السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ما فوق الاسباب کے معنی سمجھنے کے لئے تو عربی جاننے کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ جسے اردو سمجھ آتی ہو اسے بھی سمجھ آجائے گا کہ:
ما فوق الاسباب کے معنی ہیں اسباب سے بالا تر، یعنی اسباب کا محتاج ہوئے بغیر!
(جاری ہے)
حضرت اس پر عرض ہے کہ ہم خود اس بات کے قائل نہیں۔مخلوق کی ہر مدد سبب کی محتاج ہے چاہے وہ اسباب عادیہ ہوں یا غیر عادیہ۔اور جو اذن رب اپنے بندوں کو دیتا ہے وہ بھی تو ایک سبب ہے نہ لہذا اگر اس آیت سے آپ کا یہ استدلال ہے کہ مدد کرنے کے لئے اسبباب کی ضرورت ہے اور اسباب سے بے نیاز صرف ایک اللہ کی ذات ہے تو ہم اس کے منکر نہیں۔بلکہ مافوق السباب مدد یعنی اسباب سے بالاتر ہو کر مدد کرنا یہ صرف اللہ کے ساتھ خاص۔اور اسی کو اللہ نے صورت اخلاص میں بیان کیا اللہ الصمد یعنی اللہ بے نیاز ہے۔اور یہی بے نیازی ہی معیار الوہیت ہے۔اور یہ کوئی میرا اکیلے کا موقع نہیں بلکہ علامہ غلام رسول سعیدی نے مقام نبوت ،علامہ اشرف سیالوی نے گلشن توحید و رسالت کی جلد دوم اور مصنف نور ہدایت نے اسی موقف کو بیان کیا ہے۔پھر آپ نے کہا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کہ ابو جہل کے پیروکاروں نے قرآن حدیث کو رد کر دینا ہے!
اس آیت کو آپ نے ''بتوں'' کے ساتھ منحصر کیسے کردیا؟ بھائی جان میں نے اسی لئے آپ کے احمد رضا خان بریلوی کا ترجمہ پیش کیا تھا۔
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
احمد رضا خان نے ''تمہاری طرح بندے'' لکھا ہے۔ اور احمد رضا خان کا یہ ترجمہ بالکل درست ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو نازل کئے ہیں وہ ﴿عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ﴾ لہٰذا اس آیت میں ما فوق الاسباب پکار یعنی کہ عبادت (پوجا) کو بتوں کے ساتھ منحصر نہیں کیا جاسکتا![/HL]
حضرت یہاں ان بتوں کو جو عبا امثال کہا گیا ہے تو وہ مملوک ہونے میں کہ جیسے تم اللہ کی ملک میں ویسے وہ بھی۔اور پھر میں نے تفاسیر پیش کی تھیں جن میں اس آیت کو بتوں کے بارے میں کہا گیا ہے ۔
اگلی بات
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بلکل جناب! اور یہی ترجمہ میں نے آپ کو پیش کیا تھا، اور وہ بھی احمد رضا خان بریلوی کا!
یہی تو ہم آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ ما فوق الاسباب دعا عبادت ہے! اسی لئے یہاں مفسرین و مترجمین نے اس کا ترجمہ عبادت ہی کیا ہے!
یہ بات پہلے ہی بتا دی تھی، کہ یہاں تدعون بمعنی تعبدون ہی ہے، کیونکہ یہاں ما فوق الاسباب پکار کا ذکر ہے: ہم اپنے بیان کردہ مؤقف کا دوبارہ اقتباس پیش کرتے ہیں:
تفسیر ابن کثیر کی آپ نے عبارت پیش نہیں کی! کہ ہم اس حوالہ سے کچھ ذکر کریں!
تفسیر ابن عباس میں نے دیکھی، تو اس تفسیر کی کے شروع میں ہی اس کی سند درج ہے!
بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم
وصل الله على سيدنَا مُحَمَّد وَآله أَجْمَعِينَ أخبرنَا عبد الله الثِّقَة بن الْمَأْمُون الْهَرَوِيّ قَالَ أخبرنَا أبي قَالَ أخبرنَا أَبُو عبد الله قَالَ أخبرنَا ابو عبيد الله مَحْمُود بن مُحَمَّد الرَّازِيّ قَالَ أخبرنَا عمار بن عبد الْمجِيد الْهَرَوِيّ قَالَ أخبرنَا عَليّ بن إِسْحَق السَّمرقَنْدِي عَن مُحَمَّد بن مَرْوَان عَن الْكَلْبِيّ عَن ابي صَالح عَن ابْن عَبَّاس
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 03 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 01 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الفكر
کلبی اور ابی صالح کے متعلق علم الجراح والتعدیل سے یوں تو بہت کچھ نقل کیا جاسکتا ہے، مگر بریلویہ کو ان کے امام احمد رضا خان بریلوی صاحب کا ہی قول پیش کرنےپر ہی اکتفاء کرتے ہیں، دیکھئے کہ بریلویہ کے امام احمد رضا خان بریلوی اس ''تفسیر ابن عباس'' کے متعلق کیا فرماتے ہیں:
یہ تفسیر کہ منسوب بسید نا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ہے نہ اُن کی کتاب ہے نہ اُن سے ثابت یہ بسند محمد بن مروان عن الکلبی عن ابی صالح مروی ہے اور ائمہ دین اس سند کو فرماتے ہیں کہ یہ سلسلہ کذب ہے تفسیر اتقان شریف میں ہے:
واوھی طرقہ طریق الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس فان انضم الٰی ذلک روایۃ محمد بن مروان اسدی الصغیر فھی سلسلۃ الکذب ۔۱
اس کے طُرق میں سے کمزور ترین طریق کلبی کا ابوصالح سے اور اس کا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرنا اگر اس کے ساتھ محمد بن مروان اسدی کی روایت مل جائے تو کذب کا سلسلہ ہے ۔(ت)
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 396 جلد 29 فتاوی رضویہ - احمد رضا خان بریلوی – رضا فاؤنڈیشن، لاہور
قادری رانا صاحب! اب فرمائیے! اب کیا کہئے گا؟
بھائی جان! آپ کیا ایسی مکذوبہ سند سے جو اقوال ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہوں، کیا وہ تفسیر ، اور وہ بھی تخصیص و تقید میں مفید ہو سکتے ہیں؟
دوم تفسیر ابن عباس کی عبارت درج ذیل ہے:
{إِنَّ الَّذين تَدْعُونَ} تَعْبدُونَ {مِن دُونِ الله} من الْأَصْنَام {عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ} مخلوقون أمثالكم {فادعوهم} يَعْنِي الْآلهَة {فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ} فليسمعوا دعاءكم وليجيبوكم {إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ} أَنهم ينفعوكم {أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَآ} إِلَى الْخَيْر {أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَآ} يَأْخُذُونَ بهَا ويعطون {أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَآ} عبادتكم {أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا} دعوتكم {قُلِ} يَا مُحَمَّد لمشركي أهل مَكَّة {ادعوا شُرَكَآءَكُمْ} اسْتَعِينُوا بآلهتكم {ثُمَّ كِيدُونِ} اعْمَلُوا أَنْتُم وهم فِي هلاكي {فَلاَ تُنظِرُونِ} فَلَا تؤجلون.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 186 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 143 – 144 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الفكر
اور یہ بات تو ہم کہتے ہیں کہ یہاں
تَدْعُونَ بمعنی
تَعْبدُونَ ہے، ایک بار پھر ہمارا مؤقف پیش کرتا ہوں: بار بار پیش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے:
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہے ہی کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں!
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!
اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں!
قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔
قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں!
باقی آ پ کا تفسیر مدارک یعنی
تفسير النسفي ﴿مدارك التنزيل وحقائق التأويل﴾ کے حوالہ سے ہم پر اعتراض کرنا بھی عجیب ہے!
أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود حافظ الدين النسفي، الحنفي (المتوفى: 710هـ)
قادری رانا بھائی! اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں! کہ ہم پر یعنی کہ اہل الحدیث پر اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال سے حجت قائم نہیں کی جا سکتی! ہم تو اہل الرائے پر ان کے علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے بطور دلائل خصم دلیل و حجت قائم کر نے کے مجاز ہیں! آپ بلکل اپنے مؤقف کے بیان میں اپنے ان اہل الرائے کی تفسیر و شرح و اقوال کو پیش کر سکتے ہو! لیکن ان سے ہم پر اعتراض قائم نہیں کرسکتے!
جس طرح ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یا دیگر اہل الحدیث علماء کی تفسیر و شرح و اقوال سے آپ پر حجت قائم نہیں کر سکتے! ہاں اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے ان کی تفسیر و شرح و اقوال بیان کرسکتے ہیں ، اور کرتے ہیں!
باقی وہ فقہاء و علماء ہیں جو متفق علیہ ہیں! اگر میری طرف سے پیش کردہ مفسر و شارح و فقیہ آپ کے لئے معتبر نہ ہو تو بالکل آپ یہ فرما دیں کہ یہ آپ کے نزدیک معتبر نہیں!
مثلاً امام الذہبی و امام ابن کثیر رحمہ اللہ عنہما! گو کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں ، لیکن آپ کے ہاں بھی معتبر ہیں قرار پائیں ہیں!
اب ہم آپ کو تفسیر النسفي کی عبارت پیش کرتے ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (194)
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة {عباد أمثالكم} أى مخلقون مملوكون أمثالكم {فادعوهم} لجلب نفع أو دفع ضر {فَلْيَسْتَجِيبُواْ لَكُمْ} فليجيبوا {إِن كُنتُمْ صادقين} في أنهم آلهة
أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (195)
ثم أبطل أن يكونوا عباداً أمثالهم فقال {ألهم أرجل يمشون بها} مشيكم
الأعراف 185 190 {أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا} يتناولون بها {أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذان يسمعون بها} أى فلم تعبدون ماهو دونكم {قُلِ ادعوا شُرَكَاءكُمْ} واستعينوا بهم في عداوتى {ثم كيدون} جميعا انتم وشركاؤكم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 625 - 626 جلد 01 مدارك التنزيل وحقائق التأويل (تفسير النسفي) - أبو البركات عبد الله بن أحمد حافظ الدين النسفي - دار الكلم الطيب، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 390 جلد 01 مدارك التنزيل وحقائق التأويل (تفسير النسفي) - أبو البركات عبد الله بن أحمد حافظ الدين النسفي - نزار مصطفى الباز
﴿بے شک تم خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو﴾ یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جن کو تم الہٰ مانتےہو۔ ﴿وہ بھی تمہارے ہی جیسے بندے ہیں﴾ یعنی وہ تمہاری طرح مخلوق و مملوک ہیں۔ ﴿پس تم ان کو پکارو﴾ حصول نفع یا دعف ضرر کے لئے ﴿پھر ان کو چاہئے کہ تمہارا کہنا مانیں﴾ پس چاہئے کہ وہ جواب دیں ﴿اگر تم سچے ہو﴾ اس بات میں کہ وہ الہٰ ہیں۔ پھر اسی بات کا ابطال کیا کہ وہ تم جیسے بھی ہوں۔
﴿کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں﴾ تمہاری طرح چلنا۔ ﴿یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے کسی چیز چیز کو پکڑتے ہیں﴾ جن سے وہ چیزیں لیں۔ پکڑیں ﴿یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں﴾ ﴿یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہوں﴾ پس پھر تم ان کی کیوں عبادت کرتے ہو جو تم سے کم تر ہیں۔
﴿آپ کہہ دیں کہ تم اپنے سب شرکاء کو بلالو﴾ میری دشمنی میں ان سے مدد حاصل کرو۔ ﴿پھر تدبیر کرو میرے متعلق﴾ تم اور تمہارے شرکاء مل کر۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 1033 – 1034 مدارک التنزیل و حقائق التاویل (تفسیر مدارک مترجم اردو) – مترجم شمس الدین – مکتبۃ العلم، لاہور
یہاں بھی وہی بات ہے کہ غیر اللہ کو ما فوق الاسباب پکارنے کو ان کی عبادت اور الہٰ بنانا قرار دیا گیا! اور آپ یہ ماننے کو تیار نہیں!
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة ﴿بے شک تم خدا کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو
﴾ یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جن کو تم الہٰ مانتےہو۔[/HL]
بھائی جان! بات مطلقاً پکارنے کی نہیں! بات ہے ما فوق الاسباب پکارنے کی! اور ما فوق الاسباب پکارنے کو ہی عبادت کہا گیا ہے، جیسے کہ قرآن کی اس آیت میں، جو ہم نے اپنے استدلال میں پیش کی ہے!
مطلقاً پکار میں ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب دونوں پکار شامل ہیں، جبکہ قرآن و حدیث نے غیر اللہ کو ما فوق الاسباب پکارنے کو عبادت قرار دیا ہے، اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے!
اشعار تو بہت ذہن میں ہیں، میرے بھی!
ویسے اسی نوع کا ایک شعر میں بھی آپ کو عرض کردیتا ہوں!
گر محمد نے محمد کو خدا مان لیا
پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغا باز نہیں
اس شعر میں پہلا ''محمد'' محمد یار گڑھی کا تخلص ہے
لیکن یہاں صرف بتوں میں شعور کی نفی نہیں، بلکہ یہاں مخلوق کے ما فوق الاسباب اختیار و اہلیت کی نفی ہے! قرآن کی آیت میں الفاظ ہیں:
عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ جس کا ترجمہ احمد رضا خان بریلوی نے ''تمہاری طرح بندے ہیں'' کیا ہے، اور دیگر نے بھی یہی بیان کیا ہے!
بالکل ابراہیم علیہ السلام کے حوالہ سے بتوں کے نہ سننے کی نفی قرآن میں موجود ہے، اور وہ اس آیت کے منافی نہیں کہ مخلوق ما فوق الاسباب پکار کو نہیں سن سکتی!
سلیمان علیہ السلام کا چیونٹی پکار کو سننا ما فوق الاسباب نہیں!
قادری رانا بھائی! یہاں آپ نے اپنی اس بات کی بناء تفسیر مظہری پر قائم کی ہے وہ بھی اسے غلط سمجھ کر! اور تفسیر مظہری کی حیثیت بھی آہ کو بتلا دی ہے ، اور یہ بھی آپ کو بتلا دیا ہے کہ تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے در اصل بیان کیا کیا ہے! آپ اسے غلط سمجھے اور مزید اس پر عمارت کھڑی کر رہے ہیں!
تفسیر مظہری میں مخلوق کے لئے ما فوق الاسباب سننے کا کوئی اثبات نہیں! بلکہ بتوں کے لئے تو یہ کہا گیا ہے کہ ان کے پاس تو وہ اسباب بھی نہیں جو زندہ انسانوں کو میسر ہوتے ہیں!
یہ جو آپ نے مقصد تراشا ہے، یہ مقصد نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی آپ کے لئے معتبر تفسیر مظہری میں!
ہم دیکھیں گے!شاید کہ ہم بھی دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے!
وہ جواب کہ جس کا وعدہ ہے، شاید کہ وہ ہم دیکھیں گے!
قادری رانا بھائی! یہ فرق بھی ہے، جو قرآن و حدیث سے مخلوق اور خالق کی صفات ميں بیان ہوا ہے! مگر مذکورہ آیت ميں جو فرق بیان ہوا ہے مخلوق کی صفات ما تحت الاسباب ہیں اور خالق کی ما فوق الاسباب، اور مخلوق میں ما فوق الاسباب صفات کو ماننا شرک ہے، اسے آپ نے ذکر نہیں کیا!
جبکہ ہمارا موضوع گفتگو ہی، خالق کی صفات کا ما فوق الاسباب ہونا، اور ما فوق الاسباب مخلوق کو پکارنا مخلوق کی عبادت ہونا ہے!
پھر آپ نے وہی تفسیر ابن عباس سے استدلال کیا! دوبارہ دیکھ لیں تفسیر ابن عباس کی کیا حقیقت ہے!
دوم کہ آپ نے پھر عبارت پوری نہیں لکھی! میں آپ کو وہ عبارت پیش کرتا ہوں!
{فَاطِرُ السَّمَاوَات} أَي هُوَ خَالق السَّمَوَات {وَالْأَرْض جَعَلَ لَكُم} خلق لكم {مِّنْ أَنفُسِكُمْ} آدَمِيًّا مثلكُمْ {أَزْوَاجاً} أصنافاً ذكرا وَأُنْثَى {وَمِنَ الْأَنْعَام أَزْوَاجًا} أصنافاذكرا وَأثْنى {يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ} يخلقكم فِي الرَّحِم وَيُقَال يكثركم بِالتَّزْوِيجِ {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} فِي الصّفة وَالْعلم وَالْقُدْرَة وَالتَّدْبِير {وَهُوَ السَّمِيع} لمقالتكم {الْبَصِير} بأعمالكم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 512 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 406 جلد 01 تنوير المقباس من تفسير ابن عباس - أبو طاهر محمد بن يعقوب الفيروزآبادى - دار الفكر
قادری رانا صاحب! اول تو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی سند ثابت نہیں، جیسا کہ آپ کے امام احمد رضا خان نے بھی ذکر کیا ہے، اوپر حوالہ گزرا!
دوم کہ اس سے کسی قسم کی تخصیص و تقید نہیں کی جا سکتی، اور نہ یہ الفاظ ان الفاظ کے متقاضی ہیں، کیونکہ یہاں تین (3) صفات ذکر کی گئی ہیں
فِي الصّفة وَالْعلم وَالْقُدْرَة وَالتَّدْبِير، اگر لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ آپ کے کہنے کے مطابق، بلکہ آپ نے تو صرف صفت علم کا ذکر کیا، یہاں علم قدرت، تدبیر کے ساتھ خاص یا عام مانا جائے ، تو کیا اللہ کی دیگر صفات اور اس کی ذات کی مثالیں ہیں؟ بلکل نہیں، اللہ تعالیٰ کی ہر صفت اور اس کی ذات کی قطعی کوئی مثل نہیں! اللہ کی تمام صفات ما فوق الاسباب ہیں! اور اللہ کی صفات کا ما فوق الاسباب ہونا، ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے ثابت کیا ہے؛ایک بار پھر پیش خدمت ہے:
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ﴿﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾
بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی)
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہے ہی کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں!
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!
اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں!
قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔
قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں!
اور
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ مخلوق کی صفات کے ما فوق الاسباب ہونے کی نفی کر دیتی ہے! فتدبر!
قادری رانا بھائی!یہی بات تو آپ کو ہم زمانے سے سمجھا رہے ہیں بلکہ تھریڈ میں
@عبدہ بھائی آپ کو یہی بات سمجھا رہیں ہیں کہ دعا عبادت ہے، اور وہاں آپ مان کر نہیں دے رہے! اور یہاں مجھے بار بار بتلا رہے ہیں کہ تدعون سے مراد تعبدون ہے! بھائی ہم بھی تو آپ کو یہی کہہ رہے ہیں کہ یہاں تدعون کے سے مراد تعبدون ہے، کیونکہ مخلوق کو ما فوق الاسباب پکارنا عبادت ہے!
یہ تفسیر بیضاوی کی عبارت ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ (194) أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِها أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِها أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِها أَمْ لَهُمْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها قُلِ ادْعُوا شُرَكاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلا تُنْظِرُونِ (195)
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة. عِبادٌ أَمْثالُكُمْ من حيث إنها مملوكة مسخرة. فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ أنهم آلهة، ويحتمل أنهم لما نحتوها بصور الأناسي قال لهم: إن قصارى أمرهم أن يكونوا أحياء عقلاء أمثالكم فلا يستحقون عبادتكم كما لا يستحق بعضكم عبادة بعض، ثم عاد عليه بالنقض فقال: أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِها أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِها أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِها أَمْ لَهُمْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها وقرئ «إِنَّ الذين» بتخفيف «أَن» ونصب «عِبَادِ» على أنها نافية عملت عمل ما الحجازية ولم يثبت مثله، و «يَبْطِشُونَ» بالضم ها هنا وفي «القصص» و «الدخان» . قُلِ ادْعُوا شُرَكاءَكُمْ واستعينوا بهم في عداوتي. ثُمَّ كِيدُونِ فبالغوا فيما تقدرون عليه من مكر، وهي أنتم وشركاؤكم. فَلا تُنْظِرُونِ فلا تمهلون فإني لا أبالي بكم لوثوقي على ولاية الله تعالى وحفظه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 46 جلد 03 أنوار التنزيل وأسرار التأويل المعروف بتفسير البيضاوي - ناصر الدين أبو سعيد عبد الله بن عمر البيضاوي - دار إحياء التراث العربي، بيروت
یہاں بھی مخلوق کو ما فوق الاسباب پکارنے کو ان کی عبادت اور انہیں الہٰ بنانا بتایا گیا ہے!
ما فوق الاسباب کے معنی سمجھنے کے لئے تو عربی جاننے کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ جسے اردو سمجھ آتی ہو اسے بھی سمجھ آجائے گا کہ:
ما فوق الاسباب کے معنی ہیں اسباب سے بالا تر، یعنی اسباب کا محتاج ہوئے بغیر!
(جاری ہے)[/QUOTE]
1۔حضرت میں نے کہا تھا کہ مطلقا پکارنا شرک نہیں بلکہ کسی کو معبود سمجھ کر پکارنا شرک ہے۔اگلی بات حضرت میں نے رف اتنا کہا تھا کہ یہ آیت بتوں کے بارے میں ہے اور ان سے شعورکی نفی ہے اور اسے مراد ظاہری اسباب ہی ہیں میں داراصل اسباب غیر عادیہ سے مد کو مافو ق السباب سمجھ کر کلام کر رہا تھا ۔اب جب آپ نے واضح کر دیا ہے کہ اسباب سے بالا تر تو اس کے ہم قائل نہیں۔
2۔تفسیر ابن عباس کے بارے می مجھے زیادہ علم نہیں تھامیرے علم میں اضافہ کے لئے شکریہ۔
3۔پھر آپ نے کہا کہ
جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں!۔
بے شک میں اس بات سے متفق ہوں کہ اللہ کسی سبب کا محتا ج نہیں اور اس کا محتاج نہ ہونا ہی معیار الوہیت ہے اور انبیا و اولیا کسی کی بھی مدد کے لئے رب کے اذن کے محتاض ہیں لہذا ان کی مدد آپ کی تعریف کے مطابق مافوق الاسباب نہیں۔
4۔جناب ایک شعر میری طرف سے بھی
مسلم نے حرم میں راگ گایا تیرا
ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا (فتاوی ثنائیہ)
5۔حضرت جب یہ واضح ہو گیا کہ جس چیز کو آپ شرک کہتے ہو اس سے تو اختلاف ہی نہیں لہذا دلائل دینے سے پہلے محل نزاع ضروری ہے۔
اب ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں جناب جب مدد سبب سے ہوتی ہے تو مردوں کے پاس کونسا سبب ہے؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/QUOTE]