• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منهج سلف صالحين اور اس سے انحراف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اردنی اخوان المسلمین کا خمینی انقلاب کے بارے میں مؤقف
ایران میں اسلامی انقلاب کے متعلق اردن کے اخوان المسلمین نے اپنا مؤقف بیان کیا جو کہ ایک ایسی قرارداد تھی جس نے کلی طور پر جماعت کے امتیازات اور اس کے صاف اسلامی تصور اور تنظیمی کاوش سے ہم آہنگی پیدا کردی۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ " یہ چیز تو ہمارے امام شہید حسن بناء ؒ کی پہلی پیشکش تھی کہ مسلمان اپنے فقہی اور مذہبی اختلافات کو بھول جائیں۔ بلاشبہ انہوں نے شیعہ و سنی کے مابین قربت پیدا کرنے کے لئے کئی کاوشوں کو صرف کیا کہ پیش خیمہ ظاہری تمام اختلافات کو دور کیا جائے۔ اس بنا پر انکے شیعہ رہنماؤں جیسا کہ امام آیۃ اللہ کاشانی اور شہید انقلاب نواب صفوی اور امام کاشف غطاء سے قوی و مضبوط تعلقات اور روابط تھے۔ اخوان المسلمین کا خیال ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کا قیام اس چیز کی تکمیل ہے جس کو امام شہید حسن بناء ؒ نے شیعہ و سنی کے مابین قربت کی راہ ہموار کرنے میں شروع کیا تھا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ایرانی انقلاب کو عام اخوان المسلمین کی تائید
جامعہ کویت میں اتحاد الطلبہ جن پر اخوان المسلمین کا قیام ہے، نے "مجلة الاتحاد" کے شمارہ نمبر 4 کے افتتاحیہ میں ایک مقالہ بعنوان " امریکی بادشاہ کے سامنے ایرانی انقلاب" تحریر کیا۔ اس میں لکھا کہ " تمام ترقی پذیر ممالک بالخصوص اسلامی ممالک پر واجب ہے کہ وہ اس انقلاب میں جمہوریہ ایران الاسلامیہ کا ساتھ دیں جو اس وقت مغربی عالم کے سردار امریکا کے خلاف کھڑا ہے۔" پھر لکھتے ہیں کہ " لہٰذا ہم تاکید سے کہتے ہیں کہ جمہوریہ ایران الاسلامیہ کے ساتھ کھڑا ہونا امریکی استعمار سے نجات حاصل کرنے کی ابتداء ہے۔" یہ بھی کہ " ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملکی اور سرکاری طور پر حکومت ایران کا اقتصادی پابندی یا جنگی کارروائی میں ساتھ دے، کیونکہ ایران کی فتح کویت کی فتح ہے۔ ایران کی شکست کویت کی ہار ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حزب اللہ ( جو کہ حزب الشیطان ہے) کو اخوانی تائید
عزیز برادر! ذرا یہ بھی دیکھئے کہ مصری اخوان المسلمین کے صدر عاکف مہدی نےاس جنگ میں حزب اللہ کی کیسے مدد کی جو اسرائیل اور حزب اللہ رافضی لبنانی کے مابین چھڑی تھی۔ ٹی وی چینل المنار ( جو کہ حزب کے زیر دست ہے) کو انٹرویو دیتے ہوئے جب پروگرام کے میزبان نے ان سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اخوان المسلمین کا مؤقف قابل ذکر اور معروف ہے ، آپ کا ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو مذہبی اختلافات کو فروغ دیتے ہیں او حزب اللہ کی معاونت کے حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں، حتیٰ کہ اس کے عدم استحکام کی دعائیں کرتے ہیں؟
تو عاکف مہدی جواب میں کہتے ہیں کہ " یہ کتنی عجیب بات ہے میں نے تو پہلے دن ہی حزب اللہ کی معاونت کرنے کی دعوت دی تھی۔ بلاشبہ اخوان المسلمین کا مبداء ہی یہ ہے کہ ہم ایک امت ہیں، ہم ایک رب کی عبادت کرتے ہیں، ہمارا قران ایک، ہمارا رسول ایک، ایک ہی قبلہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں چنانچہ شیعہ و سنی تو ایک بُنے ہوئے کپڑے کی مانند ہیں۔اور جن مسائل کو دین اسلام سے ناواقف لوگ اچھال رہے ہیں میں نے ان کے بارے میں اخوان المسلمین کے موقف کو واضح کردیا ہے۔ استاذ حسن البناء سے لے کر اب تک اخوان المسلمین کا یہ ہی مؤقف ہے کہ مذاہب میں قرابت کی راہ پیدا کی جائے اور میری گذارش ہے کہ محترم ان لغو فضول باتوں کی طرف توجہ مت دیں۔"
ایسے ہی انہوں نے ٹی وی چینل جزیرہ قطریہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ " سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ ان کے شہداء کو قبول کرے اور جوار رحمت میں انبیاء و صدیق کے ساتھ کرے۔ اور جو شخص شیعہ و سنی کے مابین تفریق کی دعوت دیتا ہے وہ جاہل ہے۔ ہم سب ایک امت ہیں، ایک رب کی عبادت اور ایک نبی کی اتباع کرنے والے ہیں۔"
آپ احباب اس انٹرویو کا مشاہدہ یوٹیوب YouTube)) پر بعنوان " مهدي عاكف لا فرق بين السنة والشيعة " کرسکتے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ اس شخص سے کیسے قربت کی راہ ہموار کریں جو ابوبکر و عمر و عائشہ رضی اللہ عنہم پر لعن طعن کرتا ہو۔ اور ان کی عزت و عصمت کو داغدار کرتا ہو۔ اور جس کی اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں نفی کی ہواور یہ اس کی اثبات کرتا ہو۔
قارئین کرام! جب یہ اقوال ان کے رہبر و رہنما کے ہوں تو بتایئے کہ منہج سلف صالحین سے کوسوں دور گمراہ کن مدارس سے وابستہ اپنے نوجوانوں کی کیسے تربیت کرسکتے ہیں۔ وہ ان مدارس سے وابستہ ہیں جو ہمارے علماء اور حکمران کے منہج کے خلاف ہے ۔ ان پر لازم ہے کہ ان منحرفہ مبتدعہ مدارس کو ترک کریں اور منہج سلف کا اتباع کریں جس پر ہماری حکومت سعید، امام محمد بن سعود اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہا اللہ سے لیکر اب تک قائم ہے۔
سعودی حکام دیگر حکام کی نسبت طریقہ رسولﷺ و سلف صالحین کے زیادہ قریب ہیں۔ ہم پر ضروری ہے کہ ان کے لئے خیر و برکت کی دعائیں کریں اور ان کی تائید کریں۔ الحمد للہ سعودی عرب میں ایسی کسی قبر کا وجود تک نہیں جس کی اللہ کے ماسوا عبادت کی جاتی ہو اور نہ ہی مبتدعین کو اپنی بدعت کی دعوت پھیلانے کی کوئی اجازت ہے۔
میں اور ہر دینی غیرت رکھنے والا سلفی یہ کہتا ہے کہ ایرانی انقلاب کی تائید کرنا قطعاً جائز نہیں جیسا کہ اخوان المسلمین کرتے ہیں۔ بلکہ ضروری ہےکہ اس سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ مجوسی رافضی انقلاب ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جس کا ہدف صرف مسلمانوں کی صفوں میں موجود اتحاد کو ختم کرنا ہے اور عالم اسلام کو کیسے تہس نہس کیا جائے۔
شیخ مقبل بن ھادی الوادعی ؒ فرماتے ہیں کہ:
" اخوان المسلمین عالم نہیں بلکہ علم دشمن ہیں کیونکہ وہ ہمارے بعض شاگردوں کو کہتے ہیں کہ تم نے تو خود کو حدیث کے ساتھ مشغول کر دیا کہ فلاں نے فلاں سے روایت کیا ، یہ روایت متفق علیہ ہے۔
جب کہ تمام رسولوں کو توحید خالص کی دعوت دینے کے لیے مبعوث کیا گیا اور قرآن بھی اس امر پر شاہد ہے تو بتایئے کہ اخوانیہ کی کتب اس بیان سے کیوں خالی ہیں۔
ان لوگوں نے پوری زمین کو سیاسی اور تحریکی کتب کے شوروغل سے بھر دیا ہے۔ کیا ان کو نظر نہیں آتا کہ لوگ اپنے شہروں میں شرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ قبروں کے مجاور بنے ہوئے ہیں اور غیر اللہ کو پکارتے اور ان کے لئے نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ آخر اپنی کتب میں کیوں نہیں اس امر کی طرف متوجہ ہوتے جس کے لئے تمام رسل اور آسمانی کتب نازل کی گئیں۔ لیکن ہم ان کی کتب میں بے سروپا باتوں ، دروس اور اُن امور میں طویل کلام جن کا توحید کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں، اور کچھ نہیں پاتے۔ کیا یہ اخوان المسلمین کے قائدین، مبلغین اور علماء کا انحراف نہیں؟
اب یہ اخوان ہی کفریہ نظام حکمرانی یعنی جمہوریت کی دعوت دیتے پھرتے ہیں اور اس کے پرچم کو بلند کر رہے ہیں۔ لوگوں کو اُس دستور اور اکثریت کے حکم کی دعوت دیتے ہیں جو قران کریم کے بالکل مخالف ہے جبکہ قرآن مجید نظام اکثریت کی صراحتا مخالفت کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِى
ٱلْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ ﴿١١٦﴾ الانعام
ترجمہ: اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں)اگر تم ان کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں خدا کا رستہ بھلا دیں گے ۔
ان اخوانیوں کے نزدیک اصل اہمیت دنیاوی اغراض ہے اور اس صفت میں یہ کفار کے ساتھ شریک ہیں جبکہ عقیدہ سلیم کے حامل سلفی لوگوں کا مقصد اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنا، اس کے دین حنیف کو قائم رکھنا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیناہے۔ باقی دنیاوی امور تو اس کے بعد آتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اخوانیہ کے کچھ اصول و ضوابط
انکی دعوت ہر چھوٹے بڑے، عالم و جاہل سب کے لئے نہیں بلکہ صرف نوجوانوں کی حد تک محدود ہے۔ جبکہ انبیاء و رسل کی دعوت تو ہر چھوٹے بڑے، جوان و بوڑھے، مرد و عورت اور عالم و جاہل کیلئے ہوتی تھی۔ان کے اصول میں یہ بھی ہے کہ جو بیعت کے مقام پر پہنچے اس کی بیعت کرنا ہے۔ اور کئی لوگوں سے اہوں نے اس بیعت کا مطالبہ کیا بھی ہے یا اورکئی لوگوں کی بیعت انہوں نے بھی کی ہوئی ہے۔یہ بھی ان کا اصول ہے کہ بغض و کینہ کو لوگوں میں پھیلاتے ہیں جس کے ذریعے نوجوان نسل میں تفریق کی آگ لگاتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ:
" جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو اپنے دین عام لوگوں سے ہٹ کر باہم سرگوشی کرتے ہیں تو جان لے کہ وہ گمراہی کی اساس پر ہیں۔"
اور اخوانیوں کی تو ساری منصوبہ بندی ہی خفیہ طور پر ہوتی ہے۔اسی وجہ سے ان کی دعوت کی ابتداء علم سے نہیں ہوتی حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فاعلم انہ لا الہ الا اللہ واستغفر لذنبک
" پس علم رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔"
علم سے عاری ان کی دعوت صرف گروہ بندی، تہذیبی اور حکمرانوں کے خلاف خروج کی ہے۔ اس امر کی بناء پر حکومت سعودیہ ان کو کسی قسم کی اجازت نہیں دیتی اور ان کی جماعت سے جڑنے کو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے مترادف سمجھتی ہے اور حاکم وقت کی خلاف ورزی تصور کرتی ہے۔ اور ان کی تمام کارروائیاں، اجتماعات پوشیدہ طور پر منعقد کیے جاتے ہیں اور اپنی اس مذموم تہذیب میں سچ و جھوٹ کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ ان کے ماننے والوں میں اہتمام و التزام تو بہت ہی کم ہے۔ فرائض و واجبات کو ادا کرنے میں تو یہ بہت ہی متساہل ہیں اسی بناء پر بہت سے ان کے متبعین کے سامنے جب حق واضح ہوا تو ان کو ترک کردیا چنانچہ سلفیوں کے پاس آپ کو ایسا کوئی منظر دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ان شاء اللہ
نوجوانوں کےلئے میری یہ نصیحت ہے اگر وہ اللہ کے عذاب سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو رسولوں کی راہ کی پیروی کریں ، ان جماعتوں کو چھوڑ دیں اور اپنے سلفی بھائیوں کے ساتھ ملحق ہو جائیں جن کا منہج علم شرعی اور علماء کرام سے اخذ شدہ ہےاور نہ ہی حکومت سے مقابلہ آرائی کرتے ہیں۔ سلفیہ کوئی گروہ نہیں کہ ان کے پیرو مرشد کے لئے بیعت ہوتی ہو بلکہ وہ تو صرف رسول اللہﷺ کی اتباع کرتے ہیں کیونکہ وہی ان کے مرشد و مربی ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تاسیس جماعت کے بیس سال گذرنے پر مؤسس جماعت کا خطاب
اب مؤسس اخوان المسلمین کے اس خطاب کو بھی ملاحظہ کریں جو جماعت کے بیس سال مکمل ہونے پراسکندریہ میں ایک تقریب کے دوران کیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ:
" تحریک اخوان کسی عقیدہ ، دین اور گروہ کی مخالف نہیں ہے۔چونکہ اس کے ذمہ داران کے ذہنوں میں یہ جذبہ کارفرماں ہے کہ لادینیت نے آج سب ہی ادیان کے بنیادی اصولوں کو بدل کے رکھ دیاہے لہذا تمام دین پرستوں باہم تعاون کے ذریعے اپنی کوشش انسانیت کو درپیش اس خطر کے مقابلے میں صرف کردینی چاہیے ۔" ( قافلہ اخوان للسیسی جزء1 صفحہ 211)
میں پوچھتا ہوں کہ یہ دعوت ربّانی ہے؟ جو کسی عقیدہ فاسد کی مخالف نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
هُوَ
ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ ﴿٩﴾ الصف
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے اور سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔
پھر اللہ کے لئے محبت و نفرت کا معیار کہاں جب تم یہود اور دوسرے کفار سے نفرت نہیں کرتے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
وحدت ادیان
مسلمانوں اور نصاریٰ میں رشتہ اخوت اخوانیوں کے طرز پر
اسلام و عیسائیت، شیخ و پادری کے مابین رشتہ اخوت کو اجاگر کرنے والے باقوری جب ایک عیسائی پادری صموئیل کے ساتھ ایک ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نمودار ہوا تو اپنی ازھری دستار اس پادری کے سر پر سجاتے ہوئے کہا کہ:
"آپ کی مرضی کہ دونوں کو پادری کہو یا شیخ ۔" اور مزید کہا کہ " جب میں پوپ کا مشورہ سنتا ہوں تو یوںمحسوس ہوتا ہے کہ میں سلف صالحین میں سے کسی کی بات سن رہا ہوں۔"( قنابل و مصاحف للاستاذ: عادل حمودہ)

وحدت ادیان کے متعلق حسن ترابی کی آراء
ڈاکٹر حسن ترابی " مجلہ المجتمع" شمارہ 736 بتاریخ 8/10/1985م میں لکھتے ہیں " قومی متحدہ محاذ ہماری پریشانیوں میں سے ایک بڑی پریشانی ہے۔ بلاشبہ ہم اسلامی محاذ پر ہیں اور ہم اس تک اصول ملت ابراہیمیہ کے مطابق اسلام کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔ وہ اصول ہمیں عیسائیوں کے ساتھ مشترکہ دینی تاریخ کی میراث اور تاریخی عقائد و اخلاق کے سرمایہ میں جمع کردیتے ہیں۔ ہم عصبیت نہیں بلکہ اللہ کے لئے باہمی اخوت اور بھائی چارے کو چاہتے ہیں۔"
یہ بات تو اللہ کے اس فرمان کے بالکل خلاف ہے:
مَا كَانَ إِبْرَٰهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ
ٱلْمُشْرِكِينَ ﴿٦٧﴾ آل عمران
ترجمہ: ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ سب سے بے تعلق ہو کر ایک (خدا)کے ہو رہے تھے اور اسی کے فرماں بردار تھے اور مشرکوں میں نہ تھے۔
یہ تمام تر نقول ایک سچے مسلمان کو اس بات پر پابند کرتی ہیں کہ ان گروہ بندیوں کو ٹھکرا دے اور سلفی اثری مذہب کو اختیار کرلے جس پر سعودی علماء اور بعض اسلامی ممالک رواں دواں ہیں۔
مصری جمہوری حکومت کے رئیس ڈاکٹر محمد مرسی ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "مصری مسلمان اور عیسائیوں کے مابین اسلامی عقیدہ اور عقیدہ مسییحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے آدمی جو بھی عقیدہ چاہے اختیار کرے۔ عقائد کا اختلاف کچھ بھی نہیں ہے۔"
یہ اختلاف تغیر پذیر ہیں جوکہ ذرائع ، طریقۂ کار اور محرکات کا تنوع ہے جیسا کہ یہ تحریک(اخوان المسلمین) اہل مغرب سے تعلقات بہتر رکھنے کی داعی ہے۔ تو یہ کوئی عقیدہ ونظریہ کا اختلاف نہیں
شیخ مصطفیٰ عدوی حفظہ اللہ اس کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ " اس جماعت کے مسوولین کو اللہ سے ڈرنا چاہیے ۔ بلاشبہ ساری باتیں جو ان کی طرف منسوب ہیں جس کی حقیقت کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن گمراہی وجہالت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس جماعت کا ایک مسئول کہتا ہے کہ یقیناً ہمارے اور نصاریٰ کے عقیدہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے زعم باطل اور اصطلاح کے مطابق یہ دینامیکی اختلاف ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ یہ موقف تو شریعہ اسلامیہ سے جہالت پر دلالت کرتا ہےاور درحقیقت شریعت اسلامی سے جہالت کی انتہاء ہے حالانکہ ایک چھوٹا بچہ بھی جانتا ہے کہ
قُلْ هُوَ
ٱللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدٌۢ ﴿٤﴾ اخلاص
ترجمہ: کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے معبود برحق جو بےنیاز ہے نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
چنانچہ جو شخص قُلْ هُوَ
ٱللَّهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدٌۢ ﴿٤﴾
کے قائل کو اقرار کرنے والا اور اس شخص کو جو یہ کہتا ہے کہ تین میں سے تیسرا اللہ ہے یا عیسیٰ ہی اللہ ہے یا عیسیٰ اللہ کا بیٹا ہے ، ان دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردے ، دونوں کو ہی برابر سمجھے تو یہ بات اس کے دین کے متعلق قلت معرفت پر دلالت کرتی ہے۔"
یہ یاد رہے کہ یہ سیاسی داؤ پیچ ہمارے عقیدے، ثابت شدہ اصول اور اہل السنہ والجماعۃ کے متفق علیہ منہج کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ اور میں اس جماعت کے مسئوولین کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ شخصی طور پر اعلان کیوں نہیں کرتے کہ وہ شریعت اسلامیہ چاہتے ہیں۔ چنانچہ کتاب و سنت سے دور راہوں پر بھٹکنا ایک ایسی بنجر زمین ہے جس میں جو کچھ نکلتا ہے وہ ناقص ہی ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں اس نقص اور ہر اس چیز سے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اس کی کتاب سے دور کردے، سے محفوظ رکھے۔
اس پارٹی کے زعماء قائدین کی یہ ذمہ داری تھی کہ اللہ نے اگر انہیں عزت بخشی ، انہیں اسمبلی میں اکثرت حاصل ہوگئی تو ان کا یہ فرض تھا کہ منہ چھاتے پھرنے اور اسلام شریعت میں نفاذ میں جے کترانے کی بجائے رب کی حقیقی تعظیم بجا لاتے اور اسلامی شریعت کو اس کا کماحقہ وقار اور احترام دیتے اور جب دیگر ذمہ داران دین اسلام کی نصرت سے منہ موڑ دیں تو میں انہیں اللہ کے سامنے جوابدہی اور ان پر عائد امانت دین کی ذمہ داری یاد دلاتا ہوں عوام کی اس بھاری تعداد نے اگر ان کا ساتھ دیا ہے تو نفاذِ شریعت کے نام پر دیا ہے اگر ان ذمہ داران نے نفاذِ شریعت میں اپنا کردار ادا نہ کیا تو یہ عوام کے بھی غدّار ہوں گے اور امانت دین سے بھی بے وفائی کے مرتکب ٹھہرے گے اور اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا ۔
چنانچہ غزالی اپنی کتاب " من هنا نعلم" کے صفحہ 53 پر لکھتے ہیں کہ:
" صلیب اور ھلال کے اتحاد کے قیام کی وجہ سے مجھے دلی راحت محسوس ہوتی ہے اور وہ لوگ جو مصری عوام کے تعلقات کے بارے غور و خوض کر رہے ہیں اس سے ان کے دل مطمئن نہیں اور نہ ہی اللہ کی رضامندی مقصود ہے۔"
اسی کتاب کے صفحہ 66 پر لکھتے ہیں کہ:
" گذشتہ تاریخ کے باوجود بھی ہم یہ پسند کرتے ہیں اپنے بازوؤں کو پھیلا دیں ، اس دل کے دروازے کھول دیں اور جو ادیان سماوی میں اخوت اور قربت کی دعوت دیں اس کی طرف کان دھریں۔"
بلاشبہ اسلام نے تو کلمہ گو مؤمنین میں اخوت کا درس دیا ہے اور اس میں قومیت، وطنیت، وطن کی مٹّی ، اور بت پرستی کی وجہ محبت سے اور عناصر کے معیار کی طرف تو التفات ہی نہیں فرمایا ، مومن عزیز ہے اور کافر ذلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
أَفَنَجْعَلُ
ٱلْمُسْلِمِينَ كَٱلْمُجْرِمِينَ ﴿٣٥﴾ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿٣٦﴾ القلم
ترجمہ: کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کی طرف (نعمتوں سے) محروم کردیں گے؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو؟
اور یہ بھی کی:
أَمْ حَسِبَ
ٱلَّذِينَ ٱجْتَرَحُوا۟ ٱلسَّيِّـَٔاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ سَوَآءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿٢١﴾ الجاثیۃ
ترجمہ: جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہوگی۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں برے ہیں۔
اور کہا کہ:
وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ
ۗ﴿٢٢١﴾ البقرۃ
ترجمہ: مشرک مرد خواہ وہ تم کو کیسا بھلا لگے اس سے مومن غلام بہتر ہے۔
اور پھر یہ کہ:
وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ
ۗ ﴿٢٢١﴾ البقرۃ
ترجمہ: ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو ۔
اور کسی کافر کی وجہ سے مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
قَٰتِلُوا
۟ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَلَا بِٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ ٱلْحَقِّ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُوا۟ ٱلْكِتَٰبَ حَتَّىٰ يُعْطُوا۟ ٱلْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَٰغِرُونَ ﴿٢٩﴾ التوبۃ
ترجمہ: جو اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
دین اسلام ہی دین حق ہے اس کے علاوہ سب باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَإِنْ ءَامَنُوا
۟ بِمِثْلِ مَآ ءَامَنتُم بِهِۦ فَقَدِ ٱهْتَدَوا۟ ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّمَا هُمْ فِى شِقَاقٍ ۖ ﴿١٣٧﴾ البقرۃ
ترجمہ: تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں)تو وہ (تمھارے) مخالف ہیں ۔
یعنی تمہارے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں اور آپ مخالف ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ يَٰٓأَيُّهَا
ٱلنَّاسُ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِ ٱلنَّبِىِّ ٱلْأُمِّىِّ ٱلَّذِى يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَكَلِمَٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٨﴾ الاعراف
ترجمہ: (اے محمدﷺ) کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا (یعنی اس کا رسول) ہوں۔ (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو خدا پر اور اس کے رسول پیغمبر اُمی پر جو خدا پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاؤ۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا: لَا تَبْدَءُوا ‏ ‏الْيَهُودَ ‏‏وَالنَّصَارَى ‏‏بِالسَّلَامِ وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِهِ
(رواه مسلم والترمذي وأحمد)
ترجمہ: یہود و نصاریٰ کے ساتھ سلام میں پہل نہ کرو اور اگر راستے میں ان میں سے کسی کو پاؤ تو تنگی کی طرف مجبور کرو۔
اخوانیہ کا زعم باطل ہے کہ وہ شریعت مطہرہ کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن نہ تو حید کی دعوت دیتے ہیں اور نہ ہی شرک کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ بلکہ وہ تو ہر اس شخص کے لئے تعصب اور محبت اور دوستی کرتے ہیں جو صرف ان کی طرف منسوب ہو، چاہے اس کا عقیدہ باطل ہی کیوں نہ ہو۔ افغانستان میں اہل توحید جیسا کہ شیخ جمیل الرحمٰن، اہل الحدیث اور انصار السنۃ سے عداوت کرتے ہوئے انہوں نے مجددی صوفی کو اتحاد افغانی کا امیر بنا دیا جس کا یہ نظریہ ہے کہ اس پوری کائنات کو چند اقطاب ہی چلارہے ہیں۔ انہوں نے اپنے " مجلہ الجہاد" شمارہ 52 بتاریخ مارچ 1989م میں کہا کہ " بیرونی دنیا بالخصوص مغرب میں مجددی کی شخصیت بڑی مقبول ہے" اس میں تو مغربی ممالک کی مودت و محبت اور صوفیوں کو راضی کرنا ہے اور زیادہ تر انتخابات کفریہ جمہوریت کی طرف دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔
ہر واقعہ اور اور مسئلہ میں یہ اخوانی سلفیوں کی ضد میں ہوتے ہیں بلکہ ہمارے پاکستانی سلفی بھائی نے کہا کہ اگر یہ اخوانی کامیاب ہوگئے تو یہ ہمارا ہی کام تمام کردیں گے۔ اگر یہ سیکولر اور غیر مذہبی لوگ کامیاب ہوگئے تو ان سے دفاع اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہمارے پاس ہے۔ بلاشبہ سیکولر اور غیر مذہبی کم عقل لوگ، بنسبت اخوانیوں کے کم ضرر رساں ہیں۔

ذرا اس طرف بھی اپنی توجہ مبذول فرمائیے کہ ان اخوانیوں نے کیسے شیخ جمیل الرحمٰن کو قتل کرکے ان کی دعوت کو ختم کردیا اور ان کے ماننے والوں کے ساتھ وہ کچھ کیا جو کوئی دوسرا نہیں کر سکتا ۔۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
قائدین اخوان المسلمین کے چند اقوال
سوڈان میں اخوانیوں کے امیر ڈاکٹر حسن ترابی کہتے ہیں کہ " اسلامی ونگ سے منسلک ملکی اتحادہماری ایک ترجیح ہے ہم لوگ اس ملت ابراہیمی کے اصولوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس ہدف تک پہنچنا چاہتے ہیں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کو مشترکہ دینی تاریخ کا امین بناتی ہے اور عقائد وخلافیات میں یکجا دیکھتی ہے ہم دین کو کاٹ کھانے والی عصبیت سے بالا تر سمجھتے ہیں دین تو نام ہی اللہ کے نام پر باہم اخوت ویگانگت کا ہے۔
محمد غزالی اپنی کتاب ‘‘سر تأخر العرب’’ صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں : ‘‘اسلامی بیداری کو کئی ایک دشمنوں کا سامنا ہے اور بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اس کی سب سے بڑی حریف وہ سوچ ہے کہ جس نے سلفیت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے ۔
یہود ونصاریٰ سے متعلق وہ اپنی کتاب ‘‘ من ھنا نعلم’’ میں لکھتے ہیں :‘‘ تمام دینی نظریات کو یکجا کرنے کے کچھ اصول ہیں ان پر عمل درآمد سے یہودی ، عیسائی اور مسلمان سب بھائی بھائی بن سکتے ہیں ۔
وہ مزید کہتے ہیں اس کے باوجود ہم چاہتےہیں کہ ہم خود آگے بڑھیں اور اپنے قلوب اور اذہان میں دینی اخوت کو فروغ دینے والی ہر دعوت کا ساتھ دیں کہ جو تمام دینی اقدار کو اپنی ابتدائے آفرینش یعنی نسب ابراہیمی سے جوڑتا ہے۔
غزالی کہتے ہیں ‘‘ ہم صلیب اور چاند (مسلمانوں کا نشان) کے مابین اتحاد کے قیام کے خواہاں ہیں جو لوگ مصر کی عوام میں مذہبی منافرت کے داعی ہیں ان لوگوں کا تقویٰ ،خدا ترسی اور للہیت ناقابل تسلی ہے۔ ’’
یہ ہے اخوانیوں کے زعماء اور رؤوساء کی رائے جو اللہ تعالیٰ کے ان فرامین کو بھولے ہوئے ہیں۔ سورۃ بقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَإِنْ ءَامَنُوا
۟ بِمِثْلِ مَآ ءَامَنتُم بِهِۦ فَقَدِ ٱهْتَدَوا۟ ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّمَا هُمْ فِى شِقَاقٍ ﴿١٣٧﴾
ترجمہ: پھر اگر وہ اُسی طرح ایمان لائیں، جس طرح تم لائے ہو، تو ہدایت پر ہیں، اور اگراس سے منہ پھیریں، تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں ۔
اور بھول گئے اللہ کا یہ فرمان کہ:
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ
ٱلْإِسْلَٰمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى ٱلْءَاخِرَةِ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ ﴿٨٥﴾ آل عمران
ترجمہ: اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی بھول گئے کہ:
لَّقَدْ كَفَرَ
ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ ثَالِثُ ثَلَٰثَةٍ ۘ ﴿٧٣﴾ المائدۃ
ترجمہ: وہ لوگ (بھی)کافر ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تین میں کا تیسرا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لُعِنَ
ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنۢ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُۥدَ وَعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا۟ وَّكَانُوا۟ يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾ المائدۃ
ترجمہ: جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَن يَهْدِ
ٱللَّهُ فَهُوَ ٱلْمُهْتَدِى ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَٰسِرُونَ ﴿١٧٨﴾ الاعراف
ترجمہ: جس کو خدا ہدایت دے وہی راہ یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو ایسے ہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
اور سورۃ اعراف میں فرمایا:
وَرَحْمَتِى وَسِعَتْ كُلَّ شَىْءٍ
ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلَّذِينَ هُم بِـَٔايَٰتِنَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٥٦﴾ ٱلَّذِينَ يَتَّبِعُونَ ٱلرَّسُولَ ٱلنَّبِىَّ ٱلْأُمِّىَّ ٱلَّذِى يَجِدُونَهُۥ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَىٰهُمْ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّيِّبَٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ ٱلْخَبَٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَٱلْأَغْلَٰلَ ٱلَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ ﴿١٥٧﴾
ترجمہ: اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے۔ میں اس کو ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے اور زکوٰة دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں وہ جو (محمدﷺ) رسول (الله) کی جو نبی اُمی ہیں پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف)کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر)پر (اور گلے میں)تھے اتارتے ہیں۔
شیخ عبداللہ ناصح علوان اپنی کتاب " تربية الاولاد فی الاسلام" جز ء ثانی صفحہ 845-846 میں بعنوان " الشیخ المربی کے تحت اولاد کو شیخ مربی کے ساتھ مربوط" کرنے پر ترغیب دیتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنی اولاد کی تربیت کرنے اور ان کو زنادقہ کی کتب سے وابستہ کرنے کی تاکید کرتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگوں میں ابن عربی اور عبدالوھاب شعرانی کو بطور خاص ذکر کیا ۔
اس کے بعد سلفیوں کے متعلق کہتے ہیں:
" یہ لوگ ان مشائخ پر ہجوم کرتے ہیں اور ان کے تو مقام و مرتبے تک بھی پہنچ نہیں پاتے بلکہ یہ تو اپنے شبھات میں ہی غرق ہیں۔"
زاہد الکوثری اپنی کتاب " السیف الصیقل" کے صفحہ 5 پر سلفیوں ( اہلحدیثوں) پر طعن و تشنیع کرتے ہوئے کہتا ہے :
" یہ تو ناقص العقل اور فضول گو ہیں۔"
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اور ان کی کتاب کے متعلق کہتا ہے:
"یہ تو شرکیہ کتاب ہے"۔
جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہتا ہے:
" اگر یہ شیخ الاسلام ہے تو پھر اسلام کا اللہ ہی حافظ ہے۔"
ایسا شخص جو سلفیوں کا سخت مخالف اور دشمن ہے لیکن اخوان المسلمین سوریا کے بڑے ذمہ دار عبدالفتاح ابو غدہ تو اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ یہ اپنی کتاب " الرفع و التکمیل" کے صفحہ 68 پر بطور ہدیہ کہ استاذ حقیقی زاہد الکوثری الحجہ المحدث الاصولی المتکلم النظار المؤرخ الامام جیسے القاب سے ملقب کرتا ہے۔
شیخ حسن البنا 23 رجب 1366ہجری کو اسراء اور معراج کی مناسبت سے ایک تقریب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
" بعض ہندوؤں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بغیر سانس لئے خود کو چند دن کے لئے قبر میں دفن کرتے ہیں پھر چند دن گزرنے کے بعد اپنی زندگی کو ضائع کئے بغیر اس گڑھے سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ انسانی قوی ارادہ روحی ترقی اور نفس کی بلندی اس کو شفائیۃ کے اس درجہ تک پہنچا دیتی ہے۔" اس بات کو سیسی نے کتاب " قافلہ اخوان " کی جلد اول میں ذکر کیا ہے۔
اور حقیقت میں انہوں نے شیطانی شعبدہ بازی اور معجزات الٰہی میں کوئی فرق ہی نہیں کیا۔ حتیٰ کہ رسولﷺ کے آسمان کی بلندیوں کو چھونے والے معجزات کو بھی ان شیطانی بے سروپا باتوں کی قبیل سے کردیا ہے۔
9/6/1948م کو اسی مناسبت سے شیخ طریقت میر غنیۃ الختمیہ اور ان کے رفقاء کی قاہرہ آمد ہوئی ۔ سیسی کہتے ہیں کہ قاہرہ میں اخوان المسلمین کے مرکز عام کی جانب سے سید محمد عثمان میر غنی کی زیارت کی مناسبت سے ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس مجلس میں استاذ مرشد عام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
" بلاشبہ اخوان المسلمین کا گھر سعادت اور بڑی ہی انسیت حاصل کرتا ہے جب یہ پاکیزہ دل اور معزز نفوس جہادی علمبرداروں، عرب بہادروں اور قائدین اسلام کا کھلے دل سے استقبال کرتے ہیں اور ہم تو قائدین مراغنہ کے اس خالص محبت اور بے حد عزت و اکرام جس نے ہمیں ڈھانپ لیا ہے۔ اس کی بدولت تہہ دل سے شکر گذار ہیں۔"
اور مزید کہتے ہیں:
"1937م اسراء و معراج کی ایک تقریب کے لحاظ سے اسماعیلیہ میں شیخ سید میر غنی کی خانقاہ عالیہ میں حاضر ہوا جو تاحال موجود ہے اور وہاں موجود اپنے بھائی کو ابھی تک یاد کرتا ہوں۔ چنانچہ ختمی کا دل اور تائید اس دعوت کے ساتھ ہے جب سے اس دعوت کی ابتداء ہوئی ہے۔ عالی جناب سید عثمان میر غنی اور سید محمد عثمان ہی اس دعوت کے پہلے حاملین لواء میں سے ہیں اور اس پر راضی بھی تھے۔"
آغاز دین میں جو انہوں نے مساعدت جمیل فرمائی تھی اس کی بدولت اخوان المسلمین اپنے دلوں میں ان کے لیے جس محبت ،مودت اور احترام کو چھپائے ہوئے ہیں ہم اس کا اظہار کرتے ہیں۔
استاد مصطفیٰ سباعی سوریا کے اخوانیوں کے سابقہ مرشد عام کہتے ہیں کہ:
" سارا معاملہ عوام کا ہے کیونکہ وہی ہر اقتدار و حکومت کی اصل ہے۔ اس کی سیادت ہی صاحب اقتدار ہونا ہے جس کی تاسیسی کمیٹی میں مثال دی جاتی ہے اور ان کی آئینی حکومت ہوتی ہے۔ " (الجماعۃ الام- شیخ عبدالسلام نوح صفحہ 48)
اورمزید کہتے ہیں کہ:
" جمہوریت حاکمیت جمہور، آئینی بالادستی اور جمہور کے حکم پر راضی رہنے کا نام ہے۔ اگر جمہور اسلام کے مخالف بھی کسی چیز کا حکم دے تو اس کو بھی لیا جائے گا۔"
استاذ تلمسانی مصری اخوان المسلمین کے قائد کہتے ہیں:
" ہم تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے کھڑے ہونے والےافراد کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ جب میں اس بات کا خواہشمند ہوں کہ لوگ میری رائے کو اپنائیں تو اس چیز کو میں لوگوں کے لئے کیسے حرام قرار دوں جو خود کے لئے مباح سمجھتا ہوں۔ کیا یہ مناسب ہے کہ میں لوگوں اور ان کی آراء کے مابین حائل ہو جاؤں ، جبکہ خود احکم الحاکمین نے ان کو یہ حق عنایت فرمایا ہے۔ جس میں کوئی اشکال ہی نہیں۔ پس جو چاہے وہ مانے اور جو چاہے انکار کرے۔" ( صحیفہ الانباء الکویتہ عدد 12/5/1982م اور اسی طرح " مجلہ المجتمع " نے 27/5/1986م میں شائع کیا۔)
حقیقت میں آیت اس کی تہدید اور وعید میں آئی ہے نہ کہ اباحت کے لئے اور ان کا زعم باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَقُلِ
ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّآ أَعْتَدْنَا لِلظَّٰلِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ وَإِن يَسْتَغِيثُوا۟ يُغَاثُوا۟ بِمَآءٍ كَٱلْمُهْلِ يَشْوِى ٱلْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ ٱلشَّرَابُ وَسَآءَتْ مُرْتَفَقًا ﴿٢٩﴾ الکہف
ترجمہ: اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیر رہی ہوں گی۔ اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی (جو) پگھلے ہوئے تانبے کی طرح (گرم ہوگا اور جو) مونہوں کو بھون ڈالے گا (ان کے پینے کا) پانی بھی برا اور آرام گاہ بھی بری۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جمہوریت قائدین اخوانیہ کی نظر میں
جمہوریت ان چیزوں میں سے ہے جو صحیح عقیدہ اور منہج سلیم کے منافی ہے۔ اور یہ شرک حاکمیت کی اصل جڑ ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ حکم عوام کا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا یعنی اختیار کی اصل وہی ہے خواہ شریعت اسلامیہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور اس میں جمہور کو ہی حاکم بنایا جاتا ہے اور غیر اللہ کو قانون سازی کا حق دیا جاتا ہے ۔ اخوانیوں کی کثیر تعداد اس کی تائید کرتی ہے۔
ان کا مرشد عام استاذ حامد ابو النصر کہتا ہے:
" ہم ایسی جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں جو کہ مکمل ہو اور سب کو شامل کر لے ۔" (مجلہ العالم عدد21/6/1986م)
یہ ہیں اخوان المسلمین جو مصر اور اسکے علاوہ دیگر علاقوں میں اس کفریہ نظام کامطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
عصام الریان کہتا ہے کہ:
" سب سے پہلے ہم نے ہی جمہوریت کا مطلبہ کیا اور ہم نے ہی اس کی تطبیق کا مطالبہ کیا۔" ( مجلہ لواء الاسلام عدد8، السنہ 45، بتاریخ 20/10/1990م)
مجلہ المجتمع الکویتیہ شمارہ 768 بتاریخ 27/5/1986م کے آرٹیکل میں بعنوان " کویت میں حق جمہوریت اختیار شدہ ہے یا ایک عطیہ" کے تحت اخوانیوں کا زبان حال ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:
" کویتی عوام کی حکومت میں مشارکت کوئی تحفہ یا عطیہ نہیں بلکہ متفق علیہ اختیار شدہ تھے۔
بلاشبہ رسولﷺنے سچ فرمایا کہ :
"اندھیری رات کی مانند فتنے آئیں گے کہ آدمی صبح تو اسلام کی حالت میں کرے گا اور شام کفر کی حالت میں۔ شام کو تو مسلمان ہوگا اور صبح کو کافر ہو چکا ہوگا، تھوڑے دنیاوی فوائد کی خاطر اپنے دین کو بیچ ڈالے گا۔"
ان اخوانیوں میں سے کئی ہیں جو داڑھی کو چھوڑنے، لباس میں کفار سے عدم موافقت کرنے اور چھوٹے لباس پہننے پر مذاق کرتے ہیں۔ یہ علوم شرعیہ سے بے رغبت ہیں اس لیے کہ یہ لوگ حقائق کو علم کلام اور فلسفہ کی مدد سے مسخ کردیتے ہیں اور اسے نغمہ آرائی اور سحر بیاں سے تبدیل کردیتے ہیں اور تقلید کفار کرتے اور سلفی اہل السنہ اور ٹھوس منہج کی مخالفت کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ
ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا ﴿١١٥﴾ النساء
ترجمہ: اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالف کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن)جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔
رافضی شیعہ کی تائید میں یہ بات بھی ہے جو اخبار "الصباح الجدیدۃ" جو اخوانیوں کی جانب سے جامعہ خرطوم سے شائع ہوتا ہے ، میں بتاریخ 17/2/1982م میں نشر ہوئی تھی:
" ابتدائی نصرت کے ساتھ۔ خلیجی مشائخ جو ڈالر کے عوض خمینی کے خلاف فتوے صادر کرتے ہیں۔" ( ڈالر کا اسلام حقیقی اسلام کے منافی ہے) ایرانی اسلامی حکومت کے خلاف مغربی میڈیائی پروپیگنڈا کہاں واقع ہے یہ بات بھی معروف ہے اور اگر کمیونسٹ اس کی مخالفت کریں تو بھی یہ طبعی امر ہے لیکن یہ خلیجی شیوخ دینی چھتری کے تحت اس کی کیوں مخالفت کرتے ہیں۔
" اور دوسری عبارت میں اس کا معنی ہے کہ " اسلام، اسلام کی ضد ہے۔ دوسروں کے سہارے رہنے والوں کا اسلام، جہادی اسلام کے برعکس۔ ریال کا اسلام حقیقی اسلام کے منافی ہے۔ تاریک پسندوں کا اسلام اس اسلام کے خلاف ہے جو مجاہدین کی محبت الہی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ان کی دلی تمنا ہے کہ یہ ایرانی انقلاب رائیگاں ہوجائے اور یہ خلیجی مشائخ اپنے امیر المومنین کی قیادت میں اسلام کی بہترین راہ پر گامزن ہوجائیں۔"
محترم قارئین ! ان اخوانیوں اور سروریوں ( جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے) کے افکار و نظریات کی وجہ سے دہشتگردی، تکفیر، حکومت کے خلاف خروج، کسی بات پر کان نہ دھرنا، معروف میں ان کی اطاعت نہ کرنا، انقلابات، بغاوتیں، فتن، شورشیں، ہنگامہ آرائیاں اور تخریب کاریاں ہورہی ہیں۔ چنانچہ ہم سلفیوں پر یہ لازم ہے کہ سلف صالحین کے منہج کو واضح کریں، لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیں، فتنوں سے دور رہیں اور اولی الامر جن کی وفاداری کا عہد کیا ہے ، کی اطاعت کریں اور کبار علماء کا احترام بجا لائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَٰٓأَيُّهَا
ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾ النساء
ترجمہ: مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے۔
اخوانی ، تبلیغی اور سروری جماعت وغیرہ کے کئی لوگوں سے اگر آپ اس جماعت بازی کے بارے میں پوچھو گے تو وہ اس کی بالکل نفی کردیں گے اور کہیں گے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ باوجود اس کے کہ فکر اور تربیت و تنظیم بالکل ان جیسی ہیں۔ یہ ان سے الگ نہیں خواہ وہ ان سے عدم تعلق کا دعویٰ ہی کریں۔ ان منحرفہ جماعتوں کی منصوبہ بندی مختلف ہونے کے باوجود بھی سارے سلفیوں سے بغض و نفرت کرنے میں متحد و متفق ہیں ۔ اخوانیوں اور سروریوں کے ان خادموں کی اکثریت سعودیہ اور خلیج میں ہے۔
نوجوانو! ان جماعتوں سے اجتناب کروتو جن کی حکومت سعودیہ قطعاً اجازت نہیں دیتی اور سلفی اہل سنت و جماعت اور علماء توحیدکے منہج کو اختیار کرو۔ یقیناً منہج سلیم اور صحیح عقیدہ کو چھوڑنے سے عقل کمزور اور بگاڑ کا شکار ہو جاتی ہے۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے سچ فرمایا تھا کہ " ہمارا ایک عام آدمی تمہارے ایک ہزار علماء پر بھاری ہے۔"
فرامین الٰہی ہیں:
إِنَّ
ٱلشَّيْطَٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَٱتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُوا۟ حِزْبَهُۥ لِيَكُونُوا۟ مِنْ أَصْحَٰبِ ٱلسَّعِيرِ ﴿٦﴾ فاطر
ترجمہ: شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ اپنے (پیروؤں کے) گروہ کو بلاتا ہے تاکہ دوزخ والوں میں ہوں۔
فَقُلْنَا يَٰٓ
ـَٔادَمُ إِنَّ هَٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ ٱلْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰٓ ﴿١١٧﴾ طہ
ترجمہ: ہم نے فرمایا کہ آدم یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے تو یہ کہیں تم دونوں کو بہشت سے نکلوا نہ دے۔ پھر تم تکلیف میں پڑجاؤ۔
وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ
ٱلرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُۥ شَيْطَٰنًا فَهُوَ لَهُۥ قَرِينٌ ﴿٣٦﴾ وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ ٱلسَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٣٧﴾ زخرف
ترجمہ: اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرکے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے اور یہ (شیطان) ان کو رستے سے روکتے رہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیدھے رستے پر ہیں۔
سروریوں کے متعلق گفتگو تو ایک خاص مکمل لیکچر کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ بھی ان مدارس میں ہے جن کی طرف ہمارے نوجوانوں کو توجہ نہیں دینی چاہیئے۔ ان کی صفات میں سے یہ ہے کہ یہ لوگ بغاوت و انقلاب، حکمرانوں سے بغض و دشمنی، ان سے مقابلہ آرائی اور لوگوں کو ان کے خلاف اکٹھا کرنے کی دعوت دیتے ہیں، جیسا کہ اس جماعت کا بانی اس بات میں معروف ہے۔ اُس کو کویت اور سعودیہ وغیرہ سے جلاوطن کردیا گیا ہے۔ اکثریت جو اس کے طریقہ کار پر ہے یا تو وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں یا جانتے ہی نہیں، واللہ المستعان ہم اپنے نوجوان ساتھیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کو نصیحت و تاکید کرتے ہیں کہ وہ ان علماء کی درگاہ کو اختیار کرلیں جو سلف صالحین کی روش پر عمل پیرا ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سروری
اس گروہ کا مؤسس و بانی اخوانیوں سے الگ ہونے والا ایک نوجوان ہے جس نے بلاد عربیہ سے جلا وطن ہونے کے بعد باہر ملک میں سکونت اختیار کی۔ یہ ایسی جماعت ہے جس کی تربیت و تنظیم اور قیادت فکری ہے۔ سعودیہ اور کئی عرب ممالک میں ان کے ادارے ہیں۔ اس میں شامل ہونے کے لئے اخوانیوں کی طرح کسی بیعت، قسم نامہ یا ولاء و براء کے اعلان کا مطالبہ نہیں ہوتا۔ سروریہ اپنے بانی کی طرف منسوب ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مفکر اسلام ہے۔ اس کے علاوہ اس کے ماننے والے اس کی مدح سرائی میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ پہلے اس کی ابتداء سعودیہ سے ہوئی۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے کہ ان کے مؤسس و بانی نے سلفی عقیدہ او ر اخوانی فکر کو جمع کردیا۔ اس طرح سعودیہ میں یہ کئی فلاحی انجمن اور دینی پلیٹ فارم تک پھیل گئی۔ اس کے ماننے والوں کے لئے سعودیہ میں بہت بڑی فکری سرگرمیاں ہوگئیں اور سعودیہ کے باہر جماعت کے اراکین کا خیال تھا کہ وہ اصلاح و بہبود اور تجدید چاہتے ہیں۔
حکومت کے خلاف خروج، اس سے محاذ آرائی کرنے اور سختی کا برتاؤ کرنے اور اصلاح و انتخابات میں مبادی چیزوں کا فہم حاصل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کی فکر تاسیس اسلام ہے اور الحاد و جدت کی سختی سے مخالفت کرنا ہے۔ داخلی افکار و نظریات کو فکر اسلامی کے سانچے میں ڈھالنا ہے ( جیسا کہ ان زعم باطل ہے)۔
اور اسی طرح انہوں نے کئی حساس اداروں پر بھی اپنا قبضہ جما لیا اور کئی فلاحی ادارے، ذرائع ابلاغ ، مساجد، مدارس خطب، لیکچرز انکے زیردست رہے۔یہی فکر کویت میں سلفیہ علمیہ کے نام سے پھیلی اور ایک خاص صفت کے ساتھ وہ برسرپیکار تھے جس کا انہوں نے جامیہ نام رکھا۔ اور یہ متحدہ عرب امارات ، مصر، یمن اور الجزائر کے جہاد وغیرہ سب میں موجود ہے۔
لیکن اس کا مؤسس اس تنظیم حرکی کا انکار کرتا ہے جو کہ اس کا نام لئے ہوئے ہے۔ جیسا کہ اس کا خیال ہے کہ کویت پر عراقی حملے اور عراق میں امریکی دخل اندازی ان کے مؤقف کے خلاف ہے۔اور اس کو وہ قطبین سے موسوم کرتے ہیں اور اپنی اس فکر کو اسلامی غزو سے تعبیر کرتے ہیں۔
ان کا بانی السنۃ کے نام سے موسوم ایک مجلہ شائع کرتا ہے۔ اور ان کا برطانیہ میں دراسات السنہ النبویہ کے نام سے مرکز ہے۔ اس کا بانی ایک خاص طریقے سے سعودی حکام کی مخالفت کرتا ہے بلکہ ان کے بعض رموز و اشارات کی تو تکفیر کی ہے۔ یہ لوگ تکفیر انتہاپسندی اور سختی کی طرف مائل ہیں اور سیاست، عام معاملات اور ان کے زعم کے مطابق اصلاح آشتی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے بعض متبعین تو جانتے بھی نہیں کہ وہ سروری ہیں اور وہ شیعہ، ایرانی اقتدار، سعودی سیاست اور امریکی قبضہ کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔
شیخ مقبل الوادعی ؒ اپنے ایک رسالہ جو کہ بنام شیخ عبیداللہ العبیلان تھا جب ان سے سرور نے دماج مقام پر دو یا تین مرتبہ ملاقات کی اور کہا کہ ہم آپ سے کچھ نہیں چھپاتے بلاشبہ ہم ایک جماعت ہیں اور ہم ہر مسلمان سے دوستی و محبت کرتے ہیں اور ہم میں کسی قسم کا کوئی تعصب نہیں ہے۔ تو شیخ وادعیؒ نے شیخ عبیداللہ کو فرمایا کہ " ان سے اجتناب برتو اور اپنے طلبہ کو ان تمام جماعتوں سے بچنے کی تنبیہ کرو۔ یہ فکر و دعوت کی جماعت ہے جس کا ایک نظام ہے۔"
حقیقت میں سروری اس اصل کی مخالف ہے جس پر مملکۃ العربیہ السعودیہ کا وجود قائم ہے کہ شریعت کے مطابق فیصلہ اور تمام تنظیموں اور جماعتوں سے اعلان جنگ کرنا ہے۔ سروریوں کی اصل تو اخوان المسلمین ہی ہیں لیکن انہوں نے عقائد امام محمد بن عبدالوہاب سے لینے کا تاثر دیا ہے اور انکی تنظیمی علامات، شخصی دعوت، ان کے ادارے ہیں اور ممکن ہے کہ ان کا پھیلنا سلفی دعوت کے سکڑ کا سبب ہو جس کا جھوٹ اور بہتان باندھتے ہوئے وہابیہ نام رکھا گیا۔ سیاسی حرکی تنظیم انہوں نے اخوان المسلمین سے اخذ کی ہے بزعم ان کی یہ جماعت سلفی اور اخوان سے مخلوط ہے ۔ اور یہ سروری رجحان عصر حاضر میں مملکۃ العربیہ السعودیہ میں کثرت کی مثال دیتی ہے۔
بہرحال ان جماعتوں کو ہم قطعاً پسند نہیں کرتے ۔ ہم سلفی ہیں اور دعوتی اور منہجی اعتبار سے ہم نبی اکرمﷺ کے پیروکار ہیں۔ ہم پر واجب ہے کہ اپنے نوجوانوں کی اصلاح کریں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
نام نہاد جامیہ
یہ نام نہاد مدرسہ شیخ محمد بن امان الجامی ؒ کے نام پر ظلم اور عداوت کرتے ہوئے رکھا گیا ہے۔ اس لیے کہ شیخ تو حکام کے خلاف ہرزہ رسرائی نہیں کرتے تھے اور اچھائی میں ان کی اطاعت کا حکم دیتے تھےاوراپنے عقیدے اور منہج میں سلفی ہیں اگرچہ ان سے بعض مسائل اور طریقہ دعوت میں تسامحات رونما ہوئے ہیں۔ ان کی اچھائیوں میں سے یہ ہے کہ وہ دعاۃ کی غلطیوں کو واضح کرتے ہوئے باغیوں اور شرپسند، اخوانیوں، سروریوں اور تبلیغیوں کی خطاؤں کا پردہ بھی چاک کیا جب کہ اکثریت اس پر خاموش تھی۔ جب کئی لوگوں پر التباس ہوا تو انہوں نے عقیدہ اور منہج کی توضیح فرمائی۔ جب بھی یہ کسی منہجی مسئلے میں کسی سے اختلاف کرتے ہیں تو الا ماشاء اللہ حق ان کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے بہت بڑا فائدہ دیا۔ چنانچہ حق کی توضیح ، فرقہ منحرفہ کا دلائل و براہین کی مضبوط ضربات سے قلع قمع فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے بعد یہ نہ ہوتے تو اہل توحید کا منہج ان بلاد اسلامیہ میں ختم ہو چکا ہوتا جس پر ان کا قیام ہے۔ اخوان المسلمین، تبلیغیوں اور باغی جماعتوں کی خطاؤں کو بیان کیا۔ لوگوں کے سامنے اہل حدیث کے فضائل ذکر کئے۔ اخوان المسلمین کے قائدین کی شرکیات اور بدعت و خرافات سے لوگوں کو آگاہ کیا اور مسلم حکمران کے گرد جمع ہونے کی اہمیت بیان کی۔
شیخ محمد بن امان الجامیؒ کی تو کبار علماء کی جماعت نے بھی تعریف اور مدح بیان کی ہے جیسا کہ شیخ ابن بازؒ ، شیخ صالح اللحیدان ، شیخ صالح فوزان اور عبدالمحسن العباد وغیرہ ہیں۔ شیخ ابن بازؒ سے جب حاضرین مجلس میں سے کسی نے سوال کیا کہ جامیہ تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو نصیحت فرمائیں کہ وہ ایک خطرناک فرقہ ہے ، تو شیخ نے فرمایا " کیا اس سے ان کی مراد شیخ محمد بن امان جامیؒ پر تمہت لگانا ہے تو یہ سائل بڑی غلطی پر ہے۔ حق بجانب بات ہے کہ شیخ محمد بن امان جامیؒ ، شیخ ربیع بن ہادی المدخلی اور مدینہ کے سارے سلفی مشائخ ہمارے نزدیک علمی مرتبہ اور عقیدہ سلیم سے معروف ہیں اور میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان کی کتابوں سے استفادہ اور ان مشائخ سے علم حاصل کریں۔ اور جس نے بھی ان کے متعلق کہا کہ وہ جامیہ ہیں تو اس سے پہلے ان کے اسلاف بھی گذرے ہیں ، جب انہوں نے کہا کہ ہم وہابی ہیں۔ چناچہ ہم ان لوگوں کے فہم کے مطابق کہتے ہیں کہ ہم وہابی ہیں بلکہ ہم سارے ہی جامی ہیں کیونکہ ایک اصطلاح ہے جسے جاہل لوگوں نے ایجاد کیا ہے جس سے ان کا مقصد شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت پر طعن و تہمت کرنا ہے۔ ہم سارے ہی جامی وہابی ہیں کیونکہ ہم سلفی ہیں ( ان شاء اللہ)
اسی طرح شیخ ابن بازؒ نے ایک کتاب میں ان کے متعلق فرمایا کہ " محمد بن امان الجامی ہمارے نزدیک علمی قابلیت، فضل ، حسن عقیدہ دعوت الی اللہ میں کوشاں رہےاور بدعات و خرافات سے ڈرانے اور تنبیہ کرنے کے لحاظ سے معروف ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، وہ ہمارے مخلص بھائیوں میں سے ہیں اور علماء اہل السنہ میں سے ہیں۔ ان سے علمی استفادہ کرنے کی میں نصیحت کرتا ہوں۔" ( منقول لہ من شریط: الاسئلہ السویدیہ ج 2)
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
" شیخ محمد بن امان الجامی ان شاذ و نادر علماء میں سے ہیں جنہوں نے اپنے علم اور تمام تر جہود لوگوں کو نفع پہنچانے اور ان کو اپنی دعوت کے ذریعے بصیرت و دانائی کے ساتھ خلاق حقیقی کے قریب کرنے میں صرف کردیں ۔ انہوں نے جامعہ اسلامیہ اور مسجد نبوی میں دوران تدریس اور اپنے بیرونی اسلامی ممالک اور سعودیہ کے مختلف مقامات کے دوروں میں دروس اور لیکچرز فرماتے ہوئے توحید الٰہ العالمین کی طرف دعوت اور صحیح عقیدہ کی تشہیر اور ملت کی نوجوان نسل کو منہج سلف صالحین کی طرف متوجہ کرنے اور ان کو تباہ کر دینے والے اصول، گمراہ کن دعوتوں سے خبردار کرتے ہیں۔ جس کے پاس ان کا مکمل ذاتی تعارف نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ ان کی کتب اور کیسٹ وغیرہ جو ان کے وافر علم اور نفع کثیر کی متضمن ہیں ، سے رجوع کرے۔ وہ ہمارے بھائی اور دوست ہیں انہوں نے جامعہ اسلامیہ سے سند فراغت حاصل کی اور اس کے بعد بطور استاد وہیں اپنی خدمات انجام دیں اور مسجد نبوی میں بطور داعی ان کا تقرر ہوا حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ان میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتےاور ہم اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ جامیہ کے نام سے ایسی کوئی جماعت کا وجود نہیں تھا بلکہ یہ تو ان پر افتراء پردازی کی گئی ہے۔ کیونکہ وہ توحید کے داعی، بدعت اور گمراہ کن افکار و نظریات سے روکتے ٹوکتے تھے غالبا اسی وجہ سے یہ لوگ شیخ کے مخالف ہیں او ر اس نام سے ان کو ملقب کرتے ہیں۔
شیخ صالح اللحیدان حفظہ اللہ ان کے متعلق فرماتے ہیں:
" میں ان کو جانتا ہوں کہ وہ ایک نیک طبیعت و سلفی العقیدہ آدمی ہیں۔ دوران تعلیم اور اس کے بعد بھی وہ ہمارے دوستوں میں سے ہیں۔ جہاں تک میں ان کو جانتا ہوں وہ عقیدہ اہل توحید کے حامل ہیں۔"
شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ مدرس مسجد نبوی ان کے متعلق فرماتے ہیں:
" میں شیخ محمد بن امان الجامی کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ معہد العلمی ریاض میں بطور طالب علم تھے اور اس کے بعد جب وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ثانویہ پھر کلیہ کے استاد مقرر ہوئے لہذا ہم ان کو ان کے حسن عقیدہ اور فکر سلیم کی وجہ سے جانتے ہیں ۔ اور یہ بات بھی معروف ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں ، دروس اور محاضرات میں منہج سلف کے مطابق عقیدہ توحید بیان کرنے اور بدعات سے ڈرانے کا بہت اہتمام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی مغفرت اور رحمت کا مینہ برسائے اور ان کو بہت بدلہ عنایت فرمائے۔"
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
"شیخ محمد بن امان الجامی تو ایک مومن ، مؤحد، سلفی، فقیہ فی الدین اور علوم عقیدہ کو مضبوطی سے تھامنے والے تھے۔ عقیدہ پیش کرنے میں ان کا کوئی مثیل نہیں دیکھا کیونکہ انہوں نے ہمیں ثانویہ میں عقیدہ واسطیہ اورعقیدۃ الحمویہ پڑھائی تھی۔ چنانچہ اس سے بڑھ کر میں نے کسی فیاض کو نہیں دیکھا اور نہ ہی اپنے تلامذہ کو سمجھانے میں کوئی بڑا پایا۔ اس سے افضل کسی کو نہیں جانتا۔ ہم ان کو عمدہ اخلاق، تواضع ، انکساری اور سنجیدگی کے لحاظ سے جانتے ہیں جن سے اخلاق سیکھا جاتا ہے۔ "
شیخ صالح بن عبداللہ سابق مدیر جامعہ اسلامیہ فرماتے ہیں :
" شیخ محترم محمد بن امان الجامی مدرس مسجد نبوی ، جن کی کئی مشائخ نے مدح بیان کی ہے۔ جن میں شیخ عمر فلاتہ مدرس مسجد نبوی اور شعبہ حدیث کے مدیر، شیخ محمد محمود الوائلی مدرس مسجد نبوی، جامعہ اسلامیہ، کلیہ دراسات علیا و بحث علمی (تحقیق)، شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالرحمن الخمیس مدرس جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ بالریاض اور شیخ داعی کبیر محمد بن عبدالوہاب مرزوق البناء وغیرہ کے علاوہ بہت سارے ہیں۔"
 
Top