وعلیکم السلام!
آپ نے فرماما کہ آپ منکر حدیث نہیں، لیکن آپ حدیث کو قرآن پر پرکھتے ہیں۔ گویا آپ صرف مخالف قرآن حدیث کو نہیں مانتے، لیکن آگے آپ نے عموماً حدیث کی مذمت کر دی کہ خطباء حضرات حدیثیں ہی بیان کرتے ہیں۔
کیا آپ اپنا کوئی علمی تعارف کرا سکتے ہیں کہ معلوم ہو سکے کہ واقعی ہی آپ نے قرآن کو پورا تفسیر کے ساتھ پڑھ رکھا ہے اور وہ تفسیر ہے بھی عین مرادِ الٰہی کے مطابق! لہٰذا آپ کے پاس یہ اتھارٹی ہونی چاہئے کہ آپ جس حدیث پر عمل نہ کرنا چاہیں اسے مخالفِ قرآن کہہ کر ردّ کر دیں۔ محترم! ایسا دعویٰ تو کبھی کسی بڑے سے بڑے مفسر اور امام نے بھی نہیں کیا ...
کہیں ایسا تو نہیں، کہ قرآن سے آپ کا بھی دیگر منکرین حدیث کی طرح (جو در اصل منکر قرآن بھی ہیں) دور کا بھی واسطہ نہیں، لیکن جو حدیث مزاج کے خلاف ہو اسے خلافِ قرآن (مراد ذاتی پسند نا پسند کے خلاف) باور کرا کے ردّ کر دیں۔
اصل میں آپ کا دعویٰ تو ہے کہ میں منکر حدیث نہیں، لیکن آپ قرآن کو وحی سمجھتے ہیں اور حدیث کو نہیں۔ لہٰذا اگر قرآن میں ظاہری تعارض نظر آئے تو اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، رد نہیں کرتے:
مثلاً:
﴿ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ﴾ القصص: 56 کہ ’’
آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔‘‘
اور آیت کریمہ:
﴿ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴾ ... الشورىٰ: 52 کہ ’’بے شک
آپ راه راست کی طرف ہدایت دے رہے ہیں۔‘‘
اور احادیث کے ظاہری تعارض کو انکار حدیث کی بنیاد بناتے ہیں۔
اگر واقعی ہی آپ حضرات کے نزدیک جس میں ظاہری تعارض ہو (خواہ وہ کسی کی جہالت اور کم عقلی کی بناء پر ہی کیوں نہ ہو) اسے ردّ کر دینا چاہئے تو پھر قرآن کے ظاہری تعارض پر کیا فیصلہ لگائیں گے؟
کیا آپ ایسی کوئی صحیح حدیث پیش کر سکتے ہیں جو قرآن کے خلاف ہو، یا دو صحیح احادیث جو باہم متعارض ہوں؟؟؟