• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
محترمی عزت اللہ تعالی کے ھاتھ میں ھے ان القابات میں نھیں.
اس میں توکوئی شک ہی نہیں ہے۔
۲

مذکورہ تحریر شیخ بدیع کی نہیں بلکہ شیخ رشداللہ شاہ(شیخ کے دادا محترم ھیں )کے کتاب کی ھے.تعاقب سے قبل غور فرمالیا کریں.
اس افادہ کیلئے شکریہ اورمیں اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہوں لیکن اس سے بحث اورنتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتاکہ تحریر کس کی ہے۔
۳

ابن قطلوبغا کے پاس قلمی نسخہ اسی زمین کاھی تھا آسمان سے نہیں آیا تھا.ضرور کسی سے نقل ھوگا.تو کیا وجہ ھے کہ وہ اصلیں ساری گم نقل محفوظ رھگئی.
شیخ قاسم بن قطلوبغا کے علاوہ دیگر کے پاس جونسخے تھے وہ بھی اسی زمین کے تھے اوربراہ راست مصنف کایامصنف کےعہد کایااس کےعہد سے متصل نسخہ کاکسی نے بھی دعویٰ نہیں کیاہے توپھر دیگر کوترجیح کیسے حاصل ہوجائے گی شیخ قاسم کے نسخہ پر ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کبھی نقل محفوظ رہتی ہے اوراصل گم ہوجاتی ہے اس کی مثالیں مخطوطات سےشغف رکھنے والوں کیلئے کم نہیں ہیں،بےشمار ہیں۔ آپ کہئے تومثالیں عرض کردوں۔
۴

آپ فتح الباری اور تغلیق التعلیق ابن حجر کی دیکھیں المصنف سے کتنے حوالے پیش کئے گئے ھیں.لگتا ھے ابن حجر والا نسخہ خاص "وضع الیدین " کے باب سے خالی تھا.
اس سےثابت کیاہوا،میںنے ماقبل میں کہاتھاکہ نصب الرایہ کی حافظ ابن حجر نے تخریج کی ہے ان کوبعض حدیثیں نہیں ملیں اس پرلکھ دیا لم اجدہ شیخ قاسم کووہ حدیثیں مل گئیں جس کوانہوں نے منیۃ الالمعی میں ذکر کیاہے۔ اب حافظ ابن حجر کاعدم ذکرذکر کےعدم کوتومستلزم نہیں ہوسکتاہے نا۔
۵

صحیح ابن خزیمہ ابن حجر سے قبل مفقود ھوگیا تھا یا اسکے پاس مکمل نہ تھا اور وہ دوسروں کے نسخے سے حوالہ دیتے تھے.دلیل؟
یہ بات میں نےفیض الباری میں پڑھی ہے۔علامہ انورشاہ کشمیری نے بھی کسی اورکے حوالہ سے یہ بات لکھی ہے۔ اس کاحوالہ بعد میں عرض کرتاہوں۔
۶

ابن قطلوبغا کا ۱ نسخہ تھا. کیا وہ ایک نسخہ پوری دنیا میں گھوما تھا یا اسکی بہت ساری نقلیں ھوکر پوری دنیا میں پنہچیں جو اسکا رد کیا جاتا..؟ اگر اسکی نقلیں تھیں تو ثابت کریں. صرف عقلیں نہ چلائیں.
آپ کامعاملہ بڑاعجیب ہے۔ میں نے نسخہ کی بات ہی نہیں کی ہے۔ میں نے تویہ کہاہےکہ جب انہوںنےاپنی کتاب التعریف والاخبار بتخریج احادیث الاختیار میں اس حدیث کوذکر کیا۔وہ کتاب عام بھی ہوئی ہوگی ان کےشاگردوں نے بھی پڑھاہوگادیگر افراد کی نگاہ سے بھی گزری ہوگی ۔تب کسی نے تردید کیوں نہیں کی۔ یہ میں نے ماقبل میں کہاہے اورآپ نسخہ کی بات کررہے ہیں۔ خاص طورپر مصر میں جہاں شافعی حضرات کاغلبہ تھااوراس وقت بڑے بڑےمحدثین شافعیہ موجود تھے۔ انہوں نے تردید کیوں نہیں کی۔ اس کاجواب آپ دیں گے وہی جواب ہمارے نزدیک اس سوال کاہوگاکہ ماقبل کے محدثین نے اس کاذکر کیوں نہیں کیا۔
۷

ابن قطلوبغا اھل الرأی میں سے تھا. حدیث کا فن اھل الحدیث(محدثین کرام) کا تھا انکی بات کو اھمیت ھوگی.سند کے حل ھوجانے کے بعد متن پر بات ھوتی ھے.العاقل تکفیہ الاشار ہ
مجھے اعتراف ہے کہ آپ نے جس عقل مندی کی جانب اشارہ کیاہے وہ مجھ میں موجود نہیں ہے کیونکہ خیر سے میں بھی اہل الرائے میں سے ہی ہوں۔ ویسے یہ اوربات ہے کہ عربی کے محاورہ میں اہل الرائے صاحبان عقل کوہی کہاجاتاہے اوررای سےعقل کوہی بسااوقات مراد لیاجاتاہے ۔
محترم ،علم وفن کسی کی جاگیر نہیں ہوتی۔کہ اگرکسی نے اپنانام اہل حدیث رکھ لیاہے تواس کوحدیث پرعبور ہوجائے گابلکہ کسی فن میں کمال اوررسوخ جہد پیہم اورمسلسل مشق ومزاولت سے حاصل ہوتی ہے۔ اورمحنت کا دروازہ ہرایک کیلئے کھلاہواہے اللہ نے اسے بند نہیں کیا۔باتیں ایسی کیجئے جس کو اہل علم نے عمومی طورپر قبول کیاہو،ورنہ اپنے حلقہ کی باتوں کو دوہرانا جس کو اہل علم مذاق سمجھیں اس سےپرہیز ہی بہتر ہے۔
بطور مثال عرض کرتاہوں ۔زبیر علی زئی مرحوم نے کہیں لکھاہے کہ المدونہ غیر مستند کتاب ہے۔ دنیا کےکتنے اہل علم اس کو قبول کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟آپ کی ماقبل کی بات کہ قاسم بن قطلوبغا اہل الرای میں سے ہیں اس لئے ان کی بات مقبول نہیں ہوگی یہ بات تو شیخ بدیع کے دادا نے بھی نہیں کی پتہ نہیں آپ نے کس طرح کہہ دیا۔ شیخ قاسم بن قطلوبغا کا ترجمہ آپ نے اگراب تک نہیں پڑھاہے توپڑھ لیں۔محض اہل الرائے اوراہلحدیث کی بنیاد پر فیصلے کرنا درست طریقہ نہیں ہے۔
۸

اگر پختہ دلیل تھی تو تحریف کی کیوں ضرورت پڑی تھی؟ آخر اس پر جخاموشی کیوں جواب کیوں نہیں دیا جاتا؟
میں آپ کی اس بات کوٹھیک سے سمجھ نہیں پایا ذرا سیاق وسباق اورکیاکہناچاہتے ہیں واضح کریں۔پختہ دلیل کون سی، تحریف کہاں پر اورخاموشی کس امر میں۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
۹
اگر تطبیق ہی اولی ھے آپکے نزدیک(جیسا اوپر برتن کی مثال دی گئی )تو پھر اس طرح ھوگا کہ ۱ ھاتھ سینے پر اور ۱ ھاتھ زیر ناف ھونا چاھئے
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے گزشتہ بحث پوری طرح نہیں پڑھی ہے۔برتن کاقضیہ کیاہے اوراشماریہ صاحب نے کیامثال دی ہے اس سے مجھے سردست کوئی مطلب بھی نہیں ہے اورجمع وتطبیق کامرحلہ توتب آئے گاجب آپ اسےتسلیم کرلیں کہ ہاں واقعۃ یہ حدیث موجود ہے اوردرست ہےاورمصنف ابن ابی شیبہ کی ہے۔ جب آپ بنیاد ہی تسلیم نہی کریں تواس پر دس منزلہ عمارت کس طرح کھڑی کررہے ہیں محترم!
اس لئے کہ واقعہ ۱ ھے. کیوںکہ حدیث میں مضارع کا صیغہ نہیں ماضی کا استعمال ھوا ھے.لیکن پھر مسئلہ یہ ھوگا کہ ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر ھے.اب اپنی تطبیق کو آپ ھی حل کریں.
ماقبل میں جو بات کہی گئی ہے کہ پہلے حدیث کوتسلیم کریں اس کے بعد بقیہ امور پر بات ہوگی۔ میرے خیال میں اس کیلئے بہتر ہے کہ آپ منتظمین سے کہہ کرایک نیاتھریڈ مکالمہ میں کھول لیں جہاں ہم دونوں اس حدیث پر اپنی معلومات کو رکھیں۔
۱۰
شاہ ولی اللہ کی بات میں نظر ھے.
چلئے آُپ نے یہ تسلیم کیابڑی مہربانی ،کرم نوازش اورشکریہ،
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
اسکا مطلب یہ ھوا کہ آپ اپنے اکابر سے علم وزھد میں آگے ھیں
اختلافی مسائل میں ہر کوئی مضبوط سے مضبوط دلیل دینے کی کوشش کرتا ھے مگر کیسی عقلمندی ھے کہ آپکے اکابر نے ابن قطلوبغا تک کمزو سے کمزور دلائل ذکر کرنے ہی میں عافیت سمجھی مگر مضبوط دلیل آپ جیسے خلف کے لئے علم میں خیانت کرتے ھوئے چھوڑدی.
یہ کیسا انصاف ھے کہ آپ جیسے اس مضبوط دلیل کو بے دھڑک بیان کریں مگر تمام اکابر نے عزم کرلیا تھا کہ مضبوط دلیل نہیں کمزور دلائل ذکر کریںگے.
لیکن ابن قطلوبغا رہ نہ سکے اور اس راز کو فاش کردیا.


باقی نماز کے بعد
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
اسکا مطلب یہ ھوا کہ آپ اپنے اکابر سے علم وزھد میں آگے ھیں
اختلافی مسائل میں ہر کوئی مضبوط سے مضبوط دلیل دینے کی کوشش کرتا ھے مگر کیسی عقلمندی ھے کہ آپکے اکابر نے ابن قطلوبغا تک کمزو سے کمزور دلائل ذکر کرنے ہی میں عافیت سمجھی مگر مضبوط دلیل آپ جیسے خلف کے لئے علم میں خیانت کرتے ھوئے چھوڑدی.
یہ کیسا انصاف ھے کہ آپ جیسے اس مضبوط دلیل کو بے دھڑک بیان کریں مگر تمام اکابر نے عزم کرلیا تھا کہ مضبوط دلیل نہیں کمزور دلائل ذکر کریںگے.
لیکن ابن قطلوبغا رہ نہ سکے اور اس راز کو فاش کردیا.
یہ اصول تومشہور ہے عدم ذکر سے ذکرکاعدم لازم نہیں آتا۔اسے خودبہت سارےمقامات پرغیرمقلدین علماء تسلیم کرتے ہیں فریق مخالف کے خلاف بطور حجت استعمال کرتےہیں تو سوال یہ ہے کہ کیاکسی ماقبل عالم نے اس حدیث کاانکار کیا،جواب ہے کہ نہیں کیاتو اب عدم ذکر کو زبردستی ذکر عدم کی دلیل بنائی جائے تویہ تو غیراصولی بات ہے نا۔
جہاں تک علم میں خیانت وغیرہ کی بات ہے تو محترم اپناعلمی وقار برقراررکھیں،ورنہ پھرآپ ہی شکوہ کریں گے کہ میں بدتمیزی کررہاہوں۔
جن بزرگوں کو وہ نسخہ ملا جس میں یہ روایت نہیں تھی انہوں نے نقل نہیں کیا۔جن کو ملاانہوںنے نقل کیا۔اس میں اتناحیران پریشان ہونے کی ضرورت کیاہے؟ِ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟پھر یہ کہ ایسے نسخے صرف قاسم بن قطلوبغا کے نہیں تھے بلکہ دیگر نسخے بھی ہیں، دیگر نسخوں کے بارے میں بلادلیل یہ کہناکہ وہ قاسم بن قطلوبغا کانسخہ سے نقل کیاگیاہے کوئی علمی رویہ نہیں ہے۔
میراتونہیں خیال کہ بقیہ دلائل ہمارے کمزور ہیں،بلکہ اگرکوئی اس مسئلے میں تمام ائمہ کامسلک ہی دریافت کرلے تویہ بات جان جائے گاکہ سینےپر ہاتھ رکھنے کامسلک کسی کانہیں ہے۔ ہاتھ باندھنے اورہاتھ کھلارکھنے اورہاتھ ناف کے نیچے یاناف کے اوپر باندھنے کامسلک ہے یعنی ناف کے اوپر سینے سے قریب۔
سینے کےاوپر ہاتھ رکھنے کامسلک ائمہ اربعہ میں سے کسی کابھی نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام اورتابعین عظام میں سے بعض نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھا اوربعض نے ناف کے اوپر،جب صحابہ کرام سےعبادات میں سے کسی عمل کا ثبوت مل جائے اوروہ عمل ایساہو کہ اس میں قیاس کودخل نہ ہو تو وہ بھی مرفوع حکمی ہوگی۔چونکہ صحابہ کے بارے میں یہ بات قیاس بھی نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے عبادات میں سے کوئی ایک عمل وہ بھی نماز کی اپنی مرضی سے اختیار کرلی ہوگی۔
یقین مانئے کہ تحت السرہ کی یہاں وہاں بہت بحثیں پڑھیں،مولانا ارشاد الحق اثری کامقالہ بھی پڑھاجواسی موضوع پر ہے لیکن مخالفین کی سب سے مضبوط دلیل لگتاہے کہ یہی ہے کہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔ اورظاہر سی بات ہے کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔بلکہ اصول کے ہی خلاف ہے۔
مجھے خوشی ہوگی کہ اگرآپ اپنے دلائل ترتیب وار سامنے لائیں اوراس پر مناقشہ کرلیں تاکہ قارئین کے سامنے حقیقت واضح ہوکرآجائے ۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
اس اصول کا کس نے انکا ر کیا ھے.
تعجب آپکے طریقہ استعمال پر ھے.
آپکی بات کی وجہ سے جو نتیجہ نکلتا تھا وہ میںنے آپکو بتا یا تو آپکو غصہ آنے لگا.
ویسے بھی حقیقت ھے کہ دلائل جب ختم ھوجاتے ھیں تو غصہ آنا شروع ھوجاتا ھے.
بہر حال آپ غصہ اپنے آپ پر کریں نہ کہ مجھ پر.کیونکہ آپکی بات ھی کا یہ نتیجہ ھے.
آپ اتنا جلدی سب دلائل سے کیوں رخصت ھونا چاہتے ھیں؟۱ بات میں تسلی ھوجائے باقی بھی حل ھوجائینگی.
ویسے آپنے مذکورہ تحریر سے اپنے موقف پر پانی پھیردیا ھے اگر آپ کو نظر آئے تو.
جن بزرگوں کو نہیں ملا اس نے بیان نہیں کیا.اس بات کو لکھنے سے قبل پوری طرح سے غور کرلیا ھوتا تو شاید.....
یعنی ابن قطلوبغا تک کسی بھی امام کو یہ بات نظر نہ آئی.
یہ ھے آپکی بات کا خلاصہ.یعنی آپنے اس کو تسلیم کرلیا.الحمدللہ.
یعنی جس نے بیان نہیں کیا اسکو ملا نھیں.جب ملا نھیں تو بیا نھیں کیا جب بیان نہ کیا تو اسک رد کیسا؟
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
اس اصول کا کس نے انکا ر کیا ھے.
تعجب آپکے طریقہ استعمال پر ھے.
آپکی بات کی وجہ سے جو نتیجہ نکلتا تھا وہ میںنے آپکو بتا یا تو آپکو غصہ آنے لگا.
ویسے بھی حقیقت ھے کہ دلائل جب ختم ھوجاتے ھیں تو غصہ آنا شروع ھوجاتا ھے.
بہر حال آپ غصہ اپنے آپ پر کریں نہ کہ مجھ پر.کیونکہ آپکی بات ھی کا یہ نتیجہ ھے.
آپ اتنا جلدی سب دلائل سے کیوں رخصت ھونا چاہتے ھیں؟۱ بات میں تسلی ھوجائے باقی بھی حل ھوجائینگی.
ویسے آپنے مذکورہ تحریر سے اپنے موقف پر پانی پھیردیا ھے اگر آپ کو نظر آئے تو.
جن بزرگوں کو نہیں ملا اس نے بیان نہیں کیا.اس بات کو لکھنے سے قبل پوری طرح سے غور کرلیا ھوتا تو شاید.....
یعنی ابن قطلوبغا تک کسی بھی امام کو یہ بات نظر نہ آئی.
یہ ھے آپکی بات کا خلاصہ.یعنی آپنے اس کو تسلیم کرلیا.الحمدللہ.
یعنی جس نے بیان نہیں کیا اسکو ملا نھیں.جب ملا نھیں تو بیان نھیں کیا جب بیان نہ کیا تو اسک رد کیسا؟
آپ کا مسئلہ عربی محاورہ کی طرح ہے
حفظت شیئاوغابت عنک اشیاء
میں نے ماقبل میں کہاتھاکہ کسی نے اس حدیث کاانکار نہیں کیا زیادہ سے زیادہ جو بات کہ جاتی ہے وہ یہ کہ ذکر نہیں کیاتوعدم ذکر ذکر کے عدم کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ اس اصول کو آپ زبانی طورپر توتسلیم کرتے ہیں لیکن عملی طورپر تسلیم نہیں کرتے، آپ کے تسلیم میں زبانی اورعمل فرق کو دیکھتے ہوئے تنزلآمیں نے کہاجس کونہیں ملا اس نے نہیں بیان کیا۔ ویسے بھی مصنف ابن ابی شیبہ کے نسخے مختلف ہیں توجس کے نسخے میں یہ حدیث نہیں تھی انہوں نے نہیں بیان کی جس کے پاس تھی انہوں نے بیان کی۔مجھے توآپ کے موقف اوردلیل میں کوئی مضبوطی نظرنہیں آتی ۔
آخر میں جو سوال آپ نے کیاہے اس کا الزامی جواب میں ماقبل میں بھی دے چکاہوں لیکن اس کی جانب آنجناب ذرابھی توجہ نہیں کرتے اورایک ہی بات کو بار بار دوہرارہے ہیں۔
جب قاسم بن قطلوبغا نے اپنی کتاب میں اس حدیث کو لکھاتوپھر اس عہد اورمابعد کے محدثین نے اس انکار کیوں نہیں کیا یہاں تک کہ 12ویں صدی میں جاکر شیخ حیات سندھی کواس کا انکار کرناپڑا۔


تحریف کی بات وہی کرتے ہیں زیادہ جنہیں یہ علم ہی نہیں ہوتاکہ تحریف ہے کیا۔دوسروںکوچھوڑدیں کہ اپ کے ہم مسلک علماء میں سے ماقبل میں بھی کس نے اس کوتحریف قراردیاہے۔ جس کتاب سے یہاں حوالہ دیاہے ان بزرگ نے توصرف موجب ریب قراردیاہے۔ صاحب تحفۃ الاحوذی نے نظرقوی لکھاہے لیکن ان دونوں میں سے بھی تحریف کسی نے نہیں کہا۔
ماقبل میں جس نے یہ تھریڈ شروع کیاہے وہ ایک کم علم شخص ہے جس کا کام مختلف کتابوں سے اقتباس لے کر تھریڈ بناناہے۔ اگرآپ کا موقف تحریف کاہے تواس تحریف کے اثبات کے دلائل دیں اورمیری رائے میں توسب سے بہتر ہے کہ مکالمہ میں ایک نیاتھریڈ کھول لیں۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
۱
اگر یہ کہا جائے کہ بیان کردہ آپکا محاورہ آپ پر باتم پورااترتا ھے تو یقینا یہ دروغ گوئی نہیں.
۲
کسی کو کم علم سمجھنا اور اسکو حقیر تصور کرنا یقینا اھل علم کا شیوہ نھیں.اور نہ ھی یہ بات اللہ تعالی کو پسند ہے.
اگر اللہ تعالی نے آپکو کچھ علم دیا ھے تو اسکا شکر کرتے ھوتے اصلاح کرنی چاہئے نہ کہ خود کی بڑائی ظاھر کریں
۳
تحریف
آپکو میں نے پچھلے صفحات کی مراجعت کا مشورہ دیا تھا.آپ یا تو ان جان ھیں یا ان جان بننے کی کوشش کر ھے ھیں.
مباحثہ میں اس طرح کا رویہ مناسب نہیں.
آپ ذرا سابقہ صفحات ملاحظہ فرمائیں تو آپکو معلوم ھوجائیگا کہ تحریف کس نے کی ھے اور میرے کہنے کا مقصد کیا ھے.
۴
موقف کی کمزوری کے حالے سے میں بھی کہسکتا ھوں. لیکن صرف کہنے کی کوئی حیثیت نہیں.
۵
بحث اس مسئلہ کی تمام جزئیات پر نہیں بلکہ فی الحال زیر بحث الفاظ کے ثبوت وعدم ثبوت پر ھے.
اس لئے تمام جزئیات پر بحث کرتے ھوئے قارئین کو الجھانا مناسب نہیں.
۶
بڑا اچھا انداز ھے آپکا.
ابن قطلوبغا نے جس مخطوط میں ان الفاظ کی موجودگی کا دعوی کیا ھے.وہ اتنا لمبا عرصہ منتقل ھوتے ھوئے ابن قطلوبغا کے زمانے تک پنہچا پھر جس سے نقل ھوا اس کے مالکان وغیرہ کو بہی اسکی خبر نہ ھوئی.چلیں جن کو اس مخطوط کی خبر نہ تھی تو وہ معذور ھیں.لیکن جن پاس یہ نسخہ رہا نسل در نسل آتا رھا..تو جن کے پاس یہ نسخہ رھا انکو تو اس بات کو بیان کرنا چاھئے تھا نہ.یا چھپا کر علمی خیانت کے مرتکب ھوئے ھیں.کیسا عجیب معاملہ ھے اتنی صدیاں نہ ناسخین اس پر مطلع ھوئے اور نہ ھی جن کے پاس یہ اصل ونقل رہی.
آپکی یہ بات بڑی عجیب تر ھے.الحمدللہ مخطوطات کا اچھا خاصہ خزانہ ھمارے پاس بھی محفوظ ھے یہ زمانہ مطبوعات کا ھے لیکن اسکے باوجود بھی ھمارا انسے بڑا تعلق ھے باوجود مطبوعات کے مخطوطات سے استفادہ کرتے رھتے ھیں.لیکن وہ زمانہ خالصتا مخطوط ھونے کے باوجود انسے انکی اتنی بے خبری...
میری سمجہ سے بالاتر ھے..
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
سب سے پہلے یہ مسئلہ حل ھوجائے.
آپ تو اب یھی فرمائیںگے میں صرف ۱ ہی بات کو بار بار دہرا رھا ھوں.
لیکن حقیقت یہ ھے کہ اگر میں اس سے نکلا تو جو اصل مسئلہ ھے وہ وھیں کا وھیں رھجا ئیگا. بات ادھر کی ادھر ھوجائیگی.کوئی فائدہ نھیں.
.جس نسخہ سے نقل ھے.اس مخطوط کی بات کر رہا ھوں نہ کہ وہ جسکا ابن قطلوبغا نے حوالہ دیا ھے.
 
Top