جناب!!
آپ کے استدلال کی بنیاد صرف اسی چیز پر ہے کہ آپ نے مملوک اور ماذون کو ایک ہی چیز سمجھ لیا ہے۔
1۔۔۔ کیا آپ کے نزدیک مملوک ہونا ماذون ہونے کو مستلزم ہے؟؟
2۔۔۔ کیا آپ کے مطابق مملوک ماننے کامطلب ماذون مانناہے؟
3۔۔۔ مشرکین(الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک)کے الفاظ سے بتوں کےمملوک ہونے کا اقرار توکرتے تھے مگراس سے ماذون ہونے کاقول اسی صورت میں آپ سمجھ سکتے ہیں جب مملوک اور ماذون مترادف ہوں۔ پہلے ان دونوں کا مترادف ہونا تو ثابت کر لیتے پھر اس سے استدلال کرتے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب مملوک اور ماذون کا فرق آپ اوروں کو سکھایے گا الفاظ بالکل واضح ہیں میرے جو الفاظ تھے کہ یہاں ملکیت سے مراد اذن ہے کے بارے
وہ یہ ہیں ان پر آپ نے تبصرہ ہی نہیں کیا
اگلی بات جس کا وہ مالک ہے اسکا بھی تو مالک ہے(یعنی حقیقی مالک تو ہے وہ تو تیرے اذن سے مالک بنا ہے )
(تملکہ و ما ملک اس کو ما نافیہ بھی کہا گیا ہے کہ تو ہی اس کا مالک ہے وہ مالک نہیں ہے یعنی جو تصرف یہ کرتاہے وہ یہ نہیں تو ہی کرتاہے )
کیونکہ ان کے معبود کوئی حسی چیزیں نہیں رکھتے تھے جن کی ملکیت کا ذکر کیا جاتا
اس پیرے پر رد کیجئے اور ذرا وہ جو آپ کے ہاں ایک معتمد شخیصت ہے نا شاہ ولی اللہ ان کو بھی پڑھ لیتے تو اندازہ ہو جاتا
کیا کسی کا حؤالہ دیں کہ جناب کہے دیں گے ہمنہیں مانتے اس کو اس کا نام نہ لیجئے گا خیر بتا دیجئے گا کہ شاہ ولی اللہ بھی آپ کے ہاں مسلمہ عالم ہیں یا نہیں
وہ لکھتے ہیں الفوز الکبیر میں لا یثبتون لاحد قدرۃ الممانعۃ اذ ابرم اللہ تعالی امرا مشرکین مکہ کسی کیلئے بھی ایسی قدرت کو ثابت نہیں کرتے تھے کہ اگر اللہ ایک فیصلہ کر لےتو وہ اللہ سے اختلاف اور جھگڑا کر سکتا ہے
کہیئے اسے کیا کہتے ہیں ؟؟؟ ماذون کہ نہیں ؟؟؟ مزید دل مطمئن نہ ہو ویسے ہونا نہیں وجہ ۔۔۔۔۔۔
آگے مثال دے کر سمجھایا ہے شاہ ولی اللہ نے کہ مشرکین اپنے معبودان باطلہ کو ایسے ہی سمجھتے تھے جیسے کوئی بادشاہ کسی وزیر کو بعض امور میں اختیار کامل دے دیتا ہے
لنک یہ لیں آن لائن
https://ia601001.us.archive.org/33/items/abuyaala_fawz_dahlawi/fawz_dahlawi.pdf
قرآن کی باقی آیات بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہیں مثلا من بیدہ ملکوت کل شئی و ھو یجیر و لا یجار علیہ
مزید جناب نے لکھا
اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے متعلق سورۃ الزمر:43 میں فرمایا:۔
أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعاءَ
کیاانہوں نے من دون اللہ شفیع بنا لئے؟
اس پرتفسیرزمخشری،تفسیرنسفی،تفسیرنیشاپوری،تفسیرابوالسعود میں
لکھاکہ :مِنْ دُونِ اللَّهِ من دون إذنه شُفَعاءَ۔
یعنی کیاانہوں نے من دون اللہ یعنی اللہ کے اذن کے بغیر شفیع بنا لئے؟
مگرآپ کہتے ہیں کہ مشرکین باذن اللہ اختیارات مانتے تھے۔کیا آپ مشرکین کے متعلق من دون اللہ کی آیات کو برحق نہیں مانتے؟
یہ زمخشری وغیرہ آپ پر حجت ہونگے ہم پر نہیں ویسے مجھے یاد پڑتا ہے کہ احمد رضا خا ن صاحب نے لکھا تھا کہ تفسیر میں صرف صحابہ کے اقوال حجت ہیں
اگر ایسا نہیں تو ذرا وضاحت کر دیجئے گا
باقی اللہ نے تو آپ کے بابوں کو بھی اجازت نہیں دی کہ ان کو آپ لوگ سفارشی بنانے چلپڑیں دی ہے تو دیں دلیل لیکن عام نہیں ہونی چاھیئے
اور یہااں اللہ عز وجل ان کے اس دعوے پر رد کر رہا ہے کہ یہ ہمارے سفارشی ہیں یہ نہیں ہے آیت میں جو جناب ثابت کرنے چلے کہ اللہ یہ فرماتا ہے کہ مشرکین کا یہ دعوی ہے کہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر ہی اپنے معبودان باطلہ کو سفارشی سمجھتے ہیں
ایک ہے کسی کا دعوی کرنا دوسرا ہے اس کا اس دعوی میں سچا ہونا دونوں کا فرق ذھن نشین رکھیں اور یہ آخری سطر کا جواب ذرا شاہ ولی اللہ سے بھی کیجئے گا
کہیں تو باقی کا بھی جواب دے ڈالوں لیکن سوچتا ہوں بات کہیں دور نکل جائے گی
اسی کا جواب مرحمت فرمایئے اور آپ کے فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں جو دیئے جاتے ہیں پڑھنے والے فیصلہ کر لیں گے