السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک شخص جب اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس کے اس دنیائے فانی سے تمام رابطے منقطع ہو جاتے ہیں۔۔۔نہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے مل سکتا ہے اور نہ ہی عزیز واقارب اس سے۔۔۔۔دونوں باہم ایک دوسرے کو فائدہ بھی نہیں پہنچا سکتے۔۔
البتہ احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ صورتیں ایسی ہیں جن کے تحت میت کے لواحقین اس کو اللہ کے حکم سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں
وہ تین صورتیں درج ذیل ہیں
صدقہ جاریہ
نیابت
ایصالِ ثواب
آیئے ان میں سے ہر ایک کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں
یہ وہ اعمال ہیں جو مرنے کے بعد بھی باعثِ اجر ہیں
اللہ تعالی فرماتے ہیں
إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ﴿١٢﴾
بےشک ہم مُردوں کو زنده کریں گے، اور ہم لکھتے جاتے ہیں وه اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وه اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے (
12)
مندرجہ بالا آیات میں آثارھم سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور جن کا گناہ یا ثواب اس کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے
آپﷺ نے فرمایا
ان مما يلحق المؤمن من عمله وحسناته بعد موته علما نشره وولدا صالحا تركه ومصحفا ورثه او مسجدا بناه او بيتا لابن سبيل بناه او نهرا اجراه او صدقة اخرجه من ماله في صحته وحياته يلحقه من بعد موته(ابن ماجه)
اذا مات الانسان انقطع عنه عمله الا من ثلاثة أشياء صدقة جارية او علم ينفع به او ولد صالح يدعوا له(صحيح مسلم)
مذكوره بالا احاديث اور اس حوالے سے موجود مزید صحیح احادیث اس بات كا ثبوت فراہم كرتي ہیں کہ مندرجہ ذیل امور پر مسلسل اجر ملتا رہتا ہے
علم پھیلانا
نیک اولاد
قرآن کی تعلیم دینا
مسجد کی تعمیر
مسافر خانہ بنوانا
نہر کھدوانا
بحالت صحت مال سے نکالا ہوا صدقہ
اچھا طریقہ جاری کرنا
صدقہ جاریہ کے حوالے سے احادیث کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لواحقین ‘ شاگردوں کی تمام قسم کی عبادات(مالی بدنی قولی) وغیرہ کا ثواب بذریعہ صدقہ جاریہ میت کو ملتا رہتا ہے جیسے قرآن پڑھنا وغیرہ
نیابت سے مراد یہ ہے کہ کسی کی غیر موجودگی نااہلی معذوری یا وفات کی صورت میں اس کی کسی شرعی ذمہ داری کی کلی یا جزوی طور پر ادا کرنا
اسلام معاملات میں نیابت کو جائز قرار دیتا ہے مثلا لڑکی کی طرف سے ولی کا ایجاب وقبول وغیرہ
حقوق اللہ میں نیابت کامسئلہ نازک ہے کیونکہ ان کا تعلق خالص عبادات سے ہے۔۔۔اس لیے مخصوص حالات میں مخصوص عبادات میں اس کی اجازت دی گئی ہے
فرضِ حج
كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ، أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ
نذر کا حج
عَنْهُ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ أُخْتِي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ وَإِنَّهَا مَاتَتْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكَنْتَ قَاضِيَهُ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَاقْضِ دَيْنَ اللَّهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ»
نذر میں نیابت
سْتَفْتَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ، تُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَهُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَاقْضِهِ عَنْهَا»،
نذر کا روزہ
أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ: «أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: «فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ»
فرض روزه
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ»
مالي عبادات اور معاملات میں نیابت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا، وَلَمْ يُوصِ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»
أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَلَمْ تُوصِ، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا، قَالَ: «نَعَمْ»،
اس وضاحت سے معلوم هوا کہ میت کی طرف سے ہر قسم کے مالی معاملات نیز مالی وبدنی مرکب عبادات مثلا حج میں نیابت جائز ہے۔۔۔محض بدنی عبادات میں سوائے روزے کے باقی تمام پر علماء کا اتفاق ہے کہ ان میں نیابت نہیں ہو سکتی مثلا نماز وغیرہ
( وقت کی کمی کے پیشِ نظر احادیث کا ترجمہ نہیں لکھ سکی)
ایصالِ ثواب
ثواب وہ بدلہ ہے جسے اللہ نے کسی عمل کے بدلے اہل ایمان کو عطا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اور اس پر جو اصول پیش کیا ہے وہ بہت واضح ہے
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴿٣٩﴾ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ﴿٤٠﴾ ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ ﴿٣٣﴾
لہذا ایصالِ ثواب کے مروجہ من گھڑت طریقے باطل ہیں ۔۔۔۔ایصالِثواب صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔۔۔صدقہ جاریہ کی صورت میں ہر قسم کے نیک عمل کے لیے اور نیابت کی شکل میں ہر قسم کے مالی معاملات میں۔۔۔۔اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ رطب ویابس کے سو ا کچھ نہیں
ان سب کے علادہ زندہ اور مردہ کے درمیان تعلق کی یک طرفہ صورت کو رب کریم نے باقی رکھا ہے اور وہ ہے زندہ کا مردہ کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔۔۔۔مندرجہ ذیل آیات میں اس کا ذکر موجود ہے
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾