انور شاہ راشدی
رکن
- شمولیت
- مئی 01، 2014
- پیغامات
- 257
- ری ایکشن اسکور
- 68
- پوائنٹ
- 77
برتن کی مثال اشماریہ بھائی نے دی تھی.
اس میں توکوئی شک ہی نہیں ہے۔محترمی عزت اللہ تعالی کے ھاتھ میں ھے ان القابات میں نھیں.
اس افادہ کیلئے شکریہ اورمیں اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہوں لیکن اس سے بحث اورنتیجے پر کوئی فرق نہیں پڑتاکہ تحریر کس کی ہے۔مذکورہ تحریر شیخ بدیع کی نہیں بلکہ شیخ رشداللہ شاہ(شیخ کے دادا محترم ھیں )کے کتاب کی ھے.تعاقب سے قبل غور فرمالیا کریں.
شیخ قاسم بن قطلوبغا کے علاوہ دیگر کے پاس جونسخے تھے وہ بھی اسی زمین کے تھے اوربراہ راست مصنف کایامصنف کےعہد کایااس کےعہد سے متصل نسخہ کاکسی نے بھی دعویٰ نہیں کیاہے توپھر دیگر کوترجیح کیسے حاصل ہوجائے گی شیخ قاسم کے نسخہ پر ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کبھی نقل محفوظ رہتی ہے اوراصل گم ہوجاتی ہے اس کی مثالیں مخطوطات سےشغف رکھنے والوں کیلئے کم نہیں ہیں،بےشمار ہیں۔ آپ کہئے تومثالیں عرض کردوں۔ابن قطلوبغا کے پاس قلمی نسخہ اسی زمین کاھی تھا آسمان سے نہیں آیا تھا.ضرور کسی سے نقل ھوگا.تو کیا وجہ ھے کہ وہ اصلیں ساری گم نقل محفوظ رھگئی.
اس سےثابت کیاہوا،میںنے ماقبل میں کہاتھاکہ نصب الرایہ کی حافظ ابن حجر نے تخریج کی ہے ان کوبعض حدیثیں نہیں ملیں اس پرلکھ دیا لم اجدہ شیخ قاسم کووہ حدیثیں مل گئیں جس کوانہوں نے منیۃ الالمعی میں ذکر کیاہے۔ اب حافظ ابن حجر کاعدم ذکرذکر کےعدم کوتومستلزم نہیں ہوسکتاہے نا۔آپ فتح الباری اور تغلیق التعلیق ابن حجر کی دیکھیں المصنف سے کتنے حوالے پیش کئے گئے ھیں.لگتا ھے ابن حجر والا نسخہ خاص "وضع الیدین " کے باب سے خالی تھا.
یہ بات میں نےفیض الباری میں پڑھی ہے۔علامہ انورشاہ کشمیری نے بھی کسی اورکے حوالہ سے یہ بات لکھی ہے۔ اس کاحوالہ بعد میں عرض کرتاہوں۔صحیح ابن خزیمہ ابن حجر سے قبل مفقود ھوگیا تھا یا اسکے پاس مکمل نہ تھا اور وہ دوسروں کے نسخے سے حوالہ دیتے تھے.دلیل؟
آپ کامعاملہ بڑاعجیب ہے۔ میں نے نسخہ کی بات ہی نہیں کی ہے۔ میں نے تویہ کہاہےکہ جب انہوںنےاپنی کتاب التعریف والاخبار بتخریج احادیث الاختیار میں اس حدیث کوذکر کیا۔وہ کتاب عام بھی ہوئی ہوگی ان کےشاگردوں نے بھی پڑھاہوگادیگر افراد کی نگاہ سے بھی گزری ہوگی ۔تب کسی نے تردید کیوں نہیں کی۔ یہ میں نے ماقبل میں کہاہے اورآپ نسخہ کی بات کررہے ہیں۔ خاص طورپر مصر میں جہاں شافعی حضرات کاغلبہ تھااوراس وقت بڑے بڑےمحدثین شافعیہ موجود تھے۔ انہوں نے تردید کیوں نہیں کی۔ اس کاجواب آپ دیں گے وہی جواب ہمارے نزدیک اس سوال کاہوگاکہ ماقبل کے محدثین نے اس کاذکر کیوں نہیں کیا۔ابن قطلوبغا کا ۱ نسخہ تھا. کیا وہ ایک نسخہ پوری دنیا میں گھوما تھا یا اسکی بہت ساری نقلیں ھوکر پوری دنیا میں پنہچیں جو اسکا رد کیا جاتا..؟ اگر اسکی نقلیں تھیں تو ثابت کریں. صرف عقلیں نہ چلائیں.
مجھے اعتراف ہے کہ آپ نے جس عقل مندی کی جانب اشارہ کیاہے وہ مجھ میں موجود نہیں ہے کیونکہ خیر سے میں بھی اہل الرائے میں سے ہی ہوں۔ ویسے یہ اوربات ہے کہ عربی کے محاورہ میں اہل الرائے صاحبان عقل کوہی کہاجاتاہے اوررای سےعقل کوہی بسااوقات مراد لیاجاتاہے ۔ابن قطلوبغا اھل الرأی میں سے تھا. حدیث کا فن اھل الحدیث(محدثین کرام) کا تھا انکی بات کو اھمیت ھوگی.سند کے حل ھوجانے کے بعد متن پر بات ھوتی ھے.العاقل تکفیہ الاشار ہ
میں آپ کی اس بات کوٹھیک سے سمجھ نہیں پایا ذرا سیاق وسباق اورکیاکہناچاہتے ہیں واضح کریں۔پختہ دلیل کون سی، تحریف کہاں پر اورخاموشی کس امر میں۔اگر پختہ دلیل تھی تو تحریف کی کیوں ضرورت پڑی تھی؟ آخر اس پر جخاموشی کیوں جواب کیوں نہیں دیا جاتا؟
مجھے اعتراف ہے کہ میں نے گزشتہ بحث پوری طرح نہیں پڑھی ہے۔برتن کاقضیہ کیاہے اوراشماریہ صاحب نے کیامثال دی ہے اس سے مجھے سردست کوئی مطلب بھی نہیں ہے اورجمع وتطبیق کامرحلہ توتب آئے گاجب آپ اسےتسلیم کرلیں کہ ہاں واقعۃ یہ حدیث موجود ہے اوردرست ہےاورمصنف ابن ابی شیبہ کی ہے۔ جب آپ بنیاد ہی تسلیم نہی کریں تواس پر دس منزلہ عمارت کس طرح کھڑی کررہے ہیں محترم!اگر تطبیق ہی اولی ھے آپکے نزدیک(جیسا اوپر برتن کی مثال دی گئی )تو پھر اس طرح ھوگا کہ ۱ ھاتھ سینے پر اور ۱ ھاتھ زیر ناف ھونا چاھئے
ماقبل میں جو بات کہی گئی ہے کہ پہلے حدیث کوتسلیم کریں اس کے بعد بقیہ امور پر بات ہوگی۔ میرے خیال میں اس کیلئے بہتر ہے کہ آپ منتظمین سے کہہ کرایک نیاتھریڈ مکالمہ میں کھول لیں جہاں ہم دونوں اس حدیث پر اپنی معلومات کو رکھیں۔اس لئے کہ واقعہ ۱ ھے. کیوںکہ حدیث میں مضارع کا صیغہ نہیں ماضی کا استعمال ھوا ھے.لیکن پھر مسئلہ یہ ھوگا کہ ہاتھ باندھنے کا بھی ذکر ھے.اب اپنی تطبیق کو آپ ھی حل کریں.
چلئے آُپ نے یہ تسلیم کیابڑی مہربانی ،کرم نوازش اورشکریہ،شاہ ولی اللہ کی بات میں نظر ھے.
یہ اصول تومشہور ہے عدم ذکر سے ذکرکاعدم لازم نہیں آتا۔اسے خودبہت سارےمقامات پرغیرمقلدین علماء تسلیم کرتے ہیں فریق مخالف کے خلاف بطور حجت استعمال کرتےہیں تو سوال یہ ہے کہ کیاکسی ماقبل عالم نے اس حدیث کاانکار کیا،جواب ہے کہ نہیں کیاتو اب عدم ذکر کو زبردستی ذکر عدم کی دلیل بنائی جائے تویہ تو غیراصولی بات ہے نا۔اسکا مطلب یہ ھوا کہ آپ اپنے اکابر سے علم وزھد میں آگے ھیں
اختلافی مسائل میں ہر کوئی مضبوط سے مضبوط دلیل دینے کی کوشش کرتا ھے مگر کیسی عقلمندی ھے کہ آپکے اکابر نے ابن قطلوبغا تک کمزو سے کمزور دلائل ذکر کرنے ہی میں عافیت سمجھی مگر مضبوط دلیل آپ جیسے خلف کے لئے علم میں خیانت کرتے ھوئے چھوڑدی.
یہ کیسا انصاف ھے کہ آپ جیسے اس مضبوط دلیل کو بے دھڑک بیان کریں مگر تمام اکابر نے عزم کرلیا تھا کہ مضبوط دلیل نہیں کمزور دلائل ذکر کریںگے.
لیکن ابن قطلوبغا رہ نہ سکے اور اس راز کو فاش کردیا.
آپ کا مسئلہ عربی محاورہ کی طرح ہےاس اصول کا کس نے انکا ر کیا ھے.
تعجب آپکے طریقہ استعمال پر ھے.
آپکی بات کی وجہ سے جو نتیجہ نکلتا تھا وہ میںنے آپکو بتا یا تو آپکو غصہ آنے لگا.
ویسے بھی حقیقت ھے کہ دلائل جب ختم ھوجاتے ھیں تو غصہ آنا شروع ھوجاتا ھے.
بہر حال آپ غصہ اپنے آپ پر کریں نہ کہ مجھ پر.کیونکہ آپکی بات ھی کا یہ نتیجہ ھے.
آپ اتنا جلدی سب دلائل سے کیوں رخصت ھونا چاہتے ھیں؟۱ بات میں تسلی ھوجائے باقی بھی حل ھوجائینگی.
ویسے آپنے مذکورہ تحریر سے اپنے موقف پر پانی پھیردیا ھے اگر آپ کو نظر آئے تو.
جن بزرگوں کو نہیں ملا اس نے بیان نہیں کیا.اس بات کو لکھنے سے قبل پوری طرح سے غور کرلیا ھوتا تو شاید.....
یعنی ابن قطلوبغا تک کسی بھی امام کو یہ بات نظر نہ آئی.
یہ ھے آپکی بات کا خلاصہ.یعنی آپنے اس کو تسلیم کرلیا.الحمدللہ.
یعنی جس نے بیان نہیں کیا اسکو ملا نھیں.جب ملا نھیں تو بیان نھیں کیا جب بیان نہ کیا تو اسک رد کیسا؟