السلام علیکم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
گرامی قدر حضرات میں باقاعدہ طور پر تو اس موضوع میں مشارکت نہیں کررہا ہوں
تصوف کا ٹاپک کافی پرانا ہے ساری توانائی دو بات پر صرف کی جارہی ہیں ایک تا یہ کہ تصوف کی ابتداء کہاں سے ہوئی اور کیا قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ نہیں؟
اور دوسری بات یہ کہ تصوف پر عمل پیراء حضرات بدعتی ہیں
تو عرض کردوں ہر ہر بات کاثبوت بعنیہ ان ہی الفاظ میں قرآن و حدیث میں تلاش کرنا میرے حساب سے مناسب نہیں جبکہ دوسرے معنیٰ کر اس کا ثبوت قرآن و حدیث میں ہوتا ہے بس تدبر اور حق تک پہونچنے کا تجسس ہونا چاہئے
مثال کے طور پر قرآن پاک کو معرب کرنا ۔قرآن پاک کو مجود کرنا قرآن پاک کو ملون کرنا
قراء حضرات کا قرآن پاک تلاوت میں حسن پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقہ استعمال کرنا مثلاً
ایک بڑے گھڑے کے منہ کے قریب اپنا منہ قریب کرکے آواز میں تحسین پیدا کرنے کی کوشش کرنا، اسی طرح کنویں میں منہ لٹکا کر تلاوت کرنا، بڑے ہال میں مشق کرنا ، سانس طویل کرنے کی مشق کرنا، گلا بنانے کی مشق کرنا اور بھی کئی طریقہ ہیں جن پر عمل کرنے سے آواز میں حسن پیدا ہوتا ہے اب عرب حضرات اس طرح کی تلاوت کو جس کو ہم ترتیل(مصری لہجہ) کہتے ہیں مستحسن نہیں سمجھتے بلکہ بدعت کہتے ہیں عرب حضرات حدر اور تدویر کو پسند کرتے ہیں
(۱) ترتیل: یعنی بہت ٹھہر کر پڑھنا جیسے عام طور پر قراء حضرات محفلوں میں پڑھتے ہیں۔
(۲) حدر: اتنی جلدی جلدی پڑھنا کہ حروف آسانی سے سمجھ میں آجائیں اور قواعدبھی نہ بگڑیں عام طور پر تراویح میں پڑھا جاتا ہے
(۳) تدویر: یعنی ترتیل اور حدر کے درمیان پڑھنا جیسے عام طور پر فرض نمازوں میں پڑھاجاتا ہے
اب قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے یہ رموز قراء حضرات کے وضع کردہ ہیں
اسی طرح سے دیگر فنون ہیں جن کو تابعین کے زمانہ سے مدون کیا گیا ان تمام فنون پر ہم عمل پیراء ہیں اور ان ہی کی روشنی میں قرآن وحدیث کو سمجھتے ہیں اس کو ہم بدعت نہیں کہتے بلکہ مستحسن سمجھتے ہیں۔لہٰذا:
بدعت ہر اس عمل کو کہتے ہیں جو قرآن وحدیث کی ضد ہو مثلاً قرآن پاک کی تلاوت کے وقت قراء حضرات کا غیر معمولی یا غیر فطری پر سانس کو طول دینا
اور یہ بدعت ہمارے تمام اعمال چاہے وہ روزہ ہو نماز ہو حج ہو یا زکوٰۃ سب پایا جاتا ہے
اسی طرح سے حرمین شریفین کو مزین کرنا دیکھا جائے تو اسراف ہے اور ان کے ارد گرد فلک بوس عمارتیں تعمیر کرنا بدعت ہے کیوں کہ قرون اولیٰ میں اس طرح کیا عمارتیں نہیں پائی جاتی تھیں
تو اس لیے تصوف بمعنیٰ ولایت ہر زمانہ میں پسندیدہ عمل تھا اور ہے بشرطیکہ اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہو اور اسلام کا اصول نہ ٹوٹتا ہو اگر اسلا م کا کوئی اصول ٹوٹتا ہے تو وہ بدعت ہے اس طرح سے ہم اپنے تمام اعمال کا محاسبہ کر سکتے ہیں
فقط واللہ اعلم بالصواب