• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملا منصور پر ڈرون حملہ

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہ رہا ہوں. شروع میں اگر کچھ لکھنا ہی چاہتے ہیں تو بسم اللہ یا سلام لکھ دیا کریں.

ہونی بھی نہیں چاہیۓ. باطل کا ساتھ دینے پر کچھ نہ کچھ تو ہونا ہی چاہیۓ.

قرآن وحدیث یا اسلام کی باتیں پیش کرنا ذاتیات پر حملے کرنا ہے؟؟؟
ذرا بتائیں اسمیں کس طرح کا ذاتی حملہ ہے؟؟؟

کیا یہ حقیقت نہیں؟؟؟ اگر یہ غلط ہے تو رد کریں اسے ذاتیات کا نام دیکر پلو نہ جھاڑیں.

شکر ہے. ہم ظاہر کے مکلف ہیں. باطن کا اللہ مالک ہے. وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے.

جب جب آپ نے لکھا ہے یقین جانۓ بے حد دکھ ہوا ہے.

مسلمان موجود ہیں اس بات کا منکر کون ہے؟؟؟
سوال یہ ہے کہ آخر اس طرح آپکو امریکہ کا دفاع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئ؟؟؟
کوئ دلیل کوئ شرعی بات؟؟؟

اس کی ضرورت کیوں پیش آ گئ جناب من!؟؟؟
اسلام کی حقیقت یہودیوں اور عیسائیوں کے پیش کرنا چاہیۓ. اسلام کا دفاع کرنا چاہیۓ. اسلام کی حقانیت لوگوں کے سامنے پیش کرنی چاہیۓ. لیکن یہ آپ کیا امریکہ کا دفاع کرنے بیٹھ گۓ؟؟؟
اسلام پر چو طرفہ حملے ہو رہے ہیں. لوگ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں. کیا آپ اپنا وقت اسلام کی خدمت میں نہیں لگا سکتے؟؟؟؟
کیا آپ سے کل قیامت کے دن سوال نہیں کیا جاۓ گا؟؟؟ ذرا اس حدیث پر دھیان دیجۓ. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟؟؟
جامع الترمذي: أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (أَبْوَابُ صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ)
جامع ترمذی: كتاب: احوال قیامت ،رقت قلب اورورع کے بیان میں (باب: رسول اللہ ﷺ سے قیامت کے احوال اور دلوں کو نرم کرنے والی چیزوں اور ورع کے بیان میں)
2416 . حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ أَبُو مِحْصَنٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ الرَّحَبِيُّ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ وَحُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ
حکم : صحیح
2416 . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:' آدمی کاپاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا ، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پرکہاں تک عمل کیا ' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اسے ہم ' عن ابن مسعود عن النبی ﷺ' کی سند سے صرف حسین بن قیس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اورحسین بن قیس اپنے حفظ کے قبیل سے ضعیف ہیں، ۳- اس باب میں ابوبرزہ اور ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

اگر عقل وشعور ہے تو غور کریں کہ آپ اپنی زندگی کس چیز میں لگا رہے ہیں. اپنی عمر کس چیز میں صرف کر رہے ہیں.
والسلام
جواب کا منتظر ہوں @فواد صاحب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جواب کا منتظر ہوں @فواد صاحب
میرے بھائی! فواد صاحب کو ان چیزوں کی پروا ہوتی تو یہ کام کر ہی کیوں رہے ہوتے۔
ان سے ان کی زبان میں بات کیجیے۔ اسلام کو ایک جانب رکھ کر انہیں صرف آئینہ دکھائیے۔ شاید کہ یہ راہ پر آ جائیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
میرے بھائی! فواد صاحب کو ان چیزوں کی پروا ہوتی تو یہ کام کر ہی کیوں رہے ہوتے۔
ان سے ان کی زبان میں بات کیجیے۔ اسلام کو ایک جانب رکھ کر انہیں صرف آئینہ دکھائیے۔ شاید کہ یہ راہ پر آ جائیں۔
میرے خیال سے اسلام کی روشنی میں بات کریں تو شاید ہدایت ملے گی
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
مزید آپ بھارت کو نیوکلئیر سپلائی گروپ میں شامل کر کے ہماری مدد کر رہے ہیں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​


کسی بھی دو ممالک کے مابين تعلقات کا دارومدار باہمی مفادات، دو طرفہ امور پر ہونے والے مذاکرات، معاہدوں، اور دونوں ممالک کے عوام کی بہتری اور فلاح کے ليے مواقعوں کی جستجو پر مبنی ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ اور بھارت کے مابين سول نيوکلير معاہدے يا کسی بھی قسم کے معاہدے کا امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات کی نوعيت پر کوئ اثر نہيں پڑے گا۔

دو ممالک کے مابين تعلقات ہميشہ ادلے اور بدلے کی بنياد پر نہيں ہوتے۔ مثال کے طور پر فرانس اور پاکستان کے مابين سول نيوکلير معاہدے کے حوالے سے بات چيت کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ فرانس بھارت کے ساتھ بھی اسی قسم کا معاہدہ کرے۔

http://tribune.com.pk/story/960511/strategic-requirement-expert-for-civil-nuclear-agreement-between-france-pakistan/

اسی طرح جب امريکہ نے پاکستان کے ليے 5۔1 بلين ڈالرز کی امداد کا پيکج منظور کيا تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ بھارت کو بھی اسی طرح کا پيکج فراہم کيا جاۓ۔ يہ حالات و واقعات، ضروريات اور حکومت پاکستان کی درخواست پر فوری ملکی مسائل کے عين مطابق ہے۔

امريکہ اور بھارت کے مابين سول نيوکلير معاہدہ دونوں ممالک کے مندوبين کی جانب سے کئ ماہ کے مذاکرات، ملاقاتوں اور دو طرفہ امور پر بات چيت اور طے پانے والے امور کا نتيجہ ہے۔

بھارت اور پاکستان دو مختلف ممالک ہيں جن کی ضروريات اور تاريخ بالکل مختلف ہے۔ پاکستان کے ساتھ امريکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں تعاون کے علاوہ مضبوط اور پائيدار تعلقات کا خواہ ہے۔ جہاں تک سول نيوکلير ڈيل کا سوال ہے تو اس کے ليے ضروری ہے کہ کوشش اور عزم کا اظہار دونوں جانب سے کيا جاۓ۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں فواد صاحب کہ دو ہزار ایک سے پہلے پاکستان میں اس قسم کا کوئی "انگنت پاکستانی فوجیوں اور شہریوں" کا نشانہ نہیں تھا۔ آپ کے قدم مبارک اس سرزمین پر کیا پڑے کہ یہاں یہ سب شروع ہو گیا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کا نقطہ نظر اس سوچ اور يقين پر مبنی ہے کہ دہشت گردی کی وبا اور پاکستانی معاشرے پر اس کے اثرات افغانستان ميں امريکہ اور نيٹو افواج کی کاروائ کے نتیجے ميں رونما ہو رہے ہيں۔

يہ يقينی طور پر ايک جانا مانا نقطہ نظر ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز پر خاص طور پر کچھ سابقہ فوجی افسران اور بيروکريٹ بھی اسی راۓ کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

ليکن واقعات کا تسلسل اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کو نظرانداز کرنے سے متعلق مجرمانہ غفلت جس کے نتيجے میں 911 کا واقعہ پيش آيا سرکاری اور تاريخی دستاويزات کی صورت ميں ريکارڈ پر موجود ہيں۔

امريکی حکومت کو افغانستان ميں طالبان کی حکومت، پاکستان کی جانب سے ان کی حمايت اور دہشت گردوں کو محفوظ مقامات فراہم کرنے کے ضمن ميں ان کی پاليسی سے متعلق شدید خدشات تھے۔

طالبان حکومت کے ضمن ميں امريکی حکومت کے تحفظات کا محور ان کے مذہبی اور سياسی عقائد نہیں بلکہ ان کی جانب سے دہشت گردی کی براہراست حمايت اور بنيادی انسانی حقوق کی فراہمی کے ضمن ميں ان کی واضح ناکامی تھی۔

ميں نے کئ فورمز پرکچھ دستاويزات کے لنکس ديے ہيں جن سے يہ واضح ہے کہ امريکی حکام کی طرف سے پاکستانی حکام کو طالبان کی جانب سے مسلح دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کے نتيجے ميں اس خطے ميں بالخصوص اور دنيا بھر ميں بالعموم دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے مسلسل آگاہ کيا گيا تھا۔ قریب 30 سے زائد رپورٹوں ميں جس امر پر سب سے زيادہ زور ديا گيا اس کی بنياد حکومت پاکستان اور طالبان حکومت کے مابين تعلقات کی نوعيت نہيں بلکہ دہشت گردی کے ضمن میں ممکنہ خطرات اور خدشات تھے۔

http://nsarchive.gwu.edu/NSAEBB/NSAEBB227/

يہ تمام دستاويزات سال 2001 کے واقعات سے قبل امريکہ اور پاکستان کی حکومتوں کے مابين دہشت گردی کے حوالے سے تبادلہ خيال کی نوعيت کو واضح کرتے ہیں۔

آپ اس دستاويزی ثبوت کا جائزہ ليں اور پھر يہ فيصلہ کريں کہ کيا امريکی حکومت کو پاکستان ميں موجودہ تشدد کا ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے جبکہ مختلف امريکی افسران کی جانب سے پاکستان ميں حکومتوں کو آنے والے برسوں ميں دہشت گردی کے ممکنہ خطروں کے ضمن میں مسلسل خبردار کيا جا رہا تھا؟​

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
میں مانتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی مثالی امن بھی نہیں تھا کہ اس قسم کا کوئی واقعہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس قدر کثرت بھی نہیں تھی جتنی آپ کے آنے کے بعد ہوئی۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر کوئ آپ کے مکان ميں کراۓ دار کی حيثيت سے رہائش پذير ہو لیکن آپ کے گھر کے احاطے کو مختلف شہروں ميں تخريب کاری کی غرض سے اسلحہ و بارود کی تياری اور دہشت گردی کی تربيت کا اڈہ بنا دے ليکن آپ کو يہ يقين دلاۓ کہ آپ کا گھر، پڑوس اور شہر اس کی تخريبی کاروائيوں سے محفوظ رہيں گے تو آپ کو ايسے کراۓ دار کے خلاف کيا کرنا چاہيے؟ کيا آپ کے ليے يہ يقين دہانی اور حقيقت اطمينان بخش ہونی چاہيے کہ جو بھی تخريب کاری ہو گي وہ دور دراز شہروں ميں ہو گی، کم از کم آپ کا گھر اور پڑوس تو "امن" کی چھاؤں ميں رہے گا۔

يہ محض اتفاق نہيں ہے کہ آپ نے پاکستان ميں امن کے جس دور کا ذکر کيا ہے اسی دور ميں طالبان کے زير نگرانی اسامہ بن لادن کے تربيتی کيمپ اپنے جوبن پر تھے۔ کيا آپ کے خيال ميں ان انتہا پسندوں اور دہشت گردی کے خلاف کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہيے تھی کيونکہ افغانستان اور پاکستان ان کے حدف نہيں تھے اور ان کے خلاف کاروائ سے ان علاقوں کا امن تباہ ہو جانے کا خطرہ تھا؟

جيسا کہ ميں نے اسی فورم پر پہلے کہا تھا کہ سانپ کو کتنا بھی دودھ پلائيں، ڈسنا اس کی فطرت ہے۔ آپ جب بھی اس کی مرضی کے خلاف جائيں گے وہ آپ کے سارے احسان بھلا کر آپ ہی پر حملہ آور ہو گا۔

پاکستان ميں پچھلے چند سالوں ميں خود کش حملوں کی لہر ميں بغير کسی تفريق کے بے گناہ شہريوں کا قتل اس کا واضح ثبوت ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کسی بھی دو ممالک کے مابين تعلقات کا دارومدار باہمی مفادات، دو طرفہ امور پر ہونے والے مذاکرات، معاہدوں، اور دونوں ممالک کے عوام کی بہتری اور فلاح کے ليے مواقعوں کی جستجو پر مبنی ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ اور بھارت کے مابين سول نيوکلير معاہدے يا کسی بھی قسم کے معاہدے کا امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات کی نوعيت پر کوئ اثر نہيں پڑے گا۔
آپ کا کوئی دشمن ہو اور کوئی شخص اسے پستول دے تاکہ وہ اسے آپ کے خلاف استعمال کر سکے اور آپ کو ایک کلو مٹھائی کا ڈبا دے تو مجھے امید ہے کہ آپ اسے اپنا خیر خواہ نہیں سمجھیں گے۔
جب پاکستان کی بات آئے تو ایف سکسٹین طیارے دینے سے انکار اور جب بھارت کی بات آئے تو نیو کلئیر سپلائیر گروپ میں شامل کرنا۔ ما شاء اللہ

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کا نقطہ نظر اس سوچ اور يقين پر مبنی ہے کہ دہشت گردی کی وبا اور پاکستانی معاشرے پر اس کے اثرات افغانستان ميں امريکہ اور نيٹو افواج کی کاروائ کے نتیجے ميں رونما ہو رہے ہيں۔

يہ يقينی طور پر ايک جانا مانا نقطہ نظر ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز پر خاص طور پر کچھ سابقہ فوجی افسران اور بيروکريٹ بھی اسی راۓ کا اظہار کرتے رہتے ہيں۔

ليکن واقعات کا تسلسل اور دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کو نظرانداز کرنے سے متعلق مجرمانہ غفلت جس کے نتيجے میں 911 کا واقعہ پيش آيا سرکاری اور تاريخی دستاويزات کی صورت ميں ريکارڈ پر موجود ہيں۔

امريکی حکومت کو افغانستان ميں طالبان کی حکومت، پاکستان کی جانب سے ان کی حمايت اور دہشت گردوں کو محفوظ مقامات فراہم کرنے کے ضمن ميں ان کی پاليسی سے متعلق شدید خدشات تھے۔

طالبان حکومت کے ضمن ميں امريکی حکومت کے تحفظات کا محور ان کے مذہبی اور سياسی عقائد نہیں بلکہ ان کی جانب سے دہشت گردی کی براہراست حمايت اور بنيادی انسانی حقوق کی فراہمی کے ضمن ميں ان کی واضح ناکامی تھی۔

ميں نے کئ فورمز پرکچھ دستاويزات کے لنکس ديے ہيں جن سے يہ واضح ہے کہ امريکی حکام کی طرف سے پاکستانی حکام کو طالبان کی جانب سے مسلح دہشت گرد گروپوں کی پشت پناہی کے نتيجے ميں اس خطے ميں بالخصوص اور دنيا بھر ميں بالعموم دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے مسلسل آگاہ کيا گيا تھا۔ قریب 30 سے زائد رپورٹوں ميں جس امر پر سب سے زيادہ زور ديا گيا اس کی بنياد حکومت پاکستان اور طالبان حکومت کے مابين تعلقات کی نوعيت نہيں بلکہ دہشت گردی کے ضمن میں ممکنہ خطرات اور خدشات تھے۔
http://nsarchive.gwu.edu/NSAEBB/NSAEBB227/

يہ تمام دستاويزات سال 2001 کے واقعات سے قبل امريکہ اور پاکستان کی حکومتوں کے مابين دہشت گردی کے حوالے سے تبادلہ خيال کی نوعيت کو واضح کرتے ہیں۔

آپ اس دستاويزی ثبوت کا جائزہ ليں اور پھر يہ فيصلہ کريں کہ کيا امريکی حکومت کو پاکستان ميں موجودہ تشدد کا ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے جبکہ مختلف امريکی افسران کی جانب سے پاکستان ميں حکومتوں کو آنے والے برسوں ميں دہشت گردی کے ممکنہ خطروں کے ضمن میں مسلسل خبردار کيا جا رہا تھا؟

یقینا نہ صرف میں بلکہ ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے حالات آپ کے یہاں آنے اور ہمارے آپ کی مدد کرنے سے بگڑے ہیں۔
جو دستاویزات آپ نے پیش فرمائیں ان سے صرف یہ ثابت ہو رہا ہے کہ آپ لوگوں نے کہا تھا کہ آئیندہ چل کر پاکستان میں بھی دہشت گردی ہوگی۔ لیکن معذرت کے ساتھ! جب آپ لوگوں نے دیکھا کہ یہ دہشت گردی نہیں ہو رہی تو آپ نے آ کر کروا دی۔
آئیندہ کو ہم آئیندہ دیکھتے اگر آپ لوگ نہ آتے تو۔ آپ لوگوں کی مدد کی وجہ سے ہم اس مصیبت میں پڑ گئے۔

اگر کوئ آپ کے مکان ميں کراۓ دار کی حيثيت سے رہائش پذير ہو لیکن آپ کے گھر کے احاطے کو مختلف شہروں ميں تخريب کاری کی غرض سے اسلحہ و بارود کی تياری اور دہشت گردی کی تربيت کا اڈہ بنا دے ليکن آپ کو يہ يقين دلاۓ کہ آپ کا گھر، پڑوس اور شہر اس کی تخريبی کاروائيوں سے محفوظ رہيں گے تو آپ کو ايسے کراۓ دار کے خلاف کيا کرنا چاہيے؟ کيا آپ کے ليے يہ يقين دہانی اور حقيقت اطمينان بخش ہونی چاہيے کہ جو بھی تخريب کاری ہو گي وہ دور دراز شہروں ميں ہو گی، کم از کم آپ کا گھر اور پڑوس تو "امن" کی چھاؤں ميں رہے گا۔
يہ محض اتفاق نہيں ہے کہ آپ نے پاکستان ميں امن کے جس دور کا ذکر کيا ہے اسی دور ميں طالبان کے زير نگرانی اسامہ بن لادن کے تربيتی کيمپ اپنے جوبن پر تھے۔ کيا آپ کے خيال ميں ان انتہا پسندوں اور دہشت گردی کے خلاف کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہيے تھی کيونکہ افغانستان اور پاکستان ان کے حدف نہيں تھے اور ان کے خلاف کاروائ سے ان علاقوں کا امن تباہ ہو جانے کا خطرہ تھا؟
@فواد صاحب یہ ہمارا اندرونی معاملہ تھا۔ ہم جانتے اور ہمارا معاملہ۔ ہم انہیں وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح اکھاڑتے کہ اس کا نقصان ہمیں نہ بھگتنا پڑتا۔ لیکن ہوا یہ کہ آپ لوگ وقت سے پہلے آ گئے۔ جب آپ لوگ آئے تو نہ ہم اس وقت تک مذہبی لوگوں کا ذہن بنا سکے تھے اور نہ ہی ہماری انٹیلی جنس مکمل ہوئی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جانب پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گیا اور دوسری جانب جامعہ حفصہ جیسے واقعات پیش آ گئے۔ پھر جب بات چلی تو یہاں تک گئی کہ پورے ملک میں تباہی مچ گئی۔
ہم اپنے انٹرنل مسئلے کو خود حل کرتے اس کے وقت پر تیاری کے حساب سے۔ آپ کیوں خدائی فوجدار بنے؟
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
@فواد صاحب یہ ہمارا اندرونی معاملہ تھا۔ ہم جانتے اور ہمارا معاملہ۔
ہم اپنے انٹرنل مسئلے کو خود حل کرتے اس کے وقت پر تیاری کے حساب سے۔ آپ کیوں خدائی فوجدار بنے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
کيا نو گيارہ کے حملوں سے پہلے امريکی يا نيٹو افواج اس خطے ميں تھيں؟
امريکی شہری افغانستان کے ہمساۓ ميں نہيں رہ رہے ہيں۔ ليکن اس کے باوجود اسی سرزمين پر متحرک دہشت گرد تنظيم نے امريکی شہريوں کے خلاف تاريخ کے سب سے ہولناک، خونی اور پيچيدہ حملے کا منصوبہ بنا کر اسے کاميابی کے ساتھ پايہ تکميل تک پہنچايا۔ اور اس سے بھی پہلے کينيا اور تنزانيا ميں امريکی سفارت خانوں پر حملے کيے گۓ جن کے نتيجے ميں سينکڑوں ہلاک وزخمی ہوۓ۔ يہ حملے بھی افغانستان ميں موجود دہشت گردی کی محفوظ پناہگاہوں ميں تيار کيے گۓ منصوبوں کا شاخسانہ تھے۔

جغرافيائ حوالے سے برطانيہ کے عوام تو افغانستان ميں دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہوں اور پاکستان کے سرحدی علاقوں سے کوسوں دور ہيں ليکن اس کے باوجود سال 2005 ميں لندن ميں زير زمين ٹرين کو نشانہ بنايا گيا جس کے نتيجے ميں درجنوں بے گناہ شہريوں کی جانيں گئيں۔ اسی منطق کے اعتبار سے ديکھيں تو آسٹريليا ميں رہنے والے لوگوں کو تو دہشت گردی کے خلاف جاری کسی بھی مشترکہ کاوش ميں حقيقی فريق نہيں سمجھا جانا چاہيے کيونکہ وہ تو اس "امن سے عاری" خطے سے کوسوں دور ہيں۔ ليکن سال 2002 ميں بالی کے مقام پر ہونے والا دھماکہ جس ميں 88 آسٹريلوی باشندوں سميت 202 بے گناہ شہريوں کی جانيں گئيں اس سوچ کو غلط ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ اس حقيقت کو اجاگر کرتا ہے کہ دہشت گردی ايک عالمی معاملہ اور جغرافيائ محل و وقوع سے قطعی نظر مہذب معاشروں کے ليے ايک مشترکہ خطرہ ہے۔

امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک نا تو دہشت گردی کے معاملے سے لاتعلق رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس ضمن ميں لاپروائ کا متحمل ہو سکتا ہے۔ القائدہ، ٹی ٹی پی اور ديگر دہشت گرد گروہ خود اپنے الفاظ کے مطابق ايک ايسی فکری سوچ پر مبنی جنگ کا آغاز کر چکے ہيں جو بدقسمتی سے نا تو کسی سرحد کو جانتی ہے اور نا ہی کسی اختلاف کرنے والے عنصر کو محفوظ راستہ دينے پر يقين رکھتی ہے۔ القائدہ نے متعدد بار عالمی سطح پر حملے کرنے کی اپنی خواہش کو واضح کيا ہے۔ ايسے کوئ شواہد يا اشارے موجود نہيں ہيں جس سے يہ شائبہ ہو کہ ان کے عزائم کسی مخصوص مذہب يا ملک تک محدود ہيں۔ ان کے تشہيری مواد اور بيانات کی مختلف زبانوں ميں دستيابی اور ميڈيا سے روابط کے علاوہ مختلف زبانوں، ثقافتوں اور ممالک تک رسائ اس بات کی غمازی کرنے کے ليے کافی ہے کہ ان کے مقاصد اور اہداف عالمی نوعيت کے ہيں۔

اس بات کی ايک منطقی، قابل قبول اور عقل پر مبنی توجيہہ موجود ہے کہ عالمی برادری نے کيونکر مشترکہ طور پر افغانستان ميں ان قوتوں کے خلاف فوجی کاروائ کا آغاز کيا جو نا تو سرحدوں کی حرمت کو مانتے ہيں، نا ہی متنوع ثقافتی اقدار کا پاس رکھتے ہيں اور ديگر مذہب کے ضمن ميں عدم رواداری کے ساتھ عمومی طورپر ہر اس عنصر کے خلاف نفرت کے جذبات رکھتے ہيں جو ان کی وحشيانہ طرز زندگی اور مخصوص مذہبی سوچ سے ميل نا کھاتا ہو اور اس ضمن ميں وہ دنيا بھر ميں مسلمانوں کی اکثريت کو بھی اسی پيراۓ ميں ديکھتے ہيں۔

پاکستانيوں کا دہشت گردی کے ان محفوظ ٹھکانوں سے جغرافيائ طور پر اتنا قريب ہونا اس دليل کو مزيد تقويت بخشتا ہے کہ پاکستانيوں کے ليے اپنے اسٹريجک اتحاديوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنا انتہائ اہم ہے تا کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنے شہريوں کی حفاظت کو بھی يقینی بنايا جا سکے۔ ليکن يہ دعوی کہ دہشت گردی صرف ايک مخصوص خطے پر اثرانداز ہوتی ہے اور امريکہ سميت کوئ بھی اور ملک اس عالمی معاملے پر فريق نہيں کہلايا جا سکتا، بالکل غلط ہے اور حقائق کی کسوٹی پر درست ثابت نہيں کيا جا سکتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
Top