نسخوں میں اختلاف ھوجانا کوئی بڑی بات نہیں.
اور اس اختلاف کا حل یہ ھوتا ھے یا اسکی تصحیح دوسرے نسخوں کی مراجعت سے کی جاتی ھے.
اگر جو بات جس نسکے میں ھے اسکو صحیح تصور کرلیا جائے تو تعجب ھے محمد عوامہ پر کہ اتنے نسخے جمع کر کے کیوں تحقیق کی ھے؟
باقی باتوں میں تحقیق کرتے ھوئے انکو یہ کیوں نظر نہ آیا کہ نسخوں میں اس اختلاف سے اعداء اللہ خوش ھوںگے.
بس : تحت السرة" میں پتہ نہیں ایسا کیا راز ھے جو اس کو اگر سہو نہ مانا جائے تو اعداء اللہ خوش ھوجائیںگے.
اتنے بڑے محقق سے قطعا اسکی امید نہ تھی.
اور تعجب تو ابن قطلوبغا پر بہی ھے(اگر اس پر انہوں نے اعتماد کیاھے) کہ محض ایک نسخے کو دیکھ کر ھی فیصلہ صادر فرمادیا.
اگر بات ایسی ھی ھو تو محدثین کرام کو کیا پڑی تھی جو انہوں نے.شعبہ کے سعید ھوجانے اور سعید کے شعبہ ھوجانے ..سفیان کے شیبان اور شیبان کے سفیان ھوجانے پر کیوں کتابیں لکہیں.
اور اسکی درستگی دوسرے نسخوں اور کتابوں کی مراجعت سے ھی کی جاتی ھے.
فلیتدبر علی ذالک.
اسی اصول پر توپھر میزان الاعتدال للذہبی میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ بھی محرف ماناجاناچاہئے۔کیونکہ وہ صرف ایک نسخہ میں ہے جب یہ کتاب اولاہندوستان میں شائع ہوئی تو محقق نے حاشیہ میں وضاحت کردی کہ چونکہ صرف ایک نسخہ میں ہے بقیہ نسخہ میں نہیں ہے۔ جب کہ اسی کو جب مصر سے شائع کیاگیاتو پھر امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کو اصل کتاب میں ڈال دیاگیااورنیچے حاشیہ میں وضاحت کی گئی کہ یہ صرف ایک نسخہ میں ہے۔
اگر شیخ محمد عوامہ نے قاسم بن قطلوبغا اور مرتضی الزبیدی وغیرہ کے نسخوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کو اصل میں جگہ دی ہے اورحاشیہ میں اس کی وضاحت کردی ہے تویہ کس اصول کی روسے غلط ہے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کے بارے میں شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے الرفع والتکمیل میں تفصیلی بحث کی ہے اوربتایاہے کہ حافظ پر ان کے انتقال سے کچھ دنوں پہلے پڑھاہوا جو نسخہ مغرب کے کتب خانہ میں محفوط ہے اورجس پر حفاظ حدیث کی مسموعات نقل ہیں اس میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نہیں ہے۔ شیخ بشار عواد کے پاس بھی میزان کا ایک مخطوط ہے اورقدیم ہے اس میں بھی نہیں ہے۔ حافظ سیوطی، حافظ عراقی،حافظ سخاوی نے بھی اپنے دور میں میزان میں اامام ابوحنیفہ کے ترجمہ سے بالواسطہ انکار کیاہے۔
خلاصہ کلام صرف ایک نسخہ میں جس کی حالت نہیں معلوم اس میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ ہے جب کہ اس سے کہیں بہت زیادہ موثق اورقابل اعتماد نسخوں میں امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نہیں ہے توآپ کے اصول کی روشنی میں تویہ ترجمہ الحاقی ہوناچاہئے اورایساکرنے والے تحریف کنندہ ہوں گے؟کیااس کو آنجناب تسلیم کرتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اورجہاں تک تحریف کی بات ہے تواگرمصنف ابن ابی شیبہ میں شیخ محمد عوامہ کی وضاحت پڑھ لیتے توپھر اس کو تحریف کرنے سے یقینااحتیاط کرتے، پہلے یہ حیدرآباد سے شائع ہوا، اس وقت یہ علم نہیں تھاکہ کسی نسخہ میں تحت السرۃ کی زیادتی بھی ہے توانہوں نے تحت السرۃ کی زیادتی کے بغیر چھاپا،پھر اس کو مختار احمد ندوی سلفی نے ممبئی سے شائع کرناشروع کردیا لیکن اس میں بہت زیادہ غلطیاں تھیں توپھر کراچی سے شائع ہوناشروع ہوا جب اسی دوران معلوم ہواکہ بعض نسخوں میں تحت السرۃ کی زیادتی بھی ہے تواس کو داخل متن کیاگیا۔ اس میں تحریف کہاں سے ہوئی ، کس نے کی اورکیسے کی۔
جب علم نہیں تھا تو پھر تحت السرۃ کی زیادتی نقل نہیں کی جب علم ہوا توپھر تحت السرۃ کی زیادتی کا اثبات بھی کیا۔
یہ تواحناف کی علمی امانت ہے کہ انہوں نے دونوں طرف کو مانا اس میں بھی اوراس میں بھی۔ ہاں یہ آپ لوگوں کا حال ضرورہے کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد خان۔
میں نے ماقبل میں بھی کہاتھاکہ آپ حضرات کی جانب سے اس کو تحریف ثابت کرنے کی کوئی علمی بنیاد تاحال مجھے نہیں ملی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بہرحال منتظر ہیں کہ دیکھیں کب ملتی ہیں۔کہ
ہے وصل سے زیادہ مزہ انتظار کا