السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس تھریڈ میں میرے بیان کردہ درج ذیل مؤقف پر ایک بحث شروع ہوئی ہے:
فہم و فقہ اہل الحدیث کی ہی معتبر ہے نہ کہ رافضیہ، جہمیہ، معتزلہ، مرجئہ اور اہل الرائے کی!
اس پر اشماریہ صاحب نے ایک سوال کیا گیا:
فیض بھائی کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ابو حنیفہ رح اور ان کے اصحاب کی فہم و فقہ بالکل معتبر نہیں ہے؟ اور انہیں رافضیہ, جہمیہ, معتزلہ اور مرجئہ کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے؟
مذکورہ بالا سوال ہمارے مؤقف کو مکمل طور پر بیان نہیں کرتا تھا، اس لئے ہم نے اس سوال میں مندرجہ ذیل اضافہ کیا:
خیر فیض الابرار بھائی سے میں سوال میں اضافہ کردوں!
کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فہم ، اہل الحدیث کی فہم کے خلاف آتی ہو تو کیا وہ معتبر شمار ہوتی ہے؟
اشماریہ صاحب نے اپنے سوال کو اس طرح دہرایا ہے:
اس لیے میں نے @محمد فیض الابرار بھائی سے عرض کیا ہے کہ ابو حنیفہؒ کی فہم و فقہ کے بارے میں وہ مجھے یہ بتلائیں تاکہ معلوم ہو کہ اہل حدیث علماء میں سے کون کون آپ کی بات کی حمایت کرتا ہے۔
فیض بھائی کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ابو حنیفہ رح اور ان کے اصحاب کی فہم و فقہ بالکل معتبر نہیں ہے؟ اور انہیں رافضیہ, جہمیہ, معتزلہ اور مرجئہ کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے؟
لیکن کیا ابن داود صاحب کا یہ کہنا درست ہے کہ اہل الرائے کی فہم معتبر نہیں ہے؟
فیض الابرار بھائی نے اس کا مندرجہ ذیل جواب دیا:
اگر تو اہل الرائے کی فہم کتاب و سنت کی مخالفت میں ہو تو پھر معتبر نہیں ہے
فیض الابرار بھائی کے جواب سے میں بالکل متفق ہوں، اس جواب پر اشماریہ صاحب نے مندرجہ ذیل تعلق لگائی!
وہ تو ظاہر ہے. دین قرآن و سنت کا نام ہے کسی کے قول کا نہیں.
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابن داود صاحب کا مطلقا اہل الرائے کی فہم کا انکار کرنا غلط ہے.
حالانکہ ہمارے بیان میں یہ بات نہیں!
اور یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ تو ان کا دیرینہ مسئلہ ہے، جبکہ میں نے پہلے ہی اس بات کی توضیح بھی کردی تھی، جب میں نے اشماریہ صاحب کی جانب سے فیض الابرار بھائی کی جانب کئے گئے سوال میں اضافہ کیا تھا:
وہ دہراتا ہوں:
خیر فیض الابرار بھائی سے میں سوال میں اضافہ کردوں!
کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فہم ، اہل الحدیث کی فہم کے خلاف آتی ہو تو کیا وہ معتبر شمار ہوتی ہے؟
اور میں نے اپنا مؤقف بھی ان الفاظ میں پیش کیا تھا:
فہم و فقہ اہل الحدیث کی ہی معتبر ہے نہ کہ رافضیہ، جہمیہ، معتزلہ، مرجئہ اور اہل الرائے کی!
ہم نے فہم و فقہ اہل الحدیث کے مقابلہ میں اہل الرائے کی فہم کو ''غیر معتبر'' قرار دیا ہے!
وگرنہ اب ایسا تو یہود و نصاری کا معاملہ بھی نہیں، کچھ باتیں تو ان کی بھی معتبر ہیں، جس کو قرآن و سنت اور مسلمانوں کی توثیق حاصل ہو!
یعنی کہ بائیبل کا بھی اس طرح مطلقاً انکار نہیں کیا جاتا، کہ جو کچھ اس میں ہے وہ قطعاً غلط ہے!
اہل الرائے کا سب کچھ ہی تو غلط نہیں! نہ ہی اہل الرائے کے ہر ہر مؤقف میں اہل الحدیث کی مخالفت ہے!
لہٰذا وہ امور کہ جہاں اہل الرائے اور اہل الحدیث میں اتفاق ہے، اہل الرائے کی فہم کے ''غیر معتبر'' ہونے کا سوال نہیں! بلکہ یہ معاملہ ان امور میں ہے کہ جہاں اہل الرائے اور اہل الحدیث کے مؤقف میں اختلاف ہے۔
اس کی ایک مثال یوں دیکھیں کہ امام زمخشری کو لغت کا امام مانا جاتا ہے۔ لیکن جب وہ اہل الحدیث کے مؤقف کے برخلاف معتزلی عقیدہ کے اثبات میں تاویل کرتے ہیں، تو ان کی یہ تاویلات بھی معتبر نہیں ہوتیں! فتدبر!
(جاری ہے)