انور شاہ راشدی
رکن
- شمولیت
- مئی 01، 2014
- پیغامات
- 257
- ری ایکشن اسکور
- 68
- پوائنٹ
- 77
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ.
شاید اسی سوال کا جواب آپ چاہ رہے ہیں، ویسے اصول مناظرہ کے تحت تو ہمیں آپ سے پوچھناچاہئے تھاکہ کس دلیل کی بنیاد پر آپ سے تحریف قراردے رہے ہیں۔ کیونکہ تحریف کا دعویٰ آپ کاہے اوردعویٰ جس کا ہوتاہے دلیل اسی کے ذمہ ہوتی ہے۔ لیکن چلئے ہم اس سے درگزرکرتے ہیں۔اور کراچی والوں نے کس نسخے کا حوالہ دیا ھے؟
کراچی والوں نے کس نسخے کا حوالہ دیا ھے؟
شیخ محمد عوامہ کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ایک معروف محقق ہیں اور اصول تحقیق سے واقف ہیں ۔میں نہیں سمجھتا کہ ایسے بنیادی اصول جن کو ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے ان سے شیخ عوامہ نا واقف ہوں گے ۔ اور حنفی بھائیوں کی تحریف کا اس قدر دفاع کریں گے ۔شاید اسی سوال کا جواب آپ چاہ رہے ہیں، ویسے اصول مناظرہ کے تحت تو ہمیں آپ سے پوچھناچاہئے تھاکہ کس دلیل کی بنیاد پر آپ سے تحریف قراردے رہے ہیں۔ کیونکہ تحریف کا دعویٰ آپ کاہے اوردعویٰ جس کا ہوتاہے دلیل اسی کے ذمہ ہوتی ہے۔ لیکن چلئے ہم اس سے درگزرکرتے ہیں۔
میرے ذریعہ شیخ محمد عوامہ کا حوالہ دینے پر آپ نے پہلے فرمایاتھاکہ اگرانہوں نے ایساکیاہے تو بہت براکیاہے وغیرہ وغیرہ، پھر بعد میں اس کی تدوین کرکے لکھاکہ میں پڑھ چکاہوں ،چلئے ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ آپ نے مصنف ابن ابی شیبہ میں جو شیخ محمد عوامہ کی تحقیق سے شائع ہواہے،اس کا پورابنظرغائر مطالعہ کرلیاہے۔ ہم شیخ محمد عوامہ کی یہ تحریر پیش کررہے ہیں اس کو پڑھئے پھر دیکھئے کہ جواب ملا یانہیں ملا۔
’’ہندوستان سے۱۵جلدوں میں شائع ہونے والی مصنف ابن ابی شیبہ میں اولا''تحت السرۃ''کی زیادتی نہیں تھا جب ادارہ قرآن وعلوم اسلامیہ کراچی نے سنہ۱۴۰۶میں اس کی نقل کرناچاہاتو تواس ادارہ کے بانی فضیلۃ الشیخ نوراحمد نے یہ کوشش کہ ان تمام نقائص کو ختم کیاجائے جو اس کتاب میں ہے ۔ہندوستانی طبع میں غلطیوں کی جہاں تک بات ہے توانہوں نے خود مجھ سے حرم نبوی میں کہاکہ انہوں نے بعض اہل علم کو اس کی ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ اس کی غلطیوں کی تصحیح کریں توانہوں نے اس کی غلطیوں کو درست کیاتواس ہندوستانی طبع میں ۸۰۰۰کے قریب غلطیاں نکلیں جس کی وجہ سے ہندوستانی طبع پر ثقاہت بالکلیہ ختم ہوگیا۔ شیخ نوراحمد نے مجھے یہ بھی بتایاکہ اسی دوران وہ اس علمی مناقشہ پر مطلع ہوئے جو شیخ محمد حیات سندی اورشیخ محمد ہاشم سندی کے مابین اس مسئلہ میں تھاکہ نماز میں ہاتھ کہاں پر باندھاجائے۔ اوراس کے نتیجے میں دونوں جانب کل پانچ رسالے لکھے گئے۔ جس میں ست شیخ ہاشم کا رسالہ ''ترصیع الدرہ''بھی ہے۔ اس میں شیخ ہاشم نے تحت السرۃ کی زیادتی کو تین مخطوط نسخوں سے نقل کیاہے جس پر وہ واقف ہوئے ۔(اوریہ وہی نسخے ہیں جس کا میں ذکر کرچکاہوں)س سے شیخ نوراحمد کو تین نسخوں کی بناء پر تحت السرۃ کی زیادتی کا یقین ہوگیا۔یہ بات نہیں کہ انہوں نے رسول پاک پر جھوٹ باندھاہویانصوص کے ساتھ مسلک کی حمایت میں کھلواڑ کیاہو۔ نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں جوکچھ کہاگیااورکہاجارہاہے اللہ اس کا محاسبہ کرنے والے اوروہ نیتوں کو جانتاہے‘‘۔
ان تین نسخوں کے بارے میں شیخ محمد عوامہ مصنف ابن ابی شیبہ کے مقدمہ میں پوری وضاحت کرچکے ہیں، جاننے والے وہاں جاکر دیکھ سکتے ہیں۔
ویسے اصولی طورپر بات کراچی سے مطبوعہ کتاب میں کیاہے فلاں کتاب میں کیاہے اس پر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بات اصولی اورپختہ ہونی چاہئے کہ نفس ’’تحت السرۃ‘‘کی زیادتی ثابت ہے یانہیں ہے۔ کراچی کے نسخے کے پیچھے پڑکر کیاکرناہے۔ اگر یہ زیادتی درست ہے تو ہرحال مین درست ہے۔ چاہے کسی بھی طبع میں کچھ کیوں نہ ہو اوراگردرست نہیں ہے توپھر کسی بھی اورکہیں سے بھی طبع ہو تودرست نہیں ہے۔
شکرہے کہ آپ کا موقف یہ ہے ورنہ آپ کے ہی برادران ان کے بارے میں کیاکچھ نہیں کہتے۔ آپ کے اس موقف سے خوشی ہوئی۔ آپ تحریف کو پہلے ثابت مان رہے ہیں جب کہ ابھی یہی موضوع زیر بحث ہے ۔زیربحث موضوع کو ثابت سمجھ کر بات کرنا اصول کے ہی خلاف ہے۔میراخیال ہے کہ اس اصول کو آپ بھی جانتے ہوں اورشاید مانتے بھی ہوں گے۔شیخ محمد عوامہ کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ایک معروف محقق ہیں اور اصول تحقیق سے واقف ہیں ۔میں نہیں سمجھتا کہ ایسے بنیادی اصول جن کو ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے ان سے شیخ عوامہ نا واقف ہوں گے ۔ اور حنفی بھائیوں کی تحریف کا اس قدر دفاع کریں گے ۔
آپ کا اصول یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی کام کے کرتے وقت ہی اس کی وضاحت ضروری ہے بعد میں کی گئی وضاحت قابل قبول نہیں ہوگی۔۔شاید انہیں لگاکہ آپ کی جماعت اس سے واقف ہوگی کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے دوقسم کے نسخے ہیں ایک میں تحت السرہ کی زیادتی ہے اورایک میں نہیں ہے۔۔انہوں نے اپنے علم وفہم کی بنیاد پر تحت السرہ کی زیادتی کو راجح سمجھا اورمتن میں اس کا اثبات کیا۔اس میں تحریف کہاں سے اگئی۔1۔شیخ نور احمد صاحب نے جو وضاحتیں تحریف کی حقیقت کشائی کے بعد پیش کی ہیں ، اگر یہی کام اسی طبعہ میں کیا ہوتا تو فائدہ مند تھا ۔ورنہ تو مجرم بھی کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
یہ کس دلیل کی بنیاد پر آپ نے بیان کردیا وہ میرے علم سے باہر ہے۔ ادارہ قرآن اورعلوم اسلامیہ نے مختار سلفی کی جانب سے شائع ہونے والی جس میں ایک بڑامعتدبہ حصہ غائب تھا اورحیدرآباد سے شائع ہونے والامصنف ابن ابی شیبہ جو نامکمل تھا اس کی تصویر لے کر شائع کیاتوانہوں نے پوراکیسے چھاپ دیا جب ابن کے پاس کوئی نسخہ ہی نہیں تھا۔ مجھے آپ سے امید نہیں تھی کہ ایسی ’’سطحی باتیں‘‘کریں گے۔ میں بھی کہہ سکتاہوں کہ اپنے بھائیوں کی ضد قائم رکھنے آپ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں لیکن اس طرح کی باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔2۔ کراچی میں چھپنے والی کتاب کی بنیاد کوئی مخطوطہ نہیں تھا بلکہ اس کی اصل ہند سے مطبوعہ سابقہ نسخہ ہی تھا ۔ بلکہ ہو بہو اس کی کاپی کی گئی ہے یہی وجہ ہےکہ تحریف بالکل نمایاں نظر آرہی ہے ۔
عمومی طورپر نسخہ جات کی وضاحت وغیرہ کا برصغیر میں کم ہی رواج رہاہے۔ آپ حیدرآباد میں نظام کے دور میں شائع کتابوں سے لے کر مطبع نول کشور اورمطبع مصطفائی اورمجبتائی وغیرہ سبھی دیکھ لیں ۔نسخہ جات کے ذکر کااہتمام اورعبارت میں کہاں نقص اورکہاں زیادتی ہے اس کااہتمام کم ہی رہاہے۔ اس کو آپ معیارسے فروتر کہہ سکتے ہیں لیکن ’’تحریف کاالزام‘‘حد سے تجاوز ہے۔ ٹھیک ہے اس وقت وضاحت نہیں کی بعد میں کردی اب تومانناچاہئے یاپھر یہ کیاجائے کہ توبہ کا دروازہ بند ہوچکاہے اب کچھ بھی وضاحت کرو کتنی ہی سچی بات بیان کرو لیکن ہم قبول نہیں کریں گے۔ یہ رویہ درست نہیں کہاجاسکتا۔3۔ شیخ ہاشم سندھی اور حیات سندھی کے مابین مناقشے میں سے اگر کراچی والوں کو شیخ ہاشم کا موقف راجح محسوس ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلکی رجحان یا ذہنی میلان کو کتابوں کا متن بنا کر پیش کردیا جائے ۔ اگر یہ ضروری تھا تو اس کی وضاحت حاشیے میں کرتے کہ ہمارے پیش نظر جو نسخہ ہے اس میں یہ حدیث '' تحت السرۃ '' کے بغیر ہے البتہ شیخ ہاشم کے پاس ایسے نسخے تھے جن میں یہ حدیث '' تحت السرۃ '' کے اضافہ کے ساتھ آئی ہے ۔ یہ ایک علمی اور تحقیقی اسلوب تھا ، جو اختیار کیا جاتا تو نہ کوئی انگلی اٹھتی نہ کوئی تحریف کاالزام لگاتا ۔
آپ کی بڑی دلیل یہی ہے کہ پہلے کیوں نہیں کہا،پہلے نہیں کہااب کہہ دیااس سے ’’تحریف‘‘ثابت ہوتی ہے۔ کیااگرکوئی شخص پہلے وضاحت نہ کرے بعد میں کرے تو وہ تحریف ہوجائے گی۔ یاللعجب۔ یقین مانئے کہ حدیث کی کوئی کتاب اگرکوئی شائع کرتاہے اورغلطیوں سے پاک چھانپاچاہتاہے توپھر مکتبہ مخطوطات کا اہتمام کرتاہے۔لیکن ایک تو '' تحت السرۃ '' کو اٹھا کر متن میں جڑ دیا گیا ، دوسرا کوئی وضاحت کی ضرورت بھی نہیں سمجھی گئی ۔ بڑوں اور بزرگوں کی باتوں اور آراء کی تحقیق تو کی جاتی ہے اصل حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کرکے ، لیکن اگر انہی کتابوں کو بڑوں کی مرضی سے چھاپنا شروع کردیا جائے تو تحقیق کہاں سے ہوگی ۔؟
یہی میں کہناچاہ رہاہوں کہ یہ نسخوں کا اختلاف ہے۔ بعض نسخوں میں نقص ہوتاہے بعض مکمل ہوتے ہیں پھر مکمل نسخے بھی ہرجگہ متفق نہیں ہوتے الفاظ کا فرق ہوتاہے۔ احادیث کا فرق ہوتاہے پتہ نہیں نسخوں کے تعلق سے یہ سب جاننے کے باوجود بھی لوگ ’’تحریف کاالزام‘‘دوہرائے چلے جاتے ہیں۔باقی شیخ محمد عوامہ کی تحقیق سے مصنف چھپی اور انہوں نے اس میں اپنے تئیں یہ ثابت کیا کہ '' تحت السرۃ '' کی زیادتی مخطوطات میں ثابت ہے ، اس سے کراچی والوں پر لگا الزام ختم نہیں ہوسکتا ، اور ویسے بھی مصنف کی تحقیق صرف عوامہ نے نہیں کی بلکہ سعودی عرب دو محققین نے بھی کی ہے جس میں انہوں نے یہی ثابت کیا ہے '' تحت السرۃ '' کی زیادتی ثابت نہیں ۔ جس طرح عوامہ نے دلائل اور مخطوطات کے حوالے دیے ہیں ، شیخ لحیدان نے بھی اپنے حق مین دلائل نقل کیے ہیں ، لیکن یہ باتیں بعد کی ہیں ،اصل مسئلہ یہ ہے کہ '' کراچی سے چھپنے والے نسخے میں جو '' تحت السرۃ '' کا اضافہ ہے وہ جس طرح دیدہ دلیری سے کیا گیا اسے تحریف کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے ۔ ''
۔[/QUOTE]اگر کراچوی تحریف کا دفاع کرنا ہے تو اس اس طبعے کے مقدمے یا حاشیے سے کچھ نقل کریں ، دیگر طبعات یا تحقیقات سے نقل اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہے
آپ کی باتوں سے ایسالگتاہے کہ ہرشخص جوکتاب چھاپ رہاہے وہ ویساہی چھاپے جیساماقبل والوں نے چھاپاہے۔ (ابتسامہ) حیدرآباد اورممبئی والوں کی طباعت میں جتنی غلطیاں ہیں لگتاہے کہ شیخ نوراحمد کوبھی تمام غلطیون کو بھی رہنے دیناچاہئے تھا۔ یاجس طرح ممبئی دارسلفیہ والوں نے درمیان سے بہت سے ابواب غائب کردیئے شیخ نورکوبھی ویسے ہی غائب کرکے چھاپناچاہئے تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اگر ھاشم ٹھٹھوی کی بات ھے تو یہ نسخے کراچی والوں سے پہلے ناشرین کے بھی پیش نظر تھے.
انھوں نے کیوں ذکر نہ کیا.
آپکی باتوں میں تناقض ھے.