• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معرکۂ عظیم از رضی الدین سیّد

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قائد اعظم اسرائیل کو ایک ناجائز وجود سمجھتے تھے
گذشتہ دنوں ملک میں اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کئے جانے کا موضوع یکایک شدت سے اٹھایا گیا تھا۔ گذشتہ ساٹھ سالوں سے پاکستان کا ایک اصولی سرکاری موقف تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاستی وجود ہے جو فلسطینیوں پر جبر کر کے اور انہیں ان کی آبائی زمینوں سے بے دخل کر کے زبردستی قائم کی گئی ہے۔ لیکن اب یہ سب باتیں ماضی کا قصہ قرار دی جا رہی ہیں۔ اس موقعہ پر دیگر دلائل سے قطع نظر ضروری محسوس ہوتا ہے کہ معمار پاکستان قائد اعظم محمد جناح ؒ کا بھی اس ضمن میں اصولی موقف جان لیا جائے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ وہ مغربی سازشوں کو وہ خود کس نظر سے دیکھا کرتے تھے؟ تو آئیے ذرا تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔
اسرائیلی ریاست حکومت برطانیہ کے اعلان بالفور (1917) کے تحت وجود میں آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عرب ممالک کے قلب میں (زبردستی کی بنیاد پر) ایک یہودی ریاست تخلیق کی جائے گی۔ لہٰذا مئی 1948ء میں عربوں کے قلب میں یہ ریاست عملاً قائم کر بھی دی گئی۔ معروف تاریخی اعلان بالفور کے الفاظ یہ ہیں:
''ملکہ عالیہ (برطانیہ) کی حکومت یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کی خاطر فلسطین میں ایک ریاست کے قیام کا اعلان کرتی ہے۔''تاہم مسلمانوں کی اشک شوئی کی خاطر اس اعلان میں اس جملے کا مزید اضافہ کیا گیا کہ ''تاہم یہ بات بہت واضح طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ (اس کی وجہ سے) پہلے سے موجود غیر یہودی (یعنی فلسطینی) طبقوں کے مذہبی اور شہری حقوق کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔'' ۱؎(یہ ایک ایسا وعدہ ہے جو تاحال
پورا نہیں کیا گیا اور نہ ہی کبھی پورا ہونے کی امید ہے)۔ عیسائیوں نے خلافت عثمانیہ پر جو قبضہ کیا تھا، اس کے بعد امت مسلمہ کے لئے یہ ایک اور اندوہناک سانحہ تھا۔ اس زمانے میں قائد اعظم محمد علی جناح ایک بڑے رہنما کے طور پر خاصے نمایاں ہو چکے تھے۔
۱؎ واضح رہے کہ اس اعلان میں فلسطینیوں کے مذہبی اور شہری حقوق کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کے سیاسی حقوق کا ذکر گول کر دیا گیا ہے۔ (حوالہ: قومیں جو دھوکہ دیتی رہیں۔ روزن ڈیوڈ)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بانی ٔپاکستان کو انگریزوں کی یہ عیاری سخت ناگوار گزری۔ انہوں نے جب سیاست میں قدم رکھا تھا تو اسی وقت اس عزم کا اظہار کر دیا تھا کہ ایک طرف وہ برصغیر کے مسلمانوں کو ہندوئوں اور انگریزوں کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں گے تو دوسری طرف بقیہ مسلم دنیا کے مصائب و آلام پر بھی آواز بلند کریں گے۔ لہٰذا قیام اسرائیل کی جاری تحریک کے خلاف آل انڈیا مسلم لیگ کے لکھنو کے اجلاس منعقدہ 15 اکتوبر 1937ء کی صدارتی تقریر کے موقع پر انہوں نے کہا ''فلسطین کے مسئلے نے بھارت کے تمام مسلمانوں کو بری طرح دکھ پہنچایا ہے۔ برطانیہ کی تمام پالیسیاں عربوں سے بے وفائی پر مشتمل ہیں جس میں برطانیہ نے عرب مسلمانوں کی بھروسہ کرنے والی فطرت سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ حکومت برطانیہ نے عربوں سے کئے گئے اس وعدے سے کہ، ان کے ممالک کو مکمل طور پر خودمختاری دی جائے گی، پوری طرح بے وفائی کی ہے، ان کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتے ہوئے اور ان سے پوری طرح فائدہ اٹھا لینے کے بعد سلطنت برطانیہ نے ان پر ناپسندیدہ اعلان بالفور مسلط کر دیا ہے۔ یہودیوں کے لئے ایک آزاد وطن کے قیام کے منصوبے کے بعد برطانیہ نے طے کیا ہے کہ اب فلسطین کو بھی تقسیم کر دیا جائے۔ اگر یہ منصوبہ عمل میں لایا گیا تو یہ عرب مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو ان کے اپنے ہی وطن میں تباہ و برباد کرنے کے مترادف ہو گا۔''
قائد اعظم نے مزید کہا ''میں برطانوی راج کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کو اگر منصفانہ اور آبرو مندانہ طور پر حل نہ کیا گیا تو یہ سلطنت برطانیہ کے لئے تبدیلی کا نقطہ آغاز ہو گا۔ برطانیہ نے فلسطینی عربوں کی رائے عامہ کو طاقت و جبر سے کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس موڑ پر ہم ہند کے مسلمان عرب موقف کے حامی اور ان کی منصفانہ جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ عرب مسلمان اپنے جائز حق کی جدوجہد میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔''
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس مقصد کے لئے مسلم لیگ کی جانب سے 16 اگست 1938ء کو بھارت بھر میں یوم فلسطین منایا گیا جس میں عرب بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرے اور جلسے کئے گئے۔ اس موقع پر مسٹر جناح نے کہا ''مسلمان جب اپنے عرب بھائیوں کی بہادرانہ جدوجہد اور ان پر کئے جانے والے ان گنت مظالم کی خبریں سنتے ہیں تو ان کے دل زخمی ہو جاتے ہیں۔ '' قائد اعظم نے بتایا کہ اس مسئلے کے لئے مسلم لیگ نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے نمائندے فلسطین اور انگلینڈ کے دورے کریں گے تاکہ وہ فلسطینی عربوں کے معاملے پر حکومت برطانیہ پر دبائو ڈال سکیں۔ انہوں نے سرکار برطانیہ کو متنبہ کیا کہ اگر فلسطین میں عربوں کو ان کا جائز اور منصفانہ حق نہ دیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں کبھی امن قائم نہ ہو سکے گا۔
اس کے بعد 26 ستمبر 1938ء کو مسلم لیگ کے اجلاس منعقد پٹنہ بہار کی صدارت کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا ''مسلمانانِ ہند اپنے عرب بھائیوں کی جدوجہد آزادی برائے خودمختار ریاست کے معاملے میں ان کی مدد سے ہر گز دریغ نہ کریں گے''۔ انہوں نے برطانوی راج کی جانب سے تحریک آزادی کے مجاہدوں کو دہشت گرد پکارنے اور ان پر ہر قسم کا ظلم و ستم توڑنے کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے 7 فروری 1939ء کو خود لندن میں ایک فلسطینی کانفرنس طلب کی اور حکومت برطانیہ سے بھی اپنا ایک نمائندہ بطور مبصر بھیجنے کی درخواست کی۔ تاہم برطانوی حکومت نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ اس کے بعد قائد اعظم نے برطانوی وزیر اعظم اور دیگر وزراء کو مسئلہ فلسطین کے عرب احساسات کے تحت حل کے لئے لگاتار برقیے روانہ کئے۔نیز مسلم لیگ کی تمام شاخوں کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ بھی برطانوی وزیر اعظم کو اپنی طرف سے تار روانہ کریں۔ اسی طرح کے ایک برقیہ میں فروری 1939ء میں قائد اعظم نے برطانوی سیکریٹری برائے انڈیا کو آگاہ کیا کہ چونکہ فلسطین مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس لئے مسلمانانِ ہند اپنے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے پابند ہیں۔
جنگ عظیم دوم کے موقع پر ستمبر 1939ء میں قائد اعظم نے اس وقت کے برطانوی وائسرائے کو ایک تار روانہ کیا جس میں حکومتِ برطانیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارتی مسلم افواج کو بھارت سے باہر کسی مسلم ملک کے خلاف استعمال نہ کرے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر محمد علی جناح نے بحیثیت صدر آل انڈیا مسلم لیگ، فلسطینیوں کے لئے فنڈ جمع کرنے کی مہم شروع کی اور ان کے رہنمائوںکو مسلمانانِ ہند کی جانب سے علامتی طور پر پانچ سو اسٹرلنگ پونڈ(آج کے حساب سے تقریباً پچاس ہزار روپے) کا ایک بینک ڈرافٹ روانہ کیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
10 مارچ 1944ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو طلبہ سے ایک پرجوش خطاب کے دوران انہوں نے امریکی صدر روز ویلٹ کو خبردار کیا کہ وہ فلسطینی عربوں پر ظلم و ستم کرنے سے باز آ جائیں۔ انہوں نے دنیا بھر سے فلسطین کی جانب بڑے پیمانے پر یہودیوں کی ہجرت کی سخت مذمت کی۔ اس وقت تک کم و بیش 50 ہزار یہودی یورپ سے منتقل ہو کر فلسطین میں آباد ہو چکے تھے۔ اسی طرح ایک اور موقع پر بانیء پاکستان نے برطانیہ کو تنبیہ کی کہ وہ مقاماتِ مقدسہ میں کثیر برطانوی فوج کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر عربوں کو اپنے آگے جھکنے پر مجبور نہ کرے۔ ( 23-3-1940)
یہ تھے وہ عظیم خیالات جو قائد اعظم محمد علی جناح نے مسئلہ فلسطین پر اظہار یکجہتی کے لئے بھارتی مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ظاہر کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کو فلسطینی عوام کے متعلق برطانوی و امریکی پالیسیاں کبھی مطمئن نہ کر سکیں اور وہ قدم بقدم دونوں حکومتوں سے مسلسل احتجاج کرتے رہے۔ اگر ایک طرف وہ مسلمانانِ بھارت کی جدوجہد آزادی کو مہمیز دے رہے تھے تو دوسری جانب وہ عرب مسلمانوں اور دیگر مسلم ممالک کے مقدموں کو بھی خوبصورتی سے لڑ رہے تھے۔ اپنے مسلم بھائیوں کے دفاع سے وہ کبھی غافل نہیں رہے۔
اسرائیل کے مسئلے پر فلسطینی عوام کے لئے ایک طرف بانیء پاکستان محمد علی جناح کے یہ خیالات ہیں اور دوسری جانب ہمارے سربراہان مملکت کا یہ بیان ہے کہ ''ہمیں فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بننے کی کیا ضرورت ہے؟ '' اور یہ کہ ''اسرائیل سے ہماری براہ راست کوئی دشمنی نہیں ہے''۔ دونوں بیانات میں کتنا عظیم تضاد ہے!
قائد اعظم مغربی ماحول میں پلے بڑھے ہونے کے باوجود فلسطین کو ''قبلہ اول'' قرار دیتے تھے اور بھارتی فوج کو عربوں کے خلاف استعمال نہ کرنے کی تنبیہ کرتے تھے جبکہ ہم ایک غاصب اور سازشی یہودی قوم کی ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے بے چین ہوئے جا رہے ہیں۔ قائد اعظم آج کے ملکی حکمرانوں سے کہیں زیادہ دُوراندیش، مدبر اور مسلم بھائی چارے کے حامی تھے۔ (حوالہ امپیکٹ انٹرنیشنل لندن۔ اگست ۲۰۰۳ء)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بھارت اور اسرائیل ... دو متضاد کیس
اسرائیل کو تسلیم کرائے جانے کی حالیہ جارحانہ مہم میں بعض طبقوں کی جانب سے مختلف عجیب و غریب دلائل دئیے جا رہے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب ہم بھارت جیسے جارح اور غیر مسلم ملک کو 60سالوں سے تسلیم کئے ہوئے ہیں تو اسرائیل کو تسلیم کر لینے میں ہمیں آخر کیا تکلیف ہے؟
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ محض الفاظ سے کھیلنے کی کوشش ہے۔ بطور ریاست اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے حوالے سے اسے بھارت پر قیاس کرنا، جہالت کی علامت ہے، کیونکہ بھارت اور اسرائیل کے بارے میں حقائق بالکل مختلف ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ بھارت ہزاروں سال سے اپنا ایک آزاد وجود رکھتا ہے۔ یہ اس وقت بھی ایک علیحدہ مملکت تھا جب ڈیڑھ ہزار سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کا نام لے کر غزوئہ ہند میں شریک مسلمانوں کو جنت کی بشارت دی تھی۔ اس کے بعد اس ملک میں مختلف خاندان حکمرانی کرتے رہے جن میں مرہٹہ، خلجی، غوری، غلام اور مغل خاندان شامل ہیں۔ بعد میں پھر یہاں تقریباً ایک سو سال تک انگریز بھی صاحب اقتدار رہے۔ تخلیق پاکستان کے وقت بھی بھارت ایک بڑی سلطنت تھا جبکہ اس کے برعکس پاکستان ایک نئی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ 1947ء کے بعد ہندوستان بے شک ایک جارح اور توسیع پسند ملک کے طور پر سامنے آیا تھا جس کے شر سے آس پاس کی تمام چھوٹی بڑی ریاستیںپناہ مانگتی ہیں تاہم وہ اپنی آزاد سرحدیں ضرور رکھتا تھا۔
دوسری جانب اسرائیل نامی ملک کا تاریخ میں کبھی کوئی وجود نہ تھا۔ اسے تو 1917ء کے بعد برطانوی و امریکی سازشوں کے نتیجے میں عربوں کے قلب میں دھونس اور دھاندلی کے ساتھ وجود میں لانا شروع کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے زبردستی بے دخل کیا گیا جبکہ ہزاروں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا(اور یہ سلسلہ آج بھی بدستور جاری ہے)۔ تو اس طرح کہیں جا کر اسرائیل کو وجود بخشا گیا جو سراسر ایک بین الاقوامی دھوکے بازی کا نتیجہ اور ناجائزجنم ہے جسے دنیا کا کوئی قانون بھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ آج بھی اسرائیل اپنی سرحدیں وسیع کرنے سے باز نہیں آ رہا ہے کیونکہ 1948ء کے قائم شدہ اسرائیل اور آج کے اسرائیل میں کم از کم تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں یہودیوں کو تو اسرائیل میں آباد ہونے کا حق حاصل ہے لیکن لاکھوں فلسطینیوں کو دوبارہ اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسرائیل کے وجود کو تو خود بہت سے یہودی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں جن میں معروف یہودی دانشور نوم چومنسکی بھی شامل ہیں۔ اس قسم کی ایک تنظیم ''نیٹورائی کارٹا'' کا تذکرہ امریکی مصنف ''رون ڈیوڈ'' نے بھی اپنی کتاب ''عربز اینڈ ازرائیل'' (اردو ترجمہ: قومیں جو دھوکہ دیتی رہیں) میں کیا ہے۔ اگر اسرائیل کو تسلیم کیا جانا اتنا ہی قانونی اور ''انسانی '' ہے تو پھر ہم قائد اعظم کو کیا کہیں گے جنہیں اسرائیل کے قیام پر تکلیف ہوئی تھی اور انہوں نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں برطانیہ اور امریکا سے سخت احتجاج کیا تھا اور انہیں دھوکے باز قرار دیا تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کا ایک بڑا نقصان پاکستان کو یہ بھی ہو گا کہ ہمارا ملک سخت خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔ ملک میں اسرائیلی سفارت خانے اور قونصل خانے کھل جائیں گے جن کے پردے میں موساد کے ایجنٹ مقامی افراد کو خریدیں گے اور انہیں سرمایہ فراہم کر کے ملک کے خلاف بغاوت پر اکسائیں گے۔ اس طرح یہاں مزید بے چینی اور تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو گا جو خدانخواستہ پاکستان کی شکست و ریخت پر ختم ہو گا۔ پہلے ہی ہم ''را'' کی کاروائیوں کو بھگت رہے ہیں تو اس کے بعد مزید موساد کی کاروائیوں کو بھی بھگتیں گے۔ کئی مواقع پر ایسا ہوا ہے کہ پاکستان میں قائم بھارتی سفارت خانے ''را'' کا کردار ادا کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ یہی حال اسرائیلی سفارتخانوں کا بھی ہوگا۔ یہاں ہم اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان کے الفاظ نقل کر رہے ہیں جو پاکستان سے متعلق خاصے تشویشناک ہیں۔ اس نے 1967ء میں پیرس میں کہا تھا کہ ''صیہونی عالمی تحریک پاکستان کے خطرے کو کبھی نظر اندازنہ کرے بلکہ اب اس کا ہدف پہلے پاکستان ہی ہونا چاہئے''۔
بن گوریان کے علاوہ ایک سابق امریکی یہودی پروفیسر ''ہرٹز'' اپنی ایک کتاب کے صفحہ 215 پر کہتا ہے کہ ''پاکستان اور عربوں کے درمیان محبت کے گہرے رشتے قائم ہیں لہٰذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ یہودی (پاکستانیوں کے دلوں سے) پیغمبر اسلام کی محبت نکال دیں خواہ اس کے لئے انہیں کوئی ذریعہ بھی استعمال کرنا پڑے۔''ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے خلاف کیا کیا عالمی سازشیں ہو رہی ہیں۔ یہی وہ خطرناک سازشیں ہیں جن کی بنیاد پر اسرائیل اور امریکا نے بھارت کو استعمال کر کے پاکستان کا ایک بازو توڑ دیا تھا اور پاکستان کی مضبوط قوت کو نقصان پہنچایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب اسرائیل باہر رہ کر پاکستان کو توڑ سکتا ہے تو پاکستان کے اندر آ کر وہ اس اسلامی ملک کے خلاف کاروائی آخر کیوں نہیں کرے گا؟
اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کا ایک دوسرا بڑا نقصان یہ ہو گا کہ اب کالجوں اور اسکولوں کے نصاب سے جہاد اور یہودیوں سے متعلق آیات اور احادیث خارج کر دی جائیں گی تاکہ پاکستانیوں کے دلوں میں یہودیوں سے نفرت نہ بیدار ہو۔ اس قسم کے اقدامات بعض عرب ممالک میں کئے بھی گئے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ کام اب بہت تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پہلے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اسرائیل بھارت اور امریکا نے ہمارے لئے کب اپنی خارجہ پالیسیاں تبدیل کی ہیں کہ ہم ان کے لئے اپنی خارجہ پالیسیاں تبدیل کرلیں؟ یہودی تو عظیم تر اسرائیل کے منصوبے کے تحت ترکی، عراق، شام اور مدینہ منورہ تک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو کیا ہمیں ان تمام حقائق سے آنکھیں بند کر لینی چاہئیں؟ عجیب بات ہے کہ ہم مظلوم فلسطینیوں کی دست گیری کرنے کے بجائے آج خود دہشت گرد اسرائیل کی دست گیری کر رہے ہیں۔ کیا دنیا سے انصاف اور اصول کے معنی آج تبدیل ہو گئے ہیں؟ اہل فلسطین تو آج بھی یہودیوں سے اپنی جان و مال کے ساتھ بر سرِ پیکار ہیں لیکن ادھر ہم ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کیلئے بے چین ہوئے جا رہے ہیں۔
ہم ذمہ دارانِ مملکت سے گزارش کریں گے کہ چونکہ اس یہودی ریاست کا ایک طویل تاریخی اور مذہبی پس منظر ہے اس لئے وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ذرا یہودیوں کی تاریخ کا گہری نظر سے ایک بار ضرور مطالعہ کرلیں۔ اس سے ان کے خیالات کو ایک نئی جہت ملے گی۔ خصوصاً وہ سابق امریکی صدر جارج واشنگٹن، فرانسیسی جنرل نپولین بوناپارٹ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے خیالات ضرور جان لیں کیونکہ یہ حضرات بڑے اسٹیٹسمین تھے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ملائشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد اور موجودہ ایرانی صدر احمدی نژاد کا یہودی تاریخ کا مطالعہ بہت زیادہ ہے۔ ہمیں جان لینا چاہئے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم کر کے خود اپنے ہی پیروں پر وار کریں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تحریک ِ پاکستان اور تحریک ِ اسرائیل۔ ایک تقابلی مطالعہ
دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والی پہلی نظریاتی مملکت پاکستان تھی۔ اسے نظریاتی مملکت اس لئے قرار دیا گیا تھا کہ اسے اسلام سے وابستہ کیا گیا تھا اور اس کے حصول کے وقت تمام لوگوں نے اللہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اس آزاد مملکت میں اس کے نام کا کلمہ جاری کریں گے، اگر یہ عہد نہ کیا گیا ہوتا تو پھر یہ بس ایک عام سا ملک ہوتا جس کا کوئی نظریاتی تشخص نہ ہوتا۔ اس اسلامی مملکت کے لئے ایک طویل تحریک چلائی گئی تھی، جس کی ابتداء کے لئے ہم 1857ء کا سال مقرر کر سکتے ہیں جب مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ آزادی لڑی تھی۔ اس تحریک کو ہم ''تحریک ِ پاکستان'' کے نام سے بھی یاد کر سکتے ہیں۔
حسن اتفاق یا سوئے اتفاق کہ ہماری طرح ایک اور قوم بھی اپنی نظریاتی مملکت کے قیام کے لئے تحریک چلا رہی تھی جس کے پاس مسلمانوں کی مانند خود بھی کوئی وطن موجود نہ تھا۔ اس قوم کا نام یہودی تھا اور قیام وطن کی ان کی تحریک کا نام ''تحریک اسرائیل'' تھا۔آخر طویل جدوجہد کے بعد اس قوم نے بھی اپنا وطن پایا، جسے انہوں نے ''اسرائیل'' کے نام سے موسوم کیا۔ یہ بھی تاریخ کی عین مطابقت ہے کہ ہمارے اور ان کے، دونوں کے وطن کے قیام کی تاریخیں تقریباً ایک سی تھیں۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا جبکہ اسرائیل 14مئی 1948ء کو ایک نئی مملکت کی شکل میں اُبھر کے سامنے آیا۔ پاکستان کی مانند اسرائیل کو بھی ایک نظریاتی مملکت کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہودی بھی اس سرزمین کو اپنے پیغمبروں کی بشارت اور خدائی وعدہ قرار دیتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تحریک پاکستان مکمل سچائی اور جائز حقوق کے لئے چلائی گئی تھی اور اس میں جھوٹ، مکر و فریب اور تشدد کا کوئی عنصر شامل نہ تھا، لیکن تحریک اسرائیل مکمل جھوٹ اور ناجائز حقوق کے لئے چلائی گئی تھی جس میں جھوٹ، مکر و فریب اور تشدد کے بھر پور عناصر شامل تھے۔ آزدی کے بعد پاکستان کو تمام دنیا نے ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے تسلم کیا، حتی کہ خود اس ملک نے بھی جس سے کٹ کر پاکستان قائم ہوا تھا۔ اس کے برعکس اسرائیل کو آج بھی تقریباً ایک چوتھائی دنیا تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور وہ اسے محض ایک ناجائز ریاست کا درجہ دے کر رہ جاتے ہیں۔
عجیب و غریب بات یہ ہے کہ ان دونوں نظریاتی مملکتوں کی تحریکوں میں بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے، جن میں سے ایک دو کا ذکر ہم نے اوپر کے پیراگرافوں میں کیا۔ تاریخ کی ان دو مطابقتوں کا مطالعہ تاریخ و مذہب کے طالب علموں کے لئے دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ جس طرح علامہ اقبال ہمارے ایک متفقہ ''قومی مفکر'' کا درجہ رکھتے ہیں، اسی طرح صیہونیوں کیلئے ''تھیوڈورہرزل'' بھی قومی مفکر یا مفکر اسرائیل کا درجہ رکھتا ہے۔ علامہ اقبال کا تذکرہ کئے بغیر ہماری تاریخ اور تھیوڈور ہرزل کا تذکرہ کئے بغیر ان کی تاریخ نامکمل رہتی ہے۔ علامہ اقبال نے ہمیں سمجھایا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ناگزیر ہے کہ وہ بھارت سے کٹ کر ایک آزاد نظریاتی مملکت قائم کریں، انہوں نے ہماری اندر ایک علیحدہ قوم ہونے اور آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ابھارا۔ یہی کام صیہونیوں کے لئے تھیوڈورہرزل نے کیا۔ یہودی اس وقت دنیا بھر میں منتشر اور راندئہ درگاہ بنے ہوئے تھے۔ عیسائیوں کے جبر و ستم اور بربریت کے باعث بحیثیت قوم وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکے تھے۔ دوسری طرف ہزار سالہ بادشاہت کے خاتمے اور 1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمان بھی اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکے تھے اور سمجھنے لگے تھے کہ انہیں اب ہمیشہ انگریزوں اور بھارت کی غلامی ہی میں محصور رہنا ہے۔ ہرزل نے یہودیوں کے اندر صیہونیت کی رُوح پھونک پھونک کے اور اسرائیل کے قیام کا خواب سمجھا کر، انہیں ایک قوم ہونے اور روشن مستقبل کی اُمید رکھنے پر اُبھارا۔ اس کا یقین تھا کہ اسرائیلی ریاست کا نظریہ دنیا بھر کے یہودیوں کو اکٹھا کر دے گا اور ان میں اس کے حصول کے لئے آگ لگا دے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
لہٰذا اس نے 1896ء میں اپنی کتاب ''دی جیوئش اسٹیٹ'' (اصل نام Der Juden staat) لکھی۔ علامہ اقبال نے بھی اس مقصد کے لئے شاعری اختیار کی اور 1930ء میں خطبہء الٰہ آباد دیا۔ تھیوڈورہرزل نے 1897ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر ''باسل'' میں پہلی ''عالمی صیہونی کانگریس'' طلب کی، جہاں لگ بھگ ان الفاظ کے ساتھ ایک قرارداد منظور کی گئی کہ ''صیہونی تحریک عہد کرتی ہے کہ یہودی قوم کے لئے فلسطین کے اندر قانونی طور پر محفوظ اور عالمی طور پر تسلیم شدہ ایک وطن حاصل کیا جائے''۔ مسلمانانِ ہندوپاک نے بھی 1940ء میں لاہور میں ایک قومی کانفرس طلب کی، جس میں مسلمانوں کے لئے ایک آزاد وطن کی قراداد، مکمل تائید کے ساتھ منظور کی گئی۔ اس قرارداد کو آج تاریخ میں ''قراردادِ پاکستان'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جبکہ یہودیوں کی قرارداد کو ہم ''قراردادِ اسرائیل'' کہہ سکتے ہیں۔
ہرزل کا خیال تھا کہ نئی مملکت کے قیام سے یہودیوں کو دنیا میں عزت کا مقام ملے گا، وہ منظم ہوں گے، اپنی مذہبی اقدار کو بچائیں گے اور اپنی قدیم زبان ''عبرانی'' کا احیاء کریں گے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کا بھی یہی نظریہ تھا، انہوں نے بھی مسلمانوں کے لئے عزت کا مقام، تنظیم، مذہبی اقدار کی حفاظت اور اُردو زبان کی ترقی کامقصد پیش نظر رکھا تھا۔اسرائیل کا بانی صدر ڈیوڈ بن گوریان تھا، جبکہ پاکستان کے بانی گورنر جنرل بانی باکستان محمد علی جناح تھے۔ یہودیوں کا نظریہ ہے کہ ''اگر یہودی مضبوط ہیں تو اسرائیل بھی مضبوط ہے''۔ انہوں نے اسرائیل اور خود کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر لیا ہے۔
قیامِ اسرائیل کے بعد ان کے ہاں بھی ہجرت ہوئی اور یہودی تمام دنیا سے ہجرت کر کے اپنے وطن میں آنے لگے۔ اپنی اس ہجرت کو وہ ''عالیہ'' کہتے ہیں۔ ان کی طرح سے ہمارے ہاں بھی ہجرت ہوئی اور پورے برصغیر سے مسلمان اپنے آبائی علاقے چھوڑ چھوڑ کر پاکستان آنے لگے۔ اپنی اس ہجرت کو وہ نبی اکرم e کی ہجرت کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے ہاں بھی یہودیوں کی اکثریت (تقریباً ایک لاکھ کی تعداد) نے اسرائیل میں آباد ہونے کی بجائے اپنے اصلی وطن (امریکہ، فرانس، انگلینڈ) ہی میں رہنے کو ترجیح دی تھی اور ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی اکثریت نے ہندوستان چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ بیرونی یہودیوں کے دل ہجرت نہ کرنے کے باوجود آج بھی اسرائیل کیلئے دھڑکتے ہیں، جب کہ ایسا ہی کچھ معاملہ بھارتی مسلمانوں کا بھی ہے۔ برصغیر کے بعض سرکردہ رہنماؤںکی طرح یہودیوں کی بھی ایک قلیل تعداد قیام اسرائیل کی مخالف ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس طرح یہودیوں نے خود کو دائمی عذاب سے دوچار کر لیا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اب سے تقریباً 40 سال پہلے جون 1968ء میں صیہونی کانگریس نے یروشلم میں صیہونی مقاصد کی تجدید کی ہے، جو یہ ہیں۔ (۱) یہودی قوم کا اتحاد اور ان کی زندگی میں اسرائیل کی مرکزیت (یعنی ان کے لئے اسرائیل ہی سے ہدایات جاری ہوں گی)۔ (۲) تمام یہودیوں کی اسرائیل میں آباد کاری۔ (۳) الہامی پیشن گوئیوںکی بنیاد پر اسرائیل کا استحکام۔ (۴) یہودی قوم کی شناخت کا تحفظ جس کے لئے نصاب میں اسباق رکھے جائیں، عبرانی زبان کا احیاء۔ (۵) یہودی ثقافت و اقدار کا فروغ اور (۶) ساری دنیا میں یہودی حقوق کا تحفظ۔
ہم نے اب تک اپنے وطن میں نظریہء پاکستان اور مسلم شناخت کو نصاب کے ذریعے تحفظ دینے کی کوشش کی اور پاکستان اور اسلام پر اسباق پڑھائے جاتے رہے، لیکن اب ہم نے اس جانب سے الٹی زقند لگا لی ہے اور سارے سابقہ نصاب پر خط نسخ کھینچ دیا ہے۔ان کے ہاں نسل در نسل نظریاتی نصاب پڑھایا جا رہا ہے اور عبرانی زبان سکھائی جا رہی ہے۔ لیکن ہم نے نظریاتی رویہ پس پشت ڈال دیا ہے اور اُردو زبان سے بے رحمانہ سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ پہلے ہم بھی عالم اسلام کی بھر پور نمائندگی کرتے تھے۔ کہیں بھی کوئی مسلم مسئلہ ہوتا تھا، سب سے پہلے پاکستان سے اس کی آواز اٹھتی تھی۔ جس طرح اسرائیل ساری دنیا میں یہودیوں کے حقوق کے تحفظ کا علمبردار ہے، ہم بھی ساری دنیا میں مسلم حقوق کے تحفظ کے علمبردار تھے، لیکن اب ہم نے سب کچھ تج کر صرف ''پہلے پاکستان اور پھر کوئی اور ملک'' پر اکتفاء کر لیا ہے، ہمیں اب عالمی طور پر مسلمانوں سے کوئی زیادہ دلچسپی باقی نہیں رہی ہے۔
تام ہم اتنی ساری مماثلتوں کے باوجود یہودی ہم سے بہت آگے نکل گئے ہیں، ان کے عوام اور حکمرانوں کو اسرائیل سے شدید محبت ہے اور وہ اس کی توسیع و استحکام کے لئے دن رات مصروف کار ہیں، جب کہ ہمارے حکمرانوں کو پاکستان سے برائے نام محبت ہے اور اور وہ اس کے زوال کے لئے کوشاں ہیں۔ یہودیوں کے اکابرین نے اسرائیل کی سرحدیں بہت وسیع کر دی ہیں، جب کہ ہم نے ایک بازو کاٹ کر اپنی سرحدیں مختصر کر لی ہیں۔ اب ہماری اور ان کی تحریک میں فی زمانہ کوئی مماثلت ہی نہیں ملتی۔
 
Top