• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
بن قطلوبغا نے جس مخطوط میں ان الفاظ کی موجودگی کا دعوی کیا ھے.وہ اتنا لمبا عرصہ منتقل ھوتے ھوئے ابن قطلوبغا کے زمانے تک پنہچا پھر جس سے نقل ھوا اس کے مالکان وغیرہ کو بہی اسکی خبر نہ ھوئی.چلیں جن کو اس مخطوط کی خبر نہ تھی تو وہ معذور ھیں.لیکن جن پاس یہ نسخہ رہا نسل در نسل آتا رھا..تو جن کے پاس یہ نسخہ رھا انکو تو اس بات کو بیان کرنا چاھئے تھا نہ.یا چھپا کر علمی خیانت کے مرتکب ھوئے ھیں.کیسا عجیب معاملہ ھے اتنی صدیاں نہ ناسخین اس پر مطلع ھوئے اور نہ ھی جن کے پاس یہ اصل ونقل رہی.
آپ کے اس سوال کا وہی جواب جو آپ ذیل میں موجود سوال کا دیں گے۔
جب قاسم بن قطلوبغا نے اپنی کتاب میں اس حدیث کو لکھاتوپھر اس عہد اورمابعد کے محدثین نے اس انکار کیوں نہیں کیا یہاں تک کہ 12ویں صدی میں جاکر شیخ حیات سندھی کواس کا انکار کرناپڑا۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
ماشاء اللہ.
محترم یہ بات یقینا آپ کے لاجواب ھونے کی دلیل ھے.
کیوںکہ اسکی بات کا اگر آپکے پاس جواب ہوتا تو(اور یقینا ھے ھی نہیں) ان شاء اللہ قیامت تک بھی نہیں ملیگا.کیونکہ آپ سیدھی بات کو ٹھکرارھے ھیں. )آپ اس طرح کی بات کبھی نہ کرتے.
میرے محترم اس بات کا میری بات سے کیا تعلق؟
میں تو کہتا ھوں کہ فورم میں موجود علماء کرام بلکہ عامی بندہ بھی آپکی اس بات کو جواب تسلیم نہیں کریگا.
آپ علمی انداز میں جواب دیں.اپنے علم کا وقار رکھتے ھوئے.
ویسے آپکا دل بھی تسلیم نہیں کر رھا ھوگا جو آپنے بات کی ھے.
انصاف کی توقع ھے.
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
یہ بات میں نے ماقبل میں بھی کہی ہے لیکن آپ نے توجہ نہیں کی ہے ۔ آپ اگرمیرے گزشتہ مراسلات دیکھیں گے تواس میں بھی یہ بات کہی گئی ہے۔ میں نے پہلے ہی لکھاہے کہ
عدم ذکر ذکر کے عدم کو مستلزم نہیں ہے
اس اصول کو زبانی طورپرتسلیم کرکے عملی طورپر تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اگر ابن عبدالبر نووی اورابن حجر وغیرہ کا اس حدیث کو نہ ذکرکرنا ایک مستقل دلیل ہے(قرینہ کی جگہ)تو قاسم بن قطلوبغا کے دور سے لے کر بارہویں صدی تک کسی کااس پر رد نہ کرنا کس امر کی دلیل ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جب کہ قاسم بن قطلوبغا مصری تھے۔ مصر میں شافعی علماء کا زور تھا۔ شافعی علماء ناف کے اوپر ہاتھ باندھتے ہیں یہ حدیث ان کے خلاف تھی۔ ان کو توپہلی فرصت میں اس پر رد کرناچاہئے لیکن کیا ہمیں کوئی نام ملتاہے جس نے اس کا رد کیاہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ ایک اصول ایک جگہ تسلیم کرتے ہیں لیکن اسی اصول کو دوسری جگہ تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہین اورانصاف کی دہائی دیتے ہیں ۔انصاف کے بارے میں ہردور کے علماء کہتے ہیں ولکن الانصاف عزیز اب ہم جس دور میں ہے اس مین انصاف کی قلت کا مزید اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ ویسے فورم پر پوچھنے کا ہی سوال ہے تواس میں فورم کس کا ہے اس کا بھی بڑافرق پڑتاہے۔ یقین نہ ہوتو آزماکر دیکھ لیں۔
اس کے علاوہ اس مسئلہ میں راقم الحروف نے زیادہ تر ہندوستانی علماء کو ہی بحث کرتے ہوئے دیکھاہے۔ عرب علماء اس سے کم تعرض کرتے ہیں۔ حال میں شیخ محمد عوامہ نے مصنف ابن ابی شیبہ کو اپنی تحقیق کے ساتھ شائع کیا تواس میں یہ حدیث بھی شامل کیاہے لیکن اس پر عرب علماء نے وہ شور پکار نہیں مچایا جو ہندوپاک کے غیرمقلدین مچارہے ہیں۔
ویسے بھی ہندوپاک کے بعض علماء دنیا سے نرالے اصول بنانے میں معروف ہیں ۔
مجھے واقعتا یہ سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا کہ آپ حضرات کے پاس اس حدیچ یااس مین تحت السرۃ کی زیادتی کو بے اصل ثابت کرنے کی کون سے قطعی دلیل ہے۔ زیادہ سے زیادہ کچھ قرائن ہیں لیکن قرائن کبھی دلیل نہیں بنتے ۔ آپ بہت زورلگاکر اتناہی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بات راجح ہے لیکن اس کو تحریف کہنا،جعلی کہنا اوردیگر القاب وآداب سے نوازنا اصول تحقیق سے بے خبری کی علامت ہے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
۱
نسخوں میں اختلاف ھوجانا کوئی بڑی بات نہیں.
اور اس اختلاف کا حل یہ ھوتا ھے یا اسکی تصحیح دوسرے نسخوں کی مراجعت سے کی جاتی ھے.
اگر جو بات جس نسکے میں ھے اسکو صحیح تصور کرلیا جائے تو تعجب ھے محمد عوامہ پر کہ اتنے نسخے جمع کر کے کیوں تحقیق کی ھے؟
باقی باتوں میں تحقیق کرتے ھوئے انکو یہ کیوں نظر نہ آیا کہ نسخوں میں اس اختلاف سے اعداء اللہ خوش ھوںگے.
بس : تحت السرة" میں پتہ نہیں ایسا کیا راز ھے جو اس کو اگر سہو نہ مانا جائے تو اعداء اللہ خوش ھوجائیںگے.
اتنے بڑے محقق سے قطعا اسکی امید نہ تھی.
اور تعجب تو ابن قطلوبغا پر بہی ھے(اگر اس پر انہوں نے اعتماد کیاھے) کہ محض ایک نسخے کو دیکھ کر ھی فیصلہ صادر فرمادیا.
اگر بات ایسی ھی ھو تو محدثین کرام کو کیا پڑی تھی جو انہوں نے.شعبہ کے سعید ھوجانے اور سعید کے شعبہ ھوجانے ..سفیان کے شیبان اور شیبان کے سفیان ھوجانے پر کیوں کتابیں لکہیں.
اور اسکی درستگی دوسرے نسخوں اور کتابوں کی مراجعت سے ھی کی جاتی ھے.
فلیتدبر علی ذالک.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
یہ بات میں نے ماقبل میں بھی کہی ہے لیکن آپ نے توجہ نہیں کی ہے ۔ آپ اگرمیرے گزشتہ مراسلات دیکھیں گے تواس میں بھی یہ بات کہی گئی ہے۔ میں نے پہلے ہی لکھاہے کہ
عدم ذکر ذکر کے عدم کو مستلزم نہیں ہے
اس اصول کو زبانی طورپرتسلیم کرکے عملی طورپر تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اگر ابن عبدالبر نووی اورابن حجر وغیرہ کا اس حدیث کو نہ ذکرکرنا ایک مستقل دلیل ہے(قرینہ کی جگہ)تو قاسم بن قطلوبغا کے دور سے لے کر بارہویں صدی تک کسی کااس پر رد نہ کرنا کس امر کی دلیل ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جب کہ قاسم بن قطلوبغا مصری تھے۔ مصر میں شافعی علماء کا زور تھا۔ شافعی علماء ناف کے اوپر ہاتھ باندھتے ہیں یہ حدیث ان کے خلاف تھی۔ ان کو توپہلی فرصت میں اس پر رد کرناچاہئے لیکن کیا ہمیں کوئی نام ملتاہے جس نے اس کا رد کیاہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ ایک اصول ایک جگہ تسلیم کرتے ہیں لیکن اسی اصول کو دوسری جگہ تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہین اورانصاف کی دہائی دیتے ہیں ۔انصاف کے بارے میں ہردور کے علماء کہتے ہیں ولکن الانصاف عزیز اب ہم جس دور میں ہے اس مین انصاف کی قلت کا مزید اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ ویسے فورم پر پوچھنے کا ہی سوال ہے تواس میں فورم کس کا ہے اس کا بھی بڑافرق پڑتاہے۔ یقین نہ ہوتو آزماکر دیکھ لیں۔
اس کے علاوہ اس مسئلہ میں راقم الحروف نے زیادہ تر ہندوستانی علماء کو ہی بحث کرتے ہوئے دیکھاہے۔ عرب علماء اس سے کم تعرض کرتے ہیں۔ حال میں شیخ محمد عوامہ نے مصنف ابن ابی شیبہ کو اپنی تحقیق کے ساتھ شائع کیا تواس میں یہ حدیث بھی شامل کیاہے لیکن اس پر عرب علماء نے وہ شور پکار نہیں مچایا جو ہندوپاک کے غیرمقلدین مچارہے ہیں۔
ویسے بھی ہندوپاک کے بعض علماء دنیا سے نرالے اصول بنانے میں معروف ہیں ۔
مجھے واقعتا یہ سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا کہ آپ حضرات کے پاس اس حدیچ یااس مین تحت السرۃ کی زیادتی کو بے اصل ثابت کرنے کی کون سے قطعی دلیل ہے۔ زیادہ سے زیادہ کچھ قرائن ہیں لیکن قرائن کبھی دلیل نہیں بنتے ۔ آپ بہت زورلگاکر اتناہی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بات راجح ہے لیکن اس کو تحریف کہنا،جعلی کہنا اوردیگر القاب وآداب سے نوازنا اصول تحقیق سے بے خبری کی علامت ہے۔




محترم آپ جان بوجھ کر انجان کیوں بن رھے ھیں.
میرا سوال ھے کہ جس کے پاس.......یہ نہیںک دوسرے ائمہ...
یعنی ابن قطلوبغا تک جتنا عرصہ جس کے پاس نسخہ رھا تو اسنے کیوں بیان نہ کیا؟
آپ بار بار ایک ھی اصول کو بیان کرتے جارھے ھیں.
آپ یا تو میری تحریرقور سے نہیں پڑھتے.یا جان بوجہ کر ان جان بن رھے ھیں.
براہ کرم ایسا طریقہ استعمال نہ کریں جو بدگمانی پیدا ھو.
باقی عرب کا ھمارے ساتھ کیا تعلق.
اگر وہ اس پر توجہ نہیں دیرھے تو یہ انکا مسئلہ ھے.ھمیں تو بہر حال درست بات کی وضحت کرنی ھے.
پلیز میری بات کو سمجہیں پھر اسکا دو لفظوں میں جواب دیں.
بات ختم.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
میں وقاص بھائی اور دوسرے بھائیوں سے اپیل کرتا ھوں کہ محترم کو تحریف والے صفحات دکھادیں.
میں نے بارھا پچھلے صفحات کی مراجعت کا کہا ھے.آپ وہاں مراجعت کیوں نہیں کرلیتے.تاکہ آپکو معلوم ھوجائے کہ میں کس تحریف کی بات کررھا ھوں.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
میرے محترم
انصاف کی توقع ھے.
اللہ تعالی کوایک دن جواب دینا ھے.
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
نسخوں میں اختلاف ھوجانا کوئی بڑی بات نہیں.
اور اس اختلاف کا حل یہ ھوتا ھے یا اسکی تصحیح دوسرے نسخوں کی مراجعت سے کی جاتی ھے.
اگر جو بات جس نسکے میں ھے اسکو صحیح تصور کرلیا جائے تو تعجب ھے محمد عوامہ پر کہ اتنے نسخے جمع کر کے کیوں تحقیق کی ھے؟
باقی باتوں میں تحقیق کرتے ھوئے انکو یہ کیوں نظر نہ آیا کہ نسخوں میں اس اختلاف سے اعداء اللہ خوش ھوںگے.
بس : تحت السرة" میں پتہ نہیں ایسا کیا راز ھے جو اس کو اگر سہو نہ مانا جائے تو اعداء اللہ خوش ھوجائیںگے.
اتنے بڑے محقق سے قطعا اسکی امید نہ تھی.
اور تعجب تو ابن قطلوبغا پر بہی ھے(اگر اس پر انہوں نے اعتماد کیاھے) کہ محض ایک نسخے کو دیکھ کر ھی فیصلہ صادر فرمادیا.
اگر بات ایسی ھی ھو تو محدثین کرام کو کیا پڑی تھی جو انہوں نے.شعبہ کے سعید ھوجانے اور سعید کے شعبہ ھوجانے ..سفیان کے شیبان اور شیبان کے سفیان ھوجانے پر کیوں کتابیں لکہیں.
اور اسکی درستگی دوسرے نسخوں اور کتابوں کی مراجعت سے ھی کی جاتی ھے.
فلیتدبر علی ذالک.
اسی اصول پر توپھر میزان الاعتدال للذہبی میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ بھی محرف ماناجاناچاہئے۔کیونکہ وہ صرف ایک نسخہ میں ہے جب یہ کتاب اولاہندوستان میں شائع ہوئی تو محقق نے حاشیہ میں وضاحت کردی کہ چونکہ صرف ایک نسخہ میں ہے بقیہ نسخہ میں نہیں ہے۔ جب کہ اسی کو جب مصر سے شائع کیاگیاتو پھر امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کو اصل کتاب میں ڈال دیاگیااورنیچے حاشیہ میں وضاحت کی گئی کہ یہ صرف ایک نسخہ میں ہے۔
اگر شیخ محمد عوامہ نے قاسم بن قطلوبغا اور مرتضی الزبیدی وغیرہ کے نسخوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کو اصل میں جگہ دی ہے اورحاشیہ میں اس کی وضاحت کردی ہے تویہ کس اصول کی روسے غلط ہے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کے بارے میں شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے الرفع والتکمیل میں تفصیلی بحث کی ہے اوربتایاہے کہ حافظ پر ان کے انتقال سے کچھ دنوں پہلے پڑھاہوا جو نسخہ مغرب کے کتب خانہ میں محفوط ہے اورجس پر حفاظ حدیث کی مسموعات نقل ہیں اس میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نہیں ہے۔ شیخ بشار عواد کے پاس بھی میزان کا ایک مخطوط ہے اورقدیم ہے اس میں بھی نہیں ہے۔ حافظ سیوطی، حافظ عراقی،حافظ سخاوی نے بھی اپنے دور میں میزان میں اامام ابوحنیفہ کے ترجمہ سے بالواسطہ انکار کیاہے۔
خلاصہ کلام صرف ایک نسخہ میں جس کی حالت نہیں معلوم اس میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ ہے جب کہ اس سے کہیں بہت زیادہ موثق اورقابل اعتماد نسخوں میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نہیں ہے توآپ کے اصول کی روشنی میں تویہ ترجمہ الحاقی ہوناچاہئے اورایساکرنے والے تحریف کنندہ ہوں گے؟کیااس کو آنجناب تسلیم کرتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اورجہاں تک تحریف کی بات ہے تواگرمصنف ابن ابی شیبہ میں شیخ محمد عوامہ کی وضاحت پڑھ لیتے توپھر اس کو تحریف کرنے سے یقینااحتیاط کرتے، پہلے یہ حیدرآباد سے شائع ہوا، اس وقت یہ علم نہیں تھاکہ کسی نسخہ میں تحت السرۃ کی زیادتی بھی ہے توانہوں نے تحت السرۃ کی زیادتی کے بغیر چھاپا،پھر اس کو مختار احمد ندوی سلفی نے ممبئی سے شائع کرناشروع کردیا لیکن اس میں بہت زیادہ غلطیاں تھیں توپھر کراچی سے شائع ہوناشروع ہوا جب اسی دوران معلوم ہواکہ بعض نسخوں میں تحت السرۃ کی زیادتی بھی ہے تواس کو داخل متن کیاگیا۔ اس میں تحریف کہاں سے ہوئی ، کس نے کی اورکیسے کی۔
جب علم نہیں تھا تو پھر تحت السرۃ کی زیادتی نقل نہیں کی جب علم ہوا توپھر تحت السرۃ کی زیادتی کا اثبات بھی کیا۔
یہ تواحناف کی علمی امانت ہے کہ انہوں نے دونوں طرف کو مانا اس میں بھی اوراس میں بھی۔ ہاں یہ آپ لوگوں کا حال ضرورہے کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد خان۔
میں نے ماقبل میں بھی کہاتھاکہ آپ حضرات کی جانب سے اس کو تحریف ثابت کرنے کی کوئی علمی بنیاد تاحال مجھے نہیں ملی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بہرحال منتظر ہیں کہ دیکھیں کب ملتی ہیں۔کہ
ہے وصل سے زیادہ مزہ انتظار کا
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
جناب بات کو آپ دوسری طرف نہ لیجائیں.
میں نے جو بات کی ھے اس پر کیوں نہیں آتے.
کراچی والوں نے کس نسخے کا حوالہ دیا ھے.؟
آپ ذرا بتائیں تو صحیح.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس کے علاوہ اس مسئلہ میں راقم الحروف نے زیادہ تر ہندوستانی علماء کو ہی بحث کرتے ہوئے دیکھاہے۔ عرب علماء اس سے کم تعرض کرتے ہیں۔ حال میں شیخ محمد عوامہ نے مصنف ابن ابی شیبہ کو اپنی تحقیق کے ساتھ شائع کیا تواس میں یہ حدیث بھی شامل کیاہے لیکن اس پر عرب علماء نے وہ شور پکار نہیں مچایا جو ہندوپاک کے غیرمقلدین مچارہے ہیں۔
ویسے بھی ہندوپاک کے بعض علماء دنیا سے نرالے اصول بنانے میں معروف ہیں ۔
مجھے واقعتا یہ سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا کہ آپ حضرات کے پاس اس حدیچ یااس مین تحت السرۃ کی زیادتی کو بے اصل ثابت کرنے کی کون سے قطعی دلیل ہے۔ زیادہ سے زیادہ کچھ قرائن ہیں لیکن قرائن کبھی دلیل نہیں بنتے ۔ آپ بہت زورلگاکر اتناہی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بات راجح ہے لیکن اس کو تحریف کہنا،جعلی کہنا اوردیگر القاب وآداب سے نوازنا اصول تحقیق سے بے خبری کی علامت ہے۔
کراچی والوں نے مصنف کے ساتھ جوکیا ، اہلحدیث اس کو تحریف کیوں کہتے ہیں ؟
اور عرب علماء نے اس پر کیا شور مچایا اس کے لیے یہ لڑی ملاحظہ فرمائیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/حدیث-کی-کتاب-مصنف-ابن-ابی-شیبہ-کے-متن-میں-مسلکی-رجحانات-کے-اضافہ-کی-حقیقت.20933/
 
Top