• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جانور وغیرہ پر سوارہوکر فتویٰ دینا جائز ہے
حدیث نمبر : 83
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عيسى بن طلحة بن عبيد الله، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف في حجة الوداع بمنى للناس يسألونه، فجاءه رجل فقال لم أشعر فحلقت قبل أن أذبح‏.‏ فقال ‏"‏ اذبح ولا حرج‏"‏‏. ‏ فجاء آخر فقال لم أشعر، فنحرت قبل أن أرمي‏.‏ قال ‏"‏ ارم ولا حرج‏"‏‏. ‏ فما سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن شىء قدم ولا أخر إلا قال افعل ولا حرج‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، وہ عیسیٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو بن العاص سے نقل کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مسائل دریافت کرنے کی وجہ سے منیٰ میں ٹھہر گئے۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے بے خبری میں ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اب ) ذبح کر لے اور کچھ حرج نہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا، اس نے کہا کہ میں نے بے خبری میں رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( اب ) رمی کر لے۔ ( اور پہلے کر دینے سے ) کچھ حرج نہیں۔ ابن عمرو کہتے ہیں ( اس دن ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا سوال ہوا، جو کسی نے آگے اور پیچھے کر لی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اب کر لے اور کچھ حرج نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص کے بارے میں جو ہاتھ یا سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دے

حدیث نمبر : 84
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا وهيب، قال حدثنا أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل في حجته فقال ذبحت قبل أن أرمي، فأومأ بيده قال ولا حرج‏.‏ قال حلقت قبل أن أذبح‏.‏ فأومأ بيده ولا حرج‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، ان سے ایوب نے عکرمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے ( آخری ) حج میں کسی نے پوچھا کہ میں نے رمی کرنے ( یعنی کنکر پھینکنے ) سے پہلے ذبح کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا ( اور ) فرمایا کچھ حرج نہیں۔ کسی نے کہا کہ میں نے ذبح سے پہلے حلق کرا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر سے اشارہ فرما دیا کہ کچھ حرج نہیں۔

حدیث نمبر : 85

حدثنا المكي بن إبراهيم، قال أخبرنا حنظلة بن أبي سفيان، عن سالم، قال سمعت أبا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يقبض العلم، ويظهر الجهل والفتن، ويكثر الهرج‏"‏‏. ‏ قيل يا رسول الله وما الهرج فقال هكذا بيده، فحرفها، كأنه يريد القتل‏.‏
ہم سے مکی ابن ابراہیم نے بیان کیا، انھیں حنظلہ نے سالم سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب ) علم اٹھا لیا جائے گا۔ جہالت اور فتنے پھیل جائیں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! ہرج سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر فرمایا اس طرح، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے قتل مراد لیا۔

حدیث نمبر : 86
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا وهيب، قال حدثنا هشام، عن فاطمة، عن أسماء، قالت أتيت عائشة وهي تصلي فقلت ما شأن الناس فأشارت إلى السماء، فإذا الناس قيام، فقالت سبحان الله‏.‏ قلت آية فأشارت برأسها، أى نعم، فقمت حتى تجلاني الغشى، فجعلت أصب على رأسي الماء، فحمد الله عز وجل النبي صلى الله عليه وسلم وأثنى عليه، ثم قال ‏"‏ ما من شىء لم أكن أريته إلا رأيته في مقامي حتى الجنة والنار، فأوحي إلى أنكم تفتنون في قبوركم، مثل ـ أو قريبا لا أدري أى ذلك قالت أسماء ـ من فتنة المسيح الدجال، يقال ما علمك بهذا الرجل فأما المؤمن ـ أو الموقن لا أدري بأيهما قالت أسماء ـ فيقول هو محمد رسول الله جاءنا بالبينات والهدى، فأجبنا واتبعنا، هو محمد‏.‏ ثلاثا، فيقال نم صالحا، قد علمنا إن كنت لموقنا به، وأما المنافق ـ أو المرتاب لا أدري أى ذلك قالت أسماء ـ فيقول لا أدري، سمعت الناس يقولون شيئا فقلته‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، ان سے ہشام نے فاطمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ اسماء سے روایت کرتی ہیں کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ تو انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا ( یعنی سورج کو گہن لگا ہے ) اتنے میں لوگ ( نماز کے لیے ) کھڑے ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا، اللہ پاک ہے۔ میں نے کہا ( کیا یہ گہن ) کوئی ( خاص ) نشانی ہے؟ انھوں نے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! پھر میں ( بھی نماز کے لیے ) کھڑی ہو گئی۔ حتی کہ مجھے غش آنے لگا، تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر ( نماز کے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت بیان فرمائی، پھر فرمایا، جو چیز مجھے پہلے دکھلائی نہیں گئی تھی آج وہ سب اس جگہ میں نے دیکھ لی، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا اور مجھ پر یہ وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے، مثل یا قرب کا کون لفظ حضرت اسماء نے فرمایا، میں نہیں جانتی، فاطمہ کہتی ہیں ( یعنی ) فتنہ دجال کی طرح ( آزمائے جاؤ گے ) کہا جائے گا ( قبر کے اندر کہ ) تم اس آدمی کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تو جو صاحب ایمان یا صاحب یقین ہو گا، کون سا لفظ فرمایا حضرت اسماء نے، مجھے یاد نہیں۔ وہ کہے گا وہ محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت اور دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کو قبول کر لیا اور ان کی پیروی کی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تین بار ( اسی طرح کہے گا ) پھر ( اس سے ) کہہ دیا جائے گا کہ آرام سے سو جا بے شک ہم نے جان لیا کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا تھا۔ اور بہر حال منافق یا شکی آدمی، میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کون سا لفظ حضرت اسماء نے کہا۔ تو وہ ( منافق یا شکی آدمی ) کہے گا کہ جو لوگوں کو میں نے کہتے سنا میں نے ( بھی ) وہی کہہ دیا۔ ( باقی میں کچھ نہیں جانتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ عبدالقیس کے وفد کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ ایمان لائیں اور علم کی باتیں یاد رکھیں اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی خبر کر دیں

وقال مالك بن الحويرث قال لنا النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ارجعوا إلى أهليكم، فعلموهم‏"‏‏. ‏
اور مالک بن الحویرث نے فرمایا کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر انھیں علم ( دین ) سکھاؤ۔

حدیث نمبر : 87
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا غندر، قال حدثنا شعبة، عن أبي جمرة، قال كنت أترجم بين ابن عباس وبين الناس فقال إن وفد عبد القيس أتوا النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ من الوفد ـ أو من القوم‏"‏‏. ‏ قالوا ربيعة‏.‏ فقال ‏"‏ مرحبا بالقوم ـ أو بالوفد ـ غير خزايا ولا ندامى‏"‏‏. ‏ قالوا إنا نأتيك من شقة بعيدة، وبيننا وبينك هذا الحى من كفار مضر، ولا نستطيع أن نأتيك إلا في شهر حرام فمرنا بأمر نخبر به من وراءنا، ندخل به الجنة‏.‏ فأمرهم بأربع، ونهاهم عن أربع أمرهم بالإيمان بالله عز وجل وحده‏.‏ قال ‏"‏ هل تدرون ما الإيمان بالله وحده‏"‏‏. ‏ قالوا الله ورسوله أعلم‏.‏ قال ‏"‏ شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وتعطوا الخمس من المغنم‏"‏‏. ‏ ونهاهم عن الدباء والحنتم والمزفت‏.‏ قال شعبة ربما قال النقير، وربما قال المقير‏.‏ قال ‏"‏ احفظوه وأخبروه من وراءكم‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے ابوجمرہ کے واسطے سے بیان کیا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض انجام دیتا تھا ( ایک مرتبہ ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سا وفد ہے؟ یا یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان ( کے لوگ ہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مبارک ہو قوم کو ( آنا ) یا مبارک ہو اس وفد کو ( جو کبھی ) نہ رسوا ہو نہ شرمندہ ہو ( اس کے بعد ) انھوں نے عرض کیا کہ ہم ایک دور دراز کونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہیں اور ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ ( پڑتا ) ہے ( اس کے خوف کی وجہ سے ) ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ اور ایام میں نہیں آ سکتے۔ اس لیے ہمیں کوئی ایسی ( قطعی ) بات بتلا دیجیئے کہ جس کی ہم اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کو خبر دے دیں۔ ( اور ) اس کی وجہ سے ہم جنت میں داخل ہو سکیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار سے روک دیا۔ اول انھیں حکم دیا کہ ایک اللہ پر ایمان لائیں۔ ( پھر ) فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ایک اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ) اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرو اور چار چیزوں سے منع فرمایا، دباء، حنتم، اور مزفت کے استعمال سے۔ اور ( چوتھی چیز کے بارے میں ) شعبہ کہتے ہیں کہ ابوجمرہ بسا اوقات نقیر کہتے تھے اور بسا اوقات مقیر۔ ( اس کے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان ( باتوں کو ) یاد رکھو اور اپنے پیچھے ( رہ جانے ) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو۔

نوٹ: یہ حدیث کتاب الایمان کے اخیر میں گزر چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو تحصیل علم کے لیے ترغیب وتحریص سے کام لے سکتا ہے۔ مزید تفصیل وہاں دیکھی جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب کو ئی مسئلہ درپیش ہو تواس کےلیے سفر کرنا (کیسا ہے؟)

حدیث نمبر : 88
حدثنا محمد بن مقاتل أبو الحسن، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا عمر بن سعيد بن أبي حسين، قال حدثني عبد الله بن أبي مليكة، عن عقبة بن الحارث، أنه تزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز، فأتته امرأة فقالت إني قد أرضعت عقبة والتي تزوج بها‏.‏ فقال لها عقبة ما أعلم أنك أرضعتني ولا أخبرتني‏.‏ فركب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة فسأله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كيف وقد قيل‏"‏‏. ‏ ففارقها عقبة، ونكحت زوجا غيره‏.‏
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھیں عبداللہ نے خبر دی، انھیں عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ ( یہ سن کر ) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس طرح ( تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے ) حالانکہ ( اس کے متعلق یہ ) کہا گیا تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا۔

تشریح : عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑدیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہوگیاتواب شبہ کی چیزسے بچنا ہی بہترہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفرکرکے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جوجوسفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفرہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرادی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاطاً کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہئیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ ( طلباء کا حصول ) علم کے لیے (استاد کی خدمت میں) اپنی اپنی باری مقرر کرنا درست ہے۔

حدیث نمبر : 89
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، ح قال أبو عبد الله وقال ابن وهب أخبرنا يونس، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن أبي ثور، عن عبد الله بن عباس، عن عمر، قال كنت أنا وجار، لي من الأنصار في بني أمية بن زيد، وهى من عوالي المدينة، وكنا نتناوب النزول على رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل يوما وأنزل يوما، فإذا نزلت جئته بخبر ذلك اليوم من الوحى وغيره، وإذا نزل فعل مثل ذلك، فنزل صاحبي الأنصاري يوم نوبته، فضرب بابي ضربا شديدا‏.‏ فقال أثم هو ففزعت فخرجت إليه فقال قد حدث أمر عظيم‏.‏ قال فدخلت على حفصة فإذا هي تبكي فقلت طلقكن رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت لا أدري‏.‏ ثم دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم فقلت وأنا قائم أطلقت نساءك قال ‏"‏ لا‏"‏‏. ‏ فقلت الله أكبر‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھیں شعیب نے زہری سے خبر دی ( ایک دوسری سند سے ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن وہب کو یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ ابن ابی ثور سے نقل کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور میرا ایک انصاری پڑوسی دونوں اطراف مدینہ کے ایک گاؤں بنی امیہ بن زید میں رہتے تھے جو مدینہ کے ( پورب کی طرف ) بلند گاؤں میں سے ہے۔ ہم دونوں باری باری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا۔ تو ایک دن وہ میرا انصاری ساتھی اپنی باری کے روز حاضر خدمت ہوا ( جب واپس آیا ) تو اس نے میرا دروازہ بہت زور سے کھٹکھٹایا اور ( میرے بارے میں پوچھا کہ ) کیا عمر یہاں ہیں؟ میں گھبرا کر اس کے پاس آیا۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بڑا معاملہ یہاں پیش آ گیا ہے۔ ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ) پھر میں ( اپنی بیٹی ) حفصہ کے پاس گیا، وہ رو رہی تھی۔ میں نے پوچھا، کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ہے؟ وہ کہنے لگی میں نہیں جانتی۔ پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے کھڑے کھڑے کہا کہ کیا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ( یہ افواہ غلط ہے ) تب میں نے ( تعجب سے ) کہا اللہ اکبر اللہ بہت بڑا ہے۔

تشریح : اس انصاری کا نام عتبان بن مالک تھا۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ خبرواحد پر اعتماد کرنا درست ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھبراکر اس لیے پوچھا کہ ان دنوں مدینہ پر غسان کے بادشاہ کے حملہ کی افواہ گرم تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید غسان کا بادشاہ آ گیا ہے۔ اسی لیے آپ گھبراکر باہرنکلے پھر انصاری کی خبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا کہ اس نے ایسی بے اصل بات کیوں کہی۔ اسی لیے بے ساختہ آپ کی زبان پر نعرہ تکبیر آگیا۔ باری اس لیے مقرر کی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاجرپیشہ تھے اور وہ انصاری بھائی بھی کاروباری تھے۔ اس لیے تاکہ اپنا کام بھی جاری رہے اور علوم نبوی سے بھی محرومی نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ طلب معاش کے لیے بھی اہتمام ضروری ہے۔ اس حدیث کی باقی شرح کتاب النکاح میں آئے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب کو ئی مسئلہ درپیش ہو تواس کےلیے سفر کرنا (کیسا ہے؟)

حدیث نمبر : 88
حدثنا محمد بن مقاتل أبو الحسن، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا عمر بن سعيد بن أبي حسين، قال حدثني عبد الله بن أبي مليكة، عن عقبة بن الحارث، أنه تزوج ابنة لأبي إهاب بن عزيز، فأتته امرأة فقالت إني قد أرضعت عقبة والتي تزوج بها‏.‏ فقال لها عقبة ما أعلم أنك أرضعتني ولا أخبرتني‏.‏ فركب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة فسأله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كيف وقد قيل‏"‏‏. ‏ ففارقها عقبة، ونكحت زوجا غيره‏.‏
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھیں عبداللہ نے خبر دی، انھیں عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ ( یہ سن کر ) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس طرح ( تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے ) حالانکہ ( اس کے متعلق یہ ) کہا گیا تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا۔

تشریح : عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑدیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہوگیاتواب شبہ کی چیزسے بچنا ہی بہترہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفرکرکے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جوجوسفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفرہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرادی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاطاً کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہئیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : استاد شاگردوں کی جب کو ئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے

حدیث نمبر : 90
حدثنا محمد بن كثير، قال أخبرنا سفيان، عن ابن أبي خالد، عن قيس بن أبي حازم، عن أبي مسعود الأنصاري، قال قال رجل يا رسول الله، لا أكاد أدرك الصلاة مما يطول بنا فلان، فما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في موعظة أشد غضبا من يومئذ فقال ‏"‏ أيها الناس، إنكم منفرون، فمن صلى بالناس فليخفف، فإن فيهم المريض والضعيف وذا الحاجة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا انھیں سفیان نے ابوخالد سے خبر دی، وہ قیس بن ابی حازم سے بیان کرتے ہیں، وہ ابومسعود انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص ( حزم بن ابی کعب ) نے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر ) عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فلاں شخص ( معاذ بن جبل ) لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں ( جماعت کی ) نماز میں شریک نہیں ہو سکتا ( کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہو جاتا ہوں اور طویل قرات سننے کی طاقت نہیں رکھتا ) ( ابومسعود راوی کہتے ہیں ) کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم ( ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے ) نفرت دلانے لگے ہو۔ ( سن لو ) جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے ( سب ہی قسم کے لوگ ) ہوتے ہیں۔

غصہ کا سبب یہ کہ آپ پہلے بھی منع کرچکے ہوں گے دوسرے ایسا کرنے سے ڈر تھا کہ کہیں لوگ تھک ہار کر اس دین سے نفرت نہ کرنے لگ جائیں۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔

حدیث نمبر : 91
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا أبو عامر، قال حدثنا سليمان بن بلال المديني، عن ربيعة بن أبي عبد الرحمن، عن يزيد، مولى المنبعث عن زيد بن خالد الجهني، أن النبي صلى الله عليه وسلم سأله رجل عن اللقطة فقال ‏"‏ اعرف وكاءها ـ أو قال وعاءها ـ وعفاصها، ثم عرفها سنة، ثم استمتع بها، فإن جاء ربها فأدها إليه‏"‏‏. ‏ قال فضالة الإبل فغضب حتى احمرت وجنتاه ـ أو قال احمر وجهه ـ فقال ‏"‏ وما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها، ترد الماء، وترعى الشجر، فذرها حتى يلقاها ربها‏"‏‏. ‏ قال فضالة الغنم قال ‏"‏ لك أو لأخيك أو للذئب‏"‏‏.ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابوعامر العقدی نے، وہ سلیمان بن بلال المدینی سے، وہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے، وہ یزید سے جو منبعث کے آزاد کردہ تھے، وہ زید بن خالد الجہنی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص ( عمیر یا بلال ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی ( پہچان لے ) پھر ایک سال تک اس کی شناخت ( کا اعلان ) کراؤ پھر ( اس کا مالک نہ ملے تو ) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے سونپ دو۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ ( کے بارے میں ) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ( یہ سن کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے ( پاؤں کے ) سم ہیں۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے۔ اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے ( بارے میں ) کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی، ورنہ بھیڑئیے کی ( غذا ) ہے۔

تشریح : گری پڑی چیز کو لقطہ کہتے ہیں۔ اس حدیث میں اسی کا حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے کا سبب یہ ہوا کہ اونٹ کے بارے میں سوال ہی بے کار تھا۔ جب کہ وہ تلف ہونے والا جانور نہیں۔ وہ جنگل میں اپنا چارہ پانی خود تلاش کرلیتا ہے، اسے شیریا بھیڑیا بھی نہیں کھاسکتے، پھر اس کا پکڑنا بے کارہے۔ خود اس کا مالک ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس تک پہنچ جائے گا، ہاں بکری کے تلف ہونے کا فوری خطرہ ہے لہٰذا اسے پکڑ لینا چاہئیے۔ پھر مالک آئے تو اس کے حوالہ کردے۔ معلوم ہوا کہ شاگردوں کے نامناسب سوالات پر استاد کی خفگی بجا تسلیم کی جائے گی۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگردوں کو سوال کرنے سے پہلے خود سوال کی اہمیت پر بھی غور کرلینا ضروری ہے۔ اونٹ سے متعلق آپ کا جواب اس زمانہ کے ماحول کے پیش نظر تھا مگرآج کل کا ماحول ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 92
حدثنا محمد بن العلاء، قال حدثنا أبو أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن أشياء كرهها، فلما أكثر عليه غضب، ثم قال للناس ‏"‏ سلوني عما شئتم‏"‏‏. ‏ قال رجل من أبي قال ‏"‏ أبوك حذافة‏"‏‏. ‏ فقام آخر فقال من أبي يا رسول الله فقال ‏"‏ أبوك سالم مولى شيبة‏"‏‏. ‏ فلما رأى عمر ما في وجهه قال يا رسول الله، إنا نتوب إلى الله عز وجل‏.‏
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب ( اس قسم کے سوالات کی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا ( اچھا اب ) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شبیہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم ( ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں ) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔

تشریح : لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسرنادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول اسے اس قسم کا سوال کرنا توگویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جاسوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایاکہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشرہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگراللہ کا برگزیدہ پیغمبرہونے کی بنا پر وحی والہام سے اکثراحوال آپ کو معلوم ہوجاتے تھے، یا معلوم ہوسکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تواب جوچاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگرحاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص کے بارے میں جو امام یا محدث کے سامنے دو زانو (ہوکر ادب کے ساتھ) بیٹھے

حدیث نمبر : 93
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج، فقام عبد الله بن حذافة فقال من أبي فقال ‏"‏ أبوك حذافة‏"‏‏. ‏ ثم أكثر أن يقول ‏"‏ سلوني‏"‏‏. ‏ فبرك عمر على ركبتيه فقال رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد صلى الله عليه وسلم نبيا، فسكت‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انھیں انس بن مالک نے بتلایا کہ ( ایک دن ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ حضور میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حذافہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں ( اور یہ جملہ ) تین مرتبہ ( دہرایا ) پھر ( یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔


تشریح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے آپ سے اپنی تشفی حاصل کرلی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دوزانو ہوکر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اور ثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لیے (ایک) بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے

فقال ‏"‏ ألا وقول الزور‏"‏‏. ‏ فما زال يكررها‏.‏ وقال ابن عمر قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هل بلغت‏"‏‏. ‏ ثلاثا‏.‏
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “ الاوقول الزور ” اس کو تین بار دہراتے رہے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم کو پہنچا دیا ( یہ جملہ ) آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔

حدیث نمبر : 94
حدثنا عبدة، قال حدثنا عبد الصمد، قال حدثنا عبد الله بن المثنى، قال حدثنا ثمامة بن عبد الله، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا سلم سلم ثلاثا، وإذا تكلم بكلمة أعادها ثلاثا‏ حتى تفهم عنه .‏
ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار دہراتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔

حدیث نمبر : 95
حدثنا عبدة بن عبد الله، حدثنا عبد الصمد، قال حدثنا عبد الله بن المثنى، قال حدثنا ثمامة بن عبد الله، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا تكلم بكلمة أعادها ثلاثا حتى تفهم عنه، وإذا أتى على قوم فسلم عليهم سلم عليهم ثلاثا‏.
ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار لوٹاتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔ اور جب کچھ لوگوں کے پاس آپ تشریف لاتے اور انھیں سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے۔

حدیث نمبر : 96
حدثنا مسدد، قال حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن عبد الله بن عمرو، قال تخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر سافرناه فأدركنا وقد أرهقنا الصلاة صلاة العصر ونحن نتوضأ، فجعلنا نمسح على أرجلنا، فنادى بأعلى صوته ‏"‏ ويل للأعقاب من النار‏"‏‏. ‏ مرتين أو ثلاثا‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی بشر کے واسطے سے بیان کیا، وہ یوسف بن ماھک سے بیان کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے، وہ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہمارے قریب پہنچے۔ تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا یا تنگ ہو گیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی ( جو خشک رہ جائیں ) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ۔

تشریح : ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یاسہ بارہ پڑھنے کو ک ہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندرآنے کی اجازت طلب کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الاستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔ ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے توآپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے توتیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہوجاتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس میں کہ مرد کا اپنی باندی اور گھر والوں کو تعلیم دینا (ضروری ہے)

حدیث نمبر : 97
أخبرنا محمد ـ هو ابن سلام ـ حدثنا المحاربي، قال حدثنا صالح بن حيان، قال قال عامر الشعبي حدثني أبو بردة، عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ثلاثة لهم أجران رجل من أهل الكتاب آمن بنبيه، وآمن بمحمد صلى الله عليه وسلم والعبد المملوك إذا أدى حق الله وحق مواليه، ورجل كانت عنده أمة ‏{‏يطؤها‏}‏ فأدبها، فأحسن تأديبها، وعلمها فأحسن تعليمها، ثم أعتقها فتزوجها، فله أجران‏"‏‏. ‏ ثم قال عامر أعطيناكها بغير شىء، قد كان يركب فيما دونها إلى المدينة‏.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں محاربی نے خبر دی، وہ صالح بن حیان سے بیان کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ عامر شعبی نے بیان کیا، کہا ان سے ابوبردہ نے اپنے باپ کے واسطے سے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے۔ ایک وہ جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور ( دوسرے ) وہ غلام جو اپنے آقا اور اللہ ( دونوں ) کا حق ادا کرے اور ( تیسرے ) وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو۔ جس سے شب باشی کرتا ہے اور اسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے، تعلیم دے تو عمدہ تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے، تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے۔ پھر عامر نے ( صالح بن حیان سے ) کہا کہ ہم نے یہ حدیث تمہیں بغیر اجرت کے سنا دی ہے ( ورنہ ) اس سے کم حدیث کے لیے مدینہ تک کا سفر کیا جاتا تھا۔

تشریح : حدیث سے باب کی مطابقت کے لیے لونڈی کا ذکر صریح موجود ہے اور بیوی کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔ اہل کتاب سے یہود ونصاریٰ مراد ہیں۔ جنھوں نے اسلام قبول کیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم کے ساتھ تادیب یعنی ادب سکھانا اور عمدہ تربیت دینا بھی ضروری ہے۔ اگرعلم کے ساتھ عمدہ تربیت نہ ہوتوایسے علم سے پورا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلاف امت ایک ایک حدیث کے حصول کے لیے دوردراز کا سفر کرتے اور بے حد مشقتیں اٹھایا کرتے تھے۔ شارحین بخاری کہتے ہیں: وانما قال ہذا لیکون ذلک الحدیث عندہ بمنزلۃ عظیمۃ ویحفظہ باہتمام بلیغ فان من عادۃ الانسان ان الشیئی الذی یحصلہ من غیرمشقۃ لایعرف قدرہ ولایہتم بحفاظتہ یعنی عامر نے اپنے شاگرد صالح سے یہ اس لیے کہا کہ وہ حدیث کی قدر ومنزلت کو پہچانیں اور اسے اہتمام کے ساتھ یادرکھیں کیونکہ انسان کی عاد ت ہے کہ بغیر مشقت حاصل ہونے والی چیز کی وہ قدر نہیں کرتا اور نہ پورے طور پر اس کی حفاظت کرتا ہے۔
 
Top