- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
وضاحت اس وقت کی گئ ہے جب پکڑ ہوئی ہے ۔ گویا اگر پکڑ نہ ہوتی تو پھر کام چل گیا تھا ۔ اور وضاحت بھی کیا ہے یہ آپ نے شیخ عوامہ کے الفاظ میں سنی ہے ، اگر نور احمد صاحب کے صاحبزادے کی وضاحت سن لیں تو انگشت بدنداں ہوں گے کہ الٹا دوسروں پر تحریف کا الزام لگادیا ہے ۔آپ کا اصول یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی کام کے کرتے وقت ہی اس کی وضاحت ضروری ہے بعد میں کی گئی وضاحت قابل قبول نہیں ہوگی۔۔شاید انہیں لگاکہ آپ کی جماعت اس سے واقف ہوگی کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے دوقسم کے نسخے ہیں ایک میں تحت السرہ کی زیادتی ہے اورایک میں نہیں ہے۔۔انہوں نے اپنے علم وفہم کی بنیاد پر تحت السرہ کی زیادتی کو راجح سمجھا اورمتن میں اس کا اثبات کیا۔اس میں تحریف کہاں سے اگئی۔
۔۔۔
عمومی طورپر نسخہ جات کی وضاحت وغیرہ کا برصغیر میں کم ہی رواج رہاہے۔ آپ حیدرآباد میں نظام کے دور میں شائع کتابوں سے لے کر مطبع نول کشور اورمطبع مصطفائی اورمجبتائی وغیرہ سبھی دیکھ لیں ۔نسخہ جات کے ذکر کااہتمام اورعبارت میں کہاں نقص اورکہاں زیادتی ہے اس کااہتمام کم ہی رہاہے۔ اس کو آپ معیارسے فروتر کہہ سکتے ہیں لیکن ’’تحریف کاالزام‘‘حد سے تجاوز ہے۔ ٹھیک ہے اس وقت وضاحت نہیں کی بعد میں کردی اب تومانناچاہئے یاپھر یہ کیاجائے کہ توبہ کا دروازہ بند ہوچکاہے اب کچھ بھی وضاحت کرو کتنی ہی سچی بات بیان کرو لیکن ہم قبول نہیں کریں گے۔ یہ رویہ درست نہیں کہاجاسکتا۔
۔۔۔
آپ کی بڑی دلیل یہی ہے کہ پہلے کیوں نہیں کہا،پہلے نہیں کہااب کہہ دیااس سے ’’تحریف‘‘ثابت ہوتی ہے۔ کیااگرکوئی شخص پہلے وضاحت نہ کرے بعد میں کرے تو وہ تحریف ہوجائے گی۔ یاللعجب۔
توبہ کا دروازہ بند نہیں لیکن توبہ کی قبولیت کی شرط اول غلطی کا اعتراف ہے ۔ جو ابھی تک ہمارے علم میں نہیں ۔ باقی اللہ کے ساتھ کیا معاملہ یہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔
یہ اس دلیل کی بنیاد پر کہ جہاں تحریف کی گئ ہے وہاں واضح طور پر دیگر الفاظ سے فرق نظر آرہا ہے ۔ اگر نئے سرے سے طباعت کی گئی ہوتی تو متن کے ساتھ زبردستی کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔یہ کس دلیل کی بنیاد پر آپ نے بیان کردیا وہ میرے علم سے باہر ہے۔ ادارہ قرآن اورعلوم اسلامیہ نے مختار سلفی کی جانب سے شائع ہونے والی جس میں ایک بڑامعتدبہ حصہ غائب تھا اورحیدرآباد سے شائع ہونے والامصنف ابن ابی شیبہ جو نامکمل تھا اس کی تصویر لے کر شائع کیاتوانہوں نے پوراکیسے چھاپ دیا جب ابن کے پاس کوئی نسخہ ہی نہیں تھا۔ مجھے آپ سے امید نہیں تھی کہ ایسی ’’سطحی باتیں‘‘کریں گے۔ میں بھی کہہ سکتاہوں کہ اپنے بھائیوں کی ضد قائم رکھنے آپ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں لیکن اس طرح کی باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
یہاں دونوں نسخوں کی تصویر ہے ملاحظہ کرلیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/فقہ-شریف-کو-بچانے-کی-خاطر-دیوبند-شریف-والوں-کی-حدیث-میں-تحریف.17592/
اس بنیاد پر میں نے کہا تھا کہ پہلے نسخے کی بنیاد پر اس کو چھاپا گیا ہے ۔
یہ بات آپ کی درست ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی مخطوطہ نہ ہوتا تو ما قبل طبعات سے ساقط ابواب وغیرہ کی تکمیل کیسے کرتے ، تو صرف تکمیل ابواب کے لیے انہوں نے ایک اور نسخے پر اعتماد کیا ہے ۔ ارشاد الحق اثری صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’ اہل علم وخبر جانتے ہیں کہ اس کتاب کی طباعت کا اہتمام سب سے پہلے '' مولانا ابو الکلام اکادمی حیدر آباد ( ہند ) '' نے کیا اور پھر 1386ھ بمطابق 1966ءمیں اس کی پہلی جلد زیورطبع سے آراستہ ہو کر اہل علم و قدر کے ہاتھوں میں پہنچی۔اسی طرح اس کی دوسری اور تیسری جلد بھی اسی ادارہ کے تحت طبع ہوئی مگر نا معلوم وہ اسے مکمل کیوں نہ کرسکے ۔ پھر اس عظیم الشان کام کی تکمیل الدار السلفیہ بمبئی ( ہند ) نے کی جو پندرہ جلدوں میں پر مشتمل ہے ۔ مگر یہ نسخہ بھی من وجہ مکمل نہ تھا کیونکہ اس کی جلد نمبر 3 کے آخری صفحہ 396میں آئندہ چوتھی جلد کے بارےمیں لکھاہواہے:
ويتلوه كتاب الحج أوله بسم الله الرحمن الرحيم ما قالوا في ثواب الحج
مگرچوتھی جلد کاآغازاس محولہ باب سے نہیں بلکہ
في قوله تعالى : فصيام ثلاثة أيام في الحج
سے ہے ۔ مگر افسوس کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے ناشرین نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرف بالکل توجہ نہ دی کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے ۔
اس کے بعد اس کتاب کی طباعت کا انتظام '' ادار القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی '' نے کیا ۔ ادارہ کے بانی اور مالک و مدیر مولانا نور احمد صاحب ہیں جو حضرات مولانا مفتی محمدشفیع مرحومکے داماد ہیں ۔ موصوف ایک عرصہ تک ان کے دار العلوم کے ناظم بھی رہے ہیں ۔ مولانا نور احمد صاحب نے بھی اس کمی کو محسوس کیا تو اس کے قلمی نسخہ ( جو پیر آف جھنڈا کے کتب خانہ کی زینت ہے ) کی مدد سے ان چھوٹے ہوئے ابواب کی تصحیح و اضافہ کے ساتھ اسے طبع کرانے کا انتظام کیا جو پہلے نسخہ میں نہ تھے ۔ ان ابواب کی مجموعی تعداد 499 ہے بلکہ کتاب الأیمان والنذور والکفارات بھی اسی جلد میں ہے ۔ اور یوں یہ کتاب سولہ جلدوں میں مکمل طور پر طبع ہوئی ۔ جس پر یہ ادارہ اور اس کے مدیر بجا طور پر شکریہ کے مستحق ہیں ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ انتہائی کرب والم کی بات یہ ہے کہ اس کی جلد اول ( ص 390 ) میں
'' باب وضع الیمین علی الشمال '' کے تحت حضرات وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث
رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه علي شماله في الصلاة
کے آخر میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ '' تحت السرۃ '' کا اضافہ کردیا ۔ إنا لله وإنا إليه رجعون . ‘‘
گویا ادارۃ القرآن کے ناشرین کے پاس موجود مخطوط پیر آف جھنڈا کے کتب خانہ والا تھا ۔ لیکن حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ اس میں بھی نہیں ہیں ۔
گویا مخطوط اور مطبوع دو چیزوں کی مخالفت کی ہے ، اور اس پر کسی تنبیہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھی ۔ اور پھر یہ اضافہ بھی کوئی عام جگہ پر نہیں بلکہ ایک معروف مختلف فیہ مسئلہ سے متعلق ہے ۔ اس کو سوائے تحریف کے اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
طبعہ کراتشیہ میں اور دیگر طبعات میں جوہری فرق دو فرق ہیں :یہ تو ایک طرح کی ضد اورپچ ہے اپنی بات کے اثبات کیلئے۔ سوال یہ ہے کہ مولاناارشاد الحق اثری جیسے اکابر سے لے کر آپ جیسے اصاغر نے جو محاذ کھولاہے وہ تحت السرۃ کی زیادتی کے خلاف ہے یاپھر مولانا نوراحمد کے انداز تحقیق کے خلاف؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میں نے توجہاں تک آپ حضرات کی تحریر پر غورکیاہے تومجھے یہی پتہ چلاکہ آپ حضرات کا زور اورہدف تحت السرۃ کی نفس زیادتی ہی تحریف ہے تواب وہ تحریف چاہے کراچی والے طبع میں ہو یاپھر شیخ محمد عوامہ کی تحقیق سے شائع شدہ مصنف میں ،تحریف ہی ہوگی۔ اوراگرتحریف کا الزام ختم ہوگا تودونوں سے ختم ہوگا۔
اگر نوراحمد مرحوم پر ہی اعتراض کرناہے تواس کیلئے الگ سے تھریڈ کھول لیجئے،یہ تھریڈ تونفس تحت السرۃ کی زیادتی کے اثبات پر ہے۔ نہ کہ کراچی سے طبع میں اوروہاں کے طبع میں فرق کیلئے ہے۔
اگرنفس تحت السرۃ کی زیادتی تحریف نہیں ہے تویہ کراچی والے طبع میں بھی تحریف نہیں ہوگی۔ آپ کا یہ اعتراض کہ وضاحت کیوں نہیں کی ،کوئی قابل ذکر حیثیت نہیں رکھتا، دوسرااعتراض کہ فلاں کی کاپی کیاہے، اس لئے غیر معقول ہے کہ دونوں نسخے نامکمل چھپے ہیں تواب اگر کراچی سے مکمل چھپاہے توان کے سامنے کوئی نہ کوئی مخطوطہ ضرور ہوگا اورجیساکہ شیخ عوامہ سے وضاحت میں نوراحمد نے کہاکہ ان کے سامنے شیخ ہاشم کے ذکر کردہ بعض نسخے تھے توان سے زیادہ اس باب میں کسی اورکی بات معتبر نہیں ہوسکتی۔
1۔ کراچی والوں کے پاس اضافے کی علم و تحقیق کے اصولوں پر اترنے والی کوئی بنیاد یعنی مخطوط نہیں تھا ۔ جبکہ شیخ عوامہ وغیرہ نے مخطوط کا حوالہ دیا ہے ۔ اگرچہ وہ حوالہ بھی محل نظر ہے لیکن بہر صورت حوالہ دینے سے میری نظر میں وہ تحریف کے الزام سے بری ہوجاتے ہیں ۔
2۔ کراچی والوں نے کوئی وضاحت نہیں کی ، بلکہ چپ چاب اضافہ کردیا اور کوئی تنبیہ نہیں کی ، جبکہ دوسرے لوگوں نے اس کی حاشیہ میں وضاحت کی ہے ۔