ہم شکرادا کرتے ہیں پیارے رب کا جس نے اس دین کو اتنا آسان بنایا
مسلم صاحب نے بات صاف کردی کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی کسی بھی بات کو حجت نہیں مانتے ۔جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیراسلام کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
حدیث اگر حجت ہے تو پھر اس کا منزل من اللہ ہونا ضروری ہے
اس چیز کا اتباع کروجو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس کے علاوہ کسی ولی کی اتباع مت کرو(اعراف3)
اب اگر یہ ثابت ہو جا ئے کہ حدیث حجت ہے اور اس کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ناممکن ہے تو پھر یقینا حدیث وحی ہے کیونکہ آیات بالا کی رو سے صرف وحی کا اتباع لازم ہے اور غیر وحی کا اتباع حرام ہے
حدیث کے حجت ہونے کے دلائل
میں اللہ کا رسول ہوں مجھے اللہ نے بندوں کی طرف مبعوث کرسول َ مبعوث ہوئے اور قوم کو خطاب کیا(اے قوم) یا ہے کہ میں انہیں اس بات کی دعوت دوں کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ زرا بھی شرک نہ کرواور مجھ پر اللہ نے ایک کتاب نازل کی ہے (مسند احمدوسندہ صحٰح بلوغ المانی )
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالاالفاظ حجت ہیں تو پھر ماننا پڑے گا آپ َ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے اگر یہ الفاظ حجت نہیں توپھر لازم آے گا کہ نہ آپ َاللہ کے رسول َہیں اور نہ قرآن اللہ کی کتاب ہےِ"
" آپَ کی رسالت اور قرآن پر ایمان لانے کہ لئے یہ ضروری ہےکے یہ الفاظ حجت ہوں" جب تک یے الفاظ حجت نہ ہوں قرآن بھی حجت نہ ہو گا "اور یہ الفاظ حدیث کے ہیں لہزا حدیث کا حجت ہونا لازمی ہے:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اپنی تشریح آپ ہی بیان کرتا ہےلہزاہمیں کسی اور چیز کی ضررت نہیں لیکن یہ صرف دعوی ہی دعوی ہے حقیقت اس کے خلاف ہے جیسے اللہ قرآن میں فرماتا ہے""اقیمو الصلوۃ"" یعنی صلوہ قائم کرو ؟مگر کیسے؟صلوہ کیسے کہتے ہیں؟اس کی تشریح نہیں قرآن میں جب اس کی تشریح قرآن میں تلاش کرتے ہیں توعجیب حیرانی ہوتی ہے ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے""اولیک علیہم صلوات من ربھم و رحمہ"صابرین پر اللہ کی طرف سے صلوۃ ہوتی ہے اور رحمت"دوسری جگہ ارشاد ہے" وصل علیھم ان صلو تک سکن لھم" ان پر صلوۃ بیھجیے بے شک آپ کی صلوۃ ان کے لئے باعث سکون ہے"ایک آیات میں اللہ کی طرف سے صلوۃ نازل ہو رہی ہے دوسری میں بندے کو حکم ہو رہا ہے کہ صلوۃ نازل کرو "اب کوئی کیا سمجھے ایک جگہ ارشاد ہو رہا ہے " اقیم الدین" دین قائم کرو" ہو سکتا ہے صلوۃ کے معنے دین کے ہوں اور اس آیات میں صلوۃ کی تشریح دین کی گئی ہو؟پھر ارشاد ہوتا ہے "واقیمواالوزن"وزن کو قائم کرو"اس سےصلوۃ کے معنی وزن کے بھی ہو سکتے ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے"اقیمو الصلوۃ طرفی النھاروزلفامن الیل" یعنی دن کے دونو اطرف اور کچھ رات کے وقت بھی صلوۃ قائم کرو"اس سے معلوم ہوا کہ صلوۃ ایسی چیزہے جو مسلسل قائم نہ رکھی جائے بلکہ دن اور رات کے بعض اقات میں ہی قائم کی جائے"" صلوۃ کے معنی کولہے ہلانے کے بھی ہو سکتے ہیں اس لحاظ سے اگر کوئی اقیمو الصلوۃ کے معنی یہ کرے کہ"نا چ گانے کی محفل قائم کرو" اور ثبوت میں یہ آیات پیش کرے"انما الحیوۃ الدنیا لعب ولھو"دنیا کی زندگی بس لہوو لعب ہی تو ہے" اور پھر اس سے استدلال کرے کہ جب دنیا کی زندگی لہو و لعب ہی ہے تودنیا میں رقص سرور کی محفل قائم کرنا ہی اقیموالصلوۃ " کا اصل منشا ہے تو بتا ئے اس کی تردید کیسے ہو گی
جاری ہے
اللہ تعالی فرماتا ہے" واتواالزکوۃ" زکوۃ دو"اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے"اے یحیی کتاب کو قوت سے پکڑ لواور ہم نے یحیی کو بچپن میں ہی حکم دے دیا تھا اور اپنی طرف سے مہر بانی دی تھی اور زکوۃ دی تھی اور وہ متقی تھے(مریم 12 13 )اس دوسری آیا ت میں زکوۃ کےمعنی پاکیزگی کے ہیں تو پہلی آیات کے معنی ہوئے"پاکیزگی دو" اور یہ معنی سراسرباطل ہیں ـ اور اگر پہلی آیات میں زکوۃ سے مراد ٹیکس ہے تو دوسری آیات کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ یحیی علیہ اسلام کو ٹیکس دیتا تھا (اللہ معاف فرمائے) اور یہ بلکل مضحکہ خیز ہے ـ ان دونوں مثالوں سے یہ واضح ہوا کہ قرآن مجید اکثر مقامات میں تشر یح اصلاحی کا محتاج ہے یعنی ایک استاد کی ضرورت ہے جو اسے پڑھائے اور اس کے مشکل مقامات کو حل کرے اور وہ استاد سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کون ہو سکتا ہے کیونکہ یہ منصب رسول َ کو خود اللہ نے دیا ہے" وہ اللہ ہی ہے جس نے امیوں میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب حکمت کی تعلم دیتا ہے( الجمعہ 2)اب اگرپڑہانے میں تشریح شامل نہیں ہے تو پھر رسول َکا تلاوت کر دینا کافی تھا لیکن محض تلاوت پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکے تلاوت کا منصب بتانے کے بعد تعلیم کا منصب بھی بتایا گیا کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے معلم بنا کر بیجھے گئے ہیں لہزا آپ کی تشریح بھی من جانب اللہ ہونی چاہئے اور یہی وہ چیز ہے جس کو وحی خفی کہا جاتا ہے اب اس کے حجت ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ہے
اسلام علیکم۔
آپ کی تحریر سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ قرآن میں تدبر نہیں کررہے۔ ورنہ اتنی لمبی اور بے ربط باتیں نہ لکھتے۔
1۔ آپ نے دین کی بات کی ہے۔
"بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے"۔۔۔۔۔۔(3:19)
اللہ کب سے ہے؟؟ کیا چودہ سو سال سے اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے؟؟ اس سے پہلے اللہ کے نزدیک دین، اسلام کے علاوہ کیا کچھ اور تھا؟؟
یہ بہت ضروری سوالات ہیں۔ ان کے جوابات تلاش کریں۔
2۔ " اتباع کرو اس کی جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اولیاء کی اتباع مت کرو ۔ تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔(7:3)
بھائی جان یہ دیکھیں کہ اللہ کیا نازل کررہا ہے۔
"اور ہم قرآن میں سے وہ شے نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے۔ اور ظالموں کے لئے تو وہ نقصان میں ہی اضافہ کرتی ہے۔ (17:82)
3۔ "جو بھلا ئی تجھے پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو بھی برائی تجھے پہنچتی ہے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور ہم نے تجھے تمام انسانوں کے لئے ایک رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اور (اس پر) اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ (4:79)
"وہی (اللہ) تو ہے جس نے تجھ پر کتاب نازل کی"۔۔۔۔۔۔۔(3:7)
" اور محمدٖ ایک رسول ہی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی رسول ہو چکے ہیں"۔۔۔۔۔۔(3:144)
اوپر لکھی ہوئی آیات سے ثابت ہو رہا ہے کہ محمد ٖصلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے آپ پر کتاب نازل کی ہے۔ (اللہ کی کتاب سے باہر ثبوت ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔)
4۔ صلاۃ قائم کرنا۔
"(ابراہیم علیہ سلام نے کہا) اے ہمارے رب بے شک میں نے اپنی زریت سے تیرے محترم گھر کے پاس ٹھہرایا، ایسی وادی کے ساتھ جو غیر زرعئی ہے۔ اے ہمارے رب تاکہ یہ صلاہ قائم کریں۔ پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف خواہش کر نے والا بنا دے اور ان کو پھلوں سے رزق دے تاکہ وہ شکر کریں۔(14:37)
حدیث کی کتب کی تدوین سے بہت پہلے سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی اللہ کے گھر کے نزدیک ابراہیم علیہ سلام نے صلاہ قائم کی ۔ اسی طریقہ پر صلاہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی جو آج بھی اور قیامت تک مسجدلا حرام میں قائم رہے گی۔ انشاء اللہ۔
5۔ زکوۃ۔
"اور وہ (اسماعیل علیہ سلام) اپنے اہل کو برابر صلاۃ اور زکوۃ کا حکم دیتا تھا"۔۔۔۔۔(19:55)
آپ اگر زکوۃ کا مطلب "کو لہے ہلانا لیتے ہیں تو آپ اپنے کو لہے ہلاتے رہیں، آیت میں جو نبی کا پیغام آرہا ہے اس کا مطلب کولہے ہلانا ہرگز نہیں ہے۔
زکوۃ کا ایک مطلب ہے "جواز" اپنے ہر عمل کا جواز پیش کرنا۔
6۔ قرآن کے زریعہ نبی کا خبردار کرنا۔
کہہ دے کون سی چیز سب سے بڑی شہادت ہے، کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ شاہد ہے کہ یہ قرآن مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ تاکہ میں تمہیں اور ان کو جن تک وہ پہنچے اس سے متنبہ کر دوں۔ کیا تم واقعئی یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا۔ کہہ دے اس میں شک نہیں کہ وہی معبود واحد ہے، اور میں اس شرک سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔ (الانعام ۔19)
مسلم صاحب نے بات صاف کردی کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی کسی بھی بات کو حجت نہیں مانتے ۔جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیراسلام کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
حدیث اگر حجت ہے تو پھر اس کا منزل من اللہ ہونا ضروری ہے
اس چیز کا اتباع کروجو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور اس کے علاوہ کسی ولی کی اتباع مت کرو(اعراف3)
اب اگر یہ ثابت ہو جا ئے کہ حدیث حجت ہے اور اس کے بغیر قرآن پر عمل کرنا ناممکن ہے تو پھر یقینا حدیث وحی ہے کیونکہ آیات بالا کی رو سے صرف وحی کا اتباع لازم ہے اور غیر وحی کا اتباع حرام ہے
حدیث کے حجت ہونے کے دلائل
میں اللہ کا رسول ہوں مجھے اللہ نے بندوں کی طرف مبعوث کرسول َ مبعوث ہوئے اور قوم کو خطاب کیا(اے قوم) یا ہے کہ میں انہیں اس بات کی دعوت دوں کہ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ زرا بھی شرک نہ کرواور مجھ پر اللہ نے ایک کتاب نازل کی ہے (مسند احمدوسندہ صحٰح بلوغ المانی )
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ بالاالفاظ حجت ہیں تو پھر ماننا پڑے گا آپ َ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن اللہ کی کتاب ہے اگر یہ الفاظ حجت نہیں توپھر لازم آے گا کہ نہ آپ َاللہ کے رسول َہیں اور نہ قرآن اللہ کی کتاب ہےِ"
" آپَ کی رسالت اور قرآن پر ایمان لانے کہ لئے یہ ضروری ہےکے یہ الفاظ حجت ہوں" جب تک یے الفاظ حجت نہ ہوں قرآن بھی حجت نہ ہو گا "اور یہ الفاظ حدیث کے ہیں لہزا حدیث کا حجت ہونا لازمی ہے:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن اپنی تشریح آپ ہی بیان کرتا ہےلہزاہمیں کسی اور چیز کی ضررت نہیں لیکن یہ صرف دعوی ہی دعوی ہے حقیقت اس کے خلاف ہے جیسے اللہ قرآن میں فرماتا ہے""اقیمو الصلوۃ"" یعنی صلوہ قائم کرو ؟مگر کیسے؟صلوہ کیسے کہتے ہیں؟اس کی تشریح نہیں قرآن میں جب اس کی تشریح قرآن میں تلاش کرتے ہیں توعجیب حیرانی ہوتی ہے ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے""اولیک علیہم صلوات من ربھم و رحمہ"صابرین پر اللہ کی طرف سے صلوۃ ہوتی ہے اور رحمت"دوسری جگہ ارشاد ہے" وصل علیھم ان صلو تک سکن لھم" ان پر صلوۃ بیھجیے بے شک آپ کی صلوۃ ان کے لئے باعث سکون ہے"ایک آیات میں اللہ کی طرف سے صلوۃ نازل ہو رہی ہے دوسری میں بندے کو حکم ہو رہا ہے کہ صلوۃ نازل کرو "اب کوئی کیا سمجھے ایک جگہ ارشاد ہو رہا ہے " اقیم الدین" دین قائم کرو" ہو سکتا ہے صلوۃ کے معنے دین کے ہوں اور اس آیات میں صلوۃ کی تشریح دین کی گئی ہو؟پھر ارشاد ہوتا ہے "واقیمواالوزن"وزن کو قائم کرو"اس سےصلوۃ کے معنی وزن کے بھی ہو سکتے ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے"اقیمو الصلوۃ طرفی النھاروزلفامن الیل" یعنی دن کے دونو اطرف اور کچھ رات کے وقت بھی صلوۃ قائم کرو"اس سے معلوم ہوا کہ صلوۃ ایسی چیزہے جو مسلسل قائم نہ رکھی جائے بلکہ دن اور رات کے بعض اقات میں ہی قائم کی جائے"" صلوۃ کے معنی کولہے ہلانے کے بھی ہو سکتے ہیں اس لحاظ سے اگر کوئی اقیمو الصلوۃ کے معنی یہ کرے کہ"نا چ گانے کی محفل قائم کرو" اور ثبوت میں یہ آیات پیش کرے"انما الحیوۃ الدنیا لعب ولھو"دنیا کی زندگی بس لہوو لعب ہی تو ہے" اور پھر اس سے استدلال کرے کہ جب دنیا کی زندگی لہو و لعب ہی ہے تودنیا میں رقص سرور کی محفل قائم کرنا ہی اقیموالصلوۃ " کا اصل منشا ہے تو بتا ئے اس کی تردید کیسے ہو گی
جاری ہے
اللہ تعالی فرماتا ہے" واتواالزکوۃ" زکوۃ دو"اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے"اے یحیی کتاب کو قوت سے پکڑ لواور ہم نے یحیی کو بچپن میں ہی حکم دے دیا تھا اور اپنی طرف سے مہر بانی دی تھی اور زکوۃ دی تھی اور وہ متقی تھے(مریم 12 13 )اس دوسری آیا ت میں زکوۃ کےمعنی پاکیزگی کے ہیں تو پہلی آیات کے معنی ہوئے"پاکیزگی دو" اور یہ معنی سراسرباطل ہیں ـ اور اگر پہلی آیات میں زکوۃ سے مراد ٹیکس ہے تو دوسری آیات کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ یحیی علیہ اسلام کو ٹیکس دیتا تھا (اللہ معاف فرمائے) اور یہ بلکل مضحکہ خیز ہے ـ ان دونوں مثالوں سے یہ واضح ہوا کہ قرآن مجید اکثر مقامات میں تشر یح اصلاحی کا محتاج ہے یعنی ایک استاد کی ضرورت ہے جو اسے پڑھائے اور اس کے مشکل مقامات کو حل کرے اور وہ استاد سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کون ہو سکتا ہے کیونکہ یہ منصب رسول َ کو خود اللہ نے دیا ہے" وہ اللہ ہی ہے جس نے امیوں میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب حکمت کی تعلم دیتا ہے( الجمعہ 2)اب اگرپڑہانے میں تشریح شامل نہیں ہے تو پھر رسول َکا تلاوت کر دینا کافی تھا لیکن محض تلاوت پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکے تلاوت کا منصب بتانے کے بعد تعلیم کا منصب بھی بتایا گیا کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے معلم بنا کر بیجھے گئے ہیں لہزا آپ کی تشریح بھی من جانب اللہ ہونی چاہئے اور یہی وہ چیز ہے جس کو وحی خفی کہا جاتا ہے اب اس کے حجت ہونے میں کیا شبہ رہ گیا ہے
اسلام علیکم۔
آپ کی تحریر سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ قرآن میں تدبر نہیں کررہے۔ ورنہ اتنی لمبی اور بے ربط باتیں نہ لکھتے۔
1۔ آپ نے دین کی بات کی ہے۔
"بے شک اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے"۔۔۔۔۔۔(3:19)
اللہ کب سے ہے؟؟ کیا چودہ سو سال سے اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے؟؟ اس سے پہلے اللہ کے نزدیک دین، اسلام کے علاوہ کیا کچھ اور تھا؟؟
یہ بہت ضروری سوالات ہیں۔ ان کے جوابات تلاش کریں۔
2۔ " اتباع کرو اس کی جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اولیاء کی اتباع مت کرو ۔ تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔(7:3)
بھائی جان یہ دیکھیں کہ اللہ کیا نازل کررہا ہے۔
"اور ہم قرآن میں سے وہ شے نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے۔ اور ظالموں کے لئے تو وہ نقصان میں ہی اضافہ کرتی ہے۔ (17:82)
3۔ "جو بھلا ئی تجھے پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو بھی برائی تجھے پہنچتی ہے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور ہم نے تجھے تمام انسانوں کے لئے ایک رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اور (اس پر) اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ (4:79)
"وہی (اللہ) تو ہے جس نے تجھ پر کتاب نازل کی"۔۔۔۔۔۔۔(3:7)
" اور محمدٖ ایک رسول ہی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی رسول ہو چکے ہیں"۔۔۔۔۔۔(3:144)
اوپر لکھی ہوئی آیات سے ثابت ہو رہا ہے کہ محمد ٖصلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے آپ پر کتاب نازل کی ہے۔ (اللہ کی کتاب سے باہر ثبوت ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔)
4۔ صلاۃ قائم کرنا۔
"(ابراہیم علیہ سلام نے کہا) اے ہمارے رب بے شک میں نے اپنی زریت سے تیرے محترم گھر کے پاس ٹھہرایا، ایسی وادی کے ساتھ جو غیر زرعئی ہے۔ اے ہمارے رب تاکہ یہ صلاہ قائم کریں۔ پس لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف خواہش کر نے والا بنا دے اور ان کو پھلوں سے رزق دے تاکہ وہ شکر کریں۔(14:37)
حدیث کی کتب کی تدوین سے بہت پہلے سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی اللہ کے گھر کے نزدیک ابراہیم علیہ سلام نے صلاہ قائم کی ۔ اسی طریقہ پر صلاہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی جو آج بھی اور قیامت تک مسجدلا حرام میں قائم رہے گی۔ انشاء اللہ۔
5۔ زکوۃ۔
"اور وہ (اسماعیل علیہ سلام) اپنے اہل کو برابر صلاۃ اور زکوۃ کا حکم دیتا تھا"۔۔۔۔۔(19:55)
آپ اگر زکوۃ کا مطلب "کو لہے ہلانا لیتے ہیں تو آپ اپنے کو لہے ہلاتے رہیں، آیت میں جو نبی کا پیغام آرہا ہے اس کا مطلب کولہے ہلانا ہرگز نہیں ہے۔
زکوۃ کا ایک مطلب ہے "جواز" اپنے ہر عمل کا جواز پیش کرنا۔
6۔ قرآن کے زریعہ نبی کا خبردار کرنا۔
کہہ دے کون سی چیز سب سے بڑی شہادت ہے، کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ شاہد ہے کہ یہ قرآن مجھ پر وحی کیا گیا ہے۔ تاکہ میں تمہیں اور ان کو جن تک وہ پہنچے اس سے متنبہ کر دوں۔ کیا تم واقعئی یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، کہہ دے میں (یہ) گواہی نہیں دیتا۔ کہہ دے اس میں شک نہیں کہ وہی معبود واحد ہے، اور میں اس شرک سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔ (الانعام ۔19)