• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منکرینِ حدیث کی مغالطہ انگیزیوں کے علمی جوابات ( از شیخ جلال الدین قاسمی حفظ اللہ )

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
صحیح بخاری حدیث نمبر 7437 کی بھی وضاحت بتائیں۔
7437 کا تو آُپ کی کوٹیشن کی تحریر میں حوالہ ہی نہیں ہے ؟ اسکی وضاحت کی کیوں ضرورت پیش آگئی ؟
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190

سورۃ طہٰ اور شعراء میں « وماۤ اكۡرهۡتنا عليۡه من السحۡر» ، اور «إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ» (طہ : ۷۱؛ الشعراء : ۴۹) وارد ہے ۔
یہ غلطی ہوگئی ہے ۔
صحیح یہ ہے :
سورۃ طہٰ اور شعراء میں «إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ» (طہ : ۷۱؛ الشعراء : ۴۹) وارد ہے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
7437 کا تو آُپ کی کوٹیشن کی تحریر میں حوالہ ہی نہیں ہے ؟ اسکی وضاحت کی کیوں ضرورت پیش آگئی ؟
کیونکہ اس میں بھی ایک عجیب و غریب بات یہ کہ اللہ رب العزت کو مجسم ہوکر امتیوں کے پاس آنے کا ذکر ہے روز محشر میں۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
کیونکہ اس میں بھی ایک عجیب و غریب بات یہ کہ اللہ رب العزت کو مجسم ہوکر امتیوں کے پاس آنے کا ذکر ہے روز محشر میں۔
محترم جس باب میں یہ حدیث ہے اسکا نام ہی یہی ہے (صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} [القيامة: 23])
صحیح بخاری: کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید (باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ قیامت میں ) ارشاد اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے ، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ، یا دیکھ رہے ہوں گے))
سورۃ القیامۃ کی آیت نمبر 23 کی تفسیر میں یہ اور اس سے آگے کی احادیث ہیں اس باب میں ۔
اسکی تخریج ملاحظہ کریں
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم جس باب میں یہ حدیث ہے اسکا نام ہی یہی ہے (صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} [القيامة: 23])
صحیح بخاری: کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید (باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ قیامت میں ) ارشاد اس دن بعض چہرے تروتازہ ہوں گے ، وہ اپنے رب کو دیکھنے والے ہوں گے ، یا دیکھ رہے ہوں گے))
سورۃ القیامۃ کی آیت نمبر 23 کی تفسیر میں یہ اور اس سے آگے کی احادیث ہیں اس باب میں ۔
اسکی تخریج ملاحظہ کریں

http://mohaddis.com/Takhreej/Sahi-Bukhari/7437
18141 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
مزید دیکھیں :



محترم
اللہ کو یکھنا ذکر ہے اس آیت میں اور حدیث میں اللہ کا دوبار آنا ہے ۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
محترم
اللہ کو یکھنا ذکر ہے اس آیت میں اور حدیث میں اللہ کا دوبار آنا ہے ۔
پہلی بات یہ کہ یہ حدیث صحیح بخاری کی ہے ، مرفوع ، متصل اور قولی حدیث ہے ۔ اس میں آپ کو کوئی شک ہے ؟
یہ روز محشر کا بیان ہے ۔
آپ ایک مرتبہ تخریج کو ملاحظہ کرلیں ۔ بہت سی احادیث اسکے شواہد میں ہیں ۔ تخریج سے آپ کو صحیح جواب مل جائے گا ۔ ان شاء اللہ ۔
اگر پھر بھی کوئی اشکال ہیں تو متعلقہ فورم تحقیق حدیث میں سوال کرلیں ، وہاں محترم @اسحاق سلفی بھائی ، شیخ @خضرحیات ، شیخ @کفایت اللہ آپ کی راہنمائی فرمادیں گے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
.
” اور کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے سوائے (1) وحی کے ذریعے (2) پردے کے پیچھے سے یا (3) وہ اللہ کسی فرشتے کو بھیجے پھر وہ اپنے حکم سے اس چیز کی جو وہ چاہے اس پر وحی کرے بے شک اللہ بے حد بلند اور کمال حکمت والا ہے ۔ “
محترم
میں آپ کے مشورہ پر ضرور عمل کروں گا۔ آپ اس آیت کو دیکھ لیں جو آپ نے اسی تھریڈ میں ذکر کی ہے۔اس سے پہلے میں ایک بحث اسی فورم میں پڑھی ہے کہ حدیث کے پرکھنے کا طریقہ دروایت کا اصول بھی ہے ۔ عموماً جس حدیث کے راوی ثقہ ہوں اس کا متن بھی ٹھیک ہوتا ہے ۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ راوی ثقہ ہیں لیکن متن ٹھیک نہ ہو۔ اس کی مثال حضرت عباس اور حضرت علی کی حدیث ہے جو مسلم میں ہے۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
گزشتہ سے پیوستہ :۔۔۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کو قرآن کے خلاف قرار دینے کی مغلاطہ انگیزی
.
(از شہباز حسن)
.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جن میں جادو احادیث میں جادو کیے جانے کا بیان ہے انہیں منکرین حدیث خلاف قرآن کہہ کر بہت اچھالتے ہیں اس پر کبھی ”اصل بات تو وہ ہے جو قرآن کے خلاف نہ ہو , کا عنوان قائم کرتے ہیں اور کبھی ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہونے کے سلسلے میں بخاری کی تفصیل اور قرآن کی تردید“ کی سرخی جماتے ہیں اور یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم مخالفین کو لاجواب کردیا ہے لہذا وہ مانتے پر مجبور ہوگئے ہیں جیسا کہ اس عنوان سے ظاہر ہے : :قرآن کی بات اگر دلائل وبراہین سے پیش کی جائے تو پھر وہ تو چپک جاتی ہے ۔
.
(مطالب الفرقان فی دوروس القرآن (سورۃ بنی اسرائیل ) ص : 232)
.
«اِذْ يَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (17 اسرائیل : 47) کی وضاحت میں اس بات پر منکرین حدیث بہت زور دیتے ہیں کہ ”کفار کاقول ہے“ ”قرآن خود یہ بتا رہا ہے کہ کفار کاقول تھا“ ”قرآن کی اس کی نفی کررہا ہے یہاں یہ کفار کا قول بتا رہا ہے ۔“ کفار کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ قول ہے کہ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (17 /بنی اسرائیل : 47) ہے وغیرہ (ایضاًص 233-232)
.
جس سے وہ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ قول کفار کے مطابق آپ رجل مسحور تھے تو اس طرح تو یہ کفار کے قول کی تصدیق یا موافقت ہوئی ۔ غلام احمد پرویز لوگوں سے دریافت کرتے ہیں :
.
”آپ کو معلوم ہے عزیزان ! کہ آپ کے ہاں کا عقیدہ کیا ہے اور کہاں سے وہ آیا ہوا ہے بخاری شریف میں حضور صلى الله عليه وسلم کے متعلق یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر معاذ اللہ ایک یہودی نے جادو کردیا تھا آپ اس جادو کے اثر میں آگئے تھے اور کیفیت یہ تھی کہ آپ کو یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ میں نے فلاں کام کیا ہے یا نہیں کیا ۔ حتیٰ کہ یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے نماز پڑھ لی یا نہیں ۔ ”اس پر کسی نے جادو کردیا ہے“ قرآن اس کی نفی کررہا ہے یہاں پہ کفار کا قول بتا رہا ہے عزیزان من ! آپ کی معتبر ترین کتاب بخاری کی ہے اس میں یہ چیز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کسی یہودی نے جادو کردیا تھا اور بڑی لمبی تفصیل ہے کہ جادو کیسے کردیا تھا کس طرح سے آپ کی یہ کیفیت ہوگئی تھی آپ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» معاذ اللہ بن گئے تھے ۔ پھر کس طرح سے یہ پتا لگایا کس طرح سے لوگوں کو وہاں بھیجا یہاں وہ تعویذ کالا جادو کیا ہوا کنویں میں سے نکالا پھر اس کا اثر زائل ہوا یہ ساری تفصیل دی ہوئی ہے یہاں قرآن یہ کہتا ہے کہ کفار کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ قول ہے کہ وہ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» ہے اور یہ کالا جادو لگائے ہوئے چلے آرہے ہیں“ ۔ (ایضاً)
.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیے جانے کے سلسلے میں پرویز کسی بھی قسم کی مفسرین کی پیش کردہ Justification ماننے کے لیے تیار نہیں وہ اس حدیث کا انکار کیوں کرتے ہیں ! اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے :
.
”اس سے لیے انکار ہے کہ اول تو بہرحال عقل و بصیرت کی بناء یہ چیز آجاتی ہے عقیدت و احترام کو تو چھوڑیے عزیزان من ! خالص اس بناء پر یہ لیجیے کہ جو شخص دنیا کے اندر اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے لاکھوں انسانوں کے دل کے اندر اور پھر باہر کی دنیا کے اندر بھی اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے اس کی کیفیت یہ ہے جادو کا مارا ہوا انسان خود تو وہ کسی اور کے لیے یہ کچھ کرنا ایک طرف رہا اپنے لیے بھی کچھ نہیں کرسکتا جسے یہ بھی یاد نہ رہا ہو کہ میں نماز بھی پڑھ لی یا نہیں وہ اتنی عظیم مملکت کا بھی انتظام کرلے گا ؟ کتنے عظیم انسانوں کے قلب ونگاہ کی دنیا کو بدل کے رکھ دے گا ۔ کیا وہ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» ہوگا؟ معاذ اللہ ! نہیں قطعاً نہیں (ایضاً ص : 233) ) !“
.
”دلائل وبراہین“ کی بات کرتے ہوئے پرویز صاحب گویا ہوئے : میری تو سند یہ ہوتی ہے کہ کیا قرآن کریم یہ کچھ کہتا ہے کہ یا یہ کفار مخالفین اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آکر اس قسم کی کفر کی باتیں کرتے تھے کہ یہ ( رَجُلًا مَّسْحُوْرًا) ہے ؟ یہ ان پہ جادو کردیا ؟ قرآن خود یہ بتا رہا ہے کہ کفار کا قول تھا آپ ہم سے کہتے ہیں کہ مانیے کہ ہاں آپ «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» تھے اس پر کوئی کیا کرے یہ کیا بات ہوئی کہ نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی برہان ہے نہ محفوظ بات کو رد کرسکتے ہیں (مطالب الفرقن فی دوروس القرآن (سورۃ بنی اسرائیل ) ص : 232)
.
آگے چل کر پرویز پوچھتے ہیں اس پر بخاری اس حدیث کو کوئی کیا کرے ۔ (ایضاً ص : 234)
.
احمد مصطفیٰ مراغی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کے اثرات کی نفی اس بنیاد کرتے ہیں کہ اگر ایسا تسلیم کرلیا جائے تو مشرکین کاقول «اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (17 : 47) درست ثابت ہوتا ہے (تفسیر المراغی جزء 30 ص 268)
.
سید قطب نے اس سلسلے کی احادیث کو اس لیے بھی ماننے سے انکار کردیا ہے کہ ھذه الرويات تحالف اصل العصمة النبوية فى الفعل والتبليغ ”یہ روایات فعل و تبلیغ میں عصمت نبوت کے منافی ہیں۔“ (سید قطب ؛10/294 مطبعة عیسی البابی الحلبی ، مصر)
.
حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیے جانے کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں ۔ یہ احادیث صحیح بخاری ، مسلم ، سنن ابن ماجہ ، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں موجود ہیں ۔ صحیح بخاری یہ حدیث کئی مقامات پر آئی ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کرلیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے دعا کی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمھیں معلوم ہے اللہ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی ۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! وہ خواب کیا ہے ؟ فرمایا : ”میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس پھر ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: ان صاحب کی بیماری کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے ۔ پہلے نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے ؟ جواب دیا کہ لبیدبن اعصم نے ۔ پوچھا: وہ کس چیز میں ہے ؟ جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں ۔ پوچھا: وہ ہے کہاں؟ کہا: وہ ذروان میں اور ذروان بنی کا ایک کنواں ہے ۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا : ”واللہ اس کا پانی تو مہندی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درکت شیطان کے سر کی طرح تھے ۔“ بیان کیا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انھیں کنویں کے متعلق بتایا ۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھے اللہ نے شفا دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں ۔“ (بخاری الدعوات 80 ، تکریر الدعاء 57 ح 6391 ، نیز دیکھیے الطب 76 ، السحر 47 ، ح 5763 ، ھل یستخرج السحر 49 ، ح 5766 ، الادب78 ، ح 6063 ، الجزية والموادعة 58 ، ھل يعفي عن الذمي اذا سحر 14 ، ح 3175 ، مسند احمد 96 ، 64 ، 63 ، 57/6)
.
اس روایت میں ”آپ کو خیال گزرتا“ ان صاحب کی بیماری کیا ہے ؟ ”اور اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے“ سے معلوم ہوتا ہے جادو سے صرف جسمانی تکلیف ہی محسوس کرتے تھے یعنی جادو کا اثر صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تک ہی محدود تھا نبوت ورسالت اس اثر سے محفوظ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو کے اثر سے کوئی شرعی حکم یا عمل ترک نہیں کیا ۔ پرویز نے جو صحیح بخاری کے حوالے سے یہ کہا: کہ آپ کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ ”حتی کہ یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے نماز پڑھ لی یا نہیں“ یہ وہی ”علمی دیانت“ ہے جس کا مظاہرہ وہ اکثر اپنی تالیفات میں کرتے رہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثر کرنے کی بنیاد پر انہوں نے ”جادو کا مارا ہوا انسان“ کے الفاظ غلو و مبالغہ آرائی کرتے ہوئے استعال کیے ہیں جو کہ علمی خیانت ہے ۔
.
حالانکہ اس سلسلے کی بخاری کی کسی بھی حدیث میں اس بات کا تذکرہ موجود نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے نہ پڑھنے کا بھی یاد نہیں رہتا تھا اوپر بیان کردہ حدیث میں آپ سمجھنے لگے کہ فلاں کام ”آپ نے کرلیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا“ کا تذکرہ ہوا ہے ایک حدیث بخاری میں كان يخيل اليه انه صنع شياء ولم يصنعه (ح : 3175) کے الفاظ ہیں ۔
.
بخاری کی ایک اور حدیث میں حتي كان يرى انه ياتي النساء ولا ياتيھن (ح 5765) کے الفاظ ہیں ليخيل اليه انه يفعل الشئ وما فعله (ح 5766) کے الفاظ ایک حدیث میں موجود ہیں ۔
.
اس معنیٰ و مفہوم کے الفاظ مسند احمد میں ہیں (مسند احمد 96 ، 63 ، 57/6)
.
ان حوالہ جات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر جسمانی حد تک تھا روحانیت اس سے متاثر نہیں ہوئی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ کی سرگرمیوں میں کوئی نہیں آیا ، یہی وجہ ہے کہ عام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیے جانے واقعہ سے واقف تک نہ تھے امہات المؤمنین میں سے بعض اس سحر کے اثرات سے واقف تھیں ۔ جب یہ اثرات جسم کی حد تھ تھے تو سحر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اثر جانے کو عصمت نبوت کے منافی کیوں کر قرار دیا جاسکتا ہے !
.
پھر یہ بات قرآن کی نص سے ثابت ہے کہ وحی الہٰی میں کوئی شیطانی اثر نہیں ہوسکتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : « وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّـهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّـهُ آيَاتِهِ» (22/الحج : 52)
.
”اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہ جب کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا تو جو شیطان ڈالتا ہے اللہ اسے دور کرتا ہے پھر اللہ اپنی آیات کو مضبوط کردیتا ہے ۔“
.
لہٰذا رسول پر جو جسمانی عوراض طاری ہوں ان سے وحی الہیٰ اور احکام ربانی کو نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال نہیں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
.
یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ یہ جادو شریعت کے احکام پر ہر گز اثرانداز نہیں ہوا ۔ بلکہ یہ اثر محض آپ کی ذاتی حثییت تک محدود رہا ۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت تک آدھے سے ذیادہ قرآن نازل ہوچکا تھا عرب کے لوگ اس وقت دو متوازی فرقوں میں بٹ چکے تھے جن میں ایک فرقہ تو مسلمان تھا یا مسلمانوں کا حلیف اور دوسرا فرقہ ان کے مخالف . اگر اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر شریعت میں اثر انداز ہوتا ، یعنی کبھی آپ نماز ہی نہ پڑھاتے یا ایک کے بجائے دو پڑھا دیتے یا قرآن کی آیات خلط ملط کرکے یا غلط سلط پڑھتے یا کوئی اور کام شریعت منزل من اللہ کے خلاف سر زد ہوتا تو دوست و دشمن سب میں یعنی پورے عرب میں اس کی دھوم مچ جاتی جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ اس اثر سے آپ کے شرعی اعمال وافعال میں کبھی حرج واقع ہوا ہو ۔ (مولانا عبدالرحمٰن کیلانی : آئینہ پرویزیت ص : 727ط : 4 ، 2004ء مكتبة السلام وسن پورہ لاہور)
.
اگر جسم پر سحر کے اثر کی وجہ سے عصمت نبوت پر حرف آتا ہو تو موسٰی علیہ السلام پر جادو کا اثر نہ ہوتا جبکہ یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا اثر ہوگیا تھا ارشاد باری تعالیٰ ہے : «قَالَ بَلْ اَلْقُوْافَاِذَا حِبَالُـهُـمْ وَعِصِيُّـهُـمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِـمْ اَنَّـهَا تَسْعٰى فَاَوْجَسَ فِىْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى» (20 طہٰ 66-68)
.
”موسیٰ نے کہا: تم ہی ڈالتے ہی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسٰی کے خیال میں ایسے آنے لگیں کہ وہ دوڑ رہے ہیں تو موسٰی نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا ہم نے کہا: خوف نہ کرو ۔“
.
معلوم ہوا موسٰی علیہ السلام کے جسم پر جادو کا اثر ہوگیا تھا مگر جادو کی وجہ سے کفار ان پر غالب نہ آسکے تھے اسی طرح جادو کرنے سے یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب نہیں آگئے تھے بلکہ مسلسل دشمنان پیغمبر ذلیل سے ذلیل تر ہوتے گئے ۔
.
آیات مذکورہ میں موسیٰ علیہ السلام کے لیے «يُخَیَّلُ اِلَيْهِ» کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور بالکل یہی الفاظ اوپر بیان کردہ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آئے ہیں اگر جادو کے اثر ہونے سے موسٰی علیہ السلام کو رجل مسحور کہنا درست نہیں تو پیغمبر علیہ السلام کو بھی «رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» کہنا درست نہیں جیسا کہ پرویز باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ موسٰی علیہ السلام کے لیے بھی فرعون نے مسحورا کا لفظ استعمال کیا تھا :
.
«فَقَالَ لَهُ فِرْعَوْنُ إِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا مُوسَىٰ مَسْحُورًا» (17 الاسراء : 101)
.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی انہوں نے مسحورا کا لفظ استعمال کیا تھا :
.
«اِذْ يَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (17/الاسراء : 47)
.
دوسری آیت میں یہ الفاظ ہیں : «وَقَالَ الظَّالِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا» (25/الفقران : 8)
.
فرق صرف اتنا باقی رہ جاتا ہے کہ موسٰی علیہ السلام پر جو جادو کا اثر «يُخَیَّلُ اِلَيْهِ» ہوا تھا اس کا ذکر قرآن میں ہے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو جادو کا «يُخَیَّلُ اِلَيْهِ» ہوگیا تھا اس کا تذکرہ احادیث نبویہ میں ہے مگر پرویز صاحب کہتے ہیں :
.
”بخاری کی اس حدیث کو کوئی کیا کرے ۔“
.
(مطالب الفرقان فی دوروس القران (سورۃ نبی اسرائیل) ص : 234)
.
کیا انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرویز کو یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ موسٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو مسحورا کہنے کا قول تو کفار کا تھا لہذا کی ان آیات کو کوئی کیا کرے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے جسم پر جادو کا اثر ہوگیا تھا اور وہ ڈر گئے تھے ؟؟
.
عبداللہ بن علی نجدی قصیمی لکھتے ہیں :
.
فتغير قدامه الاشياء ويظنھا على غير ماھي عليه فالا مثل الحديث (عبدالله بن على النجدي القصيمي : مشكلات الاحاديث النبوية وبیانھا ، ص : 56 ، ط : 1986/51406 ، المجلس العلمی السلفی ، لاھور)
.
”موسیٰ علیہ السلام کے سامنے چیزوں کی ماہیت بدل گئی پس آیت حدیث کی طرح ہے“
.
پرویز نے جس انداز سے احادیث سحر کی تردید کی ہے اس سے تو قرآن کی تردید کا پہلو بھی نکلتا ہے حدیث کی مخالفت میں ایسا ہونا بعید بھی نہیں ہے ۔
۔۔۔۔(جاری ہے )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حدیث بخاری کو قرآن کے خلاف قرار دینے سے پہلے اگر پرویز نے ”خالی الذھن“ ہو کر رجلا مسحورا اور اس جیسی دیگر آیات کے سیاق وسباق پر غور کیا ہوتا تو ان پر الفاظ کے کہنے کا مقصد واضح ہوجاتا ہے اور وقتی طور پر جسم کے اثر کر جانے اور مسحور ہونے کا فرق بھی کھل جاتا ہے ۔
.
کفار جو نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر انبیاء کو مسحور یا مسحر کہا: تو اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ انبیاء کی نبوت کا دعویٰ جادو کے اثر کی وجہ سے ہے وہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے پیش کردہ شرعی احکام یا معجزات کو جادو کا کرشمہ سمجھتے تھے ۔ مثلاً جب «تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ» ـ(نو واضح نشانیاں) کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے تو فرعون نے آپ کو مسحورا ( جادو زدہ )کہا تھا ۔ (101 : 17)
.
سیدنا صالح علیہ السلام نے جب قوم کو دعوت توحید دی تو قوم نے «اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَ» (153 : 26) کے الفاظ سے انہیں جادو زدہ قرار دیا ۔ اور ان کی نبوت کو اس لیے نہ مانا کہ «مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُـنَا» (156 : 24) ”تم اور کچھ نہیں ہماری طرح کے آدمی ہو ۔ “
.
اسی طرح کا جواب سیدنا شعیب علیہ السلام کو ان کو قوم نے دیا تھا (186 ۔ 185 : 26)
.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی جہاں مسحورا کا لفظ آیا ہے وہاں یہی بات تھی کہ وہ لوگ اپ کو نبی ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور آپ کی تعلیمات کو جادو کا کرشمہ قرار دیتے تھے توحید الہٰی کا بیان سن کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور سرگوشیاں کرتے تھے کہ تم مسحورا آدمی کو پیروی کرتے ہو لہذا وہ گمراہ ہوگئے ۔ (دیکھیے الاسراء 17 : 47 ، 48)
.
دوسرے مقام پر تو اور بھی صراحت سے یہ بات بیان کی گئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کفار جو طرح کے الفاظ استعمال کرتے تھے تو ان کا مقصد یہ تھا کہ ایسا شخص نبی نہیں ہوسکتا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
.
«وَقَالُوا مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا ﴿٧﴾ أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ﴿٨﴾ انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا﴿٩﴾»(25 /الفرقان : 9-7)
.
” اور انہوں نے کہا: یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا کہ اس کے ساتھ ہدایت کرنے کو رہتا یا اس کی طرف خزانہ تارا جاتا اس کا کوئی باغ ہوتا کہ اس میں سے کھایا کرتا اور ظالموں نے کہا: کہ تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو ۔ دیکھو تو یہ تمھارے بارے میں کس کس طرح کی باتیں ہیں سو گمراہ ہوگئے اور راستہ نہیں پاسکتے ۔ “
.
تو کیا کفار کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاذ اللہ «رجلاً مسحورا» کہنا اور مسلمانوں کا معتبر احادیث کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کا جسمانی اور وقتی اثر تسلیم کرنا ایک جیسا ہے ؟ بینھما بعد ساشع ۔ ۔ ۔ ٰ
.
یہاں ایک اور چیز بھی قابل غور ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سحر کی وجہ سے بعض چیزیں یاد نہیں رہتی تھیں یہ کیفیت چند ماہ کبھی کبھی ہوجاتی تھی جبکہ سحر کے بغیر بھی انبیاء ورسل علیہم السلام کا نسیان ثابت ہے ۔ وحی خفی کے انکار کے وقت منکرین حدیث ایسے دلائل کے انبار جمع کردیتے ہیں تاکہ اپنا مقصود حاصل کریں ۔
.
سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنے لیے «نَسِيتُ» ( 18/الکھف 63 ، 73) ”میں بھول گیا“ کالفظ استعمال کیا موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھی یوشع بن نون دونوں کے لیے «نَسِيَا» (18 الکھف : 61) (وہ دونوں بھول گئے ) کا لفظ قرآن میں آیا ہے آدم علیہ السلام کے لیے «نَسِیَ» (طہٰ 20 : 115) ”وہ بھول گیا“ کا لفظ قرآن میں ہے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ نے «وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ» (18 الکھف 24) اور «فَلَا تَنْسَىٰ»(87الاعلٰی : 6) فرماکر «إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ» کا استثناء کرکے نسیان کا اثبات کیا ۔ مولانا عبداللہ بن علی القصیمی لکھتے ہیں :
.
فما كان جوابا لھم عن النسيان كان جوابا لنا عن السحر (مشکلات الاحادیث النبوية ویبانھا ، ص : 53)
.
”جو جواب ان کا نسیان کے بارے میں ہوگا وہی ہمارا جواب سحر کے بارے میں ہوگا ۔ “
.
انبیاء ورسل علیہم السلام کے نسیان کے باوجود تبلیغ رسالت میں کوئی حرف نہیں آیا اور نہ کوئی خلل واقع ہوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی مسلسل راہنمائی اور حفاظت کرتا تھا اس لیے اگر ان سے کبھی کوئی لغزش ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فوراً تصحیح کردیتا ۔
.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض دفعہ بھول جاتے تھے مگر اس نسیان کی وجہ سے کوئی شرعی حکم متاثر نہیں ہوا بلکہ آپ نے نسیان میں بھی امت کے لیے مکمل اسوہ حسنہ بننے کی حکمت موجود ہوتئ تھئ کہ امت بھی کسی عمل کی ادائیگی بھول جائے تو اسی طرح کرے جیسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۔ بھولنے پر آپ کی کسی نی کسی ذریعے سے یاد دہانی ہوجاتی تھی ۔ اسی طرح حالت سحر میں بھی آپ کا بھول جانا تبلیغ رسالت میں مخل نہیں ہوا ۔ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری اپنے مقالے ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کی حقیقت اور مفسرین“ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
.
” مفسرین کرام نے عمل سحر کے اثرات کی مطلقاً نفی نہیں کی ۔ ہاروت ماروت کا جادو سکھانے کا واقعہ اور ساحرین کا فرعون کے جادو کے اثرات اثبات سحر کی نقلی دلیل ہین عقل وقیاس بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اگر انیباء کرام علیہم السلام کو زخم بیماری اور بچھو کا کاٹنا تکلیف دے سکتا ہے تو جادو کے اثرسے جسمانی یا روحانی اذیت پہنچنا بھی ایسا ہی عمل ہے ساحرین فرعون کے عمل سحر سے دیگر لوگوں کی طرح سیدنا موسٰی علیہ السلام پر بھی خوف طاری ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تسلی دی اور کہا: کہ تم جو تمھارے داہنے ہاتھ میں ہے سے پھینکو یہ سب کچھ نگل جائے گی ۔
.
احمد مصطفیٰ المراغی سید قطب شہید رحمه الله اور امین احسن اصلاحی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کو عصمت انبیاء کے خلاف قرار دیا ہے اس سلسلے میں جواحادیث ہیں وہ عام طور پر خبر احاد ہیں لییکن خود انہی بزرگوں نے کسی حد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثرات کو درست بھی تسلیم کیا ہے ۔
.
سید قطب رحمہ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کی روایات میں سے کچھ کو صحیح تسلیم کرتے ہیں ۔ تو اگر یہ متعدد روایات ہیں اور صحاح ستہ کی اکثر کتب میں مستند طور پر روایت کی گئی ہیں تو پھر ان کی صحت کو تسلیم کرنے سے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
.
محترم اصلاحی صاحب نے یہ تسلیم کیا ہے کہ انبیاء کرام پر جادو کے اثرات عارضی طور پر ہو سکتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عام طور پر جو مفسرین کرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم سحر کی نفی کرتے ہیں وہ اسے یکسر رد نہیں کرتے ۔ “
.
احادیث کی حثیت کے بارے میں ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں :
.
” جہاں تک احادیث کے خبر احاد ہونے کا تعلق ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ خبر احاد کو محض اس لیے رد نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی حثیت خبر واحد کی ہے خبر واحد کو ان بزرگوں نے صحیح بھی قرار دیا ہے ۔ سب کی صحت پر اعتراض نہیں کیا جہاں تک عصمت انبیاء علیہم السلام کا تعلق ہے وہ اس سحر کے اثر سے متاثر نہیں ہوتی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثرات جسمانی و ذاتی اور باطنی حد تک تھے ان اثرات کو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو محسوس کررہے تھے کسی اور پر ہرگز ظاہر نہ ہوتے تھے البتہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے تفصیل بیان کی اور کنویں میں سے مواد سحر کو نکالا گیا تب اکثر لوگوں کو پتا چلا ۔
.
جب تک آپ پر جادو کا اثر رہا آپ جسمانی کرب وتکلیف فرماتے رہے لیکن کسی فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کمی بیشی واقع نہ ہوئی ۔ (پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد منصوری رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کی حقیقت اور مفسرین محدیث (ماہنامہ) ص 61 فروری 1990)
.
اس ساری بحث سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ منکرین احادیث کو رد کرنے کے لیے جس طرح انھیں قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیں اسی انداز کو اگر قرآن میں جاری و ساری کریں تو بہت سی آیات متضاد قرار پاکر ان کے نزدیک کالعدم ہوجائیں ہاں اگر محدیثین کے اصول پر چلیں تو کوئی بھی صحیح حدیث انہیں قرآن سے متصادم نظر نہیں آئے گی ، بلکہ اکثر احادیث تفسیر القرآن بالحدیث کے اصول تفسیر میں قدم قدم پر فہم قرآن میں مدد کریں گی ، مگر منکرین حدیث اور غلام احمد پرویز کے نزدیک صرف وہی حدیث صحیح ہوسکتی ہے جو قرآن کے مطابق ہو ۔ ا س لیے تفسیر القرآن بالحدیث میں پرویز بعض احادیث بھی ذکر کردیتے ہیں جو ان کے فہم قرآن کی تائید کرتی ہیں یا جن سے (بزعم خویش) مخالفین کو لاجواب کرنا مقصود ہوتا ہے تفسیر میں جو احادیث وہ بیان کرتے ہیں وہ صرف اپنے مطلب کی حد تک لیتے ہیں ورنہ اصول محدیثین کے مطابق وہ کسی بھی حدیث کو تسلیم نہیں کرتے ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے راقم الحروف کا پی ایچ ڈی کا مقالہ : عربی لغت سے استدلال اردو تفسیری ادب کے رجحانات)
۔۔۔(جاری ہے )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
دجال :
.
منکرین حدیث واقعہ کو ایک فسانے سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت سی احادیث میں اپنی امت کو مسیح دجال کے فتنے سے ڈرایا اور بتایا ہے کہ یہ روئے زمین کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا جس سے ہر ایک مسلمان دو چار ہوگا ۔ مسیح کا مطلب ہے ممسوح العينکیونکہ اس کی ایک آنکھ نہ ہوگی ۔ سیدنا عیسٰی علیہ السلام کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دجال کو قتل کریں گے کیونکہ عربی میں کہا جاتا ہے :
.
مسَحَ الله العِلَّةَ عن العليل ”اللہ نے بیماری سے شفا دی ۔ “
.
چونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے عیسٰی علیہ السلام مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے وہ اچھا ہوجاتا تھا اور مسح فلانا بالسيف کا مطلب ہے قتل کرنا ۔ چونکہ عیسیٰ علیہ السلام دجال کو قتل کریں گے اسی وجہ سے انہیں مسیح کہا گیا ہے اور عربی میں مسیح کانا کو بھی کہتے ہیں چونکہ دجال کانا ہوگا ۔ (بخاری الفتن ذکر الدجال ح 7131) اسی وجہ سے مسیح کہا جاتا ہے ۔
.
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ ایک کشتی پر سوار ہوئے کشتی ایک جزیرے پر جا پہنچی یہ جزیرہ قبرص (Cyprus) کے قریب تھا اس جزیرے پر انہوں نے ایک جانور جساسہ دیکھا جس کا چہرہ انسان کا چہرہ تھا اور بدن پر بال بہت زیادہ تھے مگر پتا نہ چلتا تھا کہ وہ مرد ہے یا عورت ۔ اس کے بعد دجال کو دیکھا جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا ۔
.
(مسلم الفتن قصة الجساسة ۔ ح 2942)
.
دجال یہودیوں میں سے ہوگا ۔ یہ ایران کے شہر خراسان سے نکلے گا بعض کہتے ہیں کہ اصفہان سے نکلے گا یہ بھی خراسان ہی کے قریب ہے اور ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہوجائیں گے جو دجال کا لشکر ہوں گے ان کے جسموں پر طیالسہ یعنی طیلسانی (ہرے رنگ جیسے ) کپڑے ہوں گے(مسلم الفتن فى بقية من احاديث الدجال ح 2944) :
.
دجال کے ہاتھوں بہت سی خرق عادت چیزوں کا ظہور ہوگا وہ ویران جگہ سے خزانہ نکال دے گا ۔ مردے کو بظاہر زندہ کردے گا جنت و جہنم دکھائے گا اس کی جنت جہنم ہوگی اور جہنم جنت ہوگی جب یہ نکلے گا تو پہلے ایمان اور عمل صالح کی دعوت دے گا مگر بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ف ر (کافر) لکھا ہوا ہوگا جسے نہ صرف پڑھا لکھا ان پڑھ مسلمان بھی پڑھ لے گا البتہ کافر ومنافق نہ پڑھ سکیں گے (اگرچہ وہ کتنے ہی پڑھے لکھے ہوں۔ )
.
پھر عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا دمشق شام میں منارہ شرفیہ کے پاس اتریں گے مہدی کا ظہور ہوگا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہوں گے وہ زمین کو عدل وسلامتی سے بھر دیں گے عیسٰی علیہ السلام مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور مہدی شریعت محمدیہ کے مطابق فیصلہ کریں گے پھر عیسٰی علیہ السلام دجال کا پیچھا کریں گے اور اسے فلسطین کے ایک مقام باب لد کے پاس قتل کریں گے ۔ (دیکھیے بخاری الفتن ذکر الدجال ح 7130 ، 7131 ، مسلم ، الفتن ، ذکر الدجال ، ح 2937)
.
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دابة الارض اور یاجوج ماجوج کا ذکر فرمایا مگر دجال کا نام ذکر نہیں فرمایا !
.
جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اشارتاً اس کا ذکر فرمایا ہے : «يَوْمَ يَاْتِىْ بَعْضُ اٰيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًااِيْمَانُـهَا» (6/الانعام : 158)
.
”جس دن آپ کے رب نشانیاں ظاہر ہوں گی تو کسی اس وقت ایمان لانا فائدہ نہ دے گا ۔ “
.
اس ایت کی تفسیر ایک حدیث اس طرح کرتی ہے :
.
ثلاث اذا خرجن جن یعنی تین چیزوں کا جب ظہور ہوگا تو کسی کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے ایک ہے سورج کا مغرب سے نکلنا دوسرا دابة الارض کا نکلنا تیسرا دجال کا نکلنا ۔
.
(ترمذی التفسیر ومن سورۃ الانعام ح 3072)
.
نسخ :
.
منکرین حدیث قرآن میں نسخ کے بھی قائل نہیں ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ» (2/البقرۃ : 106) ”جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں“
.
قرآن میں نسخ کا بین ثبوت ہے ۔
.
ملحوظہ : ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نسخ شیعہ کے عقیدے ”عقیدہ بدا“ کے خلاف ہے ۔ بدا کا مطلب ہے کہ پہلے کوئی حکم دیا پھر اس حکم میں کسی غلطی یا نقصان کا علم ہوا تو اسے بدل دیا ۔ بدا کے مفہوم میں غلطی اور خطا داخل ہے ۔
.
نسخ کا مطلب کہ ایک حکم کا زمانہ ختم ہوجائے اور دوسرے حکم کا زمانہ آجائے تو پہلے حکم کو بحکمت بالغہ دوسرے حکم سے بدل دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کی کتاب قرآن بھی حکمت والی کتاب ہے ایک حکیم کسی مریض کے مرض کی تشخیص کے بعد اس کا علاج کرتا ہے تو مریض کی حالت جیسے جیسے بہتر ہوتی جاتی ہے وہ دوا بدلتا جاتا ہے مرض کی ابتداء سے لے کر انتہاء تک ایک ہی دوا دیتے جانا حکمت خلاف ہے ۔
.
نسخ سابقہ شریعتوں میں بھی رہا ہے جیسے بہن بھائیوں کی شادی شریعت آدم علیہ السلام میں جائز تھی بعد میں حرام ہوگئی ۔
.
اسی طرح شریعت یعقوب علیہ السلام میں دو سگی بہنوں سے ایک ساتھ نکاح درست تھا بعد میں اسے حرام قرار دیا گیا ۔
.
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ذبح کا حکم دیا پھر ذبح سے پہلے اس حکم کو منسوخ کردیا ۔
.
قانون الہیٰ کے نسخ میں انسانوں کے لیے بہت سی مصلحتیں ہیں کوئی قانون کسی سبب کے تحت کوئی حکم نافذ کرتا ہے مگر جب سبب زائل ہوجاتا ہے تو اس حکم کو اٹھالیا جاتا ہے ۔ ؎ ۱
.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قربانیوں کے گوشت کے ادّخار ( ذخیرہ کرنے ) سے منع فرمایا تھا مگر جب صحابہ رضی اللہ عنہم میں معاشی خوشحالی آئی تو اس حکم کو منسوخ کردیا ۔ (دیکھیے مسلم ، الاضاحی ، بیان ما کان من النھی عن اکل الحوم الاضاحی ۔ ۔ ۔ ۔ ح 1969 ، 1970 ، 1971 ، 198 ، 1972)
.
قرآن میں شراب کی حرمت کے نزول میں تدریج در حقیقت اسی حکمت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
.
نسخ کبھی صریحی کبھی کلی اور کبھی جزئی ہوتا ہے قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ایک مثال کو ذہن میں رکھنا کافی ہوگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
.
«كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَـرَكَ خَيْـرَا ِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِـدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَ» (2 البقرۃ 180)
.
”تم پر فرض کردیا گیا جب تم میں کسی کو موت آ پہنچے اگر اس نے کوئی مال چھوڑا ہو اچھے طریقے کے ساتھ وصیت کرنا ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے متقی لوگوں پر یہ لازم ہے ۔ “
.
یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ انسان مرتے ماں باپ کے لیے ترکے میں وصیت کرسکتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت میراث «يُوْصِيْكُمُ اللّـٰهُ فِىٓ اَوْلَادِكُمْ» (4 النساء 11) میں یہ حکم منسوخ کردیا یہ آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ ہے اور پہلا حکم منسوخ ہے جمہور کی رائے یہی ہے ۔
.
.

------------------
.
؎ ۱: وحی بند ہونے کے بعد اگر کسی حکم کا سبب بالفرض زائل بھی ہوجائے تو وہ حکم باقی رہے گا ، کیونکہ اسے ختم کرنے کا اختیار امت میں سے کسی کے پاس بھی نہیں ، اور نہ اس کی جگہ پر کوئی نیا حکم دیا جاسکتا ہے ، کیونکہ منسوخ کرنا اور ناسخ لانا وحی کے ذریعے ہی ہوتا ہے ۔ جیسا سورۃ البقرۃ ( آیت 106 ) میں واضح کیا گیا ہے ۔ ( شہباز حسن )
 
Top