• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
اور کراچی والوں نے کس نسخے کا حوالہ دیا ھے؟
شاید اسی سوال کا جواب آپ چاہ رہے ہیں، ویسے اصول مناظرہ کے تحت تو ہمیں آپ سے پوچھناچاہئے تھاکہ کس دلیل کی بنیاد پر آپ سے تحریف قراردے رہے ہیں۔ کیونکہ تحریف کا دعویٰ آپ کاہے اوردعویٰ جس کا ہوتاہے دلیل اسی کے ذمہ ہوتی ہے۔ لیکن چلئے ہم اس سے درگزرکرتے ہیں۔
میرے ذریعہ شیخ محمد عوامہ کا حوالہ دینے پر آپ نے پہلے فرمایاتھاکہ اگرانہوں نے ایساکیاہے تو بہت براکیاہے وغیرہ وغیرہ، پھر بعد میں اس کی تدوین کرکے لکھاکہ میں پڑھ چکاہوں ،چلئے ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ آپ نے مصنف ابن ابی شیبہ میں جو شیخ محمد عوامہ کی تحقیق سے شائع ہواہے،اس کا پورابنظرغائر مطالعہ کرلیاہے۔ ہم شیخ محمد عوامہ کی یہ تحریر پیش کررہے ہیں اس کو پڑھئے پھر دیکھئے کہ جواب ملا یانہیں ملا۔

’’ہندوستان سے۱۵جلدوں میں شائع ہونے والی مصنف ابن ابی شیبہ میں اولا''تحت السرۃ''کی زیادتی نہیں تھا جب ادارہ قرآن وعلوم اسلامیہ کراچی نے سنہ۱۴۰۶میں اس کی نقل کرناچاہاتو تواس ادارہ کے بانی فضیلۃ الشیخ نوراحمد نے یہ کوشش کہ ان تمام نقائص کو ختم کیاجائے جو اس کتاب میں ہے ۔ہندوستانی طبع میں غلطیوں کی جہاں تک بات ہے توانہوں نے خود مجھ سے حرم نبوی میں کہاکہ انہوں نے بعض اہل علم کو اس کی ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ اس کی غلطیوں کی تصحیح کریں توانہوں نے اس کی غلطیوں کو درست کیاتواس ہندوستانی طبع میں ۸۰۰۰کے قریب غلطیاں نکلیں جس کی وجہ سے ہندوستانی طبع پر ثقاہت بالکلیہ ختم ہوگیا۔ شیخ نوراحمد نے مجھے یہ بھی بتایاکہ اسی دوران وہ اس علمی مناقشہ پر مطلع ہوئے جو شیخ محمد حیات سندی اورشیخ محمد ہاشم سندی کے مابین اس مسئلہ میں تھاکہ نماز میں ہاتھ کہاں پر باندھاجائے۔ اوراس کے نتیجے میں دونوں جانب کل پانچ رسالے لکھے گئے۔ جس میں ست شیخ ہاشم کا رسالہ ''ترصیع الدرہ''بھی ہے۔ اس میں شیخ ہاشم نے تحت السرۃ کی زیادتی کو تین مخطوط نسخوں سے نقل کیاہے جس پر وہ واقف ہوئے ۔(اوریہ وہی نسخے ہیں جس کا میں ذکر کرچکاہوں)س سے شیخ نوراحمد کو تین نسخوں کی بناء پر تحت السرۃ کی زیادتی کا یقین ہوگیا۔یہ بات نہیں کہ انہوں نے رسول پاک پر جھوٹ باندھاہویانصوص کے ساتھ مسلک کی حمایت میں کھلواڑ کیاہو۔ نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں جوکچھ کہاگیااورکہاجارہاہے اللہ اس کا محاسبہ کرنے والے اوروہ نیتوں کو جانتاہے‘‘۔
ان تین نسخوں کے بارے میں شیخ محمد عوامہ مصنف ابن ابی شیبہ کے مقدمہ میں پوری وضاحت کرچکے ہیں، جاننے والے وہاں جاکر دیکھ سکتے ہیں۔
ویسے اصولی طورپر بات کراچی سے مطبوعہ کتاب میں کیاہے فلاں کتاب میں کیاہے اس پر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بات اصولی اورپختہ ہونی چاہئے کہ نفس ’’تحت السرۃ‘‘کی زیادتی ثابت ہے یانہیں ہے۔ کراچی کے نسخے کے پیچھے پڑکر کیاکرناہے۔ اگر یہ زیادتی درست ہے تو ہرحال مین درست ہے۔ چاہے کسی بھی طبع میں کچھ کیوں نہ ہو اوراگردرست نہیں ہے توپھر کسی بھی اورکہیں سے بھی طبع ہو تودرست نہیں ہے۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
ویسے تعجب کی بات ہے کہ ایک حدیث میں تحت السرۃ کی زیادتی کو تحریف قراردے کر ہندوستان سے لے کر عرب تک ہنگامہ بپاکرنے والے مختار احمد ندوی سلفی کے اہتمام میں شائع مصنف ابن ابی شیبہ سے متعدد ابواب کے گم ہونے پر بالکل خاموش ہیں ؟شاید وہ علم اورتحقیق کا نمونہ ہے؟جو مختار احمد سلفی نے کیا بغیر کسی وضاحت کے۔
دوسروں کو کچھ برابھلاکہنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنے چاہئے اوریہ یاد رکھناچاہئے کہ جب آپ دوسروں کی جانب اشارہ کرتے ہیں توایک انگشت کے ماسوابقیہ انگلیاں خود آپ کی جانب اشارہ کررہی ہوتی ہیں۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
۱
محترم میرا سوال وھیں کا وھیں ھے.پلیز آپ اس پر ذرا توجہ دیں.
۲
کراچی والوں نے کس نسخے کا حوالہ دیا ھے؟
میں پہلے بھی کہ چکا ھوں کہ عقلمندی مسئلہ کو طول دینے میں میں نہیں.
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
کراچی والوں نے کس نسخے کا حوالہ دیا ھے؟

اس میں شیخ ہاشم نے تحت السرۃ کی زیادتی کو تین مخطوط نسخوں سے نقل کیاہے جس پر وہ واقف ہوئے ۔(اوریہ وہی نسخے ہیں جس کا میں ذکر کرچکاہوں)س سے شیخ نوراحمد کو تین نسخوں کی بناء پر تحت السرۃ کی زیادتی کا یقین ہوگیا۔



میرے خیال سے اب بات کو میں طول نہیں دے رہاہوں۔ شیخ محمد عوامہ کی وضاحت کے بعد بھی کہ ادارے کے مالک نوراحمد نے ان تین نسخوں سے مطلع ہونے کے بعد ہی تحت السرۃ کی زیادتی کا فیصلہ کیا۔ آپ پوچھ رہے ہیں کہ کس نسخے سے کراچی والوں نے نقل کیا۔ مجھے نہیں لگتاکہ اب بات کو میں طول دے رہاہوں۔ ان تین نسخوں کی وضاحت شیخ محمد ہاشم سندی کے رسالے میں موجود ہے۔ والسلام
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
ویسے محترم آپ جس چالاکی سے بات کو گھمانا چاھتے ھیں یہ آپکو بہر حال مفید نہیں.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شاید اسی سوال کا جواب آپ چاہ رہے ہیں، ویسے اصول مناظرہ کے تحت تو ہمیں آپ سے پوچھناچاہئے تھاکہ کس دلیل کی بنیاد پر آپ سے تحریف قراردے رہے ہیں۔ کیونکہ تحریف کا دعویٰ آپ کاہے اوردعویٰ جس کا ہوتاہے دلیل اسی کے ذمہ ہوتی ہے۔ لیکن چلئے ہم اس سے درگزرکرتے ہیں۔
میرے ذریعہ شیخ محمد عوامہ کا حوالہ دینے پر آپ نے پہلے فرمایاتھاکہ اگرانہوں نے ایساکیاہے تو بہت براکیاہے وغیرہ وغیرہ، پھر بعد میں اس کی تدوین کرکے لکھاکہ میں پڑھ چکاہوں ،چلئے ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ آپ نے مصنف ابن ابی شیبہ میں جو شیخ محمد عوامہ کی تحقیق سے شائع ہواہے،اس کا پورابنظرغائر مطالعہ کرلیاہے۔ ہم شیخ محمد عوامہ کی یہ تحریر پیش کررہے ہیں اس کو پڑھئے پھر دیکھئے کہ جواب ملا یانہیں ملا۔

’’ہندوستان سے۱۵جلدوں میں شائع ہونے والی مصنف ابن ابی شیبہ میں اولا''تحت السرۃ''کی زیادتی نہیں تھا جب ادارہ قرآن وعلوم اسلامیہ کراچی نے سنہ۱۴۰۶میں اس کی نقل کرناچاہاتو تواس ادارہ کے بانی فضیلۃ الشیخ نوراحمد نے یہ کوشش کہ ان تمام نقائص کو ختم کیاجائے جو اس کتاب میں ہے ۔ہندوستانی طبع میں غلطیوں کی جہاں تک بات ہے توانہوں نے خود مجھ سے حرم نبوی میں کہاکہ انہوں نے بعض اہل علم کو اس کی ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ اس کی غلطیوں کی تصحیح کریں توانہوں نے اس کی غلطیوں کو درست کیاتواس ہندوستانی طبع میں ۸۰۰۰کے قریب غلطیاں نکلیں جس کی وجہ سے ہندوستانی طبع پر ثقاہت بالکلیہ ختم ہوگیا۔ شیخ نوراحمد نے مجھے یہ بھی بتایاکہ اسی دوران وہ اس علمی مناقشہ پر مطلع ہوئے جو شیخ محمد حیات سندی اورشیخ محمد ہاشم سندی کے مابین اس مسئلہ میں تھاکہ نماز میں ہاتھ کہاں پر باندھاجائے۔ اوراس کے نتیجے میں دونوں جانب کل پانچ رسالے لکھے گئے۔ جس میں ست شیخ ہاشم کا رسالہ ''ترصیع الدرہ''بھی ہے۔ اس میں شیخ ہاشم نے تحت السرۃ کی زیادتی کو تین مخطوط نسخوں سے نقل کیاہے جس پر وہ واقف ہوئے ۔(اوریہ وہی نسخے ہیں جس کا میں ذکر کرچکاہوں)س سے شیخ نوراحمد کو تین نسخوں کی بناء پر تحت السرۃ کی زیادتی کا یقین ہوگیا۔یہ بات نہیں کہ انہوں نے رسول پاک پر جھوٹ باندھاہویانصوص کے ساتھ مسلک کی حمایت میں کھلواڑ کیاہو۔ نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں جوکچھ کہاگیااورکہاجارہاہے اللہ اس کا محاسبہ کرنے والے اوروہ نیتوں کو جانتاہے‘‘۔
ان تین نسخوں کے بارے میں شیخ محمد عوامہ مصنف ابن ابی شیبہ کے مقدمہ میں پوری وضاحت کرچکے ہیں، جاننے والے وہاں جاکر دیکھ سکتے ہیں۔
ویسے اصولی طورپر بات کراچی سے مطبوعہ کتاب میں کیاہے فلاں کتاب میں کیاہے اس پر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بات اصولی اورپختہ ہونی چاہئے کہ نفس ’’تحت السرۃ‘‘کی زیادتی ثابت ہے یانہیں ہے۔ کراچی کے نسخے کے پیچھے پڑکر کیاکرناہے۔ اگر یہ زیادتی درست ہے تو ہرحال مین درست ہے۔ چاہے کسی بھی طبع میں کچھ کیوں نہ ہو اوراگردرست نہیں ہے توپھر کسی بھی اورکہیں سے بھی طبع ہو تودرست نہیں ہے۔
شیخ محمد عوامہ کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ایک معروف محقق ہیں اور اصول تحقیق سے واقف ہیں ۔میں نہیں سمجھتا کہ ایسے بنیادی اصول جن کو ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے ان سے شیخ عوامہ نا واقف ہوں گے ۔ اور حنفی بھائیوں کی تحریف کا اس قدر دفاع کریں گے ۔
شیخ نور احمد صاحب نے جو وضاحتیں تحریف کی حقیقت کشائی کے بعد پیش کی ہیں ، اگر یہی کام اسی طبعہ میں کیا ہوتا تو فائدہ مند تھا ۔ورنہ تو مجرم بھی کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
کراچی میں چھپنے والی کتاب کی بنیاد کوئی مخطوطہ نہیں تھا بلکہ اس کی اصل ہند سے مطبوعہ سابقہ نسخہ ہی تھا ۔ بلکہ ہو بہو اس کی کاپی کی گئی ہے یہی وجہ ہےکہ تحریف بالکل نمایاں نظر آرہی ہے ۔
شیخ ہاشم سندھی اور حیات سندھی کے مابین مناقشے میں سے اگر کراچی والوں کو شیخ ہاشم کا موقف راجح محسوس ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلکی رجحان یا ذہنی میلان کو کتابوں کا متن بنا کر پیش کردیا جائے ۔ اگر یہ ضروری تھا تو اس کی وضاحت حاشیے میں کرتے کہ ہمارے پیش نظر جو نسخہ ہے اس میں یہ حدیث ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے بغیر ہے البتہ شیخ ہاشم کے پاس ایسے نسخے تھے جن میں یہ حدیث ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے اضافہ کے ساتھ آئی ہے ۔ یہ ایک علمی اور تحقیقی اسلوب تھا ، جو اختیار کیا جاتا تو نہ کوئی انگلی اٹھتی نہ کوئی تحریف کاالزام لگاتا ۔
لیکن ایک تو ’’ تحت السرۃ ‘‘ کو اٹھا کر متن میں جڑ دیا گیا ، دوسرا کوئی وضاحت کی ضرورت بھی نہیں سمجھی گئی ۔ بڑوں اور بزرگوں کی باتوں اور آراء کی تحقیق تو کی جاتی ہے اصل حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کرکے ، لیکن اگر انہی کتابوں کو بڑوں کی مرضی سے چھاپنا شروع کردیا جائے تو تحقیق کہاں سے ہوگی ۔؟
باقی شیخ محمد عوامہ کی تحقیق سے مصنف چھپی اور انہوں نے اس میں اپنے تئیں یہ ثابت کیا کہ ’’ تحت السرۃ ‘‘ کی زیادتی مخطوطات میں ثابت ہے ، اس سے کراچی والوں پر لگا الزام ختم نہیں ہوسکتا ، اور ویسے بھی مصنف کی تحقیق صرف عوامہ نے نہیں کی بلکہ سعودی عرب دو محققین نے بھی کی ہے جس میں انہوں نے یہی ثابت کیا ہے ’’ تحت السرۃ ‘‘ کی زیادتی ثابت نہیں ۔ جس طرح عوامہ نے دلائل اور مخطوطات کے حوالے دیے ہیں ، شیخ لحیدان نے بھی اپنے حق مین دلائل نقل کیے ہیں ، لیکن یہ باتیں بعد کی ہیں ،
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’’ کراچی سے چھپنے والے نسخے میں جو ’’ تحت السرۃ ‘‘ کا اضافہ ہے وہ جس طرح دیدہ دلیری سے کیا گیا اسے تحریف کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے ۔ ‘‘
اگر کراچوی تحریف کا دفاع کرنا ہے تو اس اس طبعے کے مقدمے یا حاشیے سے کچھ نقل کریں ، دیگر طبعات یا تحقیقات سے نقل اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہے ۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
اگر ھاشم ٹھٹھوی کی بات ھے تو یہ نسخے کراچی والوں سے پہلے ناشرین کے بھی پیش نظر تھے.
انھوں نے کیوں ذکر نہ کیا.
آپکی باتوں میں تناقض ھے.
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
شیخ محمد عوامہ کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ایک معروف محقق ہیں اور اصول تحقیق سے واقف ہیں ۔میں نہیں سمجھتا کہ ایسے بنیادی اصول جن کو ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے ان سے شیخ عوامہ نا واقف ہوں گے ۔ اور حنفی بھائیوں کی تحریف کا اس قدر دفاع کریں گے ۔
شکرہے کہ آپ کا موقف یہ ہے ورنہ آپ کے ہی برادران ان کے بارے میں کیاکچھ نہیں کہتے۔ آپ کے اس موقف سے خوشی ہوئی۔ آپ تحریف کو پہلے ثابت مان رہے ہیں جب کہ ابھی یہی موضوع زیر بحث ہے ۔زیربحث موضوع کو ثابت سمجھ کر بات کرنا اصول کے ہی خلاف ہے۔میراخیال ہے کہ اس اصول کو آپ بھی جانتے ہوں اورشاید مانتے بھی ہوں گے۔
1۔شیخ نور احمد صاحب نے جو وضاحتیں تحریف کی حقیقت کشائی کے بعد پیش کی ہیں ، اگر یہی کام اسی طبعہ میں کیا ہوتا تو فائدہ مند تھا ۔ورنہ تو مجرم بھی کوئی نہ کوئی عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
آپ کا اصول یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی کام کے کرتے وقت ہی اس کی وضاحت ضروری ہے بعد میں کی گئی وضاحت قابل قبول نہیں ہوگی۔۔شاید انہیں لگاکہ آپ کی جماعت اس سے واقف ہوگی کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے دوقسم کے نسخے ہیں ایک میں تحت السرہ کی زیادتی ہے اورایک میں نہیں ہے۔۔انہوں نے اپنے علم وفہم کی بنیاد پر تحت السرہ کی زیادتی کو راجح سمجھا اورمتن میں اس کا اثبات کیا۔اس میں تحریف کہاں سے اگئی۔
2۔ کراچی میں چھپنے والی کتاب کی بنیاد کوئی مخطوطہ نہیں تھا بلکہ اس کی اصل ہند سے مطبوعہ سابقہ نسخہ ہی تھا ۔ بلکہ ہو بہو اس کی کاپی کی گئی ہے یہی وجہ ہےکہ تحریف بالکل نمایاں نظر آرہی ہے ۔
یہ کس دلیل کی بنیاد پر آپ نے بیان کردیا وہ میرے علم سے باہر ہے۔ ادارہ قرآن اورعلوم اسلامیہ نے مختار سلفی کی جانب سے شائع ہونے والی جس میں ایک بڑامعتدبہ حصہ غائب تھا اورحیدرآباد سے شائع ہونے والامصنف ابن ابی شیبہ جو نامکمل تھا اس کی تصویر لے کر شائع کیاتوانہوں نے پوراکیسے چھاپ دیا جب ابن کے پاس کوئی نسخہ ہی نہیں تھا۔ مجھے آپ سے امید نہیں تھی کہ ایسی ’’سطحی باتیں‘‘کریں گے۔ میں بھی کہہ سکتاہوں کہ اپنے بھائیوں کی ضد قائم رکھنے آپ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں لیکن اس طرح کی باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
شیخ نوراحمد کے پاس باقاعدہ نسخہ تھا۔ جس کی مدد سے انہوں نے پورامصنف ابن ابی شیبہ چھاپاہے۔ورنہ اگران کے پاس نسخہ نہیں تھا تو نامکمل کتاب سے مکمل کتاب انہوں نے کیسے چھاپ دی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اس سادہ سوال کا جواب دے دیں؟
پھر شیخ نوراحمد نے باقاعدہ مصنف ابن ابی شیبہ کی تصحیح کیلئے علماء کی ایک ٹیم کو متعین کیا جنہوں نے مختاراحمد سلفی کی زیرنگرانی ممبئی اورحیدرآباد سے شائع ہونے والے نسخہ میں 8000ہزار غلطیاں دریافت کیں ۔ کیایہ سب بھی بغیر نسخے کے ہی تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
3۔ شیخ ہاشم سندھی اور حیات سندھی کے مابین مناقشے میں سے اگر کراچی والوں کو شیخ ہاشم کا موقف راجح محسوس ہوا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلکی رجحان یا ذہنی میلان کو کتابوں کا متن بنا کر پیش کردیا جائے ۔ اگر یہ ضروری تھا تو اس کی وضاحت حاشیے میں کرتے کہ ہمارے پیش نظر جو نسخہ ہے اس میں یہ حدیث '' تحت السرۃ '' کے بغیر ہے البتہ شیخ ہاشم کے پاس ایسے نسخے تھے جن میں یہ حدیث '' تحت السرۃ '' کے اضافہ کے ساتھ آئی ہے ۔ یہ ایک علمی اور تحقیقی اسلوب تھا ، جو اختیار کیا جاتا تو نہ کوئی انگلی اٹھتی نہ کوئی تحریف کاالزام لگاتا ۔
عمومی طورپر نسخہ جات کی وضاحت وغیرہ کا برصغیر میں کم ہی رواج رہاہے۔ آپ حیدرآباد میں نظام کے دور میں شائع کتابوں سے لے کر مطبع نول کشور اورمطبع مصطفائی اورمجبتائی وغیرہ سبھی دیکھ لیں ۔نسخہ جات کے ذکر کااہتمام اورعبارت میں کہاں نقص اورکہاں زیادتی ہے اس کااہتمام کم ہی رہاہے۔ اس کو آپ معیارسے فروتر کہہ سکتے ہیں لیکن ’’تحریف کاالزام‘‘حد سے تجاوز ہے۔ ٹھیک ہے اس وقت وضاحت نہیں کی بعد میں کردی اب تومانناچاہئے یاپھر یہ کیاجائے کہ توبہ کا دروازہ بند ہوچکاہے اب کچھ بھی وضاحت کرو کتنی ہی سچی بات بیان کرو لیکن ہم قبول نہیں کریں گے۔ یہ رویہ درست نہیں کہاجاسکتا۔

لیکن ایک تو '' تحت السرۃ '' کو اٹھا کر متن میں جڑ دیا گیا ، دوسرا کوئی وضاحت کی ضرورت بھی نہیں سمجھی گئی ۔ بڑوں اور بزرگوں کی باتوں اور آراء کی تحقیق تو کی جاتی ہے اصل حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کرکے ، لیکن اگر انہی کتابوں کو بڑوں کی مرضی سے چھاپنا شروع کردیا جائے تو تحقیق کہاں سے ہوگی ۔؟
آپ کی بڑی دلیل یہی ہے کہ پہلے کیوں نہیں کہا،پہلے نہیں کہااب کہہ دیااس سے ’’تحریف‘‘ثابت ہوتی ہے۔ کیااگرکوئی شخص پہلے وضاحت نہ کرے بعد میں کرے تو وہ تحریف ہوجائے گی۔ یاللعجب۔ یقین مانئے کہ حدیث کی کوئی کتاب اگرکوئی شائع کرتاہے اورغلطیوں سے پاک چھانپاچاہتاہے توپھر مکتبہ مخطوطات کا اہتمام کرتاہے۔
باقی شیخ محمد عوامہ کی تحقیق سے مصنف چھپی اور انہوں نے اس میں اپنے تئیں یہ ثابت کیا کہ '' تحت السرۃ '' کی زیادتی مخطوطات میں ثابت ہے ، اس سے کراچی والوں پر لگا الزام ختم نہیں ہوسکتا ، اور ویسے بھی مصنف کی تحقیق صرف عوامہ نے نہیں کی بلکہ سعودی عرب دو محققین نے بھی کی ہے جس میں انہوں نے یہی ثابت کیا ہے '' تحت السرۃ '' کی زیادتی ثابت نہیں ۔ جس طرح عوامہ نے دلائل اور مخطوطات کے حوالے دیے ہیں ، شیخ لحیدان نے بھی اپنے حق مین دلائل نقل کیے ہیں ، لیکن یہ باتیں بعد کی ہیں ،اصل مسئلہ یہ ہے کہ '' کراچی سے چھپنے والے نسخے میں جو '' تحت السرۃ '' کا اضافہ ہے وہ جس طرح دیدہ دلیری سے کیا گیا اسے تحریف کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے ۔ ''
یہی میں کہناچاہ رہاہوں کہ یہ نسخوں کا اختلاف ہے۔ بعض نسخوں میں نقص ہوتاہے بعض مکمل ہوتے ہیں پھر مکمل نسخے بھی ہرجگہ متفق نہیں ہوتے الفاظ کا فرق ہوتاہے۔ احادیث کا فرق ہوتاہے پتہ نہیں نسخوں کے تعلق سے یہ سب جاننے کے باوجود بھی لوگ ’’تحریف کاالزام‘‘دوہرائے چلے جاتے ہیں۔

اگر کراچوی تحریف کا دفاع کرنا ہے تو اس اس طبعے کے مقدمے یا حاشیے سے کچھ نقل کریں ، دیگر طبعات یا تحقیقات سے نقل اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہے
۔[/QUOTE]
یہ تو ایک طرح کی ضد اورپچ ہے اپنی بات کے اثبات کیلئے۔ سوال یہ ہے کہ مولاناارشاد الحق اثری جیسے اکابر سے لے کر آپ جیسے اصاغر نے جو محاذ کھولاہے وہ تحت السرۃ کی زیادتی کے خلاف ہے یاپھر مولانا نوراحمد کے انداز تحقیق کے خلاف؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میں نے توجہاں تک آپ حضرات کی تحریر پر غورکیاہے تومجھے یہی پتہ چلاکہ آپ حضرات کا زور اورہدف تحت السرۃ کی نفس زیادتی ہی تحریف ہے تواب وہ تحریف چاہے کراچی والے طبع میں ہو یاپھر شیخ محمد عوامہ کی تحقیق سے شائع شدہ مصنف میں ،تحریف ہی ہوگی۔ اوراگرتحریف کا الزام ختم ہوگا تودونوں سے ختم ہوگا۔
اگر نوراحمد مرحوم پر ہی اعتراض کرناہے تواس کیلئے الگ سے تھریڈ کھول لیجئے،یہ تھریڈ تونفس تحت السرۃ کی زیادتی کے اثبات پر ہے۔ نہ کہ کراچی سے طبع میں اوروہاں کے طبع میں فرق کیلئے ہے۔
اگرنفس تحت السرۃ کی زیادتی تحریف نہیں ہے تویہ کراچی والے طبع میں بھی تحریف نہیں ہوگی۔ آپ کا یہ اعتراض کہ وضاحت کیوں نہیں کی ،کوئی قابل ذکر حیثیت نہیں رکھتا، دوسرااعتراض کہ فلاں کی کاپی کیاہے، اس لئے غیر معقول ہے کہ دونوں نسخے نامکمل چھپے ہیں تواب اگر کراچی سے مکمل چھپاہے توان کے سامنے کوئی نہ کوئی مخطوطہ ضرور ہوگا اورجیساکہ شیخ عوامہ سے وضاحت میں نوراحمد نے کہاکہ ان کے سامنے شیخ ہاشم کے ذکر کردہ بعض نسخے تھے توان سے زیادہ اس باب میں کسی اورکی بات معتبر نہیں ہوسکتی۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
اگر ھاشم ٹھٹھوی کی بات ھے تو یہ نسخے کراچی والوں سے پہلے ناشرین کے بھی پیش نظر تھے.
انھوں نے کیوں ذکر نہ کیا.
آپکی باتوں میں تناقض ھے.
آپ کی باتوں سے ایسالگتاہے کہ ہرشخص جوکتاب چھاپ رہاہے وہ ویساہی چھاپے جیساماقبل والوں نے چھاپاہے۔ (ابتسامہ) حیدرآباد اورممبئی والوں کی طباعت میں جتنی غلطیاں ہیں لگتاہے کہ شیخ نوراحمد کوبھی تمام غلطیون کو بھی رہنے دیناچاہئے تھا۔ یاجس طرح ممبئی دارسلفیہ والوں نے درمیان سے بہت سے ابواب غائب کردیئے شیخ نورکوبھی ویسے ہی غائب کرکے چھاپناچاہئے تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیایہ ضروری ہے کہ دومختلف نسخے اگرکسی کے پاس ہوں تودونوں اس سے ایک ہی نتیجے برآمد کریں۔ میزان کا جونسخہ ہندوستان والوں کے پاس تھااس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ کا ترجمہ متن میں شامل نہیں کیا حاشیہ میں وضاحت کردی، مصر میں شائع ہونے والے میزان میں اس کو متن میں داخل کردیاگیاہے جب کہ نسخہ جات دونوں کے پاس تقریباایک ہی سے ہیں۔ یہ توایک محقق یاجوجس کتاب پر کام کررہاہے یہ اس کافیصلہ ہوتاہے کہ وہ کس چیز سے کیانتیجہ اخذ کرتاہے؟
 
Top