• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آپ کا اصول یہ معلوم ہوتاہے کہ کسی کام کے کرتے وقت ہی اس کی وضاحت ضروری ہے بعد میں کی گئی وضاحت قابل قبول نہیں ہوگی۔۔شاید انہیں لگاکہ آپ کی جماعت اس سے واقف ہوگی کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے دوقسم کے نسخے ہیں ایک میں تحت السرہ کی زیادتی ہے اورایک میں نہیں ہے۔۔انہوں نے اپنے علم وفہم کی بنیاد پر تحت السرہ کی زیادتی کو راجح سمجھا اورمتن میں اس کا اثبات کیا۔اس میں تحریف کہاں سے اگئی۔
۔۔۔
عمومی طورپر نسخہ جات کی وضاحت وغیرہ کا برصغیر میں کم ہی رواج رہاہے۔ آپ حیدرآباد میں نظام کے دور میں شائع کتابوں سے لے کر مطبع نول کشور اورمطبع مصطفائی اورمجبتائی وغیرہ سبھی دیکھ لیں ۔نسخہ جات کے ذکر کااہتمام اورعبارت میں کہاں نقص اورکہاں زیادتی ہے اس کااہتمام کم ہی رہاہے۔ اس کو آپ معیارسے فروتر کہہ سکتے ہیں لیکن ’’تحریف کاالزام‘‘حد سے تجاوز ہے۔ ٹھیک ہے اس وقت وضاحت نہیں کی بعد میں کردی اب تومانناچاہئے یاپھر یہ کیاجائے کہ توبہ کا دروازہ بند ہوچکاہے اب کچھ بھی وضاحت کرو کتنی ہی سچی بات بیان کرو لیکن ہم قبول نہیں کریں گے۔ یہ رویہ درست نہیں کہاجاسکتا۔
۔۔۔
آپ کی بڑی دلیل یہی ہے کہ پہلے کیوں نہیں کہا،پہلے نہیں کہااب کہہ دیااس سے ’’تحریف‘‘ثابت ہوتی ہے۔ کیااگرکوئی شخص پہلے وضاحت نہ کرے بعد میں کرے تو وہ تحریف ہوجائے گی۔ یاللعجب۔
وضاحت اس وقت کی گئ ہے جب پکڑ ہوئی ہے ۔ گویا اگر پکڑ نہ ہوتی تو پھر کام چل گیا تھا ۔ اور وضاحت بھی کیا ہے یہ آپ نے شیخ عوامہ کے الفاظ میں سنی ہے ، اگر نور احمد صاحب کے صاحبزادے کی وضاحت سن لیں تو انگشت بدنداں ہوں گے کہ الٹا دوسروں پر تحریف کا الزام لگادیا ہے ۔
توبہ کا دروازہ بند نہیں لیکن توبہ کی قبولیت کی شرط اول غلطی کا اعتراف ہے ۔ جو ابھی تک ہمارے علم میں نہیں ۔ باقی اللہ کے ساتھ کیا معاملہ یہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔
یہ کس دلیل کی بنیاد پر آپ نے بیان کردیا وہ میرے علم سے باہر ہے۔ ادارہ قرآن اورعلوم اسلامیہ نے مختار سلفی کی جانب سے شائع ہونے والی جس میں ایک بڑامعتدبہ حصہ غائب تھا اورحیدرآباد سے شائع ہونے والامصنف ابن ابی شیبہ جو نامکمل تھا اس کی تصویر لے کر شائع کیاتوانہوں نے پوراکیسے چھاپ دیا جب ابن کے پاس کوئی نسخہ ہی نہیں تھا۔ مجھے آپ سے امید نہیں تھی کہ ایسی ’’سطحی باتیں‘‘کریں گے۔ میں بھی کہہ سکتاہوں کہ اپنے بھائیوں کی ضد قائم رکھنے آپ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں لیکن اس طرح کی باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
یہ اس دلیل کی بنیاد پر کہ جہاں تحریف کی گئ ہے وہاں واضح طور پر دیگر الفاظ سے فرق نظر آرہا ہے ۔ اگر نئے سرے سے طباعت کی گئی ہوتی تو متن کے ساتھ زبردستی کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔
یہاں دونوں نسخوں کی تصویر ہے ملاحظہ کرلیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/فقہ-شریف-کو-بچانے-کی-خاطر-دیوبند-شریف-والوں-کی-حدیث-میں-تحریف.17592/
اس بنیاد پر میں نے کہا تھا کہ پہلے نسخے کی بنیاد پر اس کو چھاپا گیا ہے ۔
یہ بات آپ کی درست ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی مخطوطہ نہ ہوتا تو ما قبل طبعات سے ساقط ابواب وغیرہ کی تکمیل کیسے کرتے ، تو صرف تکمیل ابواب کے لیے انہوں نے ایک اور نسخے پر اعتماد کیا ہے ۔ ارشاد الحق اثری صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’ اہل علم وخبر جانتے ہیں کہ اس کتاب کی طباعت کا اہتمام سب سے پہلے '' مولانا ابو الکلام اکادمی حیدر آباد ( ہند ) '' نے کیا اور پھر 1386ھ بمطابق 1966ءمیں اس کی پہلی جلد زیورطبع سے آراستہ ہو کر اہل علم و قدر کے ہاتھوں میں پہنچی۔اسی طرح اس کی دوسری اور تیسری جلد بھی اسی ادارہ کے تحت طبع ہوئی مگر نا معلوم وہ اسے مکمل کیوں نہ کرسکے ۔ پھر اس عظیم الشان کام کی تکمیل الدار السلفیہ بمبئی ( ہند ) نے کی جو پندرہ جلدوں میں پر مشتمل ہے ۔ مگر یہ نسخہ بھی من وجہ مکمل نہ تھا کیونکہ اس کی جلد نمبر 3 کے آخری صفحہ 396میں آئندہ چوتھی جلد کے بارےمیں لکھاہواہے:
ويتلوه كتاب الحج أوله بسم الله الرحمن الرحيم ما قالوا في ثواب الحج
مگرچوتھی جلد کاآغازاس محولہ باب سے نہیں بلکہ
في قوله تعالى : فصيام ثلاثة أيام في الحج
سے ہے ۔ مگر افسوس کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے ناشرین نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرف بالکل توجہ نہ دی کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے ۔
اس کے بعد اس کتاب کی طباعت کا انتظام '' ادار القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی '' نے کیا ۔ ادارہ کے بانی اور مالک و مدیر مولانا نور احمد صاحب ہیں جو حضرات مولانا مفتی محمدشفیع مرحومکے داماد ہیں ۔ موصوف ایک عرصہ تک ان کے دار العلوم کے ناظم بھی رہے ہیں ۔ مولانا نور احمد صاحب نے بھی اس کمی کو محسوس کیا تو اس کے قلمی نسخہ ( جو پیر آف جھنڈا کے کتب خانہ کی زینت ہے ) کی مدد سے ان چھوٹے ہوئے ابواب کی تصحیح و اضافہ کے ساتھ اسے طبع کرانے کا انتظام کیا جو پہلے نسخہ میں نہ تھے ۔ ان ابواب کی مجموعی تعداد 499 ہے بلکہ کتاب الأیمان والنذور والکفارات بھی اسی جلد میں ہے ۔ اور یوں یہ کتاب سولہ جلدوں میں مکمل طور پر طبع ہوئی ۔ جس پر یہ ادارہ اور اس کے مدیر بجا طور پر شکریہ کے مستحق ہیں ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ انتہائی کرب والم کی بات یہ ہے کہ اس کی جلد اول ( ص 390 ) میں
'' باب وضع الیمین علی الشمال '' کے تحت حضرات وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث
رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه علي شماله في الصلاة
کے آخر میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ '' تحت السرۃ '' کا اضافہ کردیا ۔ إنا لله وإنا إليه رجعون . ‘‘
گویا ادارۃ القرآن کے ناشرین کے پاس موجود مخطوط پیر آف جھنڈا کے کتب خانہ والا تھا ۔ لیکن حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ اس میں بھی نہیں ہیں ۔
گویا مخطوط اور مطبوع دو چیزوں کی مخالفت کی ہے ، اور اس پر کسی تنبیہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھی ۔ اور پھر یہ اضافہ بھی کوئی عام جگہ پر نہیں بلکہ ایک معروف مختلف فیہ مسئلہ سے متعلق ہے ۔ اس کو سوائے تحریف کے اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
یہ تو ایک طرح کی ضد اورپچ ہے اپنی بات کے اثبات کیلئے۔ سوال یہ ہے کہ مولاناارشاد الحق اثری جیسے اکابر سے لے کر آپ جیسے اصاغر نے جو محاذ کھولاہے وہ تحت السرۃ کی زیادتی کے خلاف ہے یاپھر مولانا نوراحمد کے انداز تحقیق کے خلاف؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میں نے توجہاں تک آپ حضرات کی تحریر پر غورکیاہے تومجھے یہی پتہ چلاکہ آپ حضرات کا زور اورہدف تحت السرۃ کی نفس زیادتی ہی تحریف ہے تواب وہ تحریف چاہے کراچی والے طبع میں ہو یاپھر شیخ محمد عوامہ کی تحقیق سے شائع شدہ مصنف میں ،تحریف ہی ہوگی۔ اوراگرتحریف کا الزام ختم ہوگا تودونوں سے ختم ہوگا۔
اگر نوراحمد مرحوم پر ہی اعتراض کرناہے تواس کیلئے الگ سے تھریڈ کھول لیجئے،یہ تھریڈ تونفس تحت السرۃ کی زیادتی کے اثبات پر ہے۔ نہ کہ کراچی سے طبع میں اوروہاں کے طبع میں فرق کیلئے ہے۔
اگرنفس تحت السرۃ کی زیادتی تحریف نہیں ہے تویہ کراچی والے طبع میں بھی تحریف نہیں ہوگی۔ آپ کا یہ اعتراض کہ وضاحت کیوں نہیں کی ،کوئی قابل ذکر حیثیت نہیں رکھتا، دوسرااعتراض کہ فلاں کی کاپی کیاہے، اس لئے غیر معقول ہے کہ دونوں نسخے نامکمل چھپے ہیں تواب اگر کراچی سے مکمل چھپاہے توان کے سامنے کوئی نہ کوئی مخطوطہ ضرور ہوگا اورجیساکہ شیخ عوامہ سے وضاحت میں نوراحمد نے کہاکہ ان کے سامنے شیخ ہاشم کے ذکر کردہ بعض نسخے تھے توان سے زیادہ اس باب میں کسی اورکی بات معتبر نہیں ہوسکتی۔
طبعہ کراتشیہ میں اور دیگر طبعات میں جوہری فرق دو فرق ہیں :
1۔ کراچی والوں کے پاس اضافے کی علم و تحقیق کے اصولوں پر اترنے والی کوئی بنیاد یعنی مخطوط نہیں تھا ۔ جبکہ شیخ عوامہ وغیرہ نے مخطوط کا حوالہ دیا ہے ۔ اگرچہ وہ حوالہ بھی محل نظر ہے لیکن بہر صورت حوالہ دینے سے میری نظر میں وہ تحریف کے الزام سے بری ہوجاتے ہیں ۔
2۔ کراچی والوں نے کوئی وضاحت نہیں کی ، بلکہ چپ چاب اضافہ کردیا اور کوئی تنبیہ نہیں کی ، جبکہ دوسرے لوگوں نے اس کی حاشیہ میں وضاحت کی ہے ۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
وضاحت اس وقت کی گئ ہے جب پکڑ ہوئی ہے ۔ گویا اگر پکڑ نہ ہوتی تو پھر کام چل گیا تھا ۔ اور وضاحت بھی کیا ہے یہ آپ نے شیخ عوامہ کے الفاظ میں سنی ہے ، اگر نور احمد صاحب کے صاحبزادے کی وضاحت سن لیں تو انگشت بدنداں ہوں گے کہ الٹا دوسروں پر تحریف کا الزام لگادیا ہے ۔
میرے خیال میں وضاحت اس بھی کی جاتی ہے جب کسی کو غلط فہمی ہوتی ہے اورسامنے والا حقیقت کو سمجھے بغیر چند ظاہری علامات کی بنیاد پر الزامات لگاناشروع کردیتاہے۔ایسے وقت بھی وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب چاہے تواس کو تعبیر کا فرق تسلیم کرلیں کہ میں اس کو الزام پر وضاحت کہہ رہاہوں اورآپ پکڑ پر وضاحت کہہ رہے ہیں۔

توبہ کا دروازہ بند نہیں لیکن توبہ کی قبولیت کی شرط اول غلطی کا اعتراف ہے ۔ جو ابھی تک ہمارے علم میں نہیں ۔ باقی اللہ کے ساتھ کیا معاملہ یہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔
آپ نے اس پیراگراف کا ظاہری مطلب ہی مراد لے لیاہے۔ یہ بات تومیں نے تب کہی تھی کہ بھائی مان لیا اس وقت وضاحت نہیں کی بعد میں کردی توکیاہوگا۔کیابعد کی وضاحت قبول نہیں ہوگی ،اسی سلسلہ سخن میں راقم نے توبہ قبول نہ ہونے کی بات کہی تھی۔ اورآپ اس کو ظاہری معنوں میں لے کر بیٹھ گئے۔
جب بعض حضرات کو غلط فہمی ہوئی اس وقت انہوں نے وضاحت کردی۔میں نے یہ بھی کہاتھاکہ عمومی طورپر برصغیر ہندوپاک سے طبع ہونے والی کتابوں مین نسخوں کی وضاحت وغیرہ نہیں کی جاتی ہے ۔ جیساکہ میں نے اب تک مطبع نول کشور،مطبع مصطفائی اورمطبع مجتبائی وغیرہ کی کتابیں پڑھیں ہیں اس میں کہیں بھی محقق نسخوں کی وضاحت نہیں کرتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے پاس کوئی نسخہ ہی نہیں ہوتاتھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اگرہندوستانی مطابع کی کتابیں آپ کی نگاہ سے گزری ہوں گی تو شاید آپ نے بھی اس چیز کو نوٹ کیاہوگا۔

یہ اس دلیل کی بنیاد پر کہ جہاں تحریف کی گئ ہے وہاں واضح طور پر دیگر الفاظ سے فرق نظر آرہا ہے ۔ اگر نئے سرے سے طباعت کی گئی ہوتی تو متن کے ساتھ زبردستی کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔
یہ آپ نے دلیل بیان کی ہے۔ لیکن خود ایک مرتبہ غورکریں کہ کیایہ دلیل ہے یاپھر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ایک شخص کتاب لکھتاہے کتاب پوری طرح تیار ہوجاتی ہے اچانک پتہ چلتاہے کہ اس میں کچھ نقص ہے تواب اس نقص کی تلافی کی ایک ہی شکل ہوسکتی ہے کہ اس کو اگرجگہ ہے تو وہیں پر لکھ دیاجائے۔اس سے اگر عبارت کی ظاہری خوبصورتی مین تھوڑانقص پڑے لیکن کام تومکمل ہوجائے۔ اخبارات سے اگرکچھ شغل ہے توجانتے ہوں گے کہ پہلے اخبارات کی پیسٹنگ ہواکرتی تھی یعنی ایک پیچ کی نیوز وغیرہ نکال کر اس کو کاٹ کاٹ کر اخبار کے سائز کے پلاسٹک پر چپکایاجاتاتھا۔ نیوز نکلنے کے بعد ایک مرتبہ پھر پروف ریڈنگ ہواکرتی تھی اوراگراس میں غلطی نکلتی توکاتبوں کو تھمادیاجاتاکاتب حضرات بڑی محنت سے تصحیح کرتے اورکوشش کرتے کہ کسی نہ کسی طرح کمپیوٹر جیسی تحریر بناکر ہی لکھ دیاجائے تاکہ فرق محسوس نہ ہو لیکن مشین اورپھر آدمی میں فرق ہے۔ کاتبوں کی تحریر صاف طورپر پہچانی جاتی تھی کہ اس کو کاتب نے لکھاہے۔ ایک کتاب مکمل ہونے کے بعد اگرکسی کو کوئی غلطی محسوس ہوئی ہے اوروہ اگربڑھاگھٹارہاہے تویہ عبارت کے خط میں تبدیلی ڈائریکٹ تحریف کی دلیل کس طرح بن جائے گی ۔
بلکہ میرے نزدیک تو یہ بجائے خود ان کے اس الزام سے بری ہونے کی دلیل ہے۔ جو لوگ لاکھوں روپے خرچ کرکے مصنف ابن ابی شیبہ شائع کرسکتے تھے کیا وہ کچھ ہزار روپے خرچ کرکے ایک جلد کو کمپوز نہیں کراسکتے تھے۔یاللعجب، اگران کو یہی کرنا ہوتاتوکیااتنے بھونڈے طریقے سے کرتے تھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟پندرہ سولہ جلدوں میں مصنف ابن ابی شیبہ کی اشاعت کے مصارف برداشت کرنے والے اتنے عقل سے گئے گزرے اورپیدل تھے کہ ایک عبارت تک درست نہیں کرسکتے تھے۔ جنہوں نے علماء کی ٹیم کو متعین کرکے مختار سلفی کے اہتمام میں شائع مصنف ابن ابی شیبہ کی 8000 ہزار غلطیاں نکالیں وہ بے چارے ایک عبارت کو متن میں داخل کرنے پر قادرنہ تھے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اگراسی نکتہ پر سنجیدگی سے غورکریں توجس کو آپ نے گناہ کی دلیل بنایاہے وہی جرم بے گناہی کی دلیل نظرآئے گی۔ ہاں بدگمانی کی جڑیں تواناہوچکی ہوں تواس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
یہاں دونوں نسخوں کی تصویر ہے ملاحظہ کرلیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/فقہ-شریف-کو-بچانے-کی-خاطر-دیوبند-شریف-والوں-کی-حدیث-میں-تحریف.17592/
اس بنیاد پر میں نے کہا تھا کہ پہلے نسخے کی بنیاد پر اس کو چھاپا گیا ہے ۔
میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ اس کو پہلے نسخے کی بنیاد پر چھاپاگیاہے لیکن اس کو بھی تسلیم کیجئے کہ اس میں پہلے نسخوں کی غلطیوں کودرست کرنے کابھی اہتمام کیاگیاہے جس میں بقول نوراحمد تقریبا8000ہزار غلطیاں تھیں۔ اورمیں اس کو بھی تسلیم نہیں کرتا کہ اس کو پہلے نسخے کی بنیاد پر چھاپاگیاہے کیونکہ پہلے نسخے کی بنیاد پر چھاپاجاتا توپھر صرف اس کی نقل حاصل کرناکافی تھا تواس صورت میں پہلی طباعت میں جو غلطیاں رہ گئی تھیں وہ سب کی سب اس نسخے میں بھی موجود ہوتیں،لیکن انہوں نے ایسانہیں کیابلکہ علماء کی ایک ٹیم متعین کرکے ان غلطیون کی نشاندہی کی اس سے پتہ چلتاہے کہ انہوں نے صرف پہلے نسخے کی کاپی حاصل کرکے نہیں چھاپ دیا بلکہ اس کی باقاعدہ کمپوزنگ کی گئی ہے۔ اسی درمیان شیخ نوراحمد کو شیخ ہاشم سندی اورشیخ حیات سندی کے مابین مناقشے کا پتہ چلا،مزید تحقیق پر مصنف کے نسخوں پر بھی اطلاع ہوئی اورپھر اس کو انہوں نے متن میں شامل کیا۔جیساکہ شیخ محمد عوامہ کہتے ہیں۔

یہ بات آپ کی درست ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی مخطوطہ نہ ہوتا تو ما قبل طبعات سے ساقط ابواب وغیرہ کی تکمیل کیسے کرتے ، تو صرف تکمیل ابواب کے لیے انہوں نے ایک اور نسخے پر اعتماد کیا ہے ۔ ارشاد الحق اثری صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’ اہل علم وخبر جانتے ہیں کہ اس کتاب کی طباعت کا اہتمام سب سے پہلے '' مولانا ابو الکلام اکادمی حیدر آباد ( ہند ) '' نے کیا اور پھر 1386ھ بمطابق 1966ءمیں اس کی پہلی جلد زیورطبع سے آراستہ ہو کر اہل علم و قدر کے ہاتھوں میں پہنچی۔اسی طرح اس کی دوسری اور تیسری جلد بھی اسی ادارہ کے تحت طبع ہوئی مگر نا معلوم وہ اسے مکمل کیوں نہ کرسکے ۔ پھر اس عظیم الشان کام کی تکمیل الدار السلفیہ بمبئی ( ہند ) نے کی جو پندرہ جلدوں میں پر مشتمل ہے ۔ مگر یہ نسخہ بھی من وجہ مکمل نہ تھا کیونکہ اس کی جلد نمبر 3 کے آخری صفحہ 396میں آئندہ چوتھی جلد کے بارےمیں لکھاہواہے:
ويتلوه كتاب الحج أوله بسم الله الرحمن الرحيم ما قالوا في ثواب الحج
مگرچوتھی جلد کاآغازاس محولہ باب سے نہیں بلکہ
في قوله تعالى : فصيام ثلاثة أيام في الحج
سے ہے ۔ مگر افسوس کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے ناشرین نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرف بالکل توجہ نہ دی کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے ۔
اس کے بعد اس کتاب کی طباعت کا انتظام '' ادار القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی '' نے کیا ۔ ادارہ کے بانی اور مالک و مدیر مولانا نور احمد صاحب ہیں جو حضرات مولانا مفتی محمدشفیع مرحومکے داماد ہیں ۔ موصوف ایک عرصہ تک ان کے دار العلوم کے ناظم بھی رہے ہیں ۔ مولانا نور احمد صاحب نے بھی اس کمی کو محسوس کیا تو اس کے قلمی نسخہ ( جو پیر آف جھنڈا کے کتب خانہ کی زینت ہے ) کی مدد سے ان چھوٹے ہوئے ابواب کی تصحیح و اضافہ کے ساتھ اسے طبع کرانے کا انتظام کیا جو پہلے نسخہ میں نہ تھے ۔ ان ابواب کی مجموعی تعداد 499 ہے بلکہ کتاب الأیمان والنذور والکفارات بھی اسی جلد میں ہے ۔ اور یوں یہ کتاب سولہ جلدوں میں مکمل طور پر طبع ہوئی ۔ جس پر یہ ادارہ اور اس کے مدیر بجا طور پر شکریہ کے مستحق ہیں ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ انتہائی کرب والم کی بات یہ ہے کہ اس کی جلد اول ( ص 390 ) میں
'' باب وضع الیمین علی الشمال '' کے تحت حضرات وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث
رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه علي شماله في الصلاة
کے آخر میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ '' تحت السرۃ '' کا اضافہ کردیا ۔ إنا لله وإنا إليه رجعون . ‘‘
گویا ادارۃ القرآن کے ناشرین کے پاس موجود مخطوط پیر آف جھنڈا کے کتب خانہ والا تھا ۔ لیکن حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ اس میں بھی نہیں ہیں ۔
مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے یہ قبول کیاکہ ان کے پاس کوئی نسخہ ہی نہیں تھا محض پہلی طباعت کی کاپی تھی لیکن اب آپ نے تسلیم کیاکہ ان کے پاس پیرجھنڈاکا نسخہ تھا۔ اس کے ساتھ اس کو بھی شامل کرلیجئے کہ ان کے پاس صرف پیر جھنڈاکاہی نسخہ نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر دونسخے بھی تھے جس کی انہوں نے شیخ محمد عوامہ سے گفتگو مین وضاحت کی تھی اور جس کو میں ماقبل میں نقل کرچکاہوں۔


گویا مخطوط اور مطبوع دو چیزوں کی مخالفت کی ہے ، اور اس پر کسی تنبیہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھی ۔ اور پھر یہ اضافہ بھی کوئی عام جگہ پر نہیں بلکہ ایک معروف مختلف فیہ مسئلہ سے متعلق ہے ۔ اس کو سوائے تحریف کے اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
جیساکہ میں ماقبل میں کہہ چکاہوں کہ برصغیر کی کتابوں میں اس طرح کی تنبیہات کا رواج نہیں رہاہے۔ جہاں تک معروف اورمختلف فیہ مسئلہ کی بات ہے توہماری نگاہ میں متن حدیث کا معاملہ بڑااہم ہے چاہے معروف مسئلہ ہو یاغیرمعروف مختلف فیہ ہویامتفق علیہ ۔ انہوں نے جن وجوہات سے اس لفظ کا اضافہ کیااس کا حوالہ ماقبل میں آچکاہے۔


طبعہ کراتشیہ میں اور دیگر طبعات میں جوہری فرق دو فرق ہیں :
1۔ کراچی والوں کے پاس اضافے کی علم و تحقیق کے اصولوں پر اترنے والی کوئی بنیاد یعنی مخطوط نہیں تھا ۔ جبکہ شیخ عوامہ وغیرہ نے مخطوط کا حوالہ دیا ہے ۔ اگرچہ وہ حوالہ بھی محل نظر ہے لیکن بہر صورت حوالہ دینے سے میری نظر میں وہ تحریف کے الزام سے بری ہوجاتے ہیں ۔2۔ کراچی والوں نے کوئی وضاحت نہیں کی ، بلکہ چپ چاب اضافہ کردیا اور کوئی تنبیہ نہیں کی ، جبکہ دوسرے لوگوں نے اس کی حاشیہ میں وضاحت کی ہے ۔
مجھے اس منطق کی سمجھ نہیں آئی ،اگر تحت السرہ ثابت ہے تو ہرحال میں ثابت ہے چاہے اس کی زیادتی راجح ہویامرجوح ،اگرنہیں ثابت ہے تونہیں ثابت ہے۔ وضاحت کردیااس لئے تحریف کا الزام نہیں لگائیں گے، وضاحت نہیں کی اس لئے تحریف کا الزام لگائیں گے۔ یہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں ، کیاعدم وضاحت اتنابڑاجرم ہے کہ اس کی بنیاد پر تحریف کا الزام لگادیاجائے۔
جہاں تک بات ان کے صاحبزادے کی مخالفین کوتحریف کا الزام دینے کی ہے تو یہ بات ان کی ردعمل میں ہے۔ انسان خود پر کسی بات کو برداشت کرلیتاہے لیکن اپنے اہل خانہ اپنے والدین کے سلسلے میں برداشت نہیں کرتا،جب ایک طبقہ کی جانب سے مسلسل الزام لگایاجائے کسی کے والد کہ انہوں نے فلاں کتاب میں تحریف کی ہے۔اوراس کی بنیاد یہ ہو کہ فلاں فلاں نسخے میں یہ بات نہیں تھی اس لئے یہ تحریف ہے تواسی منطق پر کہ فلاں فلاں نسخے میں یہ جملہ ثابت ہے لیکن بعض لوگ اس کو نہیں مان رہے ہیں توانہوں نے بھی تحریف کی۔ یہ ایک ردعمل کا جملہ تھااس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت اوراہمیت نہیں ہے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
آپکی ساری بات کا دو لفظوں میں میری سابقہ بات ھی کافی ھے کہ دادا محترم نے ان(مکتبہ والوں ) سے پوچھا تو انکے پاس کوئی بھی جواب نہ تھا.یعنی ان کو اوپر کا آرڈر تھا.وی حکم کے غلام تھے اور ایسا کرنے کے مجاز تھے.اور بس.
اور جب عثمانی صاحب والوں کو جب اس بات کا پتہ چلا ھوگا بلکہ یقینا.تو اتنا عرصہ دادا جی کو ان اشکالات سے کیوں آگاہ نہ کیا.
حالانکہ انکے دادا محترم سے بڑے اچھے روابط بھی تھے بلکہ وہ انکی علمی قابلیت کو تسلیم کرتے ھوئے سوالات بھی کرتے تھے.
بلکہ ان پر ایک اور احسان بھی تھا کہ شرح الطیبی مخطوط کا بھی دادا جی نے انکو عکس دیا تھا.
تو کم از کم جواب تو دیتے.
جواب دینا تو دور کی بات.پھر کبھی فیما اعلم انھوں نے رابطہ ھی نہ کیا.
یا اللہ ان سادہ بزرگ لوگوں کی سادگی سے کس طرح لوگوں نے فائدہ اٹھایا.
اللہم اشھد اللہم اشھد. اللہم اشھد.
آمینے.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
یہ میں پہلی بار دیکھرھا ھوں کہ سفید کپڑوں پر لگا نشان عرصہ دراز کے بعد دھویا جارھاھے.
محمد عوامہ کی تحقیق میں اس کا جواب محض کسی پر بندوق رکھ کر فائر کیا جارھا ھے.
جب تحریف پر لکھا جارھا تھا تو اس وقت انکو تردید کرنی چاہئے نکہ اب.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
مزید ملتان والوں کا میں عکس یہاں لگاؤنگا جس میں واضح تحریف ھے.
بلکہ مخطوط اور مصور دونوں لگاؤوںگا تاکہ آپکو انکی واضح تحریف نظر آجائے.ان شاء اللہ تعالی.
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
حکم کے کون غلام تھے؟مولانا نوراحمد تومکتبہ ان کا اپناتھا وہ کس کے غلام ہوتے؟؟؟؟؟؟؟
یہ آپ نے نئی بات بتائی ہے کہ داداجی نے ان سے بات کی تھی اورانہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔جوجواب شیخ محمد عوامہ کو دیاگیاوہی جواب آپ کے داداکوبھی دیاجاسکتاہے بلکہ مجھے حسن ظن ہے کہ دیاگیاہوگااب اسے تسلیم کرنا نہ کرنا یہ دیگر امر ہے۔
پھرآپ نے یہ واضح نہیں کیاکہ آپ کے دادامحترم نے کن سے رابطہ کیاتھا۔ براہ راست محترم نوراحمد صاحب سے یاپھر مکتبہ کے کسی عالم سے یاپھر کسی ملازم سے۔
شرح الطیبی کا نسخہ کا عکس آپ کے دادانے ان کو دیاتھا یہ بڑی اچھی بات ہے اہل علم کی یہی صفت ہوتی ہے کہ وہ علم کے پھیلائو کے خواہشمند ہوتے ہیں کسی مکتبہ میں قید کرکے رکھنے کے خواہشمند نہیں ہوتے۔ فجزاہ اللہ خیرا۔
اب رہ گئی تحریف کی بات تو اب تک مجھے کوئی قابل ذکر دلیل ملی نہیں، ہاں کچھ قرائن ہیں کچھ احتمالات ہیں لیکن ان چیزوں سے تحریف جیساسنگین الزام ثابت نہیں ہوتا۔
اللہ ہمیں اورآپ کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
یہ میں پہلی بار دیکھرھا ھوں کہ سفید کپڑوں پر لگا نشان عرصہ دراز کے بعد دھویا جارھاھے.
محمد عوامہ کی تحقیق میں اس کا جواب محض کسی پر بندوق رکھ کر فائر کیا جارھا ھے.
جب تحریف پر لکھا جارھا تھا تو اس وقت انکو تردید کرنی چاہئے نکہ اب.
ہمارے اورآپ کے دیکھنے نہ دیکھنے سے کیافرق پڑتاہے محترم!
چاہے کسی چیز کا جواب ۱۰۰برس بعد لکھاجائے اگرمدلل ہے توقابل قبول ہوناچاہئے۔
پھر دوسری بات یہ بھی قابل غوررہنی چاہئے کہ شیخ محمد عوامہ اردو توجانتے نہیں کہ برصغیر میں کیاہلچل ہے یہاں کے سلفی علماٗ کس موضوع پر لکھ رہے ہیں وہ ان سے واقف ہوتے اورتردید وتائید کرتے۔ جب یہ صورت حال نہیں ہے یہ توجب آپ کے علماٗء نے مختلف عنوان واسلوب سے اس موضوع کو ہوادیناشروع کردیااورعربی میں تحریر لکھیں جس کا حوالہ خضرحیات صاحب گزشتہ مراسلہ میں دے چکے ہیں تب شیخ محمد عوامہ نے تردید کی اور وہ بھی اس وقت جب مصنف ابن ابی شیبہ کی انہوں نے تحقیق کی توحدیث تحت السرۃ میں یہ وضاحت کی۔ اگر وہ یہ وضاحت نہ کرتے تو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ بڑاعجیب سامسئلہ ہے کہ خضرحیات صاحب کہتے ہیں کہ کتاب میں ہی وضاحت کیوں نہیں کی، آپ کہتے ہیں کہ اسی وقت وضاحت کیوں نہیں کی۔ کیا عدم وضاحت کوئی جرم ہے؟؟؟؟جس کی پاداش میں کسی پر تحریف کا الزام لگادیاجائے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
حکم کے کون غلام تھے؟مولانا نوراحمد تومکتبہ ان کا اپناتھا وہ کس کے غلام ہوتے؟؟؟؟؟؟؟
یہ آپ نے نئی بات بتائی ہے کہ داداجی نے ان سے بات کی تھی اورانہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔جوجواب شیخ محمد عوامہ کو دیاگیاوہی جواب آپ کے داداکوبھی دیاجاسکتاہے بلکہ مجھے حسن ظن ہے کہ دیاگیاہوگااب اسے تسلیم کرنا نہ کرنا یہ دیگر امر ہے۔
پھرآپ نے یہ واضح نہیں کیاکہ آپ کے دادامحترم نے کن سے رابطہ کیاتھا۔ براہ راست محترم نوراحمد صاحب سے یاپھر مکتبہ کے کسی عالم سے یاپھر کسی ملازم سے۔
شرح الطیبی کا نسخہ کا عکس آپ کے دادانے ان کو دیاتھا یہ بڑی اچھی بات ہے اہل علم کی یہی صفت ہوتی ہے کہ وہ علم کے پھیلائو کے خواہشمند ہوتے ہیں کسی مکتبہ میں قید کرکے رکھنے کے خواہشمند نہیں ہوتے۔ فجزاہ اللہ خیرا۔
اب رہ گئی تحریف کی بات تو اب تک مجھے کوئی قابل ذکر دلیل ملی نہیں، ہاں کچھ قرائن ہیں کچھ احتمالات ہیں لیکن ان چیزوں سے تحریف جیساسنگین الزام ثابت نہیں ہوتا۔
اللہ ہمیں اورآپ کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین۔

۱
آپ آدھی بات کا جواب دیتے ھیں جو آپکے موافق ھوتی ھے اور آدھی بات کو چھوڑدیتے ھیں.
۲
اپ میری باتیں قرضہ ھوتی جارھی ھیں
۳
یہ بات میرے والد محترم نے مجھے بتائی تھی.اور میں وغیرہ پوچھ کر آپکو بتاؤونگا.
۳
اور اگر انھوں نے دادا جی محترم وھی جاب دیا ھوتا تو
ایک تو والد محترم بتاتے.جواب وھی دیا جو میں کہچکا ھوں.
دوسرا یہ کہ دادا جی ان پر پھر رد نہ لکھتے.
آپ مقالات راشدیہ ج ۱ میں دیکھلیں.انھوں نے بڑا احتجاج کیا ھے.
بھر حال نہ مکتبہ والوں نے جواب دیا اور نہ مولانا عثمانی والوں نے.
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
یہ میں پہلی بار دیکھرھا ھوں کہ سفید کپڑوں پر لگا نشان عرصہ دراز کے بعد دھویا جارھاھے.
محمد عوامہ کی تحقیق میں اس کا جواب محض کسی پر بندوق رکھ کر فائر کیا جارھا ھے.
جب تحریف پر لکھا جارھا تھا تو اس وقت انکو تردید کرنی چاہئے نکہ اب.
ہمارے اورآپ کے دیکھنے نہ دیکھنے سے کیافرق پڑتاہے محترم!
چاہے کسی چیز کا جواب ۱۰۰برس بعد لکھاجائے اگرمدلل ہے توقابل قبول ہوناچاہئے۔
پھر دوسری بات یہ بھی قابل غوررہنی چاہئے کہ شیخ محمد عوامہ اردو توجانتے نہیں کہ برصغیر میں کیاہلچل ہے یہاں کے سلفی علماٗ کس موضوع پر لکھ رہے ہیں وہ ان سے واقف ہوتے اورتردید وتائید کرتے۔ جب یہ صورت حال نہیں ہے یہ توجب آپ کے علماٗء نے مختلف عنوان واسلوب سے اس موضوع کو ہوادیناشروع کردیااورعربی میں تحریر لکھیں جس کا حوالہ خضرحیات صاحب گزشتہ مراسلہ میں دے چکے ہیں تب شیخ محمد عوامہ نے تردید کی اور وہ بھی اس وقت جب مصنف ابن ابی شیبہ کی انہوں نے تحقیق کی توحدیث تحت السرۃ میں یہ وضاحت کی۔ اگر وہ یہ وضاحت نہ کرتے تو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ بڑاعجیب سامسئلہ ہے کہ خضرحیات صاحب کہتے ہیں کہ کتاب میں ہی وضاحت کیوں نہیں کی، آپ کہتے ہیں کہ اسی وقت وضاحت کیوں نہیں کی۔ کیا عدم وضاحت کوئی جرم ہے؟؟؟؟جس کی پاداش میں کسی پر تحریف کا الزام لگادیاجائے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
آپکی یہ تمام باتیں "کراما کاتبین "لکھرھے ھیں.اور روز قیامت آپکے سامنے ھوںگی.
دادا جی کو کیوں جواب نہ دیا گیا؟
عرب کی بات جب آپ پر آتی ھے تو آپ کہتے ھیں کہ یہ صرف ھند اور پاکستان میں شور ھوا ھے.
اور اب کہرھے ھیں وہ اردو نہیں جانتے.
واہ سبحان اللہ.
آپکا بہت اچھا اسلوب ھے محترم.
ٹھیک ھے.
 
Top