• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ملحدوں اور دہریوں کے ساتھ ایک بامقصد و نتیجہ خیز مذاکرہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول الله صل الله علیہ و آ له وسلم نے کہ تم میں سے کسی کسی میں شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ آسمان کس نے پیدا کیا اور زمین اور ساری مخلوقات کس نے پیدا کی، یہاں تک کہ الله کو کس نے پیدا کیا۔ پس جب اس قسم کے وسوسے پیدا ہوں تو الله سے پناہ مانگنا اور ایسے خیالات کو دل سے دور کرکے فوراً توبہ کرنا چاہئیے (بخاری ومسلم)-
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم محمد علی جواد بھائی!
آیات اور احادیث سے ہدایت اور دلائل مسلمان اخذ کرتے ہیں نا کہ ملحدین کیونکہ ان کے نزدیک تو اللہ تعالی کا کوئی وجود ہی نہیں۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
آپ کی بات بالکل درست ہے محمد نعیم یونس بھائی۔لیکن آج کل کے "ماڈرن مسلمان" بھی ایسے سوال پوچھنے لگے ہیں۔یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔ اور یہ حدیث آج انھی کے لیے ہے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
البرٹ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کی رو سے ہمیں معلوم ہے کہ ٹائم /وقت ، مادے اور اسپیس سے منسلک ہے۔ لہٰذا وقت بھی تب شروع ہوا جب مادہ اور اسپیس (یعنی یہ کائنات) پیدا ہوئی۔ (بگ بینگ تھیوری)

چونکہ اللہ پوری کائنات کا خالق ہے۔ وہ "وقت" کا بھی خالق ہے۔ لہٰذا اللہ کی حد بندی ہماری سوچ میں آنے والی ٹائم ڈائمنشن سے نہیں کی جا سکتی، کیونکہ ٹائم تو خود اس نے ہی پیدا کیا ہے۔۔۔! لہٰذا اس کی کوئی ابتدا یا انتہا "وقت کی بنیاد پر طے ہی نہیں کی جا سکتی!!
جب اس کی کوئی ابتدا نہیں تو اس کا کوئی خالق نہیں۔ ہر وہ شے جس کی کوئی ابتدا ہے، ٹائم ڈائمنشن میں اس کی تخلیق کا ایک مقام اور وقت ہے، اس کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے۔

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10205019553800453&set=a.1623993731646.2081797.1590594631&type=1
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
البرٹ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کی رو سے ہمیں معلوم ہے کہ ٹائم /وقت ، مادے اور اسپیس سے منسلک ہے۔ لہٰذا وقت بھی تب شروع ہوا جب مادہ اور اسپیس (یعنی یہ کائنات) پیدا ہوئی۔ (بگ بینگ تھیوری)

چونکہ اللہ پوری کائنات کا خالق ہے۔ وہ "وقت" کا بھی خالق ہے۔ لہٰذا اللہ کی حد بندی ہماری سوچ میں آنے والی ٹائم ڈائمنشن سے نہیں کی جا سکتی، کیونکہ ٹائم تو خود اس نے ہی پیدا کیا ہے۔۔۔! لہٰذا اس کی کوئی ابتدا یا انتہا "وقت کی بنیاد پر طے ہی نہیں کی جا سکتی!!
جب اس کی کوئی ابتدا نہیں تو اس کا کوئی خالق نہیں۔ ہر وہ شے جس کی کوئی ابتدا ہے، ٹائم ڈائمنشن میں اس کی تخلیق کا ایک مقام اور وقت ہے، اس کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے۔

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=10205019553800453&set=a.1623993731646.2081797.1590594631&type=1
بھائی میں نے ایک ملحد کو دلائل دہے ہیں تو اس نے یہ سوال کردیا ہے ۔ اس کا جواب درکار ہے ۔مجھے ملحد کو دینا ہے
. اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ کائنات کسی خدا نے ہی بنائی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس چیز سے بنائی ہے؟سوائے خدا کے کچھ بھی تو نہیں تھا. اب یہ تو کہا نہیں جا سکتا تھا کہ کسی چیز سے بھی نہیں بنائی. پھر تو صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ خدا نے اس کو اپنے وجود سے ہی بنایا ہو گا کیوں کہ اس وقت صرف وہی تھا. تو کائنات تو مادے سے بنی ہوئی ہے. پھر خدا بھی مادے سے ہی بنا ہوا ہو گا. اسی لیے شاید کسی نے کہا تھا کہ تخلیق کا عمل ابد کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو کہتے ہیں. مزید براں، یہ تو ثابت ہو ہی چکا ہے کہ یہ مادی کائنات لا متناہی ہے. اگر ایک لا متناہی کائنات کو ایک لا متناہی خدا نے اپنے وجود سے ہی تخلیق کیا ہے تو پتہ نہیں اس میں خدا کے وجود کا کتنا حصہ لگ گیا ہو گا اور کتنا خدا رہ گیا ہو گا؟
یہ بس ایک سوچ ہے. کوئی حتمی بات نہیں. آپ بھی ذرا سوچیئے.
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
بھائی میں نے ایک ملحد کو دلائل دہے ہیں تو اس نے یہ سوال کردیا ہے ۔ اس کا جواب درکار ہے ۔مجھے ملحد کو دینا ہے
. اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ کائنات کسی خدا نے ہی بنائی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس چیز سے بنائی ہے؟سوائے خدا کے کچھ بھی تو نہیں تھا. اب یہ تو کہا نہیں جا سکتا تھا کہ کسی چیز سے بھی نہیں بنائی. پھر تو صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ خدا نے اس کو اپنے وجود سے ہی بنایا ہو گا کیوں کہ اس وقت صرف وہی تھا. تو کائنات تو مادے سے بنی ہوئی ہے. پھر خدا بھی مادے سے ہی بنا ہوا ہو گا. اسی لیے شاید کسی نے کہا تھا کہ تخلیق کا عمل ابد کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو کہتے ہیں. مزید براں، یہ تو ثابت ہو ہی چکا ہے کہ یہ مادی کائنات لا متناہی ہے. اگر ایک لا متناہی کائنات کو ایک لا متناہی خدا نے اپنے وجود سے ہی تخلیق کیا ہے تو پتہ نہیں اس میں خدا کے وجود کا کتنا حصہ لگ گیا ہو گا اور کتنا خدا رہ گیا ہو گا؟
یہ بس ایک سوچ ہے. کوئی حتمی بات نہیں. آپ بھی ذرا سوچیئے.
اس اقتباس میں غلط فہمیاں ہیں۔ پہلی بات یہ کہ پہلے سے موجود کسی چیز سے بنانے یا تخلیق کرنے کی حدود حضرت انسان کے لئے ہیں۔ اس کا اطلاق خدا پر کرنا درست نہیں۔ خدا کی جو شان ہے وہ یہ ہے کہ بس اس کے کہنے سے ہی سب کچھ ہو جاتا ہے۔ مادہ ہم یعنی انسان پیدا نہیں کر سکتے، لیکن خدا بھی مادہ کو عدم سے وجود میں نہیں لا سکتا، یہ بات نہیں مانی جا سکتی۔
مزید یہ کہ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ جب زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے یعنی سنگولیرٹی کے وقت مادہ کا حجم زیرو تھا اور کثافت لامتناہی۔ اس کے بعدہی بگ بینگ ہوا اور یہ کائنات بنی اور پھر پھیلتی چلی گئی اور آج تک پھیلتی جا رہی ہے۔ اب سائنسی طور پر جب آپ کہتے ہیں کہ مادہ کا حجم زیرو تھا، اس کا آسان زبان میں مطلب یہی ہوتا ہے کہ مادہ موجود ہی نہیں تھا۔ اور بگ بینگ کےساتھ ہی مادہ، اسپیس، وقت یہ پوری کائنات ایک ساتھ وجود میں آئے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ خدا نے کائنات کو اپنے وجود سے بنایا، منطق، فلسفہ، سائنس ، مذہب ہر ایک کے اعتبار سے غلط ہے۔
اور یہ کس نے کہا کہ یہ مادی کائنات لامتناہی ہے؟ اس کا کوئی سائنسی ثبوت؟ اس کے برعکس ثابت ہے کہ یہ کائنات پھیلتی جا رہی ہے۔ اگر ایک چیز لامتناہی ہو تو اس کا پھیلنا چہ معنی دارد؟ کائنات لامتناہی ہوتی تو اسپیس میں موجود ساری ہیلیم گیسیں خرچ ہو کر ہائیڈروجن میں بدل چکی ہوتیں۔ جبکہ حالیہ تحقیق کے مطابق دونوں گیسیں اسپیس میں موجود ہیں۔ اگر کائنات لامتناہی ہوتی تو تھرموڈائنامکس کے دوسرے قانون کے مطابق تمام کارآمد توانائی خرچ ہو چکی ہوتی۔ لہٰذا یہ کائنات لامتناہی نہیں ہے۔ اور نہ ہی کائنات کو وجود بخشنے کے لئے خدا نعوذباللہ اتنا مجبور ہے کہ مادے کو پیدا نہ کر سکے۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
37
اگر کوئی دہریہ کہے کہ میں مانتا ہوں کہ یہ کائنات کسی پاور والے نے ہی بنائی ہے لیکن یہ نہیں مانتا کہ یہ پاور والا وہی ہے جس کی آپ مسلمان عبادت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔بلکہ اس کی کوئی معلومات نہیں ہیں. نہ ہی اس نے ہمارے پاس کوئی مسینجر یعنی پیغمبر بهیجا ہے۔ تو اس کا کیا جواب ہو گا۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اگر کوئی دہریہ کہے کہ میں مانتا ہوں کہ یہ کائنات کسی پاور والے نے ہی بنائی ہے لیکن یہ نہیں مانتا کہ یہ پاور والا وہی ہے جس کی آپ مسلمان عبادت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔بلکہ اس کی کوئی معلومات نہیں ہیں. نہ ہی اس نے ہمارے پاس کوئی مسینجر یعنی پیغمبر بهیجا ہے۔ تو اس کا کیا جواب ہو گا۔
میں ولیم لین کریگ اور لیویس ولپرٹ کے درمیان خدا کے وجود پر مباحثہ ہوا تھا۔ جب ڈاکٹر کریگ خدا کے حق میں اپنا استدلال دے چکے تو ولپرٹ نے جھٹ کہا: "لیکن اس خدا کی جگہ کوئ کمپیوٹر بھی تو ہو سکتا ہے۔ میں تو اس کمپیوٹر کو مانتا ہوں۔" پھر مزید کہا کہ یہ کمپیوٹر خدا کی تمام صفات رکھتا ہے۔ یہ کمپیوٹر سوچ سکتا ہے، تخلیق کر سکتا ہے، بہت طاقتور ہے، کائنات کے نظام پر قادر ہے اور وقت کی حدود سے باہر ہے۔
اس پر ڈاکٹر کریگ نے جواب دیا: "میں نے بھی تو اسی کمپیوٹر کے لیئے بحث کی ہے۔ آپ کو توحید مبارک ہو!" اور سارا ہال تالیوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا۔
آپ سائینس میں کسی چیز کی تعریف اس کی صفات یا خصوصیات کی بنا پر کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئ مادہ مخصوص شکل ، حجم اور سٹرکچر رکھتا ہے تو وہ سالڈ یعنی ٹھوس ہے۔ اب اگر کوئ کہے کہ میں نے ایسا مادہ دیکھا ہے جو مخصوص شکل اور حجم نہیں رکھتا لیکن پھر بھی سالڈ ہے تو یہ بات غلط ہوگی کیونکہ اس مادے میں وہ صفات یا خصوصیات نہیں ہیں جو اس کے سالڈ ہونے کے لیئے درکار ہیں۔ اور اگر میں کہوں کہ میں ایک ایسا مادہ دیکھا ہے جو مخصوص شکل اور حجم رکھتا ہے لیکن سالڈ نہیں ہے تب بھی یہ بات غلط ہوگی کیونکہ اس میں سالڈ کی تمام صفات موجود ہیں۔
اب فرض کریں کہ میں کہتا ہوں کہ ایک قوت ہے "اے بی سی" جو دو چیزوں کے ایک دوسرے کو کھینچنے کی وجہ ہے۔ یہ قوت دونوں چیزوں کے وزن کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتی ہے اور ان کے درمیان فاصلے کے بڑھنے کے ساتھ گھٹتی ہے۔ اب دیکھئیے کہ تو قوتِ ثقل یعنی گریوٹی کی تعریف بن گئ ہے۔ تو کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ قوت ہی دو چیزوں کے ایک دوسرے کو کھینچنے کی وجہ ہے اور گریوٹی شریوٹی کچھ نہیں ہوتا؟ نہیں۔ بالکل نہیں۔ کیونکہ میں نے در حقیقت ایک نئ قوت دریافت نہیں کی۔ میں نے گریوٹی کو ہی ایک الگ نام دے دیا ہے۔ اور الگ نام دینے کی وجہ سے گریوٹی کا نظریہ غلط نہیں ہو جاتا کیونکہ میری پیش کی گئ قوت میں وہ تمام صفات ہیں جو گریوٹی میں۔
تو جب ایک ملحد کہتا ہے کہ اللہ خدا ہو سکتا ہے تو "فلائینگ سپغیٹی مانسٹر" کیوں نہیں ہو سکتا یا کوئ اور چیز خدا کیوں نہیں ہوسکتی تو وہ درحقیقت صرف اللہ کو الگ نام دے رہا ہوتا ہے۔ اگر اس کا پیش کیا گیا امیدوار وہ تمام صفات رکھتا ہے جو اللہ رکھتا ہے تو وہ امیدوار اللہ ہی ہے، اور ملحد صرف اسے الگ نام دینا چاہ رہا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک بندہ دو سیب اٹھا کر کہے کہ اگر ان میں سے ایک سیب ہے تو دوسرا کیا ہے؟ وہ دونوں ہی سیب ہیں۔ ویسے ہی جیسے آپ اللہ کو کوئ بھی نام دینا چاہیں، اللہ کی ذات وہی رہے گی اور اسے رد کرنے کے لیئے ایسے بھونڈے استدلال سے بہتر کوشش کرنی ہوگی۔

تحریر : محمد اسامہ
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جس کی آپ مسلمان عبادت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔بلکہ اس کی کوئی معلومات نہیں ہیں. نہ ہی اس نے ہمارے پاس کوئی مسینجر یعنی پیغمبر بهیجا ہے۔ تو اس کا کیا جواب ہو گا۔
اسلام کے دین حق ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کے عقائد و ایمانیات اور اصول و فروع میں کوئی تضاد ،اختلاف، تعارض یا تناقض نہیں ہے ۔
”اگر یہ (قرآن ) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا یہ لوگ اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔ “(النسآء - 82)
چونکہ کسی نظام میں تضاد یا تناقض کا ہونا نہ ہونا ایک عقلی (Rational)معاملہ ہے، اس لیے اس لحاظ سے خود اپنے اندر کسی اختلاف کے نہ پائے جانے کا اعلان اس دین کے عقائد اور ایمانیات کی عقلی حیثیت کو واضح کرتا ہے ۔ قابل ِغور بات یہ ہے کہ یہاں اختلاف کے نہ پائے جانے کا مجرد موضوعی (subjective) اعلان نہیں کیا جارہا کہ جس پر بس ایمان رکھنا ضروری ہو اور اس کاعقل میں آنا غیر ضروری ! بلکہ کفار کے بارے میں معروضی طور پر (objectively)کہا جارہا ہے کہ وہ اس قرآن میں بڑے اختلافات پاتے ا گریہ کسی غیر اللہ کا بنایا ہوا کلام ہوتا۔چنانچہ دین میں اضافے ، بدعات اور تحریفات کی تمام کوششیں (بطور خاص عقائد اور ایمانیات کے معاملے میں ) صاف طور پر پہچان لی جاتی اوربہ آسانی رد کردی جاتی ہیں ۔
دین کی یہ عقلی حیثیت نہ ہوتی تو معاذاللہ کسی دیومالاہی کی طرح یا کسی ”ماورائے عقل “ ایمانیات پر مبنی تحریف شدہ دین ہی کی مانند اس میں بھی پھر تناقضات کے سمانے کی بھرپور گنجائش ہوتے۔ لیکن انسان کو پیدا کرکے عقل جیسی دولت سے نوازنے والی ذات نے اس کے لیے دین ایسے ہی نازل نہیں فرمادیا۔
پس دین ِاسلام پر بطور ایک کُل(Holistically) اور بطور ایک نظام اس طرح غور وتدبر کہ اس کے تمام اجزاء، بشمول عقائد و ایمانیات اور احکام وغیرہ ،کا آپس میں تعلق اور مطابقت واضح سے واضح تر ہوتی جائے ۔۔۔۔تاکہ قلوب کا اطمینان اور صدور کا انشراح اس دین کی قبولیت اور اطاعت و انقیاد کے لیے ہر آن بڑھتا ہی جائے ۔۔۔۔اور بندہ تسلیم ، خود سپردگی اور کامل رضامندی کا پیکر بن کر اپنے مالک کی طرف عالم ِشوق میں وارفتہ وار چلتا ہی جائے ۔۔۔۔، یہ سب سے پہلے خود اس دین کا اپنا تقاضا ہے۔
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا (النسآء-82)”کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا یہ اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔

اسلام ہی وہ دین یا نظام ہے جودنیائے مادہ اور دنیوی حیات کے مقصد اور غرض و غایت کے حوالے سے ایسی مکمل ، جامع اور مربوط تفصیل پیش کرتا ہے جس میں کوئی ابہام، جھول، پیچیدگی یا تناقض نہیں ہے۔ چناچہ عقول کو اسکی قبولیت میں کوئی اصولی مانع بھی نہیں ہے۔
پس دین کی دعوت دراصل اس کی وہ خاصیت ہے جسکی بدولت عالمِ مادہ اور عالمِ ِغیب ایک ہی تصویر کے دو رُخ اور ایک ہی منصوبے کے دو متصل مراحل ثابت ہوتے نظر آتے ہیں ۔ تصویر کے ان دونوں رُخوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے دیکھنے کی کوشش دو میں سے کسی ایک انتہا یا اس کی طرف نارَوا جھکاوء کا ہی باعث بنتی ہی۔۔۔۔ یا صرف مادیت اور یا پھر صرف روحانیت …جبکہ روح اور مادے کے سنگم سے وجود میں آنے والی اس مخلوق کے لیے دونوں ہی یکساں طور پر اہم اور بیک وقت مطلوب ہیں ۔
چناچہ روحانیت (بمعنی ”ایمان“) کے لیے طے کیا جانے والا سفر اگر عالم ِمادہ یا کسی قدر مادیت سے شروع نہ ہو تو پھر منزل ایک ایسی روحانیت ٹھہرتی ہے جو اس دنیا، اس کے ہنگاموں اور ان میں اِنسان کے مطلوبہ کردار سے ہی لا تعلق ہوتی ہے۔یوں مادیت کا اصل کردار فنا ہو جانے کی بناء پر دنیا میں رزم گاہِ حق و باطل سجنے اور باطل کے ساتھ ستیزہ کاری و نبردآزمائی کا سوال بھی بڑی حد تک روپوش ہی رہتا ہے۔

قرآن جوجا بجا ، کائنات میں مشاہدہ اور غورو فکر کی دعوت دیتا اور عقل کو جھنجھوڑتا نظرآتا ہے تو یہ کچھ بلا وجہ نہیں ہے۔ ایمان لانے کے لیے اگر مادی کائنات کا مُشاہدہ اور اس میں تدبرضروری نہ ہو ، اور یہ دونوں ایمان لانے کی بنیاد نہ ہوں ، تو معاذاللہ خدائے علیم و حکیم اپنے بندوں سے اس کا مطالبہ ہی کیوں کرے؟!بلکہ یہ عمل تو خود ایمان کی بقا کے لیے اس قدر ضروری ہے کہ بعد از قبولیت ایمان بھی مستقلاً مطلوب ہے۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرۃ ۔ 164)
”بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات اور دن کا ہیر پھیر ، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیز کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا ، آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو زندہ کر دینا ، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلادینا ، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں ۔،ان میں عقلمندوں کے لیے قدرتِ الہٰی کی نشانیاں ہیں۔ “
 
Top