ولو سلم وجوده في المصنف فقد حقق في حجة الله(الشاه ولي الله الدهلوي نورالله مرقده۔ابوالمحبوب)ان المصنف لابن ابي شيبة من كتب الطبقة الثالثة التي لا يستدل بها غير الجهبذة الا في المتابعات والشواهد وابن قطلوبغا ومن نحى نحوه كما لا يخفى ليسوا من الجهابذة الذين هم عارفون بعلل الاحاديث فلا يصح لمثلهم الاستدلال بهذاالحديث استقلالا۔
اولاتوحضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی کتب حدیث کی درجہ بندی کو خود غیرمقلدین نے بھی تسلیم نہیں کیاہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اسی طبقہ میں بلکہ شاید طبقہ رابعہ میں سنن بیہقی اورمعانی الآثار وغیرہ کو رکھاہے اوربھی دیگر کتابیں، کیااس کو کسی بھی ہمارے فریق مخالف غیرمقلد عالم نے تسلیم کیاہے۔
میں احاطہ کا دعویٰ نہیں کرتالیکن جتنی بھی کتابیں غیرمقلدین علماء کی میری نگاہوں سے گزری ہیں کسی میں بھی اس اصول کی پابندی نہیں کی گئی ہے اورنہ ہی اس کوتسلیم کیاگیاہے۔ دورکیوں جائیں خود یہ بزرگ جنہوں نے شاہ ولی اللہ کا حوالہ دے کر اپنی بات کو مستحکم کرناچاہاہے انہوں نے اس اصول کی پابندی نہیں کی ہے اورنہ اس کو بطور اصول تسلیم کیاہے توجوبات خود وہ تسلیم نہیں کرتے، ان کے مسلک کے علماء تسلیم نہیں کرتے اس کے بارے میں ہم سے مطالبہ ہے کہ ہم سے تسلیم کرلیں۔
اگرحضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی عظمت مقام آڑے نہ آتی توپھر شاید بھی لکھاجاسکتاتھاکہ یہ قول حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ سے پہلے کسی نے بھی نہیں کہا،دوسرے لفظوں میں کہیں تو راشدی صاحب جس چیز کو تحت السرۃ کی زیادتی کے شاذ ومنکر ہونے کی دلیل بیان کررہے ہیں کہ ماقبل کے علماء نے اس کا اثبات نہیں کیا توخود یہ بات حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے قول پر بھی صادق آتی ہے کہ ان سے پہلے کسی نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ کے بارے میں یہ نہیں کہاکہ اس سے صرف شواہد اورمتابعات کے طورپر استدلال کیاجاسکتاہے بطور اصل دلیل استدلال نہیں کیاجاسکتا۔ لہذا راشدی صاحب کے اصول پر یہ قول خود شاذ اورمنکر ہوا۔ یہاں بھی یہی کہتے ہیں کہ اس اعتراض کا جوجواب آپ کا ہوگا وہی جواب ہماراہماراہوگاکہ یہ زیادتی شاذ ومنکر نہیں ہے۔
وابن قطلوبغا ومن نحى نحوه كما لا يخفى ليسوا من الجهابذة الذين هم عارفون بعلل الاحاديث فلا يصح لمثلهم الاستدلال بهذاالحديث استقلالا
[/arb]
ابن قطلوبغا کے بارے میں اگرکتب تراجم کی جانب رجوع کیاجائے بالخصوص ان کی تصنیفات کی جانب تواس سے پتہ چلتاہے کہ علم حدیث میں ان کو کتنی مہارت تھی۔ ہمارایہ دعوی نہیں ہے کہ وہ ائمہ متقدمین کے ہمسر تھے لیکن اتنادعویٰ ضرور کہ وہ بدیع الدین شاہ راشدی ،ناصرالدین البانی اورموجودہ وماضی قریب کے ان کے تمام علماء سے علم حدیث میں زیادہ ماہر تھے نکتہ شناس تھے فن کی باریکیوں سے آگاہ تھے۔خود حافظ ابن حجر نے ان کی تعریف کی ہے۔ سخاوی نے ان کی تعریف کی ہے ۔اس عہد کے علماء نے ان کی تعریف کی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ کسی حدیث سے استدلال کرنے کیلئے جتنے اورجیسے علم کی ضرورت ہے وہ قاسم بن قطلوبغا میں بخوبی موجود تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ اصول جو راشدی صاحب نے ذکر کیاہے کیاوہ خود اس اصول کومانتے ہیں اس کا دوسرامطلب یہ ہوگاکہ کوئی بھی عہد حاضر کا مصنف ابن ابی شیبہ کی کسی روایت سے بطوردلیل استدلال نہ کرے،کیونکہ یہ صرف جہابذہ فن کا حصہ ہے تو جس کتاب سے بطور شواہد حافظ قاسم بن قطلوبغا جیسے ماہر فن مستقل دلیل کے طورپر استدلال نہیں کرسکتے توعہد حاضر کے وہ علماء جو ابن قاسم سے بہت فروتر ہیں ان کو بھی توچاہئے کہ استقلال اورغیر استقلال دونوں طرح سے اس کتاب سے استدلال نہ کریں۔
دوبارہ عرض کردوں کہ میں نے کسی بھی غیرمقلدکو اس اصول پر چلتے اورعمل کرتے نہیں دیکھاہے توراشدی صاحب کو توپہلے یہ اصول اپنے حلقہ میں رائج کرناچاہئے تھا لیکن جس اصول پر وہ خود نہیں چلتے، ان کے ہم مسلک لوگ نہیں چلتے اس پر وہ احناف کو چلاناچاہتے ہیں
ھذہ قسمۃ ضیزی