Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں
حدیث نمبر : 118
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال إن الناس يقولون أكثر أبو هريرة، ولولا آيتان في كتاب الله ما حدثت حديثا، ثم يتلو {إن الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات} إلى قوله {الرحيم} إن إخواننا من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالأسواق، وإن إخواننا من الأنصار كان يشغلهم العمل في أموالهم، وإن أبا هريرة كان يلزم رسول الله صلى الله عليه وسلم بشبع بطنه ويحضر ما لا يحضرون، ويحفظ ما لا يحفظون.
عبدالعزیز بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں اور ( میں کہتا ہوں ) کہ قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر یہ آیت پڑھی، ( جس کا ترجمہ یہ ہے ) کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی دلیلوں اور آیتوں کو چھپاتے ہیں ( آخر آیت ) رحیم تک۔ ( واقعہ یہ ہے کہ ) ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے تھے اور انصار بھائی اپنی جائیدادوں میں مشغول رہتے اور ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جی بھر کر رہتا ( تا کہ آپ کی رفاقت میں شکم پری سے بھی بے فکری رہے ) اور ( ان مجلسوں میں ) حاضر رہتا جن ( مجلسوں ) میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ ( باتیں ) محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔
تشریح : والمعنی انہ کان یلازم قانعا بالقوت ولایتجر ولایزرع ( قسطلانی ) یعنی کھانے کے لیے جو مل جاتا اسی پر قناعت کرتے ہوئے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹے رہتے تھے، نہ کھیتی کرتے نہ تجارت۔ علم حدیث میں اسی لیے آپ کو فوقیت حاصل ہوئی۔ بعض لوگوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیرفقیہ لکھا اور قیاس کے مقابلہ پر ان کی روایت کو مرجوح قرار دیا ہے۔ مگریہ سراسر غلط اور ایک جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ ایسا لکھنے والے خود ناسمجھ ہیں۔
حدیث نمبر : 119
حدثنا أحمد بن أبي بكر أبو مصعب، قال حدثنا محمد بن إبراهيم بن دينار، عن ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال قلت يا رسول الله، إني أسمع منك حديثا كثيرا أنساه. قال " ابسط رداءك " فبسطته. قال فغرف بيديه ثم قال " ضمه " فضممته فما نسيت شيئا بعده. حدثنا إبراهيم بن المنذر قال حدثنا ابن أبي فديك بهذا أو قال غرف بيده فيه.
ہم سے ابومصعب احمد بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن دینار نے ابن ابی ذئب کے واسطے سے بیان کیا، وہ سعید المقبری سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور ( میری چادر میں ڈال دی ) فرمایا کہ ( چادر کو ) لپیٹ لو۔ میں نے چادر کو ( اپنے بدن پر ) لپیٹ لیا، پھر ( اس کے بعد ) میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی فدیک نے اسی طرح بیان کیا کہ ( یوں ) فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو اس ( چادر ) میں ڈال دی۔
آپ کی اس دعا کا یہ اثرہوا کہ بعدمیں حضرت ابوہریرہ صحفظ حدیث کے میدان میں سب سے سبقت لے گئے اور اللہ نے ان کو دین اور دنیا ہردو سے خوب ہی نوازا۔ چادر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاچلو ڈالنا نیک فالی تھی۔
حدیث نمبر : 120
حدثنا إسماعيل، قال حدثني أخي، عن ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وعاءين، فأما أحدهما فبثثته، وأما الآخر فلو بثثته قطع هذا البلعوم.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی ( عبدالحمید ) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بلعوم سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔
تشریح : اسی طرح جوہری اور ابن اثیر نے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کا مطلب محققین علماءکے نزدیک یہ ہے کہ دوسرے برتن سے مراد ایسی حدیثیں ہیں۔ جن میں ظالم وجابر حکام کے حق میں وعیدیں آئی ہیں اور فتنوں کی خبریں ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کبھی اشارے کے طور پر ان باتوں کا ذکر کربھی دیا تھا۔ جیساکہ کہا کہ میں 60ھ کی شر سے اور چھوکروں کی حکومت سے خدا کی پناہ چاہتاہوں۔ اسی سنہ میں یزید کی حکومت ہوئی اور امت میں کتنے ہی فتنے برپا ہوئے۔ یہ حدیث بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی زمانے میں بیان کیا، جب فتنوں کا آغاز ہوگیا تھا اور مسلمانوں کی جماعت میں انتشار پیدا ہوچلا تھا،اسی لیے یہ کہا کہ ان حدیثوں کے بیان کرنے سے جان کا خطرہ ہے، لہٰذا میں نے مصلحتاً خاموشی اختیار کرلی ہے۔
حدیث نمبر : 118
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال إن الناس يقولون أكثر أبو هريرة، ولولا آيتان في كتاب الله ما حدثت حديثا، ثم يتلو {إن الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات} إلى قوله {الرحيم} إن إخواننا من المهاجرين كان يشغلهم الصفق بالأسواق، وإن إخواننا من الأنصار كان يشغلهم العمل في أموالهم، وإن أبا هريرة كان يلزم رسول الله صلى الله عليه وسلم بشبع بطنه ويحضر ما لا يحضرون، ويحفظ ما لا يحفظون.
عبدالعزیز بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں اور ( میں کہتا ہوں ) کہ قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا۔ پھر یہ آیت پڑھی، ( جس کا ترجمہ یہ ہے ) کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی دلیلوں اور آیتوں کو چھپاتے ہیں ( آخر آیت ) رحیم تک۔ ( واقعہ یہ ہے کہ ) ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے تھے اور انصار بھائی اپنی جائیدادوں میں مشغول رہتے اور ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جی بھر کر رہتا ( تا کہ آپ کی رفاقت میں شکم پری سے بھی بے فکری رہے ) اور ( ان مجلسوں میں ) حاضر رہتا جن ( مجلسوں ) میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ ( باتیں ) محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔
تشریح : والمعنی انہ کان یلازم قانعا بالقوت ولایتجر ولایزرع ( قسطلانی ) یعنی کھانے کے لیے جو مل جاتا اسی پر قناعت کرتے ہوئے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹے رہتے تھے، نہ کھیتی کرتے نہ تجارت۔ علم حدیث میں اسی لیے آپ کو فوقیت حاصل ہوئی۔ بعض لوگوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیرفقیہ لکھا اور قیاس کے مقابلہ پر ان کی روایت کو مرجوح قرار دیا ہے۔ مگریہ سراسر غلط اور ایک جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ ایسا لکھنے والے خود ناسمجھ ہیں۔
حدیث نمبر : 119
حدثنا أحمد بن أبي بكر أبو مصعب، قال حدثنا محمد بن إبراهيم بن دينار، عن ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال قلت يا رسول الله، إني أسمع منك حديثا كثيرا أنساه. قال " ابسط رداءك " فبسطته. قال فغرف بيديه ثم قال " ضمه " فضممته فما نسيت شيئا بعده. حدثنا إبراهيم بن المنذر قال حدثنا ابن أبي فديك بهذا أو قال غرف بيده فيه.
ہم سے ابومصعب احمد بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن دینار نے ابن ابی ذئب کے واسطے سے بیان کیا، وہ سعید المقبری سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت باتیں سنتا ہوں، مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ، میں نے اپنی چادر پھیلائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور ( میری چادر میں ڈال دی ) فرمایا کہ ( چادر کو ) لپیٹ لو۔ میں نے چادر کو ( اپنے بدن پر ) لپیٹ لیا، پھر ( اس کے بعد ) میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، ان سے ابن ابی فدیک نے اسی طرح بیان کیا کہ ( یوں ) فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو اس ( چادر ) میں ڈال دی۔
آپ کی اس دعا کا یہ اثرہوا کہ بعدمیں حضرت ابوہریرہ صحفظ حدیث کے میدان میں سب سے سبقت لے گئے اور اللہ نے ان کو دین اور دنیا ہردو سے خوب ہی نوازا۔ چادر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاچلو ڈالنا نیک فالی تھی۔
حدیث نمبر : 120
حدثنا إسماعيل، قال حدثني أخي، عن ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وعاءين، فأما أحدهما فبثثته، وأما الآخر فلو بثثته قطع هذا البلعوم.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی ( عبدالحمید ) نے ابن ابی ذئب سے نقل کیا۔ وہ سعید المقبری سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بلعوم سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔
تشریح : اسی طرح جوہری اور ابن اثیر نے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کا مطلب محققین علماءکے نزدیک یہ ہے کہ دوسرے برتن سے مراد ایسی حدیثیں ہیں۔ جن میں ظالم وجابر حکام کے حق میں وعیدیں آئی ہیں اور فتنوں کی خبریں ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کبھی اشارے کے طور پر ان باتوں کا ذکر کربھی دیا تھا۔ جیساکہ کہا کہ میں 60ھ کی شر سے اور چھوکروں کی حکومت سے خدا کی پناہ چاہتاہوں۔ اسی سنہ میں یزید کی حکومت ہوئی اور امت میں کتنے ہی فتنے برپا ہوئے۔ یہ حدیث بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی زمانے میں بیان کیا، جب فتنوں کا آغاز ہوگیا تھا اور مسلمانوں کی جماعت میں انتشار پیدا ہوچلا تھا،اسی لیے یہ کہا کہ ان حدیثوں کے بیان کرنے سے جان کا خطرہ ہے، لہٰذا میں نے مصلحتاً خاموشی اختیار کرلی ہے۔