اور جہاں تک بڑے سے بات کرنے کے ادب وآداب کے سلیقہ کا سوال ہے تو اس پر توخود مضمون نگار کو عمل پیراہوناچاہئے،جوآدمی دوسروں کو عزت دیتاہے،اسے عزت ملتی ہے،جب مضمون نگار نے خود اس کا خیال نہیں رکھا تو پھر کسی دوسرے سے مضمون نگار کی عزت نہیں کرائی جاسکتی۔مضمون نگار لکھتے ہیں کہ "تبلیغی جماعت کے مخبوط الحواس مشائخ"یہ تو واقعتا بہت زیادہ سلیقہ کا اور احترام کا جملہ ہے اوراسے آپ نے برضاورغبت نقل بھی کردیالیکن مضمون نگار کو اگرجاہل اور مذموم نگار کہہ دیاگیاتو بہت تکلیف ہورہی ہے،تبلیغی جماعت سے اختلاف رائے کوئی مذموم امر نہیں ہے، بہت سارے لوگ کرتے ہیں لیکن اتہام اورالزام تراشی کسی بھی صورت میں معقول اورمناسب امر نہیں ہے۔
رحمانی صاحب کا صرف ایک کام ہے ، وہ کیا ہے ؟ کسی اور کی زبانی نہ سنیے ، ان کی ارسال کردہ پوسٹیں پڑھ کر فیصلہ کیجیے ، اور اپنی اس عادت شریفہ کو پورا کرنے کے لیے کہ فلاں نے پہلے کہا ، اور میں نے بعد میں کہا ، یا اس نے یہ کیا ، اس لیے میں نے یہ کیا ، یہ سب ان کا طریقہ واردات ہے ۔
وہی لفظ ’ مخبوط الحواس ‘ جس پر وہ اس قدر سیخ پا ہوئے ہیں ، بالکل یہی لفظ یہ چند مہینے پہلے تبلیغی جماعت کے ناقدین کے لیے استعمال فرما چکے ہیں ، ملاحظہ کیجیے :
تبلیغی جماعت کے ناقدین تبلیغ جماعت پر نقد میں کتنے مخبوط الحواس ہیں،
اور یہاں تو یہ مسئلہ ہے کہ اوپر پوسٹ میں انہیں کچھ الفاظ نظر آگئے ، جہاں سے ان کا اقتباس نقل کیا ہے ، وہاں موضوع کے شروع میں شیخ صالح المنجد کی ویب سائٹس سے فتوی نقل کیا گیا ہے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے وہاں جو زبان استعمال کی ہے ، اس سے ان کے حالیہ بیان کی حقیقت ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔
تبلیغی جماعت ، خوبیاں اور خامیاں
ایک سعودی عالم دین کی ویب سائٹ سے نقل کردہ جواب پر ، رحمانی صاحب کے نقد کی ابتدا ملاحظہ کیجیے :
بہت عرصہ ہوا، کہیں ایک پوسٹ پڑھاتھاجس میں کسی غیرمقلد نے ہی بڑے دکھ بھرے انداز میں سلفیوں کے آپسی مناظرہ پر لکھاتھاکہ جب لڑنے کیلئے کوئی دوسرانہیں ملتاتو ہم آپس میں ہی لڑناشروع کردیتے ہیں، مجھے پہلے پہل اس بات پر تعجب ہوا،لیکن جب دیکھاکہ اہل حدیث یاغیرمقلدین حضرات تبلیغی جماعت کو بھی رگیدنے سے باز نہیں آتے ،حالانکہ تبلیغی جماعت نہ ان سے مناظرہ کرتی ہے،نہ مباحثہ کرتی ہے، نہ ان پر کسی قسم کی تنقید وتعریض کرتی ہے، پھر بھی اس جانب سے لگاتار اورمسلسل گولہ برس رہاہے۔
سعودیہ میں لکھی گئی تحریر کا جواب بر صغیر پاک و ہند کے تناظر میں دیا جارہا ہے ، بلکہ بقول ان کے جو سعودی مقلدین ہیں ، ان کا جواب برصغیر پاک و ہند کے غیر مقلدین پر طعنہ زنی کرکے دیا جارہا ہے ۔
یہ نمونہ صرف اس لیے نقل کیا ہے ، تاکہ نئے قارئین ( پرانے تو پہلے سے ہی واقف ہیں ) بھی جان لیں کہ شرارت کے شراروں ، اور تعصب کے بھبوکوں نے اٹھنا ہی ہوتا ہے ، بہانہ نظر آجائے تو عید ہے ، نہ آئے تو خود گھڑنا کون سا بعید ہے ۔