• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معرکۂ عظیم از رضی الدین سیّد

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عالمی حکومت
عالمی حکومت کا قیام یہودیوں کی ایک دیرینہ خواہش ہے جسے وہ گزشتہ ہزار سال سے اپنے سینوں میں پال رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے تمام حکومتیں اور فوجیں مٹ جائیں اور صرف ایک حکومت قائم ہو جس کی قیادت ان کا مسیحا ''دجال'' کرے۔ واضح رہے کہ ایک مسیحا کی آمد کی پیشین گوئی ان کے صحیفوں تالمود اور تورات میں بھی ملتی ہے۔ وہ بے چین ہیں کہ ان کا مسیحا آئے اور ایک عالمی حکومت قائم ہو۔ وہ اپنی عبادتوں میں ہر روز دعا کرتے ہیں کہ ان کا مسیحا جلد آئے۔
صورت حال یہ ہے کہ یہودی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ بلکہ عیسائیوں کی بھی ناپسندیدہ ترین قوم رہی ہے۔ عیسائی انہیں اپنے پیغمبر کا قاتل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے تو یہودی ایک بار پھر انہیں قتل کرنے کی سازش کریں گے۔
چنانچہ اپنے پیغمبر کے قتل کے باعث عیسائیوں نے اب سے تین سو سال قبل تک یہودیوں کو کبھی معاف نہیں کیا۔ انہوں نے پورے یورپ میں ان کا پیچھا کیا۔ انہیں اجتماعی اور انفرادی طور پر قتل کیا۔ ان کے گھر بار کو جلا دیا۔ ان کی فصلیں اور کاروبار تباہ کیں اس کے ہیکل Temple کو مسمار کیا۔ اور انہیں اچھوتوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ یہودی جہاں بھی گئے قرآن کے بقول ''اللہ کے غضب ہی میں گھرے رہے''۔ ہٹلر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے 60 لاکھ یہودیوں کو اجتماعی طور پر قتل کیا تھا جسے آج یہودی Holocaust کے نام سے دنیا بھر میں پھیلاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہٹلر اگر دس سال مزید زندہ رہ جاتا تو یہودیوں کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔ اگرچہ اب خود مغرب کے مفکرین ہولوکاسٹ کی حقیقت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ محض افسانوی باتیں ہیں جن کی بنیاد پر یہودی، عیسائیوں سے ہمدردی حاصل کر رہے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تو یہ تھی وہ صورت حال جس سے گزشتہ صدی میں یہودی گزرتے رہے۔ یورپ اس وقت دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک عیسائی یورپ جو اصل یورپ تھا اور دوسرا مسلم یورپ جو بہت چھوٹا تھا۔ چنانچہ عیسائیوں کی سختی اور بربریت کی وجہ سے پورا عیسائی یورپ ان کے خون کا پیاسا تھا۔ انہیں کہیں پناہ حاصل نہ تھی۔ وہ جہاں بھی جاتے، انہیں وہاں مارا جاتا اور نکال دیا جاتا۔ قبل مسیح سے ان کا یہی حال تھا۔ ان کا یروشلم اور ان کا ہیکل کئی بار اجاڑا اور کئی بار بسایا گیا۔ اس دوران ہزاروں سال تک انہوں نے جلاوطنی کی زندگی گزاری جسے وہ آج Diaspora کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ وہ دنیا کی سب سے زیادہ ذلیل قوم گنے جاتے تھے۔ اب سے 200 سال پہلے تک عیسائی انہیں روئے زمین کی سب سے خبیث ترین قوم قرار دیتے تھے حتیٰ کہ ابتدائی دور میں جب یورپ میں طاعون پھیلا تو اس کا ذمے دار بھی انہوں نے یہودیوں کو ٹھہرایا حالانکہ یہودی خود بھی اس مرض میں مبتلا تھے۔
اپنے خلاف ہونے والے اس وحشیانہ سلوک سکی وجہ سے یہودی قوم نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اب رہتی دنیا تک ان کی قسمت میں ذلت و خواری لکھی گئی ہے اور وہ اب کبھی ایک آزاد اور باعزت قوم کی حیثیت سے زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ چنانچہ انہوں نے مایوس ہو کر اپنی تمام تمنائیں آنے والے مسیحا ''دجال'' سے وابستہ کر لیں۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ آئے گا اور انہیں عزت و سربلندی عطا کرے گا جس کے بعد ساری دنیا پر ان کی حکمرانی ہو گی۔ دجال ان کا لیڈر ہو گا اور اس کی قیادت میں وہ باقی قوموں، خصوصاً عیسائیوں کو اپنا غلام بنا ئیں گے۔ اسی کو وہ عالمی حکومت کہتے ہیں اور اقوام متحدہ ان کی انہی تمنائوں کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہے۔ سیاسی منصوبوں پر مبنی ان کی اہم دستاویز ''پروٹوکول'' میں واضح طور پر درج ہے کہ ہمیں ہر صورت میں اپنی ایک سپر (اعلیٰ ترین) حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنی چاہئے'' امریکہ کے ایک معروف وکیل ہیری کلسن نے اپنی کتاب "Zionism Rules the World" (1948) میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ''اقوام متحدہ صیہونیت کا دوسرا نام ہے۔ یہ اس عالمی حکومت کا نام ہے جسے بزرگ صیہونیوں نے اپنی کتاب ''دی پروٹوکول'' مرتب شدہ 1895ء تا 1897ء میں قائم کرنا چاہا ہے۔'' چنانچہ انہی حالات و واقعات اور اپنے طے شدہ منصوبوں کے تحت یہودی اب عالمی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا بھر سے اپنی بے غیرتیوں اور خون کا بدلہ لے سکیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ زمین سے بت پرستوں کا خاتمہ کر دیں۔ اسی مقصد کے لئے انہوں نے جو بصورت نام سے اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ قائم کیا ہے۔ اپنی اس سپر گورنمنٹ کے لئے اب وہ باقاعدہ آوازیں اٹھانے لگے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دوسری طرف عیسائی بھی ان کے عقائد سے متاثر ہو کر اپنی ایک علیحدہ عالمی حکومت کے خواب الگ دیکھنے لگے ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ زمین سے یہودیوں اور مسلمانوں کو پاک کر دینا چاہئے تاکہ دنیا میں صرف عیسائی قوم باقی رہ سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی عالمی حکومت ان کے مسیحا حضرت عیسیٰ علیہ السلام قائم کریں گے۔یہ وہ مقصد ہے جس کی خاطر وہ خوفناک خونی جنگ آرمیگاڈون برپا کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہودی بھی مٹ جائیں اور مسلمان بھی۔ ان کے نزدیک آرمیگاڈون خیر و شر کے معرکے کا نام ہے۔ چنانچہ ان کے عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بادلوں سے اتر کر تمام عیسائیوں کو اوپر بلا لیں گے جہاں سے وہ زمین پر برپا ہونے والے اس خونی معرکے کو آرام سے بیٹھے دیکھا کریں گے۔ اپنے اس عقیدے کو وہ Rapture کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
لہٰذا عالمی حکومت کا قیام دونوں قوتوں کے ایجنڈے میں موجود ہے اور وہ اس کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس وقت بظاہر یہودیوں اور عیسائیوں میں ہم آہنگی ہے لیکن اندر اندر دونوں ایک دوسرے کے خلاف منصوبے بنائے ہوئے ہیں۔
لیکن اگر اس وقت ہم یہ کہیں کہ اک عالمی حکومت کا قیام خود اسلام کے ایجنڈے میں بھی شامل ہے تو اس پر کسی کو حیران نہیںہونا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد عیسائی اپنے پیغمبر کو شناخت کر لیں گے اور انؑ کی زبان مبارک سے اسلام کو اصل اور واحد دین قرار دئیے جانے کے بعد وہ اپنے تمام عقائد سے تائب ہو کر از خود اسلام قبول کر لیں گے۔ اس طرح دنیا سے عیسائیت کا خود بخود خاتمہ ہو جائے۔ بد قسمتی سے یہودی اس وقت بھی بدبخت ثابت ہوں گے اور وہ دجال کی قیادت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جنگ کا آغاز کریں گے۔ حتیٰ کہ جس درخت اور پتھر کے پیچھے یہودی چھپے ہوئے ہوں گے وہ مسلمانوں کو پکار پکار کر انہیں قتل کرنے کے لئے دعوت دے رہا ہوگا۔ اس طرح آخر کار یہودی چن چن کر قتل کر دئیے جائیں گے اور یوں دوسرا اہم سازشی مذہب یہودیت بھی زمین سے نیست و نابود ہو جائے گا۱؎۔ باقی دوسرے جعلی مذاہب بھی انہی کی مانند زمین سے مٹ چکے ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ ؑ زمین پر تشریف لانے کے بعد حضور e کی شریعت میں ایک تبدیلی کریں گے کہ وہ جزیے کا سلسلہ ختم کر دیں گے۔ یعنی اس کے بعد ٹیکس دے کر اپنے مذہب کو برقرار رکھنے کی شق ختم ہو جائے گی۔ یعنی یا تو اسلام قبول کر لو یا پھر جنگ کے لئے تیار ہو جائو۔ درمیان کا کوئی راستہ پھر باقی نہیں رہے گا۔
یوں آخر کار اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے گا۔ آپ e نے فرمایا ہے کہ دین اسلام ہر اس جگہ پہنچے گا جہاں دن اور رات طلوع ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ کیا ہے کہ اسلام ہر محل، ہر جھگی اور ہر اونچی نیچی جگہ پر پہنچ جائے گا۔ ایک اور موقعہ پر آپ e نے فرمایا کہ ''ہر جگہ امن و امان قائم ہو جائے گا اور لوگ تلواروں کو اپنی درانتی کے طور پر استعمال کریں گے۔ بھیڑیا بھیڑ کے ساتھ چرے گا اور شیر بیل کے ساتھ رہے گا اور کسی کو کسی سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہو گا'' (مسلم کتاب الایمان)۔ جب صورت حال یہ ہو جائے گی تو ایک عالمی حکومت کا قیام خود بخود عمل میں آجائے گا جس کی قیادت اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کریں گے۔ وہی اس وقت کی سپر گورنمنٹ کے صدر، وزیر اعظم اور سپہ سالار اعلیٰ ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے ہمیں کسی بھی اقوام متحدہ کے ادارے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
چنانچہ عالمی حکومت کا قیام ایک بالکل صحیح امر ہے اور اسلام بھی اس ایجنڈے کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ عالمی حکومت اسلام کی ہو گی اور اس کے سربراہ حضرت عیسیٰ ؑ ہوں گے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی جانب سے اس نعرے کو بلند کرنے والا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں پایا جاتا۔ ہاں عالمی حکومت کے منصوبے کو ہم بھی OWN کرتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مبغوض قوم یہودی۔ مگر اس کی خوبیاں۔ آہ!
یہودی دنیا کی سب سے بدترین قوم سمجھ جاتی ہے بلکہ ہمارے ہاں ''یہودی'' کا لفظ ہی گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اس قوم پر متعدد بار پھٹکار برسائی گئی ہے۔ اب سے ڈیڑھ سو سال پہلے تک پوری عیسائی دنیا بھی یہودیوں کے بارے میں انہیں خیالات کی حامل سمجھی جاتی تھی۔ یہودی کا لفظ ان کے ہاں نحوست کی جگہ استعمال ہوتا تھا لیکن ہمیں یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ یہودی جہاں دنیا کی بدترین فسادی قوم ہیں اور دنیا کی کم و بیش تمام جنگوںمیں وہ ملوث رہے ہیں وہیں ان کے اندر بعض منفرد خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں جو شاید دنیا کی کسی اور قوم میں موجود نہیں ہیں۔ زیر نظر مضمون سے آپ پر یہ خوبیاں تفصیل سے منکشف ہوں گی جنہیں جان کر ہمیں بحیثیت مسلمان اپنے کردار سے خاصی شرمندگی محسوس ہو گی۔
یہودی دنیا کی سب سے چھوٹی الہامی قوم ہیں۔ چھ ارب کی موجودہ عالمی آبادی کے اندر ان کی تعداد روئے زمین پر محض ڈیڑھ کروڑ ہے جبکہ مسلمان ان سے کئی گنا زیادہ یعنی سوا ارب اور عیسائی دو ارب کی تعداد میں موجود ہیں۔ اب اسے یہودیوں کی دانائی اور فراست کے سوا اور کیا کہا جائے گاکہ اس حقیر سی اقلیت نے جن کی کل منتشر آبادی محض کراچی کی آبادی کے برابر ہے پوری دنیا کو کلی طور پر اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ حال یہ ہے کہ عالمی طور پر کوئی ایک قدم بھی ایسا نہیں ہوتا جس میں یہودیوں کا دخل نہ ہو۔ حالانکہ اصولاً اس حقیر سی منتشر اقلیت کا دنیا میں کوئی وزن ہی محسوس نہیں کیا جانا چاہیئے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ 56 آزاد مملکتیں رکھنے والے سوا ارب مسلمان اس وقت ساری دنیا میں نبی اکریم e کے فرمان کے مطابق سیلاب کے خس و خاشاک کی طرح بن گئے ہیں اور عالمی طور پر ان کی کوئی دھاک ہی محسوس نہیں کی جاتی ہے۔ جبکہ یہودیوں نے سارے عالم کو اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کوجب پہلے بیٹے جناب اسماعیل علیہ السلام کی بشارت دی تو ان کے لئے کچھ اور لفظ استعمال کیا۔ اور جب دوسرے بیٹے جناب اسحق علیہ السلام کی بشارت دی تو ان کے لئے کچھ اور لفظ استعمال کیا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے الفاظ کا یہ مختلف استعمال دراصل خاصا معنی خیر اور پر از حکمت ہے۔ سورئہ ہود رکوع نمبر7 میں ارشاد ہوا کہ: فَبَشَّرْنٰہ' بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ (ہم نے اسے ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی)۔ دوسری طرف سورئہ الحجر آیت نمبر۵۳ میں ارشاد ہوا کہ ''اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیْم'' (ہم تمہیں ایک ''بڑے عالم'' (مولانا شبیر عثمانی) ''ہوشیار لڑکے'' (مولانا محمود الحسن) اور ''سیانے'' (مولانا مودودی) لڑکے کی بشارت دیتے ہیں''۔
چونکہ جناب اسحق علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے ''علیم'' کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی بہت وسیع ہیں۔ یعنی بڑا عالم، ہوشیار، دانشمند، دوراندیش اور سیانا۔ اس لحاظ سے بنی اسرائیل یعنی یہودیوں میں آج بھی یہ ساری صفات ایک ساتھ پائی جاتی ہیں۔ (بنی اسرائیل جناب اسحق علیہ السلام ہی کی نسل کو کہتے ہیں)۔ اور اپنی انہی صفات کے ساتھ وہ منتشر ہو کر بھی ساری دنیا پر راج کر رہے ہیں۔ اور چھ ارب کی باقی دنیا ان کی بندئہ بے دام بنی ہوئی ہے۔
جیسا کہ راقم نے اپنے مضامین اور گفتگوؤں میں یہ بات جابجا رکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق کہ ''یہ جہاں بھی رہے، ان پر ذلت کی مار پڑی'' (آل عمران آیت۱۱۲) اور ''وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو انہیں بدترین عذاب دیں گے''۔ (الاعراف آیت۱۶۷)۔ یہودی قوم سدا سے تشدد اور تعذیب سے گذرتی رہی ہے۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں گذری ہے جس نے ان پر بدترین تشدد نہ کیا ہو۔ مشرک رومی، آتش پرست ایرانی، وحدت پرست مسلمان اور تثلیث پسند عیسائی، یہ سب کے غیض و غضب کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ جس ہیکل کی یہ آج تلاش کر رہے ہیں، قبل مسیح میں اسے شاہ بخت نصر اور رومی سالار طیطوس نے دوبار زمین بوس کر کے دنیا سے ہمیشہ کے لئے غائب کر دیا تھا۔عیسائی اپنے دورِ اوّلین سے ان کے خونی دشمن رہے ہیں اور پورے عیسائی یورپ میں انہیں ایک انچ زمین بھی پناہ کے لئے حوالے نہ کی۔ انہوں نے سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں انہیں اجتماعی طور پر قتل کیا اور بے شمار یہودیوں کو زمین میں گڑھے کھود کر زندہ دفن کیا۔
اگر حالات اتنے بدترین رہیں اور اگر دو ہزار سال تک کوئی قوم بری طرح دربدر ماری پھرتی رہے کہ پچیس پچیس اور تیس تیس ہزار کے لحاظ سے دنیا بھر میں بکھر جائیں حتی کہ انہیں آپس میں رابطہ کرنا بھی ناممکن نظر آرہا ہو تو آنے والی نوجوان نسلیں قدرتی طور پر اپنے مذہب کو کوسنے اور اپنے بزرگوں پر زبانِ طعن دراز کرنے سے نہیں چوکتیں۔ لیکن یہودی قوم کی یہ حیرت انگر خصوصیت ہے کہ اس سب کے باوجود اسے اپنے مذہب سے محبت ہے اور اپنے بزرگوں کو وہ اپنا محسن قرار دیتی ہے۔ اس کا کل بھی یہ دعویٰ تھا کہ ہم دنیا کی سب سے اعلی اور اللہ تعالیٰ کی سب سے چہیتی قوم ہیں اور آج بھی اس کا یہ دعویٰ برقرار ہے۔ دو ہزار سالوں میں مایوسی ان کے پاس سے پھٹک کر بھی نہیں گذری ہے جبکہ مسلمان دنیا کے سب سے برتر دینِ (اسلام) کو دنیوی ترقی کے خلاف نعوذ باﷲ سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے، اور ہر جگہ اپنے مذہب سے جان چھڑانے کے درپے نظر آتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس قوم کی ایک اور بڑی خوبی مذہب پر اس کا عملدرآمد ہے۔ نماز، روزے، ذبیحے اور توحید پرستی پر اسے آج بھی فخر ہے۔ وہ اپنی مذہبی عبادات کے لحاظ سے کسی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہے۔ اور اس ضمن میں وہ کسی بھی مفاہمت کے قائل نہیں ہیں۔
یومِ سبت (ہفتہ) ان کے ہاں تقدس کا درجہ رکھتا ہے اور اس دن وہ ڈاک وصول کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ انہیں سبت سے اتنی عقیدت ہے کہ انہوں نے ہفتے کے دن کی تعطیل کو اقلیت میں رہنے کے باوجود ساری دنیا میں تسلیم کرایا ہے جبکہ بیشتر مسلم ممالک میں بھی اتوار کے ساتھ ہفتے کی تعطیل لازمی منائی جاتی ہے۔ عیسائیوں نے اپنا اتوار اور یہودیوں نے اپنا ہفتہ ساری دنیا میں رائج کروا لیا لیکن سوا ارب کی آبادی کے ساتھ ۵۶ ممالک کے ہوتے ہوئے بھی ہم خود اپنے ممالک میں بھی جمعے کی تعطیل نہیں منوا سکے۔ بلکہ جہاں نافذ ہے اسے بھی قانوناً ختم کر دینے کو اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ نماز، روزہ اور قربانی آج ایک بڑی تعداد کو پسماندگی کی علامت نظر آتی ہے۔
صیہونی آج دنیا کے تمام اہم صنعت و کاربار پر قابض ہیں۔ پیپسی، لیور برادرز، والز، باٹا، ٹائمز میگزین، سی این این، بروک بانڈ، لپٹن، کیوی، کولگیٹ، سنگر مشین اور نیسلے، یہ تمام عالمی ادارے یا تو خود یہودیوں کی ملکیت ہیں یا انمیں ان کا نمایاں حصہ ہے۔ اگرچہ یہودی پیسے کے معاملے میں انتہائی خسیس سمجھے جاتے ہیں لیکن اسے اُن کی خوبی کا کمال کہنا چاہیئے کہ اپنی مصنوعات کی کیفیت (کوالٹی) کے معاملے میں وہ کوئی سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی مصنوعات کی کوالٹی برقرار رکھتے ہیں بلکہ اسے مسلسل بہتر بناتے رہتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ کامل ایمانداری سے کام لیتے ہیں جبکہ ہم مسلمان صنعت کاروں کا حال یہ ہے کہ ابتداء میں کوالٹی بہتر رکھتے ہیں اور جب وہ چیز چل پرتی ہے تو اس میں زوال شروع کر دیتے ہیں۔ مسلم تاجروں اور صنعت کاروں کا نمایاں وصف بے ایمانی اور ملاوٹ ہے۔ گذشتہ دنوں جب ہمارے ہاں یہودی مصنوعات کی بائیکاٹ کی مہم چلی تو کچھ عرصے کے بعد وہ خود ہی ٹھنڈی پڑ گئی کیونکہ یہودی مصنوعات کے مقابلے میں پاکستانی مصنوعات گھٹیا ثابت ہوتی تھیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس قوم کی ایک اور خوبی بھی ہم سے داد طلب ہے۔ یہودیوں نے تین ہزار سال تک دربدر مارے پھرنے اور دنیا جہان سے اپنا لہو بہانے کے بعد سازشوں کے ذریعے جب اپنے خوابوں کی ریاست ''اسرائیل'' حاصل کر لی تو اسے مضبوط و مستحکم بنانے اور عروج پر لے جانے کے لئے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کا مرکز نگاہ آج اسرائیل ہی ہے اور اسے وہ ایک مقدس اور خدائی ریاست کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے لئے یہ ''مملکت ِ خداداد اسرائیل'' ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ تورات اور تالمود میں خدا نے انہیں یہ وطن دینے کا ازلی وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے مملکت بنا کر اسے توڑنے کا سامان نہیں کیا اور نہ اپنے ازلی دشمن عیسائیوں سے جذبات میں بے خود ہو کر گلے لگ جاناچاہا۔ اس کے بر عکس ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے مملکت خداداد پاکستان کو محض ۲۴ سال کے عرصے میں دو نیم کر دیا اور اب ۵۰ سالوں کے بعد اپنے ازلی دشمن سے گلے ملنے کے لئے گھر و دیوار سب کچھ وقف کئے دے رہے ہیں۔ آج ہم اتنے بے خود ہو رہے کہ نظریہء پاکستان، خونی لکیر اور قائداعظم سب پر خطِ تنسیخ کھینچ رہے ہیں۔
بنی اسرائیل کی اصل زبان عبرانی ہے لیکن گذشتہ تین ہزار سالوں میں وقت کے اتار چڑھاؤ کے سبب یہ زبان تقریباً ناپید ہو گئی تھی لیکن اسے یہودیوں کی خوبی کہا جائے گا کہ اسرائیل کے قائم ہوتے ہی انہوں نے اس مردہ زبان کو زندہ کیا اور آج تل ابیب میں عبرانی زبان کی ایک باقاعدہ یونیورسٹی موجود ہے۔ وہ اپنی عبرانی زبان کو آج دل سے جان سے لگائے ہوئے ہیں۔ ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں اُردو سے نفرت ہو گئی ہے اور ہم باربار اس کا جنازہ نکالتے رہتے ہیں۔ اس کا حال اس شعر کی مانند ہے کہ:
تقدیر نے، فلک نے، مقدر نے، آہ!
جس جس نے چاہا، میرا تماشا بنا دیا
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس قوم کی ایک اور خوبی بھی ہم سے داد طلب ہے۔ یہودیوں نے تین ہزار سال تک دربدر مارے پھرنے اور دنیا جہان سے اپنا لہو بہانے کے بعد سازشوں کے ذریعے جب اپنے خوابوں کی ریاست ''اسرائیل'' حاصل کر لی تو اسے مضبوط و مستحکم بنانے اور عروج پر لے جانے کے لئے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کا مرکز نگاہ آج اسرائیل ہی ہے اور اسے وہ ایک مقدس اور خدائی ریاست کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے لئے یہ ''مملکت ِ خداداد اسرائیل'' ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ تورات اور تالمود میں خدا نے انہیں یہ وطن دینے کا ازلی وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے مملکت بنا کر اسے توڑنے کا سامان نہیں کیا اور نہ اپنے ازلی دشمن عیسائیوں سے جذبات میں بے خود ہو کر گلے لگ جاناچاہا۔ اس کے بر عکس ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے مملکت خداداد پاکستان کو محض ۲۴ سال کے عرصے میں دو نیم کر دیا اور اب ۵۰ سالوں کے بعد اپنے ازلی دشمن سے گلے ملنے کے لئے گھر و دیوار سب کچھ وقف کئے دے رہے ہیں۔ آج ہم اتنے بے خود ہو رہے کہ نظریہء پاکستان، خونی لکیر اور قائداعظم سب پر خطِ تنسیخ کھینچ رہے ہیں۔
بنی اسرائیل کی اصل زبان عبرانی ہے لیکن گذشتہ تین ہزار سالوں میں وقت کے اتار چڑھاؤ کے سبب یہ زبان تقریباً ناپید ہو گئی تھی لیکن اسے یہودیوں کی خوبی کہا جائے گا کہ اسرائیل کے قائم ہوتے ہی انہوں نے اس مردہ زبان کو زندہ کیا اور آج تل ابیب میں عبرانی زبان کی ایک باقاعدہ یونیورسٹی موجود ہے۔ وہ اپنی عبرانی زبان کو آج دل سے جان سے لگائے ہوئے ہیں۔ ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں اُردو سے نفرت ہو گئی ہے اور ہم باربار اس کا جنازہ نکالتے رہتے ہیں۔ اس کا حال اس شعر کی مانند ہے کہ:
تقدیر نے، فلک نے، مقدر نے، آہ!
جس جس نے چاہا، میرا تماشا بنا دیا
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہودیوں کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے علماء کو ہمیشہ مقدس مقام دیا۔ انہوں نے کبھی ان کا مذاق نہیں اُڑایا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا ملک ان کے رَبّیوں ہی کی بدولت چل رہا ہے۔ مملکت چلانے کے لئے وہ انہی سے ہدایات لیتے ہیں۔ اخباروں میں ان کے علماء کے خلاف کبھی کوئی بات سامنے نہیں آتی۔ جبکہ عیسائیوں اور مسلمانوں نے اپنے علماء کا دل کھول کر مذاق اُڑایا۔مسلمانوں نے دنیا جہان کے لطیفے ان سے منسوب کر دیئے جس سے علماء سے ان کی کراہیت واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔
اس قوم کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اقلیت میں ہونے اور کبھی ایک انچ خطہء زمین بھی پاس نہ ہونے کے باوجود وہ خود کو دنیا کی سب سے افضل قوم قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ (چونکہ وہ قرآن پاک کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے اپنی معزولی کی آیات کو بھی وہ تسلیم نہیں کرتے)۔ لیکن دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ بغیر کسی استثناء کے ہم مجموعی طور پر خود کو دنیا کی سب سے بیکار، جبکہ ساری دنیا کو اپنے سے افضل قوم قرار دیتے ہیں۔ ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم دنیا کو ہدایت دینے کے لئے نہیں بلکہ دنیا سے ہدایت لینے کے لئے آئے ہیں۔ خود کو دنیا سے افضل ترین قوم سمجھنے کے باعث ہی یہودی آج ساری دنیا کو ہدایت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کی ہدایت قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ CHOSEN قوم ہیں۔
اس قوم پر اس کے عروج کے دور میں بھی اللہ کی پھٹکار پڑتی رہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ سب سے زیادہ عذاب اللہ نے جناب موسیٰ u کے زمانے میں اسی پر بھیجا تھا۔ اس قوم پر الزام ہے کہ اس نے توارۃ میں تحریفیں کیں اور اسے من مانا کلام بنا دیا۔ تاہم اس قوم کی خوبی یہ ہے کہ الہامی کتاب میں تحریفوں کے باوجود، اللہ تعالیٰ نے اس پر جو لعنت اور پھٹکار برسائی تھی، اسے بھی اس نے من و عن محفوظ رکھا ہے۔ دنیا کے لوگ جب تورات پڑھتے ہیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ غیض و غضب بھی انہیں پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہودیوں نے اسے چھپانے کی بجائے محفوظ رکھا ہے۔ ذیل میں ہم اس قسم کے ایک دو اقتباسات پیش کرتے ہیں:
٭ ''او یعقوب کے سردارو، اور اے بنی اسرائیل کے حکمرانو سنو! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم انصاف کو پہچانو؟ تم جو برائی کو پسند اور اچھائی کو ناپسند کرتے ہو، جو میرے بندوں کی کھالیں کھینچتے اور ان کی ہڈیوں سے گوشت علیحدہ کرتے ہو، اور تم جو میرے بندوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے ہو''؟ (میکاہ 1۔ 3تا5)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
٭ ''دیکھو ایک وفادار شہر کس طرح منافقت میں بدل گیا ہے؟ پہلے اس شہر میں انصاف کا دور دورہ تھا اور سچائی یہاں قیام کرتی تھی لیکن اب یہاں قاتلوں کا راج ہے۔ تمہاری چاندی اب کھوٹی ثابت ہو رہی ہے۔ تمہارے شہزادے چوروں کے ساتھی اور بغاوت کرنے والے ثابت ہوئے ہیں۔ تم میں سے ہر ایک کو رشوتوں سے دلچسپی ہو گئی ہے۔ تم میں سے کسی کو یتیموں کی سرپرستی کرنے اور بیواؤں کی دیکھ بھال کا خیال نہیں آتا اس لئے خدا تعالیٰ ، جو اسرائیل کا سب سے طاقتور بادشاہ ہے، کہتا ہے کہ میں اپنے مخالفین سے اپنی جان چھڑا لوں گا۔ میں اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا۔ میں اپنی سرپرستی تم سے ہٹا لوں گا''۔ (نہیمیاہ:21تا 25:1)۔
٭ ان کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ ان کا ہر بڑا تاجر، صنعتکار اور ملٹی نیشنل کمپنیاں صیہونی مقاصد اور اسرائیل کے استحکام کی خاطر اپنی آمدنی کا متعین حصہ لازماً وقف کرتے ہیں اور اس طرح صیہونیت سے اپنی اعلانیہ وفاداری کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف مسلمانوں کی جیب سے اسلام اور وطن کی خاطر رقم نکلتی ہی نہیں ہے۔ یہودیوں سے زیادہ مال سے محبت صرف ہم ہی کو ہے۔ دوسری طرف انہوں نے اپنے ملک میں جمہوریت کو مسلسل پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان اور اسرائیل تقریباً ہم عمر ریاستیں ہیں لیکن اسرائیل میں کبھی فوجی جنتانے عوام کا اقتدار نہیں چھینا۔ وہاں حکومتوں کی تبدیلی باقاعدہ الیکشن سے ہوتی ہے اور ان کی حکومتیں حزب اختلاف کو بھی یکساں اہمیت دیتی ہیں جبکہ تمام مسلم ممالک میں یا تو بدترین آمریت ہے یا بادشاہت ہے یا محض سیاسی توڑ جوڑ ہے۔
تحسین کئے جانے کے لائق ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ بحیثیت مجموعی اسرائیلی ایک قوم کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے اندر یکجہتی و اتحاد ہے اور وہ باہمی طور پر کبھی گروہوں میں تقسیم نہیں ہوئے۔ باوجودیکہ اسرائیل میں دسیوں ممالک کے یہودی جمع ہیں۔ (ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیل کی جانب دنیا کے تقریباً ہر ملک سے یہودی ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اُن کے اندر جرمن یہودی ہیں، انگلش یہودی ہیں، امریکی یہودی ہیں، اسپینی یہودی ہیں، بھارتی یہودی ہیں اور افریقی یہودی ہیں وغیرہ) لیکن اس کے باوجود ان کے اندر کبھی باہمی انتشار نہیں رہا۔ حالانکہ جس ملک میں بھانت بھانت کی قومیتیں آباد ہوں اور جن کا ملک بیسیوں قسم کے خطرات سے گھرا ہوا ہووہاں انتشار کا پیدا ہوانا فطری امر ہے لیکن اسے بھی یہودیوں کی عظم خوبی گردانا جائے گا کہ وہ مختلف ہو کر بھی متحد ہیں۔ انہوں نے اس سوچ کو اپنایا ہے کہ ہم سب یہودی اور ہم سب اسرائیلی ہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کے اندر ایک گروہ حکومت کے خلاف کبھی کبھی مظاہرے بھی کرتا ہے لیکن وہ بہت چھوٹا سا گروہ ہے اور دنیا میں اس کی پذیرائی نہیں ہوتی ہے۔ اسرائیل کی کوئی بھی حکومت اس گروہ کی مخالفت کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
 
Top