بنی. اس کے علاوہ عدلیہ بھی اس میں برابر کی قصور وار ہے.

میں اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھ چکا ہوں کہ کیسے ہمارے ہاں توہین رسالت کے قانون کو بطور ہتھیار برتا گیا. بہت سے لوگوں نے عقائد کے اختلاف کی بنا پر توہین رسالت کے مقدمے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر درج کروائے، کہ جو پنج وقتہ نمازی تھے. اب خود سوچیے کہ جو پانچ وقت نماز کا اہتمام کرتا ہو، وہ توہین مذہب یا رسول کرے گا؟

ایسے مقدمات میں بھی عدلیہ کا کردار افسوس ناک رہا. دوسری طرف ایسے واقعات جہاں حقیقت میں توہین ہوئی، وہاں انتظامیہ کا کردار قابل مذمت رہا. کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ آج اگر کوئی اداروں، فوج اور قانون سازوں کے خلاف توہین آمیز یا نفرت پر مبنی پوسٹنگ شروع کر دے تو ہفتوں کیا دنوں تک نامعلوم رہے گا اور اس کی کوئی خبر نہ مل سکے گی کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا، یہاں کہاں پایا جاتا ہے؟ ایسا نہیں ہوگا بلکہ اس کو گھنٹوں میں ٹریس کرکے اٹھا لیا جائےگا. اس کا گھر بار، گلی محلہ سب معلوم ہو جائے گا. لیکن چار برس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فیس بک کی دنیا میں کھلی گالیاں دی گئیں، ان کی ذات پر شرمناک حملے کیےگئے، ان کی نجی زندگی کے بارے میں بےانتہاگھٹیا باتیں کی گئیں، ان کے کارٹون بنائے گئے، لیکن کسی کا سراغ نہ ملا. لوگ چیختے رہے، چلاتے رہے، جب پانی سر سےگذر گیا تب تین افراد کو پکڑا گیا، اور مجرمانہ طور پر ان کو رہا کر دیا گیا. اندھوں کو بھی معلوم تھا کہ وہ محض آزاد خیال نہیں، اس سے بڑھ کے ہیں. وقاص گورایہ نے باہر جا کر اب ان اداروں کو سینگوں پر رکھ لیا ہے. ان کی رہائی پر جب لوگوں کے جذبات برانگیخت ہوئے تب ایاز نظامی کو پکڑا گیا.

ایاز نظامی کی گرفتاری کے بعد بھی کوئی ایک شخص حکومتی اقدام سے مطمئن نہیں ہوا، اور مسلسل اس کو انجام تک پہنچانے کا مطالبہ جاری ہے. سب حکومت کے بارے میں عدم اطمینان اور شکوک شبہات کا شکار ہیں، کہ کوئی دن جاتا ہے کہ ایاز نظامی بھی غیر ملکی ویزے پر باہر بھیج دیا جائے گا.

انہی حکومتی بدعنوانیوں نے عوام کو عدم اعتماد کا شکار کر دیا ہے. مردان کا واقعہ قتل اسی بےیقینی کا شاخشانہ ہے. حیرت ہوتی ہے کہ ہماری حکومتیں اتنے چھوٹے چھوٹے واقعات پر بھی غیر ملکی حکومتوں کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتیں. انسانی تحقیر کی بات نہیں لیکن شیخوپورہ کی آسیہ مسیح کیا بہت بڑی پرسنلٹی تھی یا کوئی غیر ملکی سفارت کار کہ حکومت کے ہاتھ بندھے تھے. حد یہ ہے کہ مقامی عیسائی برادری بھی اس مقدمے میں بہت بڑھ چڑھ کر آگے نہیں آئی، لیکن امریکہ سے دو فون کیا آ گئے، ہمارے حکمران لمبے لیٹ گئے. کوئی نہ تھا کہ جو دو ٹوک انداز میں کہہ سکتا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، آپ اپنی راہ لیجیے. اگر وہ مجرم تھی تو اس کو سزا دی جاتی اور اگر وہ بےگناہ تھی تو عوام کو اعتماد میں لیا جاتا کہ اس مقدمے میں حقائق یوں ہیں. حکومت نے اپنی بزدلی اور ناکردہ کاری سے اس معاملے کو بہت بیچیدہ بنا لیا ہے، لوگوں نے جو قانون ہاتھ میں لیا ہے، اس کی براہ راست مجرم ہماری کم حوصلہ اور نا اہل حکومت خود ہے.

اس واقعے کے دوسرے پہلو سے بھی ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے. وہ یہ کہ قانون کو ہاتھ میں لینا بھی کسی طور درست اقدام نہیں کہا جائے گا. یہ علماء کا کام ہے کہ حکومتی نا اہلی کے باوجود کم از کم اپنے کارکنوں کی ایسی تربیت کریں کہ ایسے مواقع پر آگے آئیں اور بڑھ کر مشتعل لوگوں کو روکیں اور مجرموں کو قتل ہونے سے بچائیں. اس طرح تو ان مجرموں کے پشتیبانوں کے ہاتھ ہی مضبوط ہوتے ہیں کہ جن کا مقصد ہی چند لاشیں حاصل کرنا ہے.

آخر میں لبرلز کے فکری رہنماؤں سے بھی ایک بات کہنا ہے کہ جناب آپ آگ لگا کر، چنگاری دکھا کر دور کھڑے تماشا مت دیکھیے، بھلا آپ کیسے بھی مہذب بنتے ہوں اور خود سے ایسے الفاظ نہ استعمال کرتے ہوں، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ حد سے بڑھی آزاد روی کے بابا جان اور ذمہ دار آپ ہی ہیں. کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آگ آپ کی چوکھٹ تک آ جائے. اس لیے اخلاق کا دامن تھامیے اور حقیقی لبرل بنیے نہ کہ سازشی.

https://daleel.pk/2017/04/14/39253
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مشعل خان کا قاتل، مولوی یا مسٹر؟

فردوس جمال

مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں غیر مذہبی طلبہ ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے نام پر ایک غیر مذہبی نوجوان مشعل خان کا سفاکانہ قتل انتہائی افسوس ناک اور شرمناک ہے. مقتول توہین مذہب کا مرتکب ہوا تھا یا نہیں، قطع نظر اس بحث سے کسی فرد یا گروہ کو شریعت یہ اختیار نہیں دیتی ہے کہ وہ خدائی فوج دار بن کر اپنی عدالت لگائے اور سزائیں دیتا پھرے. اسلامی ریاست میں حدود اللہ کا نفاذ ،سزائیں و تعزیرات کی تنفیذ میں اتھارٹی حاکم وقت اور عدالتیں ہیں، مذہب کے نام پر ایسے کسی بھی قتل کو جسٹیفائی نہیں کیا جاسکتا ہے.

ہاں! البتہ کچھ باتیں غور طلب ہیں. مشعل خان کا قتل کسی مسجد کے صحن اور مدرسے کے احاطے میں نہیں ہوا، مشعل خان کو داڑھی اور عمامے والوں نے نہیں مارا، ان پر حملہ جمعیت نے بھی نہیں کیا، کسی مولوی نے انہیں گستاخ بھی ڈکلیئر نہیں کیا تھا، بلکہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق حملہ آور گروہ قوم پرست طلبہ تنظیم پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن سے تعلق رکھتا تھا جو فکری طور پر لبرل ذہنیت پر اٹھان کرتی تنظیم ہے، جو کالجوں یونیورسٹیوں میں مخلوط ناچ گانے کی محافل پر یقین رکھتی ہے، لیکن اس واقعے کے بعد لبرلز اور مذہب بیزار تمام عناصر کی توپوں کا رخ ملا اور مسجد کی طرف ہو گیا. اس حقیقت کے باوجود لبرل اور موم بتی مافیا اس واقعے کو کیش کرانے کے لیے سب ملبہ ملا پر ڈال رہا ہے اور لٹھ لیکر مولویت کے پیچھے پڑ چکا ہے حالانکہ مشعل خان کا قاتل مولوی نہیں مسٹر ہے، پھر بھی مولوی کو مورد الزام ٹھہرانا، یہ رویہ انتہائی قابل مذمت ہے.

اسی طرح پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے مذہبی نہ ہونے کے باوجود، ان کے اس اقدام سے مجھے تعجب بھی نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے بارے پاکستانی قوم بہت حساس ہے، اس قوم کا فرد مرحوم شاعر اختر شیرانی کی طرح شراب میں دھت کیوں نہ ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر سوال اٹھانے پر سر پر شراب کا گلاس اٹھا کر دے مارتا ہے، سو پاکستانی سماج میں رہتے ہوئے پاکستانی قوم کی اس حساسیت کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی بہت ضروری ہے.

سوشل میڈیا پر موجود دیسی لبرلز اور ملحدین جس طرح مذہب کو آڑے ہاتھوں لیے ہوئے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ لوگ مشتعل ہوں گے اور ناخوشگوار واقعات رونما ہوں گے، اور ظاہر ہے کہ فرد ایسی سوسائٹی میں اپنی نجی عدالت لگا کر فیصلے کرنے لگتا ہے جہاں ریاست کی گرفت کمزور ہو، ریاست کے نظام عدل و انصاف پر لوگوں کو اعتماد اور بھروسہ نہ ہو. بدقسمتی سے پاکستانی عدلیہ کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، یہاں توہین مذہب کرنے والے کسی ایک فرد کو سزا نہیں ہوئی، گستاخانہ پیچز چلانے والے قانون کو ٹھینگا دکھا کر ملک سے باہر فرار ہوئے اور ان کے وکیل و سہولت کار صبح و شام ٹی وی پر آکر مذہب کو کوستے، ملا کو للکارتے، مدرسے کو سناتے رہتے ہیں. انہیں مکمل آزادی حاصل ہے. اسی طرح جس سماج میں عدلیہ سے اربوں کی کرپشن کرنے والے باعزت بری ہو جاتے ہوں، اور ہزار روپے کا دھنیا چوری کرنے والے درجن بھر بچوں کا مجبور باپ کو جیل میں سڑ رہی ہو، غریب کا بچہ پکڑا جائے تو پولیس حلیہ بگاڑ دیتی ہو لیکن ایان علی کو عدالت میں پیش کرتے وقت وہ لشکارے مارتی ہو، پولیس والے ان کا میک اپ باکس اٹھائے آگے آگے ہوں، ایسے نظام پر عام آدمی کیوں اور کیسے بھروسہ کرے؟

اس تناظر مین اگر ملک سے تشدد کو ختم کرنے میں آپ سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے اپنے نظام انصاف کو ٹھیک کریں، قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں، فرد اور معاشرے کے عدلیہ کے بارے میں اعتماد کو بحال کریں، توہین مذہب کے ملزموں کو کٹہرے میں کھڑا کریں، ورنہ یاد رکھیں ایسے واقعات مکرر ہوتے رہیں گے.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مشعال خان سانحہ، حقائق اور سبق –

انعام رانا

جب بھائی فرنود عالم کی پوسٹ دیکھی تو میں ذہنی طور پر تیار تھا کہ کچھ برا ہوا ہے جس کو نہ دیکھنے یا شیئر کرنے کی درخواست وہ کر رہے ہیں۔ مگر جب دیکھا تو میں ماؤف ہو گیا۔ ایک ہجوم تھا حیوانوں کا، مگر حیوان بھی شاید اس قدر انسان نہیں ہوتے، اور ایک بے بس لاش تھی۔ اس پر کودتے، پتھر لاٹھی مارتے جنونی تھے جو اس اللہ کے نعرے لگاتے ہوئے یہ بربریت کر رہے تھے جس نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا۔ ہم نے پچھلے پندرہ سال میں اتنا ظلم اور اتنی لاشیں دیکھی ہیں کہ یہ معاشرہ کافی حد تک بےحس ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود کل سے آپ کو سوائے ان کے کہ جو خون کی بو سے نفسانی تسکین پاتے ہیں، ہر شخص کو ایک صدمے کی حالت میں دیکھیں گے۔ یہ صدمہ کسی کے ساتھ نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے نہیں ہے، مشعل خان کی جگہ نوفل ربانی، وجاہت مسعود یا کوئی اور بھی ہوتا، آپ پوری قوم کو اسی طور صدمے میں پاتے۔ اس لیے کہ کل کے واقعہ نے ہمارا خود پر سے، ایک انسانی معاشرے ہونے پر سے یقین اٹھا دیا ہے۔

کل سے مباحث پھر گرم ہیں، کوئی اگر مگر چنانچہ چونکہ سے اس خون کی تاویل کی کوشش کرتا ہے، کوئی مشعال خان کو ایک بہترین مسلمان بناتا ہے اور کوئی ملحد۔ ہم سب لوگ ہمیشہ کی طرح اپنا اپنا چورن لیے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ایسے میں میں نے اپنے چورن میں بس کچھ اجزا زیادہ ڈال لیے ہیں، کچھ کنسرن لوگوں سے بات کر کے حقائق کا پتہ چلانے کی کوشش کی ہے۔ تو آئیے یہ چورن بھی چاٹیے کہ چھٹیوں کے دن ہیں، وقت گزارنے کو کچھ مل جائے۔

مشعال خان مجھ آپ جیسا ایک عام مسلمان تھا، دسمبر دو ہزار چودہ تک۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد اچانک اس نے خدا بیزاری کا اظہار شروع کر دیا۔ وہ سرعام کہتا تھا کہ اگر کوئی خدا ہوتا تو ایسے معصوم بچوں کر مرنے کیسے دیتا۔ اسی قسم کی گفتگو وہ ڈسکشن گروپس میں کرتا رہا۔ اس کے ساتھ ان مباحث میں شریک دوست نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے خیالات میں مزید شدت آئی اور اس نے زیادہ سخت باتیں کرنا شروع کر دیں۔ اس کو کئی گروپس سے اپنی ایسی ہی باتوں کی وجہ سے بلاک بھی کیا گیا۔ مشعل کی والدہ وفات پا چکی ہے اور والد زندہ ہے، سوتیلی ماں ہے۔ مشعل نے کلاس میں مذہب کے بارے میں کچھ سخت جملے کہے جس پر طلبہ سے ہاتھا پائی ہوئی۔ شاید یونیورسٹی نے اسے ریسٹیگیٹ بھی کیا مگر اسی دوران طلبہ کا ایک ہجوم اسکو ٹریس کر کے ہاسٹل پہنچا اور باقی کی داستان سب کو معلوم ہے۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مشعال خان نیشنلسٹ طلبہ تنظیم کا اہم رکن تھا، لیکن اس کے قتل میں سب سے زیادہ اسی جماعت کے لوگ ملوث ہیں۔ قتل کا مقدمہ فقط بیس لوگوں پر بنایا گیا جبکہ اس پورے واقعہ میں اصل ملزم انچاس سے پچاس لوگ ہیں۔ اے این پی کے طاقتور لوگوں کے بیٹوں کو، جو ہجوم کو اکسانے والوں میں شامل تھے، بچا لیا گیا اور ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا۔ مشعال کی نماز جنازہ سے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی گئی اور فقط ستر اسی لوگ شریک ہوئے، جبکہ اس کی قبر پر بھی کچھ لوگوں نے بدمزگی کی کوشش کی۔ تو یہ تھے چند حقائق۔

اگر آپ یہ حقائق پڑھ کر خوشی سے اچھلنے لگے ہیں تو رکیے۔ ذرا غور کیجیے کہ ایک مسلمان جو دو ہزار چودہ میں تاجدار حرم پڑھ رھا تھا، اسے الحاد کی طرف دھکیلا کس نے؟ کیا اس کی اسلام سے دوری کی وجہ نام نہاد مسلمان ہی نہیں بنے؟ مجھے کوئی ایک شخص بھی یہ بتانے میں ناکام رہا کہ کیا دو سال سے مشعال کی گستاخانہ باتوں کو کسی ادارے کو رپورٹ کیا گیا؟ کیا کسی نے اس کو تبلیغ کی کوشش کی؟ کیا کسی نے یہ سمجھا کہ بن ماں کے، سوتیلی ماں تلے پرورش پانے والا بچہ اے پی ایس کے بعد کسی نفسیاتی الجھن کا شکار بھی ہو سکتا ہے؟ مشعال خان اگر مذہب اور خدا اور دیگر احکام کا منکر تھا، تو کیا وہ ایسی موت کا حقدار تھا؟ ہرگز نہیں۔ ایاز نظامی کیس میں بھی یہی کھلا تھا کہ جب اس کے بچے کی موت بم دھماکے میں ہوئی تھی تو اس کے بعد وہ الحاد کی راہوں پر چل پڑا تھا۔

اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہماری ریاست میں قانون، اداروں اور خود ریاست پر اعتماد کس حد تک ختم ہو چکا ہے۔ سبق ملتا ہے کہ مذہب کے نام پر شدت اس انتہا تک پہنچ چکی کہ کسی ایک گروہ کی میراث نہیں رہی۔ مارنے والے اچھے گھروں کے، تعلیم یافتہ نوجوان تھے جن کی اکثریت باچا خان جیسے عدم تشدد کے پرچارک کی پیروکار ہے۔ اس کے باوجود یہ واقعہ بتاتا ہے کہ من حیث القوم ہم انسانیت کا شرف کھو چکے۔ مشعال خان ملحد تھا تو ذاتی معاملہ ہے، گستاخ تھا تو قانونی۔ ایسے میں ”موب سائیکی“ کے تحت ایک ”عوامی عدالت“ میں الزام، سزا اور اس پر عمل درآمد ایک خوفناک اشارہ ہے ہمارے معاشرے کی صورتحال کا۔ افسوس جو مذہب جانور کو ذبح کرتے ہوئے تکلیف نہ دینے کا حکم دیتا ہے، اسی کے نام پر ایک انسان کو ایسی اذیت سے مارا گیا۔

اس میں سبق ان دوستوں کے لیے بھی ہے جو آزادی اظہار کے نام پر کچھ بھی کہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ صاحبو! معاشرے کچھ حدود و قیود رکھتے ہیں، ایک اکثریتی مذہبی معاشرے میں آپ کچھ بھی کہہ دینے کی آزادی نہیں رکھ سکتے۔ آپ الحاد کو مانتے ہیں، مذہب بیزار ہیں؛ یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ مگر آپ جب اپنے خیالات کو دوسروں کے استہزا کا ذریعہ بناتے ہیں تو دل آزاری کرتے ہیں۔ آپ اسی انتہا پر پہنچ جاتے ہیں جس کا شکار مذہبی طبقہ ہوتا ہے۔ اور ایسے میں ایک وحشی معاشرے میں کوئی بھی ردعمل ممکن ہے۔

جب سے سنا ہے مشعال خان کی والدہ وفات پا چکی ہیں، کچھ سکون آیا ہے۔ زندہ ہوتیں تو آج پھر مر جاتیں مگر بہت تکلیف دہ موت۔

https://daleel.pk/2017/04/14/39211
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بڑھتا ہوا الحاد انتشار کی وجہ –

شاہد یوسف خان

مردان یونیورسٹی میں جو دلخراش واقعہ پیش آیا جس میں درجنوں طلباء نے ایک لڑکے عبداللہ کو قادیانیت کی تبلیغ کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا لیکن انتظامیہ کی مداخلت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ پھر ایک اور نوجوان، جس کا نام مشال خان ہے، سخت تشدد کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ یہ قتل کیوں ہوا؟ یہ تو قانونی اداروں کی تحقیقات کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا لیکن مشال پر یہی الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے توہین رسالت کی تھی۔ کم از کم ان کی فیس بک پروفائل پر تو گستاخی کا کوئی ثبوت موجود نہیں البتہ قوم پرستی و سوشلزم کی حمایت ضرور ملتی ہے جو اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ نوبت قتل تک جا پہنچے۔

گزشتہ چند ماہ سے سوشل میڈیا پر ایسے گستاخان اور ملحدین منظر عام پر آ رہے ہیں جن کے خلاف حکومت نے کارروائی کا اعلان بھی کیا اور چند کو گرفتار بھی کیا لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ گستاخ کون ہیں اور ان چکروں میں کیوں پھنستے جا رہے ہیں؟ میرا کامل یقین ہے کہ کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے تو بھی مار کھائے گا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں تو انبیائے کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں ہو رہی ہیں اور یہ لوگ دندناتے پھر رہے ہیں۔

آج کل منظم انداز سے الحاد کو پھیلایا جا رہا ہے جس کا ہدف تعلیمی ادارے ہیں۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ فکر گاہیں (تھنک ٹینکس) کام کر رہے ہیں جن کو خفیہ ہاتھوں کی طرف سے امداد بھی موصول ہو رہی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ناانصافی عام ہو اور قوانین کا اطلاق کمزور ہو، جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہو اور اپنی خواہشات کی عدم تکمیل کی وجہ سے مذہب اور رائج نظریات سے بغاوت پر اتر آئے، وہاں یہ آگ بھڑکانے والوں کو کھیلنے کے لیے میدان مل جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہےکہ زیادہ تر پڑھا لکھا طبقہ ہی الحاد میں لتھڑا ہوا دکھائی دیتا ہے، وہ بھی عام پڑھا لکھا نہیں بلکہ یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد یہاں تک کہ مدرسوں کے فارغ التحصیل بھی اس چنگل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ میں چند ایسے افراد کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو اپنی ناکامیوں یا نظام کی خامیوں کا الزام حکومت کے بجائے مذہب پر دھرتے ہیں اور یوں اس اندھی راہ پر نکل جاتے ہیں۔ اس وقت تعلیمی و صحافتی اداروں میں خاص قسم کے گروہ موجود ہیں جو موجودہ نظام کو ناقص قرار دے کر اس کا ملبہ مذہب پر ڈالتے ہیں اور ان کا سب سے آسان راستہ بائیں بازو کی سیاست ہے۔ اس کے ذریعے وہ نوجوانوں کو قوم پرستی پر اکساتے ہیں اور اگر وہاں سے کامیابی نہ ملے تو سوشلزم اور کمیونزم کے فلسفوں کی آڑ میں الحاد تک پہنچاتے ہیں۔ جتنی بھی قوم پرست جماعتیں یا بائیں بازوں کی سیاسی تنظیمیں ہیں، بظاہر تو پرچار سوشلزم کا کرتی ہیں لیکن اس کی آڑ میں الحاد ہی پھیلایا جاتا ہے۔

اس صورت حال میں سب سے زیادہ قصور ہماری حکومتی نظام ہے۔ انصاف وقت پر نہیں ملتا اور غریب اور امیر کے لیے یکساں نہیں ہے۔ وزیروں کی اربوں کھربوں کی کرپشن پر کیس بھی بن جائیں تو فیصلے نہیں ہوتے جبکہ غریبوں کو جیب تراشی پر بھی سزا دی جاتی ہے۔ نظام تعلیم میں بھی طبقاتی تقسیم پائی جاتی ہے۔ تعلیم یافتہ بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ذہنی بے سکونی بڑھ رہی ہے جو مذہبی انتہا پسندی اور الحاد دونوں کے پھیلنے کا سبب ہے۔ ہمارا نوجوان طبقہ فسادی و الحادی قوتوں کے لیے چارہ بنا ہوا ہے۔

اب تازہ ترین واقعے پر مذہب بیزار طبقہ ایک مرتبہ پھر بیدار ہو چکا ہے اور توہین رسالت کے قانون پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ اس پاکستان میں جہاں ڈکیت اور چور پکڑ لیے جائیں تو سر بازار زندہ جلا دیے جاتے ہیں، وہاں کوئی انگلی نہیں اٹھاتا لیکن اس طرح کے واقعات پر قانون منسوخ کرنے کی بات کی جاتی ہے حالانکہ دونوں قسم کے واقعات کی کڑیاں نظام کی خرابی سے جا ملتی ہیں۔

خدارا! حکومت اب تو ہوش کے ناخن لے، صورت حال بہت خطرناک ہو چکی ہے اور ملک میں امن عامہ کے درپے ہو سکتی ہے۔ اس لیے الحاد کا راستہ روکنے کے لیے حکومت اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے اور بہترین حل یہی ہے کہ توہین رسالت کے قانون کو باقاعدہ نافذ کیاجائے اور اس کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ دوسری جانب نوجوان نسل کو الحاد اور ایسے ہی تاریک فلسفوں کی گمراہی سے نکالنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں جس کے لیے بہترین راستہ باعزت روزگار اور انصاف کی فراہمی ہے۔

https://daleel.pk/2017/04/14/39190
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مبینہ گستاخِ رسولﷺ کا قتل اور چند حقائق


محمد بلال خان

توہینِ رسالتﷺ کے الزام میں قتل ہونے والے مشال خان کو لے کر انسانیت مافیا ایک دفعہ پھر سرگرم ہے، ایک دفعہ پھر اعتدال کا درس گونجنے لگا ہے، اور اللہ لمبی عمر عطاء کرے "قانون" کو ، جو حسبِ سابق توہینِ رسالتﷺ کے معاملے میں دوبارہ سے زندہ و جاوید ہو کر جنم لے بیٹھا ہے۔

صاحبانِ ذی وقار ! ہم خطاکار، گنہگار، سیاہ کار تمام تر کوتاہیوں کے باوجود دو معاملات پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرسکتے ، ایک ایمان، دوسرا ایقان، ایک عقیدے پر ، دوسرے اپنے تیقن پر، جس کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ سے دوٹوک مؤقف بیان کرنی کی عادت ہے، بھلے وہ کسی کو بھائے اور اسے سلگھائے، مگر کل سے جس طرح کے خیالات اور پوپیگنڈے کا سیلاب امڈ آیا ہے، اسے دیکھ کر ضرورت محسوس کی کہ جذباتیت یا دو ٹوک مؤقف پر ڈٹے رہنے کے ساتھ ساتھ چند وجوہات اور اعتراضات یا مشال خان کی وکالت میں پیش پیش انسانیت کے علمبرداروں کے پروپیگندے کا مثبت جواب دیا جائے۔

سب سے پہلے تو خدا واحد شاہد ہے کہ کل جس وقت نیوز ایڈٹنگ کرتے ہوئے خبر نظر سے گزری تو یہی سمجھا کہ کہ یونیورسٹی میں دو طلباء گروپوں میں تصادم ہوا ہے، جس میں 5 زخمی اور ایک "جاں بحق" ہوگیا ہے، اس وقت تک صورتحال واضح نہ تھی اور اسے تصادم ہی سمجھا جارہا تھا، تب اسے بھی پنجاب یونیورسٹی طرز کا تصادم سمجھ کر میں نے لفظِ "جاں بحق" کو جانے دیا، اور سکرین پر وہ ٹکڑا جوں کا توں چلایا گیا، لیکن جب بعد میں دیکھا اور مزید معلومات لیں کہ اس پر ایک تحقیقی رپورٹ بناسکوں تو پتہ چلا کہ وہ طالب علم توہینِ رسالتﷺ میں مارا گیا ہے، کچھ دیر کی ریسرچ کے بعد وہ بھیانک ویڈیو سامنے آئی جس میں ڈنڈوں سے پیٹا جارہا تھا، اور اس کے بعد ایک اور بھیانک ویڈیو جو اللہ جانتا ہے میں مکمل نہیں دیکھ سکا، کہ جہاں اسے برہنہ کرکے پیٹا گیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں نے ہلاک شدہ "بے چارے مظلوم" مشال خان کے متعلق مزید کھوج لگائی تو موصوف دہریت سے لتھڑے خیالات کے حامل نکلے، سال ڈیڑھ قبل سے لے کر اب تک ان کی آئی ڈی اور پیج پر چھان مارا، اللہ واحد شاہد ہے کہ وہی خیالات، وہی پراگندہ سوچ اور طنز و تشنیع جو فیس بک کے نامور ملحدین ایاز نظامی، امجد حسین، مولوی بشیر استرا، اور ملا منافق جیسے گستاخ اکاونٹ کا وطیرہ تھا، مشال خان اے این پی سے تعلق رکھتا تھا، اور باچاخان ااور گاندھی کو آئیڈیل مانتا تھا، اے این پی کے رہنماؤں کے ساتھ اس کی تصاویر بھی موجود ہیں، جبکہ بہت سے لوگوں کے مطابق وہ "بے چارہ" تھا، لیکن میرے خیال میں اسے بے چارہ سمجھنے والے لوگ ہی دراصل یا تو بے چارے ہیں، جنہیں دہریت کے طریقہ وارات کی خبر نہیں، یا تو وہ غیراعلانیہ دہریئے اور ان کے سہولت کار ہیں، جو لوگ انجانے میں مشال خان کو معصوم یا مظلوم سمجھ رہے ہیں ، دراصل یہ ان کی سادگی، رحمدلی اور نزاکت ہے کہ وہ گستاخانِ رسولﷺ کی چالیں اور ان کے کوڈ ورڈز نہیں سمجھتے، جو احباب سوشل میڈیا پر ردِالحاد اور ردِ دہریت پر کام کررہے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ ایسے مشکوک افراد کی آئی ڈی پر ایک ہی نظر کافی ہوتی ہے سمجھنے کیلئے، جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ موصوف کن خیلات کا حامل ہے، اب مشال خان کے قتل پر بات کی جائے تو سب سے پہلے میں اللہ کے حضور معافی مانگتا ہوں، سیدالکونینﷺ کی بارگاہ میں نادم ہوں کہ توہینِ رسالتﷺ کے ملزم کو ہلاک لکھنے کے بجائے "جاں بحق" لکھا، اور اپنی اس غلطی پر میں احتیاطاً دوبارہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنی تسلی کیلئے تجدید ایمان کرچکا ہوں، جو لوگ اس موضوع پر ہمارے مؤقف سے واقف ہیں وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم اس معاملے کی حساسیت کے مقابلے میں باقی کسی شئے کو اہمیت نہیں دیتے، اب دوسری بات یہ ہے کہ کیا کیا مشال خان واقعی گستاخِ رسولﷺ یا اہانتِ مذہب کا مرتکب تھا ؟ تو جناب درجنوں ایسے ثبوت سوشل میڈیا پر گردش کررہے ہیں کہ جہاں موصوف کے تبصروں اور مختلف پوسٹس میں نہ صرف پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ کی شان میں بدترین مغلظات بکی گئی ہے، بلکہ وہی روایتی دہری انداز میں اسلام اور نبی محترمﷺ پر تنقید اور اعتراضات کئے گئے ہیں، بلکہ ایک جگہ مقتول نے قرآن مجید کو "تھیوری" تک کہہ دیا، اور یہ تھیوری والا کمنٹ موصوف نے 15 فروری 2016 کو کیا، اسیی گفتگو میں وہ اقرار کررہا ہے کہ اس نے روس میں ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ہے، وہ سوشلسٹ ہے، کیمیونزم پر بھی یقین رکھتا ہے اور مذہبیت کو نہیں مانتا ، بلکہ مذہب کو دہشتگردی مانتا ہے، اسی دوران اس نے جنت کے بارے میں نازیبا کمنٹس لکھے جو کہ شعائرِاسلام اور اللہ کے وعدوں کی توہین ہے۔

جنت کو عیاشی کا مرکز اور باقی بھی ایسے مغلظات کہ جسے دیکھنے کے بعد کم از کم کوئی کلمہ گو مسلمان اسے مسلمان تسلیم نہیں کرسکتا، میرے پاس وہ سکرین شاٹس موجود ہیں، جس مختلف موبائلز سے لئے گئے ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ مختلف موبائلز میں فونٹ مختلف ہوتا ہے، اور سکرین شاٹ میں اوپر درج وقت اور موبائل کی بیٹری کی پرسنٹیج سے پتہ چل جاتا ہے کہ مختلف ڈیوائسز سے سکرین شاٹس لئے گئے، بہت سے سکرین شاٹس کمپیوٹر سسٹم سے بھی لئے گئے ہیں، گویا اس شخص کے اسلام مخالف اور توہین آمیز نظریات کے جو ثبوت تاحال منظرِ عام پر آئے ہیں، وہ کسی بھی سورت اتنے معمولی نہیں کہ نظر انداز کیا جائے، اب انہی سکرین شاٹس کے ساتھ موصوف کی آئی ڈی کی ایک پوسٹ بھی گردش کررہی ہے جو 24 دسمبر 2016 کو کی گئی ہے، جس میں موصوف نے کہا کہ کچھ لوگ اس کی تصویر لگا کر اسی کے نام کی فیک آئی ڈی بنا کر لوگوں کو غلط میسجز کررہے ہیں، اور اس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں، اس پوسٹ میں موصوف ایک لڑکی کے اکاؤنٹ کا بھی ذکر کرتے ہیں، جس کے متن سے صاف ظاہر ہے کہ وہ دوستوں کی آپس میں کی گئی شرارت یا مذاق کے بارے میں بتا رہا ہے، نہ کہ یہ بتا رہا ہے کہ اس کے اکاؤنٹ سے توہینِ رسالتﷺ یا اسلام مخالف مواد شائع کیا جارہا ہے، بلکہ اس نے "ٹیکسٹ" کا لفظ استعمال کیا، جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ اس نے انباکس میسج کو ہی کہا، اور یہ بات کوئی انہونی بات نہیں کہ دوست ایک دوسرے کو یا لڑکیوں کے فیک اکاؤنٹس سے ایک دوسرے کو تنگ ، یا مذاق وغیرہ کرتے رہتے ہیں، جو کہ بہرکیف ایک غیر اخلاقی کام ہے، لیکن یہاں مشال خان کسی بھی صورت یہ نہیں کہہ رہے کہ اس کے نام کا فیک اکاؤنٹ توہینِ مذہب کررہا ہے، اور نہ ہی اس پوسٹ پہ مشال خان نے کسی فیک اکاؤنٹ کا کوئی سکرین شاٹ یا لنک دیا کہ جسے دیکھ کر کہا جاسکے کہ واقعی کسی نے فیک اکاؤنٹ بنا لیاہو، جبکہ دوسری جانب جس اکاؤنٹ سے مشال خان نے دوسرے فیک اکاؤنٹ کا ذکر کیا ، اسی اکاؤنٹ سے وہ مختلف فیس بک گروپس میں دہریوں اور ملحدین کے ساتھ ان کی حمایت میں اسلام مخلاف مواد میں ساتھ شامل رہے، جبکہ اسی آئی ڈی سے کئے گئے ک کچھ ایسے کمنٹس جو اس پوسٹ سے کافی عرصے قبل کئے گئے ہیں، بھی اسی آئی ڈی سے ہیں، کیونکہ کمنٹ پر درج نام "مشال خان" پر کلک کرنے وہی پروفائل کھلتی ہے، جس میں مشال خان نے اپنی آخری پروفائل پکچر گزشتہ اتوار کو تبدیل کی ہے، یہ کچھ ٹیکنیکل اور عام فیس بک صارف کی سمجھ میں بھی آسانی سے آنے والی باتیں ہیں، جس کیلئے کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، جبکہ ایک اور سکرین شاٹ گردشن کررہا ہے جس میں مشال خان 3 اکتوبر 2014 میں "تاجدارِ حرم ہو نگاہِ کرم " نعت شریف کی دو سطور کمنٹس میں لکھ رہا ہے، اور اس نے ایک مصرع : "سخت مشکل میں ہیں " کو "ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے، آگے طوفان ہے، پیچھے بجلیوں کا ہے ڈر، سخت مشکل ہے حالات گزر جائیں گے" کا کمنٹ رومن ارود میں کیا جو موصوف نے ایک دوست سے بات چیت یا گپ شپ کے دوران کیا، جس میں اس کا ساتھی پشتو ٹپے لکھ رہا ہے اور مشال نے یہ لکھا ، اب اس کمنٹ کو لیکر ہماری لبرل لابی اور وہ لوگ جو ہمیشہ کسی بھی کام کو اسلام کے کھاتے میں ڈال کر اسلام کو بدنام کرنے کا ٹھیکہ لئے ہوئے ہیں، وہ جگہ جگہ لیکر گھوم رہے ہیں کہ دیکھو جی عاشق تھا، نعت کے بول لکھ رہا تھا، مار دیا۔۔۔۔۔ اب مجھے ان سکرین شارٹ پر دو اعتراضات ہیں، اول تو ایک بڑا چبوت یہ ہے کہ جس سکرین شاٹ میں نعت کے بول لکھے ہیں، اس میں نظر آنے والی پروفائل پکچر عین وہی ہے جو گستاخانہ کمنٹس میں نظر آرہی ہے، جبکہ یہ بتایا گیا کہ اس نے یہ کمنٹس کس ضمن میں کہے ؟ آیا 2014 تک مشال خان کے نظریات اس قدر گستاخانہ نہیں تھے اور وہ تب بات چیت میں نعد کے بول کا ذک رکرہا تھا، یا پھر دیگر ملاحدہ کی طرح نعت اور قرآنی آیات کا مذاق اڑانے کے مصداق اسے نعت شریف کا بھی مذاق اڑا رہا تھا، اگر آپ اس سکرین شاٹ کو غور سے دیکھیں گے تو اپ کو بہت کچھ بآسانی سمجھ آجائے گی، اب یہاں لبرل لابی اور توہینِ رسالتﷺ کے معاملے میں یکدم بیدار ہونے والے دانشوروں نے شوشہ چھوڑا کہ جناب فیک شاٹس بنائے گئے ہیں تو سب سے ان سے پوچھا جائے کہ جب آپ نعت کے بول والے طنزیہ سکرین شاٹ کو پیش کرکے اس کی سفائی دے رہے ہیں، اور اس کی فیک آئی ڈی والی پوسٹ کو لیکر اسلام کو گالیاں دے رہے ہیں تو کیا اسی پروفائل، پکچر اور اسی اکاؤنٹس سے کی گئی درجنوں متازع پوسٹس جو 2015، 16 اور اس کے بعد کی گئیں، جن کے لنکس بھی موجود ہیں کیا وہ سب متنازع ہیں ؟ یا وہ جعلی ہیں۔۔۔۔ ؟ آپ کس بنیاد پر اتنے سارے حقائق کو جھٹلا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹ ہے ۔۔۔۔؟

اب آخری اور حتمی بات سن لیجئے، کیا اس طرح سے مشال خان کا قتل جائز تھا ؟ یا اس کی گستاخیوں پر قانون کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا، اور اس کے قاتل ہیں کون ؟ تو سب سے پہلے زہن نشین رہے کہ مشال خان کا اپنا تعلق اے این پی اور پشتون سٹوڈنٹس فیدریشن سے تھا، جبکہ اسی پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلباء کے ہاتھوں مشال خان کو قتل کردیا گیا ہے، پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ذمہ دار کاشف خان صافی کو مردان یونیورسٹی کے ذمہ داران نے میسج کرکے حالات سے آگاہ کیا ، جس میں پی ایس ایف کے ایک عہدیدار مہران خان نے اپنے ذمہ دار کاشف صافی کو بتایا کہ صدر صاحب ! مشال خان کبھی کہتا تھا میں خدا ہوں (العیاذ باللہ) کبھی نبی کریمﷺ کو گالیاں دیتا تھا، میں اسے جانتا تھا، وہ میرے ساتھ فیس بک پہ بھی ایڈ تھا، مہران خان نے اپنے صدر کاشف صافی کو مزید بتایا کہ مشال خان گالیاں دے کر چھپ گیا تھا اسے تلاش کر پ ایس ایف کے لڑکوں نے 10 فائر مارے، اس کے بعد 7 سے 800 افراد کے درمیان اسے سگنسار کیا گیا، جبکہ ایک اور کارکن یا عہدیدار کاشف جواد نے کاشف صافی کو بتایا کہ " صدر صاحب (کاشف صافی)! اس (مشال) کے مرگ پر خفت کا اظہار مت کرنا، کیونکہ یہ شخص اللہ اور رسول کو گالیاں دیتا تھا، کبھی کہتا تھا میں خدا ہوں، کبھی کہتا تھا قران جھوٹ ہے (معاذاللہ ) اس کو ماں باپ نے گھر سے اسی وجہ سے عاق کیا ہوا تھا، کام بھی نہیں کرتا تھا، پھر بھی اس کے پاس ہر وقت 40 ، 50 ہزار روپے موجود ہوتے تھے، لگتا ہے قادیانیوں نے سپورٹ کر رکھا تھا" یہ وہ حقائق ہیں جو خود مشال خان کی تنظیم پی ایس ایف کے کارکنان بتا رہے ہیں ، جبکہ پشتوم سٹودٹنس کے مرکزی عہدیدار کاشف صافی نے اپنے فیس بک پیغام میں پشتو میں لکھا ہے ، " جو جو اس گستاخ لڑکے کے مرگ پر افسوس کررہا ہے، وہ اللہ سے ہدایت مانگے ، اللہ سے ڈرے، اور جس مجاہد نے اس کتے کو ٹھکانے لگایا ، اسے میرا سلام " ، جبکہ کاشف صافی نے ایک اور فیس بک پیغام میں "گستاخِ رسولﷺ کی سزا۔۔۔۔ سر تن سے جدا، سر تن سے جدا" کے الفاظ لکھے ہیں۔

اب وہ لوگ جو اس قتل کو "ذاتی رنجش" کو گستاخی کا نام دینے کا پروپینگنڈہ کررہے ہیں، وہ مجھے بتائیں کے بھری یونیورسٹی میں کوئی ایک ایسا شخص نہ تھا کہ جسے مشال سے زاتی رنجش نہ ہو؟ کیا آج انسانیت بھی اس قدر گرچکی ہے کہ سینکڑوں کے مجمعے میں سے کوئی ایک نہ بول سکا کہ یہ بلاو جہ قتل کیا گیا ؟ لیکن اگر سارا ہجموم تماشہ دیکھ رہا تھا، اور ساتھ سنگساری میں شامل بھی تھ ا تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ تقریباً سبھی واقف ہونگے کہ موصوف کے کرتوت ہی ایسے ہیں، لیکن ہماری انسانیت مافیا کو سوائے اپنے، باقی کسی میں انسانیت نظر نہیں آتی، اور ان کی انسانیت کا معیار یہ ہے کہ کل ہی کے روز کراچی میں 15 سالہ میٹرک کی طالبہ سدرہ کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی، گویا وجودِ زن اور انسانیت کو جلا کر راکھ کردیا گیا، لیکن کسی خود ساختہ لبرل یا انسانیت کا رونا رونے والے مبہم مذہبی ہمدردوں کو سدرہ پر ایک آنسو بہانے کی توفیق نہ ملی، کیا سدہ انسانیت کے دائرے سے باہر تھی ، یا انسان نہ تھی، یا اس پر ظلم نہیں ہوا ، مگر مجال ہے کہ کسی نے نام لیا ہو، جبکہ اسی رات بہادر امریکا نہ نے افغانستان کے ننگرہار میں بموں کی ماں ، یعنی نان نیوکلئیر بم گرایا ، جس کا حجم 19,000 پونڈ تھا، جس سے کئی کلومیٹر کا علاقہ نیست و نابود ہوگیا، مگر انسانیت وہاں بھی سوئی رہی، لیکن انسانیت جاگی تو مشال پر ، کیونکہ اس کے قتل کیساتھ توہینِ رسالتﷺ کا عنوان لگا ہے، اب اس مافیا کو اس قانون کیخالف ہرزہ سرائی کی کھلی چھوٹ مل چکی ہے، جبکہ انسانیت کے چورن میں توہینِ رسالتﷺ کا معاملہ آجائے تو انسانیت مافیا کی مارکیٹ میں اس پروڈکٹ کا ریٹ اچھا لگتا ہے، اس لئے انسانیت ہمہ تن گوش ہو کر اپنی راتوں کی نیند کھو کر، غم و حزن کی الجھی زلفیں بکھرائے مشال خان کی انسانیت پر ماتم کناں ہے۔

خیر یہ تو روز اول سے ہی ان کا معیار رہا ہے، لیکن بہرکیف کطھ ایسے حقائق جو تاحال سامنے نہ آسکے، وہ اپ کے سامنے لانے کی کوشش کی کہ یہ ہیں قتل تک کے معاملات اور اندرونی حالات جاننے والے افراد کی جانب سے فراہم کردہ معلومات، اب بات کرتے ہیں کہ کیا پی ایس ایف کوئی مذہبی تنظیم ہے کہ جس نے یہ کیا ؟ یا پھر قتل والے روز جن طلباء سے مشال خان نے بحث کی اور اس بحث میں دوبارہ نبی مہربانﷺ کو گالیاں بکیں ، تو وہ طلباء کسی مدرسے کے تھے ؟ یا فائرنگ کرنے ہلاک کرنے والے طلباء کوئی مولی یا جہادی تنظیم کے تھے ؟ بالکل نہیں، یہ وہ جدت پسند نوجوان اور پختون سٹوڈنٹس تھے، جو جتنے بھی ماڈن ہوجائیں، ایمان کے معاملات میں آئیں بائیں شائیں نہیں کرتے، جس کی ایک بڑی مثال اے این پی کے مرکزی رہنماء حاجی غلام احمد بلور بھی ہیں، جو سابق حکومت میں وزیرِ ریلوے تھے اور وزیر ہوتے ہوئے بھی گستاخِ رسولﷺ کا سر تن سے جدا کرنے والے کیلئے ایک لاکھ ڈالر یعنی ایک کروڑ روپے کا علان کئے بیٹھے تھے، جس پر پارٹی نے بیان واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا تو اعلانیہ کہہ دیا کہ دوبارہ اعلان کرتا ہوں کہ نہ سرف انعام دوں گا، بلکہ زمین او ر جائیداد بھی دوں گا، تو میرے عزیزو! پاکستان میں اے این پی ایک لبرل اور سوشلسٹ جماعت سمجھی جاتی ہے، لیکن ایمان اور عشق کا معاملہ ہر فرد کا منفرد ہے، پختون سٹوڈنٹس کے بیچ انہی کے سامنے جب کائنات کی مقدس ترین ہستی اور ان کے ایمان کے محور جنابِ محمد رسول اللہﷺ کو مغلظات بکی جائیں تو پھر ایسے معاملات میں عدالت کورٹ اور کچہری تک پہنچنے سے قبل ہی عوامی عدالت کے فیصلے کی نذر ہوجاتے ہیں۔

اب یہاں ایک ہی پوائنٹ پر بات ہوسکتی ہے کہ کیا گستاخِ رسولﷺ کو سزائے موت دینے کا حق افراد کے پاس ہے ؟ تو جواب ہے نہیں، لیکن اسی جواب میں ایک سوال ہے کہ کیا ریاست نے آج تک تاریخ میں کسی ایک گستاخِ رسولﷺ کو سزائے موت دی ؟ یا قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمیشہ گستاخوں کو بچانے کیلئے ہی قانون متحرک ہوا ؟ اگر آپ کی عدالتیں، ریاست اور حکومت گستاخوں کو تحفظ اور گستاخوں کیخلاف متحرک لوگوں کو سولی چڑھاتی رہے گی پھر آپ عوام سے کیا شکوہ کرینگے، اسی لئے تو جب اسلام آباد کا جج چیخ رہا تھا کہ یہ معاملہ عوام کی عدالت میں چلا گیا تو ملک میں آگ لگ جائے گی، لیکن حرام ہے کہ ریاست نے کسی ایک مجرم کو لٹکایا ہو، بلکہ سالوں قبل قید میں موجود آسیہ مسیح سمیت کئی گستاخوں کو پال پوس کر رکھا ہوا ہے، یہی وہ چیز ہے جو لوگوں کا عدالتوں اور ریاست سے اعتماد کھو دیتی ہے، جب عدالتیں اعلانیہ گستاخیاں کرنے والوں کو دھیل دیں اور ریاست انہیں محفوظ راستہ فراہم کرتی جائے تو پھر عشق کے فیصلے خود ہوجایا کرتے ہیں، آپ کو میری بات سے لاکھ اختلاف ہوسکتا ہے، آپ اپنی رائے میں آزاد ہیں، اور میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے میں آزاد ہوں، اس لئے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ جس طرح اس لڑکے کی لاش کو برہنہ گھسیٹا گیا، اس حد تک چلے جانا "نامناسب" ہے، کیونکہ آج تک سیدالکونینﷺ کی گستاخیوں پر مغربی غلام اور گستاخوں کے حمایتی حد کرجاتے تو یہی کہتے کہ توہین "نامناسب" ہے، اسی لئے انہی کا لفظ ان کو لوٹایا جارہا ہے کہ توہین کے الزام میں اس طرح برہنہ لاش کو گھسیٹنا بھی "نامناسب" ہے، امید ہے آپ کو اپنے الفاظ واپس ملتے ہوئے شرمندگی یا تکلیف نہیں ہوگی،

باقی اگر میرے سامنے کوئی گستاخی کا مرتکب ہوجاتا تو یقیناً میرا بھی فیصلہ وہی ہوتا ، جو کعب بن اشرف ملعون کے معاملے میں رسول اللہﷺ کا فیصلہ تھا، مگر پھر بھی کہوں گا کہ تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں اور تحقیقات کی تکمیل تک اگر یہ فقط الزام ہے تب بھی مذمت کو بھی کفر سمجھتا ہوں، جب تحقیقات مکمل ہوجائیں اور وہ لڑکا بے قصور ٹھہرے پھر میں ہی سب سے پہلے قاتلوں سے اسی انداز میں قصاص لینے کا مطالبہ کروں گا، اور ان کی حقائق سامنے آنے سے قبل مذمت نہ کرنے کی وجہ سے مجھے قانون جو سزا دے گا، سر آنکھوں پر رکھ کر تسلیم کروں گا، لیکن قبل از وقت ایک گستاخ یا مبینہ گستاخ کو سزا دینے پر مذمت کرکے اپنا ایمان داؤ پہ نہیں لگا سکتا، کیونکہ انسانیت میں سب سے معتبر اگر کوئی ہے تو وہ محمد رسول اللہﷺ ہے، جب آپﷺ کی ناموس سلامت نہیں رہ سکتی تو کسی گستاخ کو بھی سلامت رہنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔۔ یہی میری جانب سے حرفِ آخر ہے۔

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرےہیں

(محمد بلال خان)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس حیوان نما انسان کا اس انداز سے قتل ، اس بات کی دلیل ہے ، معاشرےمیں غیرتمند لوگ موجود ہیں ۔ جو جس قدر بھی لبرل ہوں ، لیکن وہ خدا ، رسول ، قرآن پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرسکتے ۔ مارنے والوں نے جو کیا ، یہ فطرت اور غیرت کا تقاضا تھا ، قصور وار خود مرنے والا ، اور وہ انتظامیہ ہے ، جس نے جنگل میں رہنے کے لائق اس حیوان کو انسانوں کے معاشرے کھلے عام چھوڑا ہوا تھا ۔
اگر واقعتا کوئی گستاخ خدا و رسول ہے ، ایسا شخص جہاں ملے ، انجام تک پہنچانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ، دنیاوی قوانین کی رو سے مجرم بھی ٹھہرے ، اللہ کے ہاں سرخرو ہوں گے ۔ إن شاء اللہ ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ہم نے پچھلے پندرہ سال میں اتنا ظلم اور اتنی لاشیں دیکھی ہیں کہ یہ معاشرہ کافی حد تک بےحس ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود کل سے آپ کو سوائے ان کے کہ جو خون کی بو سے نفسانی تسکین پاتے ہیں، ہر شخص کو ایک صدمے کی حالت میں دیکھیں گے۔ یہ صدمہ کسی کے ساتھ نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے نہیں ہے، مشعل خان کی جگہ نوفل ربانی، وجاہت مسعود یا کوئی اور بھی ہوتا، آپ پوری قوم کو اسی طور صدمے میں پاتے۔ اس لیے کہ کل کے واقعہ نے ہمارا خود پر سے، ایک انسانی معاشرے ہونے پر سے یقین اٹھا دیا ہے۔

اس حیوان نما انسان کا اس انداز سے قتل ، اس بات کی دلیل ہے ، معاشرےمیں غیرتمند لوگ موجود ہیں ۔ جو جس قدر بھی لبرل ہوں ، لیکن وہ خدا ، رسول ، قرآن پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرسکتے ۔ مارنے والوں نے جو کیا ، یہ فطرت اور غیرت کا تقاضا تھا ، قصور وار خود مرنے والا ، اور وہ انتظامیہ ہے ، جس نے جنگل میں رہنے کے لائق اس حیوان کو انسانوں کے معاشرے کھلے عام چھوڑا ہوا تھا ۔
اگر واقعتا کوئی گستاخ خدا و رسول ہے ، ایسا شخص جہاں ملے ، انجام تک پہنچانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ، دنیاوی قوانین کی رو سے مجرم بھی ٹھہرے ، اللہ کے ہاں سرخرو ہوں گے ۔ إن شاء اللہ ۔
اس سب کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا مقدمہ عدالت میں جانا چاہیے تھا، وہ ان شواہد کے حقیقی ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرتی، مشتعل ہجوم کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ توہین رسالت ہوئی ہے؟
اس کے ساتھ ہم پاکستان کے نظام انصاف اور حکومت کو ان واقعات کا حقیقی قصوروار سمجھتے ہیں. حکومت کی روش لوگوں کے اس رد عمل کا سبب بنی. اس کے علاوہ عدلیہ بھی اس میں برابر کی قصور وار ہے.

محترم بھائیو اوپر آپ بلال خان کی ایک تحریر ہے اس میں اس قتل کے بارے تقریبا ہر ہر اعتراض کا جواب بہترین لکھا گیا ہے اللہ جانتا ہے کہ گستاخ رسول ﷺ کے بارے کوئی فاسق سے فاسق مسلمان بھی کمپرومائیز نہیں کر سکتا
البتہ ایک اعتراض بہت بڑا کیا جا رہا ہے کہ
کیا اس طرح پھر مولویوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ جس پہ الزام لگا کر قتل کر دیں


تو پیارے بھائیو یہی ان منافقوں کی سب سے بڑی تلبیس ابلیس ہے کیونکہ یہ منافق قسم کے لوگ خود اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ
یہ قتل عام قتل کے لئے کھلی چھٹی کی دلیل کبھی نہیں بن سکتا

دیکھیں آپ نے اکثر لوگوں کو میڈیا پہ (کچھ عرصہ پہلے تک) فوج کے خلاف باتیں کرتے سنا ہو گا کہ جی بنگال میں اور فلاں فلاں جگہ پہ انہوں نے بغیر قانون و عدالت کے لوگوں کو قتل کر دیا اسی طرح ایجنسیوں کے بارے بھی کہا جاتا رہا کہ لوگوں کو اٹھا لیتی ہیں اور انکو عدالت میں پیش نہیں کرتیں تو کیا ان کیسز پہ کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ جی پھر تو ہر کسی کو کھلی چھٹی دے دی جائے
نہیں ایسا کوئی نہیں کہتا کیونکہ وہ بہت حساس معاملات میں ایسا کرتی ہیں
اور اب تو آپ نے دیکھ لیا کہ خود پارلیمنٹ بھی کہتی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جنکو عام عدالتوں میں نہیں بلکہ صرف فوجی عدالتوں میں لے جانا چاہئے
اسی طرح بہت سے ایسے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد ہیں جن پہ پوری قوم متفق ہے کہ انکو عدالتوں میں نہیں پیش کرنا چاہئے بلکہ ان کو ویسے پہ پار کر دینا چاہئے کیونکہ ایسے دہشت گردوں کے خلاف ثبوت اتنے نہیں ملتے کہ وہ قانون کے لحاظ سے سزا پا سکیں
تو بھائیو پھر یہی حال یہاں کیوں نہیں جبکہ عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے سارے ادارے ان کی روک تھام نہیں کر رہے جیسا کہ اوپر بھائیوں نے تفصیل بتائی ہوئی ہے
پس پیارے بھائیو جس طرح ملک کے خطرناک لوگوں پہ کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ انکو قانون کے ذریعے سے ہی سزا ملنی چاہئے اور یہ لوگوں کو غائب کرنا قانون یا انصاف کا قتل ہے بالکل اسی طرح یہ بات بھی یاد رکھ لیں کہ ہمارے پیارے رب اور ہمارے پیارے نبی ﷺ اور ہمارے دین اسلام کے مقابلے میں یہ ملک پاکستان اتنی بھی وقعت بھی نہیں رکھتا کہ جتنی ایک قطرہ کو پورے سمندر سے ہے پس اسکے لئے بھی عام اصول نہیں ہوں گے واللہ اعلم
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
اس حیوان نما انسان کا اس انداز سے قتل ، اس بات کی دلیل ہے ، معاشرےمیں غیرتمند لوگ موجود ہیں ۔ جو جس قدر بھی لبرل ہوں ، لیکن وہ خدا ، رسول ، قرآن پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کرسکتے ۔ مارنے والوں نے جو کیا ، یہ فطرت اور غیرت کا تقاضا تھا ، قصور وار خود مرنے والا ، اور وہ انتظامیہ ہے ، جس نے جنگل میں رہنے کے لائق اس حیوان کو انسانوں کے معاشرے کھلے عام چھوڑا ہوا تھا ۔
اگر واقعتا کوئی گستاخ خدا و رسول ہے ، ایسا شخص جہاں ملے ، انجام تک پہنچانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے ، دنیاوی قوانین کی رو سے مجرم بھی ٹھہرے ، اللہ کے ہاں سرخرو ہوں گے ۔ إن شاء اللہ ۔
محترم مشال خان نے گستاخی کری یہ بات ابھی تک ثابت نہیں ہوئی ہے
آپ ادھر پڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی پڑھے آپ کہ اس کو بلیک میل کیا جاتا تھا لنک جب تک کوئی مظبوط دلیل نہیں مل جاتی کہ اس نے گستاخی کری یا نہیں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور آپ بھی لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لوگ گستاخ کہہ کر اپنے مفاد یا دشمنی کے لئے قتل کردیتے ہیں ایک دوسرے کو میرا دل کافی ہرٹ ہوا آپ کے اس جواب سے کیونکہ آپ عالم دین ہوکر بغیر تحقیق کے ایسی بات کہہ رہے ایک شخص کے بارے میں مجھے کوئی ہمدردی نہیں کسی گستاخ سے لیکن ایسے بے دلیل کسی کو بھی گستاخ کہنا درست نہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
مشعال خان مجھ آپ جیسا ایک عام مسلمان تھا،
1-دسمبر دو ہزار چودہ تک۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد اچانک اس نے خدا بیزاری کا اظہار شروع کر دیا۔ وہ سرعام کہتا تھا کہ اگر کوئی خدا ہوتا تو ایسے معصوم بچوں کر مرنے کیسے دیتا۔
1-یہی دلیل ٹی ٹی پی والے بناتے ہیں کہ جامعہ حفصہ کے واقعے کے بعد ہی ہم نے دھماکے شروع کیے ہیں اور اپنی تائید میں وہ جنرل شاید عزیز کا انٹرویو بھی لگاتے ہیں کیسی جاہلانہ باتیں یہ لبرل کرتے ہیں


2- اسے الحاد کی طرف دھکیلا کس نے؟کیا اس کی اسلام سے دوری کی وجہ نام نہاد مسلمان ہی نہیں بنے؟
اس طرح تو کہا جا سکتا ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو خودکش بمبار کس نے بنایا کیا بھائی جان کسی کے غلطی میں وسیلہ کوئی بھی بن سکتا ہے وسیلہ پہ بات علیحدہ ہو گی اور اس غلطی پہ بات علیحدہ ہو گی وسیلہ کو دلیل بنا کر انکو معصوم نہیں کہا جا سکتا جس طرح خود کش بمبار کو اس وجہ سے معصوم نہیں کہا جا سکتا کہ اسکی بہن جامعہ حفصہ میں مار دی گئی

3-مجھے کوئی ایک شخص بھی یہ بتانے میں ناکام رہا کہ کیا دو سال سے مشعال کی گستاخانہ باتوں کو کسی ادارے کو رپورٹ کیا گیا؟
یہ رپورٹ تو کب سے کیا جا رہا ہے اور کچھ دنوں سے تو خود انہیں کی عدالت کے ایک جج جناب شوکت عزیز نے خود طوفان مچایا ہوا تھا مگر اداروں کو رسول اللہ ﷺ اور دین اسلام کی فکر نہیں بلکہ انکو کرکٹ کے غیر ملکی کھلاڑیوں کی زیادہ فکر ہے اور امریکیوں کے سفارت خانوں کی زیادہ فکر ہے

4-کیا کسی نے اس کو تبلیغ کی کوشش کی؟
کیا کسی نے سلمان رشدی کو تبلیغ کی ہے
کیا غازی علم الدین نے راج پال کو تبلیغ کی تھی کیا بیت اللہ محسود اور مولوی فضل اللہ کو کبھی کسی فوجی نے خود جا کر تبلیغ کی ہے عجیب جاہلانہ مطالبات ہیں ان لبرلز کے

5-کیا کسی نے یہ سمجھا کہ بن ماں کے، سوتیلی ماں تلے پرورش پانے والا بچہ اے پی ایس کے بعد کسی نفسیاتی الجھن کا شکار بھی ہو سکتا ہے؟
کیا جامعہ حفصہ والے یا باجوڑ مدرسہ میں مرنے والے بچوں کے رشتہ دار نفسیاتی الجھ کر شکار نہیں ہو سکتے بالکل ہو سکتے ہیں مگر وہ نفسیاتی الجھ انکے گناہوں کا مداوا نہیں بن سکتی قاتلھم اللہ انا یوفکون اللہ

6-مشعال خان اگر مذہب اور خدا اور دیگر احکام کا منکر تھا، تو کیا وہ ایسی موت کا حقدار تھا؟ ہرگز نہیں
[
کوئی اگر کہے کہ کیا جنہوں نے خالی لائبریری پہ قبضہ کیا تھا تو ایک دو کو یرغمال بنایا تھا تو کیا وہ جامعہ حفصہ والے اس تباہی کے حقدار تھے اگر کوئی جواب میں کہے کہ نہیں انکے جرم اس سے کہیں زیادہ تھے تو یہاں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے جرم بھی بہت زیادہ تھے
البتہ جہاں تک غیر انسانی سلوک سے قتل کرنے اور ننگا کرنے وغیرہ کی باتیں ہیں تو اس پہ ہمارے بھائی بلال خان کی بات ہی بہترین ہے کہ ایسا مناسب نہیں ہے بلال خان کا کمنٹس ملاحظہ ہوں
جس طرح اس لڑکے کی لاش کو برہنہ گھسیٹا گیا، اس حد تک چلے جانا "نامناسب" ہے، کیونکہ آج تک سیدالکونینﷺ کی گستاخیوں پر مغربی غلام اور گستاخوں کے حمایتی حد کرجاتے تو یہی کہتے کہ توہین "نامناسب" ہے، اسی لئے انہی کا لفظ ان کو لوٹایا جارہا ہے کہ توہین کے الزام میں اس طرح برہنہ لاش کو گھسیٹنا بھی "نامناسب" ہے، امید ہے آپ کو اپنے الفاظ واپس ملتے ہوئے شرمندگی یا تکلیف نہیں ہوگی،
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرےہیں

(محمد بلال خان)

HL]7-ایاز نظامی کیس میں بھی یہی کھلا تھا کہ جب اس کے بچے کی موت بم دھماکے میں ہوئی تھی تو اس کے بعد وہ الحاد کی راہوں پر چل پڑا تھا۔
[/HL]
جی اوپر بتایا جا چکا ہے کہ اسی قسم کی دلیل باجوڑ مدرسے میں مرنے والے معصوم بچوں کے والدین اور جامعہ حفصہ میں مرنے والی معصوم بچیوں کے رشتہ دار و والدین بھی دیتے ہیں مگر انکی یہ دلیل آپ قبول نہیں کرتے پس ہم بھی آپکی بات قبول نہیں کرتے
کیونکہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ دلیل درست نہیں کیونکہ کسی کا آپ پہ ظلم کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ آپ بھی ظلم کرنے لگیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم مشال خان نے گستاخی کری یہ بات ابھی تک ثابت نہیں ہوئی ہے
آپ ادھر پڑھ سکتے ہیں اور یہ بھی پڑھے آپ کہ اس کو بلیک میل کیا جاتا تھا لنک جب تک کوئی مظبوط دلیل نہیں مل جاتی کہ اس نے گستاخی کری یا نہیں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور آپ بھی لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لوگ گستاخ کہہ کر اپنے مفاد یا دشمنی کے لئے قتل کردیتے ہیں ایک دوسرے کو میرا دل کافی ہرٹ ہوا آپ کے اس جواب سے کیونکہ آپ عالم دین ہوکر بغیر تحقیق کے ایسی بات کہہ رہے ایک شخص کے بارے میں مجھے کوئی ہمدردی نہیں کسی گستاخ سے لیکن ایسے بے دلیل کسی کو بھی گستاخ کہنا درست نہیں
پیرے بھائی جان ویسے تو اوپر بلال خان بھائی کا مضمون پڑھنے سے پتا چل جاتا ہے کہ اس نے گستاخی کی تھی
پھر بھی میں نے اوپر تفصیل سے لکھا ہے کہ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں پہ ثبوت کو مسخ کر دیا جاتا ہے خصوصا جب پورا میڈیا اور پوری انتظامیہ اسکے خلاف ہو اور وہ اپنے یورپی آقاوں کو خوش کرنا چاہتی ہو جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس والے معاملے میں اور سلالہ والے معاملے میں کیا کیا تبدیلیاں نہیں کی گئیں حتی کہ امریکہ کی طرف سے معافی کے معاملے کو بھی جھوٹ پیش کیا گیا
اب جب فیس بک پہ سب کچھ واضح ہے اور خصوصا ساری جامعہ انکے خلاف تھی اور کسی نے بھی بچانے کی کوشش نہیں کی بلکہ انکی اپنی جماعت کے لیڈر بھی قتل کے بعد بھی قتل کرنے والوں کو اپنے پیج پہ سلام کہ رہے ہیں تو ہم کیوں نہ مانیں
اسکے لئے میں صرف ایک بات کہنا چاہوں گا کہ اگر ہمیں واقعی انصاف پسندی کا مظاہرہ کرنا ہے تو پھر سب سے پہلے لاپتہ افراد کے خلاف جلوس نکالا جائے اور انکے کیسز کو عدالت میں لانے کی بات کی جائے لیکن اگر ہمیں سمجھ آ جاتی ہے کہ نہیں جو لاپتہ افراد ہیں ان کا معاملہ واقعہ ملک کے لئے بہت خطرناک ہے پس انکو عام ثبوت کے تحت سزا دینا ممکن نہیں تو بھائی جان یہی حال ان گستاخوں کا ہے کہ آج تک آسیہ کو اقرار کے باوجود اور عدالت سے سزا پانے کے باوجود سزا تو دے نہیں سکے تو پھر ان گستاخوں کو روکنے کا یہ طریقہ شاید کچھ کام کر جائے
بھائی جان آپ کی بات کا میں انکار نہیں کرتا مگر اپنے دل کی حالت بتا دوں کہ میں اللہ رب العزت اور رسول اللہ ﷺ اور دین اسلام کے بچاو کو ملک پاکستان کے بچاو سے کہیں زیادہ اہم سمجھتا ہوں پس جب پاکستان کے بچاو کے لئے بعض لوگوں کے ساتھ غیر قانونی برتاو جائز سمجھتا ہوں تو ان کے لئے ایسا غیر قانونی برتاو بھی اس سے کہیں زیادہ اہم سمجتا ہوں جب کہ مسئلہ ان اداروں سے حل نہ ہو رہا ہو یا وہ حل نہ کرنے پہ مجبور ہوں جزاکم اللہ خیرا
 
Top