جس کی آپ مسلمان عبادت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔بلکہ اس کی کوئی معلومات نہیں ہیں. نہ ہی اس نے ہمارے پاس کوئی مسینجر یعنی پیغمبر بهیجا ہے۔ تو اس کا کیا جواب ہو گا۔
اسلام کے دین حق ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کے عقائد و ایمانیات اور اصول و فروع میں کوئی تضاد ،اختلاف، تعارض یا تناقض نہیں ہے ۔
”اگر یہ (قرآن ) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا یہ لوگ اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔ “(النسآء - 82)
چونکہ کسی نظام میں تضاد یا تناقض کا ہونا نہ ہونا ایک عقلی (Rational)معاملہ ہے، اس لیے اس لحاظ سے خود اپنے اندر کسی اختلاف کے نہ پائے جانے کا اعلان اس دین کے عقائد اور ایمانیات کی عقلی حیثیت کو واضح کرتا ہے ۔ قابل ِغور بات یہ ہے کہ یہاں اختلاف کے نہ پائے جانے کا مجرد موضوعی (subjective) اعلان نہیں کیا جارہا کہ جس پر بس ایمان رکھنا ضروری ہو اور اس کاعقل میں آنا غیر ضروری ! بلکہ کفار کے بارے میں معروضی طور پر (objectively)کہا جارہا ہے کہ وہ اس قرآن میں بڑے اختلافات پاتے ا گریہ کسی غیر اللہ کا بنایا ہوا کلام ہوتا۔چنانچہ دین میں اضافے ، بدعات اور تحریفات کی تمام کوششیں (بطور خاص عقائد اور ایمانیات کے معاملے میں ) صاف طور پر پہچان لی جاتی اوربہ آسانی رد کردی جاتی ہیں ۔
دین کی یہ عقلی حیثیت نہ ہوتی تو معاذاللہ کسی دیومالاہی کی طرح یا کسی ”ماورائے عقل “ ایمانیات پر مبنی تحریف شدہ دین ہی کی مانند اس میں بھی پھر تناقضات کے سمانے کی بھرپور گنجائش ہوتے۔ لیکن انسان کو پیدا کرکے عقل جیسی دولت سے نوازنے والی ذات نے اس کے لیے دین ایسے ہی نازل نہیں فرمادیا۔
پس دین ِاسلام پر بطور ایک کُل(Holistically) اور بطور ایک نظام اس طرح غور وتدبر کہ اس کے تمام اجزاء، بشمول عقائد و ایمانیات اور احکام وغیرہ ،کا آپس میں تعلق اور مطابقت واضح سے واضح تر ہوتی جائے ۔۔۔۔تاکہ قلوب کا اطمینان اور صدور کا انشراح اس دین کی قبولیت اور اطاعت و انقیاد کے لیے ہر آن بڑھتا ہی جائے ۔۔۔۔اور بندہ تسلیم ، خود سپردگی اور کامل رضامندی کا پیکر بن کر اپنے مالک کی طرف عالم ِشوق میں وارفتہ وار چلتا ہی جائے ۔۔۔۔، یہ سب سے پہلے خود اس دین کا اپنا تقاضا ہے۔
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا (النسآء-82)”کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا یہ اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔
اسلام ہی وہ دین یا نظام ہے جودنیائے مادہ اور دنیوی حیات کے مقصد اور غرض و غایت کے حوالے سے ایسی مکمل ، جامع اور مربوط تفصیل پیش کرتا ہے جس میں کوئی ابہام، جھول، پیچیدگی یا تناقض نہیں ہے۔ چناچہ عقول کو اسکی قبولیت میں کوئی اصولی مانع بھی نہیں ہے۔
پس دین کی دعوت دراصل اس کی وہ خاصیت ہے جسکی بدولت عالمِ مادہ اور عالمِ ِغیب ایک ہی تصویر کے دو رُخ اور ایک ہی منصوبے کے دو متصل مراحل ثابت ہوتے نظر آتے ہیں ۔ تصویر کے ان دونوں رُخوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے دیکھنے کی کوشش دو میں سے کسی ایک انتہا یا اس کی طرف نارَوا جھکاوء کا ہی باعث بنتی ہی۔۔۔۔ یا صرف مادیت اور یا پھر صرف روحانیت …جبکہ روح اور مادے کے سنگم سے وجود میں آنے والی اس مخلوق کے لیے دونوں ہی یکساں طور پر اہم اور بیک وقت مطلوب ہیں ۔
چناچہ روحانیت (بمعنی ”ایمان“) کے لیے طے کیا جانے والا سفر اگر عالم ِمادہ یا کسی قدر مادیت سے شروع نہ ہو تو پھر منزل ایک ایسی روحانیت ٹھہرتی ہے جو اس دنیا، اس کے ہنگاموں اور ان میں اِنسان کے مطلوبہ کردار سے ہی لا تعلق ہوتی ہے۔یوں مادیت کا اصل کردار فنا ہو جانے کی بناء پر دنیا میں رزم گاہِ حق و باطل سجنے اور باطل کے ساتھ ستیزہ کاری و نبردآزمائی کا سوال بھی بڑی حد تک روپوش ہی رہتا ہے۔
قرآن جوجا بجا ، کائنات میں مشاہدہ اور غورو فکر کی دعوت دیتا اور عقل کو جھنجھوڑتا نظرآتا ہے تو یہ کچھ بلا وجہ نہیں ہے۔ ایمان لانے کے لیے اگر مادی کائنات کا مُشاہدہ اور اس میں تدبرضروری نہ ہو ، اور یہ دونوں ایمان لانے کی بنیاد نہ ہوں ، تو معاذاللہ خدائے علیم و حکیم اپنے بندوں سے اس کا مطالبہ ہی کیوں کرے؟!بلکہ یہ عمل تو خود ایمان کی بقا کے لیے اس قدر ضروری ہے کہ بعد از قبولیت ایمان بھی مستقلاً مطلوب ہے۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرۃ ۔ 164)
”بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات اور دن کا ہیر پھیر ، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیز کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا ، آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو زندہ کر دینا ، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلادینا ، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں ۔،ان میں عقلمندوں کے لیے قدرتِ الہٰی کی نشانیاں ہیں۔ “