• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا مودوی اور داڑھی

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم، برادر مکرم!
اعتبار یا (Credibility)کی اہمیت دنیا کے ہر شعبے میں مسلم ہے لیکن جب دیندار لوگ اپنا اعتبار کھو بیٹھیں تو اس کی زد خود دین پر پڑتی ہے۔ اس لیے ہمدردانہ گزارش ہے کہ علمی اختلاف ضرور کریں لیکن کسی کی مخالفت میں اتنا آگے مت جائیے کہ جو اینٹ پتھر ہاتھ آئے وہ اگلے کے سر پر دے ماری جائے۔ یاد رکھیے سامعین و قارئین دو قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم سرسری طور سے گزر جانے والوں کی ہے جن میں ایسے غیر سنجیدہ لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا کام محض تالیاں پیٹنا اور لڑنے والے پہلوانوں کو شہہ دینا ہوتا ہے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو تلاش حق میں مارے مارے پھرتے ہیں اور کسی خاص مکتب فکر کے لیے تعصب نہیں رکھتے۔ ان میں ایسے خاموش قارئین بھی ہوتے ہیں جو شاید چلتی بحث میں شامل ہونا پسند نہ کریں لیکن آپ کی ایک ایک بات کی اپنے ذرائع سے تصدیق ضرور کریں گے۔ ان کے سامنے ہر کچی پکی بات لا کر پیش کر دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں دینی رجحان رکھنے والے کسی شخص کا اعتبار باقی نہیں رہتا۔بالآخر یہ لوگ روایتی چالبازیوں اور ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات سے ایسے متنفر ہوتے ہیں کہ مذہب ہی کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی مجھے اور آپ سب کو اس فتنے سے محفوظ رکھے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ نے جو اقتباسات دیے ہیں تحقیق کے پلڑے میں ان کا کیا وزن ہے۔ آپ نے نقل کیا ہے:

ان دو جملوں سے جو تاثر آپ نے دینا چاہا ہے وہ یہ ہے کہ مودودی عیسی علیہ السلام کی حیات کا نہ صرف منکر ہے بلکہ وہ ان کے آسمان پر اٹھائے جانے میں بھی شک کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے قرآن کا نام استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔ یہی وہ دو جملے ہیں جنہیں بنیاد بنا کر آپ نے مجھے موصوف کے "عقیدے" سے واقفیت پیدا کرنے کی دعوت دی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ گمراہی کا فتوی جاری کرنے سے قبل مفتی صاحب (محدث فتوی پر جو فتوی ہے اس کی طرف اشارہ ہے) نے وہ صریح جملے اور وہ پرزور دلائل دیکھنے گوارا ہی نہیں کیے جو مودودی صاحب نے رفع الی السماء اور حیات مسیح کے اثبات میں دیے ہیں۔ تفہیم القرآن جلد اول کے یہ صفحات دیکھیے:



انصاف سے بات کیجیے، آپ کو لگتا ہے یہ شخص واقعی رفع الی السماء اور حیات مسیح کا منکر تھا؟ انہی صفحات سے دجال کے انکار والے الزام کا غلط ہونا بھی معلوم ہو گیا۔
دیگ کا ذائقہ بتانے کے لیے چاول کا ایک دانہ ہی کافی ہوتا ہے۔ آپ نے جن دلائل سے مودودی عقائد کشید کرنے کی سعی کی ہے دیکھ لیجیے تحقیق کی میزان میں ان کا کتنا وزن ہے۔ مودودی صاحب کی غلط باتوں کا رد میں نے خود کئی جگہ نشر کروایا ہے جس کی گواہی باذوق بھائی دے سکتے ہیں۔ اختلاف وہ کریں جو علمی، تحقیقی اور حقیقی ہو۔ خود تراشیدہ الزامات دینی طبقے کو سوائے بدنامی کے کچھ نہیں دے سکتے۔
والسلام علیکم
وعلیکم سلام

میرے بھائی ذرا یہ بھی بتا دیجیے کہ علمی اختلاف کی کیا حد ہے؟؟ کیوں کہ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پھر تو کسی پر گمراہی کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا --پھر تو آپ کے خیال میں موجودہ دور کے رافضی اور مرزائی بھی اپنی جگہ ٹھیک ہونے چاہے ؟؟ وہ بھی تو قرآن اور احادیث کو سامنے رکھ کر ہی اپنے فہم سے کسی مسلہ پر اپنے دلائل پیش کرتے ہیں تو ان پر اعتراض کیوں ؟؟ بلکہ میں تو کہوں گا پھر کسی عیسائی یا یہودی کو کافر کہنے کا بھی ہمیں کیا حق ہے جب کی وہ صرف اپنے ماحول جس میں وو پیدا ہوے اس کا زیر اثر ہونے کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ سلام اور حضرت عزیر علیہ سلام کو الله کا بیٹا مانتے ہیں. پھر ان پر اعترض کیوں ؟؟

مولانا سے مجھے کوئی ذاتی عناد نہیں اگر ان کی علمی کاوشوں اور اجتہادی تضادات کو ایک طرف رکھ دیا جائے تب بھی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے متعلق ہرزہ سرائی ان کی تمام دینی کاوشوں پر پانی پھر دینے کے لئے کافی ہے --حیرت ہے کہ ایک شخص صحابہ کے ایک طبقے کو گمراہ ثابت کرنے کے لئے ایک پوری کتاب تصنیف کر ڈالتا ہے لیکن ان صاحب کو گمراہ کہنا اکثریت کے نزدیک بڑی غلطی ہے اور ان کے نزدیک ان مولانا سے بدگمانی جائز نہیں..؟؟

اگر آپ کے نزدیک اپنے گروہ کے سوا دوسروں کو منکر حدیث، گستاخ رسول یا مشرک اعظم سمجھنے کی ہوا جب ہر طرف چل رہی ہے تو دوسری طرف شخصیت پرستی کی آندھی بھی ہمارے چاروں طرف ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے لہذا بڑے سمبھل کر چلنے کی ضرورت ہے-

واسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم،
اچھی بات ہے۔ لگے رہیے۔
والسلام علیکم
لگے رہئے سے میں جو سمجھ رہا ہوں وہ یہ کے آپ کو اوپر والی تحریر پر اعتراض ہے۔۔۔
لیکن اصول یہ ہے کہ اس نقظہ پر اعتراض ہے تو اس اعتراض کو پیش کیجئے۔۔۔
تاکہ صحیح موقف سامنے آئے ہمیں بھی پتہ چلے کہ درست کون ہے۔۔۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
برادر حرب! آپ کے حکم کی تعمیل میں اپنی بات ایک دوسرے رخ سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے اپنے پچھلے مراسلے میں جس چیز پر زور دیا ہے اس کا تعلق مودودی کی ذات سے کم اور دینی طبقات کے افسوسناک رویوں سے زیادہ بنتا ہے۔ جو الزامات برادر جواد نے نقل کیے ہیں وہ اس روایتی علمی بددیانتی کی ایک مثال ہیں جس کا مظاہرہ تمام دینی طبقے اپنے مخالفین کے حق میں ایک عرصے سے فرما رہے ہیں الا ما شاءاللہ۔ کوئی دیوبندی ہو یا اہل الحدیث، شیعہ ہو یا بریلوی، جبہ و دستار والا ہو یا ماڈرن ملا، مخالف کی غلطیاں نکالنے بیٹھے گا تو اس کے جملوں سے ایسے ایسے مطالب دریافت کر لے گا کہ قائل خود بھی حیران و پریشان ہو کر رہ جائے۔ یہ مرض پہلے ایک خاص طبقے تک محدود تھا، اب انٹرنیٹ کی آمد کے بعد جب کبھی کسی نوجوان پر تبلیغ دین، احقاق حق اور ابطال باطل کا شوق غالب آتا ہے تو گڑے مردے اکھاڑنے کا یہ عمل پرانی کتابوں سے نکل کر پھر میدان میں آ جاتا ہے، سر پھٹول ہوتی ہے، طنز و تشنیع کے تیر برسائے جاتے ہیں ۔ اخیر میں سابقہ بحثوں کی طرح یہ معاملہ بھی کسی انجام کو پہنچے بغیر ختم ہو جاتا ہے اور فریقین کسی نئے محاذ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ جو حضرات مناظرانہ نشے کے عادی ہیں ان سے کچھ کہنا عبث ہے لیکن جو بھائی نیک نیتی کے ساتھ دین کی تبلیغ یا عقائد باطلہ کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں انہیں میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ الزام عائد کرنے سے پہلے فریق ثانی کا موقف دیانتداری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ سوچ میں زیادہ اختلاف نہیں ہوتا لیکن الفاظ کا غیر موزوں استعمال معاملے کو پیچیدہ بنا دیتا ہے، ایسی صورت اگر بن جائے تو الفاظ کی بجائے معانی اور جامع مفہوم پر نظر رکھیں۔ بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے ان شاء اللہ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے دشمن کے ساتھ عدل کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے "و لا یجرمنکم شنئان قوم علی ان لا تعدلوا" "کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کر دے کہ تم عدل نہ کرو"۔ جب معاملہ کسی کلمہ گو کے ساتھ درپیش ہو تو اس کی گمراہی اور ضلالت کا فتوی صادر فرمانے سے قبل خود اس سے وضاحت طلب کر لینی چاہیے۔
اب ایک مثال دیکھیے، برادر جواد نے جو الزامات مودودی صاحب کے ذمے لگائے ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ وہ دجال کے منکر ہیں۔ انہیں میں کیا الزام دوں جب محدث عبداللہ روپڑی جیسے عالم کے قلم سے یہ جملے صادر ہوئے ہیں:
اس طرح مودودی صاحب دجال کے منکر ہیں حالانکہ دجال کےمتعلق بکثرت احادیث موجود ہیں۔ جن میں بہت سے خرق عادات کا ذکر ہے مثلاً: اس کے ساتھ جنت و دوزخ کا ہوگا۔ مگر درحقیقت دوزخ جنت ہوگا اورجنت دوزخ ، اور اس کے حکم سے آسماں سے بارش ہوگی ، زمین سے انگوریاں اگیں گی ، مردے زندہ ہوں گے ، زمین کے خزانے اس کے پیچھے لگیں گے ، جس گدھے پر سوار ہوگا وہ اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے دونوں کانوں کے درمیان ایک چالیس گز کا فاصلہ ہوگا۔ غرض اس قسم کی عادات دجال کی بہت ہیں جن کی بنا پر وہ لوگوں سے اپنا آپ منوائےگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
یہ بہت بڑا فتنہ ہے (جس سے ہر نماز میں پناہ مانگی جاتی ہے اور)اس سے ہر نبی نے ڈرایا ہے۔ مگر میں تمہیں ایک نشان بتلاتا ہوں جو دوسرے انبیاء نےنہیں بتایا ، وہ کانا ہوگا تمہارا رب کانا نہیں نیز اس کے ماتھے پر ’’کافر‘‘ لکھا ہوگا۔ ہر مومن پڑھے گا خواہ پڑھا ہوا یا اَن پڑھ ، آدم سے لے کرقیامت تک اس سے بڑا کوئی فتنہ نہیں۔ اس کے متعلق مودودی صاحب ارشاد فرماتے ہیں:
کانا دجال تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔

مودودی کا مسلک
مجھے افسوس اس بات پر ہوا کہ ایسا غیر ذمے دارانہ فتوی محدث فتوی پر بغیر کسی وضاحتی نوٹ کے موجود ہے۔ مودودی کا موقف دجال کے متعلق ذیل میں پڑھیے اور خود نتیجہ نکال لیجیے کہ بحیثیت مجموعی ہم اخلاقی پستی کی کس حد کو چھو رہے ہیں۔



آپ مودودی یا کسی دوسرے مسلمان کو گمراہ، ضال و مضل یا کافر و مشرک ثابت کریں، یہ آپ کا مسئلہ ہے آپ ہی اس کے جوابدہ ہوں گے۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دیانت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں، اپنے مخالفوں کے خلاف وہی ہتھکنڈے استعمال نہ کریں جن کا شکوہ آپ کو دیوبندیوں اور بریلویوں سے رہتا ہے۔ بہت سے لوگ "حق والوں" کو سچائی کے پیمانے سے بھی ناپتے ہوں گے۔ اگر اس پوسٹ کے بعد آپ حضرات نے تسلیم کر لیا کہ کم از کم دجال کے بارے میں آپ کا الزام غلط فہمی یا قلت تحقیق کا نتیجہ تھا تو شاید میں مزید گفتگو کر سکوں ورنہ مجھے معاف رکھیے، آپ جانیں اور آپ کا کام۔ قیامت کے دن آخر جواب تو سب سے اپنا اپنا ہی دینا ہے۔
والسلام علیکم
 

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
میرا اس تھریڈ کو شروع کرنے کا مقصد ہرگز مولانا مودوی﷫ کی تنقیص کرنا نہیں تھا۔
میں نے فقط اس لیے مولانا کی کتاب کے چند اقتباسات نقل کیے تھے کہ جماعت اسلامی کاایک کثیر طبقہ داڑھی سے متعلق مولانا مودودی﷫ کے پیش کردہ نظریہ پر عمل پیرا اور اسی کو حتمی سمجھتا ہے میں صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ مولانا کہ اس موقف میں غلطی کے قوی امکانات موجود ہیں اس لیے جماعت اسلامی سے وابستگان اور دیگر وہ لوگ جو داڑھی سے متعلق مولانا کی رائے کو درست سمجھتے ہیں ان کو اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن بعض شذوذات کو لے کر مولانا کی پوری شخصیت اور ان کے تمام کارناموں پر سوالیہ نشان لگا دینا درست رویہ نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں مولانا عزیز زبیدی﷫ نے بہت معتدل اور حقائق پر مبنی تبصرہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’مولانا مودودی سنت کو شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ تصور کرتے ہیں اور جن احادیث پر انھوں نے نقد و جرح کی ہے ان روایات کے ذریعے سارے ذخیرہ حادیث کو رد نہیں کرتے۔ اصل میں مولانا پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ احادیث کے سلسلے میں روایت اسنادی کے ساتھ درایت معنوی سے بھی کام لیتے ہیں بعض احادیث کا رد محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ماہر عالم دین کے ذوق سلیم کے خلاف ہوتی ہے اور بعض صرف اس لیے قبول کرلیتے ہیں کہ ان کے نزدیک وہ فقہی درایت کے موافق ہوتی ہے لیکن ہمارے نزدیک ع ایں چیزے دیگرے! مگر اس کے باوجود ہم اس سلسلے میں مولانا سے علی الاطلاق اتفاق نہیں کر سکتے لیکن ان کو جناب پرویز کی صف میں کھڑا کرنے کو بھی بڑی زیادتی تصورکرتے ہیں۔
جزوی طور پر بعض احادیث کا رد، خود بعض فقہا کا معمول چلا آ رہا ہے لیکن اتنی سی بات کی وجہ سے ان کو منکرین حدیث کے زمرہ میں کسی نے شمار نہیں کیا۔ یہاں بعض احادیث کا انکار اس لیے نہیں کیا جاتا کہ وہ حجیت حدیث کے منکر ہیں بلکہ اس کو حجت ماننے کے باوجود اپنی تحقیق کی حد تک جزوی طور پر بعض اندرونی یا بیرونی قرائن کی بنا پر بعض روایات کی صحت سے انکار کرتے ہیں۔
مولانا گو آزاد حنفی ہیں مگر حنفی مسلک کی بعض باتیں ان میں راسخ بھی ہیں، درایت کا یہ پہلو بھی انھی سے ماخوذ ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا سب سے برا ماخذ طحاوی کی شرح معانی الآثار ہے کہ مختلف احادیث بیان کر کے دونوں کے مابین محاکمہ عموماً فقہی درایت سے کرتے ہیں یا ان حنفی بزرگوں کے طرزِ عمل سے غیر شعوری طور پر متاثر ہیں جو اعتزال کی طرف مائل ہیں یا اپنے دور کے فلسفہ کے صید زبوں ہوتے ہیں جیسے امام رازی کا حال ہے۔ [ماہنامہ محدث نومبر 1976ء]

اس لیے مولانا سے جو سہو ہوئے ہیں ان پر تو علمی انداز میں گفتگو ہو سکتی ہے لیکن میرے خیال سے ان کے بعض شذوذات کی بنا پر ان کی دین اسلام کے لیے خدمات سے بیک جنبش قلم صرف نظر کر لینا درست طرز عمل نہیں ہے۔
 
شمولیت
جنوری 02، 2013
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
48

امام غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں (جہاں تک ہوسکے کفر کا حکم لگانے سے پرہیز کریں اس لئے کہ قبلہ رخ نماز پڑھنے والوں اور کلمۂ شہادت (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) پڑھنے والوں کے خون ومال کو حلال کرنا خطا کاری ہے۔۔۔ ہزاروں کافروں کو زندہ چھوڑ دینے کی غلطی اس کے مقابلے میں بہت معمولی ہے کہ کسی ایک مسلمان شخص کا خون بہایا جائے)۔۔۔ اس لئے کہ کسی مسلم کو اس کے دین سے خارج کرنا اور اس کے خلاف کفر کا فتوی صادر کرنا در اصل اس کی گردن سے اسلام کے پھندے کو نکال پھیکنا ہے۔ اور اسے جہنم میں ہمیشہ رہنے کی تاکید کرنی ہے۔۔۔ یہ ایسا سخت اور مشکل مسئلہ ہے جس سے نیک لوگوں کے دل دہل جائیں۔۔۔ جس کے خوف سے مومنوں کے جسم لرز جائیں اور رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔

اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے بہت بڑا گناہ قراردیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے: (جس کسی نے کسی مسلمان پر کفر کا الزام لگایا تو ایسا کرنا در اصل اسے قتل کرنے کے برابر ہے) (سنن الترمذي:2560)۔۔۔ اس قسم کے گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یوں ڈرایا دھمکایا ہے: (اگر کسی نے اپنے بھائی کو کہا اے کافر، تو اس کی وجہ سے ان میں سے ایک اللہ کے غیض وغضب کا شکار ہوا۔۔۔ اب اگر وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے کہا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ یہ تہمت خود لگانے والے کی طرف لوٹ آتی ہے)۔(صحيح مسلم:92)۔

امام غزالی کہتے ہیں: (مسئلہ یہ ہے کہ تم اپنی زبان کو اہل قبلہ سے روکے رکھو جب تک کہ یہ کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتے چلے آرہے ہیں۔۔۔ اس لئے کہ کفر کا حکم لگانے میں خطرہ ہے لیکن خاموشی اختیار کرنے میں کوئی خطرہ نہیں) اور جبکہ حدود سے بچنے کے لئے شبہات کا سہارا لیا جاتا ہے جبکہ یہ کفر اور ارتداد سے کم خطر ناک اور ہلکا ہے تو کیا کفر کا حکم لگا کر جو خون بہایا جائے گا اور جو مال کو جائز قرار دیا جائے گا یہ بدرجۂ اولی اس کا مستحق نہیں کہ شبہات کا سہارا لیتے ہوئے اس سے اجتناب کیا جائے؟۔

ہم مسلمانوں کی اصل کو ثابت کریں اور وہ ہے اسلام اور دین یہ ایسی اصل ہے جو اس وقت تک زائل نہیں ہوتی جب تک اس کے بر عکس ایسی قطعی دلیل نہ پیش کردی جائے جس کے بعد شک وتاویل کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ اسی طرح حجت تمام کرنے کے بعد جس فعل کے ترک کرنے کی وجہ سے کافر قرار دیا جا رہا ہے اس سلسلے میں اس کا بھی پاس ولحاظ رکھا جائے کہ اس کے علاوہ اب کوئی اور صورت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اس لئے بھی کہ ہر کس وناکس کسی مسلمان پر کفر کا حکم لگانے کا حق نہیں رکھتا خواہ وہ کسی مسلم جماعت کا رکن ہی کیوں نہ ہو اس لئے کہ یہ حق صرف اور صرف اس مجتہد عالم کو حاصل ہے جس کے اندر اجتہاد کی تمام شرطیں پائی جاتی ہوں۔۔۔ حدیث میں آیا ہے۔۔۔ (جس نے ہماری نماز پڑھی ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا۔۔۔ ہمارے ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت کھایا تو پھر وہ مسلم ہے۔ اس کے لئے وہ حقوق ہیں جو ہمارے لئے ہیں اور اس پر وہ سب کچھـ واجب ہے جو ہم پر واجب ہے)۔ (صحيح البخاري:384)۔

ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ ہم لوگوں کو کافر قرار دیتے ہوئے دین سے خارج کرتے پھریں۔۔۔ بلکہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل کرنے کی کوشش کریں۔۔۔ اور بر حق راستے کی جانب ان کی رہنمائی کریں۔

ہم رہنما ہیں حکمراں نہیں۔۔۔ ہم داعی ہیں جج نہیں ہم راہ دکھانے والے ہیں بغاوت کرنے والے نہیں۔۔۔

ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم مخلوق کو صحیح راستہ دکھائیں۔ لوگوں کو ان کے رب کی بندگی کی طرف لائیں۔۔۔ ان کا ہاتھـ پکڑتے ہوئے انھیں اس جنت کی طرف لائیں جس کی وسعت آسمانوں اور زمینوں کی مانند ہے ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی امت کے زخموں کی مرہم پٹی کچھـ اس طرح کریں کہ نا فرمان مسلمانوں کو ایمان کے دائرے میں واپس لے آئیں۔

ہمارا کام لوگوں کے خلاف حکم جاری کرنا نہیں۔۔۔ اور نہ ہی کبھی یہ ہمارا کام تھا۔ ہمارا کام یہ نہیں ہے کہ ہم لوگوں کے سینوں کو چاک کریں یا ان کے راز کو معلوم کرنے کےلئے نقب زنی کریں۔۔۔ ہم تو ظاہر کو دیکھتے ہیں، بھیدوں کا حال تو الله ہی کو معلوم ہے۔

لوگوں کی ظاہری حالت کو دیکھـ کر حکم لگانا ایک ایسی مضبوط دیوار ہے جو امت کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ معاشرے کو گرنے سے بچاتی ہے۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
عبداللہ حیدر صاحب ذرا اس کی وضاحت کریں کہ کیا مودودی صاحب کا مذکرہ پوسٹ دجال والی جواب شریعت کی مطابق درست ہے ؟؟؟؟؟؟
السلام علیکم، اہل علم حضرات سے توجہ کی درخواست ہے۔
والسلام علیکم
 
شمولیت
جولائی 14، 2012
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
45
Assalam u alaikum

Abdullah haider bhai Ali jawad bhai nay Maulana moududi per jo aitraaz kiya tha(dajjal wali hadees k mutaliq) us ka ap nay jo jawab diya hai us say zahir hota hai

ya to ap k nazdeek koi bi gumrah nhi .

ya phir ap jisay bi gumrah samjhtay hain un ki kitabay nhi perhi warna ap yeh tasdeeq ho janay k baad bi k Maulana Moududi nay yeh kaha hai ap phir bi unhay Ahle haq mai shumar na kertay jaisa k ap nay scan page per bi dekh liya.

ya aik waja yeh bi ho sakti hai k ap un k dalail say mutasir honay ki wajah say un k moaqaf ko sahi tasawur kerna shuru ker diya hai jis ki wajah say un ki yeh gumrahi ap ko gumrahi nhi nazar a rahi.or is ki wajah ap ki nawaqfiat hi hai,


Ab chand batay note ker lay jab bi kisi ki is tarah ki abarat pesh ki jati hai to Lazmi nhi hota k us k dalail bi ziker kiye jaye jab k wo abarat mutafiqa maslay k khilaaf ho. Or har gumrah firqay k pas kuch na kuch aysi batay hoti hain jis say wo apnay batil moaqaf ko sabit kernay ki koshis kerta hai.


Ab ager ap waqai mai is say mutasir huay hain to yeh ap ko gumrahi wali baat nhi lagay gi.ager ap is say mutasir nhi huay to yeh ap ko waziha tor per gumrahi hi lagay gi.

Ager ap mutasir huay hain to btay? ta k in k moaqaf ko ghalat sabit kernay k liye Ulama dalail dain.


In abarto k scan page dainay ka shukriya
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
Assalam u alaikum
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
ya phir ap jisay bi gumrah samjhtay hain un ki kitabay nhi perhi warna ap yeh tasdeeq ho janay k baad bi k Maulana Moududi nay yeh kaha hai ap phir bi unhay Ahle haq mai shumar na kertay jaisa k ap nay scan page per bi dekh liya.
محترم بھائی! مسلمہ قاعدہ ہے کہ قائل کے اجمال کی تفصیل اسی سے طلب کی جائے۔ میں نے جو صفحات لگائے ہیں آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں مودودی صاحب رحمہ اللہ نے مبہم جملے کی جو وضاحت کی ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے ان پر دجال کے انکار کا الزام قطعی ثابت نہیں ہوتا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اگر ان خود ساختہ فتووں کو وہ شخص پڑھ لے جس نے مودودی صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کر رکھا ہے تو ان مفتی اور عالم حضرات کی اس کی نظر میں کیا وقعت باقی رہ جائے گی۔
پھر بھی آپ اگر سمجھتے ہیں کہ یہ الزام حق پرستی پر مبنی ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے ایسی حق پرستی سے محفوظ فرمائے۔
والسلام علیکم
 
Top