• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ميت كے ليے فاتحہ پڑھنا !!!

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اسلام میں ” ایصالِ ثواب “ کا کوئی تصور نہیں لہذا ایسا نظریہ ” باطل “ ہے۔
 
شمولیت
جون 11، 2014
پیغامات
84
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
15
@اسد علی(سابقہ قادیانی) بھائی!

اس طرح کا لٹریچر یا لنک وغیرہ شیئر کرنے کی بجائے اپنا موقف دلیل کے ساتھ بیان کر دیں!
جناب ہمارے نزدیک تو مرنے کے بعد
اسلام میں ” ایصالِ ثواب “ کا کوئی تصور نہیں لہذا ایسا نظریہ ” باطل “ ہے۔
آپ اپنی بات پر قائم ہو پھریں گے تو نہیں؟
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
مجھے تو لگتا ہے کہ یہاں پر کچھ لوگوں نے ” مناظرہ و مجادلہ “ ہی کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے۔ ” علم “ کم اور ” جھگڑا “ زیادہ۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک شخص جب اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے اس دنیائے فانی سے تمام رابطے منقطع ہو جاتے ہیں۔۔۔نہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے مل سکتا ہے اور نہ ہی عزیز واقارب اس سے۔۔۔۔دونوں باہم ایک دوسرے کو فائدہ بھی نہیں پہنچا سکتے۔۔
البتہ احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صورتیں ایسی ہیں جن کے تحت میت کے لواحقین اس کو اللہ کے حکم سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں

وہ تین صورتیں درج ذیل ہیں
صدقہ جاریہ
نیابت
ایصالِ ثواب

آیئے ان میں سے ہر ایک کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں

صدقاتِ جاریہ
یہ وہ اعمال ہیں جو مرنے کے بعد بھی باعثِ اجر ہیں
اللہ تعالی فرماتے ہیں

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ﴿١٢
بےشک ہم مُردوں کو زنده کریں گے، اور ہم لکھتے جاتے ہیں وه اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وه اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے (12)

مندرجہ بالا آیات میں آثارھم سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور جن کا گناہ یا ثواب اس کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے
آپﷺ نے فرمایا

ان مما يلحق المؤمن من عمله وحسناته بعد موته علما نشره وولدا صالحا تركه ومصحفا ورثه او مسجدا بناه او بيتا لابن سبيل بناه او نهرا اجراه او صدقة اخرجه من ماله في صحته وحياته يلحقه من بعد موته(ابن ماجه)
اذا مات الانسان انقطع عنه عمله الا من ثلاثة أشياء صدقة جارية او علم ينفع به او ولد صالح يدعوا له(صحيح مسلم)

مذكوره بالا احاديث اور اس حوالے سے موجود مزید صحیح احادیث اس بات كا ثبوت فراہم كرتي ہیں کہ مندرجہ ذیل امور پر مسلسل اجر ملتا رہتا ہے
علم پھیلانا
نیک اولاد
قرآن کی تعلیم دینا
مسجد کی تعمیر
مسافر خانہ بنوانا
نہر کھدوانا
بحالت صحت مال سے نکالا ہوا صدقہ
اچھا طریقہ جاری کرنا

صدقہ جاریہ کے حوالے سے احادیث کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لواحقین ‘ شاگردوں کی تمام قسم کی عبادات(مالی بدنی قولی) وغیرہ کا ثواب بذریعہ صدقہ جاریہ میت کو ملتا رہتا ہے جیسے قرآن پڑھنا وغیرہ

نیابت
نیابت سے مراد یہ ہے کہ کسی کی غیر موجودگی نااہلی معذوری یا وفات کی صورت میں اس کی کسی شرعی ذمہ داری کی کلی یا جزوی طور پر ادا کرنا
اسلام معاملات میں نیابت کو جائز قرار دیتا ہے مثلا لڑکی کی طرف سے ولی کا ایجاب وقبول وغیرہ
حقوق اللہ میں نیابت کامسئلہ نازک ہے کیونکہ ان کا تعلق خالص عبادات سے ہے۔۔۔اس لیے مخصوص حالات میں مخصوص عبادات میں اس کی اجازت دی گئی ہے

فرضِ حج
كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ، أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ

نذر کا حج
عَنْهُ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ أُخْتِي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ وَإِنَّهَا مَاتَتْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكَنْتَ قَاضِيَهُ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَاقْضِ دَيْنَ اللَّهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ»

نذر میں نیابت
سْتَفْتَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ، تُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَاقْضِهِ عَنْهَا»،

نذر کا روزہ
أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ: «أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: «فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ»

فرض روزه
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ»

مالي عبادات اور معاملات میں نیابت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا، وَلَمْ يُوصِ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»
أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَلَمْ تُوصِ، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا، قَالَ: «نَعَمْ»،

اس وضاحت سے معلوم هوا کہ میت کی طرف سے ہر قسم کے مالی معاملات نیز مالی وبدنی مرکب عبادات مثلا حج میں نیابت جائز ہے۔۔۔محض بدنی عبادات میں سوائے روزے کے باقی تمام پر علماء کا اتفاق ہے کہ ان میں نیابت نہیں ہو سکتی مثلا نماز وغیرہ
( وقت کی کمی کے پیشِ نظر احادیث کا ترجمہ نہیں لکھ سکی)

ایصالِ ثواب


ثواب وہ بدلہ ہے جسے اللہ نے کسی عمل کے بدلے اہل ایمان کو عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اور اس پر جو اصول پیش کیا ہے وہ بہت واضح ہے

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ﴿٤٠﴾ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ


يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ ﴿٣٣


لہذا ایصالِ ثواب کے مروجہ من گھڑت طریقے باطل ہیں ۔۔۔۔ایصالِثواب صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔۔۔صدقہ جاریہ کی صورت میں ہر قسم کے نیک عمل کے لیے اور نیابت کی شکل میں ہر قسم کے مالی معاملات میں۔۔۔۔اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ رطب ویابس کے سو ا کچھ نہیں

ان سب کے علادہ زندہ اور مردہ کے درمیان تعلق کی یک طرفہ صورت کو رب کریم نے باقی رکھا ہے اور وہ ہے زندہ کا مردہ کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔۔۔۔مندرجہ ذیل آیات میں اس کا ذکر موجود ہے

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ایصالِ ثواب کا نعم البدل

اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِيْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِيْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَــحِيْمِ Ċ۝ رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ Ď۝ۙ
جو لوگ عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اسکے گردا گرد (حلقہ باندھے ہوئے) ہیں (یعنی فرشتے) وہ اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کیلئے بخشش مانگتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے تو جن لوگوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے ان کو بخش دے اور دوزخ سے بچا لے۔ اے ہمارے پروردگار ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو انکے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور انکی اولاد میں سے نیک ہوں ان کو بھی بیشک تو غالب حکمت والا ہے۔
قرآن ، سورت غافر ، آیت نمبر 8-7
ان آیات سے بخونی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے فرشتے نیک اور ایمان والے لوگوں کے لیے مغفرت، جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ کے لیے دعا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لیے بھی دعا کرتے ہیں جو اللہ کے حضور سچی توبہ کرتے اور اس کی راہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی دعا میں اہلِ ایمان کے ان والدین، شریکِ حیات اور اولاد بھی شامل کر لیتے ہیں جنہوں نے نیکی کی راہ کو اپنایا ہو گا۔
اب غور کرنے کی بات ہےکہ اللہ کے وہ فرشتے جو معصوم ہیں اللہ کے عرش کو تھامے ہوئے ہیں اور ہر وقت اللہ رب العالمین کی حمد و ثناء میں لگے رہتے ہیں اگر وہ اہلِ ایمان کے لیے دعا کریں تو کیا اللہ ان کی دعاؤں کو رد کر دے گا ؟ کیا ان فرشتوں کی دعاؤں کے بعد بھی ان اہلِ ایمان کے لیے جو نیک عمل بھی کرتے ہوں ہم جیسے گنہگاروں کے من گھڑت ” ایصالِ ثواب “ کی بھی گنجائش باقی ہے ؟
اور اگر ہم بدکاریوں اور گناہوں میں ڈوبے رہیں اور اللہ کے احکامات کی مطلق پرواہ نہ کریں تو کیا ہمارا یہ من گھڑت ” ایصالِ ثواب “ ہم کو نجات دلا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
فرمایا:-
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہِ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے۔
قرآن ، سورت طور ، آیت نمبر 21
اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ آخرت میں ہم ایمان والوں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی نیک اولاد کو جنت میں ملا دیں گے یعنی اگر اولاد نیکی اور درجے میں کم ہے تو ان کے درجات بڑھا کے ان کے نیک والدین کے ساتھ اپنے فضل اور رحمت سے ملا دیں گے۔ اسی طرح یہی معاملہ والدین پر بھی قیاس کر لیں اور ان دونوں کے اعمال میں کوئی کمی نہیں ہو گی کیوں کہ اولاد اپنے والدین کی کمائی ہوتی ہے۔ لیکن والدین اور اولاد دونوں کا نیک ہونا شرط ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو نیکی کی راہ پر چلانا ہو گا اور وہ” ایصالِ ثواب “ جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے وہ سرا سر قرآن و سنت کے خلاف تو ہےہی عقل کے بھی خلاف ہے۔
 
Top