محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
مشعال کا قتل، ناحق یا محبت رسول؟
ابوبکر قدوسی
مجھے یاد ہے جب ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کیا تھا، ہم نے تب بھی لکھا تھا اور آج بھی علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ توہین مذہب کے معاملے میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں.
میں نے اس مقتول کے سکرین شاٹ دیکھے ہیں، بظاہر ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا تھا، اس نے ایک شعر جو اردو کی ایک خاص صنف کا نمائندہ ہے، وہ اپنی وال پر لگایا تھا، جو بظاہر ذومعنی ہوتا ہے. اگر وہ ایسا ذہن نہیں رکھتا تھا تو بھی ایسے ماحول میں اس نے ایسا کر کے خود اپنی موت کو آواز دی.
اس سب کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا مقدمہ عدالت میں جانا چاہیے تھا، وہ ان شواہد کے حقیقی ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرتی، مشتعل ہجوم کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ توہین رسالت ہوئی ہے؟
اس کے ساتھ ہم پاکستان کے نظام انصاف اور حکومت کو ان واقعات کا حقیقی قصوروار سمجھتے ہیں. حکومت کی روش لوگوں کے اس رد عمل کا سبب بنی. اس کے علاوہ عدلیہ بھی اس میں برابر کی قصور وار ہے.
میں اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھ چکا ہوں کہ کیسے ہمارے ہاں توہین رسالت کے قانون کو بطور ہتھیار برتا گیا. بہت سے لوگوں نے عقائد کے اختلاف کی بنا پر توہین رسالت کے مقدمے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر درج کروائے، کہ جو پنج وقتہ نمازی تھے. اب خود سوچیے کہ جو پانچ وقت نماز کا اہتمام کرتا ہو، وہ توہین مذہب یا رسول کرے گا؟
ایسے مقدمات میں بھی عدلیہ کا کردار افسوس ناک رہا. دوسری طرف ایسے واقعات جہاں حقیقت میں توہین ہوئی، وہاں انتظامیہ کا کردار قابل مذمت رہا. کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ آج اگر کوئی اداروں، فوج اور قانون سازوں کے خلاف توہین آمیز یا نفرت پر مبنی پوسٹنگ شروع کر دے تو ہفتوں کیا دنوں تک نامعلوم رہے گا اور اس کی کوئی خبر نہ مل سکے گی کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا، یہاں کہاں پایا جاتا ہے؟ ایسا نہیں ہوگا بلکہ اس کو گھنٹوں میں ٹریس کرکے اٹھا لیا جائےگا. اس کا گھر بار، گلی محلہ سب معلوم ہو جائے گا. لیکن چار برس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فیس بک کی دنیا میں کھلی گالیاں دی گئیں، ان کی ذات پر شرمناک حملے کیےگئے، ان کی نجی زندگی کے بارے میں بےانتہاگھٹیا باتیں کی گئیں، ان کے کارٹون بنائے گئے، لیکن کسی کا سراغ نہ ملا. لوگ چیختے رہے، چلاتے رہے، جب پانی سر سےگذر گیا تب تین افراد کو پکڑا گیا، اور مجرمانہ طور پر ان کو رہا کر دیا گیا. اندھوں کو بھی معلوم تھا کہ وہ محض آزاد خیال نہیں، اس سے بڑھ کے ہیں. وقاص گورایہ نے باہر جا کر اب ان اداروں کو سینگوں پر رکھ لیا ہے. ان کی رہائی پر جب لوگوں کے جذبات برانگیخت ہوئے تب ایاز نظامی کو پکڑا گیا.
ایاز نظامی کی گرفتاری کے بعد بھی کوئی ایک شخص حکومتی اقدام سے مطمئن نہیں ہوا، اور مسلسل اس کو انجام تک پہنچانے کا مطالبہ جاری ہے. سب حکومت کے بارے میں عدم اطمینان اور شکوک شبہات کا شکار ہیں، کہ کوئی دن جاتا ہے کہ ایاز نظامی بھی غیر ملکی ویزے پر باہر بھیج دیا جائے گا.
انہی حکومتی بدعنوانیوں نے عوام کو عدم اعتماد کا شکار کر دیا ہے. مردان کا واقعہ قتل اسی بےیقینی کا شاخشانہ ہے. حیرت ہوتی ہے کہ ہماری حکومتیں اتنے چھوٹے چھوٹے واقعات پر بھی غیر ملکی حکومتوں کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتیں. انسانی تحقیر کی بات نہیں لیکن شیخوپورہ کی آسیہ مسیح کیا بہت بڑی پرسنلٹی تھی یا کوئی غیر ملکی سفارت کار کہ حکومت کے ہاتھ بندھے تھے. حد یہ ہے کہ مقامی عیسائی برادری بھی اس مقدمے میں بہت بڑھ چڑھ کر آگے نہیں آئی، لیکن امریکہ سے دو فون کیا آ گئے، ہمارے حکمران لمبے لیٹ گئے. کوئی نہ تھا کہ جو دو ٹوک انداز میں کہہ سکتا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، آپ اپنی راہ لیجیے. اگر وہ مجرم تھی تو اس کو سزا دی جاتی اور اگر وہ بےگناہ تھی تو عوام کو اعتماد میں لیا جاتا کہ اس مقدمے میں حقائق یوں ہیں. حکومت نے اپنی بزدلی اور ناکردہ کاری سے اس معاملے کو بہت بیچیدہ بنا لیا ہے، لوگوں نے جو قانون ہاتھ میں لیا ہے، اس کی براہ راست مجرم ہماری کم حوصلہ اور نا اہل حکومت خود ہے.
اس واقعے کے دوسرے پہلو سے بھی ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے. وہ یہ کہ قانون کو ہاتھ میں لینا بھی کسی طور درست اقدام نہیں کہا جائے گا. یہ علماء کا کام ہے کہ حکومتی نا اہلی کے باوجود کم از کم اپنے کارکنوں کی ایسی تربیت کریں کہ ایسے مواقع پر آگے آئیں اور بڑھ کر مشتعل لوگوں کو روکیں اور مجرموں کو قتل ہونے سے بچائیں. اس طرح تو ان مجرموں کے پشتیبانوں کے ہاتھ ہی مضبوط ہوتے ہیں کہ جن کا مقصد ہی چند لاشیں حاصل کرنا ہے.
آخر میں لبرلز کے فکری رہنماؤں سے بھی ایک بات کہنا ہے کہ جناب آپ آگ لگا کر، چنگاری دکھا کر دور کھڑے تماشا مت دیکھیے، بھلا آپ کیسے بھی مہذب بنتے ہوں اور خود سے ایسے الفاظ نہ استعمال کرتے ہوں، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ حد سے بڑھی آزاد روی کے بابا جان اور ذمہ دار آپ ہی ہیں. کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آگ آپ کی چوکھٹ تک آ جائے. اس لیے اخلاق کا دامن تھامیے اور حقیقی لبرل بنیے نہ کہ سازشی.
https://daleel.pk/2017/04/14/39253
ابوبکر قدوسی
مجھے یاد ہے جب ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو قتل کیا تھا، ہم نے تب بھی لکھا تھا اور آج بھی علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ توہین مذہب کے معاملے میں کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں.
میں نے اس مقتول کے سکرین شاٹ دیکھے ہیں، بظاہر ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا تھا، اس نے ایک شعر جو اردو کی ایک خاص صنف کا نمائندہ ہے، وہ اپنی وال پر لگایا تھا، جو بظاہر ذومعنی ہوتا ہے. اگر وہ ایسا ذہن نہیں رکھتا تھا تو بھی ایسے ماحول میں اس نے ایسا کر کے خود اپنی موت کو آواز دی.
اس سب کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا مقدمہ عدالت میں جانا چاہیے تھا، وہ ان شواہد کے حقیقی ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کرتی، مشتعل ہجوم کو کیسے اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ توہین رسالت ہوئی ہے؟
اس کے ساتھ ہم پاکستان کے نظام انصاف اور حکومت کو ان واقعات کا حقیقی قصوروار سمجھتے ہیں. حکومت کی روش لوگوں کے اس رد عمل کا سبب بنی. اس کے علاوہ عدلیہ بھی اس میں برابر کی قصور وار ہے.
میں اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھ چکا ہوں کہ کیسے ہمارے ہاں توہین رسالت کے قانون کو بطور ہتھیار برتا گیا. بہت سے لوگوں نے عقائد کے اختلاف کی بنا پر توہین رسالت کے مقدمے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر درج کروائے، کہ جو پنج وقتہ نمازی تھے. اب خود سوچیے کہ جو پانچ وقت نماز کا اہتمام کرتا ہو، وہ توہین مذہب یا رسول کرے گا؟
ایسے مقدمات میں بھی عدلیہ کا کردار افسوس ناک رہا. دوسری طرف ایسے واقعات جہاں حقیقت میں توہین ہوئی، وہاں انتظامیہ کا کردار قابل مذمت رہا. کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ آج اگر کوئی اداروں، فوج اور قانون سازوں کے خلاف توہین آمیز یا نفرت پر مبنی پوسٹنگ شروع کر دے تو ہفتوں کیا دنوں تک نامعلوم رہے گا اور اس کی کوئی خبر نہ مل سکے گی کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا، یہاں کہاں پایا جاتا ہے؟ ایسا نہیں ہوگا بلکہ اس کو گھنٹوں میں ٹریس کرکے اٹھا لیا جائےگا. اس کا گھر بار، گلی محلہ سب معلوم ہو جائے گا. لیکن چار برس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فیس بک کی دنیا میں کھلی گالیاں دی گئیں، ان کی ذات پر شرمناک حملے کیےگئے، ان کی نجی زندگی کے بارے میں بےانتہاگھٹیا باتیں کی گئیں، ان کے کارٹون بنائے گئے، لیکن کسی کا سراغ نہ ملا. لوگ چیختے رہے، چلاتے رہے، جب پانی سر سےگذر گیا تب تین افراد کو پکڑا گیا، اور مجرمانہ طور پر ان کو رہا کر دیا گیا. اندھوں کو بھی معلوم تھا کہ وہ محض آزاد خیال نہیں، اس سے بڑھ کے ہیں. وقاص گورایہ نے باہر جا کر اب ان اداروں کو سینگوں پر رکھ لیا ہے. ان کی رہائی پر جب لوگوں کے جذبات برانگیخت ہوئے تب ایاز نظامی کو پکڑا گیا.
ایاز نظامی کی گرفتاری کے بعد بھی کوئی ایک شخص حکومتی اقدام سے مطمئن نہیں ہوا، اور مسلسل اس کو انجام تک پہنچانے کا مطالبہ جاری ہے. سب حکومت کے بارے میں عدم اطمینان اور شکوک شبہات کا شکار ہیں، کہ کوئی دن جاتا ہے کہ ایاز نظامی بھی غیر ملکی ویزے پر باہر بھیج دیا جائے گا.
انہی حکومتی بدعنوانیوں نے عوام کو عدم اعتماد کا شکار کر دیا ہے. مردان کا واقعہ قتل اسی بےیقینی کا شاخشانہ ہے. حیرت ہوتی ہے کہ ہماری حکومتیں اتنے چھوٹے چھوٹے واقعات پر بھی غیر ملکی حکومتوں کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتیں. انسانی تحقیر کی بات نہیں لیکن شیخوپورہ کی آسیہ مسیح کیا بہت بڑی پرسنلٹی تھی یا کوئی غیر ملکی سفارت کار کہ حکومت کے ہاتھ بندھے تھے. حد یہ ہے کہ مقامی عیسائی برادری بھی اس مقدمے میں بہت بڑھ چڑھ کر آگے نہیں آئی، لیکن امریکہ سے دو فون کیا آ گئے، ہمارے حکمران لمبے لیٹ گئے. کوئی نہ تھا کہ جو دو ٹوک انداز میں کہہ سکتا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، آپ اپنی راہ لیجیے. اگر وہ مجرم تھی تو اس کو سزا دی جاتی اور اگر وہ بےگناہ تھی تو عوام کو اعتماد میں لیا جاتا کہ اس مقدمے میں حقائق یوں ہیں. حکومت نے اپنی بزدلی اور ناکردہ کاری سے اس معاملے کو بہت بیچیدہ بنا لیا ہے، لوگوں نے جو قانون ہاتھ میں لیا ہے، اس کی براہ راست مجرم ہماری کم حوصلہ اور نا اہل حکومت خود ہے.
اس واقعے کے دوسرے پہلو سے بھی ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے. وہ یہ کہ قانون کو ہاتھ میں لینا بھی کسی طور درست اقدام نہیں کہا جائے گا. یہ علماء کا کام ہے کہ حکومتی نا اہلی کے باوجود کم از کم اپنے کارکنوں کی ایسی تربیت کریں کہ ایسے مواقع پر آگے آئیں اور بڑھ کر مشتعل لوگوں کو روکیں اور مجرموں کو قتل ہونے سے بچائیں. اس طرح تو ان مجرموں کے پشتیبانوں کے ہاتھ ہی مضبوط ہوتے ہیں کہ جن کا مقصد ہی چند لاشیں حاصل کرنا ہے.
آخر میں لبرلز کے فکری رہنماؤں سے بھی ایک بات کہنا ہے کہ جناب آپ آگ لگا کر، چنگاری دکھا کر دور کھڑے تماشا مت دیکھیے، بھلا آپ کیسے بھی مہذب بنتے ہوں اور خود سے ایسے الفاظ نہ استعمال کرتے ہوں، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ حد سے بڑھی آزاد روی کے بابا جان اور ذمہ دار آپ ہی ہیں. کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آگ آپ کی چوکھٹ تک آ جائے. اس لیے اخلاق کا دامن تھامیے اور حقیقی لبرل بنیے نہ کہ سازشی.
https://daleel.pk/2017/04/14/39253