محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
وعلیکم سلامالسلام علیکم، برادر مکرم!
اعتبار یا (Credibility)کی اہمیت دنیا کے ہر شعبے میں مسلم ہے لیکن جب دیندار لوگ اپنا اعتبار کھو بیٹھیں تو اس کی زد خود دین پر پڑتی ہے۔ اس لیے ہمدردانہ گزارش ہے کہ علمی اختلاف ضرور کریں لیکن کسی کی مخالفت میں اتنا آگے مت جائیے کہ جو اینٹ پتھر ہاتھ آئے وہ اگلے کے سر پر دے ماری جائے۔ یاد رکھیے سامعین و قارئین دو قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم سرسری طور سے گزر جانے والوں کی ہے جن میں ایسے غیر سنجیدہ لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا کام محض تالیاں پیٹنا اور لڑنے والے پہلوانوں کو شہہ دینا ہوتا ہے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو تلاش حق میں مارے مارے پھرتے ہیں اور کسی خاص مکتب فکر کے لیے تعصب نہیں رکھتے۔ ان میں ایسے خاموش قارئین بھی ہوتے ہیں جو شاید چلتی بحث میں شامل ہونا پسند نہ کریں لیکن آپ کی ایک ایک بات کی اپنے ذرائع سے تصدیق ضرور کریں گے۔ ان کے سامنے ہر کچی پکی بات لا کر پیش کر دینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں دینی رجحان رکھنے والے کسی شخص کا اعتبار باقی نہیں رہتا۔بالآخر یہ لوگ روایتی چالبازیوں اور ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات سے ایسے متنفر ہوتے ہیں کہ مذہب ہی کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی مجھے اور آپ سب کو اس فتنے سے محفوظ رکھے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ نے جو اقتباسات دیے ہیں تحقیق کے پلڑے میں ان کا کیا وزن ہے۔ آپ نے نقل کیا ہے:
ان دو جملوں سے جو تاثر آپ نے دینا چاہا ہے وہ یہ ہے کہ مودودی عیسی علیہ السلام کی حیات کا نہ صرف منکر ہے بلکہ وہ ان کے آسمان پر اٹھائے جانے میں بھی شک کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے قرآن کا نام استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔ یہی وہ دو جملے ہیں جنہیں بنیاد بنا کر آپ نے مجھے موصوف کے "عقیدے" سے واقفیت پیدا کرنے کی دعوت دی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ گمراہی کا فتوی جاری کرنے سے قبل مفتی صاحب (محدث فتوی پر جو فتوی ہے اس کی طرف اشارہ ہے) نے وہ صریح جملے اور وہ پرزور دلائل دیکھنے گوارا ہی نہیں کیے جو مودودی صاحب نے رفع الی السماء اور حیات مسیح کے اثبات میں دیے ہیں۔ تفہیم القرآن جلد اول کے یہ صفحات دیکھیے:
انصاف سے بات کیجیے، آپ کو لگتا ہے یہ شخص واقعی رفع الی السماء اور حیات مسیح کا منکر تھا؟ انہی صفحات سے دجال کے انکار والے الزام کا غلط ہونا بھی معلوم ہو گیا۔
دیگ کا ذائقہ بتانے کے لیے چاول کا ایک دانہ ہی کافی ہوتا ہے۔ آپ نے جن دلائل سے مودودی عقائد کشید کرنے کی سعی کی ہے دیکھ لیجیے تحقیق کی میزان میں ان کا کتنا وزن ہے۔ مودودی صاحب کی غلط باتوں کا رد میں نے خود کئی جگہ نشر کروایا ہے جس کی گواہی باذوق بھائی دے سکتے ہیں۔ اختلاف وہ کریں جو علمی، تحقیقی اور حقیقی ہو۔ خود تراشیدہ الزامات دینی طبقے کو سوائے بدنامی کے کچھ نہیں دے سکتے۔
والسلام علیکم
میرے بھائی ذرا یہ بھی بتا دیجیے کہ علمی اختلاف کی کیا حد ہے؟؟ کیوں کہ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پھر تو کسی پر گمراہی کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا --پھر تو آپ کے خیال میں موجودہ دور کے رافضی اور مرزائی بھی اپنی جگہ ٹھیک ہونے چاہے ؟؟ وہ بھی تو قرآن اور احادیث کو سامنے رکھ کر ہی اپنے فہم سے کسی مسلہ پر اپنے دلائل پیش کرتے ہیں تو ان پر اعتراض کیوں ؟؟ بلکہ میں تو کہوں گا پھر کسی عیسائی یا یہودی کو کافر کہنے کا بھی ہمیں کیا حق ہے جب کی وہ صرف اپنے ماحول جس میں وو پیدا ہوے اس کا زیر اثر ہونے کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ سلام اور حضرت عزیر علیہ سلام کو الله کا بیٹا مانتے ہیں. پھر ان پر اعترض کیوں ؟؟
مولانا سے مجھے کوئی ذاتی عناد نہیں اگر ان کی علمی کاوشوں اور اجتہادی تضادات کو ایک طرف رکھ دیا جائے تب بھی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین سے متعلق ہرزہ سرائی ان کی تمام دینی کاوشوں پر پانی پھر دینے کے لئے کافی ہے --حیرت ہے کہ ایک شخص صحابہ کے ایک طبقے کو گمراہ ثابت کرنے کے لئے ایک پوری کتاب تصنیف کر ڈالتا ہے لیکن ان صاحب کو گمراہ کہنا اکثریت کے نزدیک بڑی غلطی ہے اور ان کے نزدیک ان مولانا سے بدگمانی جائز نہیں..؟؟
اگر آپ کے نزدیک اپنے گروہ کے سوا دوسروں کو منکر حدیث، گستاخ رسول یا مشرک اعظم سمجھنے کی ہوا جب ہر طرف چل رہی ہے تو دوسری طرف شخصیت پرستی کی آندھی بھی ہمارے چاروں طرف ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے لہذا بڑے سمبھل کر چلنے کی ضرورت ہے-
واسلام