عمران اسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 333
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 204
مَردوں کیلئے سنت کے مطابق داڑھی رکھنا واجب ہے یہ حضورﷺ کا دائمی عمل ہے اور حضور اکرم ﷺ نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپﷺ کا فرمان ہے:
" خالفوا المشركين، وفروا اللحى، وأحفوا الشوارب "[صحیح بخاری: 5892]
مولانا مودودی نے داڑھی کی حد کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا وہ علمائے سلف سے مختلف اور الگ تھی۔ ان کے نزدیک انسان کے چہرے پر داڑھی ہونی چاہیے لیکن اس کی حد کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ ان کی اس رائے کے اثرات جماعت اسلامی سے وابستگان پر بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مولانا نے اپنی کتاب ’رسائل و مسائل‘ میں اس ضمن میں جن آرا کا اظہار کیا اس کا خلاصہ یہ ہے:
" خالفوا المشركين، وفروا اللحى، وأحفوا الشوارب "[صحیح بخاری: 5892]
تم مشرکین کے خلاف کرو، داڑھی چھوڑ دو اور مونچھیں کترواؤ۔
اس باب کی متعدد احادیث کتب احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ اسی وجہ سے فقہا نے داڑھی کو بڑھانا واجب قرار دیا ہے۔ البتہ بعض فقہا کے نزدیک داڑھی کی مقدار ایک مشت جبکہ بعض فقہا داڑھی کو کسی بھی طرح کترنے کو جائز قرار نہیں دیتے۔جب کسریٰ کے دوقاصد داڑھی منڈائے اور مونچھیں بڑھائے ہوئے حضورﷺ کے دربار میں حاضر ہوئے تو آپ انکی یہ صورت دیکھ کر کبیدہ خاطر ہوئے اور پوچھا کہ ایسی صورت بنانے کا تم کو کس نے حکم دیا ہے کہنے لگے ہمارے رب کسری نے آپ نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹانے کا حکم دیا ہے۔
مولانا مودودی نے داڑھی کی حد کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا وہ علمائے سلف سے مختلف اور الگ تھی۔ ان کے نزدیک انسان کے چہرے پر داڑھی ہونی چاہیے لیکن اس کی حد کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ ان کی اس رائے کے اثرات جماعت اسلامی سے وابستگان پر بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مولانا نے اپنی کتاب ’رسائل و مسائل‘ میں اس ضمن میں جن آرا کا اظہار کیا اس کا خلاصہ یہ ہے:
شارع نے داڑھی کی حد مقرر نہیں کی علماء نے جو حد مقرر کی ہے وہ ایک استنباطی حکم ہے اور استنباطی حکم کی وہ حیثیت نہیں جو نص کی ہوتی ہے۔ حکم منصوص کی خلاف ورزی پر توکسی کو فاسق کہا جا سکتا ہے حکم مستنبط کی بنیاد پر نہیں۔
انبیاء فطری طریقوں اور اخلاق صالحہ کی تعلیم دیتے ہیں ان میں ایک چیز اصل روح ہوتی ہے اور دوسری قالب ومظہر۔ بعض امور میں روح اور قالب دونوں کو بجالانا ضروری ہوتا ہے جبکہ بعض امور میں روح ضروری ہوتی ہے اور قالب کو اختیار کرنے میں آزادی ہوتی ہے۔ مثلاً نماز اور روزہ وغیرہ میں روح اور قالب کی پیروی لازم ہے۔ جبکہ بعض اعمال ایسے ہیں جن میں قالب کی ہوبہوپیروی لازم نہیں مثلاً دعائیں اور وہ عام اذکار جو حضورﷺوقتاً فوقتاً کرتے تھے۔ اب ہم پر لازم نہیں ہے کہ ہم بعینہٖ انہی الفاظ میں دعائیں مانگیں جن الفاظ میں حضورﷺ مانگتے تھے۔ البتہ یہ ضرور ہو کہ دعاؤں میں حضورﷺ کی دعاؤں کی روح موجود ہو۔ اور اگر کوئی شخص احادیث میں مذکور اذکار کو لفظ بلفظ یاد کرکے پڑھتا ہے تو یہ مستحب عمل ہے لیکن اتباع سنت کا لازمی تقاضا نہیں ہے۔
اب لباس کی اصل روح یہ ہے کہ وہ ساتر ہو، ٹخنوں سے اوپر ہو اور ریشم وغیرہ کا نہ ہو۔ لیکن اپنے اوپر لازم کرلینا کہ جس کا لباس رسول اللہ1 نے زیب تن کیا تھا بالکل طرح کا لباس پہنا جائے تو یہ شرعی تقاضا نہیں ہے یہ چیزیں اپنے اپنے تمدن سے تعلق رکھتی ہیں ان کو سنت بنانا مقصود نہیں تھا۔
داڑھی کے مسئلہ میں روح یہ ہے کہ اس کو بڑھایا جائے اور مونچھوں کو کتروایا جائے تو جب نبی کریمﷺ نے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی تو اعفاء لحیہ اور قص شارب کی کوئی بھی مناسب صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔
یہ استدلال کہ آپﷺ نے داڑھی کا حکم دے کر خود داڑھی رکھ کر اس کی عملی صورت بتا دی تو یہ توویسے ہی ہوا کہ آپ1 نے ستر عورت کا حکم دیا اور اس حوالے سے خاص طرز کا لباس استعمال کر کے بتا دیالہٰذا اسی طرح تن پوشی فرض ہے توپھر تو کوئی شخص بھی اس سنت کا اتباع نہیں کررہا۔