• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معرکۂ عظیم از رضی الدین سیّد

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہود یوں اور عیسائیوں کا گٹھ جوڑ
1492ء تک سارے مسیحی مغرب میں یہودیوں کا داخلہ بند تھا۔ یہودیوں کے بارے میں عیسائی یقین رکھتے تھے کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات میں سب سے بدترین اور شریر ترین مخلوق یہودی ہیں۔ اس قوم پر سب سے زیادہ تشدد اور عذاب عیسائی دنیا ہی نے پہنچایا ہے۔ وہ انہیں اپنے مسیحا جناب عیسیٰ u کا قاتل سمجھتے تھے۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام سے پہلے عیسائیوں کی یہود دشمنی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کے وہ یہودیوں کی محبت میں گرفتار ہونے لگے۔ چنانچہ عیسائی آج یہودیوں سے بھی زیادہ اسرائیل کی توسیع اور استحکام کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے مبلغین مثلاً جیری فال ویل اور جمی سواگراٹ جنہیں امریکہ کی بہت بڑی اکثریت انتہائی انہماک سے سنتی ہے سارے امریکہ کو اسرائیل کی مدد کے لئے اکساتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب امریکہ کے مختلف صدور بھی اسرائیل کو اپنا ایک مذہبی عقیدہ قرار دینے لگے ہیں۔ سابق صدر جمی کارٹر کا کہنا ہے کہ'' اسرائیل کا قیام بائبل کی پیشین گوئی کی تکمیل اور بائبل کے بیان کا حصہ ہے''۔ (جدید صلیبی جنگ۔ گریس ہالسیلز صفحہ69)۔ اسی طرح سابق صدر رونالڈ ریگن نے بھی کہا تھا کہ ''عنقریب دنیا فنا ہوجائے گی''۔ (تاکہ عیسائی اور یہودی زندہ رہ سکیں)۔
البتہ حیرت انگیز طور پر صدر کینیڈی تک امریکہ کے بیشتر صدور اسرائیل اور یہودیوں کے سخت ترین مخالف تھے۔ صدر آئزن ہاور یہودیوں کی توسیع پسندی کے سخت دشمن تھے۔ امریکہ کے ایک اور اولین صدر جارج بش واشنگٹن نے اپنے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ '' یہودی خون چوسنے والی چمگادڑیں ہیں اور اگر تم نے انہیں امریکہ بدر نہ کیا تو دو سو سال سے بھی کم عرصہ میں یہ تمہارے ملک پر حکمرانی کرنے لگیں گے اور تمہاری آزادی کو سلب کرلیں گے۔'' (بیان ایمسٹرڈم چیمبر 22-9-1654۔ کتاب اینٹی زائن۔ از ولیئم گرمسٹارڈ )
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہ دور یہودیوں پر عیسائیوں کے بدترین تشدد کا دور تھا۔ ان کیلئے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ خوش قسمتی سے اسی زمانے میں کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ چنانچہ یہودیوں نے خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر امریکہ کو اپنا وطن بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے دور اندیشی کی بنیاد پر نیو یارک کی بندرگاہوں کو اپنے لئے منتخب کیا تاکہ سمندری و تجارتی راستے سے وہ پہلے امریکہ اور پھر ساری دنیا پر قبضہ کرسکیں۔ ان کے اسی فیصلے کے باعث آج نیو یارک کو جیویارک بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف پروٹسٹنٹ عیسائی بھی امریکہ چلے گئے۔ اس طرح امریکہ میں آج تک یہی فرقہ اکثریت میں موجود رہاہے۔ یہ پروٹسٹنٹ عیسائی ہی تھے جنہوں نے اپنی طرح کے مظلوم یہودیوں کے لئے دلوں میں نرم گو شہ پیدا کیا اور ان کی حمایت کی۔ ان کے اثرات ہی کی وجہ سے عیسائیوں کی بڑی آبادی اس بات کی قائل ہوئی کہ فلسطین کو یہودیوں کی سرزمین قرار دیاجائے۔ یہودیوں کے ساتھ ان کی ہمدردی کا یہ حال تھا کہ صیہونی( اسرائیلی) تحریک سے پہلے قیام اسرائیل کا مطالبہ کرنے والے یہودی نہیں بلکہ خود عیسائی تھے۔ (مزید تفصیل: صلیبی جنگ صفحہ95) عیسائیوں کا کہنا تھا کہ ارض مقدس میں یہودیوں کی واپسی نزول مسیح کا پیش خیمہ ہے۔ یہودی تو بلکہ نیو یارک ہی کو وہ موجودہ مقدس بستی سمجھنے لگے تھے جس کا ذکر ان کی تورات میں آیا تھا۔ آج عیسائیوں کو یہودیوں سے اس لئے بھی ہمدردی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جناب عیسیٰ u کی آمد کے بعد تمام یہودی آخر کار عیسائیت اختیار کرلیں گے۔
صیہون پرست عیسائی مبلغین دنیا کو تباہ کرنے کی خاطر ہولناک جنگ کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے وہ تیزی سے جنگ کی آگ بھڑ کارہے ہیں۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے آرما گیڈون کا نظریہ تصنیف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میگڈون کی جنگ میں 200میل تک خون بہے گا۔ (صلیبی جنگ صفحہ 26)۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت تقریباً ایک درجن ممالک کے پاس ایٹمی اسلحے موجود ہیں چنانچہ ہم ان اسلحوں کی مدد سے دنیا کو یقینی طور پر ختم کرسکتے ہیں۔ (جدید صلیبی جنگ صفحہ:۷)۔ عیسائی مبلغین دعا کرتے ہیں کہ کاش وہ ایک ایسی ہولناک جنگ لڑ سکیں کہ انسانی تاریخ اس کے بعد بالکل ختم ہوجائے۔ ان کا نظریہ ہے کہ کٹر یہودی مسجد اقصیٰ کو بم دھماکے سے اڑا دیں گے جس کے نتیجہ میں مسلم دنیا میں غم و غصہ کی آگ بھڑ ک اٹھے گی۔ اسرائیل کے ساتھ یہ ایک مقدس جنگ ہوگی جو ان کے مسیح کو مجبور کریگی کہ وہ درمیان میں مداخلت کریں۔ ایک بڑے امریکی یہودی برائون نے اعلان کیا تھا کہ مسجد اقصیٰ کی موجودگی اس سرزمین پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ (ایضاً صفحہ83)۔ صدر ریگن بھی آرما گیڈون کے اس فلسفے پر پوری طرح یقین رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یقین کیجئے کہ یہ پیشن گوئیاں یقینی طور پر اس زمانے کو بیان کررہی ہیں جن سے ہم گزر رہے ہیں۔ (ایضاً صفحہ:22) ایک بڑے کاروباری عیسائی کلائڈ کا کہنا ہے کہ پہلا وار حضرت عیسی ؑ ہی کریں گے۔ ان کے پاس کوئی نیا ہتھیار ہوگا جس سے انسان کے بدن کا گوشت اور زبان خود بخود گل سڑ جائیں گے۔ مشہور صیہونی امریکی مبلغ جیری فال ویل کہتا ہے کہ'' عیسی ؑ محض نبی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک فائیو اسٹار جنرل ہیں جو گھوڑ ے پر سوار ہوں گے اور ساری دنیا کی فوج کی قیادت کر رہے ہوں گے۔ وہ ایٹمی اسلحہ سے لیس ہوں گے اور ان کروڑو ں اور اربوں انسانوں کو جو غیر مسیح ہیں' ہلاک کردیں گے۔'' (ایضاً صفحہ25)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک اور تبلیغ کار جارج اولٹس کا کہنا ہے کہ یہ پوری ارض مقدس (فلسطین) غیر یہودیوں کے لئے ناقابل استعمال ہے۔ عیسائیوں کے ایک بڑے راہنما نے اسرائیل سے کہا کہ ''وہ کسی بین الاقوامی قانون کے چکر میں نہ آئے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پھندوں میں پھنسے۔''جم رابرٹسن جیسے عیسائی مبلغ نے کہا ہے کہ'' ہم عیسائی ہوتے ہوئے بھی نزول مسیح کی تاخیر کا سبب بن رہے ہیں۔ کیونکہ مزید فلسطینی علاقے حاصل کرنے میں ہم اسرائیل کی مدد نہیں کررہے ہیں۔''
عیسائیوں اور یہودیوں کی اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کی فوجیں ختم کردی جائیں اور ان کا دفاع اقوام متحدہ کے حوالے کردیا جائے جہاں پہلے ہی سے یہودی موجود ہیں۔ اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ انتقاضہ کی موجودہ تحریک بھی فلسطین سے ختم کردی جائے جس نے یہودیوں کے دن کا چین اور رات کی نیند حرام کردی ہے۔ انہوں نے خوبصورت الفاظ کے ذریعے مسلم حکمرانوں سے اپنے تمام مطالبات منوالئے ہیں۔ حتیٰ کہ کالجوں اور اسکولوں کے نصاب میں بھی تبدیلی کروالی ہے تاکہ طلبہ بانجھ پیدا ہوسکیں۔ آج کے حالات کے بارے میں نبی اکرم e نے پہلے ہی فرمادیا ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم یہودیوں کے ساتھ جنگ نہ کرلو پھر مسلمان ان کو قتل کریںگے یہاں تک کہ ہر درخت اور ہر پتھر پکار کر کہے گا کہ اے مسلمان میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ہوا ہے۔ ادھر آ اور اس کو مارڈال۔'' (مسلم۔ ترمذی)۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ روم کے عیسائیوں کا لشکر دابق کے علاقے میں اترے گا اس کے بعد دجال نکلے گا جسے حضرت عیسی ؑ اپنی تلوار سے قتل کردیں گے'' (مسلم)۔ ایک اور موقع پر اللہ کے نبی e نے ارشاد فرمایا کہ : تم روم والے نصاریٰ سے لڑو گے تو اللہ تعالیٰ روم کو بھی فتح کر دے گا۔ پھر تم دجال سے لڑو گے تو اللہ تعالیٰ دجال کو بھی فتح کردے گا (مسلم)۔ آپ e نے فرمایا کہ دجال یہودی ہوگا۔ اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کفر لکھا ہوگا'' (مسلم)۔ معروف امریکی پادری بری فال ویل بھی کہتا ہے کہ ''اینٹی کرائسٹ یقینا ایک یہودی فرد ہی ہو گا۔ (گریس ہال سیل)۔ ایک اہم بات آپ نے یہ بھی فرمائی کہ قیامت سے پہلے کچھ فتنے ہوں گے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح۔ جس میں آدمی صبح کو مسلمان ہوگا تو شام میں کافر اور شام میں مومن ہوگا تو صبح میں کافر ۔ (مسلم)۔
یہ ہیں وہ حالات جن سے مسلمان گذر رہے ہیں او رانہیں ا ٓئندہ بھی گذرنا ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی انتہائی کوشش ہے کہ وہ دنیا سے مسلمانوں کو پاک کردیں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ انہوں نے مسلم دنیا کا چاروں طرف سے گھیرائو کیا ہوا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف آخری خونیں جنگ حضور e کے فرمان کے مطابق اسی مشرق وسطیٰ میں لڑی جائے گی جہاں صلیبی و یہودی فوجیں آج بھی کثرت سے موجود ہیں' عجیب سانحہ ہے کہ کبھی سارا مغرب یہودیوں کا جانی دشمن تھا۔ لیکن آج سارا مغرب مسلمانوں کا جانی دشمن ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دجال کے فتنے
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم! کی پیشنگوئی کے مطابق دجال کی آمد مسلمانوں کے لئے شدید ابتلاء کی ہوگی۔ اس شخص کے لئے جناب محمد رسول اللہ e نے ''کذب'' کی بجائے ''دجل'' کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی فریب دینے والا اور شعبدہ باز۔ وہ پانی کو آگ اور آگ کو پانی کر دکھا ئے گا۔ مثلاً
دجال ایک بدو کو لیکر آئے گا اور اس سے پوچھے گا کہ اگر میں تمہارے ماں باپ دونوں کو زندہ کردوں تو کیا تم مجھے خدا مان لوں گے؟ آدمی کہے گا۔ ''ہاں'' اس طرح شیطان اس کے ماں باپ کا روپ اختیار کرلیں گے۔ ( ہوسکتا ہے کہ یہ آج کے دور کے کلوننگ کی طرف اشارہ ہو جس میں مصنوعی گائے اور بھیڑ زندہ پیدا کئے جارہے ہیں)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وسیع و عریض فتنوں کے دور میں عبادت کرنا ایسا ہی ہے گویا ہجرت کرکے میری طرف آنا۔ (مسلم)۔ آزمائشوں کے اس زمانے میں لالچ اور ترغیبات کے باعث بے شمار لوگ گناہوں اور غیر اخلاقی کاموں کی طرف اس طرح لوٹیں گے جیسے شہد کی مکھیاں شہد کے گرد ٹوٹتی ہیں۔ دجال دنیا کے لوگوں کو گناہ ' بے حیائی اور ظلم کی طرف تیزی کے ساتھ دھکیل رہا ہوگا۔
ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ:
'' دجال شام اور عراق کے درمیانی علاقے سے برآمد ہوگا۔ اور دائیں بائیں ہر طرف اپنے فتنے پھیلائے گا۔'' (ابن ماجہ کتاب الفتن)۔ چنانچہ دجال کی آمد سے کافروں اور منافقوں کو اپنا ایک اہم رہنما میسر آجائے گا جس کا وہ پہلے ہی بے چینی سے انتظار کر رہے ہوں گے۔ اس کے بعد یہ دشمن بہت تیزی سے حضرت امام مہدی اور مجاہدین کے مضبوط مورچوں پر حملہ کردے گا۔ ان کا جھوٹا مسیحا دجال اپنے سارے ذرائع و وسائل کو امام مہدی کے خلاف جھونک دے گا۔ اس مقصد کے لئے وہ ان کے جھوٹے نام بھی رکھے گا۔ مثلاً ''دجال '' ''صیہون کے دشمن''۔ ''تہذیب کے باغی'' اور ''یاجوج ماجوج'' وغیرہ۔ دجال کے لشکر مسلمانوں کا اس حد تک گھیرائو کرلیں گے کہ انہیں پانی کا ایک قطرہ اور روٹی کا ایک نوالہ بھی حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اپنے ان اقدامات سے یہ مسلمان دشمن قوتیں دجال کی قیادت میں نہ صرف یہ کہ شام پر قبضہ کرلیں گی بلکہ مدینے اور مکے کے قریب تک پہنچ جائیں گی۔ تاہم مکہ اور مدینہ دجال کی پہنچ سے باہر رہیں گے جن کی حفاظت کے لئے اللہ تعالی ان شہروں میں فرشتوں کو مقرر کرے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وہ وجہ جس کے باعث لوگ اتنے بڑے پیمانے پر دجال کے ساتھ شامل ہوں گے یہ ہے کہ اس کا اقتدار بے انتہاء وسیع ہوگا۔ اس کی ذات تمام دنیا کے وسائل، دولت اور اختیارات کا سرچشمہ ہو گی۔ چاول ' غلہ ' پانی اور گھریلو جانور سب کچھ اس کے قبضہ میں ہوں گے۔ اس کے علاوہ چونکہ وہ کافروں کا سردار ہوگا اس لئے ہراس مسلم ملک یا فرد کو سزا دے سکے گا جو اس کی اطاعت کرنے سے انکار کرے گا۔
اس موقع کے لئے نبی مکرم e نے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ ہر وہ شخص جسے دجال کے بارے میں سننے کو ملے۔اس سے دور چلا جائے۔ '' میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ آدمی یہ سمجھ کر دجال کے قریب آئے گا کہ وہ مسلمان ہے لیکن وہ اس کے الجھے ہوئے خیالات کی وجہ سے اس کی اطاعت کرنے لگے گا''۔ (ابوداؤد۔ کتاب الملاحم)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دجل اور فریب اتنا خوفناک ہو گا کہ مسلمان اسے اپنا ہم مذہب سمجھیں گے اور اس پر ایمان لا کر اپنے ایمان سے ہاتھ دھو لیں گے۔
دجال اپنی پُر ہیبت اور وسیع و عریض افواج کے مقابلے میں جب امام مہدی کی مختصر افواج کودیکھ کر اسلام کے عظیم مراکز کو تباہ کرنے کی خاطر مکے اور مدینے کی طرف افواج کو لیکر روانہ ہوگا تو اس کی تمنا ہوگی اسلام کی بنیادوں والے ان شہروں کو ہمیشہ کے لئے ڈھادیا جائے۔ توحید کے خلاف جو کینہ اس کے دلوں میں بیٹھا ہوگا۔ اس کی وجہ سے وہ اپنے ناکام منصوبے ترتیب دیگا۔ اس وقت امام مہدی دمشق (شام) میں ٹہرے ہوئے ہوں گے۔
دجال اپنی بہترین مسلح، ترقی یافتہ اور خونخوار افواج کے ساتھ مکے اور مدینے پر پہاڑوں کی جانب سے حملہ کرے گا۔ وہ اور اس کی افواج احد پہاڑ کے نزدیک مجتمع ہوں گی۔ وہاں سے مسجد نبویؐ رات کے وقت ایک خوبصورت سفید محل کی شکل میں نظر آتی ہے۔ احد پہاڑ سے دجال اپنے کمانڈروں کو مسجد نبوی پر حملے کے احکامات جاری کرے گا۔ صدیوں پرانی صلیبی جنگ کے دور سے لیکر آج اس وقت تک تمام اسلام دشمنوں کا ہدف یہی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے یکسر مٹادیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دجال مسلمانوں کے دونوں اہم اور مقدس مقامات پر حملے کی کوشش کرے گا۔
لیکن اللہ تعالیٰ ان دونوں شہروں کی حدود تک فرشتوں کو محافظ مقرر کردے گا تاکہ وہ جھوٹا کانا دجال ان دونوں شہروں کے اندر داخل نہ ہوسکے۔ حالانکہ وہ مدینے میں تین دفعہ داخل ہونے کی کوشش کرچکا ہوگا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک حدیث میں آتا ہے کہ کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں دجال داخل نہ ہوسکے سوائے مکے اور مدینے کے۔ اور ان دونوں شہروں کی طرف جانے والا کوئی راستہ ایسا نہیں ہوگا۔ جس پر فرشتے قطاروں میں نگہبانی کے لئے نہ کھڑے ہوں۔ اس کے بعد مدینے کے باشندے تین بار ہلاد یئے جائیں گے۔ (یعنی وہاں تین باز زلزلہ آئے گا) جس کے باعث اس سرزمین سے منافقین اور کفار نکال باہر کیئے جائیں گے۔ (بخاری)۔ اس حدیث کے مطابق گویا دجال کے زمانے میں مدینے کے اندر بھی منافقین کی بہت کثرت ہو جائے گی۔
دجال اپنے ہی ماننے والوں کے سامنے اپنے مصنوعی خول کو اترتا دیکھے گا جس سے اسے سخت دھچکا پہنچے گا۔ وہ شخص جسے دجال نے دو ٹکڑوں میں کاٹا اور دوبارہ زندہ کیا ہوگا۔ وہی زندہ ہوکر اسے دجال اور Anti Christ کہہ کر پکارے گا۔ پھر مومنین بھی اسے دجال تسلیم کرلیں گے۔ اس کے بعد وہ پھر متقیوں کو کو ئی نقصان نہ پہچاسکے گا۔ ابھی وہ اپنی بدنامی کو سنبھال بھی نہ سکے گا کہ اسے یہ خبر سن کر مزید ذہنی صدمہ پہنچے گا۔ کہ جناب عیسیٰ u آسمان سے تشریف لے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ساری دنیا کو وہ خود اپنے بارے میں بتاتا پھرتا تھا کہ مسیح علیہ السلام وہ خود ہے۔
اپنا دفاع کرنے کیلئے آخر کار وہ ایک بار پھر جعلی چالبازیوں اور جھوٹ کا سہارا لے گا۔ تاہم اب سب کچھ بیکار ثابت ہوگا۔ وہ جناب عیسیٰ u کے بارے میں یہ چرچا کرے گا کہ دمشق میں (نعوذ بااللہ) دجال اترا ہے ( جبکہ اس سے پہلے وہ امام مہدی کو بھی دجال کہہ کر پکارتا رہا ہو گا)۔ البتہ اپنے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود وہ دل ہی دل میں یقین کرچکا ہوگا کہ عالمی شہنشاہ بننے کا اس کا جھوٹا خواب اور تمام عیارانہ چالیں اب ختم ہورہی ہیں۔ چنانچہ اب وہ اپنے فرار کے راستے سوچ رہا ہوگا۔ وہ کہاں جائے اور کدھر سے جائے؟ وہ یہ بھی سوچ رہا ہوگا کہ لوگوں کے سامنے اپنے فرار کا وہ کیا جواز بنائے؟ اس وقت تک اسے خوب اندازہ ہوچکا ہوگا کہ اس کی موت کے علاوہ اب کوئی چارہ کار باقی نہیں ہے۔ اندر اندر وہ پگھل رہا ہو گا لیکن بظاہر بڑا پر اعتماد نظر آئے گا۔ اپنی بے عزتی محسوس کرکے دجال ایک پھر شام کی طرف لوٹے گا۔ تاکہ امام مہدی کا راستہ روکے۔ دجال کا حملہ بظاہر کامیاب ہوگا۔ لیکن وہ زمین پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ جو جنگ اسے بظاہر فتح کے ساتھ محسوس ہورہی تھی وہی بالآخر اس کی تباہی کا کا مقدّر بنے گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
خلاصہ: ٭ دجال کی آمد تک مسلمانوں پر عرصہ حیات بہت تنگ ہوچکا ہوگا۔
٭ امام مہدی کی فتح کے باعث تمام کفر دجال کی قیادت میں متحد ہوجائے گا۔
٭ مسلمانوں پر دبائو اور زیادہ بڑھادیا جائے گا۔ خصوصاً خوراک اور پانی کے معاملے میں۔
٭ ایک آنکھ سے کانا دجال جس کی پیشانی پر حروف ''ک ف ر'' لکھے ہوں گے۔ تمام کافرانہ نظام کی قیادت سنبھالے گاتاکہ توحید کو اکھاڑ پھینکے اور شیطان کا نظام مسلط کردے۔
٭ دجال بہت سارے ممالک کو فتح کرے گاجن میں مسلم ممالک بھی شامل ہوں گے۔
٭ وہ مکے اور مدینے پر بھی قبضہ کرنا چاہے گا۔ لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
٭ دجال کی دہشت اور بربریت کے عین عروج کے زمانے میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ u کو دنیا میں بھیجیں گے۔ وہ دمشق میں اتریں گے جہاں ان کے نام پر ''مسجد عیسیٰ u'' آج بھی موجود ہے۔
٭ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دجال کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور زمین کے چپے چپے پر اسلام داخل ہوجائے گا۔
٭ دجال کے جبر و دہشت کے دور میں مسلمان بدترین مایوسی کا شکار ہوجائیں گے۔ یہاں تک کہ انہیں امام مہدی کی آمد کا بھی اعتبار نہیں ہوگا۔ اس کی دہشت و بربریت کا حال یہ ہوگا کہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دور میں آدمی صبح کو مسلمان ہوگا اور شام میں کافر ہوجائے گا۔ شام میں مسلمان ہوگا اور صبح کو کافر ہوجائے گا۔ (ابوداؤد)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام : حکمتیں
حدیث میں وارد متعدد روایات کے باعث مسلمانوں کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ قیامت سے پہلے دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول ہو گا ۔ یہ نزول دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر فجر کی نماز کے وقت ہو گا (مسلم کتاب الفتن) جبکہ اقامت کہی جا چکی ہو گی۔ آپ علیہ السلام آسمان سے دو فرشتوں کے بازوئوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتر رہے ہوں گے جبکہ آپ کے کپڑے زعفرانی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں گے۔ (مسلم کتاب الفتن)۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول ثانی پر ہم مسلمانوں کی طرح عیسائیوں کا بھی کامل اعتقاد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ ان کا نزول یروشلم میں قرار دیتے ہیں جہاں بیت اللحم میں ان کی پیدائش ہوئی تھی، اگرچہ عیسائی قوم غلط طور پر ان کے مصلوب کئے جانے کا عقیدہ رکھتی ہے لیکن ان کے عقائد میں بہرحال یہ بات بھی شامل ہے کہ تدفین کے بعد اللہ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ اٹھائے جانے کے اس دن کو وہ ''گڈ فرائیڈے'' کہتے ہیں، اس موقع پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر دوبارہ نزول کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کو کیوں منتخب فرمایا؟ اس کے لئے اللہ کی نظر انتخاب آخر حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام یا خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں نہ پڑی؟ یہ ایک دلچسپ ایمانی سوال ہے جس پر ہمیں لازماً غور کرنا چاہئے۔
یوں تو اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کا مالک ہے، جس کے ذریعے جو چاہے کام لے لے۔ لیکن بہرحال نزول ثانی کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی بعض حکمتوں سے پُر ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے دور اول میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیاتھا۔ انہیں طبعی موت نہیں آئی تھی لہٰذا اللہ تعالیٰ انہیں طبعی موت دینے کے لئے دوبارہ دنیا میں اتارے گا۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی قوم کی طرف نازل کئے گئے تھے۔ ان کی جدوجہد اور تبلیغ مسلسل کے نتیجے میں بنی اسرائیل کی ایک بڑی آبادی ان کی مخالف ہو گئی تھی۔ یہ لوگ بعد ازاں یہودی کہلائے جانے لگے۔ دوسری طرف اسی بنی اسرائیل کا ایک چھوٹا طبقہ ان کی تعلیمات پر ایمان لے آیا اور انہیں اپنا نبی تسلیم کر لیا۔ یہ لوگ بعد میں عیسائی کہلائے جانے لگے۔ یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نعوذ باللہ نبوت کا جھوٹادعویٰ کر رہے ہیں اور یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت دائود علیہ السلام کے بعد اب ہمیں کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے سازشیں کر کے انہیں پھانسی چڑھا دینے کی کوشش کی۔ دوسری طرف شکل سے مشابہت کے باعث عیسائی بھی اپنے پیغمبر کے بارے میں دھوکا کھا گئے اور انہوں نے بھی فی الاصل سمجھ لیا کہ ان کے پیغمبر نعوذ باللہ مصلوب ہو گئے ہیں۔
لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول ان دونوں گمراہ قوموں کے عقائد کی تردید کے لئے بھی کیا جائے گا۔ یہودیوں کو اس سے یہ بتانا مقصود ہو گا کہ تم نے جنہیں پھانسی پر چڑھانے کی کوشش کی تھی وہ مصلوب نہیں ہوئے تھے بلکہ آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے، اور جن سے تم اس وقت جان چھڑانا چاہتے تھے، وہ آج ایک بار پھر تمہارے درمیان موجود ہیں۔ تاہم یہودی اپنی خسیس اور کج بحثی کی صفت کی بناء پر دوبارہ ان کی مخالفت کریں گے اور انہیں نعوذ باللہ قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہودی کل بھی اینٹی کرائسٹ تھے اور وہ آج بھی اینٹی کرائسٹ ہیں! یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانی دشمن!
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول ثانی کے ذریعے عیسائیوں کو یہ یقین دلانا مقصود ہو گا کہ مصلوب ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر نہیں اٹھائے گئے تھے بلکہ وہ پھانسی سے محض چند لمحے قبل براہ راست آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے۔ نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے درمیان موجود رہ کر اپنی ہی زبان سے اس کے تمام گمراہ کن عقائد کی تردید کریں گے۔ وہ اسے بتائیں گے کہ (احادیث کے مطابق) میں عیسیٰ ابن اللہ نہیں بلکہ عیسیٰ ابن مریم ہوں۔ وہ صلیب توڑ کر بتائیں گے کہ میرے مصلوب ہونے کا تصور ہی غلط ہے۔ وہ سؤر کے ذبیحہ کو حرام قرار دیں گے اور دین اسلام کو اپنا پسندیدہ دین قرار دیں گے۔ (ابو دائود۔ کتاب الملاحم)۔ وہ یہودیوں کو بتائیںگے کہ میں بن باپ کے معجزئہ الٰہی سے پیدا ہوا تھا اور میری والدہ طاہرہ اور طیب ہیں۔
آپ ؑ کی ان تصریحات کے جواب میں یہودی قوم کے برعکس عیسائی اقوام جناب عیسیٰ u کے ارشاد کو دل و جان سے قبول کریں گی اور مسلمان ہو جائیں گی۔ اسی لئے قرآن پاک میں حیرت انگیز طور پر ہمیں بتایا گیا ہے کہ ''اللہ سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقینا انہیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں''۔ (المائدہ۔ ۸۲)
آسمان پر اٹھائے جانے کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر صرف 33 یا 35 سال کی تھی (ظالموں نے انہیں بالکل نوجوانی ہی میں تختہ مشق بنانے کی کوشش کی تھی)۔ حدیث کے مطابق دنیا میں اپنی دوبارہ آمد کے بعد جناب عیسیٰ u مزید 40 برس جئیں گے (ابو دائود۔ الملاحم) جس دوران وہ خانہ کعبہ کا طواف اور حج کریں گے (اپنے ابتدائی دور میں وہ جس سے محروم رہے تھے) اس کے بعد ان کا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے (ابو دائود۔ الملاحم)
جناب عیسیٰ علیہ السلام کے نزول ثانی میں یہی ساری حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
 
Top