ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
قائد اعظم اسرائیل کو ایک ناجائز وجود سمجھتے تھے
گذشتہ دنوں ملک میں اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کئے جانے کا موضوع یکایک شدت سے اٹھایا گیا تھا۔ گذشتہ ساٹھ سالوں سے پاکستان کا ایک اصولی سرکاری موقف تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاستی وجود ہے جو فلسطینیوں پر جبر کر کے اور انہیں ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کر کے زبردستی قائم کی گئی ہے۔ لیکن اب یہ سب باتیں ماضی کا قصہ قرار دی جا رہی ہیں۔ اس موقعہ پر دیگر دلائل سے قطع نظر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ معمار پاکستان قائد اعظم محمد جناح ؒ کا بھی اس ضمن میں اصولی موقف جان لیا جائے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ وہ مغربی سازشوں کو وہ خود کس نظر سے دیکھا کرتے تھے؟ تو آئیے ذرا تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔
اسرائیلی ریاست حکومت برطانیہ کے اعلان بالفور (1917) کے تحت وجود میں آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عرب ممالک کے قلب میں (زبردستی کی بنیاد پر) ایک یہودی ریاست تخلیق کی جائے گی۔ لہٰذا مئی 1948ء میں عربوں کے قلب میں یہ ریاست عملاً قائم کر بھی دی گئی۔ معروف تاریخی اعلان بالفور کے الفاظ یہ ہیں:
''ملکہ عالیہ (برطانیہ) کی حکومت یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کی خاطر فلسطین میں ایک ریاست کے قیام کا اعلان کرتی ہے۔''تاہم مسلمانوں کی اشک شوئی کی خاطر اس اعلان میں اس جملے کا مزید اضافہ کیا گیا کہ ''تاہم یہ بات بہت واضح طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ (اس کی وجہ سے) پہلے سے موجود غیر یہودی (یعنی فلسطینی) طبقوں کے مذہبی اور شہری حقوق کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔'' ۱؎(یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو تاحال
پورا نہیں کیا گیا اور نہ ہی کبھی پورا ہونے کی امید ہے)۔ عیسائیوں نے خلافت عثمانیہ پر جو قبضہ کیا تھا، اس کے بعد امت مسلمہ کے لئے یہ ایک اور اندوہناک سانحہ تھا۔ اس زمانے میں قائد اعظم محمد علی جناح ایک بڑے رہنما کے طور پر خاصے نمایاں ہو چکے تھے۔
۱؎ واضح رہے کہ اس اعلان میں فلسطینیوں کے مذہبی اور شہری حقوق کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کے سیاسی حقوق کا ذکر گول کر دیا گیا ہے۔ (حوالہ: قومیں جو دھوکہ دیتی رہیں۔ روزن ڈیوڈ)۔
گذشتہ دنوں ملک میں اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کئے جانے کا موضوع یکایک شدت سے اٹھایا گیا تھا۔ گذشتہ ساٹھ سالوں سے پاکستان کا ایک اصولی سرکاری موقف تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاستی وجود ہے جو فلسطینیوں پر جبر کر کے اور انہیں ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کر کے زبردستی قائم کی گئی ہے۔ لیکن اب یہ سب باتیں ماضی کا قصہ قرار دی جا رہی ہیں۔ اس موقعہ پر دیگر دلائل سے قطع نظر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ معمار پاکستان قائد اعظم محمد جناح ؒ کا بھی اس ضمن میں اصولی موقف جان لیا جائے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ وہ مغربی سازشوں کو وہ خود کس نظر سے دیکھا کرتے تھے؟ تو آئیے ذرا تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔
اسرائیلی ریاست حکومت برطانیہ کے اعلان بالفور (1917) کے تحت وجود میں آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عرب ممالک کے قلب میں (زبردستی کی بنیاد پر) ایک یہودی ریاست تخلیق کی جائے گی۔ لہٰذا مئی 1948ء میں عربوں کے قلب میں یہ ریاست عملاً قائم کر بھی دی گئی۔ معروف تاریخی اعلان بالفور کے الفاظ یہ ہیں:
''ملکہ عالیہ (برطانیہ) کی حکومت یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کی خاطر فلسطین میں ایک ریاست کے قیام کا اعلان کرتی ہے۔''تاہم مسلمانوں کی اشک شوئی کی خاطر اس اعلان میں اس جملے کا مزید اضافہ کیا گیا کہ ''تاہم یہ بات بہت واضح طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ (اس کی وجہ سے) پہلے سے موجود غیر یہودی (یعنی فلسطینی) طبقوں کے مذہبی اور شہری حقوق کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔'' ۱؎(یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو تاحال
پورا نہیں کیا گیا اور نہ ہی کبھی پورا ہونے کی امید ہے)۔ عیسائیوں نے خلافت عثمانیہ پر جو قبضہ کیا تھا، اس کے بعد امت مسلمہ کے لئے یہ ایک اور اندوہناک سانحہ تھا۔ اس زمانے میں قائد اعظم محمد علی جناح ایک بڑے رہنما کے طور پر خاصے نمایاں ہو چکے تھے۔
۱؎ واضح رہے کہ اس اعلان میں فلسطینیوں کے مذہبی اور شہری حقوق کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کے سیاسی حقوق کا ذکر گول کر دیا گیا ہے۔ (حوالہ: قومیں جو دھوکہ دیتی رہیں۔ روزن ڈیوڈ)۔