تبلیغی جماعت اس اعتبار سے بڑی مظلوم جماعت ہے کہ وہ کسی کی بات کا جواب نہیں دیتی خاموشی سے اپناکام کئے جاتی ہے،خدانے اس کے کام میں بڑی برکت اور تاثیر عطاکی ہے، چنانچہ لاکھوں کروڑوں افراد کی کایاپلٹ ہوئی، اس سے دشمنان دین کی نیند اڑے تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جب کتاب وسنت کے نام نہاد داعیان بھی انہی دشمنان دین واسلام کی طرح بے چین وبے قرار ہوکر تبلیغی جماعت پر ہرقسم کا اتہام لگاتی ہے تو یہ مجمع البحرین کا یہ اجتماع دیکھنے سے تعلق رکھتاہے،میں تبلیغی جماعت کا نہ کوئی ذمہ دار اورنہ کوئی اتھارٹی ،ہاں اس سے محبت رکھنے والاضرورہوں!اس لئے بے بنیاد اتہامات کے جوابات دیئے جارہے ہیں۔
زیرنظر اقتباس ہے کہ تبلیغی جماعت کے رئوساکسی ایک کی بیعت کولازمی قراردیتے ہیں، کس تبلیغی جماعت کے رئیس نے یہ بات کہی ہے کہ کسی ایک کی بیعت لازمی ہے،ذرا مضمون نگار حوالہ کے ساتھ نقل کرے ۔بیعت کی اہمیت ،اس کو بہتر سمجھنا ،علیحدہ امر ہے اوربیعت کو لازمی قراردیناالگ مسئلہ ہے،جولوگ اتنابھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ بھی فضیلۃ الشیخ بن جایاکرتے ہیں۔
ورنہ عالم سے اگرمراد قران کے مطابق خوف خدارکھنے والاعالم ہے تو وہ ماشاء اللہ کم نہیں ہوتے
زیر نظر مضمون میں جھوٹ کی اتنی کثرت ہے کہ مضمون نگار پر لاحول پڑھنے کو جی چاہتاہے،اگرکتاب وسنت کی پیروی کانام جھوٹ بکناہے تو مضمون نگار نے بالکل صحیح کام کیاہے لیکن اگر کتاب وسنت میں جھوٹ کی مذمت وارد ہوئی ہے (جوکہ یقینی ہے)اس کے باوجود کتاب وسنت کانام لے کر کسی جماعت کے خلاف بے بنیاد باتیں کہی جائیں تواس سے بڑاجھوٹا کون ہوگا۔جن کے رؤساء کسی ایک کی بیعت کو لازمی قرار دیتے ہیں
زیرنظر اقتباس ہے کہ تبلیغی جماعت کے رئوساکسی ایک کی بیعت کولازمی قراردیتے ہیں، کس تبلیغی جماعت کے رئیس نے یہ بات کہی ہے کہ کسی ایک کی بیعت لازمی ہے،ذرا مضمون نگار حوالہ کے ساتھ نقل کرے ۔بیعت کی اہمیت ،اس کو بہتر سمجھنا ،علیحدہ امر ہے اوربیعت کو لازمی قراردیناالگ مسئلہ ہے،جولوگ اتنابھی سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ بھی فضیلۃ الشیخ بن جایاکرتے ہیں۔
فضائل اعمال میں شرکیہ امور ہیں اور حیات الصحابہ میں جھوٹے قصے ہیں توپھر انہوں نے عربوں کیلئے حیاۃ الصحابہ کیوں مختص کیا،سوال یہ ہے کہ کتنی حدیث کی کتابیں ہیں جن میں جھوٹی روایتیں ہیں سب کو دریابرد کردیاجائے،صرف سند کا ذکر کافی نہیں،کیونکہ ان کتابوں کے مولفین نے یہ کہیں نہیں کہاکہ ہم نے سند ذکر کردی ہے لہذا اگرکوئی روایت موضوع ملتی ہے تواس کی چھان بین کرلی جائے، یہ تو بعد کے علماء نے ان کیلئے عذرتراشاہے،لہذا نزلہ صرف حیاۃ الصحابہ پر کیوں،جن کتابوں سے حیاۃ الصحابہ والے نے یہ جھوٹے واقعات اپنی خواہش کے مطابق اخذ کئے ہیں ان کو کیوں نہ نذرآتش کردیاجائے اوراگربس چلے توان کے مولفین کوبھی۔اسی طرح انہوں نے حیاۃ الصحابہ کو بھی بطور نصاب مقرر کیا ہوا ہے جس کے جھوٹے قصے میں ان کی خواہشات کے موافق ہیں
جب ایک میں شرکیہ امور ہیں اور دوسرے مین جھوٹے قصے تو پھر عربوں اورعجمیوں میں فرق کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، اس سے غیرمقلدین کے اس زعم باطل کا بھی دفعیہ ہوگیا کہ عربوں سے فضائل اعمال کو چھپاناچاہتے ہیں ،ایک زمانہ میں تو غیرمقلدین کا دعویٰ تھاکہ یہ تبلیغی دیوبندی لوگ کبھی بھی فضائل اعمال کا عربی ترجمہ نہیں کریں گے ورنہ ان کی حقیقت عرب دنیا کے سامنےظاہر ہوجائے گی،اب جب کہ فضائل اعمال کا عربی ترجمہ ہوگیاہے تویہ غیرمقلدین پھر کسی نئے دعویٰ کی تلاش میں ہیں۔بے حیاباش ہرچہ خواہی کن۔یہ بات قابل غور ہے کہ خطہ عرب کے لیے حیاۃ الصحابہ اور غیر عرب خطوں میں اپنا وضع کردہ تبلیغی نصاب پڑھاتے ہیں
تبلیغی جماعت نے کب دعویٰ کیاہے کہ وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا کورس یاام القریٰ کا کورس چلارہی ہے، کب اس نے یہ کہاہے کہ وہ عالم وفاضل کا نصاب اپنے چلوں میں پڑھارہی ہے، یاتبلیغی جماعت نے کب منع کیاہے کہ اس کے ارکان علم دین حاصل نہ کریں، کس رکن کو اس نے عالم وفاضل بننے سے روکاہے، تبلیغی جماعت کے چھ نمبروں میں سے تیسرانمبر علم کا ہی ہے۔ مضمون نگار کے پاگل پن پر حیرت ہے کہ بلاسوچے سمجھے جومنہ میں آیابک دیا،کچھ تو خوف خداہوناچاہئے۔عقیدہ سلیم کے حامل لوگوں کے علاوہ اگر ان کے ساتھ دس سال بھی رہو تو بھی علم شرعی سے کورے کے کورے ہی رہوگے۔
پاکستان کے بارے میں کچھ کہنامشکل ہے لیکن تبلیغی جماعت کے مزاج ومذاق سے یہ بات میل نہیں کھاتی ،ہم نے تودیکھاہے کہ تبلیغی جماعت کے ارکان نے مسجد بنائی،اس پر بریلوی قابض ہوگئے توبھی رفع شر اورمسلمانوں میں یکجہتی کے خیال سے تبلیغی جماعت والے اپنے حق سے دستبردار ہوگئے،مضمون نگار کو چاہئے کہ وہ اخباری حوالہ جات کے ساتھ اپنے دعویٰ کو مدلل کرے ورنہ یہ اس کاایک اورجھوٹ ہی سمجھاجائے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں اہل حدیث کی مساجد کو مسمار کردیا ۔ یہ اہل استعمار کے آلہ کار ہیں اس وجہ سے ان کو چین میں اور یہود و نصاریٰ کے پاس آنے جانے کی کھلی چھٹی ہے۔
عالم سے اگرمراد کریلانیم چڑھاسلفی عالم ہے تو یہ بات صحیح ہے،،ہاں اگر عالم سے مراد یہ ہے کہ دنیابھر میں صرف ایک مخصوص مسلک ،ٹیگ اور شناخت کے لوگ ہی عالم ہیں تب بھی مضمون نگار کی یہ بات صحیح ہے۔ان کو ماننے والے اکثر و بیشتر جاہل ہی ہوتے ہیں جو سلف صالحین کے منہج سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ عالم تو شاذ و نادر ہی کوئی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔
ورنہ عالم سے اگرمراد قران کے مطابق خوف خدارکھنے والاعالم ہے تو وہ ماشاء اللہ کم نہیں ہوتے
چارماہ کا ذکر بڑی بلاغت لیے ہوئے ہے، اگر چارماہ سے یہ مراد ہے جیساکہ حضرت عمر کے واقعہ میں ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ایک واقعہ سے متاثر ہوکر پوچھاکہ عورت مرد کے بغیر کتنے دنوں تک رہ سکتی ہے تو انہوں نے چارماہ کا جواب دیا،اگریہی مراد ہے توپھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اورام لقریٰ یونیورسٹی میں سالہاسال لگانے والوں کے متعلق کیاارشاد ہوتاہے؟پھر ان محدثین کے متعلق کیاارشاد ہوتاہے جو طلب حدیث میں سالہاسال کیلئے نکل جاتے تھے،ہم اگرعرض کریں گے تو شکایت ہوگی توبہتر یہی ہے کہ ایسی باتیں زبان پر نہ لائیں جس کی وجہ سے ایسی باتیں سننی پڑیں، ہے یہ گنبد کی صداجیسی کہوویسی سنواپنی اولاد کو بغیر کسی توجہ اور خیال کے لمبی مدت کے لئے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جو چار ماہ سے زیادہ ہوتی ہے بلکہ کچھ تو اپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں تاکہ اس نام نہاد دعوت کے لئے مکمل فارغ ہوجائیں اور ہر وقت سفر میں ہی رہتے ہیں
تین چار افراد کا ذکر کرکے کروڑوں کی آبادی پر حکم لگانے کی فقاہت غیرمقلدوں کوہی مبارک ہو، قرآن پاک میں ہم نے پڑھاہے کہ یہودونصاری کی سازش تھی کہ صبح اسلام لائیں اورشام کو پھرجائیں اوراس طرح اسلام کو بدنام کریں،ایسے لوگ ہرزمانہ میں رہے ہیں اوررہیں گے ،ان چارپانچ یادس بیس یاسودوسو لوگوں سے تبلیغی جماعت کے خراب ہونے پر استدلال کرنا اورلاکھوں کروڑوں لوگوں کے تبلیغی جماعت سے جڑے ہونے پر خوبیوں پر دلیل نہ پکڑناخواہش نفس کی اچھی مثال ہے ۔ان میں شمری، سبیعی، سعد الحصین اور شرقاوی وغیرہ جیسے کئی مشائخ قابل ذکر ہیں۔
یہ بھی تبلیغی جماعت پر اتہام ہےکہ انہوں نے قتال بالسیف کا انکار کردیاہے،دین کی نشرواشاعت کیلئے نکلنایقینافی سبیل اللہ کاکام ہے،لیکن جہادبالسیف کو تبلیغی جماعت والے نہیں تسلیم کرتے،یہ ان پر بہتان اورجھوٹی الزام تراشی ہے جس کا مضمون نگار کو عنداللہ جواب دیناپڑے گا۔جہاد کی ترغیب وتشجیع توتقریباً نصف قرآن نے دی ہے جبکہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے ساتھ تبلیغ میں نکلنا ہی اصل جہاد ہے۔
جیسے مضمون نگار جھوٹاہے،ویسے ہی اس کا معتبر آدمی ہوگاکیونکہ جیسی روح ویسے فرشتے،بعض مساجد بول دو ،اوریہ نہ بتائو کہ کہاں ایساہوتاہے تاکہ نہ کوئی ان کے جھوٹ کی تحقیق کرسکے اورنہ تفتیش کرسکے ،یہ تو غیرمقلدوں کا حربہ ہے کہ مجمل بات مجمل کلام،کتاب وسنت کا مجمل نعرہ اورتفصیل میں سب کچھ ہباءامنثورا،ہمیں ایک معتبر آدمی نے بتایا کہ ان کی بعض مساجد میں قبریں ہیں ۔ اپنے زعم کے مطابق ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ ان سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے ، کافی دیر تک ان قبروں کے سامنے خاموش کھڑے رہتے ہیں۔ تو یہ شرک کی اقسام میں سے ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ کچھ تو یہ کام جمعرات کو کرتے ہیں اور اس کا نام "روحانیت کا الہام " رکھتے ہیں کہ اس عقیدے کے ساتھ وہ ان کو نفع دیں گے۔ یہ ہی اصل شرک ہے۔
مضمون نگار نے لکھاہے کہ باطل منہج کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کتنے ہی لوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑدیا،سوال یہ ہے کہ کیاکسی جماعت سے کسی فردیاافراد کا ترک تعلق کرنااس جماعت کے غلط ہونے کی دلیل ہے،اگریہی سب سے بڑی دلیل ہے تو کیاارشاد ہوگااگرکچھ لوگ سلفیت ترک کردیں ،یہ بھی مضمون نگار کا نراجھوٹ اوردعویٰ ہے کہ سلفیت کسی نے ترک نہیں کی، نہ جانے کتنے سلفی مرزائی اورکتنے چکرالوی بن گئے،لیکن مضمون نگار مرغ کی ایک ٹانگ کی مثل اپنی بات پر اڑاہے ،اگراندھے کو دن دوپہر میں کچھ دکھائی نہ دے تواس سے یہ کہاں لازم آیاکہ دوسرے بھی اپنی آنکھیں پھوڑڈالیں گے۔ایعمی العالمون عن الضیاءان کے باطل منہج کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کتنے ہی لوگ جو ان کے ساتھ تھے، چھوڑگئے۔ لیکن اس کے برعکس آپ نے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا ہوگا جس نے سلفی منہج یعنی احکام کا استنباط کرنے والے کبار علماء کے منہج کو خیر باد کہا ہو۔
یہ غیرمقلدوں کاپراناحربہ ہے ،تبلیغی جماعت سے لوگوں کو بدظن کرنے کا،یہ بعینہ روشن خیالوں کا طریقہ کار ہے جو مدارس پر الزام لگاتے ہیں کہ وہاں سے سائنسداں نہیں نکلتے، ارے اللہ کے بندے مدارس نے کب خود کے کالج اوریونیورسٹی ہونے کا دعویٰ کیاہے جووہاں سےسائنسداں نکلیں گے۔ تبلیغی جماعت نے کب یہ کہاہے کہ وہ ردبدعات کیلئے کام کررہی ہے، کب اس نے یہ کہاہے کہ وہ عقیدہ توحید کو اس طرح پیش کرتی ہے جس طرح سلفی مدارس میں پڑھایاجاتاہے۔ تبلیغی جماعت کاتوکہناہے کہ فضائل سے اعمال کا شوق پیداہوتاہے اوراس بات سے کسی بھی ذی ہوش شخص کو انکار نہ ہوگابشرطیکہ وہ غیرمقلد نہ ہو،ہم کسی کو اعمال کی جانب متوجہ کرتے ہیں، اس کے دل میں ایمان اعمال کا شوق پیداکرتے ہیں،ان کو علم کی اہمیت بتاتے ہیں، اب وہ جاکر جس عالم سے چاہے پڑھے، علم حاصل کرے،توحیدربوبیت ،الوہیت وغیرذلک جوکچھ جاننااورسیکھناچاہتاہے سیکھے، تبلیغی جماعت نے کب اس سے منع کیاہے اورکس کتاب میں منع کیاہے،اگرتبلیغی جماعت نے ان امور کا انکار نہیں کیاہے تو مضمون نگار کی آنکھوں کا پانی مرگیاہے جوبے بنیادالزامات تبلیغی جماعت پر لگائے چلاجارہاہے۔ان کی واضح علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ توحید اسماء و صفات کو بیان کرنے سے کتراتے ہیں اور توحید ربوبیت میں صرف کلمہ توحید کو بیان کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔جبکہ توحید کے منافی امور یعنی شرکیات، بدعات و خرافات میں تساہل اختیار کرتے ہیں اوراپنے اس رویے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ان امور کے بیان کرنے سے اتحاد و اتفاق ختم ہوتا ہے۔
ہم توسمجھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کا مذہب اسلام ہے،فاضل گرامی مضمون نگار کی تحریر سے پتہ چلاکہ تبلیغی جماعت کا بھی کوئی مذہب ہے ،ہم تو اب تک سمجھتے تھے کہ تبلیغی جماعت میں ہرمسلک اورتنظیم والوں کی شمولیت ہے ،اب پتہ چلاکہ ان کا ایک خاص مذہب ہے لیکن چونکہ مضمون نگار اپنے دعاوی پر کوئی ثبوت پیش کرنانہیں چاہتے،شیطانوں کی طرح صرف الزام لگاناچاہتے ہیں تو لگانے دیجئے کل قیامت میں پتہ چلے گا۔ افرس تحت رجلک ام حماران کا مذہب بزرگوں کےخوابوں اور اقوال پر تعمیر ہے ۔
تصوف کے قائل تو شاہ ولی اللہ اوراسماعیل شہید بھی تھے، نواب صدیق حسن خان اورسید نذیرحسین صاحب بھی تھے،ان لوگوں کے نام پر مدارس کھڑے کردیتے ہو اوربے چاری تبلیغی جماعت پر مشق ستم ، یہ دوہراکھیل اور دوغلاپن کب تک۔اوریہ لوگ تصوف کے سلاسل اربعہ نقشبندی، قادری، سہروردی اور چشتی کے قائل ہیں اور اس پر مستزاد ان کا یہ زعم باطل کہ تصوف اور بدعت معاصی اور نافرمانی کی نسبت کم خطرناک ہیں
ماشاء اللہ یہ منہج بھی موقرمضمون نگار نے اپنی جانب تبلیغی جماعت کا طے کردیا،لیکن چونکہ مضمون نگار کی شیطانیت عریاں ہوچکی ہےلہذا نہ وہ دلیل دیں گے اورنہ ہم دلیل کا مطالبہ کریں گے۔بس اتناکہناچاہتے ہیں ذراآنکھ میں بھرلو پانیجبکہ دیوبندیت کے لئے تعصب کرنا اور کتاب و سنت کے دلائل اور اقوال سلف کی طرف سے صرف نظر کرنا یہ ان کا منھج ہے
پھر بعض مساجد کا ذکر موجود ہے، لیکن یہ بعض مساجد کہاں ہیں، ان کے نام کیاہیں، اس سے مضمون نگار کو کوئی سروکار نہیں،اگربنگلہ والی مسجد یعنی تبلیغی جماعت کا مرکز ہے تو مضمون نگار کی جہالت پر ماتم کرنے کودل چاہتاہے، اسے معلوم ہوناچاہئے کہ پہلے پہل یہ قبریں جو شاید دویاتیں ہیں، مسجد سے باہر تھیں، جب تبلیغی مرکز کی توسیع ہوئی اوریہ کئی بار ہوئی ہے تو اس توسیع میں یہ قبریں مرکز میں شامل ہوگئیں، لیکن اب بھی یہ مسجد سے باہر ہیں، مسجد کے اندر نہیں ہیں، ہاں اگر کوئی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑاہواہو کہ نہیں بغیر دلیل اورثبوت کے جوکچھ میں کہہ رہاہوں ،وہی صحیح ہے توایسے جاہلوں کو سلام۔موضوع احادیث، من گھڑت قصے، خواب، ان کی لذت، کبار صوفیہ کے اقوال نقل کرتے رہتے ہیں۔ اورنہ تو ان قبورکا انکارکرتے ہیں جو ان کی بعض مساجد میں پائی جاتی ہیں۔
تبلیغی جماعت کے کس ذمہ دار کو تعویذ گنڈاکرتے ہوئے دیکھ لیاہے، یاتبلیغی جماعت کے چھ نمبروں میں سے کس نمبر میں تعویذ گنڈا کا ذکر ہے ،مضمون نگار نے جھوٹ کے دفتر کو اتناپھیلایاہے اس کو سمیٹناتک مشکل ہوجارہاہے پتہ نہیں کس ایمان کے ساتھ یہ جھوٹ اس نے لکھاہوگا، شاید کتاب وسنت کی خدمت ہی کی نیت سے یہ سب جھوٹ اس نے بولے ہوں گے۔تعویذ گنڈہ اور ان طلاسم کا اہتمام کرتے ہیں جن پر ان کے مخبوط الحواس مشائخ کی جانب سے ارقام درج ہوتے ہیں
مضمون نگار کاکچھ کچھ کچھ کچھ یہ سب خود کو بچانے کے حیلے ہیں،اگرکوئی اعتراض کرے کہ ہم نے توکہیں نہ دیکھاتوکہہ دیں گے کہ ہم نے توکچھ کہاہے ،ہرایک جگہ تھوڑے ہی کہاہے۔خباثت کی حد ہوتی ہے لیکن مضمون نگار اس مرحلہ سے کوسوں آگے نکل گئے ہیں، رہاجمعرات کا مسئلہ تو تبلیغی جماعت جمعرات کاہفتہ وار اجتماع ہوتاہے،اس کیلئےکوئی بھی دن متعین کیاجاسکتاتھااورجس دن کو بھی متعین کیاجاسکتاتھااس پر یہی اعتراض ہوتا،ان میں کچھ تو قبروں کے نزدیک خصوصاً بروزجمعرات کو " نفس کی رہنمائی" کے لیےمراقبہ کرتے ہیں اور اسے الہام روحانی کہتے ہیں۔
یہاں بھی وہی آلۃ الکذب ’’کچھ‘‘موجود ہے،کچھ تو ہر جمعرات کی شام کو سورۃ یٰس پڑھنے کا حکم دیتے ہیں
پہلے توکہاکہ اس جماعت کے پاس علم نہیں ہے، توحید کا علم نہیں ہے وغیرذلک اب کہہ رہے ہیں کہ بدعتیوں کو موحدین پر فوقیت دی جاتی ہے، یعنی وہ توحید کا پوراعلم رکھتے ہیں اورتوحید پر کھڑااترنے والے موحدین کوبھی جانتے ہیں، جھوٹے کو حافظہ نہیں ہوتا، اس کی صحیح مثال مضمو نگار نے پیش کی ہے،لیکن اگر موحدین سے صرف سلفی مراد ہیں تو شاید مضمون نگار کی یہ بات صحیح ہو ،لیکن اگر دنیا میں سلفیوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگ بھی موحد ہیں تو یہ بات سرتاسر غلط ہے۔یہ بدعتی لوگوں کو علماء موحدین پر فوقیت دیتے ہیں اور جو آدمی شرک و بدعت اور اس صوفیت کے خلاف کھڑا ہو تو یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اپنے پیرومرشد کی وفات کے وقت قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ علم اور علماء سے محتاط رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ علماء کے علم کو علم المسائل ( مسائل کا علم) اور صوفیہ کے علم کو علم الحقائق ( حقائق کا علم) کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
یہاں بھی وہی آلۃ الکذب’’کچھ‘‘موجود ہے،اب تواس مضمون نگار کو مذموم نگار کہنے کا دل چاہتاہے، حدکردی تم نے۔کچھ تو اپنے علماء کے معصوم ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس اور اہل بیت کے بارے میں حد سے زیادہ غلو کرتے ہیں۔
یہ اقتباس مذموم نگار کی جہالت کا آئینہ ہے ،کیاتبلیغی جماعت نے خود کے کسی مدرسہ ،جامعہ یایونیورسٹی ہونے کا دعویٰ کیاہے جو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے پر کوئی ماہر عالم پیدانہیں ہوسکا،مذموم نگار مزید نصف عرصہ گزارلیں یااپنے بال بچوں کو نگرانی کی وصیت کرجائیں تب بھی تبلیغی جماعت سے کوئی ماہر عالم پیدانہیں ہوسکے گا،انگور کے درخت پر سیب تلاش کرنے والا ایساجاہل نادرالوجود ہوتاہے،بہت کمیاب ہوتے ہیں ایسے جاہلیں، پھرتاہے فلک برسوں تب کہیں جاکر ایک مخصوص گروہ میں ایسے جاہلین پیداہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان کی کوئی ثقافت نہیں، نصف صدی سے زیادہ زمانہ گزرنے کے باوجود کوئی ماہر عالم پیدا نہیں ہو سکا۔"
تبلیغی جماعت فضائل کی بنیاد پر کام کرتی ہےاور یہ نفسیاتی حقیقت جو ثابت شدہ ہے کہ ایک انسان کے اندر جب کسی چیز کا شوق ہوتاہے تووہ اس کے تمام تقاضوں پر خود بخود عمل کرتاہے، میں کتنے ایسے بریلویوں کو جانتاہوں جو تبلیغی جماعت سے جڑنے کے بعد بلاکہے سنے خود بخود بدعات سے تائب ونفور ہوگئے۔ہربات پرڈنڈالے کر پیچھے پڑجاناسلفیانہ منطق ہوسکتی ہے لیکن عقل کی دنیا میں اسے پاگل پن کہتے ہیں۔" تبلیغی جماعت کی دعوت جدید صوفیانہ دعوت ہے۔ اخلاقیات کی دعوت دیتے ہیں لیکن معاشرے کی اصلاح عقیدہ کے بارے میں خاموش دیوار ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔"
اسرائیل میں تبلیغی جماعت کے بارے میں کئی غیرمقلدین ہذیان سرائی کرچکے ہیں لیکن کسی نے بھی اس کا ثبوت فراہم نہیں کیاکہ اسرائیل میں تبلیغی جماعت کام کررہی ہے،یہ جملہ’’یہ سارے مولانا الیاس سے مرتبط ہیں، غیرواضح جملہ ہے، ہرجماعت اپنی تنظیم کے بانی کے ساتھ مرتبط ہیں، غیرمقلدین محمد بن عبدالوہاب کے مرنے کے بعد آج تک اس کا نام لیتی رہے توبہت اچھا اوریہی کام تبلیغی کریں تو قابل گردن زنی۔میں تبلیغی جماعت کو قدیم زمانے سے جانتا ہوں۔ مصر، اسرائیل ، امریکا اور سعودیہ کسی جگہ بھی ہوں یہ بدعتی ہیں۔ یہ سارے اپنے پیرو مرشد الیاس کے ساتھ مرتبط ہیں۔"
اب تک تویہی الزام تھاکہ تبلیغی جماعت والے صرف معروف کی ہی تلقین کرتے ہیں ،منکر سے اعراض کرتے ہیں ،اب معروف پر بھی اعتراض، یاللعجب غیرمقلدین کم سے کم الزام لگانے کی حد تک ہی تو ذہانت پیداکرلیں کہ کیاالزام لگاناہے،صحیح کہاکسی نے ، دانادشمن نادان دوست سے بہتر ہے لیکن دشمن ہی اگرنادان ہوتو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اور نہ ہی یہ معروف (اچھائی) کا حکم دیتے ہیں
حسب سابق ایک اورجھوٹ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ر اس پر مستزاد کہ ان لوگوں نے ہمارے نوجوانوں کو بگاڑنے اور خطرات کے سامنے لا کھڑا کیا
توحید کی ایک قسم کی تفسیر سے دوسری قسم کی تفسیر کا انکار کہاں سے ہوجاتاہے، سعودی مشائخین کوخداتھوڑی عقل بھی دے، ورنہ اسی قبیلے کے متعلق مشہور ہے، علمہ اکبر من عقلہ اورساری خرابی یہیں سے پیداہوتی ہے۔" یہ تفسیر درست نہیں ہے کیونکہ اس سے صرف توحید کی ایک قسم الربوبیت کا اثبات ہوتا ہے ۔ یہ بات معلوم ہے توحید ربوبیت سے انسان اسلام میں داخل نہیں ہوتا۔"
پھر مزید فرمایا کہ:
" ہر آدمی پر واجب ہے کہ لاالہ الا اللہ کی غلط تفسیر کرنے سے وہ اللہ کے حضور توبہ تائب ہو۔"
یہ کہنے والا تبلیغی جماعت سےمنسلک تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟" اگر میرے بس کی بات ہوتی تو ابن تیمیہ، ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب کی کتب کو جلا ڈالتا، اور ان میں کچھ نہ چھوڑتا۔"
علامہ انورشاہ کشمیری نے محمد بن عبدالوہاب کو کند ذہن اور کم عقل کہاتھا،اوریہ کوئی بہت بے جابات تونہیں ، جولوگ محدثین کے امام ابوحنیفہ پر عقل وعلم سے پیدل اعتراضات کا دفاع کرتے ہیں انہیں اس تنقید کو بھی قبول کرناچاہئے یاکم سے کم کہنے والے کیلئے تنقید کا حق قبول کرناچاہئے۔وہ بھی محمد بن عبدالوہاب پر طعن و تشنیع کرتا تھا۔"
مذموم نگار کی خرافات کی ہم کہاں تک تردید کریں ایسالگتاہےکہ انہوں نے خرافات میں پی ایچ ڈی کررکھاہے،تبلیغی جماعت میں سب سےزیادہ سرگرم تاجر حضرات ہیں اورانہی کے متعلق کہناکہ تجارت کو اورروزگار کو شرک سمجھتے ہیں،کتنابڑاجھوٹاالزام ہےلیکن بات یہ ہے کہ جب آدمی بے حیاہوجاتاہے جیسے یہ مضمون نگار ہے تو پھر جوچاہےبکے،فضیلۃ الشیخ کو اسی بات کی توتنخواہ مل رہی ہے۔ہ لوگ بت پرستی کی پانچ اقسام بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے " دنیاوی معاملات میں مشغول رہنا، اور رزق کی تلاش میں سرگرداں رہنا" بھی ہے۔اس کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں کہ یہ روزگار کی تلاش کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ پھر ان کے کئی ماننے والے کام کاج، روزگار کی تلاش اور تجارت کے شغل کو ترک کردیتے ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد ان نوجوانوں میں نا اُمیدی کی لہر پیدا ہوتی ہے اور اپنے ارد گرد کے معاشرے کو حقیر نظروں سے دیکھتے ہیں۔