• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرینِ حدیث کی مغالطہ انگیزیوں کے علمی جوابات ( از شیخ جلال الدین قاسمی حفظ اللہ )

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
صحیح بخاری کی بعض احادیث پر اعتراضات کے جوابات
.
۱ : حدثنا عبدالله بن محمد قال حدثني عبدالصمد قال حدثني شعبة قال حدثني ابوبكر بن حفص قال سمعت اباسلمة يقول : دخلت انا واخو عائشة على عائشة فسالھا اخوھا عن غسل النبى صلى الله عليه وسلم فدعت بانائٍ نحو من صاعٍ فاغتسلت و افاضت على راسھا و بيننا و بينها حجاب ۔ (بخاري ، الغسل ، الغسل بالصاع…ح : ۲۵۱)
.
” عبداللہ بن محمد بیان کرتے ہیں کہ انھیں عبدالصمد نے بیان کیا ، وہ فرماتے ہیں کہ ابوسلمہ نے فرمایا کہ میں اور سیدہ عائشہ کے بھائی ، سیدہ عائشہ کے پاس گئے ۔ ان کے بھائی نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح غسل کیا کرتے تھے ؟ سیدہ عائشہ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن منگوایا جس سے آپ نے غسل کیا اور سرپر بھی پانی ڈالا ، درمیان میں ایک پردہ لٹکایا ہوا تھا ۔“
.
سوال یہ ہے کہ آیا یہ دونوں حضرات اس پردے میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کو غسل کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے ؟ جواب نفی میں ہے ۔ غسل کی کیفیت بتانے کے لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے غسل نہیں کیا بلکہ انہوں نے پانی کی مقدار کا ذکر کیا تو ابوسلمہ اور دیگر نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے پانی سے کیسے نہایا جاسکتا ہے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ یہ بالکل ممکن ہے اور دیکھو اب میں نہانے کے لیے جا رہی ہوں اور اتنے ہی پانی سے نہاؤں گی اس کے بعد انہوں نے پردہ ڈالا اور غسل کیا اور یہ ثابت کر دیا کہ اتنے پانی سے نہانا ممکن ہے ۔ اس مفہوم کی دلیل یہ ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے مذکورہ حدیث پر ” الغسل بالصاع و نحوه “ کا باب باندھا ہے ۔
.
امام بخاری رحمه الله کی تبویب منکرین حدیث کی اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے کافی ہے ۔ نیز غسل کے معنی صرف نہانے کے نہیں ہوتے بلکہ غسل کا ایک مطلب ” نہانے کا پانی “ بھی ہوتا ہے ۔
.
۲ : عن عامر بن سعد عن ابيه قال امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل الوزغ وسماه فويسقا ۔ (ابوداؤد ، الادب ، فی قتل الاوزاغ ، ح : ۵۲۶۲)
.
” عامر اپنے حضرت سعد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کے مارنے کا حکم دیا اور اسے فاسق کہا۔“
.
چھپکلی کے قتل کا یہ سبب نہیں کہ وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر پھونک مار رہی تھی ۔ مذکورہ بالا حدیث سے اس کا فويسق (زہریلا اور موذی) ہونا بتایا گیا ہے ۔ نیز بعض جانور فطرتاً شریف ہوتے ہیں اور بعض فطرتاً بد طینت ہوتے ہیں ۔ جیسے بچھو اور چھپکلی وغیرہ… تو ابراہیم علیہ السلام کی آگ میں پھونک مارنا اس کے خبثِ باطن کو ظاہر کرتا ہے ۔
.
یہ بھی کہا: جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ چھپکلی کیسے پھونک مار رہی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بات ہے جو ہمارے علم میں نہیں ہے ۔ ویسے بھی قرآن سے یہ ثابت ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن وہ تسبیح کیسے بیان کر رہی ہے ؟ ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ چھپکلی ایک برے کام میں مدد کیوں کر رہی تھی؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔
.
۳ : عن عائشة جاء ت سهلة بنت سهيل الي النبى صلى الله عليه وسلم فقالت يارسول الله ! انّي اري فى وجه ابي حذيفة من دخول سالم ۔ وھو حليفه ۔ فقال النبى صلى الله عليه وسلم ”اِرْضِعِيْهِ“ قالت : وكيف اُرضعه وھو رجل كبير؟ فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال : ”قَدْ عَلِمْتُ اَنَّهُ رَجُلٌ كَبِيْرٌ ۔“ (مسلم ، الرضاع ، رضاعۃ الکبیر ، ح : ۱۴۵۳)
.
” سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: کہ سالم جب گھر میں داخل ہوتے ہیں تو میں ابوحذیفہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھتی ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تو سالم کو اپنا دودھ پلا دے ۔“ کہنے لگیں : میں انھیں کیسے دودھ پلا دوں ؟ وہ بچے نہیں ہیں بلکہ بڑی عمر کے آدمی ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا : ”مجھے معلوم ہے کہ وہ جوان ہیں ۔“
.
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ ابوحذیفہ کی بیوی سہلہ نے نوجوان سالم کو اپنا دودھ پلایا ۔
.
جواب اس کا یہ ہے کہ اسلام میں حرجِ شدید کا لحاظ کیا گیا ہے جیسے کہ ایام ماہواری میں عورت کی نماز معاف ہے جبکہ نماز جنگ میں بھی معاف نہیں ۔ سالم چونکہ بچپن سے ابوحذیفہ کے گھر آتے جاتے تھے اور سودا سلف بھی لے آتے تھے ۔ گھر میں اور کوئی نہ تھا ۔ لہٰذا مجبوری کی وجہ سے ایسا کیا گیا ، یہ ان کے لیے خاص تھا ۔
.
بعض کہتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے ۔ نیز اس حدیث سے یہ پتا نہیں چلتا کہ سہلہ نے سالم کو اس طرح اپنا دودھ پلایا جیسے بچے کو پلایا جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کسی برتن میں دودھ نکال کر پلایا گیا ہو ۔
۔۔۔۔(جاری ہے )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
عذابِ قبر
.
منکرین حدیث کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اگر عذاب قبر کو مان لیا جائے تو تین زندگیاں اور تین موتیں لازم آتی ہیں جبکہ قرآن میں صرف دو زندگیوں اور دو موتوں کا تذکرہ ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
.
«قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ» (۴۰؍المؤمن : ۱۱)
.
” وہ کہیں گے : ہمارے رب ! تُو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندگی دی ۔“
.
جواب یہ ہے کہ قرآن میں کئی واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ مردے زندہ ہو گئے ۔ جیسے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں باذن اللہ مردوں کا زندہ ہونا اور سورۃالبقرۃ میں سیدنا عزیر علیہ السلام اور ان کے گدھے کا زندہ ہونا اور چار پرندوں کا زندہ ہونا…تو کیا یہ تیسری زندگی نہیں ہے ؟
.
ہاں یہ صحیح ہے کہ قرآن میں یہ ہے کہ قیامت سے پہلے سب لوگوں کو نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ کوئی مسلمان اس کا عقیدہ رکھتا ہے ۔ نیز اہل قبور کے لیے دنیا کی معروف زندگی اور موت کی معروف بے حسی کے درمیان کسی درجے کا احساسِ زندگی تسلیم کر لیا جائے تو کیا حرج ہے ؟ ؎ ۱
.
.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
.
.

؎ ۱ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ عذابِ قبر مردے کو ہوتا ہے زندہ انسان کو نہیں ، کوئی بھی صحیح العقیدہ مسلمان اس بات کا قائل نہیں کہ عذابِ قبر مردے کی بجائے زندہ انسان کو ہوتا ہے لہٰذا جب یہ کسی کا عقیدہ ہی نہیں کہ عذابِ قبر زندہ کو ہوتا ہے تو پھر یہ کہنا ہی فضول ہے کہ عذابِ قبر سے تیسری زندگی لازم آتی ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کی اس موضوع پر لکھی گئی کتب : عذابِ قبر ، منکرین عذابِ قبر کے اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات؛ عذابِ قبر ، قرآن کی روشنی میں ؛المسند فی عذاب القبر(محمد ارشد کمال)
ملحوظہ : … عذاب قبر نہ صرف یہ کہ احادیث سے ثابت ہے بلکہ قرآن سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ، عذابِ قبر کے قرآنی ثبوت کے لیے ان آیات کا مطالعہ کیجیے : سورۃ ابرھیم : ۲۷؛ طہ : ۱۲۴ ۔ ۱۲۶؛ الانعام : ۹۳؛ الانفال : ۵۰ ۔ ۵۱؛ محمد : ۲۷؛المؤمن : ۴۵ ۔ ۴۶؛نوح : ۲۵؛التوبۃ : ۱۰۱؛التکاثر : ۱ ۔ ۴؛ الواقعۃ : ۸۳ ۔ ۹۶؛النحل : ۲۸ ۔ ۳۲
(شہبازحسن)
۔۔۔۔(جاری ہے )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
ثبوت اس آیت میں ہے :
.
«قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا » (۳۶؍یٰسٓ : ۵۲)
.
” انھوں نے کہا: ہائے ! ہمیں ہمارے مرقد سے کس نے اٹھایا ۔“
.
رقود نیند کو اور مرقد خوابگاہ کو کہتے ہیں ۔ پتا چلا کہ قبر میں مردے کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے سونے والے کی ۔ اس میں زندگی کی پوری حسیت اور موت کی مکمل بے حسی طاری نہیں ہوتی بلکہ بین بین کی کیفیت ہوتی ہے ۔
.
اس بحث ميں ايك ضمني سوال يه بھي هے كه قيامت كے وقوع سے پهلے بدله ديا جانا انصاف كے خلاف هے !
.
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر قیامت سے پہلے کوئی بدلہ دیا جانا تسلیم نہ کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت سے پہلے دنیا میں قوموں کو ان کے برے اعمال کی سزا کیوں دی؟
.
حدیث ثلاث کذبات
.
منکرین حدیث کا اعتراض یہ بھی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صدیق کہا: ہے اور صحیح بخاری میں ( ح : ۵۰۸۴)ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
.
”لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاہِیْمُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذَبَاتٍ“
.
” سیدنا ابراہیم نے صرف تین جھوٹ بولے : ۔“
.
درحقیقت اسے توریہ کہتے ہیں یعنی ایسا کلام جو مجازاً کذب(جھوٹ) ہوتا ہے مگر حقیقت میں سچ ہوتا ہے ۔ ویسے دیکھا جائے تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ایسے جھوٹ کا تذکرہ خود قرآن میں بھی ہے :
.
.

« فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ » (۳۷؍الصّٰفّٰت : ۸۹)
.
” تو انہوں نے کہا: میں بیمار ہوں ۔“
.
ایک تو یہ کہ آپ بیمار نہیں تھے مگر آپ نے کہا: کہ میں بیمار ہوں ۔
.
دوسرایہ کہ آپ نے خود بتوں کو توڑ کر بڑے بت کا نام لے دیا ۔
.
«قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا» (۲۱؍الانبیاء : ۶۳)
.
” آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے ۔“
.
تیسرایہ کہ آپ نے تارہ ، چاند اور سورج کو دیکھ کر انھیں اپنا رب کہا: ۔
.
«فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـٰذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿٧٧﴾ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـٰذَا رَبِّي هَـٰذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿٧٨﴾ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٧٩﴾» (۶؍الانعام : ۷۷ ۔ ۷۹)
.
کیا ابراہیمؑ کا انھیں رب کہنا سچ تھا یا جھوٹ؟
.
اب جو توجیہ منکرین حدیث ان آیات کی کریں وہی اسی قسم کی احادیث کی سمجھ لیں ۔
.
درحقیقت حدیث میں حقیقی جھوٹ نہیں بلکہ مجازی جھوٹ کا تذکرہ ہے جسے توریہ کہا جاتا ہے ۔ جس میں ظاہری کلام کی صورت کذب کی ہوتی ہے مگراس پر مواخذہ نہیں ہوتا لیکن بڑے لوگوں کو اس سے شرم آتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حدیث زنائے قردۃ
.
امام بخاری رحمه الله نے صحیح بخاری میں کتاب مناقب الانصار كے باب القسامة فى الجاهلية (ح : ۳۸۴۹) میں اپنے استاد نعیم بن حماد رحمه الله سے اس طرح روایت کیا ہے :
.
عن عمرو بن ميمون قال رايت فى الجاھلية قردة اجتمع عليھا قردة قد زنت فرجموھا فرجمتھا معھم ۔
.
” عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ جاہلیت میں مَیں نے دیکھا کہ ایک بندریا جس نے زنا کیا تھا دوسرے بندروں نے اکٹھے ہو کر اسے سنگسار کیا ، میں نے بھی ان کے ساتھ اس بندریا کو سنگسار کیا ۔“
.
منکرین حدیث اس حدیث کو بھی اپنے اعتراض کا موضوع بناتے ہیں اور حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا بندروں کے یہاں بھی نکاح و طلاق اور حدود و تعزیرات کا نظام لاگو ہے ؟
.
پہلا جواب تو یہ ہے کہ بندروں کی شکل میں وہ جن تھے اور وہ بھی شریعت کے مکلف ہیں ۔ تورات میں رجم کا حکم تھا اور نص قرآنی سے ثابت ہے کہ جنوں کی ایک جماعت شریعت موسوی کی پابند تھی ۔ (دیکھیے الاحقاف : ۲۶)
.
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر بندروں نے کسی بندریا کو اُس کی آوارگی پر پتھروں سے ہلاک کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں یہ کون سی عجیب بات ہو گئی جسے عقل و مشاہدہ قبول نہیں کرسکتے ۔ جبکہ ماہر عمرانیات کی تصریحات موجود ہیں کہ بندر کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ بھی انسانوں سے مشابہت رکھتی ہے ۔ جانوروں میں غیرت کا پایا جانا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے ، لہٰذا اُنھیں بھی غیرت آتی ہے ۔
.
اس واقعہ میں نصیحت یہ ہے کہ انسان کے اندر غیرت ہونی چاہئے کیوں کہ اس معاملے میں جانور بھی پیچھے نہیں ہیں اور سزائے رجم فطری سزا ہے کہ ایک حیوان اپنی نفسیاتی پاکیزگی کے لیے رجم کرسکتا ہے تو کیا انسان کے لیے یہ سزا نامناسب ہے ؟
.
تیسرا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے اس واقعہ کا ذکر حیوان کو مکلف ٹھہرانے کے لیے نہیں کیا بلکہ یہ ثابت کرنے کے لیے کیا ہے کہ عمرو بن میمون مخضرم تابعی ہیں ۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے زیر بحث روایت کو التاریخ الکبیر میں عمرو بن میمون کے ترجمے کے تحت ذکر کیا ہے اور اہل فن اس سے بخوبی واقف ہیں کہ تراجم کی کتابوں میں احادیث و روایات کے ذکر سے ترجمہ ہی کے متعلق کوئی اطلاع بہم پہنچانا مقصود ہوتا ہے ۔
.
(تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب مقاصد تراجم ابوابِ بخاری)
۔۔۔(جاری ہے )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو اور اس کی نوعیت
.
.

حدیث سحر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت معروض یہ ہے کہ یہ واقعہ صحیح بخاری میں منقول ہے ۔ لہٰذا اِس کا انکار قرآن کا انکار ہے کیونکہ قرآن میں فرمایا گیا ہے :
.
.

«وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ» (۱۰؍یونس : ۱۰۷)
.
” اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو سوائے اس کے ، کوئی اسے دُور کرنے والا نہیں ہے ۔“
.
آیت مذکورہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ضرر کے طاری ہونے کا امکان ثابت ہوتا ہے اور سحر بھی ایک ضرر ہے ۔ چنانچہ سحر کے ضرر ہونے کی دلیل خود قرآن میں ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
.
«وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ » (۲؍البقرۃ : ۱۰۲)
.
” اور یہ (جادوگر لوگ) اس (جادو) کے ذریعے ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ کے حکم سے ۔“
.
آیت کے دونوں ٹکڑے بتا رہے ہیں کہ سحر ایک ضرر ہے ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ سحر کئی طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک تو وہ جو عقل و تمیز اور قلب پر اثر کرتا ہے ۔ دوسرا اُس کا اثر ظاہر اعضائے جسم پر ہوتا ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سحر ہوا وہ دوسری قسم کا تھا ۔ چنانچہ قاضی عیاض نے فرمایا :
.
ان السحر انما تسلط على ظاهره و جوارحه لا على قلبه و اعتقاده وعقله ۔ (الشفا۲؍۱۸۷)
.
”جادو کا اثر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ظاہر اعضائے بدن پر ہوا تھا ۔ نہ کہ آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ، اعتقاد اور عقل پر ۔“
.
معلوم ہوا کہ سحر ایک مرض تھا ، جس طرح اور امراض میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبتلا ہوئے ۔ سر میں درد ہوا ، بخار آیا ، زہر کا اثر ہوا ، اسی طرح ایک بار مرضِ سحر میں بھی مبتلا ہوئے اور یہ سب لوازمات بشریہ میں سے ہیں ۔
.
علامہ ابن القیم رحمه الله زادالمعاد میں لکھتے ہیں :
.
قد انكر ھذا طائفة من الناس وقالوا : لايجوز ھذا عليه وظنّوه نقصا و عيبا وليس الامر كما زعموا ، بل ھو من جنس ما كان يعتريه صلى الله عليه وسلم من الاسقام والاوجاع وھو مرض من الامراض ، واصابته به كاصابة بالسمِّ لافرق بينھما… قال القاضي عياض : والسحر مرض من الامراض وعارض من العلل يجوز عليه صلى الله عليه وسلم كانواع الامراض مما لاينكر ولا يقدح فى نبوته ۔(زادالمعاد۳؍۷۶۷)
.
” لوگوں کی ایک جماعت نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے اور کہا: ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم پر جادو کا تسلیم کرنا جائز نہیں ۔ اسے یہ لوگ نقص اور عیب سمجھتے ہیں ۔ (جو ایک نبی کی شان سے بعید ہے ) حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا انہوں نے سمجھا ہے بلکہ وہ( سحر) ان امراض و بیماریوں اور تکلیفوں کی جنس سے ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئیں ۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر زہر کا اثر ہوا اسی طرح سحر کا بھی ہوا ۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں … قاضی عیاض فرماتے ہیں : سحر ایک مرض ہے اور دیگر امراض کی طرح اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اثر کرنا جائز ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے آپ صلى الله عليه وسلم کی نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا ۔“
.
اور اس سحر کا مرض ہونا خود حدیث بخاری سے ثابت ہے ، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ دو فرشتوں میں سے ایک نے پوچھا:
.
( (مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ : مَطْبُوْبٌ) )
.
یعنی اس شخص کو کیا بیماری ہے ؟
.
تو دوسرے نے کہا: ( (مَطْبُوْبٌ) ) (بخاری ، الطب ، السحر ، ح : ۵۷۶۳)
.
” ان پر جادو ہوا ہے ۔“
.
مختار الصحاح میں ہے :
.
الوجع المرض ۔ طب لفظ لغات اضداد میں سے ہے ، اس کے معنی داء اور دوا دونوں کے ہیں اور بمعنی جادو بھی آتا ہے ۔ پس معنی ہوئے کہ انھیں سحر کی بیماری ہے ۔ آخری روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
.
.

”اَمَّا اَنَا فَقَدْ شَفَانِی اللّٰہُ“
.
(بخاري ، بدأ الخلق ، صفة ابليس ، ح : ۳۲۶۸)
.
” اللہ نے مجھے شفا دے دی ۔“
.
اور ظاہر ہے کہ شفا مرض ہی سے ہوتی ہے کیونکہ مرض کی ضد شفا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مرض سے عصمت اور امور تبلیغی پر کوئی اثر ، نقصان وغیرہ کا واقع نہیں ہوتا جیسے نیند یا بخار کی غفلت یا نسیان عارضی کا عصمت پر اور امور تبلیغی پر کوئی اثر نہیں ہوتا اسی طرح کا سحر بھی ہے ۔
۔۔۔۔(جاری ہے )
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
حدیث زنائے قردۃ
.
امام بخاری رحمه الله نے صحیح بخاری میں کتاب مناقب الانصار كے باب القسامة فى الجاهلية (ح : ۳۸۴۹) میں اپنے استاد نعیم بن حماد رحمه الله سے اس طرح روایت کیا ہے :
.
عن عمرو بن ميمون قال رايت فى الجاھلية قردة اجتمع عليھا قردة قد زنت فرجموھا فرجمتھا معھم ۔
.
” عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ جاہلیت میں مَیں نے دیکھا کہ ایک بندریا جس نے زنا کیا تھا دوسرے بندروں نے اکٹھے ہو کر اسے سنگسار کیا ، میں نے بھی ان کے ساتھ اس بندریا کو سنگسار کیا ۔“
.
منکرین حدیث اس حدیث کو بھی اپنے اعتراض کا موضوع بناتے ہیں اور حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا بندروں کے یہاں بھی نکاح و طلاق اور حدود و تعزیرات کا نظام لاگو ہے ؟
.
پہلا جواب تو یہ ہے کہ بندروں کی شکل میں وہ جن تھے اور وہ بھی شریعت کے مکلف ہیں ۔ تورات میں رجم کا حکم تھا اور نص قرآنی سے ثابت ہے کہ جنوں کی ایک جماعت شریعت موسوی کی پابند تھی ۔ (دیکھیے الاحقاف : ۲۶)
.
دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر بندروں نے کسی بندریا کو اُس کی آوارگی پر پتھروں سے ہلاک کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں یہ کون سی عجیب بات ہو گئی جسے عقل و مشاہدہ قبول نہیں کرسکتے ۔ جبکہ ماہر عمرانیات کی تصریحات موجود ہیں کہ بندر کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ بھی انسانوں سے مشابہت رکھتی ہے ۔ جانوروں میں غیرت کا پایا جانا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے ، لہٰذا اُنھیں بھی غیرت آتی ہے ۔
.
اس واقعہ میں نصیحت یہ ہے کہ انسان کے اندر غیرت ہونی چاہئے کیوں کہ اس معاملے میں جانور بھی پیچھے نہیں ہیں اور سزائے رجم فطری سزا ہے کہ ایک حیوان اپنی نفسیاتی پاکیزگی کے لیے رجم کرسکتا ہے تو کیا انسان کے لیے یہ سزا نامناسب ہے ؟
.
تیسرا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے اس واقعہ کا ذکر حیوان کو مکلف ٹھہرانے کے لیے نہیں کیا بلکہ یہ ثابت کرنے کے لیے کیا ہے کہ عمرو بن میمون مخضرم تابعی ہیں ۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے زیر بحث روایت کو التاریخ الکبیر میں عمرو بن میمون کے ترجمے کے تحت ذکر کیا ہے اور اہل فن اس سے بخوبی واقف ہیں کہ تراجم کی کتابوں میں احادیث و روایات کے ذکر سے ترجمہ ہی کے متعلق کوئی اطلاع بہم پہنچانا مقصود ہوتا ہے ۔
.
(تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب مقاصد تراجم ابوابِ بخاری)
۔۔۔(جاری ہے )
بھائی کچھ سمجھ نہیں آیا۔پہلا جواب جن تھے یہ کیسے معلوم ہوا۔ دوسرا جواب تو انتہائی مضحکہ خیز ہے ۔ اور جانور پتھر مار کر کب ہلاک کر تے ہیں وہ تو حملہ کرتے ہیں۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو اور اس کی نوعیت
.
.

حدیث سحر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت معروض یہ ہے کہ یہ واقعہ صحیح بخاری میں منقول ہے ۔ لہٰذا اِس کا انکار قرآن کا انکار ہے کیونکہ قرآن میں فرمایا گیا ہے :
.
.

«وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ» (۱۰؍یونس : ۱۰۷)
.
” اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو سوائے اس کے ، کوئی اسے دُور کرنے والا نہیں ہے ۔“
.
آیت مذکورہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ضرر کے طاری ہونے کا امکان ثابت ہوتا ہے اور سحر بھی ایک ضرر ہے ۔ چنانچہ سحر کے ضرر ہونے کی دلیل خود قرآن میں ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
.
«وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ » (۲؍البقرۃ : ۱۰۲)
.
” اور یہ (جادوگر لوگ) اس (جادو) کے ذریعے ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ کے حکم سے ۔“
.
آیت کے دونوں ٹکڑے بتا رہے ہیں کہ سحر ایک ضرر ہے ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ سحر کئی طرح کا ہوتا ہے ۔ ایک تو وہ جو عقل و تمیز اور قلب پر اثر کرتا ہے ۔ دوسرا اُس کا اثر ظاہر اعضائے جسم پر ہوتا ہے پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سحر ہوا وہ دوسری قسم کا تھا ۔ چنانچہ قاضی عیاض نے فرمایا :
.
ان السحر انما تسلط على ظاهره و جوارحه لا على قلبه و اعتقاده وعقله ۔ (الشفا۲؍۱۸۷)
.
”جادو کا اثر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ظاہر اعضائے بدن پر ہوا تھا ۔ نہ کہ آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل ، اعتقاد اور عقل پر ۔“
.
معلوم ہوا کہ سحر ایک مرض تھا ، جس طرح اور امراض میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبتلا ہوئے ۔ سر میں درد ہوا ، بخار آیا ، زہر کا اثر ہوا ، اسی طرح ایک بار مرضِ سحر میں بھی مبتلا ہوئے اور یہ سب لوازمات بشریہ میں سے ہیں ۔
.
علامہ ابن القیم رحمه الله زادالمعاد میں لکھتے ہیں :
.
قد انكر ھذا طائفة من الناس وقالوا : لايجوز ھذا عليه وظنّوه نقصا و عيبا وليس الامر كما زعموا ، بل ھو من جنس ما كان يعتريه صلى الله عليه وسلم من الاسقام والاوجاع وھو مرض من الامراض ، واصابته به كاصابة بالسمِّ لافرق بينھما… قال القاضي عياض : والسحر مرض من الامراض وعارض من العلل يجوز عليه صلى الله عليه وسلم كانواع الامراض مما لاينكر ولا يقدح فى نبوته ۔(زادالمعاد۳؍۷۶۷)
.
” لوگوں کی ایک جماعت نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے اور کہا: ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم پر جادو کا تسلیم کرنا جائز نہیں ۔ اسے یہ لوگ نقص اور عیب سمجھتے ہیں ۔ (جو ایک نبی کی شان سے بعید ہے ) حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا انہوں نے سمجھا ہے بلکہ وہ( سحر) ان امراض و بیماریوں اور تکلیفوں کی جنس سے ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئیں ۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر زہر کا اثر ہوا اسی طرح سحر کا بھی ہوا ۔ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں … قاضی عیاض فرماتے ہیں : سحر ایک مرض ہے اور دیگر امراض کی طرح اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اثر کرنا جائز ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے آپ صلى الله عليه وسلم کی نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا ۔“
.
اور اس سحر کا مرض ہونا خود حدیث بخاری سے ثابت ہے ، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ دو فرشتوں میں سے ایک نے پوچھا:
.
( (مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ : مَطْبُوْبٌ) )
.
یعنی اس شخص کو کیا بیماری ہے ؟
.
تو دوسرے نے کہا: ( (مَطْبُوْبٌ) ) (بخاری ، الطب ، السحر ، ح : ۵۷۶۳)
.
” ان پر جادو ہوا ہے ۔“
.
مختار الصحاح میں ہے :
.
الوجع المرض ۔ طب لفظ لغات اضداد میں سے ہے ، اس کے معنی داء اور دوا دونوں کے ہیں اور بمعنی جادو بھی آتا ہے ۔ پس معنی ہوئے کہ انھیں سحر کی بیماری ہے ۔ آخری روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
.
.

”اَمَّا اَنَا فَقَدْ شَفَانِی اللّٰہُ“
.
(بخاري ، بدأ الخلق ، صفة ابليس ، ح : ۳۲۶۸)
.
” اللہ نے مجھے شفا دے دی ۔“
.
اور ظاہر ہے کہ شفا مرض ہی سے ہوتی ہے کیونکہ مرض کی ضد شفا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مرض سے عصمت اور امور تبلیغی پر کوئی اثر ، نقصان وغیرہ کا واقع نہیں ہوتا جیسے نیند یا بخار کی غفلت یا نسیان عارضی کا عصمت پر اور امور تبلیغی پر کوئی اثر نہیں ہوتا اسی طرح کا سحر بھی ہے ۔
۔۔۔۔(جاری ہے )
صحیح بخاری حدیث نمبر 7437 کی بھی وضاحت بتائیں۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
مسحور :
.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں جو مسحور کا لفظ اس آیت «إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا» (۲۵؍الفرقان : ۸)
.
(تم صرف ایک مسحور آدمی کی اتباع کر رہے ہو) میں آیا ہے ۔ چونکہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر سحر تسلیم کرنے سے کفار کے قول کی تصدیق ہوتی ہے ۔
.
سوالِ اول کی دو شقیں ہیں :
.
۱ : لفظ مسحور کی تحقیق جو قرآن میں وارد ہوا ہے ۔
.
۲ : حقیقت سحر النبی اور اس کا اثر ۔
.
پس واضح ہو کہ قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت مقولہ « رَجُلًا مَّسْحُورًا» کفار دو مقامات ( بنی اسرائیل ، الفرقان) پر منقول ہے ۔
.
میری تحقیق اس مسئلہ کے متعلق یہ ہے کہ قرآن مجید عرب کے محاور ے میں نازل ہوا ہے اور عرب العرباء کبھی اسم مفعول کے لیے اسم فاعل کا لفظ بولتے ہیں جیسا کہ خود قرآن میں ہے ۔ «عيشة راضية» بمعنی «مرضية » ۔ «مائدة» بمعنی «ممدؤة»
.
اسی طرح کبھی اسم فاعل کے لیے اسم مفعول کا لفظ استعمال کرتے ہیں جیسے «ملک مرطوب » (تری والا ملک) «مکان مھول» (خوف دلانے والی جگہ) «جارية مغنوجة» (ناز کرنے والی لڑکی)
.
خود قرآن میں اس کی مثال «حِجَابًا مَّسْتُورًا» (۱۷؍بنی اسرائیل : ۴۵) ہے :
.
قال الاخفش : المستور ھھنا بمعني الساتر فان الفاعل قد تجيء بلفظ المفعول كما يقال انك لمشؤم علينا و ميمون وانما ھو شائم و يامن ۔
.
اخفش کہتے ہیں کہ مستور سے یہاں ساتر(ڈھانپنے والا) مراد ہے ، اسم فاعل کبھی مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے «مشؤم شائم»(نحوست والا) کے معنی میں جبکہ «میمون یأمن» (برکت والا) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
.
اسی طرح ہر دو مقام پر مسحور بمعنی ساحر ہے اور اس پر چند دلیلیں ہیں :
.
۱ : کفار مکہ عام طور سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر کہتے تھے نہ کہ مسحور ، سورۃ یونس میں ان کا مقولہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت «لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ» (آیت۲) منقول ہے اور سورۃ ص میں «سَاحِرٌ كَذَّابٌ» (آیت۴) ہے ۔ پس بفحوائے تفسیر کلام اللہ اقرب الی الصواب (تفسیر کبیر جلد۳) دونوں جگہوں میں مسحور بمعنی ساحر ہے ۔
.
۲ : سورۃ بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کی بابت بھی فرعون کا مقولہ یوں منقول ہے :
.
«إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا» (آیت : ۱۰۱)
.
” یقیناً میں تو تجھے اے موسیٰ ! جادو زدہ سمجھتا ہوں ۔“
.
حالانکہ سارے قرآن میں فرعون اور اس کی قوم کا مقولہ جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو ساحر کہتے تھے ۔ سورۃالاعراف و سورۃالشعراء میں « لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ» آیا ہے ۔ (دیکھیے سورۃالاعراف : ۱۰۹؛الشعراء : ۳۴)
.
سورۃ المؤمن میں «سَاحِرٌ كَذَّابٌ» (آیت۲۴) آیا ہے ۔
.
سورۃالذاریٰت میں « سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ » (آیت۳۹) آیا ہے ۔
.
سورۃ الزخرف میں «يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ» (آیت۴۹) منقول ہے ۔
.
سورۃ طہٰ میں «بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ» (آیت۵۷) اور «إِنْ هَـٰذَانِ لَسَاحِرَانِ» (آیت۶۳) آیا ہے ۔
.
سورۃ طہٰ اور شعراء میں « وماۤ اكۡرهۡتنا عليۡه من السحۡر» ، اور «إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ» (طہ : ۷۱؛ الشعراء : ۴۹) وارد ہے ۔
.
پس جب فرعون اور اس کی قوم کے لوگ موسیٰ علیہ السلام کو ساحر کہتے تھے تو سورۃ بنی اسرائیل میں فرعون کے مقولہ منقولہ میں مسحور کو ساحر کے معنی میں لینا ہوگا ۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کفار کا مقولہ جو (۱۷ : ۴۵) ہے ۔ یہاں بھی مسحور کو ساحر کے معنی میں ماننا پڑے گا ۔ فراء نحوی کا بھی یہی موقف ہے کہ یہاں مسحور بمعنی ساحر ہے ۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ فراء کہتے ہیں :
.
ان المسحور بمعني الساحر كالمشؤم والميمون ۔
.
” مسحور ساحر کے معنیٰ میں ہے جیسے مشؤم اور میمون کے الفاظ ہیں ۔“
.
پس جب مسحور بمعنی ساحر ہوا تو حدیث متفق علیہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا) اس آیت کے مخالف نہیں ہوئی اور نہ کوئی ظلم و کفر لازم آیا اور اگر کوئی صاحب محاورہ عرب سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ان تینوں دلیلوں کو ماننے پر آمادہ نہ ہوں تو کم سے کم انھیں اپنے فہمیدہ معنی کی اصلاح کر لینی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ مسحور کے معنی ان مقامات میں (جادو کیا گیا) نہیں ہے بلکہ ” جادو دیا گیا “ یعنی کفار نے کہا: کہ تم ایسے شخص کی پیروی کرو گے جسے جادو کا علم دیا گیا ہے ۔ یعنی وہ ساحر ہے ۔ چنانچہ مشہور مفسر علامہ ابن جریر طبری نے یہی معنی مراد لئے ہیں ۔ ابن جریر طبری نے کہا:
.
معناه اُعطيت علم السحر فھذه العجائب التى تاتي بھا من ذلك السحر ۔
.
” مسحور کے معنی یہ ہیں تو جادو دیا گیا ہے ۔ پس یہ عجائبات (معجزات) اسی جادو کا نتیجہ ہیں ۔“
.
۳ : نیز کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر بھی کہا ہے :
.
«قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَّسُولًا» (۱۷؍بنی اسرائیل : ۹۴)
.
” انھوں نے کہا: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔“
.
«فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا» (۶۴؍التغابن : ۶)
.
” تو اُنھوں نے کہا: کیا بشر ہماری راہنمائی کریں گے !“
.
لہٰذا آیت (۱۸؍الکھف : ۱۱۰) ”فرما دیجیے کہ مَیں تم جیسا ایک بشر ہی ہوں“ اور حدیث ”اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ“ (مسلم ، المساجد ، السھو فی الصلاۃ… ح : ۵۷۲ ) (مَیں تو ایک بشر ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو مَیں بھی بھول جاتا ہوں ) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اس سے چونکہ کفار کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ لہٰذا احادیث کے ساتھ ان آیات کو بھی نہیں ماننا چاہیے !
.
۴ : کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بھی کہا:
.
.

«قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَّسُولًا» (۱۷؍بنی اسرائیل : ۹۴)
.
” اُنھوں نے کہا: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔“
.
«وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ» (۲۵؍الفرقان : ۷)
.
” اور اُنھوں نے کہا: اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے ۔“
.
آیت « مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ» (۴۸؍الفتح : ۲۹) (محمد اللہ کے رسول ہیں ) اور حدیث ”اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ“ (بخاری ، الاذان ، التشھد فی الاٰخرۃ … ح : ۸۳۱) (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول ہونا ثابت ہوتا ہے ، اس سے چونکہ کفار کے قول سے اتفاق ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا اِس آیت اور حدیث کو تسلیم نہیں کیا جائے گا !
.
۵ : کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا: کہ وہ کھانا کھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سب باتوں پر فرماتا ہے :
.
«انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا» (۲۵؍الفرقان : ۹)
.
” دیکھیے اُنھوں نے آپ کے لیے کیسی مثالیں بیان کی ہیں ، تو وہ گمراہ ہو گئے ، پس اب وہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے ۔“
.
لہٰذا آیت «كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ » (۵؍المائدۃ : ۷۵) (وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ) اور حدیث عن ابي ايوب كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا اُتي بطعام اكل منه (مسلم ، الاشربة ، اباحة اكل الثوم…ح : ۲۰۵۳) ( ابوایوب سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول کیا) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا کھانا ثابت ہے ۔ اس سے چونکہ کفار کے قول کی تصدیق ہوتی ہے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ضلالت قرار دیا ہے ، لہٰذا یہ آیت اور حدیث ناقابل تسلیم ہیں ! ورنہ پھر تو الزامِ کفار کو غلط نہیں کہا جاسکے گا ۔
۔۔۔(جاری ہے )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
مسحور :
.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں جو مسحور کا لفظ اس آیت «إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا» (۲۵؍الفرقان : ۸)
.
(تم صرف ایک مسحور آدمی کی اتباع کر رہے ہو) میں آیا ہے ۔ چونکہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر سحر تسلیم کرنے سے کفار کے قول کی تصدیق ہوتی ہے ۔
.
سوالِ اول کی دو شقیں ہیں :
.
۱ : لفظ مسحور کی تحقیق جو قرآن میں وارد ہوا ہے ۔
.
۲ : حقیقت سحر النبی اور اس کا اثر ۔
.
پس واضح ہو کہ قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت مقولہ « رَجُلًا مَّسْحُورًا» کفار دو مقامات ( بنی اسرائیل ، الفرقان) پر منقول ہے ۔
.
میری تحقیق اس مسئلہ کے متعلق یہ ہے کہ قرآن مجید عرب کے محاور ے میں نازل ہوا ہے اور عرب العرباء کبھی اسم مفعول کے لیے اسم فاعل کا لفظ بولتے ہیں جیسا کہ خود قرآن میں ہے ۔ «عيشة راضية» بمعنی «مرضية » ۔ «مائدة» بمعنی «ممدؤة»
.
اسی طرح کبھی اسم فاعل کے لیے اسم مفعول کا لفظ استعمال کرتے ہیں جیسے «ملک مرطوب » (تری والا ملک) «مکان مھول» (خوف دلانے والی جگہ) «جارية مغنوجة» (ناز کرنے والی لڑکی)
.
خود قرآن میں اس کی مثال «حِجَابًا مَّسْتُورًا» (۱۷؍بنی اسرائیل : ۴۵) ہے :
.
قال الاخفش : المستور ھھنا بمعني الساتر فان الفاعل قد تجيء بلفظ المفعول كما يقال انك لمشؤم علينا و ميمون وانما ھو شائم و يامن ۔
.
اخفش کہتے ہیں کہ مستور سے یہاں ساتر(ڈھانپنے والا) مراد ہے ، اسم فاعل کبھی مفعول کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جیسے «مشؤم شائم»(نحوست والا) کے معنی میں جبکہ «میمون یأمن» (برکت والا) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
.
اسی طرح ہر دو مقام پر مسحور بمعنی ساحر ہے اور اس پر چند دلیلیں ہیں :
.
۱ : کفار مکہ عام طور سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر کہتے تھے نہ کہ مسحور ، سورۃ یونس میں ان کا مقولہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت «لَسَاحِرٌ مُّبِينٌ» (آیت۲) منقول ہے اور سورۃ ص میں «سَاحِرٌ كَذَّابٌ» (آیت۴) ہے ۔ پس بفحوائے تفسیر کلام اللہ اقرب الی الصواب (تفسیر کبیر جلد۳) دونوں جگہوں میں مسحور بمعنی ساحر ہے ۔
.
۲ : سورۃ بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کی بابت بھی فرعون کا مقولہ یوں منقول ہے :
.
«إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا» (آیت : ۱۰۱)
.
” یقیناً میں تو تجھے اے موسیٰ ! جادو زدہ سمجھتا ہوں ۔“
.
حالانکہ سارے قرآن میں فرعون اور اس کی قوم کا مقولہ جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو ساحر کہتے تھے ۔ سورۃالاعراف و سورۃالشعراء میں « لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ» آیا ہے ۔ (دیکھیے سورۃالاعراف : ۱۰۹؛الشعراء : ۳۴)
.
سورۃ المؤمن میں «سَاحِرٌ كَذَّابٌ» (آیت۲۴) آیا ہے ۔
.
سورۃالذاریٰت میں « سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ » (آیت۳۹) آیا ہے ۔
.
سورۃ الزخرف میں «يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ» (آیت۴۹) منقول ہے ۔
.
سورۃ طہٰ میں «بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ» (آیت۵۷) اور «إِنْ هَـٰذَانِ لَسَاحِرَانِ» (آیت۶۳) آیا ہے ۔
.
سورۃ طہٰ اور شعراء میں « وماۤ اكۡرهۡتنا عليۡه من السحۡر» ، اور «إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ» (طہ : ۷۱؛ الشعراء : ۴۹) وارد ہے ۔
.
پس جب فرعون اور اس کی قوم کے لوگ موسیٰ علیہ السلام کو ساحر کہتے تھے تو سورۃ بنی اسرائیل میں فرعون کے مقولہ منقولہ میں مسحور کو ساحر کے معنی میں لینا ہوگا ۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کفار کا مقولہ جو (۱۷ : ۴۵) ہے ۔ یہاں بھی مسحور کو ساحر کے معنی میں ماننا پڑے گا ۔ فراء نحوی کا بھی یہی موقف ہے کہ یہاں مسحور بمعنی ساحر ہے ۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ فراء کہتے ہیں :
.
ان المسحور بمعني الساحر كالمشؤم والميمون ۔
.
” مسحور ساحر کے معنیٰ میں ہے جیسے مشؤم اور میمون کے الفاظ ہیں ۔“
.
پس جب مسحور بمعنی ساحر ہوا تو حدیث متفق علیہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا) اس آیت کے مخالف نہیں ہوئی اور نہ کوئی ظلم و کفر لازم آیا اور اگر کوئی صاحب محاورہ عرب سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے ان تینوں دلیلوں کو ماننے پر آمادہ نہ ہوں تو کم سے کم انھیں اپنے فہمیدہ معنی کی اصلاح کر لینی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ مسحور کے معنی ان مقامات میں (جادو کیا گیا) نہیں ہے بلکہ ” جادو دیا گیا “ یعنی کفار نے کہا: کہ تم ایسے شخص کی پیروی کرو گے جسے جادو کا علم دیا گیا ہے ۔ یعنی وہ ساحر ہے ۔ چنانچہ مشہور مفسر علامہ ابن جریر طبری نے یہی معنی مراد لئے ہیں ۔ ابن جریر طبری نے کہا:
.
معناه اُعطيت علم السحر فھذه العجائب التى تاتي بھا من ذلك السحر ۔
.
” مسحور کے معنی یہ ہیں تو جادو دیا گیا ہے ۔ پس یہ عجائبات (معجزات) اسی جادو کا نتیجہ ہیں ۔“
.
۳ : نیز کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر بھی کہا ہے :
.
«قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَّسُولًا» (۱۷؍بنی اسرائیل : ۹۴)
.
” انھوں نے کہا: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔“
.
«فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا» (۶۴؍التغابن : ۶)
.
” تو اُنھوں نے کہا: کیا بشر ہماری راہنمائی کریں گے !“
.
لہٰذا آیت (۱۸؍الکھف : ۱۱۰) ”فرما دیجیے کہ مَیں تم جیسا ایک بشر ہی ہوں“ اور حدیث ”اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ“ (مسلم ، المساجد ، السھو فی الصلاۃ… ح : ۵۷۲ ) (مَیں تو ایک بشر ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو مَیں بھی بھول جاتا ہوں ) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اس سے چونکہ کفار کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ لہٰذا احادیث کے ساتھ ان آیات کو بھی نہیں ماننا چاہیے !
.
۴ : کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بھی کہا:
.
.

«قَالُوا أَبَعَثَ اللَّـهُ بَشَرًا رَّسُولًا» (۱۷؍بنی اسرائیل : ۹۴)
.
” اُنھوں نے کہا: کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ۔“
.
«وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ» (۲۵؍الفرقان : ۷)
.
” اور اُنھوں نے کہا: اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے ۔“
.
آیت « مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ» (۴۸؍الفتح : ۲۹) (محمد اللہ کے رسول ہیں ) اور حدیث ”اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ“ (بخاری ، الاذان ، التشھد فی الاٰخرۃ … ح : ۸۳۱) (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں ) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول ہونا ثابت ہوتا ہے ، اس سے چونکہ کفار کے قول سے اتفاق ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا اِس آیت اور حدیث کو تسلیم نہیں کیا جائے گا !
.
۵ : کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا: کہ وہ کھانا کھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سب باتوں پر فرماتا ہے :
.
«انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا» (۲۵؍الفرقان : ۹)
.
” دیکھیے اُنھوں نے آپ کے لیے کیسی مثالیں بیان کی ہیں ، تو وہ گمراہ ہو گئے ، پس اب وہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے ۔“
.
لہٰذا آیت «كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ » (۵؍المائدۃ : ۷۵) (وہ دونوں کھانا کھاتے تھے ) اور حدیث عن ابي ايوب كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا اُتي بطعام اكل منه (مسلم ، الاشربة ، اباحة اكل الثوم…ح : ۲۰۵۳) ( ابوایوب سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول کیا) سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا کھانا ثابت ہے ۔ اس سے چونکہ کفار کے قول کی تصدیق ہوتی ہے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ضلالت قرار دیا ہے ، لہٰذا یہ آیت اور حدیث ناقابل تسلیم ہیں ! ورنہ پھر تو الزامِ کفار کو غلط نہیں کہا جاسکے گا ۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
بھائی کچھ سمجھ نہیں آیا۔پہلا جواب جن تھے یہ کیسے معلوم ہوا۔ دوسرا جواب تو انتہائی مضحکہ خیز ہے ۔ اور جانور پتھر مار کر کب ہلاک کر تے ہیں وہ تو حملہ کرتے ہیں۔
بھائی یہ کتاب ہے شیخ جلال الدین قاسمی حافظہ اللہ کی ۔ یہ اسکا یونی کوڈ ہے ۔ کتاب مکمل ہونے دیں پھر سوال جواب کئے جائیں تو زیادہ بہتر ہے ۔
 
Top