• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
قوله من تخريج القاسم: فهو الشاهد بحديث علي المتقدم ذكره.
اقول: حديث علي شديدالضعف فلا يتقوى بالشاهد.
واشيخ قاسم لم يجعل حديث وائل الذي وجده فى المصنف دليلا مستقلا بل جعله شاهدا لحديث علي.
فلعل ذالك بما ذكرنا من حجة الله ان مصنف ابن ابي شيبة من الكتب التي لايستدل بها الا فى الشواهد والمتابعات
فكن على بصيرة اولانه لم يستيقن بوجوده فى المصنف لان نسخة المصنف التى اخذ فيها هذاالحديث لم تكن عنده معتمدة.ص 76)

جی شیخ بہت ہی عمدہ انداز میں دلائل دئیے گئے ہیں ۔۔۔۔ اور یہ سب باتیں علماء نے بھی کیں ہیں اور میں نے اور دوسرے بھائیوں نے بھی یہاں ذکر کیں ہیں لیکن جب سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہو تو اسکا علاج کوئی نہیں۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
راشدی صاحب آپ جب عربی عبارت لکھیں ایڈیٹر میں اوپر ایک جگہ ’’ عربی ‘‘ لکھا ہوا ہے ۔تمام عبارت کو سیلیکٹ (ctrl+a) کرکے ’’ عربی ‘‘ والا بٹن دبا دیا کریں ۔
فی الحال میں نے کردیا ہے ۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
شاہ بدیع الدین راشدی کے ساتھ بڑے بڑے القاب وآداب ذکر کئے جاتے ہیں ۔ کہیں توان کے نام کے ساتھ شیخ العرب والعجم بھی لکھادیکھاہے لیکن اس پوری تحریرمیں نہ کوئی نئی بات ہے نہ کوئی نیاانداز ہے اوردلیل میں بھی کچھ انفرادیت نہیں ہے۔
وذالك لان اول من ادعىفيما علمنا وجودها في المصنف هوالشيخ قاسم بن قطلوبغا الحنفى فى تخريجه شرح المختار ولم نر واحداعن سلفه كشيخه ابن الهمام والعينى والحافظ ابن حجر والزيلعى والتركمانى والعراقى وابن الملقن وابن سيد الناس وابن دقيق العيد والنووى وغيرهم الذين يتعذر احصائهم نقل تلك الزيادة عن المصنف مع ان كل واحد منهم شاهد المصنف واخذ منه
ان کا پہلا سوال یہ ہے کہ فلاں فلاں علماء نے اس حدیث سے استدلال نہیں کیاتواولایہ کوئی دلیل نہیں بلکہ محض ایک قرینہ ہے اورقرینہ اوردلیل میں زمین وآسمان کا فرق ہوتاہے۔ ثانیافلاں فلاں نے ذکر نہیں کیاسے یہ کہاں لازم آیاکہ فلاں بھی نہ ذکر کرے؟یہ توبہت مشہور اورمعروف ہے کہ عدم ذکر ذکرعدم کو مستلزم نہیں ہے۔ کسی نے ذکر نہیں کیاکیوں نہیں کیااس کی ان کے پاس کیادلیل تھی وہ ان سے پوچھئے۔ ہم کیوں ذکر کرہے ہیں اس کی دلیل ہم سے پوچھئے۔ خلاصہ یہ کہ یہ کوئی دلیل نہیں بلکہ بس محض ایک معمولی قرینہ ہے اوردلائل کےبالمقابل قرآئن قابل اعتبار نہیں ہوتے۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
قال الامام الرازي ان الخبر اذا روي في زمان قد استقرت فيه الاخبار فاذا فتش عنه فلم يوجد في بطون الكتب ولا في صدورالرجال علم بطلانه اه۔
كذاذكره الحافظ ابن حجر في نكته وفيها ايضا عند عدالوجوه الدالة على الوضع منها ان يكون فيما يلزم الكلفين علمه وقطع العذر فيه فيتفرد به واحد اه۔
ولولا هذه الضرورة الملجئة لعرجنا على النسخة المثبتة وعلمنا بقول من اعتمد بها من النقلة لان معه زيادة علم
اس اصول کو دیکھ کر ہمیں ابن قیم کی وہ تقریر یاد آجاتی ہے جو انہوں نے حدیث قلتین پر کی ہے کہ پانی کا مسئلہ روزانہ کا مسئلہ ہے اورصحابہ کرام کے دور میں اس حدیث کا عام نہ ہونا اس حدیث کے شذوذ اورنکارت کی جانب اشارہ کرتاہے لیکن ہمارے مہربان ابن قیم کے اس اصول کو تسلیم نہ کرتے ہیں اورنہ کریں گے۔ پوری بحث تو تہذیب سنن ابی دائود میں ہے وہاں دیکھاجائے۔
سوال یہ ہے کہ امام رازی جوکچھ کہہ رہے ہیں اس کا زیر بحث مسئلہ میں اطلاق نہیں ہوتا۔کسی بھی عالم نے یہ نہیں کہاہے کہ میں نے حدیثیں کھوجیں اس تعلق سے لیکن کہیں نہیں ملیں۔
فاذا فتش عنه فلم يوجد في بطون الكتب ولا في صدورالرجال علم بطلانه
اس کی تفتیش کب کی ،کس نے کی اورکس زمانے کی ۔زیادہ سے زیادہ بات جوکہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ علماء نے نماز میں ہاتھ کہاں باندھاجائے اس موضوع پر اپنی تصانیف میں لکھاہے لیکن اس میں اس حدیث کو ذکر نہیں کیا یعنی ماقبل میں جو کچھ انہوں نے کہاہے وہی بات۔ توعدم ذکر سے ذکر کا عدم تولازم نہیں آتا۔ان کو نہیں ملی نہیں ذکر کیا۔
حافظ زیلعی اورحافظ ابن حجر کتنے وسیع النظرعالم ہیں احادیث پر ان کی کتنی گہری نگاہ ہے دونوں نے احادیث ہدایہ کی تخریج کی ہے۔ بعض وہ حدیثیں جو ان کونہیں مل سکی وہ حافظ قاسم بن قطلوبغا کو مل گئیں توان دونوں حضرات کو کوئی حدیث نہ ملنے سے یہ کیسے لازم آیاکہ اس حدیث کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
اس اصول میں یہ بھی قابل غورپہلو ہے کہ اگرکوئی حدیث مذکورہ بالا حضرات نے ذکر نہیں کی توکیااس حدیث کا انکار کردیاجائے؟شاید اس پہلو کو ہمارے فریق حضرات بھی قبول نہیں کریں گے توجوبات وہ خود قبول نہیں کرتے اس کو قبول کرنے پرہمیں کیوں مجبور کرتے ہیں؟؟؟؟؟؟
اس میں خلاصہ بات اتنی ہے کہ ان تمام حضرات جن کا نام راشدی صاحب نے لیاہے ان میں سے کسی نے بھی اس حدیث کا انکار نہیں کیاہے؟اورنہ ہی یہ کہاہے کہ ہم نے اس موضوع کی تمام احادیث کا استقصاء واحاطہ کیاہے توپھر جوبات ان حضرات نے بذات خود نہیں کی وہ بات بدیع الدین شاہ راشدی ان سے کیوں کہلواناچاہتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
مع ان كل واحد منهم شاهد المصنف واخذ منه
اس دعویٰ کو نہ راشدی صاحب ثابت کرسکتے ہیں اورنہ ان کا کوئی حامی ہی ثابت کرسکتاہے کہ جن جن کا نام انہوں نے لیاہے سب کے پاس مصنف ابن ابی شیبہ کا نسخہ موجود تھا اوراس سے انہوں نے نقل کیاہے۔ علماء دیگر علماء کی کتابوں سے بھی نقل بکثرت کرتے رہے ہیں۔ پتہ نہیں کس دلیل کی بنیاد پر راشدی صاحب نے یہ نتیجہ نکال لیاکہ ان سب کے پاس مصنف ابن ابی شیبہ موجود تھا۔حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ صحیح ابن حزیمہ سے علماء حوالہ دیتے آتے ہیں لیکن حافظ ابن حجر کے زمانہ سے قبل ہی اس کا نسخہ مفقود تھاحافظ ابن حجر کے پاس جو نسخہ تھا وہ بھی نامکمل تھا۔ اس کے باوجود حافظ ابن حجر کا نسخہ ابن خزیمہ کے حوالوں سے پر ہے۔

لا سيما الأئمة الحنفية مع اقتصارهم في مسئلة الباب على الضعاف والاعراض عن مثل هذه الزيادة الجليلة الموجودة في المصنف المتداول بينهم فهذه الضرورة توجب الريبة في وجودها في المصنف عند من له ادنى الهام بسر الشاذ والمنكر۔
ایک جانب کہاجاتاہےکہ حنفیہ کو حدیث میں کوئی درک ہی نہیں ہے ۔ حنفیہ کو حدیث سے کوئی لگائو ہی نہیں ہے وہ تومحض اہل الرائے ہیں ان کو حدیث کا کیاپتہ، دوسری جانب کسی حنفی کا اس حدیث کو ذکر نہ کرنا موجب شک بتایاجارہاہے۔ یہ تین اورتیرہ والی بات ہے یعنی جب من چاہاحنفیہ کو حدیث میں بے بضاعت بتایااورجب من چاہاان کے کسی حدیث کو ذکرنہ کرنے کو موجب شک وریب بتایاجارہاہے۔یہاں جرات کا شعرذکرناچاہ رہاتھا لیکن ایک مصرعہ پر ہی اکتفاء کرتاہوں
اس زلف پہ بھپتی شب دیجور کی سوجھی



من له ادنى الهام بسر الشاذ والمنكر


صحیح لفظ المامہوناچاہئے نہ کہ الہامیہ تصحیف ہے کیونکہ ادنی الہام کوئی چیز نہیں ہے۔ اوراگر اصل کتاب میں بھی ہے تو جویہاں ان کے جاننے والے ہیں اگلی طباعت میں درست کردیں۔
اسی بحث میں شاید اشماریہ صاحب نے زیادتی ثقہ کی بحث شروع کردی تو ان پر اعتراض ہونے لگے جب سند ایک ہے توزیادتی ثقہ کیسی توبھائی جب سند ایک ہی ہے تو پھر شاذ اورمنکر کی بات کہاں سے آگئی ۔
اگرزیادتی ثقہ کی بات کرنا غلط ہے وجہ یہ کہ سند ایک ہے تو یہی وجہ شاذ اورمنکر کے بھی غلط ہونے کیلئے کافی ہونی چاہئے۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
ولكن كفتنا تلك الضرورة عن العروج عليها لان خطأ الواحد اولى من خطا الجم الغفير۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
بخلاف حديث وائل فانه لم ينسبه احد الى المصنف واحد من السلف والخلف سوى ابن قطلوبغا ومن تبعه كامخدوم فثبت بهذاالتحقيق الحقيق ان زيادة تحت السرة شاذة منكرة لا يليق الاحتجاج به لا استقلالا ولا اتباعا كما هو شأن المنكرات والشواذ۔

اسی کو اگرہم دوسرے انداز میں کہیں تو سلفاعن خلفاکسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔جب علامہ قاسم بن قطلوبغا نے اس کا اثبات کیاآٹھویں صدی ہجری میں ،تب بھی کسی شافعی حنبلی مالکی عالم نے اس کا انکار نہیں کیا۔ حالانکہ بالخصوص مصر میں شافعیہ بہت تھے ۔حافظ قاسم بن قطلوبغا حافظ ابن حجر کے شاگرد اورحافظ سخاوی کے دوست اورشیخ بھی ہیں اس کے علاوہ اس عہد میں بے شمار ائمہ وعلماء تھے۔ اگریہ زیادتی واقعتا غیر ثابت بلکہ جیساکہ ہمارے مہربان کہتے ہیں تحریف ہوتی تو کیا کوئی ’’رجل رشید‘‘نہیں تھا جواس پر رد کرتااعتراض کرتا۔ ہمیں ایک بھی ایساعالم اس دور سے لے کر تاعلامہ حیات سندھی جوبارہویں صدی کے ہیں نہیں ملتا جس نے اس زیادتی کا انکار کیاہو، توجو جواب راشدی صاحب اوران کے حامی اس کا دیں گے کہ اس عرصے میں کسی نے اس کا انکار کیوں نہیں کیا وہی جواب ہم اس کا دیں گے کہ ماقبل کے علماء نے اس کا اثبات کیوں نہیں کیا۔
فثبت بهذاالتحقيق الحقيق ان زيادة تحت السرة شاذة منكرة لا يليق الاحتجاج به لا استقلالا ولا اتباعا كما هو شأن المنكرات والشواذ
قارئین نے جیساکہ ملاحظہ کیاکہ راشدی صاحب کے کلام میں تحت السرہ کی زیادتی کے شاذ اورمنکر ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے لیکن وہ بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ ثابت ہوگیا۔ اگرخود ان کی اپنی سمجھ کے مطابق ثابت ہوگیاتواس کا ہمیں انکا رنہیں ہے لیکن علمی سطح پر کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے موقف کے اثبات کیلئے کچھ چھوٹے موٹے قرائن بیان کئے، کچھ احتمالات ذکر کئے جس کے دیگر وجوہات بھی ہوسکتے ہیں ،نہ کہ صرف وہ جوانہوں نے سمجھاہے۔ اوران سب کے بعد کہہ رہے ہیں اس ’’تحقیق حقیق ‘‘سے ثابت ہوگیا۔اگرتحقیق حقیق اسی کانام ہے تویہ ثانیہ کا کوئی بھی طالب علم کرسکتاہے۔بلکہ اس سے اچھی تحقیق کرسکتاہے۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
ولو سلم وجوده في المصنف فقد حقق في حجة الله(الشاه ولي الله الدهلوي نورالله مرقده۔ابوالمحبوب)ان المصنف لابن ابي شيبة من كتب الطبقة الثالثة التي لا يستدل بها غير الجهبذة الا في المتابعات والشواهد وابن قطلوبغا ومن نحى نحوه كما لا يخفى ليسوا من الجهابذة الذين هم عارفون بعلل الاحاديث فلا يصح لمثلهم الاستدلال بهذاالحديث استقلالا۔
اولاتوحضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی کتب حدیث کی درجہ بندی کو خود غیرمقلدین نے بھی تسلیم نہیں کیاہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اسی طبقہ میں بلکہ شاید طبقہ رابعہ میں سنن بیہقی اورمعانی الآثار وغیرہ کو رکھاہے اوربھی دیگر کتابیں، کیااس کو کسی بھی ہمارے فریق مخالف غیرمقلد عالم نے تسلیم کیاہے۔
میں احاطہ کا دعویٰ نہیں کرتالیکن جتنی بھی کتابیں غیرمقلدین علماء کی میری نگاہوں سے گزری ہیں کسی میں بھی اس اصول کی پابندی نہیں کی گئی ہے اورنہ ہی اس کوتسلیم کیاگیاہے۔ دورکیوں جائیں خود یہ بزرگ جنہوں نے شاہ ولی اللہ کا حوالہ دے کر اپنی بات کو مستحکم کرناچاہاہے انہوں نے اس اصول کی پابندی نہیں کی ہے اورنہ اس کو بطور اصول تسلیم کیاہے توجوبات خود وہ تسلیم نہیں کرتے، ان کے مسلک کے علماء تسلیم نہیں کرتے اس کے بارے میں ہم سے مطالبہ ہے کہ ہم سے تسلیم کرلیں۔
اگرحضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی عظمت مقام آڑے نہ آتی توپھر شاید بھی لکھاجاسکتاتھاکہ یہ قول حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ سے پہلے کسی نے بھی نہیں کہا،دوسرے لفظوں میں کہیں تو راشدی صاحب جس چیز کو تحت السرۃ کی زیادتی کے شاذ ومنکر ہونے کی دلیل بیان کررہے ہیں کہ ماقبل کے علماء نے اس کا اثبات نہیں کیا توخود یہ بات حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے قول پر بھی صادق آتی ہے کہ ان سے پہلے کسی نے بھی مصنف ابن ابی شیبہ کے بارے میں یہ نہیں کہاکہ اس سے صرف شواہد اورمتابعات کے طورپر استدلال کیاجاسکتاہے بطور اصل دلیل استدلال نہیں کیاجاسکتا۔ لہذا راشدی صاحب کے اصول پر یہ قول خود شاذ اورمنکر ہوا۔ یہاں بھی یہی کہتے ہیں کہ اس اعتراض کا جوجواب آپ کا ہوگا وہی جواب ہماراہماراہوگاکہ یہ زیادتی شاذ ومنکر نہیں ہے۔



وابن قطلوبغا ومن نحى نحوه كما لا يخفى ليسوا من الجهابذة
الذين هم عارفون بعلل الاحاديث فلا يصح لمثلهم الاستدلال بهذاالحديث استقلالا

[/arb]
ابن قطلوبغا کے بارے میں اگرکتب تراجم کی جانب رجوع کیاجائے بالخصوص ان کی تصنیفات کی جانب تواس سے پتہ چلتاہے کہ علم حدیث میں ان کو کتنی مہارت تھی۔ ہمارایہ دعوی نہیں ہے کہ وہ ائمہ متقدمین کے ہمسر تھے لیکن اتنادعویٰ ضرور کہ وہ بدیع الدین شاہ راشدی ،ناصرالدین البانی اورموجودہ وماضی قریب کے ان کے تمام علماء سے علم حدیث میں زیادہ ماہر تھے نکتہ شناس تھے فن کی باریکیوں سے آگاہ تھے۔خود حافظ ابن حجر نے ان کی تعریف کی ہے۔ سخاوی نے ان کی تعریف کی ہے ۔اس عہد کے علماء نے ان کی تعریف کی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ کسی حدیث سے استدلال کرنے کیلئے جتنے اورجیسے علم کی ضرورت ہے وہ قاسم بن قطلوبغا میں بخوبی موجود تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ اصول جو راشدی صاحب نے ذکر کیاہے کیاوہ خود اس اصول کومانتے ہیں اس کا دوسرامطلب یہ ہوگاکہ کوئی بھی عہد حاضر کا مصنف ابن ابی شیبہ کی کسی روایت سے بطوردلیل استدلال نہ کرے،کیونکہ یہ صرف جہابذہ فن کا حصہ ہے تو جس کتاب سے بطور شواہد حافظ قاسم بن قطلوبغا جیسے ماہر فن مستقل دلیل کے طورپر استدلال نہیں کرسکتے توعہد حاضر کے وہ علماء جو ابن قاسم سے بہت فروتر ہیں ان کو بھی توچاہئے کہ استقلال اورغیر استقلال دونوں طرح سے اس کتاب سے استدلال نہ کریں۔
دوبارہ عرض کردوں کہ میں نے کسی بھی غیرمقلدکو اس اصول پر چلتے اورعمل کرتے نہیں دیکھاہے توراشدی صاحب کو توپہلے یہ اصول اپنے حلقہ میں رائج کرناچاہئے تھا لیکن جس اصول پر وہ خود نہیں چلتے، ان کے ہم مسلک لوگ نہیں چلتے اس پر وہ احناف کو چلاناچاہتے ہیں ھذہ قسمۃ ضیزی
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
۱
محترمی عزت اللہ تعالی کے ھاتھ میں ھے ان القابات میں نھیں.
۲
مذکورہ تحریر شیخ بدیع کی نہیں بلکہ شیخ رشداللہ شاہ(شیخ کے دادا محترم ھیں )کے کتاب کی ھے.تعاقب سے قبل غور فرمالیا کریں.
۳
ابن قطلوبغا کے پاس قلمی نسخہ اسی زمین کاھی تھا آسمان سے نہیں آیا تھا.ضرور کسی سے نقل ھوگا.تو کیا وجہ ھے کہ وہ اصلیں ساری گم نقل محفوظ رھگئی.
۴
آپ فتح الباری اور تغلیق التعلیق ابن حجر کی دیکھیں المصنف سے کتنے حوالے پیش کئے گئے ھیں.لگتا ھے ابن حجر والا نسخہ خاص "وضع الیدین " کے باب سے خالی تھا.
۵
صحیح ابن خزیمہ ابن حجر سے قبل مفقود ھوگیا تھا یا اسکے پاس مکمل نہ تھا اور وہ دوسروں کے نسخے سے حوالہ دیتے تھے.دلیل؟
۶
ابن قطلوبغا کا ۱ نسخہ تھا. کیا وہ ایک نسخہ پوری دنیا میں گھوما تھا یا اسکی بہت ساری نقلیں ھوکر پوری دنیا میں پنہچیں جو اسکا رد کیا جاتا..؟ اگر اسکی نقلیں تھیں تو ثابت کریں. صرف عقلیں نہ چلائیں.
۷
ابن قطلوبغا اھل الرأی میں سے تھا. حدیث کا فن اھل الحدیث(محدثین کرام) کا تھا انکی بات کو اھمیت ھوگی.سند کے حل ھوجانے کے بعد متن پر بات ھوتی ھے.العاقل تکفیہ الاشار ہ
۸
اگر پختہ دلیل تھی تو تحریف کی کیوں ضرورت پڑی تھی؟ آخر اس پر جخاموشی کیوں جواب کیوں نہیں دیا جاتا؟
۹
اگر تطبیق ہی اولی ھے آپکے نزدیک(جیسا اوپر برتن کی مثال دی گئی )تو پھر اس طرح ھوگا کہ ۱ ھاتھ سینے پر اور ۱ ھاتھ زیر ناف ھونا چاھئے
اس لئے کہ واقعہ ۱ ھے. کیوںکہ حدیث میں مضارع کا صیغہ نہیں ماضی کا استعمال ھوا ھے.لیکن پھر مسئلہ یہ ھوگا کہ ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر ھے.اب اپنی تطبیق کو آپ ھی حل کریں.
۱۰
شاہ ولی اللہ کی بات میں نظر ھے.
 
Top