محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
تبلیغی جماعت
یہ لوگ اپنی فکر کی تائید میں شیخ عبدالعزیز بن باز اور محمد العثیمین وغیرہ کے قدیم اقوال نقل کرتے ہیں جن سے خود انہوں نے بعد میں رجوع کرلیا تھا۔ شیخ سلطان العید نے اپنی کتاب میں ان مشائخ کے دیگر اقوال درج کئے ہیں ۔ ان کے علاوہ ان علماء کے اقوال ذکر کئے ہیں جنہوں نے ان تبلیغیوں سے ڈرایا اور خبردار کیا ہے۔ ہم بھی ان شاء اللہ کتاب کے آخر میں ان کے متعلق علماء کے اقوال کو ذکر کریں گے۔ان کی دعوت ہند میں سلسلہ چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ اور قادریہ سے منسلک لوگوں کے ہاتھوں پروان چڑھی ، جن کے رؤساء کسی ایک کی بیعت کو لازمی قرار دیتے ہیں۔اپنے اجتماعات میں تبلیغی نصاب کی کتب پڑھاتے ہیں جو کہ شرکیہ عقائد و امور سے تعبیر ہیں اور اسی طرح انہوں نے حیاۃ الصحابہ کو بھی بطور نصاب مقرر کیا ہوا ہے جس کے جھوٹے قصے میں ان کی خواہشات کے موافق ہیں۔ اور یہ بات قابل غور ہے کہ خطہ عرب کے لیے حیاۃ الصحابہ اور غیر عرب خطوں میں اپنا وضع کردہ تبلیغی نصاب پڑھاتے ہیں ۔ اور ان کی ایک عام پہچان دنیا سے کلیتا بے رغبتی برتنا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَآ ءَاتِنَا فِى ٱلدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ ﴿٢٠١﴾ البقرۃ
ترجمہ: اور بعضے ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو۔
ہر کسی کے کام کاج کو ان لوگوں نے معطل کیا ہوا ہے اورنہ ہی معاشرے میں کسی اخبار، مدرسہ، چینل وغیرہ میں شریک ہوتے ہیں بلکہ ان کی دعوت مسجد میں بیٹھنے اور ذکر کرنے تک محدود ہے۔ علم شرعی کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور علماء سے نفرت کرتے ہیں اورصاحب علم شرعی اور علماء کو ناپسند اور گفتگو میں جہلاء کو ان پر ترجیح دیتے ہیں۔
ان کے نزدیک جو بلند مقام تک پہنچ جائے تو اس کی بیعت کرتے ہیں۔ اس کا کئی لوگوں نے مطالبہ کیا۔ آپ شیخ سعد حصین سے پوچھ لیں جنہوں نے ان کے ساتھ سکونت اختیار کی، ان کا دفاع کیا اور ایک طویل عرصے تک ان کے رفیق سفر بھی رہے۔ پھر انہوں نے تبلیغیوں کو چھوڑ دیا اور ان سے بچنے کی تنبیہ کرتے رہے۔ اسی طرح مدینہ کے شیخ شرقاوی سے پوچھ لیں جو کہتے ہیں کہ ان سے بھی بیعت کا مطالبہ کیا گیا جو غالباً عرب لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ لوگوں کا تین دن ، چالیس دن یا چھ ماہ کی دعوت کے خاص طریقہ کو لازم کرنا یہ ایک بدعتی عمل ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ اور بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ لوگ نوجوانوںمیں ایسی تاثیر پیدا کرتے ہیں جس سے وہ راست باز بن جاتے ہیں تویہ ان کے عمل کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ ایسے کتنے ہی رافضی، بوذی اور صوفی وغیرہ ہیں جن میں یہ خوبی پائی جاتی ہے یہاں تک کہ جزاوی طور پر تو راہب اور عیسائی پوپ کی بھی تاثیر ہے۔ جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ صحت کی دلیل صرف اس امر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی طرف دعوت دیتے ہوئے اُس کی اتباع کی جائے ۔
عقیدہ سلیم کے حامل لوگوں کے علاوہ اگر ان کے ساتھ دس سال بھی رہو تو بھی علم شرعی سے کورے کے کورے ہی رہوگے۔ ان کا خواب، خیالی کرامات، نام نہاد حالات پر ہی اعتماد ہے جو کہ سبیل شرعی کے خلاف ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں اہل حدیث کی مساجد کو مسمار کردیا ۔ یہ اہل استعمار کے آلہ کار ہیں اس وجہ سے ان کو چین میں اور یہود و نصاریٰ کے پاس آنے جانے کی کھلی چھٹی ہے۔
ان کو ماننے والے اکثر و بیشتر جاہل ہی ہوتے ہیں جو سلف صالحین کے منہج سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ عالم تو شاذ و نادر ہی کوئی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اورصرف توحید ربوبیت کا ہی اہتمام کرتے ہیں جس کے مشرکین بلکہ اکثر لوگ اقراری ہوتے ہیں۔ توحید الوہیت کی دعوت کو انہوں نے ترک کیا ہوا ہے جس کا تمام رسولوں نے اہتمام کیا اور جس کے لئے اللہ کی کتابوں کا نزول ہوا۔ توحید الوہیت کے تذکرے کو تو وہ لوگوں میں اختلاف اور تفریق پیدا کرنے والے اسباب میں سے گرادانتے ہیں ، باوجود اس کے کہ رسول، قران و حدیث حق و باطل میں تفریق کرتے ہیں ۔
اپنی اولاد کو بغیر کسی توجہ اور خیال کے لمبی مدت کے لئے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جو چار ماہ سے زیادہ ہوتی ہے بلکہ کچھ تو اپنی بیویوں کو طلاق دے دیتے ہیں تاکہ اس نام نہاد دعوت کے لئے مکمل فارغ ہوجائیں اور ہر وقت سفر میں ہی رہتے ہیں ۔ ان میں سے جس نے بھی حق کو دلیل کے ساتھ تلاش کرنا شروع کیا وہ ان سے نکل گیا اور ان کے خوب پول کھولے۔ ان میں شمری، سبیعی، سعد الحصین اور شرقاوی وغیرہ جیسے کئی مشائخ قابل ذکر ہیں۔
جہاد کی ترغیب وتشجیع توتقریباً نصف قرآن نے دی ہے جبکہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے ساتھ تبلیغ میں نکلنا ہی اصل جہاد ہے۔ یہ بات تو دشمنان اسلام کی تائید کرتی ہے۔ جو آدمی اس کی مخالفت کرے گا تو جماعت تبلیغ سے بڑھ کر بداخلاق کوئی جماعت نہیں ہوگی، اگرچہ بظاہر اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ صحیح دعوت کی ابتداء علم سے ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَٱعْلَمْ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَٱسْتَغْفِرْ لِذَنۢبِكَ ﴿١٩﴾ محمد
ترجمہ: پس جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو ۔
چنانچہ قول و عمل سے پہلے علم کے ساتھ ابتداء کی ہے اور یہ لوگ اخلاقیات ، خواب، آراء اور جھوٹے قصوں سے ابتدا کرتے ہیں۔
حکومت سعودیہ ان کو اجازت نہیں دیتی بلکہ اس کو مخفی یا ظاہری خروج سے تعبیر کرتی ہے۔ ان کے ساتھ اکٹھا ہونا، ان کی جماعت بندی میں شریک ہونا ولی الامر کی مخالفت کرنا ہے۔ کیونکہ الحمدللہ ہماری حکومت دو اماموں محمد بن سعود اور محمد بن عبدالوہاب سے لے کر اب تک سلفی عقیدہ سلیم جو کہ اعتدال اور عدل پر مبنی ہے اور ان گمراہ کن لوگوں کے افکار و نظریات پھیلانا اللہ کی راہ سے روکنے سے مترادف ہے۔
جو لوگ علماء کے ایسے اقوال کو پھیلا رہے ہیں جن سے انہوں نے بعد میں رجوع بھی کرلیا تو یہ تو ان علماء حق پر تہمت ہے جس کا حساب اللہ تعالیٰ ان سے لے گا۔ان کے پاس جزوی سچائی کے پائے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا مکمل طریقہ بھی درست ہے۔ چنانچہ شیطان نے بھی آیت الکرسی سکھائی تھی جو کہ حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِۦٓ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِۦٓ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًا ۗ ﴿٧٥﴾ آل عمران
اور اہلِ کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے پاس (روپوں کا) ڈھیر امانت رکھ دو تو تم کو (فوراً) واپس دے دے اور کوئی اس طرح کا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھو تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو تمہیں دے ہی نہیں ۔
اور آپ ﷺ کا فرمان (شیطان کے متعلق) : " اس نے تجھ سے سچ کہا وہ ہے جھوٹا۔"
اور اس طرح توکئی غیر مسلم ممالک کے پاس مفید حقائق موجود ہوتے ہیں تو یہ ان کے لئے کارگر نہیں ہوتے بلکہ ان کو جھوٹے، ظالم ، منافق اور کافر ہی کہا جائےگا۔ چنانچہ جزوی سچائی کا تبلیغی جماعت کے پاس پایا جانا ہم کو پابند نہیں کرتا کہ ہم ان کی تائید کرتے پھریں۔
یہ فضائل اعمال اور ذکر کا ہی اہتمام کرتے ہیں صحیح عقیدہ کی ان کو مطلقا پرواہ نہیں ہے ۔ ان کی ساری دعوت قصص اور خواب پر مبنی ہوتی ہے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ تو قصہ گو کو پتھر مارا کرتے تھے۔
آپ کو ایسا کوئی آدمی نہیں ملے گا جو سلفیت کو چھوڑ کر ان کی طرف گیا۔ بلکہ یہاں ایسے کتنے ہیں جو اس جماعت کو چھوڑ کر سلفیت کو اختیار کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےکہ:
قُلْ هَٰذِهِۦ سَبِيلِىٓ أَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا۠ وَمَنِ ٱتَّبَعَنِى ﴿١٠٨﴾ یوسف
ترجمہ: کہہ دو میرا رستہ تو یہ ہے میں خدا کی طرف بلاتا ہوں (از روئے یقین وبرہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی (لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی۔
کیا یہ تبلیغی بھی اللہ کی طرف علم و بصیرت کے ساتھ بلاتے ہیں؟
ہمیں ایک معتبر آدمی نے بتایا کہ ان کی بعض مساجد میں قبریں ہیں ۔ اپنے زعم کے مطابق ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ ان سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے ، کافی دیر تک ان قبروں کے سامنے خاموش کھڑے رہتے ہیں۔ تو یہ شرک کی اقسام میں سے ہے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ کچھ تو یہ کام جمعرات کو کرتے ہیں اور اس کا نام "روحانیت کا الہام " رکھتے ہیں کہ اس عقیدے کے ساتھ وہ ان کو نفع دیں گے۔ یہ ہی اصل شرک ہے۔
ان کے باطل منہج کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کتنے ہی لوگ جو ان کے ساتھ تھے، چھوڑگئے۔ لیکن اس کے برعکس آپ نے کسی ایک کو بھی نہیں دیکھا ہوگا جس نے سلفی منہج یعنی احکام کا استنباط کرنے والے کبار علماء کے منہج کو خیر باد کہا ہو۔